سوال یہ تھا کہ خدا نے ہمیں کیوں بنایا؟ ایک صاحب نے اس سوال کا یوں جواب دیا: ” تمہیں یہ سوال کرنے کا حق نہیں ہے، اگر سڑک پر کوئی شخص بغیر کسی معقول وجہ کے تمہارے سر پر کچھ دے مارے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ موجود نہیں ہے؟ ”
چلیے ان صاحب کی اس منطق کا جائزہ لیتے ہیں، سب سے پہلے تو یہ کہ اگر سڑک پر کوئی شخص مجھے مارے گا تو میں اس کے موجود ہونے اور اس کے اس حملے کا گواہ ہوں گا چنانچہ اس کے وجود پر کبھی بھی شک نہیں کروں گا، مگر تم کہتے ہو کہ خدا نے ہمیں ایسے ہی بغیر کسی وجہ کے بنایا ہے جبکہ ہم اس نام نہاد تخلیق کی گواہی کے لیے موجود نہیں تھے، اس طرح ان صاحب کی یہ مثال حالات کے عدم تشابہ کی وجہ سے آسانی سے ساقط ہوجاتی ہے.
دوسرا یہ کہ اگر کوئی شخص بغیر کسی وجہ کے مجھ پر حملہ کردے تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ ظالم ہے، اور اگر ہم اس ظالم شخص کو خدا سے تشبیہ دیں گے تو خدا سے انصاف کی صفت ساقط ہوجائے گی کیونکہ وہ بھی ظالم ٹھہرے گا، تو کیا آپ کا خدا ظالم ہے؟
اس طرح سوال وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے کہ انسانوں کو تخلیق کرنے کا خدا کو کیا منطقی فائدہ ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس سوال کے جواب کے لیے ہمارے پاس دو آپشن ہیں:
اول: خدا کو انسانوں کی ضرورت ہے اس لیے اس نے انہیں تخلیق کیا.
دوم: خدا کو انسانوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس کے با وجود اس نے انہیں تخلیق کیا.
اگر پہلا آپشن منتخب کیا جائے تو خدا سے کمال کی صفت ساقط ہوجاتی ہے جس کے مطابق خدا کو اپنی مخلوقات میں سے کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے، اور کمال کی صفت کے ساقط ہونے سے خدا بھی ساقط ہوجاتا ہے.
اگر دوسرا آپشن منتخب کیا جائے تو خدا فضولیا ثابت ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی کام کو کرنے کے لیے عقلِ سلیم کے پاس کوئی نہ کوئی منطقی وجہ ہوتی ہے، اگر میں کوئی کمپیوٹر بناتا ہوں تو میرے پاس اسے بنانے کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی جیسے اس سے استفادہ حاصل کرنا، یا پھر میں اتنا احمق ہوں گا کہ بلا ضرورت ایک ایسی چیز بناؤں گا جس سے مجھے نا تو کوئی فائدہ ہوگا اور نا ہی اسے استعمال کر کے میں اس سے کسی قسم کا استفادہ حاصل کرنے کی توقع رکھوں گا، اب چونکہ دعوی یہی ہے کہ خدا کو انسانوں کی ضرورت نہیں ہے تو خدا فضولیا ہوا کیونکہ اسے نے بغیر کسی واضح وجہ کے مخلوقات کو تخلیق کیا، اب اگر خدا فضولیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ناقص ہے، اور نقص خدا سے کمال کی صفت کو ساقط کردے گا، اور کمال کی صفت کے ساقط ہونے پر خدا بھی ساقط ہوجائے گا.
بعض حضرات نے اس مسئلے کا یوں جواب دیا کہ: ” ہماری محدود عقل اس مسئلے کے کسی منطقی حل کا ادراک نہیں کر سکتی چنانچہ اس کے بارے میں سوچنا چھوڑ دو ”، اس پر میرا جواب یہ ہے کہ مخلوق میں نقص خالق کے نقص کی دلیل ہے، ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ خدا نے انسان کو عقل دی تاکہ وہ اسے اُس تک پہنچنے کے لیے استعمال کرے، اب اگر عقل محدود یا کمزور ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا نے اس تک پہنچنے کے لیے انسان کو یہ محدود اور کمزور عقل دے کر غلطی کی، اگر عقل ہی خدا تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے تو پھر خدا اسے محدود کیوں کرتا ہے اور اس کے سامنے اپنے نا ہونے کے دلائل کیوں رکھ دیتا ہے؟
فرض کرتے ہیں کہ میں نے 200 گیگا بائٹ کی ہارڈ ڈسک بنائی جبکہ میں (قادرِ مطلق انسان ہونے کے ناطے) 500 گیگا بائٹ کی ہارڈ ڈسک بنانے کی استطاعت رکھتا تھا تو کیا 200 گیگا بائٹ کے انتخاب کی کوئی منطقی وجہ ہے جبکہ میں 500 گیگا بائٹ کی ہارڈ ڈسک بنا سکتا تھا؟ یقیناً نہیں، یہاں صرف دو وجوہات ہوسکتی ہیں:
اول: میں 500 گیگا بائٹ کی ہارڈ ڈسک نہیں بنا سکتا اور اس طرح میری کمال کی صفت ساقط ہوجاتی ہے.
دوم: میں قادرِ مطلق ہوں اور 500 گیگا بائٹ یا اس سے زائد کی ہارڈ ڈسک بنا سکتا ہوں مگر میں نہیں چاہتا، اس طرح میں فضولیا ہوجاتا ہوں کیونکہ میں اس سے اچھی ہارڈ ڈسک بنا سکتا تھا مگر میں نے ایک غیر منطقی سبب کی وجہ سے ایسا نہیں کیا، یہاں قرآن کا یہ قول پیشِ نظر رہے کہ ” لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ” (کہ ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔) یعنی انسان کی تخلیق وہ سب سے بہترین تخلیق تھی جو خدا پیش کر سکتا تھا !!.
