Close

خَر آسانیاں

بسا اوقات انسان اپنے زُعم میں اپنے لئے آسانی پیدا کرنے کیلئے کوئی اقدام کرتا ہے مگر نتیجتاً بجائے آسانی کے اس کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، وہ مشہور کہانی تو آپ نے سنی ہی ہوگی کہ ایک تاجر روزانہ نمک کی بوری گدھے پر لاد کر ندی کے پار جایا کرتا تھا، ایک دن گدھا لڑکھڑا کر ندی میں گر پڑا تو نمک پانی میں حل ہونے سے بوجھ کم ہوگیا، اگلے دن گدھے کو چالاکی سوجھی اور جان بوجھ کر پانی میں بیٹھ گیا، بوجھ پھر کم ہوگیا، اور گدھے نے نتیجہ نکالا کہ یہ حیلہ اچھا ہے۔ چنانچہ تیسرے دن پھر یہ فارمولا اپلائی کیا، تاجر گدھے کی چالاکی سمجھ گیا اور چوتھے دن روئی لاد دی، گدھے نے اپنا آزمودہ فارمولا اپلائی کیا، اور اس دفعہ اس خَر آسانی فارمولے نے بجائے آسانی کے انتہائی مشکل پیدا کر دی، مورل آف دی اسٹوری آپ خود اخذ کر لیں میں تو صرف خَر آسانی کی اصطلاح کی وضاحت کرنا چاہتا تھا۔
شان نزول
میں بڑے مزے کی نیند سو رہا تھا کہ فون بجنا شروع ہوگیا، یہ فون تھا اینڈرسن شا صاحب کا، اینڈرسن شا صاحب نے اطلاع دی کہ آپ کے بلاگ کیا قرآن اللہ کا کلام ہے ؟ کا جواب آیا ہے، آپ خود جواب دیں گے یا میں خرافانیاں تخلیق کر دوں۔ میں نے کہا آپ بلا تردد جوابی بلاگ تحریر فرمائیں، دو مختلف ذہنوں کی کاوشیں یقینا مارکیٹ میں بہتر پروڈکٹ متعارف کرا سکتی ہیں، میں بعد میں شکوہ پڑھ کر جواب شکوہ لکھوں گا۔

کھودا پہاڑ نکلا چوہا
یہ تو ہوئی تمہید بطور شانِ نزول، میں سوچتا رہا کہ کیا جواب آیا ہوگا، کس طرح ردّ کیا ہو گا؟ کیا دلائل ذکر کئے ہوں گے؟ خیر انہی اندیشوں کے ساتھ میں نے محترم درویش خراسانی کا بلاگ پڑھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ محترم نے اپنے تئیں کوئی شاہکار قسم کی تحریر منصہٴ بلاگ پر روشناس کرائی ہے، مگر مجھے یہ تحریر پڑھ کر انتہائی مایوسی ہوئی کہ محترم نےڈاکٹرنائک کا سا طرز اپنا کراپنے لکیر کا فقیر ہونے کا ہی ثبوت دیا اور قرآن کو وہ مفہوم پہنانے کی کوشش کی جو مصنف قرآن کے حاشیہٴ خیال میں بھی نہ گذرا ہو۔
محترم درویش صاحب کے بلاگ کا لبّ لباب یہ ہے کہ قرآن اپنے مطالب کی وضاحت خود بیان نہیں کر سکتا بلکہ اس کیلئے کسی ڈاکٹر ذاکر نائک کی وضاحت یا درویش خراسانی کی تاویل کے سہارے کی ضرورت ہے۔ خراسانی صاحب نے جس تاویل لنگ کے ذریعے مصنفِ قرآن کی غلطی کو درست کرنے کی کوشش کی ہے ویسے تو اس کی وضاحت بھی کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ بلاگ کے قارئین کا علمی شعور بہت بلند ہو چکا ہے اور انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ یہ تاویل تاویل بعد از وقوع کی نوعیت کی ہے۔جس کی چنداں اہمیت نہیں ہوتی۔

