Close

کرسٹل کی بال

 

کیا آپ نے کبھی وہ کرسٹل کی بال دیکھی ہے جسے عام طور پر فلموں میں جادوگرنیاں مستقبل کی پیش گوئی کے لیے استعمال کرتی ہیں؟ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بعض ممالک میں جادوگری کا سامان فروخت کرنے والے بعض فروشندہ اس طرح کی بال بھی فروخت کرتے ہیں، جہاں تک اس کے استعمال کے طریقے کی بات ہے تو وہ تجویز کرتے ہیں کہ آپ کئی کئی دنوں تک اس بال کو بیٹھ کر گھورتے رہیں، ایسا کرنے پر وہ آپ کو ضمانت دیتے ہیں کہ جب تک آپ کا اس بال پر یہ یقین قائم رہے گا کہ آپ اس بال کے ٹیڑھے میڑھے انعکاس میں کچھ دیکھ سکتے ہیں تو آخر کار آپ کو اس میں کچھ نہ کچھ ضرور نظر آنا شروع ہوجائے گا.

اور جیسا کہ دیگر انواع واقسام کی بکواسیات کے لیے ضروری ہوتا ہے یہاں بھی "شک کی حس” کو معطل کرنا ضروری ہے کیونکہ انسانی دماغ اگر شک کے اپنے طبعی حق سے دستبردار ہوجائے تو وہ کیا کیا خرافات تخلیق کر سکتا ہے اس کا تمام فراڈیوں کو کافی اچھا تجربہ ہے.

علمائے نفس انسانی دماغ کی نظر آنے والی چیزوں کو ذاتی اندیشوں میں بدلنے کی زبردست قابلیت کے بارے میں آپ کو بہت کچھ بتا سکتے ہیں، اس ضمن میں نفسیات دانوں کے ہاں روشاخ Rorschach test ٹیسٹ خاصہ جانا پہچانا ہے.

مگر رکیے.. کیا آپ کو یہ اصول کچھ جانا پہچانا نہیں لگتا؟

یہ یقین رکھتے ہوئے کسی چیز کو گھورنا کہ آپ کو اس میں وہ نظر آئے گا جو اس میں نہیں تو آخر کا آپ کو اس میں وہ واقعی مل جائے گا جو آپ اس میں دیکھنا چاہ رہے تھے؟

کیا تمام مقدس کتابیں ایسی ہی کرسٹل بالوں کی طرح نہیں ہیں؟ فرق صرف اتنا ہے کہ ان کتابوں کو گھورنے میں صدیاں لگتی ہیں تب جاکر کہیں ان میں وہ مل ہی جاتا ہے جو ان میں نہیں ہوتا..

تمام مذاہب کے ماننے والے اپنی کتابوں کو گھورنے اور ان سے نت نئے معانی کشید کرنے میں ماہر ہیں، بلکہ بحث بھی کرتے ہیں کہ یہ اس متن کی جادوگری اور عظمت کا کرشمہ اور ثبوت ہے!

متن کی عظمت یہ ہے کہ آپ اس پر وہ منعکس کردیتے ہیں جو حقیقتاً آپ کی نفسیات میں پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے، یعنی آپ کو اس میں اپنی پسماندہ اور مجرمانہ خواہشات مل سکتی ہیں، اور اگر آپ مثقف اور متمدن شخص ہیں تو بھی آپ کو اس میں اپنی مرضی کی چیزیں مل جائیں گی، متن کی بھول بھلیا میں سب کے لیے کچھ نہ کچھ موجود ہے.. لہذا متن سے معانی کشید کرنے کے فائدے کے بارے مت پوچھیں جبکہ معانی اصل میں نفسِ انسانی میں پہلے سے ہی موجود ہیں.. کیا کسی مقدس کتاب نے ہمیں کوئی ایسی بات بتائی ہے جو ہم پہلے جانتے ہی نہیں تھے؟ اور کیا کسی کتاب کی وجہ سے کوئی معاشرہ "مثالی جنت” بن سکا؟ کیا اب بھی ڈاکو ڈاکو نہیں ہیں اور قاتل قاتل نہیں ہیں؟ کیا کچھ تبدیل ہوا سوائے اس کے کہ بعض اوقات ان کی مجرمانہ خواہشات نے اپنا ہدف تبدیل کرتے ہوئے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر اپنا نزلہ گرایا؟

