Close

انسانیت

کسی کو بھی انسان کو آزاد کرنے والے مذہب پر بات کرنے سے پہلے یہ یقین ہونا چاہیے کہ اس مذہب نے گر انسان کو کسی چیز سے آزاد کیا ہے تو بدلے میں اسے دوسری کسی چیز کا غلام نہیں بنایا ہے…

ہر وہ جو آسمان سے کوئی پیغام لاتا ہے نبی نہیں ہوتا ہے… ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں انسانیت کے لیے بڑے بڑے پیغامات چھوڑے مگر نبوت کا دعوی نہیں کیا… اس کے با وجود دنیا ان عظیم لوگوں کا احترام اور قدر کرتی ہے…

اس سے پہلے کہ ہم دنیا کی مصیبتوں کے ذمہ دار کے تعین پر خدا اور شیطان کے درمیان اختلاف کریں ہمیں پہلے بطور انسان کے اپنی ذمہ داری کا تعین کرنا ہوگا…

جو ہم انسانوں کو اُلوہیت کے مسئلے پر آپس میں اختلاف کرتے پاتا ہے، جو ہمارے ادراک سے ما وراء بھی ہے، ہمیں اپنی انسانیت پر متفق ضرور پاتا ہے جو ہمارے وجود کا جوہر ہے…

ہماری سب سے بڑی غلطی اُن ہستیوں کی غلطیوں کی پردہ پوشی کے لیے مختلف توجیہات کی تلاش ہے جنہیں ہم انبیاء کہتے ہیں بجائے اس کے کہ ہم ان غلطیوں کا اعتراف کر لیں… کیونکہ اس طرح ہم انہیں خدا بنا بیٹھیں گے اور کسی مخصوص صورت میں ان کی غلطیوں کو قانون، جبکہ دوسری صورت میں ہم اس سے بہتر فیصلہ کرنے کے قابل ہوتے.. یہ بات مدِ نظر رہے کہ ان غلطیوں کا اعتراف کرنا دراصل ہماری ذہنی پختگی کی دلیل ہوگی، ہم ان گزرے لوگوں کی سیرت سے بہتر انتخاب کر سکیں گے جنہیں ہم انبیاء کہتے ہیں…

خدا کے وجود کی صورت میں اس کی طاقت کا تعین اس بات سے نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر اپنے دشمنوں کو تباہ وبرباد کرنے کے قابل ہے جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں.. بلکہ اس کی طاقت کا تعین اس بات میں ہے کہ وہ کس قدر مُردوں جیسی زندگی گزارنے والوں کی زندگی کو حقیقی زندگی میں بدل سکتا ہے، وہ کس قدر دلوں کی نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل کر سکتا ہے..

ایسے انسان کو ہم کیا نام دیں گے جس نے اپنی خواہشات کو بے لگام کردیا.. پھر انہیں بچانے کے لیے اپنے فرضی قوانین وضع کیے.. اور پھر لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کی تقدیس کریں؟!

کون زیادہ طاقتور ہے؟

وہ خدا جو اپنی کتابوں کو تبدیلی سے محفوظ نہ رکھ سکا؟! یا وہ انسان جس نے اس خدا کی کتابوں کے ساتھ جیسا چاہا کھلواڑ کیا اور اس میں اپنی من پسند تبدیلیاں کردیں؟!

اگر مقدس کہلائے جانے والے متن کا مقصود انسان ہی ہے تو پھر انسان کو اس بات کی اجازت کیوں نہیں ہے کہ وہ اپنی بھلائی کے لیے جیسا چاہے مقدس متن وضع کر لے؟

اگر آپ خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں تو اس سے پہلے کہ آپ یہ سوال کریں کہ اے خدا تو کہاں ہے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ آپ یہ سوال کریں کہ اے انسانیت تو کہاں ہے؟

آپ پر لازم نہیں ہے کہ آپ اس پر یقین کریں جس پر میں ایمان رکھتا ہوں… لیکن مجھ پر لازم ہے کہ آپ جس چیز پر ایمان رکھتے ہیں میں اس کا احترام کروں…

آپ کے خدا کو میں صرف آپ کے ذریعے سے ہی دیکھ سکتا ہوں، لہذا اپنے قول وفعل میں احتیاط برتیں کیونکہ اس طرح آپ مجھے اپنے خدا کا تعارف دے رہے ہوتے ہیں جس کی تاویل کے لیے آسمانی کہے جانے والے کسی متن کی شہادت کی ضرورت نہیں ہے.

