Close

عبد اللہ بن ابی السرح اور وحی کا ڈرامہ

جبریل نے محمد کو کئی بار بے وقوف بنایا، جب فنِ نبوت میں اس کا استاد ورقہ بن نوفل مرگیا تو روایات کے مطابق کوئی تین سے دو سال وحی منقطع رہی حالانکہ اس وقت مکیوں سے اس کی لڑائی عین عروج پر تھی، مسلمان اخباری اسے "وحی میں فتور” قرار دیتے ہیں یعنی کہ اسے جبریل نظر تو آتا تھا مگر کوئی آیتیں نہیں دیتا تھا چنانچہ صاحب بہت غمزدہ ہوئے اور شدید نفسیاتی دباؤ میں آگئے اور کئی بار بلند وبالا پہاڑیوں پر چڑھ کر خودکشی کرنے کی کوشش کی مگر عین وقت پر جبریل آکر اسے یہ کہہ کر روک دیتا تھا کہ "اے محمد تم واقعی اللہ کے رسول ہو” جیسا کہ بخاری اور طبری میں مذکور ہے.. دوسری بار جبریل نے اسے تب دھوکہ دیا جب قریشیوں نے اس کیلئیے النضر بن الحارث کی قیادت میں ایک امتحان وضع کیا اور اسے تین سوال دیے جن کے جواب کیلئیے اس نے اگلے دن کی مہلت مانگ لی مگر وقت پر نہیں آیا، اس وقت جبریل پندرہ دن تک غائب رہا اور جب آیا بھی تو اسے گول مول جواب ہی دے پایا.. محمد کی سیرت کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب محمد سے ذرا ٹیڑھے سوال کیے جاتے تھے اور وہ کہیں پھنس جاتا تھا تو جبریل اچانک ہی کہیں غائب ہوجاتا تھا لیکن جب معاملہ اس کے کسی جنسی مسئلہ کے متعلق ہوتا تھا تو فوراً ہی نازل ہوجاتا تھا جس کی گواہ خود اس کی اپنی بیوی عائشہ ہے جب ایک عورت خود کو محمد کے حوالے کرنے آئی اور اس نے اس کیلئیے فوراً ہی ایک آیت گھڑ لی تو عائشہ نے کہا "میں دیکھ رہی ہوں کہ تمہارا رب تمہاری مرضی میں بہت جلدی کر رہا ہے”!!

اسے لکھ دو یہ ایسے ہی اتری ہے!

یہاں ہمارا سامنا جھوٹی وحی کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلے سے ہے جو اتفاق سے وقوع پذیر ہوا اور محمد کو ایک مشکل میں پھنسا گیا جب اس نے عبد اللہ بن ابی السرح القرشی المکی کی تصنیف کردہ ایک آیت پر ڈاکہ ڈالا جو مسلمان ہوکر مہاجرین کے ساتھ یثرب آگیا تھا جہاں اسے وحی کی کتابت کا عہدہ دیا گیا.. ابن سید الناس اپنی کتاب "عیون الاثر فی المغازی والسیر” میں کہتا ہے کہ عبد اللہ بن ابی السرح قریش میں سے سب سے پہلا شخص تھا جس نے وحی لکھی تھی جبکہ انصار میں سے سب سے پہلے وحی کی کتابت کعب بن ابی نے کی تھی اگرچہ جیسا کہ اسلامی تاریخ کی روایت ہے اس حوالے سے کچھ متضاد روایات بھی موجود ہیں، اور جیسا کہ سب جانتے ہیں وحی لکھنے والا محمد کے سامنے بیٹھتا تھا اور محمد اسے کچھ آیات لکھواتا تھا جن کے بارے میں اس کا دعوی تھا کہ یہ جبریل کے ذریعے بھیجی جانے والی اللہ کی وحی ہے، ایک دن جب محمد عبد اللہ بن ابی السرح کو سورہ المومنون کی کچھ آیات لکھوا رہا تھا تو ایک عجیب ڈرامہ ہوا، آیات یہ تھیں:

(وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿ۚ12﴾ ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ﴿۪13﴾ ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ﴿ؕ14﴾

یہاں – سیرت کی کتابوں کے مطابق جن میں الطبری، القرطبی اور البیضاوی شامل ہیں – عبد اللہ بن ابی السرح نے حیران ہو کر کہا: "تبارک اللہ احسن الخالقین”.. معلوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ محمد کو بڑا پسند آیا چنانچہ محمد نے عبد اللہ بن ابی السرح کو حکم دیا کہ "اکتبہا، ہکذا نزلت (اسے لکھ دو یہ ایسے ہی اتری ہے)” چنانچہ عبد اللہ بن ابی السرح نے اسے لکھ دیا اور آیت یوں ہوگئی:

(ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ ﴿ؕ14﴾)

یہ ڈرامہ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ کر عبد اللہ بن ابی السرح کے دل میں شکوک وشبہات کا جنم لینا ایک فطری امر تھا کہ اس نے ایک عبارت محض تعجب کے طور پر کہی تھی اور محمد نے اسے وحی کے طور پر اپنے قرآن میں شامل کروا دیا.. تفسیر الطبری، القرطبی اور البیضاوی میں آیا ہے کہ عبد اللہ بن ابی السرح نے کہا "اگر محمد پر وحی آتی ہے تو پھر مجھ پر بھی وحی آئی ہے اور اگر اسے اللہ اتارتا ہے تو میں نے اللہ جیسا کلام اتارا ہے”.. نیسابوری اپنی کتاب "اسباب النزول” میں لکھتا ہے کہ عبد اللہ بن ابی السرح نے کہا کہ "اگر محمد سچا ہے تو مجھ پر بھی ویسے ہی وحی آئی ہے جیسے اس پر آئی ہے اور اگر جھوٹا ہے تو میں نے بھی ویسا کلام کہا جیسا کہ اس نے کہا”.. کیا ابن ابی السرح نے محمد پر جھوٹا الزام لگایا؟ یقیناً نہیں.. سچ یہ ہے کہ اس کے منہ سے نکلی بات پر محمد نے بغیر کاپی رائٹ کی پرواہ کیے قبضہ کر لیا اور یہ بھول گیا کہ اسی نے مکیوں کو یہ چیلنج دیا تھا کہ وہ اس جیسی ایک آیت تک نہیں لاسکتے چاہے وہ جنوں کی مدد ہی کیوں نہ لے لیں.. اور اس طرح عبد اللہ بن ابی السرح نے وحی کے جھوٹ کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا بلکہ اس کا ایک اہم کردار رہا اور حقیقت اس پر آشکار ہوگئی.. تاہم مزید تصدیق کیلئیے – جیسا کہ واقعات کے سیاق سے پتہ چلتا ہے – اس نے محمد کا ردِ عمل دیکھنے کیلئیے ایک کھیل کھیلنے کا فیصلہ کیا.. اور جیسا کہ واقدی کی کتاب المغازی، ابن الاثیر کی الکامل فی التاریخ اور تفسیر الطبری میں آیا ہے، جب محمد اسے "علیم حکیم” لکھنے کیلئیے کہتا تو وہ اسے الٹ کر "حکیم علیم” کردیتا اور پھر محمد کو پڑھ کر سناتا مگر محمد کو اس الٹ پھیر اور تبدیلی کا ذرا بھی پتہ نہ چلتا.. الواقدی اس پر عبد اللہ بن ابی السرح کا ایک تبصرہ نقل کرتا ہے کہ: "ما یدری محمد ما یقول انی لاکتب لہ ما شئت ہذا الذی کتبت یوحی الی کما یوحی الی محمد (محمد کو پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور میں جو چاہتا اسے لکھ کر دے رہا تھا، یہ جو میں نے لکھا ہے مجھ پر وحی ہوتی ہے جیسا کہ محمد پر وحی ہوتی ہے)” جبکہ طبری اپنی تفسیر میں لکھتا ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی السرح محمد کو اپنا لکھا ہوا پڑھ کر سناتا تھا تو محمد کہتا تھا کہ "نعم سواء (ہاں ٹھیک ہے)”.. عبد اللہ بن ابی السرح نے یہ کھیل کئی آیات کے ساتھ کھیلا اور جب اسے یقین ہوگیا کہ محمد محض ایک فراڈیا ہے واپس مکہ بھاگ گیا اور اسلام کو خیر باد کہہ دیا…

