مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن آج جس شکل میں ہم تک موجود ہے یہ بعینہ ویسا ہی ہے جیسا کہ خود محمد صلعم پر نازل ہوا اور اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللّٰه نے اٹھا رکھا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کا ہی شیعہ فرقہ اپنی روایات کی روشنی میں اس عقیدے کا قائل نہیں لیکن اہل سنت کے تمام فرقے قرآن کی حفاظت و تدوین کو اللّٰه کی براہ راست ذمہ داری ہی سمجھتے ہیں۔
اس سلسلے میں چند روایات پیش خدمت ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن جس موجودہ شکل میں موجود ہے یہ بالکل اس شکل میں نہیں ہے جو خود پیغمبر اسلام کی زندگی تک پایا جاتا تھا اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ خدا کی اس آخری الہامی کتاب کے دعویٰ ہونے کے باوجود، اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اپنی پیشرو کتب کی طرح پوری نہیں کی جا سکی۔
1- حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ ”اللّٰه نے قرآن میں پہلے یہ نازل کیا تھا کہ دس رضعات سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ (دس بار دودھ پینے سے)۔ پھر اسے پانچ رضعات سے منسوخ کر دیا گیا۔ اور جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا رہے تھے۔“
(سنن ابو داود، کتاب النکاح، باب ھل یحرم ما دون خمس رضعات، حدیث: ۲۰۶۲ ، صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب التحریم بخمس رضاعت، حدیث: ۳۵۹۷)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللّٰه کی زندگی میں وفات تک رضاعت والی آیات قرآن میں تلاوت ہو رہی تھیں لیکن آج ہمیں یہ آیات پورے قرآن میں کہیں نظر نہیں آتیں۔
مشہور خادمِ رسول حضرت انس بن مالک نے گواہی دے رکھی ہے کہ "اللّٰه نے رسول اللّٰه کی وفات سے پہلے مسلسل وحی اتاری اور آپ کی وفات کے قریبی زمانے میں تو بہت وحی نازل ہوئی، پھر اس کے بعد رسول اللّٰه وفات پا گئے۔” (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب کیف نزول الوحی و اول ما نزل، حدیث :۴۹۸۲)
افسوس کہ وفات النبی کے انتہائی قریب نازل ہونے والی وحی اور آیات کی حفاظت کا مناسب انتظام نہ ہو سکا اور وہ مختلف حادثات کا شکار ہو کر ضائع ہوتی رہیں۔ چنانچہ ایک ایسے ہی حادثہ میں وہ آیات بھی ضائع ہوئیں جو کہ نبی کی وفات کے وقت لکھی ہوئی آپ کے بستر پر موجود تھیں۔
2- حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ ” آیت رجم اور دس بار دودھ پلانے سے رضاعت کبیر ثابت ہونے پر (قرآن مجید میں) آیات نازل ہوئی تھیں۔ یہ دونوں آیتیں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے بستر پر پڑی تھیں۔ جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی اور ہم آپ کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہو گئے تو ایک بکری آئی اور اس کاغذ کو کھا گئی۔”
(سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح، باب رضاع الکبیر، حدیث:۱۹۴۴، مسند احمد:۶/۲۲۹، مسند ابی یعلیٰ:۴۵۸۷،۴۵۸۸)
