Close

تخلیق اور تقدیر

سوال یہ تھا کہ خدا نے ہمیں کیوں بنایا؟ ایک صاحب نے اس سوال کا یوں جواب دیا: ” تمہیں یہ سوال کرنے کا حق نہیں ہے، اگر سڑک پر کوئی شخص بغیر کسی معقول وجہ کے تمہارے سر پر کچھ دے مارے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ موجود نہیں ہے؟ ”

چلیے ان صاحب کی اس منطق کا جائزہ لیتے ہیں، سب سے پہلے تو یہ کہ اگر سڑک پر کوئی شخص مجھے مارے گا تو میں اس کے موجود ہونے اور اس کے اس حملے کا گواہ ہوں گا چنانچہ اس کے وجود پر کبھی بھی شک نہیں کروں گا، مگر تم کہتے ہو کہ خدا نے ہمیں ایسے ہی بغیر کسی وجہ کے بنایا ہے جبکہ ہم اس نام نہاد تخلیق کی گواہی کے لیے موجود نہیں تھے، اس طرح ان صاحب کی یہ مثال حالات کے عدم تشابہ کی وجہ سے آسانی سے ساقط ہوجاتی ہے.

دوسرا یہ کہ اگر کوئی شخص بغیر کسی وجہ کے مجھ پر حملہ کردے تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ ظالم ہے، اور اگر ہم اس ظالم شخص کو خدا سے تشبیہ دیں گے تو خدا سے انصاف کی صفت ساقط ہوجائے گی کیونکہ وہ بھی ظالم ٹھہرے گا، تو کیا آپ کا خدا ظالم ہے؟

اس طرح سوال وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے کہ انسانوں کو تخلیق کرنے کا خدا کو کیا منطقی فائدہ ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس سوال کے جواب کے لیے ہمارے پاس دو آپشن ہیں:

اول: خدا کو انسانوں کی ضرورت ہے اس لیے اس نے انہیں تخلیق کیا.

دوم: خدا کو انسانوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس کے با وجود اس نے انہیں تخلیق کیا.

اگر پہلا آپشن منتخب کیا جائے تو خدا سے کمال کی صفت ساقط ہوجاتی ہے جس کے مطابق خدا کو اپنی مخلوقات میں سے کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے، اور کمال کی صفت کے ساقط ہونے سے خدا بھی ساقط ہوجاتا ہے.

اگر دوسرا آپشن منتخب کیا جائے تو خدا فضولیا ثابت ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی کام کو کرنے کے لیے عقلِ سلیم کے پاس کوئی نہ کوئی منطقی وجہ ہوتی ہے، اگر میں کوئی کمپیوٹر بناتا ہوں تو میرے پاس اسے بنانے کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی جیسے اس سے استفادہ حاصل کرنا، یا پھر میں اتنا احمق ہوں گا کہ بلا ضرورت ایک ایسی چیز بناؤں گا جس سے مجھے نا تو کوئی فائدہ ہوگا اور نا ہی اسے استعمال کر کے میں اس سے کسی قسم کا استفادہ حاصل کرنے کی توقع رکھوں گا، اب چونکہ دعوی یہی ہے کہ خدا کو انسانوں کی ضرورت نہیں ہے تو خدا فضولیا ہوا کیونکہ اسے نے بغیر کسی واضح وجہ کے مخلوقات کو تخلیق کیا، اب اگر خدا فضولیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ناقص ہے، اور نقص خدا سے کمال کی صفت کو ساقط کردے گا، اور کمال کی صفت کے ساقط ہونے پر خدا بھی ساقط ہوجائے گا.

