آخری حصہ
گزشتہ سے پیوستہ
مفتی تقی عثمانی صاحب کہتے ہیں کہ اسلام اور سیکولرازم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام کہتا ہے کہ بیشک تم عقل استعمال کرو لیکن صرف اس حد تک جہاں تک وہ کام دیتی ہے، جس چیز کے لئے اللہ تعالیٰ نے تیسرا ذریعہ علم یعنی وحی عطا کی ہے وہاں عقل کو استعمال کرو گے تو یہ عقل غلط جواب دینا شروع کر دے گی۔ اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ تشریف لائے۔ جسکے لئے قرآنِ کریم اتارا گیا۔ قرآن آپکو بتائے گاکہ حق کیا ہے اور ناحق کیا ہے۔ یہ بتائے گا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، خیر کیا ہے اور شر کیا ہے۔ یہ سب باتیں آپ کو محض عقل کی بنیاد پر معلوم نہیں ہو سکتیں۔
ہم کہتے ہیں کہ عقل ، انسانی زندگی کو پیش آنے والے تمام مسائل کا احاطہ کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ نام نہاد وحی کا سہارا لیکر اور عقل پہ قدغن لگا کر عیار اور ظالم لوگوں نے نوعِ انسانی پر وہ ظلم ڈھائے ہیں کہ جسکی نظیر نہیں ملتی۔ کہیں ایک ظالم ، زانی اور ڈاکو وحی کی آڑ میں قبیلوں کے قبیلوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے، معصوم بچوں کو غلام بنا لینا انکی عورتوں کو خادمائیں اور رکھیلیں بنا لیتا ہے تو کہیں اپنے نفس اور خود پرستی کی تسکین کی خاطر خود کو تمام بنی نوعِ انسان میں افضل قرار دے دیتا ہے۔ اپنی بہو کو بیوی بنا لینے میں اسکو کوئی برائی نظر نہیں آتی اور جن کو اسمیں برائی نظر آتی ہے انکو وحی کا رعب دے کر چپ کر ادیتا ہے۔ جی جناب، واقعی ہم عقل کی بنیاد پر اپنے ہی جیسے گوشت پوست سے بنے جیتے جاگتے انسان کو صرف اسکے مختلف خیالات کی وجہ سے قابلِ گردن زنی قرار نہیں دے سکتے، وحی ہی ہے جو ہمیں ایسا کرنے کا حوصلہ دے سکتی ہے۔ عقل کی بنیاد پر ایک ضعیف عمر رسیدہ معزز بڑھیا کی ٹانگیں چیر کر دوٹکڑے کر دینا واقعی ایک کارِ محال ہے۔ ۔ ۔ یہ وحی ہی ہے جسکی مدد سے عقل کو دبا کر ایسا بہیمانہ ظلم کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس مفتی تقی عثمانی صاحب، آپ یہاں چوک رہے ہیں۔ سنہری اصول ایک مسلمہ پیمانہ ہے اور معلوم انسانی تاریخ سے چلا آرہا ہے۔ یہی وہ پیمانہ ہے جسکی مدد سے اچھے اور برے، حق اور ناحق اور خیر و شر کی تمیز کی جا سکتی ہے۔ وحی تو چالباز لوگوں کا ایک حربہ بھی ہو سکتا ہے جس کی مدد سے وہ اپنے مقاصد کا حصول اور عقلمند لوگوں کے منہ بند کرنے کی کوششیں کرتے آئے ہیں۔ وحی کو ہم علم کی قسم مان ہی کیسے سکتے ہیں؟ اسکی تصدیق کا طریقہ کیا ہے؟ کیا کسی کا یہ کہہ دینا کہ "مجھ پہ وحی اترتی ہے چنانچہ میرا اتباع کرو ” کافی ہے؟ ہم یہ کیسے جانیں گے اس شخص پر واقعی وحی اترتی ہے اور یہ ذہنی مریض یا فراڈیانہیں ہے؟ اور وحی بھی شیطانی نہیں بلکہ رحمانی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان اس شخص کو خدا یا اسکا فرشتہ ظاہر کر کے اپنے مقصد کے لئے استعمال کر رہا ہو۔ وحی کا نام لیکر بھلے وہ شیطانی اعمال کرتا رہے اور ہم یہ کہہ کر مطمئن ہوتے رہیں کہ وحی کا ادراک انسانی بساط سے باہر ہے چنانچہ جو بھی یہ شخص کر رہا ہے ٹھیک ہی ہو گا بس ہمیں اسکی سمجھ نہیں ہے۔ واقعی عقل کی حدود ہوتی ہیں پر جاہلیت کی کوئی حد نہیں ہے۔
