Close

سیکولرزم کیوں؟

تمام مغربی ممالک سیکولر ہیں اور مذہب کو حکومت سے الگ رکھتے ہیں، یہی حال ہندوستان، چین، جاپان، روس، اسکینڈے نیویا کے ممالک، کوریا، اور سارا لاطینی امریکہ جبکہ کچھ افریقی ممالک بھی شامل ہیں، چنانچہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سارے ممالک غلط ہیں؟ یقیناً ایسا نہیں ہے.. کون زیادہ دولت مند اور ترقی یافتہ ہے، سیکولر ممالک یا غیر سیکولر ممالک؟ جواب ہے سیکولر ممالک.

کون دوسرے پر انحصار کرتا ہے؟ کیا سیکولر ممالک غیر سیکولر ممالک پر انحصار کرتے ہیں یا برعکس؟

جواب ہے: غیر سیکولر ممالک ہی سیکولر ممالک پر انحصار کرتے ہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر سیکولر ممالک نہ ہوتے تو غیر سیکولر ممالک بھوک اور بیماریوں سے برباد ہوجاتے.

آخری سوال: کیا جزوی سیکولرزم مسلمان ممالک کی روز مرہ زندگی کا حصہ ہے یا نہیں؟

جواب ہے: ہاں، وہ بھی زندگی کے تقریبا ہر شعبے میں جس میں تعلیم، قوانین، آئین، پارلیمنٹ، جمہوریت، اقتصاد میں سرمایہ دارانہ نظام وغیرہ.. بلکہ اسلامی بینک سرمایہ دارانہ بینکوں سے معاملات کیے بغیر چل ہی نہیں سکتے.

کیا زندگی کے ہر شعبے میں سیکولرزم کی دراندازی سے اس کی کامیابی کے بارے میں سوال نہیں اٹھتا؟

معاملے کا تعلق ہماری مذہبی سمجھ یا کفر سے اس قدر نہیں ہے جتنا کہ زمینی حقائق سے ہے، سیکولرزم کے عالمگیری مفاہیم جیسے جمہوریت، آئینی مساوات، اور انسانی حقوق ایک ایسی حقیقت بن چکے ہیں کہ کسی معاشرے یا ملک کے پاس کوئی آپشن باقی نہیں رہا، سارے اسلامی ممالک سیکولرزم کی لالچ میں آکر شکست تسلیم کرچکے ہیں، درحقیقت سیکولر دنیا میں کوئی آپشن ہی نہیں ہے، یا تو مان جائیں یا ڈائیناسار کی طرح ناپید ہوجائیں، اگڑ دکھانے سے کوئی فائدہ نہیں.. خیر منطقی سوال کی طرف واپس آتے ہیں: سیکولرزم کیسے کامیاب ہوگیا جبکہ اس سے پہلے کلیسا کے تسلط کی عمر کوئی ہزار سال رہی ہے؟ مغرب میں عقلیت پسندی کو مذہبی غیبیت پر فتح کیسے حاصل ہوگئی؟ میرا خیال ہے کہ جواب آسان ہے، پورے ہزار سال میں مسیحی مذہبی فکر زندگی کو ترقی دینے میں ناکام رہی، چنانچہ مغربی انسان نے حل تلاش کرنا شروع کیا، اور اسے یہ حل عقل میں ملا، تعجب کی بات یہ ہے کہ مغربی انسان کو یہ عقل مسلمان مفکر ابن رشد کی کتابوں میں ملی جس کی دعوتِ عقل سے کلیسا نے خوب جنگ کرنے کی کوشش کی اور باوجود اس کی کتابیں جلانے کے ناکام رہا!! افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس مسلمان مفکر کی مسلمانوں کے ہاں کوئی قدر نہیں ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں نے ابن رشد کے ساتھ کیا کیا؟ 580 ہجری میں فقہاء ابن رشد کی تعلیمات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس پر زندقہ کا الزام لگایا، اس پر مقدمات چلائے گئے اور ملک بدر کر کے اس کی ساری کتابیں جلا دی گئیں…

انسانی تاریخ کے اس فیصلہ کن لمحے سے، یعنی پندرہویں صدی عیسوی سے مغرب سب کو پیچھے چھوڑتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے اور کوئی اس کا پیچھا نہیں کر پا رہا، سیکولر سوچ نے ہی انسان کو کائنات کا محور بنایا اور اپنی ذات کے اثبات کے لیے دنیاوی ابدیت حاصل کرنے کی سعی راہ پر گامژن کیا، اور یہ سب مغرب کی سنجیدہ مادی کوششوں سے ہی ممکن ہوسکا ہے، انہوں نے غربت سے جنگ کی اور انسانیت کو بھوک اور بیماری سے نجات دلائی، ٹیکنالوجی میں تو ایجادات کا ایک ڈھیر ہی لگا دیا جیسے ٹی وی، فون، ریڈیو، جہاز، طرح طرح کی جان بچانے والی ادویات اور ویکسینیں جن سے کروڑوں بچوں کو وبائی بیماریوں سے بچانا ممکن ہوا جیسے پولیو، چیچک، خسرہ وغیرہ.. یہاں انسولین کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ جب مسلمانوں نے ڈینمارک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا مگر انسولین کا بائیکاٹ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ "ضرورت ناجائز کو جائز بنا دیتی ہے” اس طرح مسلمانوں نے ذاتی مفاد کی خاطر دین کے لیے جان دینے سے انکار کردیا.