بعض حضرات نے اس مسئلے کا یوں جواب دیا کہ: ” ہماری محدود عقل اس مسئلے کے کسی منطقی حل کا ادراک نہیں کر سکتی چنانچہ اس کے بارے میں سوچنا چھوڑ دو ”، اس پر میرا جواب یہ ہے کہ مخلوق میں نقص خالق کے نقص کی دلیل ہے، ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ خدا نے انسان کو عقل دی تاکہ وہ اسے اُس تک پہنچنے کے لیے استعمال کرے، اب اگر عقل محدود یا کمزور ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا نے اس تک پہنچنے کے لیے انسان کو یہ محدود اور کمزور عقل دے کر غلطی کی، اگر عقل ہی خدا تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے تو پھر خدا اسے محدود کیوں کرتا ہے اور اس کے سامنے اپنے نا ہونے کے دلائل کیوں رکھ دیتا ہے؟

فرض کرتے ہیں کہ میں نے 200 گیگا بائٹ کی ہارڈ ڈسک بنائی جبکہ میں (قادرِ مطلق انسان ہونے کے ناطے) 500 گیگا بائٹ کی ہارڈ ڈسک بنانے کی استطاعت رکھتا تھا تو کیا 200 گیگا بائٹ کے انتخاب کی کوئی منطقی وجہ ہے جبکہ میں 500 گیگا بائٹ کی ہارڈ ڈسک بنا سکتا تھا؟ یقیناً نہیں، یہاں صرف دو وجوہات ہوسکتی ہیں:

اول: میں 500 گیگا بائٹ کی ہارڈ ڈسک نہیں بنا سکتا اور اس طرح میری کمال کی صفت ساقط ہوجاتی ہے.

دوم: میں قادرِ مطلق ہوں اور 500 گیگا بائٹ یا اس سے زائد کی ہارڈ ڈسک بنا سکتا ہوں مگر میں نہیں چاہتا، اس طرح میں فضولیا ہوجاتا ہوں کیونکہ میں اس سے اچھی ہارڈ ڈسک بنا سکتا تھا مگر میں نے ایک غیر منطقی سبب کی وجہ سے ایسا نہیں کیا، یہاں قرآن کا یہ قول پیشِ نظر رہے کہ ” لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ” (کہ ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔) یعنی انسان کی تخلیق وہ سب سے بہترین تخلیق تھی جو خدا پیش کر سکتا تھا !!.

مُسیر یا مُخیر؟

ایک صاحب نے مسیر اور مخیر کے مسئلے کا جواب مندرجہ ذیل مثال پیش کر کے دیا:

” اگر میں اپنے بچے کے سامنے ایک چاکلیٹ اور ایک پتھر رکھ دوں، اور اپنی بیوی کو یہ یقین دلاؤں کہ بچہ چاکلیٹ کا ہی انتخاب کرے گا اور یہ بات کاغذ پر بھی لکھ لوں کیونکہ مجھے پیشگی علم ہے کہ وہ چاکلیٹ کا انتخاب ہی کرے گا، اور بچے نے چاکلیٹ کا انتخاب کیا تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ میں نے اسے چاکلیٹ منتخب کرنے پر مجبور کیا؟ ”

یہاں ایک بار پھر یہ صاحب غیر منطقی تشبیہ کے مغالطے میں پڑ گئے، اگر آپ اپنے بچے کو چاکلیٹ اور پتھر میں انتخاب کرنے کا موقع دیں تو یہاں آپ بہت ساری باتوں کے پیشِ نظر (جیسے بچوں کا چاکلیٹ کو پسند کرنا) یہ ” توقع ” کرتے ہیں کہ بچہ چاکلیٹ کا ہی انتخاب کرے گا، یہاں آپ کے ” پیشگی علم ” کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، کیا ہو اگر بچے کا پیٹ بھرا ہوا ہو؟ اگر پتھر بچے کی توجہ حاصل کر لے تو؟ یعنی یہاں ایک چھوٹا سا امکان موجود ہے کہ بچہ آپ کی توقعات پر پورا نہ اترے اور پتھر کا انتخاب کر لے، پس یہ ثابت ہوا کہ آپ کبھی بھی بچے کے انتخاب پر 100% پُر یقین نہیں ہوسکتے، یہاں فرق صرف یہ ہے کہ چاکلیٹ کے انتخاب کے امکانات 95% ہیں اور پتھر کے انتخاب کے امکانات 5%… مختصراً آپ کا یہ ” پیشگی علم ” کامل نہیں تھا اور قابلِ تغیر تھا… اس طرح آپ کا دعوی اور حجت دونوں ساقط ہوجاتے ہیں کیونکہ آپ کہتے ہیں کہ خدا کا پیشگی علم 100% کامل اور ناقابلِ تغیر ہے.