اس روایت سے تو مزید واضح ہے کہ آیت رضاعت کے علاوہ آیت رجم بھی نبی صلعم کی زندگی میں نہ صرف یہ کہ تلاوت ہو رہی تھی بلکہ یہ دونوں آیات، محمد صلعم کی وفات تک کاشانہ نبوی میں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی موجود تھیں۔ مگر اس بکری کو چونکہ اس بات کی سمجھ ہی نہ تھی کہ یہ قرآن کی آیات براہ راست حفاظت الٰہی میں ہیں، اس لئے وہ اس کاغذ کو ہی کھا گئی جس پر یہ آیات لکھی ہوئی موجود تھیں اور آج کا موجودہ قرآن ان آیات سے محروم رہ گیا۔
صرف یہی نہیں کہ نبی صلعم کی حیات کے فوراً بعد جو آیات حفاظت الٰہی کے زیر اثر نہ رہ سکیں وہی اس حادثے کا شکار ہوئیں بلکہ یہ سلسلہ اس کے کافی بعد بھی جاری رہا۔ اس سلسلے کی روایات ملاحظہ فرمائیں:
3- حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: "جب یہ آیت نازل ہوئی و وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ ۔۔۔۔۔الخ
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ تبت یدا ابی لھب، حدیث:۴۹۷۱)
عبداللّٰه ابن عباس نبی کریم کے مشہور صحابی ہیں، جن کے لئے خود نبی کریم نے اپنے سینے سے لگا کردعا کی تھی کہ "اے اللّٰه! اسے اپنی کتاب (قرآن) کا علم عطا فرما "(صحیح بخاری: حدیث ۷۵)۔ اوپر پیش کی گئی روایت میں جس آیت کے نازل ہونے کو ابن عباس نے پیش کیا ہے وہ سورۃ شعراء کی آیت (نمبر ۲۱۴) ہے لیکن ہمارے موجودہ قرآن کے نسخوں میں یہ آیت صرف وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ کے الفاظ تک ہی ہے اور اس کے آگے کے الفاظ وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ موجود نہیں ہیں۔
ابن عباس کا اس آیت کو ان الفاظ کے ساتھ پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس آیت میں وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ کے الفاظ بھی شامل تھے۔ اگر سلسلہ سند کو دیکھا جائے تو ابن عباس نے یہ روایت اور یہ آیت مشہور تابعی، اپنے شاگرد سعید بن جبیر کے سامنے بیان کی ہے، جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ابن عباس، دور تابعین تک اور سعید بن جبیر اپنے دور تک سورۃ الشعراء کی اس آیت کو وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ کے اضافے کے ساتھ بیان کرتے تھے، جو بعد میں نہ جانے کس وقت قرآن سے مکمل طور پر محو کر دی گئی اور یہ بھی قرآن کی انہیں آیات میں شامل ہو گئی کہ جن پر اللّٰه کی حفاظت میں ہونے کی ذمہ داری پوری نہ ہو سکی۔
4- موجودہ قرآن میں سورۃ النساء کی ایک آیت کچھ یوں درج ہے: لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ مگر کچھ راویوں کے نزدیک یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی: لاَّ يَسْتَوِي ٱلْقَٰعِدُونَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُجَٰهِدُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ غَيْرُ أُوْلِي ٱلضَّرَرِ
(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب کاتب النبی، حدیث:۴۹۹۰)
یعنی "غَيْرُ أُوْلِي ٱلضَّرَرِ” کے الفاظ کچھ ثقہ رواۃ کے نزدیک آیت کے درمیان میں نہیں بلکہ آخر میں تھے۔