مکہ جاکر عبد اللہ بن ابی السرح نے مکیوں کو محمد کے جھوٹ کا یہ تازہ قصہ سنایا جنہیں پہلے ہی محمد کے جھوٹ کیلئیے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ اس کا امتحان لے چکے تھے اور محمد اس میں بری طرح پٹ چکا تھا کہ کس طرح اس نے محض تعجب اور حیرانی میں ایک بات کہی اور محمد نے اسے قرآن میں شامل کردیا اور کس طرح وہ آیات میں رد وبدل کر کے اسے سناتا اور اسے کچھ پتہ نہیں چلتا اور نا ہی وہ کوئی اعتراض کرتا… اس نے مکیوں کو بتایا کہ "دینکم خیر من دینہ (تمہارا دین اس کے دین سے بہتر ہے)”.. جب محمد کو پتہ چلا کہ بندہ اس کے ساتھ کیا گیم کھیل کر گیا ہے تو اس کی سٹی گل ہوگئی، مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا اور یہ پہچاننا مشکل تھا کہ عبد اللہ بن ابی السرح نے قرآن میں کہاں کہاں رد وبدل کیا ہے چنانچہ عبد اللہ بن ابی السرح کو جھوٹا قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے محمد نے دوبارہ وحی کی گیم کھیلی اور ایک آیت لے آیا کہ:

(وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ قَالَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ وَ لَمۡ یُوۡحَ اِلَیۡہِ شَیۡءٌ وَّ مَنۡ قَالَ سَاُنۡزِلُ مِثۡلَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ فِیۡ غَمَرٰتِ الۡمَوۡتِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوۡۤا اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ اَخۡرِجُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡہُوۡنِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ وَ کُنۡتُمۡ عَنۡ اٰیٰتِہٖ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ – اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو۔ اور جو یہ کہے کہ جس طرح کی کتاب اللہ نے نازل کی ہے اسی طرح کی میں بھی بنا لیتا ہوں اور کاش تم ان ظالم یعنی مشرک لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں اور فرشتے انکی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں۔ آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس لئے کہ تم اللہ پر جھوٹ بولا کرتے تھے اور اسکی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے۔- سورة الانعام آيت 93)

آیت سے صاف ظاہر ہے کہ یہ ادبی چوری کو قانونی حیثیت دینے کی ایک بھونڈی کوشش ہے تاکہ اپنے احمق تابعین کو گمراہ کرنے کا ڈرامہ جاری رہ سکے کہ واقعی آسمان سے کوئی وحی اس پر نازل ہوتی ہے مگر سچائی کی گردن مروڑنے کی اس کے ہر کوشش رائیگاں گئی کہ تاریخ کا مکر اس سے کہیں طاقتور تھا کیونکہ یہ آیت ہر صاحبِ عقل ودانش کیلئیے ایک اضافی دلیل کے طور پر موجود رہی جس سے اس کے جھوٹے وحی کا پردہ چاک ہوا.

