Close

شیطانی آیات

مسلمان کہتے ہیں کہ قرآن الہامی کتاب ہے، اور نزول قرآن کے وقت سے لے کراب تک ﴿ یعنی ١۴۰۰سال﴾ اور اب سے مزید رہتی دنیا تک یہی کتاب انسانوں کو رہنمائی فراہم کرے گی، حالات چاہے جتنے تبدیل ہو جائیں، تہذیبوں میں چاہے جتنی جدت آجائے، علوم چاہے جتنی ارتقائی منازل طے کر لیں، انسانی شعور و آگہی چاہے جتنی بیدار ہو جائے، رشد و ہدایت کا منبع اب صرف قرآن ہی رہے گا، اور اگر قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کیلئے تیار نہیں تو دوسرے درجے کے شہری بن کر ذلت و خواری اختیار کرتے ہوئے جزیہ ادا کرو، ورنہ گردن زنی کیلئے تیار ہو جاوٴ (ملاحظہ کیجئے سورة التوبة آیت نمبر ۲۹)
اس قدر کڑی شرائط کہ جہاں تخت یا تختہ کے سوا کوئی اور راستہ نہ ہو، اس بات کا متقاضی ہے عقل سلیم کسی طور پر بھی ایسے منبع رشد و ہدایت کو رد نہ کرسکے، لیکن جب ہم اس منبع رشد و ہدایت قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں انتہائی مایوسی ہوتی ہے، خود قرآن میں ہمیں ایسی آیات ملتی ہیں جو نہ صرف ایک طرف بذات خود قرآن کی حجیت و حقانیت کو مشکوک بناتی نظر آتی ہیں،تودوسری جانب قرآن کے مطالعہ کرنے والے کو بہت سے امور پر سوچنے پر مجبور کرتی ہیں آخر حقیقت کیا ہے؟۔
سر سلمان رشدی شیطانی آیات نامی کتاب لکھ کر دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظر میں انتہائی معتوب ٹھہرے، اور عالم اسلام میں ایک ہلچل پیدا ہوگئی، شیعہ مذہبی پیشوا خمینی صاحب نے سر سلمان رشدی کے واجب القتل قرار دیئے جانے کا فتویٰ بھی صادر کیا، آخر یہ شیطانی آیات ہیں کیا؟؟؟؟ عام مسلمان اس بارے میں کچھ نہیں جانتا، کیونکہ علماء حضرات عام مسلمانوں کے سامنے اس بارے میں بات کرنے سے گھبراتے ہیں حالانکہ یہ معاملہ قرآن میں مذکور ہے،  تو آخر ایسی کیا خاص بات ہے جو قرآن میں مذکور ہونے کے باوجود مسلمانوں سے پوشیدہ رکھنے میں ہی عافیت سمجھی جاتی ہے؟؟؟
آئیے آج ہم آپ کا تعارف ان شیطانی آیات سے کراتے ہیں، جن کا ذکر  ڈھونڈنے سے آپ کو ہر قابل ذکر تفسیر میں بآسانی مل جائے گا۔ ان آیات سے متعلق شان نزول تفاسیر میں کچھ یوں مذکور ہے کہ:
حضرت عبداللہ بن عباس اور محمد بن کعب القرظی سے روایت ہے کہ رسول اللہ قریش کی اسلام سے بے رغبتی پر انتہائی افسردہ وغمگین تھے، اور قریش کے جانب سے دعوت اسلام کو پزیرائی حاصل نہ ہونے پر سخت مایوس تھے، ان کے دل میں شدت میں سے یہ چاہت تھی کہ اللہ کی جانب سے کوئی ایسا کلام نازل ہو جو موحدین اور مشرکین  کے درمیان دوری کو قربت میں تبدیل کردے۔ ایک مرتبہ پیغمبر اسلام بیت اللہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر اللہ کی جانب سے وحی کا نزول شروع ہو اور آپ نے سورة النجم کی قراءت شروع کی اور جب ان آیات تک پہنچے افراٴیتم اللات و العزیٰ و مناة الثالثة الاخریٰتو شیطان نے آپ صلعم کی زبان سے یہ الفاظ جاری کرا دئیےتلک الغرانیق العلیٰ و ان شفاعتھن لترتجی﴿یعنی یہ لات اور منات بہت بلند پایہ کے بت ہیں اور یقیناً ان کی شفاعت بھی اللہ کے ہاں قبول کی جائے گی﴾ مشرکین آپ کی زبان سے اپنے معبودین کے لئے یہ الفاظ سن کر انتہائی مسرور ہوئے پیغمبر اسلام نے اپنی تلاوت مکمل کرنے کے بعد سجدہ تلاوت کیا تو اس مجلس میں موجود تمام مشرکین بھی سجدہ ریز ہو گئے اور بیت اللہ میں موجود کوئی بھی مومن اور مشرک ایسا نہ بچا جو سجدہ ریز نہ ہوا ہو۔ اس مجلس میں موجود ولید بن مغیرہ اور ابواحیحہ سعید بن العاص جو دونوں انتہائی ضعیف تھے اور سجدہ کرنے پر قادر نہ تھے اس لئے دونوں نے زمین سےمشت بھر  مٹی اٹھا کر پیشانی سےتک لے گئے اور اس پر سجدہ کیا۔ اس کے بعد مجلس برخاست ہوئی اور قریش کے لوگ بے حد خوش ہوئے کہ آج محمد نے پہلی دفعہ قریش کے معبودین کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا اور انہوں نے کہا کہ آج ہمیں معلوم ہوگیا کہ اللہ ہی زندگی اور موت دیتا ہے وہی رزق دیتا ہے اور تخلیق کرتا ہے اور ہمارے یہ معبود یعنی لات و منات اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے، پس اگر محمد ہمارے معبودوں کو ایسے بہتر الفاظ کے ساتھ یاد کرے گا تو ہم بھی اس کے ساتھ ہیں۔ پھر شام کو جبرائیل پیغمبر محمد کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد آج تم نے کیا کیا؟ آج تم نے قریش کے سامنے وہ کلام تلاوت کیا جوتم پر اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوا تھا، یہ سن کر تو محمد بے حد غمگین ہوگئے اور ان پر خشیت الہٰی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ تو اللہ کو محمد پر رحم آیا اور محمد کی تسلی کیلئے یہ آیت نازل کی۔
وَمَا أَرْ‌سَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّ‌سُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّـهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: اور ہم نے آپ سے قبل بھی جتنے رسول اور پیغمبر بھیجے ان میں سے ہر ایک ﴿کے ساتھ یہ واقعہ ضرور پیش آیا کہ﴾ جب انہوں نے ﴿اللہ کے کلام کو﴾ پڑھا تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں اپنی جانب سے  الفاظ شامل کر دیئے، پھر اللہ شیطان کےشامل کئے ہوئے الفاظ کوتو ختم کر دیتا ہے اور آپنی آیات کوبرقرار رکھتا ہے اور اللہ تو بہت ہی خبر رکھنے والا اور سیانا ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا محمد ہمارے معبودوں کا اچھے الفاط میں تذکرہ کرنے پر شرمندہ ہے اس لئے اس نے اپنا کلام بدل لیا۔﴿بحوالہ تفسیر بغوی در تفسیر سورة الحج آیت نمبر ۵۲﴾
قارئین کرام میں نے حتی المقدور کوشش کی ہے تفسیر بغوی میں یہ واقعہ جس طرح مذکور ہے اس کی اصل روح کو برقرار رکھتے ہوئے صرف اردو کے قالب میں ڈھال کر آپ حضرات کی خدمت میں پیش کردوں، آپ حضرات یہ پوری تفصیل مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ فرما سکتے ہیں کہ اللہ اپنے رسولوں اور انبیاء کی غلطیوں کی کیسے پردہ داری کرتا ہے۔ اور شیطان کو اللہ نے کس قدر بااختیار کردار سونپا ہوا ہے کہ پہلے تو شیطان اللہ کے عطا کردہ اختیار کی بدولت رسولوں اور انبیاء پر بھی اتنا تصرف اور اختیار رکھتا ہے کہ ان پر نازل ہونے والے اللہ کے  کلام میں تصرف پر بھی قادر ہے۔ اورنہ صرف تصرف پر قدرت بلکہ اگر شیطان چاہے تو وہ اللہ کے کلام میں شرک کی ملاوٹ کرکے رسول کی زبان سے ملاوٹی کلام بھی ادا کروا سکتا ہے۔
