Close

باطل مشکل

 

❞سفید❝ یا ❞سیاہ❝

دو بیساکھیاں
جن کے سہارے
ہر وہ اپاہج ذہن چلتا ہے
جو حقیقی سرمئی فضاء میں
اڑنے سے عاجز ہوتا ہے

باطل مشکل یا سیاہ وسفید کا مغالطہ

کوئی شخص اس مغالطے میں تب پڑتا ہے جب اپنی حجت اس مفروضے پر قائم کرتا ہے کہ صرف دو ہی اختیارات (آپشنز) دستیاب ہیں یا صرف دو ہی ممکنہ نتائج ہیں اس سے زیادہ نہیں جبکہ دوسرے اختیارات اور نتائج موجود ہوتے ہیں، یہ کسی موقف یا معاملے کے باقی تمام تر ممکنات کو ختم کر کے صرف دو اختیارات تک محدود کردیتا ہے جن کا کوئی تیسرا نہیں ہوتا، ان دو اختیارات میں ایک واضح طور پر باطل ہوتا ہے اور دوسرا صاحبِ مغالطے کی اپنی پسندیدہ رائے ہوتی ہے.

مثالیں:

1- آپ یا تو ہمارے ساتھ ہیں یا پھر ہمارے خلاف ہیں (نائن الیون کے بعد جارج ڈبلیو بُش کا بیان).

2- پاکستان سے محبت کریں یا اسے چھوڑ دیں.

3- یا تو آپ ہمارے ساتھ یہ جنگ لڑیں یا ڈرپوک اور غدار کہلائیں.

4- یا تو آپ لکس صابن استعمال کریں یا پھر اپنی جلد کی خوبصورتی داؤ پر لگا دیں.

ذرا پیچیدہ شکل:

1- یا تو اس شخص نے واقعی کوئی خلائی مخلوق دیکھی ہے یا پھر یہ شخص پاگل ہے، مگر ہم نے کبھی اس شخص میں ایسی کوئی علامت نہیں دیکھی جس سے پتہ چلتا ہو کہ یہ شخص پاگل ہے.

2- یا تو میرے پاس واقعی کچھ خصوصی طاقتیں ہیں یا پھر میں جھوٹا اور دھوکے باز ہوں، مگر میں نے زندگی میں کبھی کسی کو دھوکہ نہیں دیا! (ایک تیسرا امکان نظر انداز کردیا گیا کہ: مجھے وہم بھی ہوسکتا ہے).

یہ مغالطہ عام طور پر دکانداروں یا سیلز مینوں میں زیادہ رائج ہوتا ہے جو گاہک کے اختیارات (آپشنز) اتنے کم کردیتے ہیں کہ اس کے پاس سوائے ان کی پیش کردہ مصنوعات ہی باقی رہ جاتی ہیں… یہ مغالطہ سیاستدانوں کے ہاں بھی رائج ہے جو ہر اس شخص یا گروہ کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں جو ان کے ساتھ نہ ہو اور اپنی تصوراتی زمرہ بندی میں غیر جانبداروں کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑتے… مذہبی انتہا پسندوں کی تقریروں میں بھی یہ مغالطہ کافی عام ہے جو سادہ لوحوں اور ❞عقل کے سست❝ لوگوں کے سامنے دنیا کی انتہائی درجے کی سادہ، سطحی، جعلی اور بگڑی ہوئی تصویر پیش کرتے ہیں، درویش خراسانی صاحب کا یہ تبصرہ اس مغالطے کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے.

اس مغالطے میں خامی یہ ہوتی ہے کہ دو اختیارات تمام امکانات کا احاطہ نہیں کر سکتے، مزید وضاحت کے لیے اس کی تجریدی صورت یوں ہوتی ہے:

1- یا تو آپ ق کا انتخاب کریں یا ک کا
2- دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے
3- آپ ق کا انتخاب نہیں کر سکتے
4- چنانچہ آپ کو لازماً ک کا انتخاب کرنا چاہیے

اوپر کے سیناریو میں خلل مقدمہ نمبر 2 کا جھوٹ ہے.

یہ مغالطہ سوچ کو محدود کرتا اور ذہنی بالیدگی کی علامت ہوتا ہے، اسے نمایاں طور پر نسلی تفاخر Ethnocentrism میں دیکھا جاسکتا ہے، یعنی چیزوں کو دیکھنے میں نسل/جماعت/مذہب/گروہ کی مرکزیت کہ ہمارا گروہ ہی ہر چیز کا محور ہے اور یہی وہ پیمانہ ہے جس پر دیگر تمام چیزوں کو پرکھا جانا چاہیے اور دیگر تمام گروہوں کی درجہ بندی کی جانی چاہیے کیونکہ: ہمارا گروہ حق پر ہے اور دیگر باطل پر ہیں.. یہ انتہاء پسندی ہی قوموں کو اس غلو میں مبتلا کردیتی ہے کہ کچھ فضائل/عناصر اسی کے لیے مخصوص ہیں اور اسے دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں، یہی ذہنی بالیدگی تہذیبوں کے ارتقاء میں رکاوٹ اور ان کے زوال کا سبب بنتی ہے، اور یہی ذہنی بالیدگی مختلف گروہوں کے درمیان نفرت کو جنم دیتی ہے اور انہیں ایک وہمی مقدس جنگ کی طرف دھکیل دیتی ہے اور زمانے کی تبدیلیوں کو قبول کرنے اور دورِ حاضر کے نئے عالمی معاشرے میں مدغم ہونے سے روکتی ہے.. یہ ذہنی بالیدگی گروہوں کو درست منطقی نہج پر نہیں سوچنے دیتی، ان کی سوچ کی حد صرف ❞ہم❝ بمقابلہ ❞وہ❝ کے گرد گھومتی رہتی ہے اور حد درجہ سادہ ہوجاتی ہے کہ یا تو سب خیر ہے یا سب شر ہے (1).