اب مجھ سے یہ مت کہیں کہ مقدس کتابوں نے آپ کی روحانی اور فکری سعی کو فائدہ پہنچایا کیونکہ میں آپ کو ایسی دسیوں ملہمانہ کتابیں بتا سکتا ہوں جنہیں ایسے لوگوں نے تحریر کیا جنہوں نے کبھی وحی یا فرشتوں کو دیکھنے کا دعوی نہیں کیا، لاؤزی Laozi کی لکھی ہوئی تاو تی چینگ Tao Te Ching نامی کتاب چین کو دو ہزار سالوں سے زائد عرصے سے روحانیت بخش رہی ہے مگر مصنف نے کبھی کسی آسمانی مداخلت کا کوئی دعوی نہیں کیا.. اس کے برعکس لاؤزی واضح طور پر کہتا ہے کہ اس کی واحد دلچسبی انسان اور اس کی زندگی ہے ناکہ شیطان اور فرشتے وغیرہ..

اپنے مومن دوستوں کو میں فقط اتنا پیغام پہنچانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ نے کسی کتاب سے کسی بھی طرح کے مخصوص معانی کشید کرنے ہیں تو یہ کام آپ کسی بھی کتاب کے ساتھ کر سکتے ہیں چاہے وہ قرآن ہو، انجیل ہو، توریت ہو یا "موبائل کے بہترین ایس ایم ایس” ہو… انسانی دماغ اس سے بھی بڑھ کر حیرت انگیز کارنامے انجام دے سکتا ہے.

عقل مندوں کو سلام!

16 Comments

  1. جیسے؛)
    لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ
    نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ (اپنا مدار چھوڑ کر) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہوسکتی ہے، اور سب (ستارے اور سیارے) اپنے (اپنے) مدار میں حرکت پذیر ہیں
    يَسْبَحُونَ کا مطلب مدار میں‌حرکت ہے ؛)

    1. آپ کی بیان کردہ آیت سورہ یس کی آیت نمبر 40 ہے جبکہ اس حوالے ایک آیت اور بھی ہے جو سورہ انبیاء کی آیت 33 ہے اور یہ یوں ہے:

      وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ وَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ﴿۳۳﴾
      اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو بنایا یہ سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔

      اگر قرآن میں سائنس ہے تو ان دونوں مذکورہ آیات میں وہ سائنسی غلطیاں ہیں کہ کوئی ثانوی خدا بھی شاید ان میں نہ پڑتا.. سورہ یس کی آیت 40 کی سب سے پہلی فاش غلطی تو یہ ہے کہ وہ رات اور دن کو سورج اور چاند کی خواص کی حامل مادی چیزیں قرار دے رہی ہے "کل فی فلک یسبحون” سے پتہ چلتا ہے کہ رات اور دن اور چاند اور سورج اپنی "تیراکی” میں یکساں ہیں، اگر خدا یہ کہنا چاہتا کہ چاند اور سورج ہی تیرنے والی چیزیں ہیں ناکہ رات اور دن تو وہ کہتا "وکلاہما فی فلک یسبحان” مگر افسوس اس نے سب کو جمع کر کے اپنی سائنس کی خود ہی واٹ لگا لی..

      دوسری پرابلم "ولا اللیل سابق النہار” یعنی "اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہوسکتی ہے” میں ہے.. حقیقت یہ ہے کہ دن رات کے بعد نمودار ہوتا ہے کیونکہ رات یعنی اندھیرا دن سے پہلے شروع ہوا تھا جوکہ نظام شمسی میں ضیاء کا پھیلاؤ ہے، اور جیسا کہ سب ستاروں میں ہوتا ہے پہلے سورج اندھیرے میں مکثف ہوکر بنا، اگر ہم اسلامی کلینڈر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ وہ سورج کے غروب سے دن کا شمار کرتا ہے یعنی رات دن سے پہلے آتی ہے جو کہ مومنین کا انجانے میں اس بات کا اعتراف ہے..