تقریبا تمام مشہور اور متقدمین کی تفاسیر میں اس واقعہ پر طویل مباحث قائم کئے گئے ہیں، تفسیر بغوی، تفسیر جلالین، احکام القرآن لابن العربی، تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر، سمیت تمام قابل ذکر مفسرین نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد علم حدیث کی بنیاد پر اس واقعہ کی صحت پر شکوک و شبہات کا اظہار ضرور کیا ہے۔مگر کلیتاً کسی نے بھی رد نہیں کیا۔ یہاں یہ نقطہ ضرور ذہن میں رکھیں کہ قرآن کے ذومعنی الفاظ  اور علم حدیث میں راویوں کی جرح و تعدیل کی آڑ میں مسلمانوں نے اپنے لئے نہایت گنجائش بنا رکھی ہے، کہ جہاں لاجواب ہو جائیں وہاں قرآن کے غیر صریح الفاظ اور راویوں کی جرح و تعدیل کی چھتری تلے پناہ لے لیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اس واقعہ کہ بعینہ ایسے ہی کیوں نہ سمجھیں جیسا کہ مفسرین نے اس کو بیان کیا ہے، جس کے نتیجے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تو انتہائی حکیم ہے اور اس کا کوئی اقدام حکمت بالغہ سے خالی نہیں ہوتا، تو آخر اس امر میں اللہ کی کیا حکمتِ خاص پوشیدہ ہے کہ نہ صرف سید الانبیاء و المرسلین حضرت محمد بلکہ ان سے قبل گذرنے والے تمام انبیاء اور رسولوں پر شیطان کو اس قدر اختیار عطا فرما دیا کہ اللہ کے ان خاص الخاص بندوں کے کلام میں تصرف کرکے لوگوں تک شیطانی پیغام یا شیطانی آیات کی رسائی کو ممکن بنا دیا، پہلے تو یہ انتہائی ناقابل فہم  اور مکروہ عمل انجام دینے کا شیطان کو پورا پورا موقع فراہم کیا جاتا ہےاور پھر واردات کی تکمیل کے بعد اللہ سرگرم عمل ہوتا ہے، اور شیطان کے پھیلائے ہوئے گند کو صاف کرنے میں جُت جاتا ہے اور اس گندگی کی صفائی کے بعد اللہ اعلان کرتا ہے کہ لوگو دیکھو میری قدرت اور حکمت کہ میں شیطان کے پھیلائے ہوئے گند کو بھی صاف کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہوں، ﴿بندہ پوچھے تم نے گند پھیلانے کا موقع ہی کیوں فراہم کیا؟﴾ کیا اب بھی تمہیں میری قدرت اور طاقت پر شک ہے؟ اور تم میری کون کون سی صلاحیتوں سے انکار کرو گے؟ سبحان ربک رب العزة عما تصفون و “سلام” علی المرسلین۔
سورة الحج کی یہ آیت سورة النجم کی ہی ان ا بتدائی آیات و ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحیسے قطعی طور پر متصادم ہے،سورة النجم کی ان آیات میں کہا جا رہا ہےنبی کی زبان سے سوائے وحی الہٰی کے کوئی اور الفاظ ادا نہیں ہوتے۔ اور سورة الحج کی آیات میں نبی  کی صفائی بیان ہورہی ہے کہ اگرشیطانی تصرف سے  آپ کی زبان پر اصنام قریش کی تعریف میں بطور وحی کچھ الفاظ ادا ہوگئے ہیں تو فکر اور پریشانی کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اللہ نے  شیطان کو ایسا اختیار و طاقت صرف آپ پر نہیں بلکہ آپ سے پہلے آنے والے تمام انبیاء اور رسولوں پر بھی عطا فرمایا تھا۔ کیا اولاً ایسی طاقت اور اختیار شیطان کو عطا کرنا اور پھرجب شیطان اپنی شیطانی کرجائے تو پھرشیطانی اثرات کو ختم کرنے کی محنت پر لگ جانا کسی حکمت کی نشاندہی کرتا ہے؟