اب میرا آپ سے ایک سوال ہے، میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی خدا کو معلوم تھا کہ میں جہنم میں جاؤں گا، یعنی خدا اپنے مطلق علم کی وجہ سے 100% پُر یقین تھا کہ میرا انجام بالآخر جہنم ہوگا چاہے میں کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کر لوں، کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں مُسیر تھا مُخیر نہیں تھا؟

چلیے معاملے کی ایک بار پھر منطقی جانچ کرتے ہیں:

اول: اگر میں مخیر تھا تو اس کا یہ مطلب ہے ہوا کہ خدا کا میرے بارے میں جو پیشگی علم تھا میں اس کے برخلاف جاکر جنت میں جا سکتا ہوں، مگر اس طرح خدا کی مطلق علم کی صفت ساقط ہوجاتی ہے، اور مطلق علم کی صفت ساقط ہوجانے پر خدا ناقص ہوجائے گا، اور خدا کا نقص اسے اور اس کی تمام صفات کو ساقط کردے گا.

دوم: اب اگر میں مُسیر ہوں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں جتنی بھی کوشش کیوں نہ کر لوں میں وہ نتائج تبدیل نہیں کر سکتا جو خدا نے میرے لیے پیشگی متعین کر رکھے ہیں، اور اگر میں یہ نتائج تبدیل نہیں کر سکتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا ظالم ہے کیونکہ اس نے مجھے ایک ایسے انتخاب کی بنیاد پر سزا دی جو اس نے میرے لیے پہلے ہی متعین کر رکھا تھا اور میرا اس کی تبدیلی پر کوئی اختیار نہیں تھا، ظلم کی صفت خدا کی مطلق انصاف کی صفت ساقط کردے گی جس کے نتیجہ میں خدا کے کمال کی صفت بھی ساقط ہوجائے گی اور کمال کی صفت ساقط ہونے پر خدا ساقط ہوجائے گا.

مسئلہ یہ ہے کہ یہاں صرف دو آپشن ہیں، یا تو یہ خدا جاہل ہے (نہیں جانتا کہ میرا انتخاب اور انجام کیا ہوگا) یا ظالم (میرے انتخاب سے پہلے ہی وہ جانتا ہے کہ میں کیا منتخب کروں گا یوں میرے پاس اپنے افعال پر کنٹرول اور ان میں تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں) دونوں صورتوں میں ایک ایسا تضاد کھڑا ہوجاتا ہے جو خدا کو بری طرح ساقط کر دیتا ہے، آخر میں سورہ انعام کی آیت 111 پیش کرنا چاہوں گا:

وَ لَوۡ اَنَّنَا نَزَّلۡنَاۤ اِلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ وَ کَلَّمَہُمُ الۡمَوۡتٰی وَ حَشَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ کُلَّ شَیۡءٍ قُبُلًا مَّا کَانُوۡا لِیُؤۡمِنُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ یَجۡہَلُوۡنَ ﴿۱۱۱﴾
اور اگر ہم ان پر فرشتے بھی اتار دیتے اور مردے بھی ان سے گفتگو کرنے لگتے اور ہم سب چیزوں کو ان کے سامنے لا موجود بھی کر دیتے تو بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ بات یہ ہے کہ یہ اکثر نادان ہیں۔

