Close

خدا ہے کہ نہیں ہے؟

مذہب اور علم (سائنس) میں ایک تشابہ ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں واقعات کی تفسیر اور اسباب کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں، گویا کہ مذہب علم کا ” تصوراتی ” متبادل ہے، لیکن مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب مذہب اپنے اور اپنے عقائد کے لیے ایک طرح کے حق یا سچ کا دعوی داغتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ صفت کسی بھی تصوراتی متبادل میں نہیں ہوسکتی؟!

مذہب اور علم کے درمیان اختلاف ختم کرنے کی کوشش در حقیقت مذہب کے دفاع کے لیے کی جانے والی ایک ناکام کوشش ہے، جب بھی مذہب کو اپنے کسی روایتی موقف سے دستبردار ہونا پڑتا ہے یہ کوششیں شروع کردی جاتی ہیں، اس کا انداز بہت پرانا اور جانا پہچانا ہے جو کسی مسئلے پر جدید علمی موقف اور اسی مسئلے پر مذہبی موقف کے درمیان جھگڑے سے شروع ہوتا ہے جو سالوں بلکہ دہائیوں تک چلتا رہتا ہے جس میں آخر کار علمی نقطہ نظر کی ہی جیت ہوتی ہے، جب یہ نقطہ نظر علمی، ادبی اور عوامی حلقوں میں مقبول ہونا شروع ہوجاتا ہے، تب مذہبی نقطہ نظر کے لوگ کہتے ہیں کہ اصل میں جھگڑے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی کیونکہ اس اختلاف کا تعلق مذہب کی روح سے نہیں تھا چنانچہ اگر مذہب اپنے اس موقف سے دستبردار ہوجائے تو اس کی روح اور جوہر کو کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن سچ یہ ہے کہ اس طرح کی توجیہات اپنے پیچھے دستبرداریوں کا ایک طویل اور فیصلہ کن سلسلہ لیے ہوئے ہیں جن کی قربانی مذہب کو علم کے ساتھ ہر ٹکراؤ پر دینی پڑی، اگرچہ مذہب کی روح اور جوہر کا یہ فلسفہ بڑا خوبصورت ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مذہب کبھی بھی علم کے ساتھ اپنے کسی بھی جھگڑے میں طویل جنگ کیے بغیر پیچھے نہیں ہٹا، جدید علمی ثقافت کے دباؤ اور معاشرے کی دورِ جدید کی ضروریات کے سامنے بالآخر مذہب کو گھٹنے ٹیکنے ہی پڑجاتے ہیں.

علمی اور روایتی مذہبی نقطہ نظر کے درمیان نوری سالوں کا فاصلہ ہے، علمی تحقیق کے نتائج ہمیشہ مذہبی عقیدے سے متصادم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا فیصلہ حتمی ہوجاتا ہے.

قاری کائنات کی تخلیق کا مذہبی نقطہ نظر جانتا ہے کہ کس طرح خدا نے اس کائنات کو کسی مخصوص وقت میں بنایا، قاری کو اولین انسان کا اپنی بیوی کے ساتھ جنت سے نکالا جانا بھی یاد ہوگا جہاں سے انسان کی اس زمین پر تاریخ شروع ہوتی ہے، یہ عین مذہبی عقیدہ ہے کہ خدا اپنی مخلوقات کا خیال رکھتا ہے اور ان کی عبادتیں اور دعائیں سنتا ہے بلکہ کبھی کبھی طبعی نظام میں مداخلت بھی کرتا ہے جنہیں معجزات کا نام دیا جاتا ہے، اور کائنات جب سے اسے خدا نے بنایا ہے ایسی ہی ہے جیسی کہ وہ اب نظر آتی ہے یعنی وہی فلکیاتی اجسام، وہی جانور اور پودے جو روز اول سے موجود ہیں جبکہ اس معاملے پر علمی نظریات عدم سے تخلیق کا اعتراف نہیں کرتے اور نا ہی یہ بتاتے ہیں کہ کائنات ابتداء سے ایسی ہی تھی جیسی کہ وہ اب نظر آتی ہے، انگریز عالم اور فلسفی برٹرینڈ رسل نے اس نظریے کو ایک خوبصورت ادبی انداز میں ” آزاد آدمی کی عبادت ” کے عنوان سے بیان کیا ہے:

A Free Man’s Worship

To Dr. Faustus in his study Mephistopheles told the history of the Creation, saying:

"The endless praises of the choirs of angels had begun to grow weari-some; for, after all, did he not deserve their praise? Had he not given them endless joy? Would it not be more amusing to obtain undeserved praise, to be worshipped by beings whom he tortured? He smiled in-wardly, and resolved that the great drama should be performed.

"For countless ages the hot nebula whirled aimlessly through space. At length it began to take shape, the central mass threw off planets, the planets cooled, boiling seas and burning mountains heaved and tossed, from black masses of cloud hot sheets of rain deluged the barely solid crust. And now the first germ of life grew in the depths of the ocean, and developed rapidly in the fructifying warmth into vast forest trees, huge ferns springing from the damp mould, sea monsters breeding, fighting, devouring, and passing away. And from the monsters, as the play unfol-ded itself, Man was born, with the power of thought, the knowledge of good and evil, and the cruel thirst for worship.

And Man saw that all is passing in this mad, monstrous world, that all is struggling to snatch, at any cost, a few brief moments of life before Death’s inexorable decree.
And Man said: ‘There is a hidden purpose, could we but fathom it, and the purpose is good; for we must reverence something, and in the visible world there is nothing worthy of reverence.’ And Man stood aside from the struggle, resolving that God intended harmony to come out of chaos by human efforts. And when he followed the instincts which God had transmitted to him from his ancestry of beasts of prey, he called it Sin, and asked God to forgive him. But he doubted whether he could be justly forgiven, until he invented a divine Plan by which God’s wrath was to have been appeased. And seeing the present was bad, he made it yet worse, that thereby the future might be better. And he gave God thanks for the strength that enabled him to forgo even the joys that were possible. And God smiled; and when he saw that Man had become per-fect in renunciation and worship, he sent another sun through the sky, which crashed into Man’s sun; and all returned again to nebula. "‘Yes,’ he murmured, ‘it was a good play; I will have it performed again.'”

رسل کی اس تحریر میں کائنات، زندگی، انسان، مذاہب، عبادتیں اور ان کی ترقی کا علمی اور طبعی نقطہ نظر بیان کیا گیا ہے، آخر میں وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر چیز کا انجام فناء اور عدم ہے اور اس کے بعد کسی جاندار کے لیے کوئی امید نہیں ہے، سب اس بادل سے ہیں اور سب نے اسی بادل کی طرف ہی جانا ہے.

ایک اور موقع پر جب رسل سے پوچھا گیا کہ: کیا انسان موت کے بعد جیے گا؟ تو اس نے انکار میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ: جب ہم اس سوال کو جذباتی کی بجائے علمی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ موت کے بعد زندگی کے جاری رہنے کی کوئی عقلی وجہ دریافت کرنا انتہائی مشکل ہے، مجھے موت کے بعد زندگی کے عقیدے کی کوئی علمی بنیاد نظر نہیں آتی.

اگر اس ٹھنڈے اور کٹھور علمی نظریے کا مقابلہ خوبصورت اور گرما گرم مذہبی نظریے سے کیا جائے تو ہمیں غیبیات، فرشتے، جن، معجزات، عبادتیں کائنات کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتی ہوئی نظر آئیں گی، یہ بات انسان کی تاریخ اور اس کے انجام سے متعلق بھی لاگو ہوتی ہے، جبکہ علمی نظریے کو ایک اور ریاضی دان لاپلاس نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے جب اس نے اپنی کتاب سسٹم آف دی ورلڈ (The Exhibition System of the World) نپولین کو تحفتاً دی تو نپولین نے اس سے پوچھا کہ: ” تمہارے نظام میں خدا کون سے مقام پر ہے؟ ” تو لاپلاس نے جواب دیا کہ: ” خدا ایک ایسا مفروضہ ہے جس کی مجھے اپنے نظام میں ضرورت نہیں ہے ”. تو پھر اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں جب ہم دو صدیاں پہلے نیتشے کو یہ اعلان کرتے ہوئے پاتے ہیں کہ خدا مرگیا ہے، کیا ہم انکار کر سکتے ہیں کہ وہ خدا جو یورپ میں مرگیا کیا دوسری جگہوں پر علمی ترقی کے نیچے دب کر آخری سانسیں نہیں لے رہا؟ یقیناً جب ہم کہتے ہیں کہ خدا مرگیا ہے یا مرنے والا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قوموں کے ضمیر سے مذہبی عقائد ختم ہوگئے ہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ کائنات کی ساخت کے حوالے سے انسان نے جو علمی دریافتیں کی ہیں وہ ساری کی ساری خدا کے ذکر سے خالی ہیں بالکل جس طرح لاپلاس کہتے ہیں.

