Close

حماقت کا دائرہ کار (حصہ سوم)۔

آخری حصہ

 

گزشتہ سے پیوستہ

 

مفتی تقی عثمانی صاحب کہتے ہیں کہ اسلام اور سیکولرازم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام کہتا ہے کہ بیشک تم عقل استعمال کرو لیکن صرف اس حد تک جہاں تک وہ کام دیتی ہے، جس چیز کے لئے اللہ تعالیٰ نے تیسرا ذریعہ علم یعنی وحی عطا کی ہے وہاں عقل کو استعمال کرو گے تو یہ عقل غلط جواب دینا شروع کر دے گی۔ اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ تشریف لائے۔ جسکے لئے قرآنِ کریم اتارا گیا۔ قرآن آپکو بتائے گاکہ حق کیا ہے اور ناحق کیا ہے۔ یہ بتائے گا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، خیر کیا ہے اور شر کیا ہے۔ یہ سب باتیں آپ کو محض عقل کی بنیاد پر معلوم نہیں ہو سکتیں۔

ہم کہتے ہیں کہ عقل ، انسانی زندگی کو پیش آنے والے تمام مسائل کا احاطہ کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ نام نہاد وحی کا سہارا لیکر اور عقل پہ قدغن لگا کر عیار اور ظالم لوگوں نے نوعِ انسانی پر وہ ظلم ڈھائے ہیں کہ جسکی نظیر نہیں ملتی۔ کہیں ایک ظالم ، زانی اور ڈاکو وحی کی آڑ میں قبیلوں کے قبیلوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے، معصوم بچوں کو غلام بنا لینا انکی عورتوں کو خادمائیں اور رکھیلیں بنا لیتا ہے تو کہیں اپنے نفس اور خود پرستی کی تسکین کی خاطر خود کو تمام بنی نوعِ انسان میں افضل قرار دے دیتا ہے۔ اپنی بہو کو بیوی بنا لینے میں اسکو کوئی برائی نظر نہیں آتی اور جن کو اسمیں برائی نظر آتی ہے انکو وحی کا رعب دے کر چپ کر ادیتا ہے۔ جی جناب، واقعی ہم عقل کی بنیاد پر اپنے ہی جیسے گوشت پوست سے بنے جیتے جاگتے انسان کو صرف اسکے مختلف خیالات کی وجہ سے قابلِ گردن زنی قرار نہیں دے سکتے، وحی ہی ہے جو ہمیں ایسا کرنے کا حوصلہ دے سکتی ہے۔ عقل کی بنیاد پر ایک ضعیف عمر رسیدہ معزز بڑھیا کی ٹانگیں چیر کر دوٹکڑے کر دینا واقعی ایک کارِ محال ہے۔ ۔ ۔ یہ وحی ہی ہے جسکی مدد سے عقل کو دبا کر ایسا بہیمانہ ظلم کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس مفتی تقی عثمانی صاحب، آپ یہاں چوک رہے ہیں۔ سنہری اصول ایک مسلمہ پیمانہ ہے اور معلوم انسانی تاریخ سے چلا آرہا ہے۔ یہی وہ پیمانہ ہے جسکی مدد سے اچھے اور برے، حق اور ناحق اور خیر و شر کی تمیز کی جا سکتی ہے۔ وحی تو چالباز لوگوں کا ایک حربہ بھی ہو سکتا ہے جس کی مدد سے وہ اپنے مقاصد کا حصول اور عقلمند لوگوں کے منہ بند کرنے کی کوششیں کرتے آئے ہیں۔ وحی کو ہم علم کی قسم مان ہی کیسے سکتے ہیں؟ اسکی تصدیق کا طریقہ کیا ہے؟ کیا کسی کا یہ کہہ دینا کہ "مجھ پہ وحی اترتی ہے چنانچہ میرا اتباع کرو ” کافی ہے؟ ہم یہ کیسے جانیں گے اس شخص پر واقعی وحی اترتی ہے اور یہ ذہنی مریض یا فراڈیانہیں ہے؟ اور وحی بھی شیطانی نہیں بلکہ رحمانی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان اس شخص کو خدا یا اسکا فرشتہ ظاہر کر کے اپنے مقصد کے لئے استعمال کر رہا ہو۔ وحی کا نام لیکر بھلے وہ شیطانی اعمال کرتا رہے اور ہم یہ کہہ کر مطمئن ہوتے رہیں کہ وحی کا ادراک انسانی بساط سے باہر ہے چنانچہ جو بھی یہ شخص کر رہا ہے ٹھیک ہی ہو گا بس ہمیں اسکی سمجھ نہیں ہے۔ واقعی عقل کی حدود ہوتی ہیں پر جاہلیت کی کوئی حد نہیں ہے۔

آگے خنزیر حلال ہونا چاہئے اور ایک واقعہ کے تحت انہوں نے جو کہا ہے وہ اپیل ٹو اتھارٹی نامی منطقی مغالطے ہیں (ویسے تو انکی یہ ساری تحریر ہی ایک عظیم الشان منطقی مغالطہ ہے اور میرا نہیں خیال کہ یہاں تک پہنچ کر قاری کو یہ بات سمجھتے کوئی دشواری پیش آئے)۔ خنزیر کی حرمت کے لئے وہ قرآن کو بطور دلیل پیش کر رہے ہیں جبکہ قرآن وحی الٰہی ہےبھی یا نہیں ، یہ بات بجائے خود ایک متنازعہ موضوع ہے۔ پھر گانے بجانے کی حرمت کے لئے بھی یہی مغالطہ ، کہ محمد کو اللہ کا رسول تسلیم کر لیا بغیر یہ بات ثابت کئے کہ وہ اللہ کا رسول ہے بھی یا نہیں۔ کیا پہلے انکو یہ بات ثابت نہیں کرنا چاہئے کہ محمد واقعی میں اللہ ہی کا رسول ہے؟ پیشتر اس کے کہ وہ چودہ صدی پہلے گزرے ایک عرب ، یعنی محمد کے الفاظ کو ایک مستند دلیل کے طور پر استعمال کریں؟ پہلے محمد کی نبوت تو ثابت کر لیں، پھر اسکی بات کو وحی الٰہی کا درجہ بھی دے لیجئے گا۔ جب تک آپ ایسا نہ کر سکیں، تب تک آپکی یہ دلیلیں منطقی مغالطہ کہلائیں گی۔

ختم شدہ

جواب دیں

0 Comments
scroll to top