ظاہر ہے اتنی بڑی "بیستی” کے بعد محمد جیسا وحشی شخص عبد اللہ بن ابی السرح کو زندہ کیسے چھوڑ سکتا تھا.. اس کی لغت میں رحمت نام کی کوئی چیز نہیں تھی.. ان نے اپنے دشمنوں کو بد ترین گالیوں سے نوازا تھا یہ گالیاں اس کی اعلی اخلاقیات کا منہ بولتا ثبوت ہیں جیسے: تباً، حمالہ الحطب، عتل، زنیم، ہماز مشاء بنمیم، افاک اثیم، مثل الحمار یحمل اسفارا، خنزیر وغیرہ اور انہیں گھٹیا ترین القاب سے پکارا جیسے عمرو بن ہشام بن المغیرہ پر اس نے ابو جہل کا لقب چپکا دیا حالانکہ وہ ایک بڑا ہی با حکمت شخص تھا اور اہلِ مکہ اسے "ابی الحکم” کے نام سے بلایا کرتے تھے، اس طرح اس نے مسیلمہ بن حبیب الحنفی پر "مسیلمہ الکذاب” کا لقب چپکا دیا حالانکہ اس کا جرم محض اتنا تھا کہ اس نے اسی کی طرح جھوٹی نبوت کا دعوی کیا تھا.. غرض کے محمد کے ہاتھ جو لگا اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا.. فتح مکہ کے دن – جسے وہ دعوت سے فتح نہ کر سکا تو تلوار سے فتح کرنے آن پہنچا – اس نے مکیوں میں سے دس لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا چاہے وہ کعبے کے غلاف کے پیچھے ہی کیوں نہ چھپے ہوں، ان دس میں عبد اللہ بن ابی السرح کا نام بھی شامل تھا.. خون کے پیاسے اسے پاگل کتوں کی طرح ہر جگہ ڈھونڈتے رہے مگر عبد اللہ بن ابی السرح محمد کے عزیز ترین دوست عثمان بن عفان کے گھر چھپا ہوا تھا کیونکہ وہ اس کا رضاعی بھائی تھا!!.. جب معاملات ٹھنڈے ہوگئے تو عثمان اسے لے کر محمد کے پاس آیا اور جیسا کہ سیرہ ابن ہشام، الطبقات الکبری، المغازی اور تفسیر القرطبی میں درج ہے عثمان نے اس کیلئیے امان طلب کی مگر محمد خاموش رہا، جب عثمان نے اپنی عرضی تین دفعہ دہرائی تو وہ اسے کرہاً معاف کرنے پر مجبور ہوگیا، جب عثمان اور عبد اللہ بن ابی السرح چلے گئے تو محمد نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس نے جان بوجھ کر اس امید پر طویل خاموشی اختیار کی تھی کہ کوئی اٹھ کر اس کی گردن اڑا دے!! اور اس طرح عبد اللہ بن ابی السرح محمد کی خون آلود تلوار سے بڑی مشکل سے بچ پایا اور پھر "جہاد فی سبیل اللہ” کے کوڈ نیم کے تحت لوٹ مار کی جنگوں میں شامل ہوگیا جس کے ساتھ محمد کا سچا نبی ہونا اتنا ضروری نہیں تھا جتنا کہ غلام، باندیاں اور مالِ غنیمت کا آنا ضروری تھا.

12 Comments

  1. آپ واقعی اسلام دشمن اور غیراسلامی ایجنٹ ہیں، ایسے الزامات تو مسلم قوم نے کسی دشمن پر بھی نہیں لگائے۔ حضور اکرم سے پہلے کے تمام انبیاء مسلم قوم کے نزدیک نہایت احترام کے قابل ہیں۔ لیکن آپ نہ جانے کیوں ڈائریکٹ ایسی ہستی پہ ہرزہ رسائی کر رہے ہیں جو وجہ کائنات ہیں۔ اس سے آپ کی دنیاوی زندگی پر کوئی اثر نہیں ہوگا لیکن ایسے جھوٹے ، مکارانہ اور اخلاق سے گرے ہوئے خیالات کبھی مقبولیت حاصل نہیں کر سکیں گے اور سعئ بیکار کی طرح آپ کی ناکامی اور آخرت میں عذاب شدید کا باعث بنیں گی۔
    اور مجھے یقین ہے کہ یہ کمنٹ کبھی پبلش نہیں ہوگا۔