ان آیات کے شان نزول کے واقعہ کی تفصیل میں خود مفسرین نے بیان کیا کہ جب پیغمبر اسلام بیت اللہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اسی دوران وحی کا نزول شروع ہوا، ﴿یقیناً یہ وحی خود جبرئیل لے کر آئے ہوں گے﴾ اور پیغمبر نے سورة النجم کی تلاوت شروع کی، اور اسی دوران شیطان نے آپ کی زبان سے وہ الفاظ ادا کرا دئیے جن کو شیطانی آیات کہا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ جبرائیل بھی تو اس وقت وہاں موجود تھے، انہوں نے اسی وقت پیغمبر کو تنبیہ کیوں نہ کی، اور پیغمبر کی غلطی کی اصلاح کیلئے شام تک کا انتظار کیوں کیا ؟

جرات تحقیق,Realisticapproach

آخر کیا وجہ ہے مفسرین کرام تو ایسے واقعات اپنی تفاسیر میں درج کرکے داد و تحسین کے مستحق قرار پائیں اور انہی واقعات کو جب سر سلمان رشدی اپنی کتاب شیطانی آیات میں،لالہ چمپت رائے عرف چموپتی اپنے کتابچہ رنگیلا رسول میں اورحالیہ دنوں میں عیسائی عقیدے سےتعلق رکھنے والے نکولا باسیلی عرف سام باسل نامی شخص دی انوسینس آف مسلمز نامی فلم کی شکل میں دنیا کے سامنے لاتے ہیں تو قابل گردن زنی قرار پاتے ہیں، آخر وہ مفسرین جنہوں نے اپنی بڑی بڑی مقدس تفاسیر میں بڑے مزے لے لے کر یہ قصے اور واقعات بیان کئے اور اپنی تفاسیر کی ضخامت اور اپنے علمی مرتبے بلند کئے وہ قابل گردن زنی قرار کیوں نہیں پائے؟؟؟ یہ کیا معیار ہے وہی قصہ سر سلمان رشدی بیان کرے تو شیطان رشدی جیسے مکروہ لقب سے پکارا جائے، اورتفسیر بغوی، تفسیر جلالین، احکام القرآن لابن العربی، تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر کے مصنفین بیان کریں تو ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائےجائیں۔ میں مسلمان علماء سے سوال کرتا ہوں کہ ان کی خودساختہ قیامت کے دن کس معیار پر سر سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین، پنڈت چموپتی، ایان حرسی، مریم نمازی، ابن وراق۔ شیخ ذکی امین، شیخ عبد اللہ القصیمی، تو جہنم رسید ہوں گے اور علامہ بغوی اپنے دیگر ساتھیوں کےساتھ جنت کےمستحق قرار پائے جائیں گے؟، ہمیں تمہارے پروردگار کے اس بھونڈے انصاف اور دہرے معیار کے برخلاف جہنم منظور ہے، انسانیت کی تذلیل اور تحقیر نا منظور

Realistic Approach, جرات تحقیق,

آخر کیا وجہ ہے کہ قرون اولیٰ کے مفسرین تو سورة الحج کی اس آیت کو واقعہ غرانیق سے منسلک کرتے ہیں اور عہد جدید کے مفسرین ان کی تردید کرتے نظر آتے ہیں؟ ہم کس معیار پر متقدمین کی تفسیر کو غلط اور متاخرین کی تفسیر کو صحیح قرار دیں؟ حالانکہ علم حدیث میں ہمیشہ علماء متقدمین کو علماء متاخرین پر ترجیح دی جاتی ہے، یہاں اس معیار کی قربانی کیوں دی جاتی ہے؟
اگر ہم متاخرین کی تفسیر کی روشنی میں بھی سورة الحج کی آیت کا مطالعہ کریں تو اس آیت سے ہمیں آخر کار کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟؟؟ کس بات کی صفائی بیان کی جا رہی ہے؟ آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کی جارہی ہے۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top