مسلمان کہتے ہیں کہ قرآن الہامی کتاب ہے، اور نزول قرآن کے وقت سے لے کراب تک ﴿ یعنی ١۴۰۰سال﴾ اور اب سے مزید رہتی دنیا تک یہی کتاب انسانوں کو رہنمائی فراہم کرے گی، حالات چاہے جتنے تبدیل ہو جائیں، تہذیبوں میں چاہے جتنی جدت آجائے، علوم چاہے جتنی ارتقائی منازل طے کر لیں، انسانی شعور و آگہی چاہے جتنی بیدار ہو جائے، رشد و ہدایت کا منبع اب صرف قرآن ہی رہے گا، اور اگر قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کیلئے تیار نہیں تو دوسرے درجے کے شہری بن کر ذلت و خواری اختیار کرتے ہوئے جزیہ ادا کرو، ورنہ گردن زنی کیلئے تیار ہو جاوٴ (ملاحظہ کیجئے سورة التوبة آیت نمبر ۲۹)
اس قدر کڑی شرائط کہ جہاں تخت یا تختہ کے سوا کوئی اور راستہ نہ ہو، اس بات کا متقاضی ہے عقل سلیم کسی طور پر بھی ایسے منبع رشد و ہدایت کو رد نہ کرسکے، لیکن جب ہم اس منبع رشد و ہدایت قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں انتہائی مایوسی ہوتی ہے، خود قرآن میں ہمیں ایسی آیات ملتی ہیں جو نہ صرف ایک طرف بذات خود قرآن کی حجیت و حقانیت کو مشکوک بناتی نظر آتی ہیں،تودوسری جانب قرآن کے مطالعہ کرنے والے کو بہت سے امور پر سوچنے پر مجبور کرتی ہیں آخر حقیقت کیا ہے؟۔
سر سلمان رشدی شیطانی آیات نامی کتاب لکھ کر دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظر میں انتہائی معتوب ٹھہرے، اور عالم اسلام میں ایک ہلچل پیدا ہوگئی، شیعہ مذہبی پیشوا خمینی صاحب نے سر سلمان رشدی کے واجب القتل قرار دیئے جانے کا فتویٰ بھی صادر کیا، آخر یہ شیطانی آیات ہیں کیا؟؟؟؟ عام مسلمان اس بارے میں کچھ نہیں جانتا، کیونکہ علماء حضرات عام مسلمانوں کے سامنے اس بارے میں بات کرنے سے گھبراتے ہیں حالانکہ یہ معاملہ قرآن میں مذکور ہے، تو آخر ایسی کیا خاص بات ہے جو قرآن میں مذکور ہونے کے باوجود مسلمانوں سے پوشیدہ رکھنے میں ہی عافیت سمجھی جاتی ہے؟؟؟
آئیے آج ہم آپ کا تعارف ان شیطانی آیات سے کراتے ہیں، جن کا ذکر ڈھونڈنے سے آپ کو ہر قابل ذکر تفسیر میں بآسانی مل جائے گا۔ ان آیات سے متعلق شان نزول تفاسیر میں کچھ یوں مذکور ہے کہ:
حضرت عبداللہ بن عباس اور محمد بن کعب القرظی سے روایت ہے کہ رسول اللہ قریش کی اسلام سے بے رغبتی پر انتہائی افسردہ وغمگین تھے، اور قریش کے جانب سے دعوت اسلام کو پزیرائی حاصل نہ ہونے پر سخت مایوس تھے، ان کے دل میں شدت میں سے یہ چاہت تھی کہ اللہ کی جانب سے کوئی ایسا کلام نازل ہو جو موحدین اور مشرکین کے درمیان دوری کو قربت میں تبدیل کردے۔ ایک مرتبہ پیغمبر اسلام بیت اللہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر اللہ کی جانب سے وحی کا نزول شروع ہو اور آپ نے سورة النجم کی قراءت شروع کی اور جب ان آیات تک پہنچے افراٴیتم اللات و العزیٰ و مناة الثالثة الاخریٰتو شیطان نے آپ صلعم کی زبان سے یہ الفاظ جاری کرا دئیےتلک الغرانیق العلیٰ و ان شفاعتھن لترتجی﴿یعنی یہ لات اور منات بہت بلند پایہ کے بت ہیں اور یقیناً ان کی شفاعت بھی اللہ کے ہاں قبول کی جائے گی﴾ مشرکین آپ کی زبان سے اپنے معبودین کے لئے یہ الفاظ سن کر انتہائی مسرور ہوئے پیغمبر اسلام نے اپنی تلاوت مکمل کرنے کے بعد سجدہ تلاوت کیا تو اس مجلس میں موجود تمام مشرکین بھی سجدہ ریز ہو گئے اور بیت اللہ میں موجود کوئی بھی مومن اور مشرک ایسا نہ بچا جو سجدہ ریز نہ ہوا ہو۔ اس مجلس میں موجود ولید بن مغیرہ اور ابواحیحہ سعید بن العاص جو دونوں انتہائی ضعیف تھے اور سجدہ کرنے پر قادر نہ تھے اس لئے دونوں نے زمین سےمشت بھر مٹی اٹھا کر پیشانی سےتک لے گئے اور اس پر سجدہ کیا۔ اس کے بعد مجلس برخاست ہوئی اور قریش کے لوگ بے حد خوش ہوئے کہ آج محمد نے پہلی دفعہ قریش کے معبودین کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا اور انہوں نے کہا کہ آج ہمیں معلوم ہوگیا کہ اللہ ہی زندگی اور موت دیتا ہے وہی رزق دیتا ہے اور تخلیق کرتا ہے اور ہمارے یہ معبود یعنی لات و منات اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے، پس اگر محمد ہمارے معبودوں کو ایسے بہتر الفاظ کے ساتھ یاد کرے گا تو ہم بھی اس کے ساتھ ہیں۔ پھر شام کو جبرائیل پیغمبر محمد کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد آج تم نے کیا کیا؟ آج تم نے قریش کے سامنے وہ کلام تلاوت کیا جوتم پر اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوا تھا، یہ سن کر تو محمد بے حد غمگین ہوگئے اور ان پر خشیت الہٰی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ تو اللہ کو محمد پر رحم آیا اور محمد کی تسلی کیلئے یہ آیت نازل کی۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّـهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: اور ہم نے آپ سے قبل بھی جتنے رسول اور پیغمبر بھیجے ان میں سے ہر ایک ﴿کے ساتھ یہ واقعہ ضرور پیش آیا کہ﴾ جب انہوں نے ﴿اللہ کے کلام کو﴾ پڑھا تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں اپنی جانب سے الفاظ شامل کر دیئے، پھر اللہ شیطان کےشامل کئے ہوئے الفاظ کوتو ختم کر دیتا ہے اور آپنی آیات کوبرقرار رکھتا ہے اور اللہ تو بہت ہی خبر رکھنے والا اور سیانا ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا محمد ہمارے معبودوں کا اچھے الفاط میں تذکرہ کرنے پر شرمندہ ہے اس لئے اس نے اپنا کلام بدل لیا۔﴿بحوالہ تفسیر بغوی در تفسیر سورة الحج آیت نمبر ۵۲﴾
قارئین کرام میں نے حتی المقدور کوشش کی ہے تفسیر بغوی میں یہ واقعہ جس طرح مذکور ہے اس کی اصل روح کو برقرار رکھتے ہوئے صرف اردو کے قالب میں ڈھال کر آپ حضرات کی خدمت میں پیش کردوں، آپ حضرات یہ پوری تفصیل مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ فرما سکتے ہیں کہ اللہ اپنے رسولوں اور انبیاء کی غلطیوں کی کیسے پردہ داری کرتا ہے۔ اور شیطان کو اللہ نے کس قدر بااختیار کردار سونپا ہوا ہے کہ پہلے تو شیطان اللہ کے عطا کردہ اختیار کی بدولت رسولوں اور انبیاء پر بھی اتنا تصرف اور اختیار رکھتا ہے کہ ان پر نازل ہونے والے اللہ کے کلام میں تصرف پر بھی قادر ہے۔ اورنہ صرف تصرف پر قدرت بلکہ اگر شیطان چاہے تو وہ اللہ کے کلام میں شرک کی ملاوٹ کرکے رسول کی زبان سے ملاوٹی کلام بھی ادا کروا سکتا ہے۔