————–
حوالہ جات:
1- The Growth of the Mind: And the Endangered Origins of Intelligence

8 Comments

    1. اگر آپ اس پوسٹ کو بغور پڑھنے کی زحمت فرماتے اور دیکھتے کہ کس تبصرے کی بنیاد پر لکھی گئی ہے تو آپ ایسی بات نہ کرتے کہ جس کا موضوع سے تعلق نہ ہونے کے برابر ہے۔
      چلیں آپ کی مدد کر دیتے ہیں اس تحریر کو سمجھنے میں کیونکہ آپکا زور سمجھنے کی بہ نسبت کچھ نہ کچھ جواب دینے پر ہے۔

      درویش خراسانی صاحب نے کسی موقعے پر درج ذیل کلمات ارشاد فرمائے تھے۔ آپکی مزید آسانی کے لئے کچھ کومنٹس بریکٹ میں کر کے اپنی طرف سے لکھ رہا ہوں۔
      —————————————————————–
      “یہ حالت آپکی بھی ہے اینڈرسن شا صاحب .ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک میں ہونا آپ پر لازم ہے چاہے آپ لاکھ چیخیں کہ میں کسی گروہ میں نہیں ہوں لیکن آپکے نا چاہتے ہوئے بھی آپ ایک گروہ میں شمار کئے جائیں گے.

      اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کونسے گروہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں.

      (آپ یا تو ق کا انتخاب کریں یا ک کا، دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے)

      اسلام میں شمولیت کیلئے اسکے بنیادی عقائد کے ساتھ آپ کا متفق ہونا ضروری ہوگا ، ورنہ کسی ایک بنیادی عقیدے سے اختلاف آدمی کو حز ب الشیطان میں شامل کرنے کیلئے کافی ہے.

      ہاں حزب الشیطان میں یہ پابندی نہیں کہ آپکا یہ یہ عقیدہ ہونا لازمی ہے بلکہ اسکی شرط صرف یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد سے اختلاف کیا جائے بس یہی حزب الشیطان میں شمولیت کیلئے کافی ہے

      (آپ ق کا انتخاب نہیں کر سکتے، کیونکہ ق منفی انتخاب ہے، غلط انتخاب ہے)

      میرے نزدیک یہ انسان بڑا بے وقوف اور نادان ہے جو کہ اپنے خالق کے گروہ سے نکل کر حزب الشیطان مین شامل ہوجائے.

      (چنانچہ آپ کو لازماً ک کا انتخاب کرنا چاہیے)
      —————————————————————–
      امید ہے اب بھی وضاحت نہیں ہوئی ہوگی۔

    1. میں نے بالکل درست اندازا لگایا تھا کہ "امید ہے اب بھی وضاحت نہیں ہوئی ہوگی”۔

      عمومی تبصرہ اگر صحیح ہوتا تو اوپرپیش کئے گئے تبصرے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ آپ نے اپنے "جنرل تبصرے” میں یہ فرمایا ہے کہ "we cannot generalize this statment that everytime we have more than 2 options”
      اس تحریر میں کہیں کچھ ایسا فرض نہیں کیا گیا کہ ہر معاملے میں ہمارے پاس دو سے زیادہ آپشن ہوتے ہیں۔ نہ ہی کسی بات کو "جنرلائز” کیا گیا ہے کہ ہر بار ہمارے پاس دو آپشن ہی ہوتے ہیں۔
      یہ تحریر ایک خصوصی صورتحال کو مدِنظر رکھ کر لکھی گئی ہے چنانچہ اسکو "جنرلائز” کرنا یا سمجھنا درست "اپروچ” نہیں ہے۔