      جہاں تک معاملہ "یسبحون” یعنی "تیراکی” کا ہے تو تیراکی دراصل کسی مائع میں اس سے کثیف جسم کو اوپر رکھنے کے لیے حرکی قوت لگانا ہے چنانچہ "تیراکی” کے لیے اس مادے کا وجود لازمی ہے جس میں کہ تیراکی انجام دی جائے جو کہ اس میں تیرنے والی چیزوں کو اٹھانے اور سہارا دینے کے قابل ہو، اب سورج کہکشاں کے مرکز کے گرد اور چاند زمین کے گرد قطعی طور پر خالی خلاء یعنی ویکیوم میں چکر کاٹ رہے ہوتے ہیں، ان نظریات سے قطع نظر جو کوانٹم سطح پر ویکیوم کا کوئی "ڈھانچہ” تجویز کرتی ہیں، یہ دونوں فلکیاتی اجسام اپنے مدار میں رہنے کے لیے کوئی قوت نہیں لگاتے یعنی وہ تیرتے نہیں ہیں، اگر قرآن کے مصنف کی ایسے پیچیدہ علوم اور تعریفات پر دسترس ہوتی تو وہ یوں کہتا کہ "وکل فی فلک یمضیان” یا "یدوران” یا پھر "یسیران” کیونکہ وہ واقعی نہیں تیرتے، انگریزی جو کہ علم کی زبان ہے میں نے کبھی نہیں پڑھا کہ کسی نے فلکیاتی اجسام کی گردش کو "تیراکی” کہا ہو، مگر اس کتاب کا مصنف جسے اوپر نیچے سے کبھی باطل نہیں آسکتا یہ آسان نقطہ نہ سمجھ سکا.

      ایک نقطہ سورج اور چاند کی آپس میں احمقانہ تشبیہ ہے جو کہ ایک دوسرے سے نہ صرف مختلف مداروں میں ہیں اور ان کے درمیان کوئی ترانوے ملین میل کا فاصلہ ہے بلکہ ان دونوں کی ساخت اور کمیت میں بھی بنیادی فرق ہے لہذا اتنی آسانی سے ان دونوں کا موازنہ بتاتا ہے کہ قرآن کے مصنف کو اس اختلاف کا علم نہیں تھا اور ظاہر ہے اس نے یہ تشبیہ اس لیے کی کیونکہ زمین سے دیکھنے پر دونوں کا حجم یکساں نظر آتا ہے جو کہ فریبِ نظر ہے.

  2. اینڈرسن شا صاحب اگر ہو سکے تو ان پر بھی ذرا روشنی ڈال دیں
    خُلِقَ مِن مَّاءٍ دَافِقٍ ، يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ
    وہ قوت سے اچھلنے والے پانی میں سے پیدا کیا گیا ہے ، جو پیٹھ اور کولہے کی ہڈیوں کے درمیان سے گزر کر باہر نکلتا ہے
    ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    اس کے علاوہ تیسرے مہینے میں ، لڑکے لڑکی کی جنس بننے کا بیان ، جبکہ آج کل تو آپ اپنی مرضی سے اولاد کی جنس سیلکٹ کر سکتے ہیں ، جو کہ پہلے دن سے ہی علم میں ہوتی ہے ۔

    1. بڑی راکٹ سائنس ہے جی یہ.. قرآن کہتا ہے کہ مرد کا پانی یعنی منی مرد کی پیٹھ سے نکلتا ہے اور عورت کا پانی سینے سے.. یقیناً یہ سب نا معقول باتیں ہیں کیونکہ کمر یا پیٹھ اور سینے کا دونوں پانیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، اگر ہم یہ بھی فرض کر لیں کہ قرآن عورت کے انڈے کی بات کر رہا ہے نا کہ عورت کے پانی کی تو بھی عورت کے سینے کا انڈے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے.. ہم جانتے ہیں کہ مرد کا پانی خصیوں testicle میں بننے کے بعد منوی تھیلی یعنی seminal vesicles سے نکلتا ہے جو مثانے کے نیچے ہوتی ہے رہا عورت کا پانی تو اس کا افراز اندام نہانی کی دیواروں سے ہوتا ہے جو کہ اس کا بھی سینے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے.. اور ویسے بھی اس حوالے سے نبوی سائنس بخاری کی ایک حدیث کے مطابق فقط اتنی ہے:

      "اور جب مرد کاپانی عورت کے پانی پر غلبہ کرجاتا ہے تو بچہ باپ کی شکل پر ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غلبہ کرجاتا ہے تو بچہ ماں کی شکل پر ہوتا ہے” حدیث کا حوالہ

  3. سُبْحَانَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّھَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ وَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ
    "پاک ہے وہ ذات جس نے تمام اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی بناتات میں سے ہوں یا خود اِن کی اپنی جنس میں سے یا اُن اشیا میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں”
    سکول میں پڑھا تھا کہ یک خلوی جاندار بھی اس دنیا میں پائے جاتے ہیں ، جو کہ بڑھتے ہیں اور تقسیم ہو جاتے ہیں ، کیا ان میں بھی نر مادہ کا تصور ہے ؟
    اسی طرح جراثیم و بیکٹیریا وغیرہ میں بھی کیا ایسا ہی سسٹم ہے ؟

    1. مجھے جراثیم اور بیکٹیریا وغیرہ کے بارے میں تو اتنا نہیں پتہ تاہم آپ کے خدشات درست ہیں، سارے جاندار جوڑوں میں نہیں ہوتے، اموئیبا Amoeba ایک ایسا یک خلوی جاندار ہے جس میں کوئی نر یا مادہ نہیں ہوتا، اسی طرح ایمازان کے جنگلوں میں چیونٹیوں کی ایک ایسی قسم دریافت ہوئی ہے جن کا ارتقاء اس طرح ہوا ہے کہ ان میں صرف مادہ چیونٹیاں ہوتی ہیں اور ان میں نر اور جنس کا کوئی تصور نہیں بس ملکہ اپنی جینیاتی نقل بناتی چلی جاتی ہے.. اس کے علاوہ ایسی مزید کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں.. الغرض قرآنی دعوے اور سائنس یہاں بھی مار کھا گئے.

  4. آپکے بلاگ کا میں پرانا قاری ہوں لیکن آج پہلی دفعہ تبصرہ کرنے کی ہمت کررہا ہوں، کیوں کہ آپ نے مشکل و پیچیدہ حقیقتوں کو فرضی دیومالائی کہانیوں کے مقابلے میں بڑی ہی آسان زبان میں دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے. مجھے بے انتہاخوشی ہے کہ
    مسلمانوں میں عقل و شعور رکھنے والے افراد موجود ہیں.

  5. ہم فرض کریں کہ انسان نے مطلق حقیقت دریافت کر لی ہے، تب وہ اپنے خالق کے مرتبہ پر ہوگا، اور یہ ہو نہیں سکتا کہ کبھی مخلوق خالق کے مرتبہ پر پہنچ سکے، کیونکہ وہ کُل میں سے صرف ایک جزو ہے، اس لیے انسان جو بھی کچھ دریافت کرتا ہے وہ دراصل نسبتی حقیقت ہے نا کہ مطلق، کیونکہ مطلق صرف اللہ کے لیے ہے اور اس کے سوا سب کچھ نسبتی.

    اور پھر کچھ بھی ہو، کائنات کے راز کبھی ختم نہیں ہوں گے.. کیونکہ یہ ایک سمندر ہے جس کا ہم نے ابھی صرف ایک قطرہ ہی حاصل کیا ہے.. اور اس ایک قطرے کو لے کر ہم اتنے پریشان ہیں.. کائنات کے متلاطم رازوں کے سامنے ہماری عقل ہمیشہ مبتلائے حیرت رہے گی.

جواب دیں

16 Comments
scroll to top