تقریبا تمام مشہور اور متقدمین کی تفاسیر میں اس واقعہ پر طویل مباحث قائم کئے گئے ہیں، تفسیر بغوی، تفسیر جلالین، احکام القرآن لابن العربی، تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر، سمیت تمام قابل ذکر مفسرین نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد علم حدیث کی بنیاد پر اس واقعہ کی صحت پر شکوک و شبہات کا اظہار ضرور کیا ہے۔مگر کلیتاً کسی نے بھی رد نہیں کیا۔ یہاں یہ نقطہ ضرور ذہن میں رکھیں کہ قرآن کے ذومعنی الفاظ اور علم حدیث میں راویوں کی جرح و تعدیل کی آڑ میں مسلمانوں نے اپنے لئے نہایت گنجائش بنا رکھی ہے، کہ جہاں لاجواب ہو جائیں وہاں قرآن کے غیر صریح الفاظ اور راویوں کی جرح و تعدیل کی چھتری تلے پناہ لے لیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اس واقعہ کہ بعینہ ایسے ہی کیوں نہ سمجھیں جیسا کہ مفسرین نے اس کو بیان کیا ہے، جس کے نتیجے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تو انتہائی حکیم ہے اور اس کا کوئی اقدام حکمت بالغہ سے خالی نہیں ہوتا، تو آخر اس امر میں اللہ کی کیا حکمتِ خاص پوشیدہ ہے کہ نہ صرف سید الانبیاء و المرسلین حضرت محمد بلکہ ان سے قبل گذرنے والے تمام انبیاء اور رسولوں پر شیطان کو اس قدر اختیار عطا فرما دیا کہ اللہ کے ان خاص الخاص بندوں کے کلام میں تصرف کرکے لوگوں تک شیطانی پیغام یا شیطانی آیات کی رسائی کو ممکن بنا دیا، پہلے تو یہ انتہائی ناقابل فہم اور مکروہ عمل انجام دینے کا شیطان کو پورا پورا موقع فراہم کیا جاتا ہےاور پھر واردات کی تکمیل کے بعد اللہ سرگرم عمل ہوتا ہے، اور شیطان کے پھیلائے ہوئے گند کو صاف کرنے میں جُت جاتا ہے اور اس گندگی کی صفائی کے بعد اللہ اعلان کرتا ہے کہ لوگو دیکھو میری قدرت اور حکمت کہ میں شیطان کے پھیلائے ہوئے گند کو بھی صاف کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہوں، ﴿بندہ پوچھے تم نے گند پھیلانے کا موقع ہی کیوں فراہم کیا؟﴾ کیا اب بھی تمہیں میری قدرت اور طاقت پر شک ہے؟ اور تم میری کون کون سی صلاحیتوں سے انکار کرو گے؟ سبحان ربک رب العزة عما تصفون و “سلام” علی المرسلین۔
سورة الحج کی یہ آیت سورة النجم کی ہی ان ا بتدائی آیات و ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحیسے قطعی طور پر متصادم ہے،سورة النجم کی ان آیات میں کہا جا رہا ہےنبی کی زبان سے سوائے وحی الہٰی کے کوئی اور الفاظ ادا نہیں ہوتے۔ اور سورة الحج کی آیات میں نبی کی صفائی بیان ہورہی ہے کہ اگرشیطانی تصرف سے آپ کی زبان پر اصنام قریش کی تعریف میں بطور وحی کچھ الفاظ ادا ہوگئے ہیں تو فکر اور پریشانی کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اللہ نے شیطان کو ایسا اختیار و طاقت صرف آپ پر نہیں بلکہ آپ سے پہلے آنے والے تمام انبیاء اور رسولوں پر بھی عطا فرمایا تھا۔ کیا اولاً ایسی طاقت اور اختیار شیطان کو عطا کرنا اور پھرجب شیطان اپنی شیطانی کرجائے تو پھرشیطانی اثرات کو ختم کرنے کی محنت پر لگ جانا کسی حکمت کی نشاندہی کرتا ہے؟
ان آیات کے شان نزول کے واقعہ کی تفصیل میں خود مفسرین نے بیان کیا کہ جب پیغمبر اسلام بیت اللہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اسی دوران وحی کا نزول شروع ہوا، ﴿یقیناً یہ وحی خود جبرئیل لے کر آئے ہوں گے﴾ اور پیغمبر نے سورة النجم کی تلاوت شروع کی، اور اسی دوران شیطان نے آپ کی زبان سے وہ الفاظ ادا کرا دئیے جن کو شیطانی آیات کہا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ جبرائیل بھی تو اس وقت وہاں موجود تھے، انہوں نے اسی وقت پیغمبر کو تنبیہ کیوں نہ کی، اور پیغمبر کی غلطی کی اصلاح کیلئے شام تک کا انتظار کیوں کیا ؟
آخر کیا وجہ ہے مفسرین کرام تو ایسے واقعات اپنی تفاسیر میں درج کرکے داد و تحسین کے مستحق قرار پائیں اور انہی واقعات کو جب سر سلمان رشدی اپنی کتاب شیطانی آیات میں،لالہ چمپت رائے عرف چموپتی اپنے کتابچہ رنگیلا رسول میں اورحالیہ دنوں میں عیسائی عقیدے سےتعلق رکھنے والے نکولا باسیلی عرف سام باسل نامی شخص دی انوسینس آف مسلمز نامی فلم کی شکل میں دنیا کے سامنے لاتے ہیں تو قابل گردن زنی قرار پاتے ہیں، آخر وہ مفسرین جنہوں نے اپنی بڑی بڑی مقدس تفاسیر میں بڑے مزے لے لے کر یہ قصے اور واقعات بیان کئے اور اپنی تفاسیر کی ضخامت اور اپنے علمی مرتبے بلند کئے وہ قابل گردن زنی قرار کیوں نہیں پائے؟؟؟ یہ کیا معیار ہے وہی قصہ سر سلمان رشدی بیان کرے تو شیطان رشدی جیسے مکروہ لقب سے پکارا جائے، اورتفسیر بغوی، تفسیر جلالین، احکام القرآن لابن العربی، تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر کے مصنفین بیان کریں تو ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائےجائیں۔ میں مسلمان علماء سے سوال کرتا ہوں کہ ان کی خودساختہ قیامت کے دن کس معیار پر سر سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین، پنڈت چموپتی، ایان حرسی، مریم نمازی، ابن وراق۔ شیخ ذکی امین، شیخ عبد اللہ القصیمی، تو جہنم رسید ہوں گے اور علامہ بغوی اپنے دیگر ساتھیوں کےساتھ جنت کےمستحق قرار پائے جائیں گے؟، ہمیں تمہارے پروردگار کے اس بھونڈے انصاف اور دہرے معیار کے برخلاف جہنم منظور ہے، انسانیت کی تذلیل اور تحقیر نا منظور
آخر کیا وجہ ہے کہ قرون اولیٰ کے مفسرین تو سورة الحج کی اس آیت کو واقعہ غرانیق سے منسلک کرتے ہیں اور عہد جدید کے مفسرین ان کی تردید کرتے نظر آتے ہیں؟ ہم کس معیار پر متقدمین کی تفسیر کو غلط اور متاخرین کی تفسیر کو صحیح قرار دیں؟ حالانکہ علم حدیث میں ہمیشہ علماء متقدمین کو علماء متاخرین پر ترجیح دی جاتی ہے، یہاں اس معیار کی قربانی کیوں دی جاتی ہے؟
اگر ہم متاخرین کی تفسیر کی روشنی میں بھی سورة الحج کی آیت کا مطالعہ کریں تو اس آیت سے ہمیں آخر کار کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟؟؟ کس بات کی صفائی بیان کی جا رہی ہے؟ آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کی جارہی ہے۔
GREAT WORK
JANAB GREAT WORK
جناب! اس واقعے کو سب جانتے ہیں مگر مجرمانہ خاموشی اور دہرا معیار انہونے اپنے رب غفور سے سیکھا ہے.