28 Comments

  1. اینڈرسن شا صاحب… ہمارے لیے تو "اللہ” ہی خدا ہے… اور پروردگار ہے… اب ظالم ہے یا رحیم… غفار ہے یا قہار… ہمیں دونوں صورت قبول ہے…
    اگر دل مانے تو یہ ضرور پڑھیے اور سوچیے گا… بڑی مہربانی ہو گی:
    بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ (١)
    ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِينَ (٢) ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ (٣) مَـٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ (٤) إِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَإِيَّاكَ نَسۡتَعِينُ (٥) ٱهۡدِنَا ٱلصِّرَٲطَ ٱلۡمُسۡتَقِيمَ (٦) صِرَٲطَ ٱلَّذِينَ أَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ غَيۡرِ ٱلۡمَغۡضُوبِ عَلَيۡهِمۡ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ (٧)
    شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے (۱)
    سب تعریفیں الله کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے (۲) بڑا مہربان نہایت رحم والا (۳) جزا کے دن کا مالک (۴) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں (۵) ہمیں سیدھا راستہ دکھا (۶) اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا نہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے (۷)

  2. میرے پہلے تبصرے میں سورۃ الفاتحہ عربی فانٹ میں ہونے کی وجہ سے غلط چسپاں ہوئی ہے… جس کے لیے معذرت خواہ ہوں…

    مزید یہ کہ… الحمدللہ… ایمان کا تقاضا "اندھی تقلید” ہے… جس پر زیادہ تر مسلمان عمل پیرا ہیں… اب ہم آگے کا انجام تو نہیں جانتے لیکن یہ ضرور جانتے ہیں‌کہ اس تقلید میں‌ہی بھلائی ہے…

    اینڈرسن شا صاحب جتنی عقل تو ہر انسان میں نہیں‌ہوتی کہ وہ ریسرچ کرے اور اللہ کو اپنے طور پر اور اپنی مرضی کے مطابق کھوجنے کی کوشش کرے… لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے… کہ اینڈرسن شا صاحب جس طرح کے گستاخ کلمات، اللہ اور قرآن کی ذات کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس طرح کرنے والے مسلمان بھی آٹے میں‌نمک کے برابر ہیں… اینڈرسن شا صاحب، آپ بھی ابن ورق اور وفا سلطان جیسے "مسلمانوں” میں شامل ہو گئے… کچھ اچھا نہیں لگا… لیکن جیسے آپ کی مرضی… اللہ آپ کو ہدایت دے… آمین…

  3. تفسیر ابنِ خدا

    (١) شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
    ہر کام کے شروع میں خدا کا نام ضروری ہے کیونکہ وہ مہربان ہی نہیں بلکہ بڑا بھی ہے ساتھ میں رحیم بھی یعنی چاہے تو رحم کی گنجائش بھی ہے ـ

    (٢) سب تعریفیں خدا کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے
    جنم سے یہ خوبصورت ہے اور یقین بھی کرنا ہے کہ یہ خوبصورت ہی ہے ورنہ اچھا نہ ہوگا ـ یعنی جو چیز نظر آئے وہ خوبصورت ہے اور اندھے کیلئے سب کچھ خوبصورت ہے یا نہیں یہ اندھے پر منحصر ہے ـ چونکہ آیت مقدس ہے اسلئے یقین کرنا بھی ضروری ہے کہ خدا خوبصورت ہے اور سب سے اول اسی کی تعریف ہونی ہے ـ یہ سب جہانوں کا پالنے والا ہے ـ اور تم (لوگ) بیوقوف ہو بھکاریوں کو کھانا اور پیسے دیتے ہو ـ خدا نے مقدس آیت میں ارشاد فرما دیا کہ سب جہانوں کو پالنے والا یہی ہے تو ہے اس میں کوئی شک نہیں ـ مزدوری نہ کرو گھر بیٹھے رہو ـ بچے پیدا کرو اور آوارہ چھوڑ دو کیونکہ خدا ہی پالنے والا ہے ـ خدا سب جہانوں کا پالنے والا ہے سوائے غریبوں کے کیونکہ مقدس آیت میں غریب اور غربت والوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں ـ اسلئے غریب اس مقدس آیت کا مفہوم اپنے مطلب کا نہ نکالے ـ

    (٣) بڑا مہربان نہایت رحم والا
    پہلی آیت کی تفسیر دہرالی جائے کیونکہ غلطی سے یہ کاپی پیسٹ کی تھی اور پڑھنے والے قاری کو بھی حق ہے کہ پہلی آیت کا ترجمہ اور تفسیر کو اس تیسری آیت میں زم کرلے ـ