پھر بھی دفاعی مورچے سے ایک آخری آواز ضرور بلند ہوتی ہے جو کہتی ہے کہ: مادے کے بارے میں علمی نظریات کو مان بھی لیا جائے تب بھی کائنات کے ابتدائی مصدر کا مسئلہ برقرار رہے گا… رسل کی بات مانتے ہوئے ہم فرض کرتے ہیں کہ کائنات ایک بادل (Nebula) سے شروع ہوئی مگر علم ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ یہ بادل کہاں سے آیا اور نا ہی یہ بتاتا ہے کہ وہ ابتدائی مادہ کہاں سے آیا جس سے ہر چیز نے ترقی کی؟ چنانچہ یہاں پر لازم ہے کہ علم کو مذہب سے رابطہ کرنا چاہیے، لیکن سوال کو اس طرح سے پیش کرنا دراصل یہ بتاتا ہے کہ ہماری سوچ پر ہماری مذہبی تربیت کا کس قدر اثر ہے، تھوڑی دیر کے لیے ہم مان لیتے ہیں کہ خدا نے ہی وہ پہلا مادہ بنایا تو کیا اس سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟ کیا اس مفروضے کو تسلیم کرنے سے پہلے بادل کے مصدر کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ نہیں!! آپ پہلے بادل کے وجود کی علت کا سوال اٹھاتے ہیں اور جواب دیتے ہیں کہ یہ خدا ہے، اب میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ خدا کے وجود کی علت کیا ہے؟ یہاں آپ کا جواب وہی جانا پہچانا ہے کہ خدا کا وجود غیر معلول ہے، یہاں میں آپ سے کہتا ہوں کہ ہم یہ کیوں فرض نہیں کر لیتے کہ پہلے مادے کا وجود غیر معلول ہے جس سے بحث بھی ختم ہوجائے گی اور ہمیں غیبیات اور روحانی قسم کی مخلوقات سے رجوع بھی نہیں کرنا پڑے گا جن کا وجود ہم ثابت نہیں کر سکتے؟ یاد رہے کہ قدیم فلاسفروں بشمول مسلمانوں کے ہمیشہ یہی رائے رہی ہے اور انہوں نے دنیا کے قدیم ہونے کا اعتراف کیا ہے لیکن مذہبی تعصب کی وجہ سے وہ بات کو گھماتے رہے، در حقیقت ہمیں کائنات کے ابتدائی مصدر کے حوالے سے انتہائی انکساری سے اپنی کم علمی کا اعتراف کرلینا چاہیے، جب آپ مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ خدا ہی پہلے مادے کے وجود کی علت ہے جس پر یہ ساری کائنات مشتمل ہے، اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ خدا کے وجود کی علت کیا ہے تو سب سے بڑا جواب جو آپ مجھے دے سکتے ہیں وہ ہے: ” نہیں معلوم، بس خدا کا وجود غیر معلول ہے ” اسی طرح جب آپ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ پہلے مادے کے وجود کی علت کیا ہے تو سب سے بڑا جواب جو میں آپ کو دے سکتا ہوں وہ ہے: ” نہیں معلوم، بس مادے کا وجود غیر معلول ہے ”، یعنی آخر میں فریقین نے چیزوں کے پہلے مصدر پر اپنی کم علمی کا اعتراف کر لیا بس فرق صرف اتنا ہے کہ آپ نے مجھ سے ایک مرحلہ بعد اعتراف کیا اور معاملے میں غیبی عناصر داخل کردیے جن کا مسئلے کے حل میں کوئی کردار نہیں ہے.

تو خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم یہ کہیں کہ مادہ قدیم ہے جدید نہیں ہے اور خدا بھی قدیم ہے جدید نہیں ہے تو اس طرح گویا ہم نے اعتراف کر لیا کہ ہم چیزوں کے پہلے مصدر کے بارے میں نا تو جانتے ہیں اور نا ہی جان سکتے ہیں، چنانچہ بہتر یہی ہے کہ بجائے الٹے سیدھے راستے اختیار کرنے کے ہم اپنی جہالت کا براہ راست اعتراف کر لیں، دنیا کی کسی بھی عدالت میں کسی بھی معاملے کے اثبات یا نفی کے لیے فیصلہ تب تک معلق رہتا ہے جب تک کہ قطعی ثبوت دستیاب نہ ہوجائیں اور خدا کو اپنا وجود ثابت کرنے کے لیے ایسے ثبوتوں کی اشد ضرورت ہے، حقیقت کی سنجیدہ تلاش میں یہ فکری دیانتداری کی کم سے کم حد ہے.

23 Comments

  1. اینڈرسن شا بھیا ہم جو مشہور جملہ سنتے آئے ہیں‌کہ خدا پر یقین کرنے کے لئے خدا کی خدائی پر غور کرنا چاہیے نہ کہ خدا پر .
    اور کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں خدا کے وجود کا ثبوت ہی خدا کی خدائی ہے؟
    اور علم کے بارے میں کیا کہیں گے کہ ” یہ تو بحث ہی خدا کی خدائی پر کرتا ہےخدا پر نہیں” .

  2. اینڈرسن شا ویسے تبصروں کا راستہ تقریبا مقید سا لگ رہا ہے اور میں چاہوں گاکہ اس موضوع پر بھرپور اور علمی انداز میں آگے بڑھنا چاہے ورنہ ایک روایت پسند مذہب پرست اور کٹر دہریے میں صرف "نہ” کا ہی فرق ہوتا ہے ایک خدا کو ایسے مانتا ہے کہ کوئی اور چیز نہیں مانتا اور ایک خدا کو ایسے "نہ” مانتا ہے جیسے کوئی اور چیز نہیں مانتا.

    جس طرح خدا کے وجود کو ثابت کرنا روایتی منطق (جسے عام اصطلاح میں Logic اور Rational Thinking کہتے ہیں ) تقریبا نا ممکن ہے اسی طرح خدا کے عدم وجود کو ثابت کرنا بھی بعینیہ اتنا ہی دشوار اور نا ممکن ہے. اسی وجہ سے فلسفہ میں Agnosticism کی مشہور اصطلاح استعمال ہوتی ہے.

    تو پھر اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں جب ہم دو صدیاں پہلے نیشتے کو یہ اعلان کرتے ہوئے پاتے ہیں کہ خدا مرگیا ہے، کیا ہم انکار کر سکتے ہیں کہ وہ خدا جو یورپ میں مرگیا کیا دوسری جگہوں پر علمی ترقی کے نیچے دب کر آخری سانسیں نہیں لے رہا؟

    یقینا کا لفظ کچھ زیادہ جلدی ہی استعمال نہیں کر لیا ، یورپ کی ترقی سے کہیں زیادہ ترقی اکیلے ملک امریکہ میں ہوئی ہے اور یہاں مذہب اور خدا ابھی بھی نہ صرف زندہ ہے بلکہ اب تو Intelligent Design کے نام سے ایک تھیوری ارتقا کی تھیوری کے مقابلے میں پیش کی جاتی ہے ، جس کی حمایت یقینا ارتقائی تھیوری کے مقابلے میں کافی کم ہے مگر خیال رہے کہ یہ مذہبی نہیں بلکہ ایک سائنسی تھیوری ہے۔

    بلکہ یہ مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ساخت کے حوالے سے انسان نے جو علمی دریافتیں کی ہیں وہ ساری کی ساری خدا کے ذکر سے خالی ہیں بالکل جس طرح لاپلاس کہتے ہیں.
    یہاں بھی میرے خیال سے زیادتی کر گئے ہیں اور جدید دور کے کئی اہم اور تیزی سے ابھرتے ہوئے علوم جن میں سے کچھ پر آپ کی تحاریر بھی موجود ہیں کو نظر انداز کر گئے ہیں۔

    کاسمولوجی ، کوانٹم میکانیکس اور پارٹیکل فزکس کے اکثر مباحث خدا کے ذکر سے بھرے پڑے ہیں۔ مشہور مثال آئن سٹائن اور بوہر کے درمیانے نظریہ اضافت کے مباحثوں کے درمیان خدا کا بھرپور ذکر رہا

    Reading the mind of God

    بوہر کا مشہور زمانہ جواب

    God does not play dice

    نیوٹن نچوڑ اپنی مشہور کتاب Principia میں

    The most beautiful system of the sun, planes, and comets could only proceed from the counsel and dominion of an intelligent and powerful Being

    آئن سٹائن عوامی خدا نہیں بلکہ سپائنوزا ( Spinoza) کے خدا میں یقین رکھتا تھا جو اپنا آپ کائنات میں موجود اشیا کے حسن ترتیب میں دکھاتا ہے نہ کہ انسانوں کی قسمتوں اور حرکات کے متعلق متفکر رہ کر

    آخر میں آپ کے پسندیدہ فلسفی برٹرینڈ رسل کا ایک اعتراف پیش خدمت ہے "Am I An Atheist Or An Agnostic” سے

    "I never know whether I should say "Agnostic” or whether I should say "Atheist”. It is a very difficult question and I daresay that some of you have been troubled by it. As a philosopher, if I were speaking to a purely philosophic audience I should say that I ought to describe myself as an Agnostic, because I do not think that there is a conclusive argument by which one can prove that there is not a God.”

    1. "” جس طرح خدا کے وجود کو ثابت کرنا روایتی منطق (جسے عام اصطلاح میں Logic اور Rational Thinking کہتے ہیں ) تقریبا نا ممکن ہے اسی طرح خدا کے عدم وجود کو ثابت کرنا بھی بعینیہ اتنا ہی دشوار اور نا ممکن ہے. اسی وجہ سے فلسفہ میں Agnosticism کی مشہور اصطلاح استعمال ہوتی ہے. "”

      میں اس سے انکار نہیں کر رہا، میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ خدا کو منطق اور استدلالی سوچ سے ثابت نہیں کیا جاسکتا تو بجائے اس کے کہ غیبی عناصر کو بیچ میں گھسیڑا جائے سیدھا سیدھا اس کا انکار کردینا چاہیے جو زیادہ معقول راستہ معلوم ہوتا ہے.. رہی یہ بات کہ اسی منطق اور استدلال سے خدا کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا تو مجھ سے زیادہ اور کسی کو خوشی نہیں ہوگی اگر آپ یہ ثابت کر کے دکھا دیں 🙂

      ”” یقینا کا لفظ کچھ زیادہ جلدی ہی استعمال نہیں کر لیا ، یورپ کی ترقی سے کہیں زیادہ ترقی اکیلے ملک امریکہ میں ہوئی ہے اور یہاں مذہب اور خدا ابھی بھی نہ صرف زندہ ہے بلکہ اب تو Intelligent Design کے نام سے ایک تھیوری ارتقا کی تھیوری کے مقابلے میں پیش کی جاتی ہے ، جس کی حمایت یقینا ارتقائی تھیوری کے مقابلے میں کافی کم ہے مگر خیال رہے کہ یہ مذہبی نہیں بلکہ ایک سائنسی تھیوری ہے۔ ””

      یورپ کی بات میں نے ترقی کے حوالے سے نہیں کی تھی بلکہ میں نے نیتشے کا بیان نقل کیا تھا جس کا کہنا تھا کہ خدا مرگیا ہے، اور نیتشے جرمنی میں رہتا تھا جو یورپ میں ہے، جہاں تک Intelligent Design نظریہ کی بات ہے تو علمی برادری کی اکثریت اسے جعلی علم Pseudoscience یا junk science قرار دیتی ہے، جس امریکہ میں آپ خدا کو زندہ قرار دے رہے ہیں اسی کی قومی علمی اکیڈمی کا بیان ہے کہ یہ کوئی علم نہیں ہے کیونکہ اسے تجربے سے جانچا نہیں جاسکتا، 2005 میں اسی امریکہ کی ایک ریاست پنسیلوینا کے ایک سکول نے جب نظریہ ارتقاء کی جگہ انٹیلی جینٹ ڈیزائن نظریہ کو اپنانا چاہا تو امریکی عدالت نے اسے آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ انٹیلی جینٹ ڈیزائن نظریہ کوئی علم نہیں ہے اور یہ اپنے جوہر میں مذہبی عنصر کا حامل ہے.