چائے کی ہوٹل پر باہر کا کام کرنے والے غفور اور اس رب غفور سے میں کنفیوز ہوگیا تھا۔
کوئی شیطان کا عمل دخل نہیں ہے ، یہاں محمد کے دل میں آیا کہ کسی طرح سبکو بیوقوف بنایا جائے اور شیطان اور اور اللہ کے چکر میں بحث و مباحثہ شروع کرواکر لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا جائےکہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی ہیں یعنی اپنی طرف سے توجہ ہٹانے کا کام کیا تھا اور کچھ نہیں
محترم نابغہ روزگار صاحب اگر یہ سب خرافات ہیں تو قرآنِ کریم پر سوال کیوں نہیں اُٹھاتے۔ آپ کی عقل اُن کو باطل ثابت کرنے سے کیوں گریزاں ھے۔ درحقیقت آپ کی عقل اس قابل ہی نہیں کہ اُس کتاب کے حقانیت پر کوئی سوال کر سکے؟
ہر دام ابلیس کو عقل لامتناء سمجھتے ہیں
وہ چارہ گر کہاں ھے جو درد کی دوا کرے
عروج
جناب آصف بھٹی صاحب یہاں اور کیا ہو رہا ہے قرآن کی نام نہاد حقانیت پر سوالات ہی تو اٹھائے جارہے ہیں اور ان سوالات میں اتنا دم ہے کہ آج تک کوئی انکا جواب نہیں سکا ہے اور نہ ہی دے سکے گا اسکی وجہ صاف ہے قرآن ایک انسان کی لکھی ہوئی کتاب ہے اور ظاہر ہے اسمیں انسانی غلطیاں بھی ہیں۔
۔۔۔قرآن کی نام نہاد حقانیت کو چیلنج کرنا زیادہ نافع ہو اگر اس کے مندرجات کو صریحا رد کرکے اس کی اصلیت آشکار کرنے کے پہلو پر کام کیا جائے۔ جس سلسلے کا سب پہلا کام جبریل کی نفی اور اللہ کی طرف سے انسانوں کی طرف پیغام رسانی کو منطقی اعتبار سے ناممکن اور مہمل قرار دے کر لفظ بہ لفظ محمد کے خیالات و نظریات کو ایک باقاعدہ منصوبہ کے تحت تیار کردہ حکمت عملی باور کرایا جائے اور تمام کوشش اس بات پر کی جائے کہ اگر مذہب ناگزیر ہےتو وہ کیوں نہ علی اعلان انسان کا تیار کردہ ہو جس کے لیے مثال کے طور پر مناسب ترامیم اور اضافوں کے بعد یو این او کا انسانی حقوق کا چارٹر پیش کیا جاسکتا ہے جس میں حسب ضرورت ردو بدل کی گنجائش بھی رکھی جاسکتی ہے.
باسمِ ربی۔ محترم نابغہ روزگار صاحب میں تو آپ سب کو بااصول اور بالغ سمجھ کر گفتگو کرنا چاھتا ھوں۔ مگر آپ کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ آپ کیا کر رھے ہیں۔ جناب آپ قرآن کی آیت ضرور کوڈ کر رھے ہیں مگر اس کو الف لیلوی کہانی بنا کر۔ حالانکہ آپ سب کو یہ بہت اچھی طرح معلوم ھے کہ دینِ اسلام صرف قرآنِ کریم کے اندر ھے۔ مگر میرے محترم قرآن کریم کی آیت کو پیش کرنا ہی ھے تو اُس کے چیلنجز کا جواب دو۔ وہ کہتا ھے کہ اُس میں کوئی تضاد نہیں۔ یعنی اُس کے قوانین کسی دوسرے قانون کے آرے نہیں آتے۔ آپ ایسے قوانین کو پیش کریں جو اُس کے دیگر قوانین کے آرے آتے ہیں۔ یقیناً یہ آپ کے لئے جوئے شیر لانے کے برابر ھو گا۔ آپ دنیا انسانیت کی کسی بھی حکومت کے قوانین کا اس طرح متناسب ھونا ہی ثابت کر دیجئیے۔ آپ کو کتاب اللہ کی صداقت کا اور انسانی کاوش کی کمیابی کا احساس خود بخود ہی ھو جائے گا۔
This article is rubbish. I think the author has studied what we call the "Islamic history” much like "Sir” Salman Rushdi has, but he has not studied the Qur’an with deep reflection. None of the verses quoted refer to any inclusion or recitation of Satanic verses. The verse 22:51 is clear. It asserts that even the prophets are attempted for misguidance by the Satan–but that ‘s just an attempt on them. These Satanic attempts are never successful. Prophet s are under the direct protection of the Devine. If they make a mistake, it gets corrected by God right away. That’s what the verse 22:15 is saying. To read more is into it is following elusive shadows that have no substance.
سب سے پہلے تو شکریہ کہ اس تحریر کی بدولت پھر سورۃ نجم کے مطالعہ کی ضروت پڑی اور مطالعہ کیا۔ انہوں نے ترجمہ غلط کیا ہے اگر اگلی آیت پڑھیں جس میں کہا گیا ہے کہ تمہارے لئے لڑکے اور اللہ کے لئے لڑکیاں اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ لات منات کا یہاں اکرام نہیں۔ یہ عربی زبان کی خوبی ہے کہ استفہام میں انکار یا تردید بیان کی جاتی ہے۔ مثلاً کیا ضرورت ہے کا مطلب کوئی ضرورت نہیں ہو گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صاحب تحریر نے بڑی عرق ریزی سے اور دجل سے کام لیتے ہوئے اسلام دشمنی کو عقل کی اوڑ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ایک آڈیو چھوڑی ہے جس میں جنت کا تصوّر اسلام کا سیکس کی حدود میں مقیّد کر کے بتایا ہے۔ بظاہر ترتیب مضمون سے یہی بات ظاہر کی گئی ہے لیکن اصل اور اہم باتوں کی طرف بالکل توجہ نہیں کی۔ جناب رشدی کی تحقیقی مدد کرنے والے اس طبقہ کی ساری کوشش اسلام سے بدگمان کرنے پر منحصر ہے۔ لیکن یہ دجالی چال سے بچنے کا سامان اللہ نے کر رکھا ہے۔ ان کا فریب ان کو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔
صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں ہوتا کہ ترجمہ درست نہیں کیا گیا ہے، آپ کو چاہئے تھا کہ جو درست ترجمہ ہے اسے درج کرتے، لڑکے لڑکیوں کی بات میں لات و منات اور عزیٰ کی بے اکرامی کی کوئی بات ہی نہیں ہے، صرف اس تقسیم کو برا کہا گیا ہے جس میں اپنے لئے لڑکے اور اللہ کے لئے لڑکیاں تجویز کی گئی ہیں۔ مضمون میں صاحب مضمون نے اپنی جانب سے کوئی بات ذکر نہہیں کی ہے، باحوالہ مسلمان علماء کی تفاسیر کا ذکر کیا ہے، کچھ لب کشائی ان مفسرین کے بارے میں بھی تو کیجئے، کہ آپ کی ان اکابر مسلمان مفسرین کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ جب تک اسلامی لٹریچر میں اس طرح کی خرافات موجود رہیں گی، ہمیں کسی کو اسلام سے بدگمان کرنے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے، ہم تو صرف اسلامی لٹریچر میں سے ایسی خرافات نکال کر نوشتہ دیوار بناتے رہیں گے۔
alama sahib, really interesting
نا بغہ روز گار صاحب! آپ کے نزدیک کسی بات ، واقعہ، یا کتاب کے صیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنے کا کیا معیار ہے؟ آپ اس معیا ر کو واضح کرٰیں تا کہ صیح یا غلط کا اندازہ ہو سکے۔ شکریہ
ترجمہ
اور ہم نے تم سے پہلے جو رسول اور نبی بھی بھیجا تو جب بھی اس نے کوئی ارمان کیا تو شیطان نے اس کی راہ میں اڑنگے ڈالے۔ پس اللہ مٹا دیتا ہے شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسوں کو، پھر اللہ اپنی باتوں کو قرار بخشتا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔
الفاظ کی تحقیق اور آیت کی وضاحت