    (٤) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
    ورنہ کوئی چارہ نہیں ـ دوسرے مذاہب میں پیدا ہوتے تو غیر خداؤں کی عبادت کرتے ـ چونکہ اس مذہب میں پیدا ہوئے تو خالص تیری ہی عبادت ہو اور دوسرے خداؤں کا سوچنے کی گنجائش نہیں ـ اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، ہمارا یقین بھی کہ صرف تو ہی مددگار ہے ـ مگر سمجھ سے باہر ہے کہ رات دن عبادات کرو، تیرا ہی نام جپو لیکن نظر نہیں آیا کہ کہیں مدد کو آیا ـ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ عراق، فلسطین، پاکستان، افغانستان یا جہاں کہیں بھی امریکہ کی یلغار ہو وہاں تمہاری مدد ناممکن ہے ـ

    (۵) ہمیں سیدھا راستہ دکھا
    جی ہاں ہم یہاں کمپیوٹر پروگرامنگ سیکھ رہے ہیں، انجینئرنگ کر رہے ہیں ـ ٹائم ویسٹ کر رہے ہیں ـ اسلئے سیدھا راستہ دکھا کہ دو چار بم دھماکے کرکے سیدھا جنت میں تجھ سے آملیں ـ

    (٦) اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا
    یہاں انعام کا مطلب جنت مقام سے ہے ـ یعنی مراد جہادیوں کا راسطہ ہے جہاں پر خون خرابہ، دہشت گردی ہو کیونکہ خدا کو یہی پسند ہے ـ اب تک جوں توں مذہب پھیلا بس اسی خوں خرابے کے بل بوتے آیا اور اس میں مرنے والوں کا پتہ نہیں ہاں مارنے والوں کیلئے جنت انعام ہے ـ

    (٧) نہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے
    خدا شروع سے غضب ڈھاتا آیا ہے ـ جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور مارے گئے وہ شہید اور جو یقین نہ لائے ان پر خدا کا غضب نازل ہوگیا اور وہ خدا کے ماننے والوں پر حاکم بن گئے ـ

    (نوٹ : اس کی تفسیر نکالتے ہوئے بڑا مزہ آ رہا تھا مگر ٹائم نہ ہونے کیوجہ تفسیر شاٹ کرنی پڑی)

  4. شعیب، آپ لگے رہو یار… آپ سے امید بھی کیا کی جا سکتی ہے… مجھے کوئی فرق نہیں پڑ رہا کہ آپ کیا لکھ رہے ہو… کیا سوچتے ہو… اور کیا بولتے ہو…؟

    جو آپ لکھ رہے ہو… وہ آپ کی ذاتی سوچ ہے… اور جو میں نے لکھا وہ میری سوچ ہے… اور ہم دونوں کو حق ہے اپنی اپنی سوچ کا پرچار کرنے کا… باقی اللہ ہی جانتا ہے… کہ کون صحیح ہے… اور کون غلط…

    والسلام…

    1. "باقی اللہ ہی جانتا ہے… کہ کون صحیح ہے… اور کون غلط… ”
      آپ کے اللہ کی جانب سے رزلٹ کا انتظار ہے .
      مگر . . . . ہمارے اپنے خدا کا رزلٹ یہ ہے کہ ایسے کئی آئے گئے . مرنے والے کو خود پتہ نہیں مگر ان کے مریدوں نے بتایا کہ ولی صاحب مرتے وقت کلمہ کا ورد کرتے مرے تھے . پھر کچھ دنوں بعد یہ افواہ بھی گردش کرنے لگی کہ ان کے مرید کے خواب میں ولی صاحب جنت میں بیٹھ کر خوشیاں منا رہے تھے لیکن ان کے منہ میں دانت تھے یا نہیں ٹھیک سے نظر آیا نہیں . (اگر یہ بھی لکھ ڈالتے تو حدیث مکمل ہونے سے رہ جاتی).
      سبھی خدا نیک اور صالح ہیں مگر ان کے ماننے والے مستنڈے (بندے) خداؤ کی آپس میں جنگ کے خواہشمند ہیں . سچ بات تو یہ ہے کہ سبھی خدا آپس میں‌لڑتے نہیں‌بلکہ اپنے بندوں کو آپس میں‌لڑواتے ہیں ہی ہی ہی (اس کو خدا کی ہنسی تصور کی جائے).
      بات کو نوٹ کیا جائے مکرر عرض ہے بات کو نوٹ کیا جائے کہ بلاؤ اپنے خدا کو چاہے اسکا نام نامی کچھ بھی ہو اور بولو کہ اس پوسٹ میں اسکی زبردست بے عزتی چل رہی ہے وہ آئے اور اپنا حساب برابر کرے . ایک خدا کا تمہارے خدا کو چیلنج ہے کہ ہمت ہے تو مناظرہ کرلے یا پھر ہاتا پائی کی بات ہو تو ہم پہلے سے معذرت چاہتے ہیں .