5- محمد صلعم اور صحابہ کرام کا عام دستور تھا کہ کسی سورت کا نام لینے کی بجائے اس کی کسی آیت کو بطور پہچان بیان کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ابو سعید خدری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے سحری میں کھڑے ہو کر قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ کو پڑھا۔” (صحیح بخاری: ۵۰۱۴) اس طرح کی اور روایات بھی بطور ثبوت پیش کی جا سکتی ہیں کہ سورت کی آیت کو بطور پہچان بیان کیا گیا۔ اس بات کو سمجھنے کے بعد دیکھئے کہ محمد صلعم نے خود بیان کیا کہ "اَللّٰهُ الوَاحِدُ الصَّمَدُ” قرآن مجید کا ایک تہائی حصہ ہے۔”
(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل قل ھو اللّٰه احد، حدیث:۵۰۱۵)
اب صرف اتنا غور فرمائیے کہ "اَللّٰهُ الوَاحِدُ الصَّمَدُ” کون سی سورت کی آیت ہے؟ دوسری روایات سے پتا چلتا ہے کہ یہ فضیلت سورہ اخلاص کی ہے تو پھر سورۃ اخلاص میں یہ آیت کہاں گئی جس کی طرف محمد صلعم) نے بطور خاص اشارہ کیا؟ کیا یہ بھی تو انہیں آیات میں سے نہیں جو تدوینِ قرآن کے وقت لکھنے سے رہ گئیں؟
6- حضرت عبداللّٰه بن عباس نے ایک آیت کے متعلق گواہی دے رکھی ہے کہ یوں نازل ہوئی تھی: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ فِیْ مَوَاسِمِ الْحَجِّ
(صحیح بخاری، کتاب الحج، باب التجارۃ ایام الموسم، حدیث:۱۷۷۰)
ابن عباس ہی کی گواہی سے یہ آیت صحیح بخاری میں تین اور مقامات پر بھی اسی طرح پیش ہوئی ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری (حدیث: ۲۰۵۰، ۲۰۹۸، ۴۵۱۹)
موجودہ قرآن پاک میں یہ آیت سورۃ البقرۃ (آیت:۱۹۸) کا حصہ ہے مگر وہاں پر فِیْ مَوَاسِمِ الْحَجِّ کے الفاظ موجود نہیں جو کہ ابن عباس کی گواہی کے مطابق نازل ہوئے تھے اور وہ اس آیت کو تابعین کے دور میں بھی اسی طرح بیان کرتے تھے۔صاف ظاہر ہے کہ یہ الفاظ بھی حفاظتِ قرآن کے دعویٰ پر پورا نہ اتر سکے۔
محمد صلعم کی وفات کےبعد اور بھی کئی آیات پر صحابہ کرام کا آپس میں شدید اختلاف تھا کہ کچھ کے نزدیک کچھ آیات قرآن میں شامل تھیں اور کچھ کے نزدیک وہی آیات قرآن میں شامل نہ تھیں بلکہ منسوخ ہو چکی تھیں، ملاحظہ فرمائیں:
7- حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت عمر نے فرمایا: ابی بن کعب ہم میں سب سے بڑے قاری ہیں لیکن جہاں حضرت ابی بن کعب غلطی کرتے ہیں اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے تو قرآن مجید کو رسول اللّٰه کے دہن مبارک سے سنا ہے، اس لئے میں تو کسی کے کہنے پر اسے چھوڑنے والا نہیں ہوں، حالانکہ اللّٰه تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: "ہم جو بھی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی اور لے آتے ہیں۔”
(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن،باب القراء من اصحاب رسول اللّٰه ، حدیث:۵۰۰۵)
اس روایت سے کھل کر یہ حقیقت سامنے آ جاتی ہے کہ صحابہ کرام محمد صلعم کی وفات کے بعد قرآن مجید پر ہرگز متفق نہ تھے۔ بہت سی آیات ایسی تھیں جنہیں ابی بن کعب جیسے جید صحابی قرآن میں شامل سمجھتے تھے جبکہ حضرت عمر کا خیال یہ تھا کہ وہ آیات منسوخ ہو چکی ہیں، لہٰذا قرآن کا حصہ نہیں۔ گویا حضرت ابی بن کعب کے مؤقف کے مطابق حضرت عمر کچھ آیات قرآن کو تسلیم نہ کرتے تھے اور حضرت عمر کے مؤقف کے مطابق حضرت ابی بن کعب کچھ ایسی آیات کو قرآن تسلیم کروانے پر بضد تھے جو قرآن کا حصہ نہ رہی تھیں۔