’تمنّٰی‘ کا لغوی مفہوم: ’تمنٰی‘ کا اصل لغوی مفہوم، صاحب اقرب الموارد کی تصریح کے مطابق یہ ہے۔ تطلق عند اھل العربیۃ علی طلب حصول الشئ علی سبیل المحبۃ وعلی الکلام الدال علی ھذا الطلب(عربی زبان کے ماہرین کے نزدیک یہ لفظ کسی شے کے بطریق محبت حصول کی طلب کے لیے بولا جاتا ہے اور اسی طرح اس کلام پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے جو اس طلب پر دال ہو) میں نے اس قول کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ میرے نزدیک کلام عرب کی روشنی میں، اس لفظ کا صحیح مفہوم یہی ہے۔ قرآن میں اس کے مختلف صیغے سات آٹھ مقامات میں استعمال ہوئے ہیں۔ اس کے بعد اسی مادے سے ’امنیۃ‘ کا لفظ بھی جمع اور واحد کی مختلف صورتوں میں، سات آٹھ جگہ آیا ہے۔ ہر جگہ، ہر شکل میں، حوصلہ کرنا، یا کسی مقصد کے لیے اپیل یا اتمالت کرنا۔ اسی طرح ’امنیۃ‘ کے معنی خواہش، ارمان، تمنا، حوصلہ اور اپیل کے ہوں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس لفظ کے اندر بعض لوگوں نے قراء ت کرنے کے معنی کہاں سے گھسا دیے ہیں۔ مجھے اس معنی میں یہ لفظ، کلام عرب میں کہیں نہیں ملا حالانکہ یہ عربی زبان کے کثیر الاستعمال الفاظ میں سے ہے۔ بعض مفسرین نے اس مفہوم کی تائید میں ایک شعر نقل کیا ہے لیکن اول توایک کثیر الاستعمال لفظ کو، اس کے معروف مفہوم سے ہٹانے کے لیے، ایک غیر معروف شعر کی سند کی وقعت کیا ہے۔ پھر وہ شعر بھی ہمارے نزدیک منحول ہے اور ہم اس کا منحول ہونا ثابت کر سکتے ہیں لیکن ایک غیر مفید بحث کو طول دینے سے کیا حاصل؟ اس بات کی بھی ہمارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے کہ صاحب لسان نے لفظ کے اس مفہوم کا بھی حوالہ دیا ہے۔ صاحب لسان کی ساری خوبیوں کے اعتراف کے باوجود، ان کی اس خامی کی طرف مقدمۂ تفسیر میں ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ بسااوقات وہ کسی لفظ کے تحت اہل تاویل کے بے سند اقوال بھی نقل کر دیتے ہیں اور چونکہ اس لغت کا بڑا پایہ ہے اس سے جو لوگ لغت کے نقادوں میں سے نہیں ہیں وہ اس طرح کے اقوال کو لے اڑتے ہیں حالانکہ اس اقوال کی، جب تک زبان کے استعمالات سے تائید نہ ہو، کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بہرحال ہمارے نزدیک اس لفظ کے اندر قراء ت یا تلاوت کے معنی کے لیے کوئی ادنیٰ گنجائش بھی نہیں ہے۔
اب آیت کے مفہوم اور اس کے اجزاء پر غور کیجیے۔
آیت ۵۲ کا صحیح مفہوم: اوپر والی آیت میں معاندین کی جس سعی فی المعاجزۃ کا ذکر ہے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو تمہی کو پیش آئی ہو۔ تم سے پہلے جتنے رسول اور نبی بھی آئے سب کو اسی طرح کے حالات سے سابقہ پیش آیا۔ جب بھی کسی نبی نے لوگوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے کوئی قدم اٹھایا، کوئی حوصلہ کیا، کوئی دعوت دی اور خلق کو سکھانے، سدھارنے، بلانے اور پرچانے کی کوشش کی تو اشرار و مفسدین نے اسی طرح اس کے حوصلے کی راہ میں اڑنگے ڈالے اور اس کی آواز کو دبانے اور اس کی تعلیم و دعوت کو شکست دینے کی کوشش کی۔ یہ امر ملحوظ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی دعوت و اصلاح کے ارادے سے اٹھتے تو ابولہب و ابوجہل وغیرہ آپؐ کی تردید کے لیے سایہ کی طرح ساتھ ساتھ پھرتے۔
یہاں ہدایت و اصلاح کی راہ میں نبی کے اقدام کو تمنّی اور اس کی سعی و جہد کو ’امنیۃ‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ’امنیۃ‘ کے معنی آرزو، حوصلہ اور ارمان کے ہیں۔ ان الفاظ کے استعمال سے مقصود اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کی تمنا اور آرزو تو شب و روز یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اللہ کی ہدایت اور اس کی باتیں (آیات) اتارنے کی کوئی راہ کھلے اور وہ یہ راہ کھولنے کے لیے طرح طرح کے جتن کرتا رہتا ہے لیکن شیاطین ہر وقت یہ راہ مارنے کے لیے گھات میں رہتے ہیں اور جہاں ان کو نبی کی کوئی بات بنتی نظر آئی فوراً اس کے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے شروع کر دیتے ہیں۔ یہ امر یاد رکھیے کہ شیاطین اس وقت تو میٹھی نیند سوتے رہتے ہین جب تک وہ دیکھتے ہیں کہ کسی طرف سے کلمۂ حق کی صدا نہیں آرہی ہے لیکن جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی دعوت حق بلند ہوئی تو ان کو اپنا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگتا ہے اور پھر وہ اس کی مخالفت کے لیے اپنے تمام حربوں سے مسلح ہو کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
نبی اور رسول کے فرق پر ہم آل عمران ۴۹ کے تحت وضاحت کر چکے ہیں۔ یہاں ان دونوں لفظوں کے ذکر سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اس آزمائش سے کوئی نبی یا رسول بھی نہیں بچا ہے۔ یہ آزمائش انبیاء و رسل کے لیے اللہ کی ایک سنت ہے جوسب کو پیش آچکی ہے۔
لفظ ’شیطان‘ یہاں بطور اسم جنس ہے اور اس سے مراد شیاطین جن و انس دونوں ہیں۔ یعنی دونوں گٹھ جوڑ کر کے نبی کو شکست دینے کے لیے ایک متحدہ محاذ بنا لیتے ہیں۔
شیاطین کی فتنہ انگیزیاں: ’اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْٓ اُمْنِیَّتِہٖ‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ نبی کے کام و اقدام اور اس کے ارادوں اور منصوبوں میں طرح طرح سے رخنہ اندازیاں کرتے اور قسم قسم کے اعتراضوں، طعنوں، شگوفہ بازیوں سے اس کے کلام و پیغام کے اثر کو مٹانے کے درپے ہوتے ہیں۔
’فَیَنْسَخُ اللّٰہُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْکِمَُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ‘۔ ’نسخ‘ کے معنی، جیسا کہ آیت نسخ کے تحت وضاحت ہو چکی ہے، مٹانے کے ہیں اور ’اِحکام‘ کے معنی پابرجا اور مستحکم کرنے کے ۔ مطلب یہ ہے کہ انبیاء و رسل کو یہ آزمائش اللہ تعالیٰ کی سنت کے تحت پیش آتی ہے اور اس کا فائدہ، جیسا کہ آگے وضاحت آرہی ہے، دعوت حق کو پہنچتا ہے۔ حق و باطل کے اس تصادم کا نتیجہ بالآخر یہ ہو تا ہے کہ اللہ شیاطین کے اٹھائے ہوئے فتنوں کو تو جھاگ کی طرح بٹھا دیتا ہے اور اپنی اور اپنے رسول کی باتوں کو دلوں میں رسوک و استحکام بخشتا ہے۔
’وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘۔ یہ تسلی کے مضمون کو اللہ تعالیٰ کی صفات کے حوالہ سے مزید مؤکد ومدلل کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق و باطل میں یہ کشمکش کراتا ہے اور اپنے نبیوں کی دعوت کے مقابلہ میں شیاطین کو بھی زور آزمائی و فتنہ انگیزی کا موقع جو دیتا ہے تو یہ سب کچھ اس کے علم و حکمت پر مبنی ہے۔ اس وجہ سے نبی کو اللہ کے علم اور اس کی حکمت پر بھروسہ رکھنا چاہیے کہ جو کچھ پیش آئے گا وہ اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت پر مبنی ہو گا اور اس کا نتیجہ اس کی دعوت کے حق میں بہتر ہی نکلے گا۔