      1. جیسی نیت ویسی مراد
        ہدوٌ کو خواب میں اپنا بھگوان نظر آتا ہے
        عیسائیوں کو بی بی مریم
        اور مسلمانوں میں تو لمبی لسٹ ہے
        شیعہ حضرات کو علی
        سنی کو محمد
        اور بہت تو ایسے ہیں جن کو روز نئے پیرو مرشد نظر آتے ھیں

  5. شعیب صاحب، بس یہی میرا جواب ہے…

    بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
    قُلۡ يَـٰٓأَيُّہَا ٱلۡڪَـٰفِرُونَ (١) لَآ أَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُونَ (٢) وَلَآ أَنتُمۡ عَـٰبِدُونَ مَآ أَعۡبُدُ (٣) وَلَآ أَنَا۟ عَابِدٌ۬ مَّا عَبَدتُّمۡ (٤) وَلَآ أَنتُمۡ عَـٰبِدُونَ مَآ أَعۡبُدُ (٥) لَكُمۡ دِينُكُمۡ وَلِىَ دِينِ (٦)
    شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
    کہہ دو اے کافرو (۱) نہ تومیں تمہارے معبودوں کی عبادت کرتا ہوں (۲) اور نہ تم ہی میرے معبود کی عبادت کرتے ہو (۳) اور نہ میں تمہارے معبودوں کی عبادت کروں گا (۴) اور نہ تم میرے معبود کی عبادت کرو گے (۵) تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین (۶)

    1. شروع خدا کے نام سے جو بہت بڑا نہیں بکلہ نہایت نرالہ ہے
      کہہ دو کافر کو جس نے تمہیں کافر بولا (۱) کہ ہم تمہارے خیالی معبود کی عبادت نہیں کرتے (۲) اور نہ تم اپنی زبردستی عبادت سے باز آتے (۳) اور نہ میں تمہارے خیالی معبود کی عبادت کروں گا (٤) اور تمہیں جائز ہے ہمارے معبود کی عبادت کرو (۵) تمہارے لیے تمہارا پرانا دین ہے اور میرے لیے میرا نیا دین (٥)

      1. ہم معافی چاہتے کے ہماری بات آپکو اپنے دین پے چوٹ کی طرح محسوس ہوئی ۔
        اپنے دین کا نام آپ خود ہی تجویز کر لیں تو ذیادہ مناسب رہے گا ۔ مثلا دینِ تمسخرِ دین ۔
        ایک دفعہ پھر سوری کہ ہم نے اپنی بات ذیادہ گھما پھرا کے نہیں کی ۔ آئندہ کوشش کرینگے کہ ایسا نہ ہو ۔

  6. اس کی مثال میں نے ایک بار کچھ ایسے سمجھی تھی کہ جب آپ ایک کمپیوٹر پروگرام بناتے ہیں اور اسے اچھی طرح ڈی بگ کرتے ہیں اور وہ پروگرام مکمل طور پر اغلاط سے پاک ہو جائے تو جب بھی اس پروگرام کو آپ چلائیں‌گے تو اس کا ہر عمل آپ کے لئے پہلے سے انجان نہیں‌ہوگا. یعنی ہر ان پٹ اور ہر آؤٹ پٹ کو آپ پہلے سے معلوم کر چکے ہوں گے. اگر معلوم نہ بھی ہو تو آپ اس کو سو فیصد درست جان سکتے ہیں کہ کس ان پٹ پر کیا آؤٹ پٹ آئے گی. تاہم یہ ایک انتہائی چھوٹی سی مثال ہے اور اسے میں نے محض ایک مثال برائے مثال لکھا ہے.