عملِ جراحت
قرآن کی یہ آیت ملاحظہ فرمائیے﴿آل عمران١٦۴﴾
لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَ‌سُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿ترجمہ﴾ خدا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجے۔ جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور ان کو پاک کرتے اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔
یہ آیت واضح کر رہی ہےکہ رسول نے نہ صرف اللہ کا کلام لوگوں تک پہنچایا بلکہ اس کی باقاعدہ تعلیم بھی دی ہے، اور تعلیم کا مطلب یہ نہیں تھا کہ الفاظ کی تعلیم دی، کیونکہ عربوں کو اس کی ضرورت نہیں تھی، یقیناً اس تعلیم سے مراد معانی کی تعلیم ہی مراد ہے۔ اب اگر رسول کی تعلیم کے باوجود بھی قرآن کو سمجھنے کیلئے کسی خَرآسانی بلاگ کی ضرورت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ اللہ قرآن کا مطلب واضح کر سکا نہ رسول دونوں ہی ناکام رہے، اوراب یہ بھاری ذمہ داری امّت پر آن پڑی ہے کہ مصنفِ قرآن کی اغلاط کی من گھڑت تاویلات بیان کریں۔
خراسانی نے لکھا ہے کہ ﴿لیکن اعتراض کے جواب سے پہلے ایک بات کی وضاحت کرنا چاہونگا کہ علم دو قسم کے ہوتے ہیں﴾
١۔ سوال یہ ہے کہ علم کی مذکورہ تقسیم کیا کسی حدیث سے ثابت ہوتی ہے؟
۲۔ کیا کسی صحابی نے بیان کی؟
۳۔ جواب اگر ہاں ہے تو حوالہ کہاں ہے؟
۴۔ اور اگر نہیں تو پھر اس دلیل کو کس معیار پر بنیاد بنایا گیا ہے؟
۵۔ کیا کوئی غیر جانبدار علمی حلقہ بھی علم کی اس تقسیم کا قائل ہے؟
٦۔ کیا میرے ان سوالوں کا کبھی جواب مل سکے گا؟
ترپ کا پتّہ
خراسانی کو اپنے مطلب کی کوڑی لانے کیلئے جو پاپڑ بیلنے پڑے ہیں وہ قارئین نے پڑھ ہی لئے ہیں، مگر لگتا ہے خراسانی نے میرے بلاگ کو غور سے نہیں پڑھا تھا ورنہ ان کو یہ دور کی کوڑی لانے کیلئے اتنی جدوجہد نہ کرنی پڑتی، میں نے صرف مصنفِ قرآن کی مشکل ہی بیان نہیں کی تھی بلکہ حل بھی بیان کیا تھا اگر مذکورہ آیت میں لفظِ علم ﴿اللہ کو معلوم ہوگیا﴾ کے بجائے اگر کان یعلم ﴿وہ پہلے سے ہی جانتا تھا﴾ لکھ دیا جاتا تو پھر مذکورہ اعتراض واقع نہ ہوتا اور نہ ہی علم کی خود ساختہ اقسام بیان کرنے کی ضرورت پڑتی۔
دل تو چاہ رہا تھا کہ مذکورہ بلاگ کا باقاعدہ پوسٹ مارٹم بھی کیا جائے مگر اس ضرورت کا احاطہ خاطر خواہ حد تک اینڈرسن شا صاحب نے جوابی بلاگ میں کرکے میرے لئے حقیقی آسانی پیدا کردی ہے۔ قارئین اینڈرسن شا صاحب کی تخلیق خرافانیاں سے تو حظ اٹھا ہی چکے ہیں۔

قارئین سے التماس ہے کہ بلاگ کی ابتدا میں مذکور کہانی اب مکرر ملاحظہ فرمائی، لطف دو بالا ہو جائے گا۔

4 Comments

  1. علامہ ایاز نظامی صاحب آپکے سوالات کے جوابات نہیں ہیں۔ آپکے لکھے گئے مضممون میں جن باتوں کا ذکر ہے ان سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا قرآن ایک انسانی کتاب ہے جسکو مصنف نے اپنے مشاہدے کے مطابق لکھا ہے۔ آپنے چند آیات کے حوالے سے یہ ثابت بھی کردیا ہے، اب ان باتوں کو سمجھنے کیلئے کوئی بہت زیادہ علم کی بھی ضرورت ہیں ہے اسکے لئے صرف اور صرف اندھے اعتقاد سے باہر آنے نکل کر سوچنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

4 Comments
scroll to top