      ”” یہاں بھی میرے خیال سے زیادتی کر گئے ہیں اور جدید دور کے کئی اہم اور تیزی سے ابھرتے ہوئے علوم جن میں سے کچھ پر آپ کی تحاریر بھی موجود ہیں کو نظر انداز کر گئے ہیں۔

      کاسمولوجی ، کوانٹم میکانیکس اور پارٹیکل فزکس کے اکثر مباحث خدا کے ذکر سے بھرے پڑے ہیں۔ مشہور مثال آئن سٹائن اور بوہر کے درمیانے نظریہ اضافت کے مباحثوں کے درمیان خدا کا بھرپور ذکر رہا ””

      اپنی تحاریر کو میں نے نظر انداز نہیں کیا ہے، یہ مضمون پڑھ کر کسی کو میرے بارے میں غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے، میں اب بھی خدا پر یقین رکھنے کے لیے تیار ہوں بشرطیکہ کوئی ثابت کر کے دکھا دے 🙂

      جہاں تک ان مباحث کی بات ہے جن کا آپ نے حوالہ دیا ہے تو ان میں خدا کے ذکر کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ وہ سائنسدان مذہبی پس منظر کے حامل تھے اور خود خدا پر یقین رکھتے تھے اور دوم یہ کہ کسی معاملے کو سمجھنے یا سمجھانے کے لیے وہ خود کو خدا کی جگہ رکھ کر بات کرتے تھے جیسے آپ ہی کا اقتباس کہ Reading the mind of God یعنی خدا کے ذہن کو پڑھنا، ورنہ جہاں بات کسی معاملے کے اثبات یا نفی کی آتی ہے وہاں خدا کا کوئی کردار باقی نہیں رہتا اور اسے فوراً غائب کردیا جاتا ہے، آپ ایسا کوئی ثابت شدہ علمی نظریہ پیش نہیں کر سکتے جس کے ثبوتوں میں خدا موجود ہو..

      رہی بات رسل کے بیان کی تو اس پر ایک اور پوسٹ 😀

  3. میں اس سے انکار نہیں کر رہا، میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ خدا کو منطق اور استدلالی سوچ سے ثابت نہیں کیا جاسکتا اسی طرح اس کا رد بھی نہیں کیا جاسکتا تو بجائے اس کے کہ غیبی عناصر کو بیچ میں گھسیڑا جائے سیدھا سیدھا اس کا انکار کردینا چاہیے جو زیادہ معقول راستہ معلوم ہوتا ہے

    اینڈرسن شا اگر سیدھا سیدھا انکار کر دیں گے تو پھر علمی راستہ کہاں جائے گا اور سیدھا سیدھا انکار تو پھر خدا کے نہ ہونے کا بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی خدا کے عدم وجود کو ثابت نہیں کر سکے گا۔ ہر غیر مرئی شے کے بارے میں یہ مشکل درپیش آتی ہے اور ایک بڑی مثال روح کی بھی ہے جو ہے اور اس سے انکار بھی نہیں مگر اسے بھی ثابت کرنا انتہائی دقیق اور مشکل ہے۔ دلائل اس لیے دیے جاتے ہیں تاکہ انسان کو اپنے یقین اور عمل کے لیے معقول اور قابل تسلی وجہ مل سکے اور دلائل صرف منطق اور استدلال تک ہی محدود نہیں ہوتے کچھ مواقع پر تجربات ، آثار اور قلبی کیفیت بھی مدد کرتی ہے۔
    اس کے علاوہ ایک دلچسپ نیا فلسفہ ایڈورڈ ڈی بونو ( Edward De Bono) کا ہے جو کہتا ہے کہ منطقی ، خط استوا اور تنقیدی فکر کی حدود ہیں کیونکہ یہ تقابل اور سوال و جواب پر مشتمل ہوتی ہیں اس کے مقابلے میں وہ پہلو دار ( کثیر رخی ) سوچ ( sideways thinking , Lateral Thinking ) اور تخلیقی سوچ ( Creative Thinking) کی بات کرتا ہے اور اس کی باتوں میں کافی وزن ہے۔ تین کے ٹولے (سقراط، افلاطون ، ارسطو) کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اس نے ۔

    ہاں تک Intelligent Design نظریہ کی بات ہے تو علمی برادری کی اکثریت اسے جعلی علم Pseudoscience یا junk science قرار دیتی ہے، جس امریکہ میں آپ خدا کو زندہ قرار دے رہے ہیں اسی کی قومی علمی اکیڈمی کا بیان ہے کہ یہ کوئی علم نہیں ہے کیونکہ اسے تجربے سے جانچا نہیں جاسکتا، 2005 میں اسی امریکہ کی ایک ریاست پنسیلوینا کے ایک سکول نے جب نظریہ ارتقاء کی جگہ انٹیلی جینٹ ڈیزائن نظریہ کو اپنانا چاہا تو امریکی عدالت نے اسے آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ انٹیلی جینٹ ڈیزائن نظریہ کوئی علم نہیں ہے اور یہ اپنے جوہر میں مذہبی عنصر کا حامل ہے

    Intelligent Design کے ساتھ کافی تعصب برتا جاتا ہے بلکہ اسے تقریبا ہمیشہ ہی Creationism کے ساتھ بریکٹ کرکے لکھا اور پڑھا جاتا ہے جس کی وجہ سے اسے علم یا نظریہ کے طور پر نہ ہونے کے برابر اور مذہبی نظریے کے طور پر ہی زیادہ تر پیش کیا جاتا ہے اور اسی حوالے سے اس پر تنقید کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے ایسے ماحول میں اسے کسی پذیرائی اور تقویت کی توقع کم ہی ہوگی ویسے بھی ارتقائی تھیوری ، دہریوں کا ثابت شدہ مذہب ہے اور اس پر ہونے والی تنقید یا دوسری رائے پر وہ بالکل ویسے ہی رد عمل کا اظہار کرتے ہیں جیسا کہ ایک مذہب پرست مذہب پر ہونے والی تنقید پر کرتا ہے 🙂 ۔ امریکی آئین میں ریاست کو مذہب سے جدا رکھنے کی شق ہے اس وجہ سے اس نظریے کو پڑھانے سے منع کیا گیا کہ کیس ایسے ہی پیش کیا جاتا ہے کہ یہ مذہب کو دوبارہ ریاست میں شامل کرنے کی کوشش ہے اور اس پر تمام سیاسی اور طاقتور طبقے متفق ہیں۔ ویسے یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے ہر نو آموز اور مختلف تحقیق کو ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ مثال کوانٹم میکینکس (Quantum Mechanics) کی ہے جسے ثابت نہیں کیا جا سکتا اور چند دہائیں پہلے تک آئن سٹائن اور اسٹیفن ہائکنگ جیسے چوٹی کے سائنسدان بھی اس کے قائل نہیں تھے نظریہ اضافت کی روشنی میں مگر اب اسے قبول عام کا درجہ حاصل ہو رہا ہے اور بنیادی طبیعات قوانین کو اس نے ئکسر بدل کر رکھ دیا ، خاص طور پر نیوٹن کی دنیا ہی تہہ و بالا ہو گئی ہے بلکہ بہت حد تک آئن سٹائن کی بل کھاتی کائنات بھی اب چار جہتوں سے مزید جہتوں میں داخل ہو رہی ہے اور ناممکنات یا معجزوں کو سائنس کی زبان مل رہی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق 13 فیصد بائیولوجی کے اساتذہ ارتقائی تھیوری میں یقین نہیں رکھتے اور تقریبا 60 فیصد سائنسی طرز استفسار کی فطرت کو بیان کرنے میں فیل ، مستحکم ماہرین کے اختیار کو کم کرتے اور تخلیقی استدلال کو جائز قرار دیتے ہیں۔
    Study: Most high school biology teachers don’t endorse evolution

    یہ مضمون پڑھ کر کسی کو میرے بارے میں غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے، میں اب بھی خدا پر یقین رکھتا ہوں

    میں تو اسی سوچ میں گم ہوں کہ خدا پر یقین کیسے ہے ، میں سمجھا کہ دوبارہ سے خدا کے اثبات اور عدم وجود کا سفر جاری ہے 😉 بقول احمد شہزاد

    جس کو جانا ہی نہیں اس کو خدا کیوں مانیں
    اور جسے جان چکے ہیں وہ خدا کیسے ہو۔

  4. جہاں تک ان مباحث کی بات ہے جن کا آپ نے حوالہ دیا ہے تو ان میں خدا کے ذکر کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ وہ سائنسدان مذہبی پس منظر کے حامل تھے اور خود خدا پر یقین رکھتے تھے اور دوم یہ کہ کسی معاملے کو سمجھنے یا سمجھانے کے لیے وہ خود کو خدا کی جگہ رکھ کر بات کرتے تھے جیسے آپ ہی کا اقتباس کہ Reading the mind of God یعنی خدا کے ذہن کو پڑھنا، ورنہ جہاں بات کسی معاملے کے اثبات یا نفی کی آتی ہے وہاں خدا کا کوئی کردار باقی نہیں رہتا اور اسے فوراً غائب کردیا جاتا ہے، آپ ایسا کوئی ثابت شدہ علمی نظریہ پیش نہیں کر سکتے جس کے ثبوتوں میں خدا موجود ہو..