    1. محترمی عادل سومرو صاحب !جرات تحقیق پر خوش آمدید کہتے ہیں۔
      نہ تو ہم اسلام دشمن ہیں اور نہ ہی غیر اسلامی ایجنٹ۔ اسلام دشمن تو ہم اس لئے نہیں ہیں کہ دشمن اپنے مخالف کا وجود صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے، ہم اسلام اور مسلمانوں کے وجود کا خاتمہ نہیں چاہتے، بلکہ ہم مسلمانوں کے ہمدرد ہیں اور انہیں حقیقت پسندی کا راستہ دکھاتے ہوئے جراتِ تحقیق کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ اگر کوئی بھی مذہب اختیار کرنا چاہیں تو یہ آپ کا بنیادی انسانی حق ہے، اسی طرح اگر ہم کوئی مذہب اختیار نہ کرنا چاہیں تو ہمیں بھی یہ اختیار ملنا چاہئے نا کہ واجب القتل قرار دیئے جانے کا فتویٰ۔ اور غیر اسلامی ایجنٹ ہم اس لئے نہیں ہیں کہ ہمیں اس کار خیر کی کوئی تنخواہ نہیں ملتی، یہ کام ہم اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے رضاکارانہ طور پر انجام دیتے ہیں۔
      آپ نے کہا کہ ایسے الزام تو مسلم قوم نے کسی دشمن پر بھی نہیں لگائے، تو جناب لگتا ہے ابھی اسلام کے بارے میں آپ کا مطالعہ خاصا کم ہے، جرات تحقیق پر آتے جاتے رہئے گا، اس کمی میں خاطر خواہ افاقہ ہوگا۔مذکورہ پوسٹ میں آپ جن ”الزامات“ کا ذکر کر رہے ہیں یہ تمام ”الزامات“ اسلام کی اہم ترین کتابوں میں مذکور ہیں، مصنف نے انہیں صرف اپنے الفاظ اور اپنے نقطہٴ نظر کے ساتھ بیان کیا ہے، اگر آپ کو اس سے اتفاق نہیں ہے تو ہم آپ کے اختلاف رائے کا احترام کرتے ہیں، لیکن اگر آپ ہمیں اپنی رائے سے قائل کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے آپ کو علمی راستہ اختیار کرنا پڑے گا نا کہ جیسا آپ نے بھی قرآن جیسا طرز تخاطب اختیار کرتے ہوئے کوئی علمی دلیل دینے کے بجائے عذاب الہٰی کی دھمکی دینا شروع کر دیا۔
      آپ نے یہ کیسے سوچ لیا تھا کہ آپ کا یہ تبصرہ کبھی شائع نہیں ہوگا۔ ہم تنقیدی تبصرے ترجیحاً شائع کرتے ہیں۔

    2. بے بنیاد عقائد پر ایمان قائم کرلینا اور اس بارے میں اظہار حقیقت پر چراغ پا ہونا ہمیشہ سے جھوٹے دعویداروں کے حامی افراد کا وطیرہ رہا ہے ۔ کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ ان آفاقی مذاہب کے فریب کی پردہ کشائی کرنے والوں کی بات تحمل سے سنیں اور اگر ان کے پاس ان دلائل کا توڑ ہو تو بجائے سیخ پا ہونے کے انہیں سامنے لائیں ۔ افہام و تفہیم کے لیے انسان کے پاس عقل و فہم کی ایسی لازوال دولت ہے جس سے کام لیتے ہوئے وہ اپنے مذموم تر عزائم کو بھی سادہ لوح افراد سے منوالیتا ہے خواہ اس کو کسی حیلے بہانے سے کام لینا پڑے۔ معترضین پر لازم ہے کہ وہ جرات تحقیق کے فورم پر اٹھائے جانے والے نکات پر بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے انگشت نمائی کریں۔ بلا دلیل محض اپنے فرسودہ عقیدہ کا دفاع کرنا خود عقل کے اصولوں کے منافی ہے کجا یہ کہ ہٹ دھرمی سے اس پر اصرار کرنا۔ مذہبی عقائد پر کاربند لوگوں کے لیے مذاہب کی شروعات کے بارے میں جاننا مفید ثابت ہوگا۔

