Close

اس لیے خدا پہلی علت نہیں ہے۔

اول: علت کی معلول سے علیحدگی۔

سارے مؤمنین علت کے قانون پر یقین رکھتے ہیں، ان کی نظر میں ہم ملحدین علت اور پہلی علت کے سب سے بڑے منکر ہیں گویا کہ پہلی علت کا اثبات خدا کے اثبات کے مساوی ہے!! بھئی ہوسکتا ہے کہ پہلی علت ہو اور وہ خدا نہ ہو؟!

بہر حال مؤمنین کی نظر میں خدا ہی پہلی علت ہے اور وہ ❞علتِ کاملہ❝ ہے کیونکہ خدا کا ❞علتِ ناقصہ❝ ہونا نہ صرف ہمارے لیے بلکہ مؤمنین کے لیے بھی نا معقول بات ہوگی، ہے نا!!

علت دو طرح کی ہوتی ہے، علتِ کاملہ جس کی موجودگی کی صورت میں معلول کی موجودگی لازمی ہوجاتی ہے، اور ایک علتِ ناقصہ ہوتی ہے جس کی موجودگی سے معلول کی موجودگی لازمی نہیں ہوتی کیونکہ شرطوں، ضروریات (Requisites) اور زوالِ ممانعت (رکاوٹوں کا ختم ہونا) پوری نہیں ہوئی ہوتیں جیسے لکھاری لکھنے کی ناقص علت ہے کیونکہ لکھائی کے لیے کچھ شرطوں کا پورا ہونا ضروری ہے جیسے کاغذ، قلم اور سیاہی کی دستیابی وغیرہ، تاہم علتِ کاملہ اور علتِ ناقصہ میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں کی عدم موجودگی کا مطلب معلول کی عدم موجودگی ہوگا۔

مگر خدا یقیناً علتِ کاملہ ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ اس کا ارادہ کسی شرط، ضرورت یا زوالِ ممانعت (کسی رکاوٹ کے خاتمے) کا محتاج ومنتظر ہو ورنہ وہ عاجز کہلائے گا، مؤمن کہتے ہیں کہ ❞خدا کائنات کی علت ہے اور کائنات خدا کی معلول ہے❝ اب منطقی قاعدہ یہ ہے کہ جب معلول یعنی کائنات موجود نہیں تھی تو یہ ممکن نہیں کہ اس کی علت بھی موجود ہو کیونکہ علتِ کاملہ کی موجودگی اس کے معلول کی موجودگی لازمی بنا دیتی ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ علت موجود ہو اور معلول موجود نہ ہو ورنہ علتِ کاملہ اپنے معلول سے الگ ہوجائے گی جو ممکن نہیں! اس طرح علت کے نہ ہونے کے سبب معلول کی عدمیت (غیر موجودگی) بغیر علت کے لازم ہوجائے گی!!

یہ لزومیت برہانِ خلف (Proof by Contradiction) پر مبنی ہے یعنی اگر علتِ کاملہ موجود ہو تو یا تو اس کی موجودگی سے معلول کا موجود ہونا لازم ہوگا یا لازم نہیں ہوگا، پہلی صورت میں مطلوب (معلول) ثابت ہوتا ہے (یعنی وجود میں آجاتا ہے) جبکہ دوسری صورت میں اگر علتِ کاملہ موجود ہو یہ فرض کرتے ہوئے کہ معلول نہیں ہے جبکہ ہم جان چکے ہیں معلول کی عدمیت (غیر موجودگی) علت کی عدمیت سے معلول ہے (یعنی علت کی غیر موجودگی معلول کی غیر موجودگی کی علت ہے) تو اس طرح یہ لازم ہوجائے گا کہ نقیضین جمع ہوجائیں (یعنی دو متضاد چیزیں آپس میں مل جائیں) جو نا ممکن ہے کیونکہ نتیجہ یہ نکلے گا کہ علت بیک وقت موجود بھی ہوگی اور نہیں بھی۔

یہ ❞علتی جبر❝ کا قانون ہے جو علتِ کاملہ کی موجودگی کی صورت میں معلول کی موجودگی واجب قرار دیتا ہے، لہذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا کائنات کی پہلی علت ہے اور یہ کہ علت موجود تھی اور معلول موجود نہیں تھا پھر خدا (علتِ کاملہ) نے اچانک کائنات تخلیق کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ تخلیق کا مطلب کسی شئے کی موجودگی کا سبب بننا ہے یعنی تخلیق علیت ہے لہذا اس بات کا کوئی مطلب نہیں کہ علت موجود تھی اور کائنات موجود نہیں تھی۔