انہی وجوہات کی بناء پر سیکولرزم سے دستبردار نہیں ہوا جاسکتا چاہے جزوی شکل میں جیسا کہ مسلم ممالک میں ہوتا ہے یا کلی طور پر جیسا کہ مغرب اور دیگر کئی ممالک میں ہوتا ہے چاہے اس سے ہمیں انسانی فطرت کی مخالف سول آزادی جیسی برائی ہی کیوں نہ ملے، سیکولرزم اب لازمی شر بن چکا ہے، میں نام لیے بغیر ایک مثال دوں گا، امید ہے سب سمجھ جائیں گے: مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی کسی فحش چینل کو استعمال کرتے ہوئے کسی نئے اسلامی چینل میں سرمایہ کاری نہ کرے!؟ سیکولرزم اور مذہبی شناخت کے بیچ جھولتی اس طرح کی ذہنیت کی وجہ سے بہت سارے لوگ خوار ہوئے اور ہو رہے ہیں، اس طرح کا دہرا پن اور منافقت صراحتاً سیکولر ممالک میں نظر نہیں آتا جہاں دین کی سیاست سے علیحدگی قطعی واضح ہے، چنانچہ ہمیں وہاں یہ سب ملتا ہے:

ٹیکنالوجی کی ترقی
طبی ترقی
فکری ترقی
علمی ترقی
فنون کی ترقی
اقتصادی ترقی
تعلیمی ترقی
انسانی حقوق کی دستیابی

یہ سب صرف سیکولر ممالک میں ہوتا ہے، بلکہ نوبل انعام حاصل کرنے والوں کا زیادہ تر تعلق سیکولر ممالک سے ہی ہوتا ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ سیکولرزم کو مسترد کرنے کے باوجود اکثر مذہب پرستوں پر جب کوئی بڑی بیماری  نازل ہوتی ہے تو یہ علاج کرانے کے لیے سیکولر ممالک کی طرف ہی بھاگتے ہیں..!؟ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلانی ہو تو بھی یہ سیکولر ممالک کا ہی انتخاب کرتے ہیں!

کوئی مانے نہ مانے، سیکولروں کے بغیر اہلِ زمین بھوک، بیماری اور غربت سے ہلاک ہوجاتے، ایک اہم بات جو صرف خردمندوں کے لیے عرض ہے کہ سیکولرزم مذاہب کی مخالفت نہیں کرتا، بلکہ یہ واحد فکر ہے جو اپنے مخالفین کو مذہبی آزادی دیتی ہے، مغرب میں مساجد کی تعداد اور مسلم ممالک میں گرجوں کی تعداد کا آپس میں موازنہ کر کے یہ حقیقت ثابت کی جاسکتی ہے، تلاش معاش میں سیکولر ممالک جانے والے خواہش مندوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے جو غیر سیکولر ممالک میں جانا چاہتے ہیں، ان حقائق کے پیش نظر سیکولرزم سے جنگ کرنا عبث اور فضول ہے اور اس سے کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا، سیکولرزم کی مخالفت کرنے والوں کو ایماندارانہ مشورہ ہے اور میرے خیال سے یہ ایمان داری کا تقاضہ بھی ہے کہ وہ جزوی سیکولرزم سے بھی خود کو آزاد کر لیں اور کسی صحراء میں جاکر سیکولرزم سے دور زندگی گزاریں اور یہ یقین رکھیں کہ فناء ان کا مقدر ہوگا.

اور اگر نہیں تو میرا چیلنج ہے کہ وہ اس جزوی سیکولرزم سے ہی دستبردار ہوکر دکھا دیں!؟ لہذا بہتر یہی ہے کہ اسے پوری طرح سے قبول کر لیں، اور ویسے بھی دو کشتیوں کا سوار کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا، جبکہ تنزیلِ حکیم میں ہے: (مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ فِیۡ جَوۡفِہٖ   – اللہ نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے) اور سیکولرزم کے مخالف یہ ناممکن حاصل کرنا چاہتے ہیں.

7 Comments

جواب دیں

7 Comments
scroll to top