بعینہٖ یہی مضمون بتغیر الفاظ قرآن کے دوسرے مقامات میں بھی بیان ہوا ہے۔ بعض نظائر ملاحظہ ہوں سورۂ انعام میں ارشاد ہوتا ہے:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًاط وَلَوْشَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْھُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَo وَلِتَصْغٰٓی اِلَیْہِ اَفْءِدَۃُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ وَلِیَرْضَوْہُ وَلِیَقْتَرِفُوْا مَا ھُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ (الانعام: ۱۱۳۔۱۱۴) اور اسی طرح ہم نے انسانوں اور جنوں کے شیاطین کو ہر نبی کا دشمن بنایا۔ وہ ایک دوسرے کو ملمع کی ہوئی باتیں خلق کی فریب دہی کے لیے القا کرتے ہیں اور اگر تیرا رب چاہتا تو وہ یہ نہ کرپاتے تو ان کو اور ان کی اس ساری فریب کاری کو نظر انداز کرو۔ اللہ نے اس کا موقع اس لیے دے رکھا ہے کہ اس سے اہل ایمان کا ایمان محکم ہو اور تاکہ اس فتنہ کی طرف ان لوگوں کے دل جھکیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور تاکہ وہ اس کو پسند کریں اور تاکہ جو کمائی ی کرنی چاہتے ہیں کر لیں۔
ان آیات سے سورۂ حج کی زیربحث آیت کی پوری وضاحت ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر ’یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا‘ کے الفاظ نگاہ میں رہیں۔ یہ بعینہٖ وہی بات ہے جو آیت زیربحث میں ’اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْٓ اُمْنِیَّتِہٖ‘ کے الفاظ سے تعبیر فرمائی گئی ہے۔
اسی طرح سورۂ فرقان میں ہے:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ ط وَکَفٰی بِرَبِّکَ ھَادِیًا وَّنَصِیْرًاo وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنَُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃًج کَذٰلِکَ ج لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًاo وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِءْنٰکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا (فرقان: ۳۱۔۳۳)
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے مجرموں میں سے دشمن بنائے اور اطمینان رکھو، تمھارا رب رہنمائی اور مدد کے لیے کافی ہے۔ اور یہ کافر اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اس شخص پر یہ قرآن آخر بیک دفعہ کیوں نہیں نازل کر دیا گیا! ہم نے ایسا اس لیے کیا کہ اس بارگراں کے لیے تمھارے دل کو اس کے ذریعہ سے اچھی طرح مضبوط کر دیں اور ہم نے اس کو اہتمام کے ساتھ بالتدریج اتارا۔ اور یہ جو شگوفہ بھی چھوڑیں گے تو ہم اس کے جواب میں حق کو واضح اور اس کی بہترین توجیہ کریں گے۔
اس آیت میں اس القائے شیطانی کی ایک مثال بھی پیش کر دی گئی ہے کہ اللہ کا رسول جب لوگوں کے سامنے اللہ کا کلام پیش کرتا ہے تو یہ معاندین، رسول کو مطعون کرنے کے لیے یہ شگوفہ چھوڑتے ہیں کہ اگر یہ اللہ کے رسول ہیں تو یہ پورا قرآن بیک دفعہ کیوں نہیں پیش کر دیتے! آخر اللہ کے لیے یہ کیا مشکل ہے! مطلب یہ ہے کہ جب یہ ایسا نہیں کر رہے ہیں تو اس کے معنی (نعوذ باللہ) یہ ہیں کہ یہ خود اس کلام کو گھڑتے ہیں اور جتنا گھڑ پاتے ہیں اتنا سنا دیتے اور دھونس جمانے کے لیے جھوٹ موٹ اس کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
القائے شیطان کی بے بنیاد روایت: اس آیت کی توضیح میں ہم نے س قدر تفصیل سے صرف اس لیے کام لیا ہے کہ کسی کے ذہن میں کوئی خلجان باقی نہ رہ جائے۔ اس توضیح کے بعد اس فضول سی روایت کی تردید کی ضرورت باقی نہیں رہی ہمارے مفسرین نے، اللہ ان کو معاف کرے، اپنی کتابوں میں اس آیت کے شان نزول کی حیثیت سے درج کر دی ہے۔ اول تو یہ آیت، جیسا کہ آپ نے دیکھا، کسی شان نزول کی محتاج نہیں ہے بلکہ اپنے مفہوم و مدعا میں بالکل واضح اور اپنے سابق و لاحق سے بالکل مربوط ہے۔ پھر ستم یہ ہے کہ جو روایت یہ حضرات نقل کرتے ہیں نہ اس کا روایت کے اعتبار سے کوئی وزن ہے نہ درایت کے پہلوسے بلکہ وہ محض زنادقہ کا ایک القائے شیطانی ہے جو انھوں نے حضرات انبیاء علیہم السلام کو مجروح کرنے کے لیے گھڑا اور حضرات مفسرین اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے اس کو اپنی کتابوں میں نقل کرتے آ رہے ہیں.
Amin Ahsan Islahi Commentary
http://www.javedahmadghamidi.com/index.php/quran/surah/surah_022/102/P30
Ye Bhi aik Nuata_e_Nazar he isko b read kre.
Shukriya
محترمی جناب عمیر احمد ہکڑو صاحب !
آپ کو بمعہ آپ کے تبصروں کے خوش آمدید کہتے ہیں۔
آپ نے بحیثیت ایک مسلمان اپنے طور پر شیطانی آیات کے حوالے سے ان آیات کو وضاحت کی جو کوشش ہے میں اس کوشش کو سراہتا ہوں، مجھے اپنا وہ وقت بہت اچھی طرح یاد ہے جب میں بھی ٰمسلماںً ہوا کرتا تھا۔
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ میں نے یہ پوسٹ کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت نہیں لکھی تھی، جرات تحقیق کے محترم قاری خیام صاحب نے اپنے تبصرے میں لکھا تھا کہ کبھی شیطانی آیات کے بارے میں کچھ لکھیں، تو اسی وقت سے ذہن میں تھا کہ اس بارے میں جراتِ تحقیق کے قارئین کیلئے ایک تحریر لکھوں گا۔ آج انٹرنیٹ کا دور ہے میری تحریر کوئی نیا انکشاف نہیں تھا، اب تقریباً مسلمانوں کو اس بارے میں آگہی حاصل ہے، اگرچہ یہ آگہی انٹرنیٹ کی مرہون منت ہے، ورنہ علماء دین اس موضوع پر عموماً بات کرنے سے کتراتے ہیں۔
آپ میری تحریر کو دوبارہ غور سے ملاحظہ فرمائیں، میں نے تحریر کے آخر میں کچھ سوالات اٹھائے ہیں، بنیادی طور پر اس تحریر کا اصل مقصد یہی سوالات تھے، خصوصا وہ سوال جس میں پوچھا گیاکہ :
1.یہ کیا معیار ہےکہ وہی قصہ سر سلمان رشدی بیان کرے تو شیطان رشدی جیسے مکروہ لقب سے پکارا جائے، ﴿اور واجب القتل قرار پائیں﴾ اورتفسیر بغوی، تفسیر جلالین، احکام القرآن لابن العربی، تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر کے مصنفین بیان کریں تو ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائےجائیں۔
2. اور آخر کیا وجہ ہے کہ قرون اولیٰ کے مفسرین تو سورة الحج کی اس آیت کو واقعہ غرانیق سے منسلک کرتے ہیں اور عہد جدید کے مفسرین ان کی تردید کرتے نظر آتے ہیں؟ ہم کس معیار پر متقدمین کی تفسیر کو غلط اور متاخرین کی تفسیر کو صحیح قرار دیں؟ حالانکہ علم حدیث میں ہمیشہ علماء متقدمین کو علماء متاخرین پر ترجیح دی جاتی ہے، یہاں اس معیار کی قربانی کیوں دی جاتی ہے؟
اگر آپ ان دو سوالوں کے حوالے سے ہماری رہنمائی فرما سکیں تو ہم آپ کے انتہائی ممنون ہوں گے۔
نیز آپ کےحاشیہٴ خیال میں کوئی ایسی بات ہے کہ میں نے یہ تحریر آپ کی پیسٹ کردہ تفسیر پڑھے بغیر ہی لکھ دی ہے تو ایسا ہر گز نہیں ہے۔