8- معاملہ صرف حضرت عمر یا ابی بن کعب تک کا نہ تھا بلکہ دیگر صحابہ اور تابعین بھی موجودہ قرآن سے اختلاف کرتے تھے۔ چنانچہ مشہور صحابی عبداللّٰه بن مسعود کے چند تابعین شاگردوں نے ایک اور صحابی ابو درداء کے سامنے سورۃ الیل کی آیات یوں تلاوت کی: وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ﴿١﴾وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ﴿٢﴾ وَ الذَّكَرِ وَالْأُنثَىٰ اور گواہی دی کہ عبداللّٰه بن مسعود اسی طرح تلاوت کرتے تھے۔ ابو درداء نے اس پر فرمایا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی نبی کریم کو اسی طرح پڑھتے سنا ہے لیکن یہ شام کے لوگ چاہتے ہیں کہ میں وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ پڑھوں۔ اللّٰه کی قسم ! میں کسی صورت میں ان کی پیروی نہ کروں گا۔”
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب والنہار اذا تجلیٰ، حدیث: ۴۹۴۴، ۴۹۴۳)
موجودہ قرآن میں سورۃ الیل کی یہ آیت وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ کے الفاظ کے ساتھ ہے جبکہ عبداللّٰه بن مسعود اور ابو درداء جیسے اصحاب رسول اور ان کے شاگرد تابعین اس آیت کو "مَا خَلَقَ” کے الفاظ کے بغیر پڑھتے تھے اور اسی کو محمد صلعم کی تلاوت قرار دیتے تھے۔ صحابی رسول ابو درداء کے الفاظ کی شدت سے صاف ظاہر ہے کہ وہ موجودہ قرآن کے مطابق اس آیت کو پڑھنے کا کھلم کھلا انکار کرتے بلکہ اسے شام کے لوگوں کا اضافہ قرار دیتے۔
9- حضرت عائشہ کے آزاد کردہ غلام ابو یونس سے روایت ہے کہ "حضرت عائشہ نے مجھے حکم دیا کہ ان کے لئے قرآن لکھوں اور فرمایا: جب تم اس آیت پر پہنچو حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں آگاہ کیا، انہوں نے مجھے لکھوایا: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَ صَلوٰۃِ الْعَصْرِ حضرت عائشہ نے فرمایا: میں نے اسے رسول اللّٰه سے ایسے ہی سنا۔”
(صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب الدلیل لمن قال: الصلاۃ الوسطیٰ ھی صلاۃ العصر، حدیث:۱۴۲۷)
ہمارے پاس موجود قرآن میں یہ سورۃ بقرۃ کی ۲۳۸ نمبر آیت ہے اور حضرت عائشہ کے تاکید کے ساتھ لکھوائے ہوئے اسی آیت کے الفاظ وَ صَلوٰۃِ الْعَصْرِ کے بغیر ہے۔ حضرت عائشہ نے جو نسخہ قرآن اپنے لئے لکھوایا اس میں ان الفاظ کا اضافہ کروایا اور یہ بھی گواہی دی کہ انہوں نے اس آیت کو ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ ہی رسول اللّٰه سے سنا تھا، مگر افسوس کہ موجودہ قرآن میں آج یہ الفاظ بھی موجود نہیں۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یا تو موجودہ قرآن حضرت عائشہ کے مطابق الفاظ کی کمی کا شکار ہے یا حضرت عائشہ کے قرآن میں کچھ الفاظ موجودہ قرآن سے زیادہ تھے۔ دونوں صورتوں میں حفاظت قرآن کا اسلامی عقیدہ و نظریہ طوفانوں کی زد میں ہے۔