مُسیر یا مُخیر؟
ایک صاحب نے مسیر اور مخیر کے مسئلے کا جواب مندرجہ ذیل مثال پیش کر کے دیا:
” اگر میں اپنے بچے کے سامنے ایک چاکلیٹ اور ایک پتھر رکھ دوں، اور اپنی بیوی کو یہ یقین دلاؤں کہ بچہ چاکلیٹ کا ہی انتخاب کرے گا اور یہ بات کاغذ پر بھی لکھ لوں کیونکہ مجھے پیشگی علم ہے کہ وہ چاکلیٹ کا انتخاب ہی کرے گا، اور بچے نے چاکلیٹ کا انتخاب کیا تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ میں نے اسے چاکلیٹ منتخب کرنے پر مجبور کیا؟ ”
یہاں ایک بار پھر یہ صاحب غیر منطقی تشبیہ کے مغالطے میں پڑ گئے، اگر آپ اپنے بچے کو چاکلیٹ اور پتھر میں انتخاب کرنے کا موقع دیں تو یہاں آپ بہت ساری باتوں کے پیشِ نظر (جیسے بچوں کا چاکلیٹ کو پسند کرنا) یہ ” توقع ” کرتے ہیں کہ بچہ چاکلیٹ کا ہی انتخاب کرے گا، یہاں آپ کے ” پیشگی علم ” کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، کیا ہو اگر بچے کا پیٹ بھرا ہوا ہو؟ اگر پتھر بچے کی توجہ حاصل کر لے تو؟ یعنی یہاں ایک چھوٹا سا امکان موجود ہے کہ بچہ آپ کی توقعات پر پورا نہ اترے اور پتھر کا انتخاب کر لے، پس یہ ثابت ہوا کہ آپ کبھی بھی بچے کے انتخاب پر 100% پُر یقین نہیں ہوسکتے، یہاں فرق صرف یہ ہے کہ چاکلیٹ کے انتخاب کے امکانات 95% ہیں اور پتھر کے انتخاب کے امکانات 5%… مختصراً آپ کا یہ ” پیشگی علم ” کامل نہیں تھا اور قابلِ تغیر تھا… اس طرح آپ کا دعوی اور حجت دونوں ساقط ہوجاتے ہیں کیونکہ آپ کہتے ہیں کہ خدا کا پیشگی علم 100% کامل اور ناقابلِ تغیر ہے.
اب میرا آپ سے ایک سوال ہے، میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی خدا کو معلوم تھا کہ میں جہنم میں جاؤں گا، یعنی خدا اپنے مطلق علم کی وجہ سے 100% پُر یقین تھا کہ میرا انجام بالآخر جہنم ہوگا چاہے میں کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کر لوں، کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں مُسیر تھا مُخیر نہیں تھا؟
چلیے معاملے کی ایک بار پھر منطقی جانچ کرتے ہیں:
اول: اگر میں مخیر تھا تو اس کا یہ مطلب ہے ہوا کہ خدا کا میرے بارے میں جو پیشگی علم تھا میں اس کے برخلاف جاکر جنت میں جا سکتا ہوں، مگر اس طرح خدا کی مطلق علم کی صفت ساقط ہوجاتی ہے، اور مطلق علم کی صفت ساقط ہوجانے پر خدا ناقص ہوجائے گا، اور خدا کا نقص اسے اور اس کی تمام صفات کو ساقط کردے گا.
دوم: اب اگر میں مُسیر ہوں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں جتنی بھی کوشش کیوں نہ کر لوں میں وہ نتائج تبدیل نہیں کر سکتا جو خدا نے میرے لیے پیشگی متعین کر رکھے ہیں، اور اگر میں یہ نتائج تبدیل نہیں کر سکتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا ظالم ہے کیونکہ اس نے مجھے ایک ایسے انتخاب کی بنیاد پر سزا دی جو اس نے میرے لیے پہلے ہی متعین کر رکھا تھا اور میرا اس کی تبدیلی پر کوئی اختیار نہیں تھا، ظلم کی صفت خدا کی مطلق انصاف کی صفت ساقط کردے گی جس کے نتیجہ میں خدا کے کمال کی صفت بھی ساقط ہوجائے گی اور کمال کی صفت ساقط ہونے پر خدا ساقط ہوجائے گا.
مسئلہ یہ ہے کہ یہاں صرف دو آپشن ہیں، یا تو یہ خدا جاہل ہے (نہیں جانتا کہ میرا انتخاب اور انجام کیا ہوگا) یا ظالم (میرے انتخاب سے پہلے ہی وہ جانتا ہے کہ میں کیا منتخب کروں گا یوں میرے پاس اپنے افعال پر کنٹرول اور ان میں تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں) دونوں صورتوں میں ایک ایسا تضاد کھڑا ہوجاتا ہے جو خدا کو بری طرح ساقط کر دیتا ہے، آخر میں سورہ انعام کی آیت 111 پیش کرنا چاہوں گا:
وَ لَوۡ اَنَّنَا نَزَّلۡنَاۤ اِلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ وَ کَلَّمَہُمُ الۡمَوۡتٰی وَ حَشَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ کُلَّ شَیۡءٍ قُبُلًا مَّا کَانُوۡا لِیُؤۡمِنُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ یَجۡہَلُوۡنَ ﴿۱۱۱﴾
اور اگر ہم ان پر فرشتے بھی اتار دیتے اور مردے بھی ان سے گفتگو کرنے لگتے اور ہم سب چیزوں کو ان کے سامنے لا موجود بھی کر دیتے تو بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ بات یہ ہے کہ یہ اکثر نادان ہیں۔