Close

انبیاء کا تقدس

کہتے ہیں کہ انسان خطاء کا پتلا ہے، یعنی ہر انسان غلطی کرتا ہے چاہے وہ کتنا ہی مقدس کیوں نہ ہو… اگر انبیاء انسان ہیں تو وہ بھی اس قانون سے مبراء نہیں ہوسکتے.. وہ بھی غلطیاں کر سکتے ہیں…

مگر انبیاء کے تقدس نے ان کی غلطیوں کو بھی قابل نفاذ قوانین کی حیثیت دے دی ہے، انبیاء کہلائے جانے والے ان انسانوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ ان کے گرد کھینچا گیا تقدس کا دائرہ ہے کہ جو انہوں نے کہا اور کیا وہ قابلِ نفاذ واطلاق ہے یہ مدِ نظر رکھے بغیر کہ وہ غلطیاں بھی کر سکتے ہیں اور کبھی کبھی ان کی غلطیاں خطرناک بھی ہوسکتی ہیں یا بعض اوقات وہ محض اپنی مرضی ہی کر رہے ہوتے ہیں، مگر تقدس کے دائرے نے ان غلطیوں اور مرضیوں کو قوانین کی حیثیت دے دی اور سب پر لازم ہوگیا کہ وہ آنکھیں بند کر کے اندھوں کی طرح ان کا اتباع کریں.. یہاں ہمیں اپنی مصیبت پر خوب ماتم کرنا چاہیے…

انبیاء کا تقدس ایک ایسی ” فائر وال ” ہے جو ان پر تنقید تک کو ممنوع بنا دیتی ہے جس سے معاملہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے…

کسی شخص کا نبی کہلانے کا یہ لازمی مطلب ہوگیا ہے کہ اس پر نہ صرف تنقید ممنوع ہے بلکہ اس کے نزدیک جانا بھی حرام ہے ورنہ یہ توہین قرار پائے گی.. حالانکہ تنقید اور جانچ پڑتال کے عمل کے فقدان سے اس کی غلطیوں سے پیدا کردہ قوانین پختہ ہوتے چلے جائیں گے…

جو قومیں اپنے عظیم لوگوں کے کارناموں اور ان کی غلطیوں کے درمیان تفریق نہیں کرتیں وہ ان غلطیوں کو آہستہ آہستہ اپنے اندر سموتی چلی جاتی ہیں جس کا نتیجہ ان معاشروں کے انتشار کی صورت میں نکلتا ہے اور پھر اتنی دیر ہوجاتی ہے کہ ان غلطیوں سے جان چھڑانا اگر نا ممکن نہیں تو مشکل تر ضرور ہوجاتا ہے، ایسی قوم کی حالت نا گفتہ بہ ہوجاتی ہے اور وہ ہر میدان میں پیچھے رہ جاتی ہے کیونکہ یہ ایک سیدھا سا اصول ہے کہ اگر بنیاد ٹیڑھی ہو تو عمارت سیدھی کھڑی نہیں کی جاسکتی اور اگر کوئی ” حیلہ ” کر بھی لیا جائے تو بھی وہ زیادہ دیر ٹکنے نہیں پاتی اور جلد ہی ڈھیر ہوجاتی ہے.

انبیاء کا تقدس نتیجے کی بجائے بنیاد بن گیا ہے…

کسی انسان کی سیرتِ حیات ہی فیصلہ کرتی ہے کہ وہ تقدس اور احترام کا حقدار ہے یا نہیں، لیکن اب ہو یہ رہا ہے کہ تقدس نہ صرف ایک مسلمہ حیثیت اختیار کر چکا ہے بلکہ ایک ایسا نقطہ آغاز اور معیار بن چکا ہے جس کی بنیاد پر ہم کسی انسان کے بارے میں منقول میراث کو قبول یا رد کرتے ہیں، جبکہ یہ میراث ہی وہ معیار ہونا چاہیے تھی جس کی بنیاد پر ہم ایسے لوگوں کو تقدس دیتے، یہی وجہ ہے کہ آج ہم اس میراث کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ اس تقدس کے عین مطابق ہوجائے جو ہم نے پہلے ہی اسے دے رکھی ہے جبکہ حق تو یوں تھا کہ ہم اس میراث پر تحقیق کرتے پھر تقدس کا فیصلہ کرتے، یاد رہے کہ میراث پر تحقیق اس سے استفادہ حاصل کرنے اور اس کی غلطیوں سے بچنے کے لیے ہونی چاہیے نا کہ اس میں تقدس تلاش کرنے کے لیے.

میراث کو پہلے سے تخلیق کردہ تقدس کے مطابق تبدیل کرنے کا عمل عقل کے فقدان کی جانب پہلا قدم ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھے گا کم نہیں ہوگا..

انبیاء کا تقدس جسے ہم نے اپنے ہاتھوں سے تخلیق کیا آج ہم اس کی قیمت اپنی عقل، نسل اور معاشرے میں چکا رہے ہیں اور قریب قریب ہمارے جاگنے کی کوئی امید نہیں ہے…

جواب دیں

0 Comments
scroll to top