Close

امتحان اور مساوی مواقع

مؤمنین کا دعوی ہے کہ خدا نے انسانوں کا امتحان لینے کے لیے انہیں تخلیق کیا ہے، تاہم ایسے بہت سارے دلائل ہیں جو اس دعوے کو غلط ثابت کرتے ہیں، مثلاً ایک شخص ” ا ” ہے جو انڈیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوا ہے، اس گاؤں میں ہندو مذہب کے علاوہ کوئی دوسرا مذہب ہے ہی نہیں، اس شخص نے کبھی کسی دوسرے مذہب کے بارے میں نہیں سنا چنانچہ یہ شخص ساری زندگی اپنے خاندان کے مذہب پر رہا اور اسی پر مرا، اب ایک شخص ” ب ” ہے جو سعودیہ کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا، اس کے والدین نے بچپن سے ہی اسے یہی سکھایا کہ اسلام ہی دینِ حق ہے، اس شخص نے بھی کبھی کسی دوسرے مذہب کے بارے میں نہیں سنا اور ساری زندگی اپنے خاندان کے مذہب رہا اور اسی پر دارِ فانی سے کوچ کر گیا، اور اب ایک شخص ” ج ” ہے جو ایک بچہ ہے اور یورپ کے ایک دہریہ گھرانے میں پیدا ہوا اور سات سال کی عمر میں ہی مرگیا.

اگر ہم یہ کہیں کہ شخص ” ا ” جہنم میں جائے گا تو یہ ظلم ہے کیونکہ اس نے زندگی میں ہندو مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کے بارے میں سنا ہی نہیں چنانچہ اسے جہنم رسید کرنا ظلم ہوگا، اور اگر ہم یہ کہیں کہ یہ شخص جنت میں جائے گا تو یہ بھی ظلم ہے کہ ایک کافر ہونے کے ناتے اس نے جنت میں جانے والا کوئی کام کیا ہی نہیں کیونکہ اس کے اسلام قبول کرنے کے امکانات صفر 0% تھے اور وہ اسلام کے نقطہ نظر سے کافر ہے، اب اگر اس کا جنت یا جہنم دونوں میں جانا ظلم وزیادتی ہے تو کیا یہ ایک خطرناک تضاد نہیں ہے؟

اگر ہم کہیں کہ شخص ” ب ” جنت میں جائے گا تو یہ ظلم ہوگا کیونکہ اسے مذاہب کو جانچنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا، وہ محض ایک وراثتی مسلمان تھا اور وہی کچھ کر رہا تھا جو اسے بچپن سے سکھایا پڑھایا گیا تھا چنانچہ اسے جنت میں بھیجنا ظلم ہوگا کیونکہ وہ محض ایک ایسے عقیدے کی وجہ سے جنت میں چلا گیا جو اس پر پہلے سی ہی تھوپا گیا تھا، اور اگر ہم کہیں کہ وہ جہنم میں جائے گا تو یہ بھی ظلم ہوگا کیونکہ اسلام کے علاوہ اس کے کسی دوسرے مذہب کے انتخاب کے امکانات صفر 0% تھے.

اگر ہم کہیں کہ شخص ” ج ” جہنم میں جائے گا تو یہ بھی ظلم ہوگا کیونکہ وہ ایک بچہ ہے اور ابھی اتنا بڑا ہوا ہی نہیں کہ اپنے لیے درست مذہب کا انتخاب کر سکے، اور اگر ہم یہ کہیں کہ وہ جنت میں جائے گا تو بھی ظلم ہے کیونکہ اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جو دوسروں نے جنت میں جانے کے لیے کیا.

قصہ مختصر کہ جو بھی ہندوؤں کے اس گاؤں میں پیدا ہوا وہ وراثتی ہندو ہے، اسی طرح جو بھی سعودیہ میں پیدا ہوا وہ وراثتی مسلمان ہے… یعنی ہندوؤں کے گاؤں کے لوگ اس امتحان سے نہیں گزرے جو خدا نے وضع کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اصل میں ایسا کوئی امتحان ہے ہی نہیں کیونکہ ایسے امتحان کے لیے یہ لازم ہے کہ تمام انسانوں کو اس کی خبر ہو، لیکن اگر صرف کچھ لوگوں کو اس امتحان کی خبر ہو اور باقیوں کو یا اکثریت کو نا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ خدا کے انصاف کے اصول میں کوئی خلل ہے.