کسی پیغام کو ہم زندگی کا پیغام کیسے قرار دیں جبکہ اس کے گرد ہر وقت موت ہی ناچ رہی ہو؟!

خدا آکر ہمارے لیے کیوں نہیں مر جاتا بجائے اس کے کہ وہ ہم سے اپنے لیے مرنے کا مطالبہ کرے؟

جب دو کتابوں میں آپس میں تضاد ہو تو یہ بات یقینی ہے کہ ان کا مصدر ایک نہیں ہے…

اگر کوئی نبی سب کے لیے ایک مثالی نمونہ ہوتا ہے تو پھر کچھ چیزیں صرف اس کے لیے ہی کیوں جائز ہوتی ہیں؟!

انسان کو کیا فائدہ ہوگا اگر وہ ساری دنیا جیت کر خود کو ہاردے؟

اگر آپ نظر آنے والے اپنے انسان بھائی سے محبت نہیں کرتے تو میں کیسے مان لوں کہ آپ اپنے اُس خدا سے محبت کرتے ہیں جو آپ کو نظر نہیں آتا؟!

کسی بات پر اختلاف ہی ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے کا بہترین وقت ہے… یہ وہ وقت ہے جب ہم اپنے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے نکلیں…

حقیقی انسان وہ ہے جو اُن سے بھی انسانی سلوک کرے جو اپنی انسانیت کھو چکے ہیں.. یہی حقیقی انسان کا امتحان ہے.

3 Comments

  1. آپ انبیاء کو رو رہے ہیں یہاں تو لوگ صحابہ اکرام کو اوربزرگان دین کو بھی غلطیوں سے پاک سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
    🙁
    خدا کے وجود کی صورت میں اس کی طاقت کا تعین اس بات سے نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر اپنے دشمنوں کو تباہ وبرباد کرنے کے قابل ہے جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں.. بلکہ اس کی طاقت کا تعین اس بات میں ہے کہ وہ کس قدر مُردوں جیسی زندگی گزارنے والوں کی زندگی کو حقیقی زندگی میں بدل سکتا ہے، وہ کس قدر دلوں کی نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل کر سکتا ہے..
    سچ تو یہی ہے،
    اللہ بس باقی ہوس

  2. ویسے تو اس پوری پوسٹ‌ میں کافی زیادہ سوالات ہیں مگر ایک سوال جو مجھے قدرے آسان لگا اور جس کا جواب جو میرے ذہن میں ہے اسے تحریر کرنا چاہوں‌گا.

    اگر کوئی نبی سب کے لیے ایک مثالی نمونہ ہوتا ہے تو پھر کچھ چیزیں صرف اس کے لیے ہی کیوں جائز ہوتی ہیں؟!
    یہ چیز تو ہم اب بھی ملاحظہ کرتے رہتے ہیں کہ ہر ملک کے باشندے ایک جیسے حقوق اور فرائض رکھتے ہیں مگر کچھ لوگ جو مختلف اہم نشستوں اور عہدوں پر فائز ہوتے ہیں وہ کچھ استثنات کے حامل بھی ہو جاتے ہیں اور عموما انہیں رول ماڈل بھی گردانا جاتا ہے. سربراہان مملکت اس کی ایک بڑی اور واضح مثال جو بہت سے ممالک میں چند ایسی مراعات اور استثنات کا حامل ہو جاتا ہے جو کسی دوسرے شخص کے پاس نہیں ہوتی.

    ویسے پوری تحریر میں جس نکتہ کی طرف اشارہ ہے وہ قابل فہم ہے سوائے اس استثنی کے متعلق سوال کے. آپ کے یہ الفاظ گراں قدر اور قابل غور ہیں

    آپ کے خدا کو میں صرف آپ کے ذریعے سے ہی دیکھ سکتا ہوں، لہذا اپنے قول وفعل میں احتیاط برتیں کیونکہ اس طرح آپ مجھے اپنے خدا کا تعارف دے رہے ہوتے ہیں جس کی تاویل کے لیے آسمانی کہے جانے والے کسی متن کی شہادت کی ضرورت نہیں ہے.

جواب دیں

3 Comments
scroll to top