باسمِ ربی۔ محترم علامہ ایاز نظامی صاحب آپ کے سوالات واقعی قابلِ غور و فکر ہیں۔ جو تحاریر نام نہاد اہلِ مسالک مسلمانوں کے پاس موجود ہیں۔ اگر اُن کو کوئی بھی پیش کرے تو اُس پر ان نام نہاد مسلمانوں کو شرم آنی چاھئیے۔ میں اہلِ مسالک مسلمانوں کو نام نہاد اسی لئے کہتا ھوں کہ وہ سب قرآنِ کریم کی اعلٰی تعلیمات کے خلاف غیر قرآنی تعلیمات باطلہ کو دینِ اسلام سمجھتے ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ھے۔ دینِ اسلام صرف اور صرف قرآنِ کریم میں ھے۔ اس کے باہر سب انسانی کاوشیں ہیں۔ جس نے جس طرح سمجھا اُسی طرح بیان کر دیا۔ جو سہو و خطا سے منزہ نہیں ہیں۔ یہ فکر بھی غیر قرآنی ھے کہ سلیمان رشدی کو قتل کرنا چاھئِے۔ بلکہ اس پر اللہ رب العزت کی ہدایت بھی موجود ھے کہ ایسے لوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیں۔ نتائج اس امر کا اعلان کرینگے کہ کون درست روش کا حامل تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی قابل غور ھے کہ کیا نبی اکرم۴ نے ماسوائے قرآنِ کریم کیا کوئی بھی دوسری کتاب اُمت کو دی؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر کیا وجہ ھے کہ اسلام کو پیش کرنے والے نبی۴ محترم کو اُن کی پیش کردہ کتاب کے زریعہ سمجھا نہ جائے؟ ایسا کیوں ھے کہ اہلِ علم احباب بھی عام لوگوں کی طرح سطحی درجات پر جا کر الزامات تراشتے ہیں۔ کیا کسی کی الزام تراشی سے حقیقت تبدیل ھو سکتی ھے؟ کیا کسی کے الزامات کی وجہ سے سچ چھپ سکتا ھے؟ کیا کسی کے فضول الزامات سے کسی معزز سے اُس کا مقام چھینا جا سکتا ھے؟ جب ایسا کچھ بھی نہیں ھو سکتا۔ تو پھر حق بات کرنے میں آپ احباب کو شرم کیوں لاحق ھے۔ کیا دینِ اسلام کی مخالفت کرنے سے کسی باطل سوچ سے انسانیت کی بھلائی ممکن ھے؟ اگر نہیں تو پھر کیوں نہیں ہم سب اُس راستے کے مسافر نہیں بن جاتے جو حق ھو۔ قرون اولٰی کا اصل ذخیرہ تو موجود نہین ھے۔ جو کچھ ھے وہ فکر مجوس و یہود و نصارا موجود ھے۔ جس کو آج کا معصوم انسان اسلام سمجھ رہا ھے۔ آپ اگر دینِ اسلام کے بارے میں کچھ لکھنا چاھتے ہیں تو شوق سے لکھئِے لیکن اپنی تحریر کو اندازِ مجوس سے بچائیے۔ ہمارے اسلاف کے لئے بھی قرآنِ کریم ہی حجت تھا اور ہمارے لئے بھی واحد کتابِ ہدایت القرآن ہی ھے۔ اس لئے جو سرمایہ علم سازش کا شکار ھو چکا ھے وہ متقدمین کا تھا۔ اب متاخرین جو کچھ پیش کر رھے ہیں یہی حق ھے۔ ثم تتفکرو۔
یہ امر بھی حیران کُن ہے کہ شیطان اتنا مقتدر ہے کہ اللہ تعالی علیٰ کُلِ شئ قدیر اسکو روک نہ سکا کہ وہ خاتم النبین کے منہ سے غلط کلمات ادا نہ کروائے ۔اگر اللہ کا رسول اور خود اللہ شیطان کے آغے اتنے بے بس ہیں تو عام مسلمان اگر شیطان کے بہکاوے میں آجائے تو اسکا محاسبہ کیوں
یہی تو سارا رونا ہے
ایاز نظامی ملعون
( جو سلمان رشدی کیلے لکھا جاتا ہے اپنے آپکو اسکا مستحق سمجھنے میں عار نہین ہونا چاہئے آپکو)1.یہ کیا معیار ہےکہ وہی قصہ سر سلمان رشدی بیان کرے تو شیطان رشدی جیسے مکروہ لقب سے پکارا جائے، ﴿اور واجب القتل قرار پائیں﴾ اورتفسیر بغوی، تفسیر جلالین، احکام القرآن لابن العربی، تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر کے مصنفین بیان کریں تو ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائےجائیں۔-
یہ جو سوال اٹھایا ہے اگر فھم و ادراک ہوتا آپکو تو خود سمجھ جاتے- لیکن خیر کوئی بات نہیں ایک ہی لفط اسکے اسکے استعمال کی وجہ الگ الگ کیفیات دیتا ہے یا تاثر – سلمان رشدی ملعون نے اتنا ہی نہین کیا کہ غرانیق کے واقعہ کے بارے میں وہی لکھا جو مسلمان مفسرین نے لکھا اس نے اس بات کو بنیاد بنا کر اور باتون پر جرح کی اور سارے معاملہ رسالت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تکذیب کرنے کی کوشش کی اور ستم بالائے ستم اس نے اس سارے معاملہ کو ” دین کی تحقیق ” کے عنوان سے نہ کیا بلکہ افسانہ نویسی کے انداز میں کیا!!!
سلمان رشدی اپنے اس کام کو خالص ادبی افسانہ نگاری بنا کر پیش کیا اور معصوم ثابت کیا کہ ادب اور افسانہ کے دشمن لوگ اسکی جان کے پیچھے پر گئے ہین لیکن اسکو یہ دو نام ہی ملے تھے عائشہ اور محمد اپنا افسانہ لکھنے کیلئے—–
کیا کوئی انگریزی میں ناجائز تعلقات کے بارے میں سوسائٹی کی اصلاح کیلئے ہیرہ اور ہیروئن – عیسی اور مریم نام استعمال کرے—-
ایاز نظامی اپنی خباثت کو جراءت تحقیق ؟؟؟؟
محترمہ سبین صاحبہ!
آداب
آپ کی تمام تر دشنام طرازیوں کو آپ کی اسلامی تربیت سمجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے جواب عرض ہے کہ اگر باؤلر لوز بال کرائے گا تو بیٹسمین کو پورا پورا حق ہے کہ اس لوز بال کو باؤنڈری سے باہر کا راستہ دکھاتے ہوئے اپنے اسکور میں چھ رنز کا اضافہ کرے۔،لیکن اس صورت میں اب اگر کوئی بیٹسمین کو قصور وار ٹھہرانا شروع کردے، اسے گالیوں سے نوازا جائے اور ملعون قرار دیا جائے تو یہ ناقد کی کم عقلی ہے، اصل غلطی اس باؤلر کی ہے جس نے لوز بال کرا کے بیٹسمین کو چھکا مارنے کا پورا پورا موقع فراہم کیا ہے۔
علامہ صاحب بالکل دندان شکن جواب دیا آپ نے۔ اللہ نے شیطان کو اتنی طاقت اور قدرت ہی کیوں عطا کی کہ رسول کے کلام میں بھی ملاوٹ کر سکے، نہ آیات غرانیق نازل ہوتیں، نہ سلمان رشدی "شیطانی آیات” لکھتا۔ پھر رونا کاہے کا
ایاز نظامی افکار سلمان رشدی تو شاہکار ادب اور چور کو چور کہنا دشنام طرازی آپکے نزدیک – خود کو آپ اور دوسرے کو تو- اسلامی تربیت میں بقول دشنام طرازی سکھائی جاتی ہے تو آپ کی حقیقت بیانی کی تربیت کونسے نظام کے تحت دی جاتی ہے اور اسکے لئے کونسی جبلی کٰفیت درکار ہوتی ہے
اصل بات کا تو جواب دیا ہی نہین اور ان باتوں کا ضرور جواب دیا جو کہ ضمنا تھیں- میں نے اپنے تفصرہ میں ایسی باتیں ارادتا شامل کی تھیں جو آپکے معیار کی ہین آپ کی توجہ ان ہی پر جائیگی اندازہ تھا
علامہ ایاز نظامی صاحب ….جو آیات اپ نے لکھی ہے "”اپ سے پہلے بھے جتنے رسول بیجھے گئے ……” اس آیات کا نمبر اور سورہ نمبر بتا دے
سورة الحج آیت نمبر ۵۲
محترمہ!
بڑی خوشی ہوئی آپ کا تبصرہ پڑھ کر!
یہ ہے آپ کے اسلام کی اصل تربیت اور اصل چہرہ ۔۔۔ دلائل کے جواب میں گالیوں کابے دریغ استعمال آپ کے ذہنی معیار اور اخلاقیات کی کھل کر ترجمانی کرتا ہے۔۔ خیر سے آپ تنہا نہیں ہیں اس میدان میں ۔۔۔ یہ تو آپ کے اکابرین و اسلاف کا طرہ امتیاز رہا ہے کہ جہاں کوئی آپ سے منطقی اختلاف کرے وہیں اس کی تضحیک و توہین کا آغاز کر دو۔۔۔ بدنام زمانہ اسلام کو مزید بدنام کرنے کے کار خیر میں اپنا سا حصہ ملانے پر میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔۔۔ بس یہ جو دو ایک ٹھنڈے مزاج کے مسلمان پیدا ہو گئے ہیں انہوں نے آپ کی اور اکابرین کی سالہا سال کی محنتوں پر پانی پھیرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔۔ انہیں سمجھائیں کہ بغیر کسی گالی کے بات کرنا ہماری شان کے خلاف ہے۔۔۔ اور آئندہ بھی اسی اندا ز میں آتی رہیں۔۔ ہم آپ کے شکر گزار رہیں گے
اسلام کی تربیت !!!
دشنام طرازی!!!