    پہلی بات سے تو اتفاق نہیں کہ وہ سائنسدان مذہبی پس منظر رکھتے تھے کیونکہ آئن سٹائن اور بوہر دونوں مذہب پرست نہیں تھے بلکہ بوہر تو میرے خیال سے پکا دہریہ تھا البتہ دوسری بات میں وزن ہے کہ وہ خود کو خدا کی جگہ رکھ کر سوچتے تھے اور خدا کو استعارے کے طور پر استعمال کر رہے تھے مگر اس سب کے باوجود خدا کا مباحث میں داخل ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ اس خیال کو انہوں نے یکسر رد یا نظر انداز نہیں کیا تھا جبکہ سائنسی نظریات میں عموما غیر مرئی اور ما بعد الطبیعات کی کوئی جگہ نہیں ہوتی ، یہ سائنس کے دائرہ کار سے ہی باہر ہے اس لیے ہی کسی سائنسی علمی نظریہ میں اس کی کوئی گنجائش بنتی نہیں اور یہ عین قرین قیاس بھی ہے۔

    رسل پر ایک اور پوسٹ کا انتظار رہے گا 🙂 اور میری طرف سے شکریہ کہ میری دلچسپی اور شوق سے مترادف دلچسپ موضوعات شروع کر رکھے ہیں جن پر ایک بہت عرصے بعد گفتگو کا موقع مل رہا ہے۔ مجھے امید ہے اسی طرح ٹھنڈے اور علمی انداز میں گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا جس سے اردو کمیونٹی کو متفرق موضوعات بھی ملیں گے اور بہت ممکن ہے آئندہ کچھ اور لوگ بھی ان موضوعات پر تحریک پا کر لکھنا شروع کریں جو کہ میری نظر میں ہمارا اولین مقصد ہے ۔

  5. فاروق عوان صاحب ، سٹیفن ہاکنگ تو پیدا ہی اس دور میں ہوا تھا جب کوانٹم مکینکس پوری طرح مستند درجہ حاصل کرچکی تھی۔ موصوف جب ماں کی گود میں تھے تو کوانٹم مکینکس کے علم سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے امریکہ میں ایٹم بم تیار کیا جارہا تھا۔ رہا آئن سٹائن کا سوال تو وہ کبھی بھی کوانٹم مکینکس کا منکر نہیں تھا نہ ہوسکتا تھا۔ اس کی بے چینی یہ تھی کہ کوانٹم مکینکس جن ریاضیاتی تھیورمز پر قائم ہے ان کی کل طبعی انٹرپرٹیشن کیا وہی ہے جو بوہر اور دوسرے بیان کرتے ہیں؟ کیا ایٹمی لیول پر مظاہر فطرت میں ایسے شواہد مل سکتے ہیں کہ جن کی کوانٹم مکینکس پوری طرح وضاحت نہیں کرسکتی؟ معاملہ لے دے ک ر کوانٹم مکینکس کے ریاضی کی وضاحت بالحاظ فطرت ہی کا تھا۔ نیز اس کا اصرار کوانٹم مکینکس کے نامکمل ہونے پر تھا جو کہ سائنسی تحقیق میں ایک معمول کی پریکٹس ہے. کوانٹم مکینکس اور حیاتیاتی ایولوشن مسنتند سائنس ہیں۔ ان کی بنیادیں سائنسی اصولوں پر قائم ہیں۔ ان کے ثبوت طبعی ایجادات سے لے کر فوسلز کے ریکارڈ کی صورت میں ہمارے چاروں طرف موجود ہیں۔ دنیا کے معروف تحقیقی اداروں ، جامعات ، اور مستند تحقیقی جرائد میں شائع ہونے والی دہایوں سے جاری تحقیق نے ایولیشن کو ایک قدم آگے ہی بڑھایا ہے۔ غلط یہ کبھی بھی ثابت نہیں ہوسکی۔ اگر آپ انٹیلیجنٹ ڈئزائن نامی جعلسازی کو سائنس کہنے پر مصر ہیں تو آپ کو اس کے حق میں کسی پئر ریویو سائنسی جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق پر انحصار کرنا ہوگا۔ لیکن اب ادھر مسئلہ یہ ہے کہ کسی مستند سائنسی جرنل میں آپ کو ایسا کچھ نہیں ملنے لگا۔ البتہ ایمازان ڈاٹ کام پر بہت سی مسالے دار کتب ضرور مل جائیں گی جن کے مصنفین غیر متعلقہ شعبے کے سائنسدان ہیں۔ اور سائنس چھوڑ کر اب مذہب پرست اداروں مثلا ڈسکوری انسٹیٹیوٹ کی فنڈنگ سے مذہب سازی میں مصروف ہیں۔ اینڈرسن شا صاحب نے ریاست پینسلوانیا کے جس مقدمہ کا حوالہ دیا ہے آپ نے اسے نبٹانے میں بڑی جلدی کی۔ جناب ذرا مقدمے کی پوری تفصیل دیکھیے۔ انٹیلیجنٹ ڈئزان کے کچھ اولین حامی کمرہ عدالت میں اپنے ہی معروف دلائل پر پس و پیش کرتے پائے گئے ہیں۔ انٹیلجنٹ ڈئزان اور کریشنزم میں کوئی فرق نہیں ماسوائے اس کے کہ نیا جال � �ائے ہیں پرانے شکاری! کسی سائنسدان کا کسی جملے میں خدا کا محاورتاً استعمال کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مذکورہ شخص سائنس کو خدا کے حضور لانا چا رہا ہے۔ مزید برآں یہ کہ کئی افراد تو قوانین فطرت کو ہی اصطلاحی معنوں میں خدا کہہ ڈالتے ہیں ۔۔ مذہب پرستوں کے خدا کا سوال ہی کہاں رہا۔ رہا سوال خدا کے ہونے یا نہ ہونے کا ۔۔ یا اس کے حق میں کوئی دلیل ڈھونڈنے کا۔۔ تو جناب وہ خالق ہی کیا جس کے وجود کو مخلوق اپنی قوت استدلال سے ثابت یا غلط ثابت کرڈالے۔ خدا کے حق میں واحد "دلیل” یہی ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ وہ کسی بالاتر قوت پر یقین رکھے۔ بس اسی چاہت کی تشنگی کے واسطے مذہب اور روحانیت کی پیروی کرتا آیا ہے۔ واللہ علم!

    1. ” حالیہ مثال کوانٹم میکینکس (Quantum Mechanics) کی ہے جسے ثابت نہیں کیا جا سکتا اور چند دہائیں پہلے تک آئن سٹائن اور اسٹیفن ہائکنگ جیسے چوٹی کے سائنسدان بھی اس کے قائل نہیں تھے نظریہ اضافت کی روشنی میں ”

      سب سے پہلے تو اپنے اس جملے کی وضاحت کر دوں ، اس میں میرا مطلب یہ تھا کہ ایک عرصے تک آئن سٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ دونوں نظریہ اضافت کی تھیوری کی روشنی میں کوانٹم میکانیکس پر معترض رہے اور اس کے قائل نہیں ہوئے ۔ آئن سٹائن تو چند اعتراضات کے ساتھ ہی دنیا کے ساتھ رخصت ہوئے مگر ان کے اعتراضات کی وجہ سے کوانٹم میکانیکس کے علم میں بہت پھیلاؤ پیدا ہوا اور بوہر کو خاص طور پر آئن سٹائن کے زبردست اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش میں اس علم کو مزید پھیلانے اور کئی گھتیاں سلجھانے کا موقع ملا۔ اسٹیفن ہاکنگ چونکہ نظریہ اضافت کا زبردست پرستار ہے اس لیے طبعی طور پر اسے بھی بہت سے اعتراضات تھے اور اس کی کئی تھیوریاں کوانٹم میکانیکس سے ٹکراتی رہی۔

      کوانٹم کیکانیکس کا اہم ترین اصول جسے ہائزن برگ غیر یقینی اصول ( Heisenberg Uncertainty Principle) بھی کہا جاتا ہے کہ مطابق آپ کسی بھی شے کی جگہ یا وقت رفتار میں سے ایک ہی شے کو ٹھیک طریقے سے جانچ سکتے ہیں بیک وقت دونوں کو نہیں یعنی اگر آپ کو جگہ کا معلوم پڑ جائے تو رفتار کا یقینی طور پر پتہ نہیں ہوگا اور اگر رفتار کا پتہ چل جائے تو جگہ کا معلوم نہیں ہوگا۔ اس پر آئن سٹائن نے کئی قیمتی سال بھی صرف کیے کہ وہ اسے رد یا اس میں موجود سقم دکھا سکے۔ اس سلسلے میں ایک مشہور تجربہ ای پی آر (EPR paper ) ہے ۔ اس پیپر میں فرض کیا گیا ہے دو پارٹیکل ہیں اے اور بی جو مختصر وقت کے لیے ملے اور پھر مخالف سمتوں میں چل پڑے۔ ہائزن برگ غیر یقینی اصول کے مطابق پارٹیکل بی کی جگہ اور قوت رفتار دونوں معلوم کرنا ناممکن ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ پارٹیکل اے اور پارٹیکل بی کی جگہ کا درست ادراک کیا جا سکے۔ حساب کتاب کے ذریعے ، اگر پارٹیکل اے کی درست جگہ کا تعین ہو تو پارٹیکل بی کی درست جگہ کا تعین بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اگر پارٹیکل بی کی درست قوت رفتار کا تعین ہو جائے تو پارٹیک بی کی بھی ہو سکتی ہے اس طرح ای پی آر مفروضے نے ثابت کیا کہ پارٹیکل بی کی جگہ اور وقت رفتار بیک وقت معلوم کرنا ممکن ہے۔ یہ کوانٹم میکانیکس میں بعید از قیاس کہلاتا ہے اور بعد میں اسے جان بیل ( John Bell) نے لوکل پنہاں متغیرات ( local hidden variables) کے ذریعے ثابت کیا کہ کوانٹم میکانیکس اور آئن سٹائن کے مفروضے کے نتائج مختلف نکلتے ہیں جس سے آئن سٹائن کے ایک اور مفروضے پنہاں متغیرات (hidden variables) کو غلط ثابت کیا۔

      ایک دلچسپ آرٹیکل Scientific American مارچ 2009 میں بھی چھپا ہے
      Was Einstein Wrong?: A Quantum Threat to Special Relativity