      1. میں نے ایک مثال لکھی تھی۔ نکتہ نظر یہ تھا کہ جیسے ہم ایک عام سے پروگرام کو بنانے کی وجہ سے اس کی لاجک کو سمجھتے ہیں اور چاہے ہمیں ہر بار ان پٹ کا علم نہ بھی ہو تو لاجک کی بنیاد پر ہم ہر ممکنہ آؤٹ پٹ کو پہلے سے ہی جانتے ہیں۔

        پروگرام کا درست نہ چلنا تو ڈی بگنگ کی خامی کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن اگر ایک پروگرام درست نہ چلے تو آپ کیا کریں گے؟ اسے ڈی بگ کریں گے؟ اسے دوبارہ چلائیں گے؟ اسے سرے سے مٹا کر دوبارہ سے نیا پروگرام لکھیں گے؟ لاجک کو درست کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ دیکھیں کہ اگر مثال کے مطابق پروگرام درست نہیں چلتا تو اس کا ذمہ دار جو بھی ہو، نزلہ تو پروگرام پر ہی گرے گا نا۔ اب آپ نے کتنی بار یہ سوچا کہ پروگرام کا اس میں کیا قصور میں اسے ایسے ہی قبول کر لوں جیسا کہ یہ ہے؟ آخر میں نے ہی اسے لکھا ہے۔

        1. نزلہ پروگرام پر گرے گا؟ نزلہ پروگرامر پر گرتا ہے اور پروگرامر پر ہی گرے گا.. آپ false Analogy کے استعمال سے بظاہر ایسا دکھا سکتے ہیں یا ایسے نتائج اخذ کرسکتے ہیں جو وقتی طور پر آپ کے موقف کو مضبوط کریں لیکن اسی پیش کردہ مثال میں رینڈم نمبر سافٹ ویر کا خالق ہر ممکنہ آؤٹ پٹ سے ناواقف ہوگا صرف باؤنڈری کیسز کا علم رکھے گا. پھر جزا اور سزا کے پورے سسٹم کو بیان کرتے ہوئے آپ کو اپنی پوری مثال کا رد خود پیش کرنا پڑے گا. false analogy کے اس منطقی مغالطے کا یہ عام مسئلہ بلکہ ڈیلیما ہے.

          1. ارے نہیں جناب۔ آپ الٹ ترتیب سے دیکھ رہے ہیں۔ پروگرامر اور پروگرام کی حد تک دیکھیں۔ کیا پروگرام اپنے پروگرامر سے سوال جواب کی طاقت رکھتا ہے؟ نہیں نا؟ دوسرا رینڈم نمبر کی لاجیک کو ذرا چیک کیجئے گا۔ جس زمانے میں میں نے پروگرامنگ سیکھی تھی، رینڈم کا فنکشن بنا بنایا لائبریری کی صورت میں ملتا تھا لیکن اگر اس فنکشن کو چیک کیا جائے تو وہ اتنا بھی رینڈم نہیں رہتا۔ سزا اور جزا تو تب ہوگی نا جب پروگرام اپنے پروگرامر پر قبضہ پا لے گا۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا، پروگرام کو وہی کرنا ہوگا جو پروگرامر چاہے گا۔ چاہے وہ ڈیلیشن ہو، موڈی فیکیشن ہو یا پھر ٹرمینیشن۔

          2. 🙂 تو اس کا مطلب آپ کی مثال خالق اور ذہین مخلوق کے تعلق کو ظاہر نہیں کرتی ہم خواہ مخواہ بحث میں الجھے ہیں 🙂

