Close

کائناتی استدلال

خدا کے وجود کے اثبات میں ❞کائناتی استدلال❝ ارسطو کے زمانے سے چلا آرہا ہے، اس استدلال میں ❞پہلی علت❝ یا ❞بے علت علت❝ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، عام طور پر اس استدلال کو یوں پیش کیا جاتا ہے:

1- ہر چیز کی کوئی نہ کوئی علت ہوتی ہے۔
2- کائنات کی لازماً کوئی علت ہونی چاہیے۔
3- یہ علت ❞خدا❝ ہے۔

یا پھر ❞ذہین ڈیزائن❝ کی شکل میں۔

1- کائنات میں ایک مخصوص ڈیزائن موجود ہے۔
2- ہر ڈیزائن کا لازماً کوئی ڈیزائنر ہونا چاہیے۔
3- یہ ڈیزائنر ❞خدا❝ ہے۔

یوں تو اس حجت پر اعتراضات کی ایک طویل فہرست ہے لیکن بغرضِ اختصار ہم صرف چند اہم اعتراضات پر ہی بحث کریں گے۔

1- حجت ❞مطالعاتی تشریح❝ (Interpretive Reading) کا استعمال کرتی ہے، مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ مادہ کوئی مخصوص طرح کا سلوک کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ (سلوک) اس کا نظام ہے، اگر مادہ کسی اور طرح کا سلوک کرتا تو بھی ہم اسے اس کا نظام ہی کہتے، الغرض کہ نظام چاہے جیسا بھی ہو ہم اس کی ❞انسانی تشخیصی❝ تشریح ہی کریں گے کیونکہ بندر اپنی ماں کی نظر میں ہرن ہوتا ہے۔۔ آئیے ایک سادہ سی مثال سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں: فرض کرتے ہیں کہ ہم نے دو پانسے پھینکے اور 4 اور 7 کے دو عدد حاصل کیے تو کیا ان دو اعداد کا کوئی مطلب ہے؟ یقیناً نہیں، یہ دو اعداد محض اتفاق سے حاصل ہوگئے اور بس، لیکن اب فرض کرتے ہیں کہ کسی نے ہم سے کہا کہ: ❞یہ دونوں پانسے پھینکیے اور اگر آپ نے عدد 4 اور 7 حاصل کر لیے تو میں آپ کو سو روپے دوں گا❝ اور ہم نے پانسے پھینکے اور اتفاق سے عدد 4 اور 7 حاصل کر لیے تو اس صورت میں انہی دو اتفاقی (Random) اعداد کا ایک مخصوص مطلب بن جائے گا! کائنات کے معاملہ میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے مقصد کو حادثہ کے وقوع کے بعد متعین کیا ہے یعنی با مقصد اعداد کا تعین پانسے پھینکنے کے بعد کیا، اگر کائنات کی شکل کچھ اور ہوتی تو ہم اس کی طرف دیکھ کر کہتے کہ: ❞یہ مخصوص نظام بغیر کسی خدا کے وجود میں نہیں آسکتا❝، اب کائنات کی شکل چاہے کچھ بھی ہو ہم ہمیشہ یہی کہیں گے۔

2- اس حجت میں دوسرا مسئلہ زاویہ نظر (Perspective) کا ہے، مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اعداد کو غور سے دیکھیے:

17839748591233784324938746574605

جیسا کہ واضح ہے مندرجہ بالا اعداد کا سیٹ قطعی اتفاقی (Random) ہے اور اس میں کوئی ڈیزائن (یا ترتیب) نہیں ہے، آئیے اب اتفاقی اعداد کے اسی سیٹ کو اس کے ایک مخصوص حصے پر غور کرتے ہوئے دوبارہ دیکھتے ہیں:

17839748591233784324938746574605

اب ہمیں اس اتفاقی اعداد کے سیٹ میں ایک ایسا جزوی سیٹ نظر آرہا ہے جو منطقی معلوم ہوتا ہے، اسے کہتے ہیں ڈیزائن شُدہ ذیلی مجموعہ (The Designed Subset) یعنی ایک قطعی اتفاقی سیٹ کے اندر ایک ایسے ذیلی سیٹ کی موجودگی جس میں بظاہر کوئی نظام نظر آتا ہے، اگر ہم اپنی نظریں اس ذیلی سیٹ پر ہی مرکوز رکھیں گے تو ہمیں لگے گا کہ یہاں واقعی کوئی مخصوص نظام یا ڈیزائن موجود ہے، لیکن اگر ہماری نظر وسیع ہوتی تو ہمیں کبھی ایسا نہ لگتا، مثال کے طور پر فلکیاتی سائنس میں متعدد کائناتوں (Multiverse) کا ایک نظریہ موجود ہے جو کہتا ہے کہ ہم جس کائنات میں رہتے ہیں وہ محض ایک اتفاقی سیٹ کا ایک ذیلی سیٹ (Subset) ہے اور جو ڈیزائن ہمیں اس میں نظر آتا ہے وہ محض ایک انتخابی زاویہ نظر (Selective Perspective) ہے جس کی وجہ ہمارا اس حصے کے اندر موجود ہونا ہے اور چونکہ ہم بطور کسی منظم حصے کے کسی دوسری کائنات میں موجود نہیں رہ سکتے اس لیے ہمیں صرف وہی نظر آتا ہے جو ہماری ناک کے سامنے ہے۔