      آپ نے فرمایا:
      "e.g. one can say Almighty is present or Almighty is not present, there is no third option that Almighty is partially present”
      اس بات کا اس سارے موضوع سے تعلق ہی کیا بنتا ہے؟ "آل مائیٹی” کا ہونا یا نہ ہونا تو زیرِ بحث ہی نہیں ہے۔ یہ بات تو ہر خاص و عام جانتا ہے کہ بعض معاملات میں ہمارے پاس صرف دو آپشن ہوتے ہیں اور بعض میں دو سے زیادہ، ایسا بھی ہے کہ ہمیں بہت ساروں میں سے بھی ایک ہی آپشن منتخب کرنا ہوتا ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہےکہ بہت ساروں میں سے کئی یا سارے بھی منتخب کئے جا سکتے ہیں۔
      میرے قابلِ احترام دوست، یہاں بات جنرل ہو ہی نہیں رہی، "سپیسیفک سچویشن” کے بارے میں بات ہو رہی ہے، اس "سپیسیفک سچویشن” کو جنرلائز کرنا یا اس پہ "جرنیلی تبصرہ” کرنا چہ معنی دارد؟ (اَن-لیس یُو وانٹ تو مِس گائیڈ پیپل، دیٹ آتھر ڈونٹ نو وھاٹ ہی از سیئنگ)۔
      اب اگر جنرل تبصرے سے مراد یہ ہے کہ "ویسے ہی ایک بات کہی ہے” تو پھر یہ "سپام” کی ایک قسم ہے، چنانچہ اپنی بات کو تھوڑی سی تدوین کے ساتھ پھر دوہراؤں گا کہ یا آپ موضوع کو نہیں سمجھ پائے یا پھر غیر متعلقہ (اِر-ریلیونٹ) تبصرہ کرتے ہوئے "ٹرولنگ” فرمائی ہے۔

    1. اگر منطقی مغالطوں کی عملی مشق ملاحظہ کرنا ہو تو یہ کتاب ایک بہترین مثال ہے۔ مصنف کے اپنے متضاد خیالات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ وہ موضوع کا سرسری احاطہ بھی نہیں رکھتے۔
      وہی مشہور منطقی مغالطے جیسا کہ “You Too Falacy”، گاڈ آف دی گیپس یعنی دلیل کی عدم موجودگی کو دلیل بنانا وغیرہ۔ گاڈ آف دی گیپس تو گویا اس کتاب کی بنیاد ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی کہے کہ ایک سولہ پاؤں اور آگ اگلنے والی بطخ کا وجود ہے، اور اس کتاب میں اپنائی گئی اپروچ استعمال کرتے تو کوئی مائی کا لال، حتیٰ کہ خود مصنف ِ کتاب بھی سولہ پاؤں اور آگ اگلنے والی بطخ کا انکار نہ کرسکنے پہ مجبور ہوں گے کہ جو سولہ پاؤں اور آگ اگلنے والی بطخ کی موجودگی کی دلیل ہے۔
      اس طرزِ دلیل سے قدیم یونان کا متھالوجیکل مذہب اور اسکے سارے خدا بھی ثابت ہوتے ہیں۔
      بعض اوقات وہ علت معلول (گول منطق) کے چکر میں پھنسے نظر آتے ہیں اور بظاہر چالاکی سے ایک کائناتی ذہن کو علت العلل قرار دے کر اپنے حق میں دلیل گھڑ لاتے ہیں۔ کوئی حضرت مولانا سے پوچھے تو سہی کہ خود اس ذہن کی علت کیا ہے؟ اگر یہ سب ایک ذہن اور اسکے ارادے کی کارستانی ہے تو وہ ارادہ کہاں سے آیا؟ “کب” وقوع پذیر ہوا؟ اس سے “پہلے” وہ کائناتی ذہن اور ارادہ کہاں تھے؟ موجود تھے یا نہیں۔ اگر موجود تھے تو اس سے پہلے واقعہ کیوں نہیں ہوا اور اگر ارادہ موجود نہیں تھا تو ارادہ آیا کہاں سے؟ اس ارادے کا محرک کیا تھا؟ مادہ “کہاں” سے آیا؟۔

      بھیا، مولانا کی کتاب مذکور میں پوچھی اور بتائی گئی ان ساری باتوں کے ٹُو دی پوائنٹ جواب موجود ہیں مگر بقول خود مصنف کے، کہ عقل کا جذبات سے استثنیٰ حاصل کرنا ممکن نہیں، چنانچہ ہم دلیل میں بھی جذبات سے متاثر ہوتے ہیں ، اور یہ جانبداری ہمارے منطقی نتیجے کو متاثر کرتی ہے۔
      مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ "ریل خودبخود نہیں چل رہی، اسے پرزے چلا رہے ہیں جبکہ پرزے اسکی علت نہیں ہیں، بلکہ اسکی علت انجنئیر کا ذہن اور ڈرائیور (انجنئر کا ارادہ) ہے”۔ تو پھر انجنئیر کے ذہن میں ارادہ کہاں سے آیا؟ اس ذہن نے انجن بنانے کے لئے خام مواد لوہا کہاں سے حاصل کیا؟ پٹڑی “کب” اور “کہاں” بچھائی؟۔ انجن کہاں سے اور کیوں چلا اور کہاں جا رہا ہے؟

      “دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا”
      اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے ان موضوعات پہ بھی ایک نظر ڈال لیجئے تو مولانا صاحب کی چالاکیاں خوب عیاں ہوں گی۔

      http://realisticapproach.org/?p=3727
      http://realisticapproach.org/?p=3737

جواب دیں

8 Comments
scroll to top