  2. تمام عیسایوں کو چیلنج ہے کہ وہ مجھے وہ انجیل دکھا دیں جو عیسی علی سلام پر نازل ھوی ؛ مسلمان تم بے شرموں کو وہ قرآن دکھا سکتے ھیں جو اللہ رب العالمین نے ھمیں عطا کیا اور پوری دنیا میں ھمارے سینوں میں موجود ھے؛

    ابھی تو یھاں پر تم بکواس کر رہے ھو؛ علامہ زاکر نایک کے سامنے تمھارے پادریوں کی پھٹ کیوں جاتی ھے۔۔۔؟؟؟

  3. مسلمانوں کی جہالت کی انتہا یہ ہے کہ انھیں انجیل، قران اور تورات کی ماہیت کا فرق بھی نہیں پتا اور اسی غلط فہمی کی بنا پر بلند بانگ دعوی داغنے لگتے ہیں. قران ان میں سے واحد کتاب ہے جس کے بارے میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ سر تا سر خدا کا اپنا کلام ہے. عہد نامہ جدید و قدیم یا دیگر اسرائیلی صحیفوں کے ماننے والے قطعا یہ نہیں سمجھتے کہ یہ خدا کا کلام ہے جسے اسی شکل میں خدا نے ان کے پیغمبر کو سونپا تھا. ذاکر نایک جیسے خود ساختہ علماء بھی اس بنیادی فرق سے ناواقف ہیں اور خصوصا عیسائیوں کو ایسی بات کا ثبوت دینے کا کہتے ہیں جس کا انھیں سرے سے دعوی ہی نہیں.

  4. all those books which you mentioned , i would like to have ref: volume or page number
    here we have to differentiate whether it was Muhammad (PBUH) ‘s own wording
    or
    divine revelation :
    we take both cases suppose its wording of Muhammad’s own then we all know that he was not literate so how can an illiterate person describe the whole science of the development of an embryo from the fertilization of the ovum to the fetus stage when he even cant read. it means it was not his own wording it was divine revelation but your 2nd argument may be that he borrowed these things from Aristotle, Theophrastus etc. but let me remind you again that he couldn’t read or write …. you probably reply me that he had some companions who helped him and those companion were know the work of Aristotle etc … okay i accept it but today we know that Aristotle, Theophrastus etc work was not totally correct in them there were many errors for example according to Aristotle "in his History of Animals he claimed that human males have more teeth than females” so if Quran was borrowed from their findings then why only the true portion of their findings are in Quran and at that time who was differentiating all these that this is wrong and this is right so take the right and leave the wrong, we have to admit that this was divine revelation so if it was divine revelation who is more deserving to receive these revelation Allah knows the best person and so he was Prophet Muhammad (PBUH) so u have to admit that he was true messenger of Allah …

  5. زاکر نائیک اور اس کی علمی حیثیت کی حقیقت بھی جلد آشکارہ کرونگا ، دلیل کی توہین اور تاویل کے لغو طریقوں سے وہ ان پڑھے لکھے مسلمانوں کیلئے جن کے پاس اسلام کا مطالعہ کرنے کیلئے وقت نہیں، تو دین کا بڑا سکالر بن سکتا ھے. لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی کم علمی اور عقیدت کے بخار کا خوب فائدہ اٹھا کر اپنے اپ کو مسلمانوں کو بڑا سکالر پیش کرکے خوب لگژری لا ئف سے لطف اندوز ہورھا ھے. زاکر نائک کو کئی لوگوں نے مناظرے کا چیلنج دیا ھے جیسے ڈیوڈ ووڈ. اور جھاد واچ کے کئی مغربی سکالر نے. لیکن زاکر نائیک کو اپنی شکست واضح نظر انے کی وجہ سے ان کے بار بار خطوط لکھنے کے باوجود زاکر نائیک کی طرف سے کوئی جواب نہ دینا اس حقیقت کی غمازکرتا ھے.

