Close

کیا کوئی اسلامی تہذیب ہے؟

معروف کویتی مفکر احمد البغدادی کا ایک قول بڑا مشہور تھا کہ مسلمان دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو تہذیب کو مذہب سے منسوب کرتی ہے (خیال رہے کہ صاحبِ قول مسلمان ہے)، دنیا میں کوئی اسلامی، یہودی، مسیحی ہندی تہذیب نہیں ہوتی کہ مذاہب تہذیبیں بنانے نہیں بلکہ ایک پیغام پہنچانے آئے تھے! اگر قدیم وجدید تہذیبوں پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں کسی تہذیب کا کسی خاص مذہب سے کوئی خاص تعلق نظر نہیں آتا اگرچہ اصحاب تہذیب کسی نہ کسی مذہب کے حامل ضرور ہوتے ہیں، فرعونی تہذیب ہو، مایا ہو قدیم عراقی تہذیبیں ہوں یا ازتک تہذیب ہو.. یہ ساری تہذیبیں اپنے پیچھے اپنی تہذیب کے واضح شواہد چھوڑ گئی ہیں مگر ان میں سے کوئی تہذیب اپنے پیچھے اپنا مذہب نہیں چھوڑ گئی تاکہ اس کی اتباع کی جائے، ویسے بھی مسلمانوں نے کیا تہذیب چھوڑی ہے؟ مسجد اموی جو اسلامی مقامات میں سے سب سے قدیم مقام ہے ایک آرتھوڈکس چرج تھا، سپین کے آثار مسلمانوں نے نہیں بنائے کہ ان کی اکثریت کے مقاصد غیر مذہبی ہیں، یہ آثار اپنے ڈیزائن، مواد اور بنانے والوں سمیت ہسپانوی ہیں جن میں کسی حد تک بربری ثقافت کی آمیزش ہے، تہذیب کا مذہب سے تعلق نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اسلامی تاریخ میں کوئی قابلِ ذکر آثار موجود نہیں ہیں چاہے وہ عمارتیں ہوں یا ثقافتی وفنکارانہ سرگرمیاں ہوں.. شاید شاعری ہی وہ واحد فن تھا جس میں عرب اور مسلمان کچھ کر سکے اس کی بھی وجہ شاید یہ ہو کہ یہ وہ واحد فن ہے جس میں عموماً کسی استاد، عمارت، سکول، ہتھوڑی، رنگ، غرض کہ کسی بھی آلے کی ضرورت نہیں پڑتی…

مزید یہ کہ جتنی بھی جانی پہچانی تہذیبیں ہیں سب ہی کسی نہ کسی خاص جغرافیائی علاقے سے نسبت اور تعلق رکھتی ہیں جیسے فرعونی یا سومری، مگر انہیں کسی مذہب یا عقیدے سے منسوب نہیں کیا جاسکتا، رہی بات یہ کہ مسلمانوں نے صفر ایجاد کیا تھا تو اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے، کس نے ایجاد کیا؟ اور کہاں ایجاد کیا؟ کوئی پتہ نہیں اور اگر یہ سچ ہو بھی تو بھی اس کا مطلب کسی تہذیب کا وجود نہیں ہے! یہی بات قدیم یونانی میراث کے ترجمے پر بھی صادق آتی ہے، مرحوم البغدادی کا کہنا تھا کہ یہ ترجمہ غیر مسلموں نے کیا جن میں آشوری اور یہودی شامل تھے جو یونانی سمیت کئی دیگر زبانیں جانتے تھے، مسلمان تو دراصل منطق اور فلسفہ پڑھنے سے ہی محروم تھے اور اسے ” زندقہ ” قرار دیتے تھے تاہم عباسیوں کی رواداری نے شاید انہیں زنادقہ سے قریب کیا جس سے ترجمہ اور نقل کا عمل آسان ہوا… مجھے شک نہیں یقین ہے کہ یہ ترجمہ کیا ہوا کام شاید ہی اب کسی ” اسلامی ” جامعہ میں پڑھایا جاتا ہو!

اور چونکہ اسلام اپنے سے پہلے کی تمام ثقافتوں اور مذاہب کو تسلیم نہیں کرتا چنانچہ یہ ہمیشہ جنگ وتباہی کی فکر کا علمبردار رہا، طالبان کی طرف سے بامیان میں بدھا کے مجسموں کی تباہی اس ذہنیت کی ایک چھوٹی سی مثال ہے! اسی طرح بابری مسجد بھی ایک مندر پر تعمیر کی گئی جس پر جھگڑا آج بھی جاری ہے..

اور اگر ہم ان علماء پر ایک نظر دوڑائیں جن پر عرب اور مسلمان فخراتے پھرتے ہیں اور ان سے اپنی ” تہذیب ” کو منسوب کرتے ہیں جیسے رازی، ابن سینا، بیرونی، فارابی، ابن برد، ابن الرومی، ابن عربی اور ابن رشد وغیرہ تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ان میں سے ایک بھی سلف کی نظر میں مسلمان نہیں ہے!!

مقصد حملہ کرنا نہیں ہے بلکہ اس بات پر زور دینا ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ میں اصلاح کرنی چاہیے اور بے کار کے دعووں سے اجتناب برتنا چاہیے کہ اقوامِ عالم کے سامنے پہلے ہی کم ذلیل نہیں ہیں.

سمجھ آئے تو احمد البغدادی کا یہ ویڈیو ضرور دیکھیں:

رجل الدین یرفض العقلانیہ:

3 Comments

  1. آپ کا بلاگ پاکستان میں‌کافی ہفتوں‌سے بلاک ہے ، اور جب بھی بلاگ پر آتے ہیں‌تو یوٹیوب پر ری ڈائریکٹ کر دیا جاتا ہے ۔۔۔۔
    آج ایک آئی پی چینج کرنے والے سافٹ ویر کے ذریعے آپ کا بلاگ نظر آیا ۔۔۔۔۔

جواب دیں

3 Comments
scroll to top