اسی مسئلہ کی وجہ سے متکلمین نے علتی جبر کے قانون کا انکار کیا ہے کیونکہ ان پر یہ واضح ہوگیا کہ اس طرح خدا کائنات تخلیق کرنے پر مجبور ہوجائے گا کیونکہ علت – جو کہ ان کی نظر میں خدا ہے – سے معلول کا جبراً صادر ہونا لازمی ہے، تاہم اس انکار پر انہیں یہ جواب دیا گیا کہ ارادہ علتِ کاملہ کی بنیادی شرط ہے، یعنی خدا کو علتِ کاملہ ہونے کے لیے لازماً مُرید ہونا (چاہنا) ہوگا تاکہ وہ علتِ کاملہ بن سکے اور اس کا معلول حاصل ہوسکے، اس سلسلہ میں ویسٹرن مشیگن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے فلسفہ کے پروفیسر کوینٹن سمتھ کا مقالہ CAUSATION AND THE LOGICAL IMPOSSIBILITY OF A DIVINE CAUSE کافی مفید ہے۔

اور جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ہمارے پاس علت ہے اور علت کی شرط ہے، کسی جسم کا حرکت میں ہونا خلاء میں اس کے جگہ گھیرنے کے لیے کافی شرط ہے مگر اس کا متحرک ہونا جگہ گھیرنے کی علت نہیں ہے، ہوا انسان کی موجودگی کی کافی شرط ہے مگر ہوا انسان کی موجودگی کی علت نہیں ہے۔

مذکورہ ہر قضیہ میں ہمارے پاس کوئی واقعہ یا حالت ہوگی جیسے ❞س❝ کسی دوسرے واقعے یا حالت کی کافی شرط ہوگی جیسے ❞ص❝ کی، مگر ❞س❝ ہمیشہ ❞ص❝ کی علت نہیں ہوگی کیونکہ جو چیز کسی دوسری چیز کی علت ہوتی ہے وہ اس کے لیے کافی شرط نہیں ہوتی، نتیجہ یہ ہوگا کہ:

اگر ❞س❝ ❞ص❝ کی کافی شرط ہے تو ❞س❝ ❞ص❝ کی علت نہیں ہوگی، اسی طرح کائنات کی تخلیق کا خدا کا ارادہ بگ بینگ کے ہونے کی کافی شرط ہے کیونکہ خدا کے مفروضے کو درست فرض کرنے کی صورت میں یہ بات غیر منطقی ہوگی کہ خدا نے کائنات تخلیق کرنا چاہی یا بگ بینگ کو رونما کرنا چاہا مگر وہ رونما نہیں ہوا!

لہذا خدا کا ارادہ کائنات کے وجود یا بگ بینگ کے ہونے کی علت نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی شئے بیک وقت علت اور شرطِ علت نہیں ہوسکتی، اکر یہ کہا جائے کہ خدا کائنات کے وجود کی علت ہے تو اس کا ارادہ کائنات کے وجود کے لیے کافی شرط نہیں ہوگا جو کہ تضاد ہے کیونکہ خدا کا ارادہ ہمیشہ پورا ہوتا ہے۔

دوم: وجوبِ خواص

بیشتر عرب فلاسفہ کے نزدیک علت اور معلول کے درمیان خاصیت کا تعلق ضروری ہے، علت میں لازماً ایسی کوئی خاص خاصیت ہونی چاہیے جو دوسرے معلولوں سے ہٹ کر خصوصی طور پر اس کے اپنے معلول کے وجود کا منشا ہو، آگ کی خاصیت حرارت کا منشا یا مصدر ہے ٹھنڈک کی نہیں، اگر یہ شرط نہ ہو تو ہر چیز ہر چیز سے صادر ہونا شروع ہوجائے گی یعنی آگ سے ٹھنڈک اور برف سے گرمی حاصل کی جاسکے گی اور ہر چیز ہر چیز کی علت بن جائے گی جو بداہت اور منطق کے خلاف ہے، اسی طرح یہ علت اور معلول کے درمیان تلازم کے بھی خلاف ہے کیونکہ علت اور معلول کے درمیان تلازم کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔

خلاصہء کلام یہ ہے کہ علت میں لازماً کوئی مخصوص خاصیت ہونی چاہیے جو اس کے معلول کے وجود کا مصدر ہو اور معلول میں ظاہر ہو، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات متعدد الخواص ہے، یہ اتنی بدیہی بات ہے کہ اسے کسی اثبات کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں، اب چونکہ اپنے خواص میں مختلف موجودات خدا سے معلول ہیں لہذا یہ لازم ہے کہ خدا جو ساری مختلف الخواص چیزوں کی علت ہے وہ متعدد الخواص ہو اور یہ خاصیتیں معلولات کی مقدار کے برابر ہونی چاہئیں یعنی جتنے مختلف الخواص معلولات ہوں گے خدا میں بھی اتنی ہی خاصیتیں ہونی چاہئیں، اس کے لیے لازم ہے کہ اس کی ذات مختلف حصوں میں منقسم ہو جو ممکن نہیں، اب اگر وہ منقسم نہیں تو اسے مرکب ہونا چاہیے اور مرکب محتاج ہوتا ہے اور محتاج عاجز۔۔ لہذا خدا کو ہر طرح سے سادہ ہونا چاہیے مرکب نہیں کیونکہ ہر مرکب حادث ہوتا ہے اور یہ ممکن نہیں کہ واجب الوجود میں کوئی حدوث ہو، مزید برآں واحد سے صرف واحد ہی صادر ہوگا یعنی اگر خدا کی صرف ایک ہی خاصیت ہے تو اس سے صادر ہونے والے معلول میں بھی صرف وہی ایک ہی خاصیت ہوگی متعدد نہیں مگر موجودات کو دیکھ کر ایسا نظر نہیں آتا، بیشتر فلاسفہ کی بھی یہی رائے ہے کہ واحد سے صرف واحد ہی برآمد ہوگا اس طرح انہوں نے اشعریوں کی اس رائے کی مخالفت کی جس کے مطابق خدا دنیا کے واقعات میں براہ راست مداخلت کرتا ہے اور متکلمین کی بھی مخالفت کی جو کہتے تھے کہ واحد سے کثیر صادر ہوسکتا ہے۔

عقل مندوں کو سلام!

8 Comments

      1. علامہ ایاز نظامی صاحب ! صاحب اے مضمون نے دانستہ پر شکوہ الفاظ کابہیمانہ لاٹھی چارج کیاھے وگرنہ مافی الضمیر آسان اور سادہ بیان کرنا کیا مشکل تھا۔
        مثال کے طور پر یہ شعر دیکھۓ—-
        آہ یہ رات یہ برسات یہ رنگینی اے لمحات یہ آیات و کرامات و طلسمات کا اک طرفہ ھجوم ———ظرف پیمای اے اوقات وجھت سازی اے تدبیراے کماں خانہ اےافکارو سراغ اے مہ و مہتاب و تمنا اے نجوم۔۔۔
        اس شعر کا مطلب صرف اتنا ھے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھاے رات کتنی خوب صورت ھے۔۔۔۔۔۔
        شاء صاحب کو سمجھائیں کہ ھاتھ ھولا رکھیں ، اس دنیا میں بڑی اکثریت مجھ جیسے بے عقلوں کی ھے۔۔۔۔۔صرف عقلمندوں کو سلام ایسے ھی ھے جیسے ھدائت صرف متقین کے لیۓ ھے۔۔۔۔۔اللہ آپ کو ایمان کی دولت سے مالا مال فرماۓ،آمین۔

  1. آپ نے منطق کے نام پر بہت سی غیر منقی باتیں کی ہیں۔ آپ اس کائنات کے نظام کو سائینسی انداز میں مشاہدہ کرنے کے بعد فطرت کے جبر سے انکار کر ہی نہیں سکتے۔ وجہ یہ ہے کہ علت اور معلول کے سلسلہ کو ماضی میں کریدتے کریدتے آپ جس بھی جگہ کو آخری یا علت غائی قرار دیں گے وہیں آپ کو پھر اس کی علت کی تلاش ہو گی۔ آپ ہستی باری تعالیٰ کو وہمہ قرار دینے کاحق رکھتے ہیں لیکن جدید تحقیق سے انکار نہیں کر سکتے کہ اسی کائنات میں کئی اور کائناتیں گتھم گتھا ہیں۔ لیکن علت غائی تک رسائی اس انسانی ذہن کے نہ صرف بس کا روگ نہیں بلکہ اس کی منطقی مجبوری ہے۔ اسی مجبوری کے تحت انسان ایمان کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ اب ایمان درست سمت ہو یا غلط یہ الگ بحث ہے لیکن عقل ایمان کی حاجتمند ہے۔ ایمان کے نام پر اجارہ داری اور دھوکہ دہی کے واقعات اس کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتے۔

  2. ماشا اللہ ,جناب رحمت صاحب یقینا اللہ جل شانہ کی بے شمار رحمتیں ہیں آپ پر.
    بہت خوبصورت پہلو اجاگر فرماۓ ہیں .
    مگر جناب الامہ صاحب ہیں کہ ماننے کہ نہیں.
    ان کے دل و دماغ پر پائیا صاحب براجمان ہوچکے ہیں.
    جناب الامہ صاحب پائیا صاحب سے تو آپ بخوبی آشنا ہی ہیں .
    وہی جس کے آپ پیرؤ ہیں.

جواب دیں

8 Comments
scroll to top