آگے خنزیر حلال ہونا چاہئے اور ایک واقعہ کے تحت انہوں نے جو کہا ہے وہ اپیل ٹو اتھارٹی نامی منطقی مغالطے ہیں (ویسے تو انکی یہ ساری تحریر ہی ایک عظیم الشان منطقی مغالطہ ہے اور میرا نہیں خیال کہ یہاں تک پہنچ کر قاری کو یہ بات سمجھتے کوئی دشواری پیش آئے)۔ خنزیر کی حرمت کے لئے وہ قرآن کو بطور دلیل پیش کر رہے ہیں جبکہ قرآن وحی الٰہی ہےبھی یا نہیں ، یہ بات بجائے خود ایک متنازعہ موضوع ہے۔ پھر گانے بجانے کی حرمت کے لئے بھی یہی مغالطہ ، کہ محمد کو اللہ کا رسول تسلیم کر لیا بغیر یہ بات ثابت کئے کہ وہ اللہ کا رسول ہے بھی یا نہیں۔ کیا پہلے انکو یہ بات ثابت نہیں کرنا چاہئے کہ محمد واقعی میں اللہ ہی کا رسول ہے؟ پیشتر اس کے کہ وہ چودہ صدی پہلے گزرے ایک عرب ، یعنی محمد کے الفاظ کو ایک مستند دلیل کے طور پر استعمال کریں؟ پہلے محمد کی نبوت تو ثابت کر لیں، پھر اسکی بات کو وحی الٰہی کا درجہ بھی دے لیجئے گا۔ جب تک آپ ایسا نہ کر سکیں، تب تک آپکی یہ دلیلیں منطقی مغالطہ کہلائیں گی۔
ختم شدہ
بے خطر کود پڑا آتش نمرودمیں عشق
عقل ہے محو تماشہ لب بام ابھی
اس غیرمنطقی شعر کے خالق علامہ اقبال کو اگر ایسے اشعار لکھنے کے باعث عالم اسلام کا سب سے بڑا شاعر اور مفکر قرار دیا جاسکتا ہے تو آسانی کے ساتھ اُمت مسلمہ کی ذہنی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو عقل کی دشمنی کو مذہب سے محبت کا تقاضا قرار دیتی ہے۔دیوانگی کی رسیا اقوام اور قبائل صرف اسی لیے راندہ درگاہ قرار دیئے گئے کہ اُنہوں نے عقل دشمنی کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔المیہ یہ ہے کہ عقل دشمنی آج مذہب پرستوں کی سب سے بڑی نشانی ہے،حیران کن امر یہ ہے کہ اسلام میں قرآن کے بعد حدیث کو اہم ترین مرتبہ دیا جاتا ہے اور ایک صحیح حدیث میں ہے” عقل باطنی رسول ہے”لیکن پھر بھی مذہب پرستوں نے عقل کو دین کی سب سے بڑی دشمن قوت قرار دیدیا ہے۔
لوگ اس بات پر سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ کسی عقیدے یا نقطہ نظرکو عقل کی عدم موجودگی میں کس طرح پرکھا جاسکتا ہے؟کیا محض عشق اور دیوانگی کی بنیاد پر عقیدے کی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے؟اور اگر اہل ایمان اس کا جواب ہاں میں دیتے ہیں تو پھران پر ہونے والے تمام اعتراضات بالکل بہت باوزن اور ناگزیر اعتراضات ہیں۔جہاں تک رسول کی سیاسی زندگی اور سماجی سوجھ بوجھ کا تعلق ہے تو وہ مکمل طور پر ایک عقل مند انسان کی گواہی دیتی ہے جو اپنے دشمنوں کو مات بھی دیتا ہے اور اپنی حیثیت کو مستحکم بھی بناتا ہے، الہامی احکامات کو اپنی طاقت میں بڑھوتڑی کے لیے استعمال کرتا ہے۔قبائلی سماج میں مضبوط حمایت کے حصول کے لیے پے در پے شادیاں کرتا ہے تاکہ اپنے مخالفین کا ناطقہ بند کردیا جائے۔کیا سب کچھ سماجی شعور کے بغیر ممکن ہے؟