      شروع میں نظریہ اضافت کی تھیوری اور کوانٹم میکانیکس میں بہت زیادہ تفاوت تھا جو کہ بتدریج کم ہوا جس میں اینٹی پارٹیل ( Anti Particle) کی شمولیت اور اینٹی میٹر ( positron Anti Matter) کی دریافت نے اہم کردار ادا کیا۔ اب بھی کوانٹم فیلڈ تھیوری جو کہ کوانٹم میکانیکس کی عمومیت ہے صرف مخصوص نظریہ اضافت سے مطابقت رکھتی ہے عمومی نظریہ اضافت سے نہیں اور ابھی ایک اہم جزو کی تلاش جاری ہے گریویٹون ( Graviton) جو کہ امید ہے کہ CERN کے تجربات میں مل جائے گا تو کشش ثقل کا مسئلہ کوانٹم میکانیکس میں بہت حد تک حل ہو جائے گا اور نظریہ اضافت اور کوانٹم میکانیکس میں مکمل مطابقت بھی ہو جائے گی جو کہ قانون کشش ثقل کی وجہ سے رکی ہوئی ہے ۔ اس سلسلے میں ایک اور پیش رفت سٹرنگ تھیوری اور اب ایم تھیوری (M Theory) کی شکل میں بھی جاری ہے جو کہ فزکس کی تمام تھیوریوں کو یکجا کرنے کی عمدہ کوشش ہے۔
      اسٹیفن ہاکنگ آئن سٹائن کا مانا ہوا مداح اور پرستار ہے اور اسی وجہ سے اسے نظریہ اضافت کے علمبرداروں میں شامل کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں سسکائنڈ (Susskind) کی ایک مشہور کتاب ہے The Black Hole War: My Battle with Stephen Hawking to Make the World Safe for Quantum Mechanics جس میں ہاکنگ کے ایک غلط مفروضے جس میں اس کا خیال تھا کہ جو چیز بھی بلیک ہول میں داخل ہوتی ہے ضائع ہو جاتی ہے یا بہتر الفاظ میں جو معلومات بھی بلیک ہول میں پہنچ جاتی ہے وہ ہمیشہ کے لیے گم ہو جاتی ہے اور اس طرح یہ کوانٹم میکانیکس اور فزکس کے ایک واضح اصول کی صریحا خلاف ورزی پر مبنتی تھا کہ معلومات کبھی بھی گم نہیں ہو سکتی کیونکہ اس طرح مستقبل ماضی کا ریکارڈ کھو بیٹھے گا اور یوں ماضی کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہ (Second Law of Thermodynamics or Law of Entropy) کی بھی خلاف ورزی تھی۔
      ہاکنگ اور تھارن (Thorn) نے پریسکل (Preskill) سے شرط لگائی تھی کہ چونکہ نظریہ اضافت یہ نا ممکن بناتا ہے کہ بلیک ہول سے تابکاری ہو اور معلومات گم ہو ، اس لیے کمیت ، توانائی (mass-energy) اور معلومات جو ہاکنگ تابکاری لیے ہوئے ہوگی وہ نئی ہوگی اور یہ بلیک ہول کے افق ( event horizon of black hole) کے اندر سے نمودار نہ ہو گی۔ چونکہ یہ خیال کوانٹم میکانیکس کے اصولوں کے مخالف ہے اس لیے ان اصولوں کو پھر سے لکھے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس پریسکل کا کہنا تھا کہ کوانٹم میکانکس کے مطابق جو معلومات بلیک ہول نے اگلی ہے وہ وہی ہے جو اس میں پہلے کسی وقت شامل ہوئی تھی اس لیے بلیک ہول کا تصور نظریہ اضافت کی روشنی میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ 2004 میں ہاکنگ نے اعلان کیا کہ وہ غلط تھا اور یوں وہ شرط ہار گیا اور بیس بال کا انسائیکلوپیڈیا اسے پریسکل کو دینا پڑا ، ہاکنگ نے بعد میں ازراہ مذاق کہا کہ مجھے اسے ایشز (راکھ) ( کرکٹ کا انسائیکلوپیڈیا )دینی چاہیے تھی۔

      میرے خیال سے میں نے اب کافی وضاحت سے بیان کر دیا ہے کہ آئن سٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ کے کوانٹم میکانکس پر کیا اختلافات تھے اور کیسی بنیادی نوعیت کے تھے جس سے پوری کوانٹم میکانکس ازسر نو دریافت کرنی پڑتی۔

      1. فاروق اعوان صاحب ،
        آپ کے موجودہ مراسلے سے متفق لیکن ایک دو مقامات پر وضاحت کرنا چاہوں گا۔
        واضح رہے کہ بیل کے تجربے نے لوکل مخفی متغیرات کے مفروضے کو یکسر مسترد کرڈالا ہے۔
        عین ممکن ہے کہ گریوٹون وجود رکھتا ہو لیکن اس کی سرن لیبارٹری میں دریافت ممکن نہیں کہ توانائی اور ٹیکنالوجی کا جو معیار چاہیے وہ سرن لیبارٹری بھی پورا نہیں کرسکتی۔ البتہHiggs boson کے سرن لیبارٹری میں دریافت ہونے کے بہت ذیادہ امکانات ہیں جو کہ ظاہر ہے پارٹیکل فزکس کے سٹینڈرڈ ماڈل میں ایک انتہائی اہم پیش رفت ہوگی۔
        آپ نے لیونارڈ سسکند کی کتاب بلیک ہول وارز کا اچھا تذکرہ کیا۔ اس کتاب میں بلیک ہول انفارمیشن پیراڈاکس کی تفصیل بہت صراحت سے بیان کی گئی ہے۔ نیز اس میں یہ تفصیل بھی بتائی گئی ہے کہ کسطرح Holographic principle کی دریافت نے کوانٹم مکینکس اور نظریہ اضافیت کے مابین یہ قضیہ حل کیا۔ اگر عام قاری ہولوگرافک پرنسپل جیسے حیران کن نظریے و دریافت کے متعلق جاننا چاہتا ہے تو سسکند کی یہ کتاب اسے ضرور پڑھنی چاہیے۔
        سسکند ہی کی ایک اور کتاب The Cosmic Landscape بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ اس میں اس نے بتایا ہے کہ کسطرح حیاتیاتی ارتقاء میں کارگر پرنسپل آف نیچرل سلیکشن سٹرنگ تھیوری لینڈ سکیپ میں بھی ظہور پذیر ہوتا نظر آتا ہے۔ اگرچہ یہ نظریہ فی الوقت متنازعہ ہے لیکن سٹرنگ تھیوری حلقوں میں اس پر کافی تحقیق جاری ہے۔
        بہرحال مجھے اولین اعتراض یہ تھا کہ آپ نے نظریہ اضافیت اور کوانٹم مکینکس کے حلقوں کے مابین ہونے والی علمی مباحثے کو انٹیلیجنٹ ڈئزان نامی جعسازی اور حیاتیاتی ارتقاء کی سائنس کے مابین تنازعے کے مماثل ٹھہرایا تھا جو کہ درست موازنہ نہیں۔ اول الذکر جینوئن سائنسی پریکٹس ہے۔ جبکہ موخرالذکر میں ایک طرف مستند سائنس ہے اور دوسری طرف اس کے مقابلے پر من گھڑت جعلسازی۔
        ایک اور معاملے میں بھی مطمئن رہیں کہ حیاتیاتی ارتقاء کا قرآن میں دیے گئے آدم حوا کے تذکرے سے کوئی براہ راست تصادم نہیں ہے۔ بائبل کی بات اور ہے کہ عیسائیت نے بائبل میں تحاریف کر کر کے خود اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے۔ وقت پڑنے پر اس کی بھی وضاحت کرنے کی اپنی سی کوشش کردوں گا۔

    2. کوانٹم مکینکس اور حیاتیاتی ایولوشن مسنتند سائنس ہیں۔ ان کی بنیادیں سائنسی اصولوں پر قائم ہیں۔

      اس سے متفق ہوں مگر ارتقائی سائنس صرف حیاتیات تک محدود نہیں ہے بلکہ جیالوجی ، آرکائیولوجی ، فلکیات ، اینتھروپولوجی پر بھی اس کے واضح اثرات ہیں بلکہ اب تو سیاسیات ، نفسیات اور فلسفہ میں بھی اس پر سیر حاصل مضامین ہیں۔ ڈارون کی جو پیغمبرانہ حیثیت سائنس میں ہے وہ صرف اس کی تھیوری کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے پورا فلسفہ مادیت ( Philosophical materialism ) موجود ہے جس کی جڑیں یورپ کی ترقی اور مذہب سے علیحدگی سے جڑی ہیں ورنہ کمالات تو نیوٹن اور آئن سٹائن نے بھی بہت دکھلائے مگر ان پر اعتراضات پر ایسا شدید رد عمل اور مذہب سے نہیں جوڑا جاتا جیسے ڈارون کے حوالے سے کیا جاتا ہے اور نہ ہی ڈارون کی تھیوری کی غلطیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے جو کہ خود سائنسی کمیونٹی ظاہر کر چکی ہے۔ ارتقا ایک زبردست نظریہ ہے اور دیکھنے میں اتنا سیدھا اور اثر پذیر ہے کہ انسان بغیر دلیل میں جائے ہی اسے قبول کر لیتا ہے مگر اس میں ابھی بھی بہت سے ابہام اور بہت سی فرضی چیزیں شامل ہیں جن پر بحث ہوتی بھی ہے اور تنقید کی وجہ سے بہت سے فوسل ثبوت جھوٹے بھی ثابت ہوئے ہیں۔ رچرڈ ڈاکنز جو کہ عصر حاضر کا ایک مشہور اور بہت سنا جانے والا ارتقا پسند ہے اس سے جب پوچھا گیا کہ Mututation سے انسانی جنوم میں کون سی نئی معلومات اب تک شامل ہوئی ہے تو جس طرح کا سکتہ اس پر طاری ہوا تھا اور پھر جس طرح اس نے گھما پھرا کر جواب دیا وہ یو ٹیوب پر محفوظ ہے اور دیکھںے سے تعلق رکھتا ہے۔ ایوولوشن مالیکول اور مائیکروسکوپ کی سطح پر تو دیکھنے پر آتی ہے مگر ایک نسل ( Species) کا دوسری نسل ( Species) میں منتقل ہونے کا دعوی اب تک فقط دعوی ہی ہے اور لاکھوں سال پہلے تک کے فوسل ریکارڈ بھی قیاس آرائیوں اور مبہم ، غلط اندازوں سے آگے نہیں بڑھے۔ گفتگو طویل ہو گئی ہے ورنہ مشہور زمانہ فوسل فراڈ کے ریکارڈ بھی کسی وقت پیش کر سکتا ہوں اور اس پر سیر حاصل بحث ہو سکتی ہے بلکہ آپ خود اس پر ایک عدد پوسٹ کریں اور گفتگو کو ایک سمت سے شروع کرکے آگے لے کر چلیں تو زیادہ لطف رہے گا۔

      ذہین ڈیزائن میں جو چیز اہم ہے اور جس پر زیادہ تر دلائل دیے جاتے ہیں وہ ہے غیر تخفیف پذیر پیچیدگی ( Irreducible complexity) جس میں ایسے اجزا کا حوالہ دیا جاتا ہے جو کہ بہت پیچیدہ بھی ہیں اور اس سے کم پیچیدگی کے ساتھ وہ وجود میں آ بھی نہیں سکتے تھے جیسے کہ آنکھ کا عضو وغیرہ وغیرہ۔ کمرہ عدالت میں پس و پیش ضرور کر گئے ہوں گے لوگ اور یہ ایسی نا قابل فہم بات نہیں ، میں نے ذرا پہلے رچرڈ ڈکنز کی مثال دی جو ایک انٹر ویو میں گڑبڑا گیا تھا جبکہ وہ ان معاملات کا نہ صرف ماہر ہے بلکہ بہت سے لیکچر بھی دیتا ہے۔