ذیلی حصے کا یہ مسئلہ زمین پر بھی لاگو ہوتا ہے، ہم زمین پر موجود زندگی اور دیگر با ترتیب نظاموں سے ❞پھولے نہیں سماتے❝ مگر زمین کے باہر موجود بد نظمی ہمیں نظر نہیں آتی جہاں کھربوں کھربوں سیاروں اور ستاروں کے وجود کی نا تو کوئی وجہ ہے اور نا ہی کوئی مقصد، یہ محض اتفاقی عمل کے ذریعے پیدا ہوتے اور پھٹتے رہتے ہیں اور زیادہ تر زندگی کے قابل بھی نہیں ہیں، زندگی کے قابل کسی ایک سیارے یا چند سیاروں کا وجود محض ایک شماریاتی ریاضیاتی ناگزیریت ہے جو اتفاقی سیٹس کے اندر ایسے ذیلی سیٹ بناتی ہے جن میں نظام یا ڈیزائن نظر آتا ہے۔

3- اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ کائنات کے ڈیزائن کو کسی ڈیزائنر کی ضرورت ہے؟ کیا ہم نے دوسری کائناتیں دیکھی اور ان کے ڈیزائنروں کو پہچانا ہے تاکہ ہم یہ فرض کر سکیں کہ اس کائنات کا بھی دیگر کی طرح ایک ڈیزائنر ہوگا؟

عام طور پر لوگ انسان کے بنائے ہوئے ڈیزائن استدلال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ہمیں کوئی جہاز اڑتا ہوا نظر آئے تو ہم یقیناً یہ جان جائیں گے کہ اسے کسی سوچنے والے عقل مند انسان نے ہی بنایا ہوگا، اس دلیل میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ انتخابی یعنی Selective ہے اور نتیجے کو مفروضے میں ٹھونس دیتی ہے (sticking the conclusion in the premises) اور اس کی وجہ بڑی سادہ ہے، فرض کرتے ہیں کہ کائناتی استدلال کی یہ حجت غلط ہے (یعنی کوئی ڈیزائنر نہیں ہے) تو ایسی صورت میں اس کا یہ مطلب ہوگا کہ کائنات میں موجود بیشتر ڈیزائن (جیسے برف، درخت، جانور) کسی ڈیزائنر کے بنائے ہوئے نہیں ہیں، اس سے یہ پتہ چلے گا کہ انسان کے بنائے ہوئے ڈیزائن ❞استثناء❝ ہیں ❞قاعدہ❝ نہیں، لہذا یہ معلوم ہوا کہ کائناتی استدلال کا دوسرا مفروضہ (ہر ڈیزائن کا لازماً کوئی ڈیزائنر ہونا چاہیے) مفروضے کو ثابت کرنے سے پہلے ہی اسے درست فرض کر لیتا ہے، یعنی نتیجہ کو اسی مفروضے میں ٹھونس دیتا ہے، یہ ایک ایسا منطقی خلل ہے جو ساری حجت کو ڈھیر کردیتا ہے، یہ ضروری ہے کہ کسی حجت کو درست فرض کرنے سے پہلے اس کے تمام حصوں کو ثابت کیا جائے، افسوس کی بات یہ ہے کہ جدید سائنس کسی ❞ڈیزائنر❝ کو نہیں مانتی، وہ تو بس طبعی قوتوں کو مانتی ہے اور اسے اس میں کسی ڈیزائنر کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔

dennett-on-the-csomological-argument

4- آخری اور اہم اعتراض لا متناہی تسلسل اور انتخابی قیاس کا ہے، حجت کہتی ہے کہ کائنات میں موجود ڈیزائن کسی ڈیزائنر کی موجودگی کی دلیل ہے، چلیں مان لیا کہ یہ ڈیزائنر موجود ہے، کیا اس میں بھی ڈیزائن نہیں ہے؟ کیا وہ بھی پیچیدہ تر نہیں ہے؟ اس کا ڈیزائنر کہاں ہے؟ کائناتی استدلال پیش کرنے والے حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ حجت مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے اسے مزید پیچیدہ کر دیتی ہے، یہ ایک نسبتاً سادہ ڈیزائن (کائنات) سے شروع ہوتی ہے اور ایک پیچیدہ تر ڈیزائن (خدا) پر جا ختم ہوتی ہے جو ایک ننگی منطقی غلطی ہے، بہتر یہی ہے کہ ہم اسی پر ہی رہیں جس کا ہمیں علم ہے (کائنات) اور کوئی حقیق حل تلاش کرنے کی کوشش کریں بجائے ایسی تصوراتی چیزیں ٹھونسنے کے جن کے بارے میں ہمیں نا تو کوئی علم ہے اور نا ہی وہ مسئلہ کے حل میں کوئی کردار ادا کر سکتی ہیں (خدا) سوائے اسے مزید پیچیدہ کرنے کے۔

اس حجت کا آخری دفاع یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ: ❞خدا کو فلاں فلاں وجوہات کے سبب کسی ڈیزائنر کی ضرورت نہیں ہے❝ اور اس طرح وہ ڈیزائنر کے وجود کے مسئلہ سے جمپ کھا کر ڈیزائنر کی صفات کے مسئلہ پر پہنچ جاتے ہیں جو ایک اور مخصوص نتیجے (ڈیزائنر کی صفات) کو مفروضے میں ٹھونسنے کا عمل ہے جبکہ مفروضہ اصل میں ڈیزائنر کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس کی صفات کو نہیں جو کہ ایک اور منطقی خلل ہے جو جائز نہیں۔

عقل مندوں کو سلام!

جواب دیں

0 Comments
scroll to top