یہی صورت حال ہمیں اس کے بعد آنے والے خلفاء میں بھی نظر آتی ہے جو اپنی جنگی حکمت عملی سے ایک بہت بڑے علاقے کو فتح کرلیتے ہیں۔ایسی ہی صورت حال متاخرین کے ادوار میں بھی دیکھی جاسکتی ہے، لیکن حیرت ہے کہ آج مسلمان عقل کے بغیر زندہ رہنے کو عین اسلامی قرار دیتا ہے۔عشق، جنون اور دیوانگی اس کی رگ رگ میں اس قدر سما چکی ہےآج دنیا حیران ہے کہ اس نے کس طرح ایک انسان کو چلتے پھرتے بم میں تبدیل کردیا ہے۔جنون کی عدم موجودگی میں کوئی بھی انسان کسی بے بس اور جکڑے ہوئے دوسرے انسان کو ذبح نہیں کرسکتا۔اگر مسڑ عثمانی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ عقل مسلمان کا ورثہ نہیں اور عقل دین دشمن ہے تو ٹھیک ہی کہتےہیں، ہم کو عثمانی صاحب پر یقین کرلینا چاہیے۔
خیر اندیش
خامہ بگوش مدظلہ
تقی عثمانی صاحب اگر یہ پڑھ لیں تو مجھے یقین ہے کہ انہیں دل کا دورہ پڑ جائے گا 😀
آزمائش شرط ہے
بقول ڈان کے محمد کو رسول ثابت کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
پاکستان کے مشہور اور لاثانی علامہ کی ایک دوسری درفتنی کو بھی دیکھیے،
َِـعقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ مسلمان عقل سے اتنا خوفزدہ کیوں ہے؟ اگر ہم مسلمانوں اور خاص کر برصغیر کے مسلمانوں کا ماضی دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اِنہیں عقل سے دوری کس قدر عزیز ہے۔جب بھی مغربی دنیا میں کوئی سائنسدان یا موجد کوئی نیا نظریہ پیش کرتا یا کوئی نئی ایجاد سامنے آتی برصغیر کے مسلمان تلملا اُٹھتے۔فوری طور پر انسداد عقل کی باریش مشینیں(علماء) حرکت میں آجاتے اور نئے نظریے یا ایجاد کو اسلام کی رو سے ناجائز اور کفر قرار دے دیتے۔اسی لیے عینک سے لے کر کمپیوٹر تک کو غیراسلامی اور شیطانی ایجادات کے نام دیئے گئے۔لیکن ایک بات بہرحال ہے ماننا پڑے گی کہ انسداد عقل و شعور کی اِن باریش فیکٹریوں نے ایسی تمام ایجادات اور نظریات کو مکمل طور پر رد کیا ہے جن کا تعلق انسانی دماغ اور سوچ سے رہا ہے، لیکن ایسی کسی نئی سہولت یا ایجاد کی مخالفت کبھی نہیں کی جس کا تعلق جسمانی طاقت خصوصاً جنسی طاقت سے ہو۔مثال کے طور پر باریشوں(جن کو اگر بالشتیےکہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا)نے کبھی ویاگرا یا دوسری افزائش قوت مجامعت ادویات اور نسخوں کو نہ صرف دھڑلے سے استعمال کیا بلکہ انہیں عین اسلامی سمجھا۔زندگی اور انسان کے مسائل کو سمجھنے سمجھانے کے موضوعات کو ترک کرکے”مباشرت کے اسلامی اصول”اور” مجامعت کے اسلامی طریقے” جیسی کتب لکھیں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہل ایمان کی سوچنے اور سمجھنے کی طاقت عضو تناسل سے متصل ہے اسی لیے”بے خطر کود پڑا آتش نمردو میں عشق” والے جملے کی تفہیم ہوتی ہے۔
عثمانی صاحب۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آج کے مسلمان کو کس قسم کی عقل کی ضرورت ہے، اس کو دماغی نشوونما کے لیے جتن کرنے چاہیں یا عضویاتی طاقت کے حصول کے لیے جنون اور دیوانگی درکار ہے۔
خیر اندیش
خامہ بگوش مدظلہ