      اب واپس آتا ہوں کوانٹم میکانکس کی طرف جس سے مجھے زیادہ دلچسپی ہے

      جہاں تک ایجادات کا تعلق ہے ، لیزر اور ٹرانزسٹر ( semi conductors) کو کوانٹم میکانکس کے ساتھ جوڑا جاتا ہے مگر ابھی بھی حقیقی معنوں میں کوانٹم میکانکس کو استعمال کرکے ایجادات کا سلسلہ شروع نہیں ہوا جس کی ایک بڑی مثال کوانٹم کمپیوٹر کی انتہائی بری کارکردگی ہے جو چند اعداد کی جمع تفریق سے آگے نہیں بڑھ سکی مگر مستقبل یقینا کوانٹم میکانکس پر مشتمل ایجادات کا ہے۔

      اور آخر نیل بوہر کے الفاظ میں “جسے کوانٹم تھیوری نے ہلا کر نہیں رکھ دیا اس نے اسے سمجھا ہی نہیں “

      کسی سائنسدان کا کسی جملے میں خدا کا محاورتاً استعمال کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مذکورہ شخص سائنس کو خدا کے حضور لانا چا رہا ہے۔ مزید برآں یہ کہ کئی افراد تو قوانین فطرت کو ہی اصطلاحی معنوں میں خدا کہہ ڈالتے ہیں

      سائنسدان میرے خیال سے اب اس بات کا بطور خاص‌ خیال رکھتے ہیں کہ کہیں ان کے کسی لفظ‌سے ان کا تعلق مذہب سے نہ جوڑ دیا جائے اور قوانین فطرت کو اصطلاحا خدا کہنے کی سائنس میں تو بالکل بھی حاجت نہیں ہوتی کیونکہ وہاں قانون فطرت ہی لفظ مستعمل ہے اور جہاں وہ خدا کا حوالہ دیتےہیں وہاں اپنا نکتہ نظر بھی بیان کرتے جاتے ہیں. تازہ مثال اسٹیفن ہاکنگ کی ہے جو اب برملا کہتا ہے کہ کائنات کی تشکیل کے لیے خدا کی ضرورت نہیں ، کائنات کا قانون ثقل خود ہی اس کی تخلیق اور دوبارہ آغاز کر سکتا ہے اور یوں وہ واضح الفاظ میں اب منکر خدا ہے .

      خدا کے ہونے یا نہ ہونے پر دلائل اور بحث‌ میرے خیال سے کسی اور پوسٹ‌ پر ہی مناسب رہیں گی کیونکہ پہلے ہی بہت زیادہ طویل اور متفرق موضوعات پر تبصرے ہو چکے ہیں.

  6. اینڈرسن شا میں بھی اسی بارے میں سوچ رہا تھا ،کہ یہ مضامین خاصے ثقیل ہوتے جارہے ہیں انہیں کچھ عام فہم ہونا چاہیئے تاکہ ہم جیسے کم عقلوں کی سمجھ میں بھی آسکیں،ویسے میں انہیں کسی حد تک سمجھ رہا ہوں مگرانکا کیا جو مجھ سے بھی کم عقل ہیں؟؟؟؟؟
    عنیقہ کو بھی ضرور ان موضوعات پر اپنےانداز میں لکھنا چاہیئے!!!!!!

    1. عثمان صاحب کے جواب نے مجھے حیراں اور فاروق اعوان صاحب کو مخمصے میں ڈال دیا ہے، اب دیکھتے ہیں کہ فاروق اعوان صاحب ان سے اتفاق کرتے ہیں یا دور کی کوئی اور کوڑی لاتے ہیں.. بلاگستان میں بڑے بڑے رستم چھپے ہوئے ہیں مگر سامنے نہیں آتے :))

  7. آج میں بھی تبصروں تک پہنچ گئ.
    🙂
    خدا پہ غور نہیں کرنا چاہئیے. یہ کیسے ممکن ہے. جب تک ہمارا شعور کام کر رہا ہے وہ ہم سے پوچھتا رہے گا کہ خدا کیا ہے اسکی ماہیت کیا ہے؟ خاص طور پہ ایک ایسے دور میں جب ہم جان چکے ہیں کہ علت اور معلول دو چیزیں ہیں. اگر عدم کوئ چیز ہے تو کس نے عدم کو متعارف کرایا. یہ سوال تو ایک بچہ بھی کرتا ہے اور جواب میں ہم اسے کہتے ہیں کہ ایسے سوال نہیں کرنا چاہئیں.
    سائینس یہ تو بتا چکی کہ
    سبزہ ء گل کہاں سے آئے ہیں
    ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟
    لیکن اسے بھی حیرانی ہے کہ
    جبکہ تجھ بن نہیں کوئ موجود
    پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
    لیکن یہاں بہت سارے ڈیڈ اینڈز ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے. پتہ نہیں کیوں مجھے یہ خیال رہتا ہے کہ یہودی دہریہ نہیں ہو سکتے. چاہے وہ خود کو دہریہ کہیں. اکثر وہ اپنے مذہبی عقائد میں خاصے کٹر ہوتے ہیں. دہریہ ہونا ، صاحب ایمان ہونے سے زیادہ مشکل ہے. لیکن بہرھال ان میں ایک اچھی بات ہے اور وہ یہ کہ سائینس کے متعلق جب سوچنا شروع کرتے ہیں تو مذہب کو درمیان میں نہیں لاتے. میں خود بھی اس عقیدے پہ عمل کرتی ہوں.
    سائینس انسانی حواسوں کا علم ہے جہاں تک یہ ترقی کرتے جائیں گے اتنا ہم کائنات کو جانتے جاائیں گے. مذہب، جس غیبی دنیا کا علم دیتا ہے وہ فی الوقت ہم اپنے حواسوں سے نہیں جان پاتے.حتی کہ ہم لوگوں کی مختلف روحانی کرامتیں پڑھتے ہیں لیکن یہ جان کر مایوسی ہوتی ہے کہ دنیا کے ہر مذہب کے ماننے والے چاہے وہ الہامی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں یا غیر الہامی مذہب سے ، سب کے پاس ایسی نہ جھٹلانے والی روحانی طاقتوں کے کرشمے موجود ہیں. خیال تو یہی آتا ہے کہ یہ سب انسان کے اس ذہن کی پیداوار ہےجہاں تک ابھی انسان اپنے آپکو جان نہیں پایا ہے.
    مذہب پرستوں نے اس غیبی دنیا کی حکمرانی کی ہے اور انہوں نے کچھ ایسی عجیب باتوں کے ذکر سے فضا کو دھندلا دیا ہے کہ ہم بعض اوقات بالکل سامنے کی بات کو نہیں ، نہیں کر سکتے جبکہ دنیا میں وہ تاریخ جو فوسلز کی صورت یا دیگر جغرافیائ حالتوں میں موجود ہے اس سے قطعی میل نہیں کھاتی.
    جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ انسان کسی زمانے میں نو گز لمبا تھا. یا انسانوں کی عمر، سینکڑوں سال ہوا کرتی تھی. ان سب چیزوں کے لئے اس دنیا میں آج تک کوئ ثبوت نہیں ملا.اور ہمیں یہ کہنے میں کوئ عار نہیں کہ یہ سب غلط ہے.
    سائینس میں لفظ خدا کا استعمال نہ کرنا ایک درست موئقف معلوم ہوتا ہے کیونکہ سائینس ایک امکانی دنیا کو میسر ثبوت پہ پیش کرتی ہے. اگر کل میسر ثبوت زیادہ بہتر حالت میں آجائیں تو امکان کی یہ دنیا بدل بھی سکتی ہے. دوسری طرف خدا کسی بھی خدا پرست کے لئے ایک امکان نہیں بلکہ ایک اٹل حقیقت ہے. اور مختلف مذاہب میں اس کا جو بھی تصور ہو وہ اس سے ذرہ برابر بھی ہٹ نہیں سکتے. اس طرح سے سائینس خدا کے وجود کو ثابت کرنے یا اسے محروم کرنے کا علم نہیں ہے. یہ انسان کا اپنی میسر قوتوں کی مدد سے اپنے ماحول جس میں یہ کائینات بھی شامل ہے اسے جاننے کا علم ہے. سائینس کی منزل نا معلوم ہے. ہو سکتا ہے یہ کسی خدا کی طرف لے جائے اور اگر خدا موجود ہے تو سائینس اس طرف ضرور جائے گی.
    جب تک کہ نہ دیکھا تھاقد یار کا علم
    میں معتقد فتنہ ء محشر نہ ہوا تھا
    اس بات سے انکار کیسے کریں کہ خدا کا موجود ہونا انسان کی چاہت ہے.