10- مشہور تابعی سعید بن جبیر نے کہا حضرت ابن عباس اس طرح آیت کی تلاوت کرتے تھے: وَكَانَ أَمَامَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍغَصْبًا اور اس آیت کی بھی یوں تلاوت کرتے تھے: وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا وَ كَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب {وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ البَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا}، حدیث: ۴۷۲۵)
ہمارے پاس موجود قرآن کے مطابق یہ سورۃ الکہف کی آیات ۷۹، ۸۰ ہیں لیکن ابن عباس ان آیات کو ہمارے قرآن کے مطابق تلاوت نہیں کرتے تھے بلکہ آیت ۷۹ میں أَمَامَهُمْ پڑھتے جبکہ ہمارے قرآن میں اس کی جگہ لفظ وَرَاءَهُم ہے، اسی طرح اسی آیت میں ابن عباس سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ پڑھتے جبکہ ہمارے قرآن میں سَفِينَةٍ کا لفظ سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس سے اگلی آیت ۸۰ میں بھی ہمارے موجودہ قرآن میں كَافِرًا وَ كَانَ کے الفاظ غائب ہیں جو ابن عباس کے مطابق موجود تھے اور وہ تلاوت بھی کرتے تھے۔
11- مشہور محدث و مفسر علامہ جلال الدین السیوطی لکھتے ہیں:
"امام عبد بن حمید اور محمد بن نصر المروزی نے کتاب الصلوٰۃ میں اور ابن الانباری نے المصاحف میں محمد بن سیرین سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابی بن کعب فاتحۃ الکتاب اور معوذتین،أَلّٰلھُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ أَلّٰلھُمَّ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ لکھتے تھے لیکن حضرت ابن مسعود ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہ لکھتے تھے۔ حضرت عثمان بن عفان نے مصحف میں فاتحۃ الکتاب اور معوذتین لکھوائے تھے۔”
(تفسیر درِ منثور مترجم، ج1 ص27، مکتبہ ضیاء القرآن لاہور)
ان روایات سے ثابت ہے کہ سورۃ فاتحہ جو قرآن کی پہلی سورت ہے، سے لے کر معوذتین یعنی سورۃ الفلق و الناس تک کے بارے میں صحابہ کا اختلاف موجود تھا کہ قرآن میں شامل ہیں کہ نہیں۔ چنانچہ حضرت عثمان جن کا جمع کردہ قرآن آج ہمارے پاس موجود ہے، وہ سورۃ فاتحہ اور معوذتین کو قرآن میں لکھتے تھے، اسی طرح حضرت ابی بن کعب بھی لکھتے تھے لیکن سورۂ فاتحہ کی کچھ آیات کو موجودہ قرآن سے الگ طرح پڑھتے اور حضرت عبداللّٰه بن مسعود سرے سے ہی قرآن میں سورۃ فاتحہ کو لکھتے نہ معوذتین کو۔
مسلمان کبھی یہ بات ثابت نہیں کر سکتے کہ موجودہ قرآن وہی ہے جو محمد صلعم پر اترنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے صحابہ کا آپس میں مختلف آیات کا شدید اختلاف تھا کہ وہ قرآن ہے یا نہیں۔
اس ضمن میں پہلوں کا جو اختلاف تھا کبھی بھی مسلمان حل نہیں کر پائے لیکن ایک اور دعویٰ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ تیسرے خلیفہ عثمان نے اپنے دور میں جو قرآن جمع کروایا، پھر اس پر اجماع ہو گیا کیونکہ باقی تمام مختلف مصاحف انہوں نے جلوا دیئے تھے۔ اس بیان پر جو جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں ان سے قطع نظر یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ اس عثمانی مصحف پر اجماع ہو گیا تھا کیونکہ عبداللّٰه بن مسعود اور ان کے شاگردوں نے سارے مصحف جمع کر کے جلوانے اور صرف ایک کو رائج کرنے کے عمل کی شدید مخالفت کی اور اسی مصحف پر قائم رہے جو ان کے پاس موجود تھا۔ اب پتا نہیں یہ کون سا اجماع ہے جس میں عبداللّٰه بن مسعود جیسا جلیل القدر صحابی اور ان کے شاگرد شامل نہیں۔