    1. انتظار رہے گا۔ آپ سے حضور referenceمانگا تھا وہ تو آپ نے دیا نھیں۔ ڈیوڈ ووڈ کی میں نے کئ talk shows دیکھے ھیں ۔he is not such a big religious activist k zakir naik apna time waste kary… آپ نے ذاکر نائیک کوکبھی غور سے شاید سنا نھیں وہ ہر چیز کا ریفرنس دیتے ہیں ۔ 2nd thing i would like to mention that David was an atheist and now he is Christian and also living a LUXURIOUS life as well..any way that was really a dumb argument that zakir naik is living a luxurious life what he takes from Muslims and non Muslims….why it bothers you…

  6. اگر چہ یہ مضمون میں نے نہیں لکھا لیکن اس کے باوجود اس کا حوالہ آپ نے مجھ سے مانگا ھے، تو پیش خدمت ھے ایک حوالہ قرطبی سے:

    http://www.islamic-awareness.org/Quran/Sources/Sarh/qurtubi.html

    اس کے علاوہ طبقات ابن سعد سے بھی آپ کو حوالہ مل جائے گا زرا سی کوشش خود کرلیں نہیں تو میں فراہم کردؤنگا. جہاں تک ڈیوڈ ووڈ سے مناظرہ نہ کرنے کا تعلق تو میں آپکو کئی اور نام گنوادؤنگا، جن سے زاکر نائیک صاحب مناظرہ کرنے کیلئے تیار نہیں ان کی وجہ انکی علمی قابلیت کی کمی نہیں بلکہ زاکر نائیک کا خوف ہے. کیونکہ زاکر نائیک صاحب کو ایسی مجلس کی ضرورت ہوتی ھے جہاں زیادہ تر لوگ مسلمان ہوں اور ان مسلمانوں کے بیچ میں گنتی کے چند غیر مسلم بیٹھے ہوں جنہیں اسلام کا پورا علم ہی نہیں ہوتا اور جب وہ سوال کیلئے اٹھتے ہیں توبعض اوقات ان کے آس پاس کئ باریش افراد بھی اس سوال کرنے والے کے گرد گھیرے کی صورت میں کھڑے ھوجاتے ھیں. اوپر سے زاکر نائیک کا جواب دینے کا انداز اور اس پر حاضرین کی تالیاں اور قہقہے سوال کرنے والے کو کنفیوز کرنے کا باعث بنتی ہے اور اگر سوال کرنے والے کا انداز مناظرانہ ھونے لگے تو شائد زاکر نائیک کے چہرے پر غصے اور غضب کے اثرات کا مشاہدہ آپکی نظروں سے شائد نہیں گزرا. آجکل جو بھی زاکر نائیک کو مناظرے کا چیلنج کرتا ہے تو زاکر نائیک کے پرستاروں کا ایک ہی جواب سننے کو ملتا ہے کہ مخالف مناظر زاکر نائیک کی حیثیت کا نہیں، خوب اچھا بہانہ بناٰیا ہے مناظرے سے فرار کا اور اپنی حقیقت منظرعام پر آ نے کے خوف سے. زاکر نائیک کی علمی حیثیت کی زرا سی جھلک ملاحظہ فرمائیں اس لنک پر
    http://www.youtube.com/watch?v=6jYUL7eBdHg

    http://www.youtube.com/watch?v=xHRaNE2XXVk
    میرے بھائی سچائی ضروری نہیں کہ وہ جو ھم سننا چاہتے ہیں اگر حقیقت کی تلاش کرنی ہے تو اپنی نظر سے محبت اور عقیدت کی عینک اتارکر اپنی سوچ کوکچھ عرصے کیلئے ہی سہی ایک منصف جج کی نظر عنایت کردیجئے. شکریہ آپ کا خیرخواہ

  7. اینڈرسن شا صاحب،
    مجھے نہیں معلوم کہ آپ کا سن پیدائش کیا ہے لیکن مجھے ایک بچوں کا رسالہ یاد ہے جس کا نام تھا جادو کی دنیا-اگر وہ اب بھی شائع ہوتا ہے تو ان سے رجوع کریں تاکہ آپ کی بچگانہ کہانیاں وہاں شائع ہوں کہ تحقیق کے نام پراس طرح کےمضمونچوں سے کیچڑ اچھالنا مناسب نہیں لگتا-

جواب دیں

12 Comments
scroll to top