  7. ارے نہیں‌جناب. مثال تو چھوٹی سی ہی ہے کیونکہ بہت کم لوگ کمپیوٹر سے وابستہ ہیں، ان سے بھی کم افراد پروگرامنگ کو جانتے ہیں اور ان سے بھی کم افراد یہاں اس صفحے تک آتے ہیں اور اس مثال کو پڑھتے ہیں. تو مثال تو چھوٹی سی ہوئی نا، اب اس کا اثر کیا ہوگا، یہ آپ بتائیں گے 🙂

  8. بھئی میں تو یہ سمجھا ہوں کہ حال ہمارے لیے حال ہے ماضی ہمارے لیے ماضی ہے مستقبل ہمارے لیے مستقبل ہے خدا زمان و مکان سے ماورا ہستی ہے اور اس کے لیے زمان کی یہ تخصیص نہیں ہے ہمارا حال اس کے لیے حال نہیں ہے ہمارا ماضی اس کے لیے ماضی نہیں ہے ہمارا مستقبل اس کا مستقبل نہیں ہے وہ زمانوں کا بھی خالق ہے اور ماضی حال اور مستقبل کو بیک وقت دیکھتا ہے اس لیے اس کے لیے کچھ دشوار نہیں ہے کہ وہ ہمارے مستقبل کی بات کا پہلے ہی سے اندازہ لگا لے….یعنی ہم اپنے کیے کے خود ذمہ دار ہوں گے لیکن ہماری فائل جو بعد میں تیار ہونی ہے خدا کی زمانے پر دسترس کی وجہ سے پہلے ہی اس کے پاس موجود ہوتی ہے….ہمیں وقت اور زمانے کے درمیان فرق کو سامنے رکھنا چاہیے….

  9. اینڈرسن شا صاحب آپ نے بہت لمبا کالم لکھا ۔بہت محنت کی۔۔۔تخلیق انسان کی دو صورتیں بتائیں آپ نے اور خود آپ نے اعتراض بھی لگا دیے۔چلیں‌بطور بحث آپ کے اعتراضات قبول ہیں۔۔۔۔۔اب آپ سے سوال ہے کہ آپ بتائیں کہ آپ کے نزدیک تخلیقَ انسان کا کیا مقصد ہے؟

  10. انسان کو جو علم دیا گیا اس کے لئے لفظ قلیل استعمال ہوا ہے۔قلیل کا مطلب بتانا ضروری نہیں۔ضروری امر یہ ہے کہ قلیل علم پر انسان زعم کرتا ہے اور تکبر میں آ کر شیطان کا شکار ہوتا ہے۔ہم اس دنیا میں اپنے اطراف نظر دوڑائیں تو ہمارا علم جواب دے جاتا ہے کہ نا بابا اس کا مجھے کچھ پتہ نہیں۔انسان کے جسم میں سرخ خلیوں کے اندر کا نظام ایسا ہے جس کو سمجھنے کی اب تک جستجو ہو رہی ہے۔یہ صرف ایک مثال ہے انسانی قلیل علم کی۔کجا بحث ہے اس کے علم کی باتوں پر جس جو ان سب کا خالق ہے؟ اس نے انسان کیوں بنایا، اس نے یہ کیوں کیا یا اُس نے وہ کیوں‌کیا۔یہ تو اعتراضات ہیں علمی بحث نہیں۔خدارا قرآن کو سمجھنے کی کوشش کیجئے، جتنا سمجھ میں آئے اس پر عمل ہی آخرت کو آسان بنانے کے لئے کافی ہے۔
    یہ سوال خود سے بھی کیجئے گا کہ انسان کو کیوں تخلیق کیا گیا۔

  11. There is a term used in cosmology which is called "space time loaf”, this describes all the events and all the time from big bang till eternity. If we consider someone sitting outside this space time loaf and view it from outside, he can see what has happened earlier and,, what will happen in future. We can consider Allah as this type of an entity who can view all of it. So no point in discussing his ability of knowing the future.

جواب دیں

28 Comments
scroll to top