6 Comments

  1. پوچھا خدا سے جنّت کیا اور جہنّم کیا؟
    فرمایا خدا نے : جو زندہ رہتے زندگی کے مزے لئے اُن کیلئے دنیا ہی جنّت اور جو زندہ رہتے مرنے کے بعد کا بھی سوچ کر جیتے رہے اُن کیلئے دنیا ہی جہنّم ـ
    ** **
    پوچھا خدا سے کافر کون ہے؟
    فرمایا خدا نے : ہر ایک کافر ہے جو دوسرے کو کافر بولے اِس طرح سب ایک حمام میں ننگے ـ
    ** **
    پوچھا خدا سے کیا واقع تہجد میں آپ ہماری مراد پوری کرتے ہو؟
    فرمایا خدا نے : میاں، بھاڑ میں جاؤ ـ سو جاؤ اور ہمیں بھی سونے دو ـ تمہاری مراد پوری نہیں ہوتی، خدارا ہماری مراد پوری کرو کہ آدھی کو رات ہمیں نہ جگاؤ ـ
    ** **
    پوچھا خدا سے ہندو کون اور مسلمان کون؟
    فرمایا خدا نے : نام خود رکھ لئے اور پوچھتے ہم سے؟
    ** **
    پوچھا خدا سے یہ تو بتا دو کون صحیح ہندو، مسلمان یا یسائی ـ
    فرمایا خدا نے : تم آپس میں ایکدوسرے سے پوچھ لو پھر اپنی اپنی بغلیں جھانکو ـ
    ** **
    پوچھا خدا سے مرنے والوں کی آتمائیں کیا "بلاک ھول” میں گھس جاتی ہیں؟
    فرمایا خدا نے : کیا عجب سوال ہے، ہمیں کیا معلوم مرنے کے بعد کس کی روح کہاں گھس جاتی ہے! ہم بتا بھی نہیں سکتے کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے کیونکہ ہم مرے ہی نہیں کہ مرنے بعد کے احوال بتا سکیں ـ خدارا کٹھن سوالات سے اجتناب کرو اور ہم سے آسان سوال پوچھو ـ
    ** **
    پوچھا خدا سے بھلا یہ تو بتاؤ کہ قیامت، کانا دجّال اور یاجوج ماجوج کا آنا سچ ہے؟
    خدا نے جواب میں فرمایا : میاں، نہا دھوکر آنے کا یہ مطلب نہیں کہ تم بچوں کو ڈرانے والی بات کرکے ہمارا پائجامہ گندہ کرو ـ خدارا ہم سے حقیقی باتیں پوچھو ـ
    ** **
    (نوٹ : اس پوسٹ کے حساب سے فی الحال اتنے ہی سوالات کے جوابات خدا نے دیئے ہیں ـ اگر کسی کو مزید کچھ پوچھنا ہے تو باقی اس بلاگ کے مالک کی مرضی)

  2. ایسے کامی بیوقوف پیدا کرنا جو اپنے دماغ کو استعمال کیئے بغیر خود کو عقلمند اور بہادر سمجھیں ہر دور میں کمال فن ہی رہا ہے ۔ اتنی ایفرٹ کے بعد اگر آپ یہ کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو آپکو اپنا ہی دماغ اپنے آپ کے لئے بہتر طور پر استعمال نہ کر پانے والوں کی صف میں شامل کر دیا جائیگا ۔

  3. دنیا اگر ایک امتھان گاہ ہے تو یہاں بہت زیادہ چیٹنگ ہو رہی ہے. انسانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے پرچے ھل کرنے کے بجاءے دوسروں کے پرچوں میں جھانک رہی ہے. آکڑت کی خبر خدا جانے اس وقت تو چیٹنگ کرنے والوں نے دماغ خراب کیا ہوا ہے. فائدہ بھی وہی اٹھا رہے ہیں.

جواب دیں

6 Comments
scroll to top