ارے حاجی تیری اوقات کے مطابق ہے یہ نہ کہ اسلام کی تربیت کے- نطفئہ ناپاک وجود نابکار اسلامی تربیت ان باتوں مین دکھائی دیتی ہے جو تیری اوقات بیان کرتے ہین –
دن میں 5 وقت نماز کو دیکھا کبھی دن بھر کھانا پینا چھوڑ کر رہنا دیکھا کیا اور کہان کہان دیکھا اسلامی تربیت میری باتوں کے علاوہ-اسلام کے کونسے عمل کے بارے میں یاوہ گوئی اور اپنی ناپاک حرکت نہین کرے – وہ تحقیق ہے تمہاری تو تمہارے خود کے بارے میں تحقیق کو دشنام طرازی کیون کہتے ہو تمہاری ذات کی تحقیق بھی تو ہو سکتی – اسلام اگر جھوٹ فریب ہے قراں اللہ کا کلام نہین اللہ ہے ہی نہین اور رسول عیاشی کیلئے ایک تماشہ کرکے لوگوں کو بیوقوف بناناے کا نام ہے
یہ سب سچ ہے تو وہ سب بھی سچ ہے اور تحقیق ہے جو تمہارے بارے میں کہا جائے وہ کیون دشنام دکھائی دیتا ہے یہ ہماری تحقیق ہے سلمان رشدی کی فکری ذریت اس کی ناپاک اور خوف زدہ فکر کی پیداوار ہو تم لوگ –
مسلمان اپنی بات لوگوں کے بیچ جاکر پیش کرتے ہین تم کو اپنی بات حق لگتی ہے جاؤ انسانوں کے بیچ جاکر انکو جگاؤ جگاتے کیون نہین چھپتے کیون ہو لوگوں سے
لگتا ہے حاجی صاحب نے دم پر پاؤں رکھ دیا ہے 😀
janab nazami sahib agar ap us book ka page bhi yahan shre kar datay jis say app nay translation ki hay to kya hi acha hota.
Regards,
جناب میں نے حوالہ کا ذکر تو کر دیا تھا
﴿بحوالہ تفسیر بغوی در تفسیر سورة الحج آیت نمبر ۵۲﴾
ہوسکتا ہے آپ کی نظر نہ پڑی ہو، مزید تشفی کیلئے یہ لنک ملاحظہ فرمائیں:
http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=51&surano=22&ayano=52
اگر پھر بھی کوئی الجھن تو تو مطلع فرمائیں
باسمِ ربی۔ محترم جرأت تحقیق صاحب سلامتی و رحمت ھو۔ آپ سے محترم غلام رسول صاحب کے پیج پر جو گفتگو ھوئی۔ اُس کے بعد آپ کو نظرِ ثانی کے بعد ایسی عبارت تحریر کرنے چاھئِے تھی۔ مگر افسوس آپ نے میری کسی بات کو قابل غور و فکر ہی نہ سمجھا۔ میں ایک مرتبہ پھر آپ سے درخواست کرتا ھوں کہ آپ درست تحقیق کو سامنے لائیے۔ اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس مجوسی سازش صحائے ستہ اور تواریخ اسلامی درست ہیں۔ تو پھر میرا آپ کو چیلنج ھے کہ آپ سب سے پہلے صحائے ستہ کی تحاریر کو فرمودہ نبی اکرم۴ ثابت کر دیں۔ اگر آپ ایسا نہ کر سکے تو وعدہ کیجئِے کہ آئندہ اس باطل سوچ کو ترک کر دیں گے۔ ہماری گفتگو میں منطق ہی کسوٹی مقرر ھو گی۔ اُمید کرتا ھوں کہ جناب فرصت نکال کر جواب سے مشکور فرمائیں گے۔ رہی بات جو قرآنی آیات آپ نے اوپر پیش کیں ہیں۔ اُن کا درست مفہوم سمجھنے کے لئے تصریف قرآنی کی مدد درکار ھو گی۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے قرآنی فکر کو تصریف آیات سے ہی واضح فرمایا ھے۔ جو کہ آپ کی تحقیق کا حصہ نہیں اسی وجہ سے یہ ایک باطل تحریر ھے۔ اور ماسوائے الزام کے کچھ نہیں۔ ہم اس آیت کی پوسٹ بنا کر اُس پر علمی و تحقیقی روشنی ڈال کر حق بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ ثم تتفکرو۔
باسمِ ربی۔ محترمین مجلس سلامتی و رحمت ھو۔ آپ سب احباب سے ایک مرتبہ پھر درخواست کرتا ھوں کہ گفتگو کو عقلی بنیادوں پر تحقیق کر کے پیش کریں۔ قرآنِ کریم کی حقانیت پر اعتراض اور ریفرنس روایات کے۔ جو مجوسی سازش سے اسلام میں داخل کر دی گئین۔ کیا یہ عقل کا کوئی انوکھا معیار ھے۔ یعنی مین اگر آپ میں سے کسی پر اعتراض کروں اور ریفرنس کسی دیگر شخصیت کا دوں تو کیا وہ حقیقت بن سکتی ھے۔ بالکل یہی حال راقمِ پوسٹ کا ھے۔ اعتراض قرآن پر اور روایاتوں اور تفسیروں کے ریفرنسز۔ واہ ری عقل تیرے دیکھے رنگ ہزار۔ ثم تتفکرو۔
بھٹی صاحب، اگر صرف قرآن ہم عجمی لوگوں کو سمجھ آتا تو ہمیں تفسیر کی کیا ضرورت تھی۔ آپ جو کہہ رہے ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ قرآن صرف عرب کے لئے آیا ہے۔ کیونکہ قرآن کی عربی تو ہم سیکھنے سے رہے۔
محترم آصف بھٹی صاحب، جرأتِ تحقیق پہ خوش آمدید۔
یقینا” آپ سے گفتگو کو شرف حاصل رہا ہے لیکن ہم اور آپ کسی نتیجے پہ پہنچنے سے قاصر رہے اور آخر میں جب گفتگو آپ کی جانب سے متضاد ہو گئی اور ذاتیات اور کردارکشی کی حد تک چلی گئی تو ہم نے آپ سے اجازت لے لی۔ لہٰذا آپ سے گفتگو کے دوران کچھ ایسا سیکھنے یا سمجھنے کو نہ مل سکا کہ جس بنیاد پہ ہم اپنے خیالات و تحاریر پہ نظر ثانی کرتے۔
وہاں موجود قارئین نے دیکھا کہ آفاقی منطق کو کسوٹی مقرر کرنے کے باوجود آپ اسکو بطور پیمانہ استعمال کرنے سے قاصر رہے اور ہمارے بار بار پوچھے گئے سوالوں کو نظرانداز کر کے ثابت شدہ منطقی مغالطوں کو بطور دلیل استعمال کیا۔ خیر یہ قصہ پارینہ ہے اور ہم اس پہ بات نہ کرتے اگر آپ نے اس گفتگو کا حوالہ نہ دیا ہوتا تو۔ اس گفتگو کا ربط (لنک) دے دیتے ہیں یہاں اور میرا خیال ہے قارئین خود ہی فیصلہ کر لیں گے کہ کس نے منطقی گفتگو کی ہے اور کون غیر منطقی رہا۔
محترم قارئین، یہ گفتگو پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے
آصف بھٹی صاحب، یہاں اس ویب سائیٹ پر جو مواد پیش کیا جا رہا ہے وہ امتِ مسلمہ کی اکثریت کو مدِنظر رکھ کر انکے عقائد کی مناسبت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ دنیا کو اسی اکثریت سے مسائل درپیش ہیں اور انہی کی وجہ سے معاشرے میں انارکی پھیلی ہوئی ہے چنانچہ ہمارا فوکس فطری طور پر امتِ مسلمہ کی اکثریت ہے۔ آپ جس مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اسکو عوام "پرویزیت” کے نام سے موسوم کرتی ہے، اگرچہ کسی قسم کی فرقہ پرستی یا مذہبی تقلید آپ لوگوں کے نظریات کے خلاف ہے اسلئے پرویزی کہنا درست نہیں بلکہ سرے سے آپ کے نظریات کے خلاف ہے اور آپ حضرات خود کو قرآنسٹ کہلانا پسند کرتے ہیں، لیکن عوام بہرحال اسی نام سے آشنا ہے۔
ہمیں اعتراف ہے کہ اکثریتی مسلمانوں کی نسبت آپ حضرات بدرجہا بہتر ہیں اور عقل و شعور کو اکثر کیسز میں کم از کم دباتے یا رد نہیں کرتے۔ لیکن افسوس کہ آپ لوگوں کی تعداد کم ہے اور باقی میجارٹی پر آپ لوگوں کا کوئی خاص قابلِ ذکر اثر نہیں ہے۔