  8. دو باتیں بحث طلب ہیں:
    ۱) "سائینس انسانی حواسوں کا علم ہے جہاں تک یہ ترقی کرتے جائیں گے اتنا ہم کائنات کو جانتے جاائیں گے۔” از عنیقہ ناز

    انسانی حواس محض مشاہدے کی سہولت دیتے ہیں جو کہ سائنسی تحقیق کے عمل کو آسان بنا دیتا ہے۔ مختلف اقسام کی ایجادات بلاشبہ حواس اور اس سے ہونے والے مشاہدے کی قوت بہت بڑھا دیتی ہیں۔ لیکن سائنس یا عمل سائنس کے لئے استدلال کافی ہے اور استدلال کے لئے شعور شرط ہے۔ اس کی روشن ترین مثال علم الریاضی ہے۔ ریاضی جسے سائنس کی ماں کہا جاتا ہے کو انسانی مشاہدے یا تیکنیک و ایجادات سے کوئی غرض و واسطہ نہیں۔ ریاضی تو مفروضہ ، حجت ، دلیل و استدلال کا کھیل ہے۔ بس اگر شعور وجود رکھے گا تو استدلال سے استدلال ترتیب دیتے ہوئے ریاضی اور اس کی جملہ پیداوار مثلا نظریاتی طبیعات میں تخلیق د دریافت کا عمل جاری رہے گا۔ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی مثال لیجئے۔ نظریہ اضافیت کو ترتیب دینے کے لئے ضروری "آلات” Tensor Analysis ، Riemannian Geometry اور Differential Equations سے مستعار لیے گئے ہیں۔ اس ریاضی کو آگے بڑھاتے ہوئے اور اس کے اوپر اپنے Thought Experiment کرتے ہوئے آئن سٹائن متعلقہ نتائج تک پہنچا۔ اس تمام کام میں حواس خمسہ ، قوت بازو اور مشاہدات فطرت وغیرہ کا عمل دخل انتہائی محدود تھا۔ تمام ڈھانچہ استدلال پر قائم کیا گیا۔ تھیوری کا پہلا بڑا مشاہداتی ثبوت تو تحقیق کی اولین اشاعت کے تقریبا چار سال بعد رونما ہوا۔ آج بھی انسانی مشاہدہ اور حواس بلیک ہول کے اندر ، متوازی کائنات کی حقیقت اور ایکسٹر ڈائمنشن کی ساخت تک رسائی نہیں رکھتے۔ لیکن شعور اور شعور سے پیدا شدہ استدلال کی قوت بے پناہ ہے۔ زمان و مکان اس کی راہ میں آڑے نہیں آتے۔ اسی قوت کی بدولت ہم مذکورہ حقائق کا ادراک رکھتے ہیں۔ تو بس حاصل بحث یہ ہوا کہ علم سائنس اور عمل سائنس انسانی حواس و مشاہدہ تک محدود ہے اور نہ ہی محض اس پر قائم ہے۔ بلکہ یہ اس سے بالاتر حقیقت ہے۔
    میری ذاتی رائے میں خدا کی حقیقت کے قریب پہنچنے کا ایک موثر متبادل طریقہ مادے کی بجائے علم کی حقیقت کو جانچنا ہے۔ علم کے "وجود” کی نوعیت مادے کے وجود کی نوعیت سے بہت مختلف ہے۔ کل کائنات بشمول انسان غائب بھی ہوجائے تب بھی علم (ریاضیاتی تھیورمز فرض کرلیں) "وجود” رکھ سکتا ہے بشرطیکہ کہ کم از کم کوئی شعور "وجود” رکھتا ہو۔ اور شعور جسم انسانی کا محتاج نہیں۔ اس سے مبرا بھی ہوسکتا ہے۔ شعور باری تعالیٰ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ بہرحال یہ تمام طریقے اصل مسئلے کو کلی طور پر حل تو نہیں کرسکتے۔ لیکن اسطرح پرت در پرت نئی جہتیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ اور شائد یہی انسان اور اس کے شعور کا مقصد بھی ہے : حقیقت دریافت کرتے چلے جانا۔

    ۲) "ہو سکتا ہے یہ کسی خدا کی طرف لے جائے اور اگر خدا موجود ہے تو سائینس اس طرف ضرور جائے گی۔” از عنیقہ ناز

    ضروری نہیں کہ اگر خدا موجود ہے تو سائنس ہمیں وہاں تک لے بھی جائے۔ کہ ایک وقت ایسا آئے کہ تخلیق کی دریافت تمام ہوجائے اور اس سے آگے "خدائی ہاتھ” دیکھائی دے رہا ہو۔ اگر خدا کا وجود لامحدود ہے ، اس کی صلاحیتیں لامحدود ہیں تو اس کی تخلیق بھی لامحدود ہوسکتی ہے۔ کیا معلوم کہ سائنس دریافت پر دریافت کرتی چلی جائے .. تخلیق کی ہرحقیقت سے آگے نئی حقیقت سامنے آتی جائے .. اور یہ لامتناہی سلسلہ یونہی جاری و ساری رہے۔
    میں اپنی بات پر واپس آؤں گا کہ میرے نزدیک اگر استدلال ہمیں خدائی حقیقت تک پہنچا دیں تو وہ خدا تو بہت "چھوٹا” ہوا! خدا کی عظمت تو تب ہے کہ جب اس کی تخلیق اور تخلیق کی دریافت کا سلسلہ ختم ہونے پر ہی نہ آئے۔ اب ادھر ایک بڑی دلچسپ پیراڈاکس بنتی ہے۔ ایک طرف مخلوق کے پاس خدا تک پہنچنے کا واحد راستہ تخلیق کی دریافت ہے۔ دوسری طرف خدا کی خدائی عظمت کا تقاضا ہے کہ تخلیق اور تخلیق کا یہ راستہ لامتناہی اور لامحدود ہو۔ تو پھر مخلوق خدا تک کیسے پہنچے؟ کیا واقعی خدا تک رسائی مخلوق کا مقصد ہے یا محض خدا تک رسائی کی کوشش مخلوق کا مقصد ہے؟

  9. فاروق اعوان صاحب ،
    میں نے ایک منٹ پر مشتمل وہ پرو پیگینڈا ویڈیو دیکھ رکھی ہے جس کا آپ نے تذکرہ کیا ہے اور جسے کریشنزم حلقے حیاتیاتی ارتقاء کے خلاف اپنی "فتح” سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہروہ شخص جس نے حیاتیاتی ارتقاء کی سائنس کھلے ذہن سے پڑھی ہے وہ اس ویڈیو میں چھپے پروپیگینڈے کو بڑی آسانی سے پہچان سکتا ہے۔ بہرحال یہ لیجئے میں رچرڈ ڈاکنگ کا اس ویڈیو میں پوچھے گئے سوال کا جواب نکال لایا ہوں .. تسلی سے پڑھیے۔ آپ کی شکایت دور ہوجائے گی۔
    http://www.skeptics.com.au/publications/articles/the-information-challenge/
    درست کہ کچھ فوسلز ریکارڈ تحقیق پر ناقص بھی ثابت ہوئے ہیں۔ یہ بھی درست کے ماضی میں کچھ فراڈ بھی سامنے آئے ہیں۔ لیکن یہ روایت محض حیاتیاتی ارتقاء کی سائنس سے مخصوص نہیں۔ سائنس کی تاریخ اور بھی کئی طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اسی کی دہائی میں طبعیات کی شعبے میں Cold Fusion نامی جعلی تجربہ کا بڑا چرچہ ہوا تھا۔ تقریباً دس برس پہلے Schön scandal کا بھی بہت چرچہ ہوا تھا۔ اس کا مصنف تو معروف جرائد میں اپنی جعلی تحقیق بھی شائع کروانے میں کامیاب رہا۔ لیکن ان اکا دکا سکینڈلز کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ جینوئن سائنسی تحقیق اور اداروں کے خلاف ایک حجت ہے۔ اسی طرح ارتقائی سائنس میں سامنے آنے والے کچھ فراڈز سے بھی سائنس کو کوئی قدغن نہیں پہنچتی۔
    آپ فوسلز کے ایک فیصدی فراڈ پر مضطرب ہیں لیکن ننانوے فیصد ثابت شدہ فوسلز ریکارڈ پر آپ کا دھیان نہیں گیا۔ یہ ماضی قریب میں ورق گردانی کی گئی دو کتب کے حوالے دے رہا ہوں۔ دونوں کتب متعلقہ شعبے کے محققین کی ہیں جو معروف جامعات اور تحقیقی اداروں سے وابسطہ ہیں:
    Evolution: What the Fossils Say and Why It Matters by Donald R. Prothero
    The Greatest Show on Earth: The Evidence for Evolution by Richard Dawkins
    پئر ریویو جرائد میں شائع تحقیق عام آدمی کے لئے تو مشکل ہے تاہم نیشنل جگرافک میگزین اور بعض اوقات نیچر اور سائنس جریدے میں قابل فہم مضامین آتے رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ معروف جرائد ہیں۔ یوٹیوب کا گمنام لنک یا کسی اخبار کا تراشہ نہیں۔ انسانی ایولیشن پر نیشنل جگرافک کے کچھ مضامین پیش خدمت ہیں:
    http://news.nationalgeographic.com/news/2006/03/0308_060308_evolution.html

    http://news.nationalgeographic.com/news/2007/12/071211-human-evolution.html

    http://ngm.nationalgeographic.com/2010/07/middle-awash/shreeve-text/1

    http://ngm.nationalgeographic.com/2008/10/neanderthals/hall-text

    جس غیر تخفیف پذیر پچیدگی کا حوالہ دیا ہے وہ استدلال تو بزور تحقیق بری طرح پٹ چکا ہے۔ انھیں کتب میں آپ کو اس پر دلائل مل جائیں گے۔ بات گھوم پھر کر وہیں آتی ہے کہ ارتقاء کے حق میں مستند ذرائع سے بہت کچھ ہے۔ جبکہ اس کے خلاف ادھر اُدھر کا شور شرابہ ہی ہے۔ تو پھر ہم معروف اور مستند سائنس کی طرف کھلے ذہن سے پیش قدمی کیوں نہ کریں۔
    رہا کوانٹم مکینکس سے استفادہ کا سوال تو جناب اس کی ایجادات سے بنی نوع انسان صبح شام مستفید ہورہا ہے۔ جس کوانٹم کمپیوٹر کا حوالہ آپ نے دیا ہے اس کا تعلق کوانٹم مکینکس کی ایک خاصیت Quantum entanglement سے ہے جسے فی الوقت قابو میں لا کر پوری طرح استفادہ کرنا دشوار ہے۔
    اسٹیفن ہاکنگ میرے اور آپ کے لئے منکر خدا ضرور ہوگا۔ لیکن وہ خود اپنے آپ کو دہریہ نہیں گردانتا۔ سائنسدان بھی بہرحال انسان ہیں ہیں۔ سیاست ، سماج اور مذہب پر ان کے نظریات بہرحال سائنس کے میدان میں استدلال کا درجہ نہیں رکھتے۔
    باقی مکالمہ پھر کبھی سہی۔

    1. عثمان ،
      میں نے وہ آرٹیکل تیزی سے پڑھا ہے کیونکہ رچرڈ ڈاکنز نے اسے حد سے زیادہ کھینچ دیا ہے اور اتنی لمبی کہانیاں سنائی ہیں کہ اصل سوال ہی ذہن سے محو ہو جاتا ہے. دوسرا اس نے جو آغاز کیا ہے اس میں‌ اپنی خفت چھپانے کے لیے اسے پروپیگنڈا اور مذہب پرست گروہ قرار دے کر معاملے کو اصل سوال سے ہٹانے کی کوشش کی ہے. پھر یہ فرمایا ہے کہ میں‌نے سوال کا جواب اس لیے نہیں‌دیا تھا کہ مجھے بہت غصہ آ گیا تھا اور میں سمجھ گیا تھا کہ میں‌نے انہیں اپنے گھر میں‌آنے کی اجازت دے کر بڑی غلطی کی ہے، یہ کسی طرح بھی مناسب جواب نہیں جبکہ ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ رچرڈ کو غصہ نہیں‌آیا تھا بلکہ وہ سوچ بچار میں‌مصروف ہو گیا تھا اور پھر اس نے کیمرہ بند کروایا اور پھر کچھ عرصہ بعد دوبارہ آن کروا کر ایک لمبی تمہید بعد کر بالکل ہی مختلف جواب دیا.
      رچرڈ‌ ڈکنز کی یہ عادت ہے کہ وہ مذہب کا باقاعدہ مذاق اڑانے والوں میں شامل ہے اور غیر ضروری حملے کرتا ہے جس پر بعض دہریے حلقوں میں بھی اس کی روش کو پسند نہیں کیا جاتا کہ آپ سوال کا علمی جواب دیں اور تمسخر اڑانے کی کوشش سے آپ کے جواب میں قطعا وزن پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ مغرورانہ اور تکبرانہ طرز عمل کی طرف اشارہ کرتا ہے. اسی آرٹیکل کا بھی ایک طویل جواب موجود ہے اور یہ ایک اچھی پوسٹ‌ ہو سکتی ہے مگر میرے خیال میں اسے آپ اپنے بلاگ پر کریں تو وہاں آرام اور سکون سے اس پر گفتگو ہو سکتی ہے.