12- چنانچہ خمیر بن مالک کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سرکاری حکم جاری ہوا کہ مصاحف قرآنی کو بدل دیا جائے (حضرت عثمان غنی کے جمع کردہ مصاحف کے علاوہ کسی اور ترتیب کو باقی نہ رکھا جائے) حضرت ابن مسعود کو پتا چلا تو فرمایا:
"تم میں سے جو شخص اپنا نسخہ چھپا سکتا ہو، چھپا لے، کیونکہ جو شخص جو چیز چھپائے گا قیامت کے دن اس کے ساتھ ہی آئے گا، پھر فرمایا کہ میں نے نبی کریم کے دہن مبارک سے ستر سورتیں پڑھی ہیں، کیا میں ان چیزوں کو چھوڑ دوں جو میں نے نبی کریم کے دہن مبارک سے حاصل کی ہیں۔”
(مسند احمد، مترجم، جلد دوم ص۶۱۹-۶۲۰، حدیث ۳۹۲۹، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)
یاد رہے کہ عبداللّٰه بن مسعود ان چار صحابہ میں سے ایک ہیں، جن سے خود پیغمبر اسلام نے قرآن سیکھنے کا حکم دیا تھا (صحیح بخاری: رقم الحدیث ۴۹۹۹)۔
مگر افسوس کہ جن سے قرآن سیکھنے کا حکم خود پیغمبر اسلام نے دیا بعد والوں نے اس مصحف کو ضائع کر دیا اور ان لوگوں کا جمع کردہ مصحف رائج کر دیا گیا جن کی ان لوگوں نے مخالفت کی تھی۔
ان تمام روایات سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ موجودہ قرآن کے متعلق یہ دعویٰ کرنا کہ یہ بعینہ وہی قرآن ہے جو محمد صلعم چھوڑ کر گئے تھے، محض دوسروں کو اور خود کو دھوکہ دینا ہے۔ قرآن کی حفاظت الٰہی کا دعویٰ تو محمد کی وفات کے فوراً بعد ہی اپنا اثر چھوڑ گیا تھا اور بہت سی ایسی آیات جو وفاتِ نبی تک موجود تھیں، پڑھی جا رہی تھیں، قرآن کی تدوین کے وقت شامل نہ ہو سکیں کیونکہ وہ مختلف واقعات میں ضائع ہو چکی تھیں۔ پھر کئی آیات ایسی تھیں جو مختلف صحابہ کے درمیان مختلف فیہ تھیں کہ ایک کے نزدیک قرآن اور دوسرے کے نزدیک غیر قرآن، ایک کے نزدیک دوسرا قرآن کی کچھ آیات کا منکر بن رہا تھا اور دوسرے کے نزدیک پہلا کچھ زائد آیات قرآن میں شامل سمجھ رہا تھا۔ اسی طرح اور بھی بہت سی آیات ایسی تھیں جو مختلف صحابہ دور تابعین میں بھی اس طرح پڑھتے تھے کہ موجودہ قرآن میں ان آیات کے کچھ الفاط موجود نہیں یا زائد ہیں۔ اسی طرح بعد میں جس قرآن کو تیسرے خلیفہ نے سرکاری سرپرستی میں رائج کروایا اس سے بھی کئی ایک صحابہ و تابعین کا اختلاف تھا اور ان مختلف قرآن کے نسخوں کو زبردستی ضبط کر کے ضائع کیا جاتا رہا تاکہ قرآن کے اس شدید اختلاف پر پردہ ڈالا جا سکے۔
یہ تو محض (راقم کے علم کی حد تک) وہ روایات پیش کی گئی ہیں جن میں موجودہ قرآن کی پوری پوری آیات یا الفاظ کا فرق ہے، اگر صحابہ و تابعین کے درمیان قرآن کی مختلف آیات کے پڑھنے کا اختلاف سامنے لایا جائے تو اس کے لئے الگ کتاب چاہئےاور کوشش ہو گی کہ اس پر الگ سے کچھ لکھا جا سکے۔ وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ۔