      فوسل جعلسازی کا ریکارڈ دوسری کسی بھی سائنس کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا اور دوسرا 99 فیصد سے زیادہ فوسل ریکارڈ‌ تو مکمل نباتات اور حیوانات کو ثابت کرتا ہے اور میں اس سلسلے میں زیادہ قصور وار نہیں‌ٹھہراتا ارتقائی ماہرین کو کیونکہ فوسل ریکارڈ‌ تلاش کرنا اور پھر بہت پرانا ہزاروں‌ ، لاکھوں سال پرانا ریکارڈ تلاش کرنا اور اس کی درست قدامت کا پتہ چلانا کافی دشوار اور مشکل کام ہے. جو سائنسی نظریہ بھی قبول عام اور گذشتہ تجربات کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے اسے فی زمانہ اتنی ہی قبولیت اور موافقت میسر ہوتی ہے جتنی ارتقائی نظریے کو ہے. نیوٹن کے قوانین کو بھی اتنی ہی اہمیت اور حمایت میسر تھی ، اسی طرح فلکیات میں‌کائنات کے پھیلاؤ‌کے مخالف نظریے کو صدیوں کو ثابت شدہ سمجھا جاتا رہا. ارتقا کے ساتھ جڑے ہوئے بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کا جواب فرض کیا جاتا ہے جیسے کہ بہت سے سائنسی علوم میں کیا جاتا ہے مگر انہیں‌حرف آخر نہیں‌مانا جاتا جیسا کہ کوانٹم میکانیکس میں‌بھی کائنات کے آغاز کے حوالے سے بہت سے مفروضے ہیں مگر انہیں نہ تو مکمل رد کیا جاتا ہے نہ اپنایا جاتا ہے.
      دلچسپ موضوع ہے آپ نے پڑھا بھی ہے اور شغف بھی ہے تو میری تجویز ہے کہ اسے اپنے بلاگ پر شروع کیجیے ، علم تو اسی طرح بڑھتا ہے جب سوال جواب اور وضاحتیں دی جائیں ، اس طرح ہم خود بھی ان موضوعات پر زیادہ مطالعہ کر سکیں گے مگر اب اینڈرسن شا کے بلاگ کی بجائے آپ کے بلاگ پر بات ہو تو زیادہ مناسب رہے گا. نیشنل جیو گرافک کے لنکس کا شکریہ ، انہیں بھی دیکھتا ہوں .

      آخر میں کوانٹم میکانکس کی طرف واپسی ، میرے خیال سے کوانٹم میکانکس سے وابستہ ایجادات انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں کیونکہ ابھی تک اسے صرف سمجھا گیا ہے اس کی بے پناہ صلاحیتیوں اور خوبیوں کو بروئے کار نہیں لایا جا سکا ، جس میں سب سے اہم چیز ایک ہی وقت میں بیک وقت کئی نتائج حاصل کرنا اور کمپیوٹر میں بائنری بٹس کی جگہ قیو بٹس استعمال کرکے کمپیوٹر کی دنیا میں انقلاب برپا کرنا. کام کافی مشکل ہے مگر پر امید رہنا چاہیے.
      اسٹیفن ہاکنگ کو میں اپنی طرف سے منکر خدا قرار نہیں دے رہا بلکہ اس کا تازہ ترین موقف بتا رہا ہوں ویسے ایک جگہ اس نے شاید یہ بھی کہا تھا کہ وہ وہ خدا کو ویسے نہیں‌مانتا جیسے عام لوگ مانتے ہیں‌تو ہو سکتا ہے ایک بالکل علیحدہ نظریہ ہو اس کا اور اس بات سے میں متفق ہوں کہ سائنس میں سیاست ، سماج ، مذہب اور مابعد الطبیعات نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی اہمیت ہوتی ہے

  10. عثمان، آپ نے دو سوال اٹھائے ہیں.
    کیا واقعی خدا تک رسائی مخلوق کا مقصد ہے یا محض خدا تک رسائی کی کوشش مخلوق کا مقصد ہے؟
    اب چونکہ الہامی کتاب کہتی ہے کہ خدا نے چاہا کہ اسے پہچانا جائے تو اس نے انسان کو پیدا کیا. اس لئے میں تو نہیں سمجھتی کہ محض کوشش مخلوق کا مقصد ہے.
    ریاضی کو بنیادی طور پہ سائینس میں شامل رکھنا ایک سوال بذات خود ہے. البتہ آپ اسے علم میں شامل رکھ سکتے ہیں. کسی بھی استدلال کو انسانی سطح پہ قائم کرنا حواس کے بغیر ممکن نہیں. یعنی اب تک کی تاریخ دنیا میں ایسا ممکن نہیں. اگر ہم انسانی حواس کے اندر خدا تک نہیں پہنچ پاتے تو خدا ہمیں چیلینج کیوں دے رہا ہے؟
    دوسری طرف، ہم خدا کے اس چیلینج کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں. اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ جب ہم خود سے اسکا ادراک کرنے کے قابل ہونگے تبھی اس چیلینج کو تسلیم کریں گے.
    علم ، شعور کا محتاج ہے اور اس لحاظ سے مخلوق ٹہرا. اس لئے شاعر کو کہنا پڑا کہ ہستی کے مت فریب آجائیو اسد، عالم تمام حلقہءدام خیال ہے.
    اگر شعور نہ ہو تو علم کی کوئ حیثیت نہیں. اس لئے ممکن ہے کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہوں وہ ایک دھوکے کے سوا کچھ نہ ہو. ہم دنیا کی آبادی اربوں میں سمجھتے ہوں اور یہ اربوں انسان صرف ایک شعور رکھتے ہوں اور شعور انسانی دراصل صرف ایک نکتہ ہو. یہ وہی نکتہ ہو سکتا ہے جہاں سے آغاز سفر ہوا.
    دلچسپ بات یہ نہیں ہے کیا کہ انسان نے کیوں ایک خدا کی چاہت کی؟
    خدا کا ارتقاء بھی تو ایک موضوع ہے. کیا انسان شروع سے ایک خدا پہ یقین رکھتا ہے یا اس نے اپنے شعوری ارتقاء کے ساتھ ایک خدا کی طرف رجوع کیا.

  11. aql hamesha se esi haqeeqa-te- abdi ki talash mai sargarda rahe hai lekn aaj tk bilyakeen esay na pasaki-falsafe ka agaz bhi esi haqeeqat yani manzoor ko janne ki koshish se hua tha-chunaca falsafa apne do-re-aqliyaat mai hathmi natije tk na pohach saka-aqliyaat se muraad falsafa u-naan ka ye nkta-e-nazaar tha k sirf qal he zarya-e-elim-e- haqeeqat hai-es say mehsosaat k haqeeqat hone ka inkaarlazim ayaor haqeeqat ko sirf makolat se mukhtas krdiya gaya-lekn jo zaat aql k heta-e-edraaq se mawara thi;haqeeqat qaraar napasaki or bilakhir falsafa es tasaw-wa-re- elm se taib hogae-es k baad falsafe k dor-e-haqeeqat ka agaz huajis mai sirf hawas he ko zariya-e-elm mana gaya-estarhan mehsosaat haqeeat qarar pagaeor makolat k haqeeqat hone ka inkar ho gaya-lekin jo wojood hawaas k hita-e- edraaq se mawara tha ;bilakhir tashkeek or sofisaiyaat ki nazar hogai-falasfa or uqla k paas aql ko es bhawar se nikalne ki koi tadbeer nahe thi or na haqeeqat ko pane ka koi lahya-e-amal tha;chunacha unhone apni talash o justujo ka rukh he phair lia unhone tawajja manzoor k bajae nazir ki taraaf kr li or aql k bajae (ussay) talash falasfa k andaz-e-fikr or sim o justujo maiye tabdeli darasal es haqeeqat ka eylaan tha k (aql haqeeqat-e-abdi)ko nahe pasktiaql k safar mai etne marahil es liye aayk wo iktamo khata (trial & error)krne ki (apni) he talahs mai magan kr lia -k tareqe par gamzin thiagar shuru se astana-e- mazhab par sa-re-es zaat ka edraak hawas o aql ki parwaaz se buland haiagar aql eski talash mai nikle gi tu gum ho jae gi.tasleem kham kr leti esy etne jatan na krne parte

  12. جب آپ کسی کو پہچان لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ اس کے بارے میں سب کچھ جان گئے ہیں…ہاں اتنا ضرور ہو جاتا ہے کہ جب ایک ہستی کو پہچان لیا جاتا ہے تو پھر اس کو جاننے کا عمل شروع ہوتا ہے…جاننے کا عمل کتنا طویل ہوتا ہے یہ کوئی نہیں کہہ سکتا…ہم تو ایک بندے کو مکمل طور پر نہیں جان سکتے تو ذاتی خیال یہی رکھتا ہوں کہ ہم خدا کو بھی شاید کبھی مکمل طور پر نہ جان پائیں گے البتہ کوشش و کاوش کا ہمیشہ سے حامی ہوں اور عقل و خرد کو راہ نما بنانے والوں کی ہمیشہ ستائش کرتا ہوں….

جواب دیں

23 Comments
scroll to top