ایک بات یاد رکھئے کہ ہمیں عمومی طور پر مذاہب و عقائد سے پرخاش نہیں ہے۔ ہر شخص کو کسی بھی عقیدے کی آزادی ہونا چاہئے، مذہب کی ترویج کی بھی اور اس پر تنقید کی بھی۔ لیکن بقیہ مذاہب کی نسبت عمومی اسلام تشدد، عدم برداشت، پابندی اور ظلم و بربریت کا علمبردار ہے ، آزادیِ اظہار پہ پابندی لگاتا ہے چنانچہ ہم بطورِ خاص اس پر بات کرتے ہیں۔ آپ لوگوں کو عام مسلمان دائرہ اسلام سے خارج تصور کرتے ہیں لہٰذا آپ کے عقائد و نظریات ہمارے لئے بھی اور عوام الناس کے لئے بھی کچھ خاص اہمیت کے حامل نہیں۔
رہی بات ہماری گفتگو کی، تو ایک بار ہی بحث سے ہمیں خوب اندازہ ہو گیا ہے کہ یہ وقت کا ضیاع ہی ہوگا، بقیہ مذاہب کی طرح آپ بھی اپنے عقائد کی بنیاد ثابت کرنے سے قاصر ہیں اور بنیاد بہرحال اندھے اعتقاد ہی پر استوار ہے۔ اور اگر آپ سے گفتگو میں آپ کے نظریات بھی بقیہ میجارٹی کی طرح باطل ٹھہرتے ہیں تب بھی اس سے ہماری ویب سائٹ کا مقصد حاصل نہیں ہوتا کیونکہ بقیہ امتِ مسلہ کی میجارٹی کے نزدیک آپ ایک باطل فتنہ ہیں۔
پھر بھی اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو پھر ہمیں کچھ وقت دیجئے تاکہ سائٹ کے دیگر ایڈمن حضرات سے مشورہ کر کے ایک "فورم” انسٹال کیا جائے اور اس فورم پر ہم مفصل گفتگو کریں گےکیونکہ بلاگ اس طرح کے باقائدہ مباحثوں کے لئے موزوں نہیں ہوتا جبکہ فورم پر ایسا باآسانی اور سلیقے سے ہو سکتا ہے۔
محترم ابو الحکم صاحب آپ کے تاثرات سے آگاہی ھوئی۔ اور یہ جان کر خوشی بھی کہ آپ ایک فورم تشکیل دیکر اُس پر تفصیلاً گفتگو کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں منتظر رھونگا۔
جہاں تک آپ کے تبصرہ بابت سابقہ پوسٹ ھے۔ تو صرف اتنا عرض کرنا چاھتا ھوں۔ کہ اُس پر محترم غلام رسول صاحب نے میرے کافی کامںٹس ڈیلیٹ کئے تھے۔ اب ناجانے کون کونسے باقی رکھے ھوئے ہیں۔ یقیناً صرف وہی کامنٹس وہاں ھونگے جس سے میری گفتگو بے ربط نظر آتی ھو گی۔
پہلے میں ایک ایتھیئیسٹ ممبر محترم غلام رسول صاحب کی میزبانی سے شرف بلطف ھوا تھا۔ اب کہ میری خواہش ھے کہ آپ احباب ایک مسلمان کی میزبانی کا لطف اُٹھائیے۔ اس سے آپ احباب کو ایک قرآنی طالبعلم مسلمان اور روایات و علماء پر ایمان کی بنیاد رکھنے والے نام نہاد مسلمان کی ذہنی حالت و حس کردار کا بخوبی اندازہ ھو جائے گا۔ اُمید کرتا ھوں کہ آپ احباب کو اس پر کوئی اعتراض نہ ھو گا۔ ذیل مین لنک پر کلک کر کے ایڈ ھو جائیں۔ http://www.facebook.com/#!/groups/tehqeeq/425021697586051/?notif_t=group_activity
ممنون و منتظر۔ ثم تتفکرو۔
محترم آصف بھٹی صاحب، ایک بار پھر محفل میں خوش آمدید۔
فورم تاحال انسٹال نہ ہوسکا لیکن قوی امید ہے کہ اسی مہینے کے اندر اندر یہ کام انجام پا جائے گا۔ ہمارے وہ ساتھی کہ جو ایسے تکنیکی کاموں میں مہارت رکھتے ہیں اپنی کچھ ذاتی مصروفیات میں الجھے ہونے کی وجہ سے ابھی تک ہماری مدد نہیں کر پائے، بہرحال ہمیں انکے وعدے پہ اعتماد ہے اور جلد ہی یہ کمی پوری ہو جائے گی۔
محترم غلام رسول صاحب کی پوسٹ پہ جو گفتگو آپکے اور اس ناچیز کے بیچ ہوئی ہے وہ یکم فروری تک بالکل سلامت تھی اور میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یقین دلاتا ہوں کہ سوائے ایک آدھ کومنٹ کے کہ جس میں آپ نے اپنے مندرجہ بالا گروپ کے لنکس شئیر کئے تھے نہ میری اور نہ ہی آپکی گفتگو کا کوئی حصہ حذف ہوا ہے۔ خیر، یہ قصہ پارینہ ہے۔ امید ہے فورم پر گفتگو کے دوران، ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے ہم علمی گفتگو کر کے سچائی کو سامنے لانے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔ ہمارا کسی نتیجے پر متفق ہونا ضروری نہیں بلکہ ہم اپنے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے کوشش کریں گے کہ سچائی کو بے نقاب کیا جا سکے۔
محترم ابوالحکم صاحب آپ کو شاید مغالطہ ھو رہا ھے۔ میری آپ سے نہیں بلکہ غلام رسول صاحب اور جرآتِ تحقیق نامی صاحب کیساتھ گفتگو ھوئی تھی۔ اور میرے ایک دو کامنٹس نہین بلکہ کئی کامنٹس غلام رسول صاحب نے اعلانیہ حذف کئے تھے۔ یہی وجہ ھے کہ آپ احباب کے فورمز پر گفتگو میں آپ بااختیار ھونگے۔ میں نہیں؟ جبکہ میرے فورمز پر ایسا نہیں ھوتا۔ ماسوائے بدتہذیبی طعن و تشنیع اور گالی گلوچ کے کبھی کوئی کامنٹس ڈیلیٹ نہین کئے جاتے۔ پہلے ہم نے آپ کی میزبانی کا لطف اُٹھایا اب ہمیں بھی میزبانی کا شرف بخشیں۔ ہمیں بہت خوشی ھو گی۔ شکریہ ثم تتفکرو۔
محترم آصف بھٹی صاحب، جراتِ تحقیق ہماری ویب سائیٹ کا نام ہے اور اسی نام سے فیس بک پہ اکاؤنٹ بنایا گیا جو کہ زیادہ تر ہماری سائیٹ کی تحاریر کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ احقر اس اکاؤنٹ کا خالق ہے چنانچہ آپ سے شرفِ گفتگو اس ناچیز ہی کو حاصل رہا ہے۔
یقینا” آپکے کچھ کامنٹس حذف ہوئے ہوں گے کہ جن میں آپ نے اپنے گروپ کے لنکس غلام رسول صاحب کے بار بار منع کرنے کے باوجود شئیر کئے تھے اور میرا خیال ہے کہ ایسا کرنا انکا حق تھا۔ البتہ ہماری اور آپکی گفتگو بالکل متاثر نہیں ہوئی اور مکمل حالت میں موجود تھی۔ خیرآپ اگر اپنے کومنٹس کے حذف ہونے کی وجہ سے گفتگو کی بے ربطگی پہ مصر رہیں تو بندہ مزید کچھ کہنے سے عاجز ہے، قارئین وہ گفتگو پڑھ کے خود نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔
نیز آپ نے فرمایا کہ اس فورم پہ ہم بااختیار ہوں گے۔ جی، چونکہ ہم اس فورم کے منتظم ہوں گے اسلئے یقینا” بااختیار ہوں گے لیکن اگر گفتگو اخلاق سے گری اور بدتہذیبی، اپنے پلیٹ فارم کی مشہوری اور "سپام” کے زمرے میں نہ آتی ہو تو ہم کسی کا تبصرہ حذف نہیں کیا کرتے۔
ہمارے پاس اپنے تاثرات و نظریات نیز تحقیق پیش کرنے کے لئے اپنا پلیٹ فارم موجود ہے چنانچہ ہم شاید آپ کے فورم پہ نہ آ پائیں، پیشکش کا تہہ دل سے شکریہ، البتہ آپ کی آمد ہمیشہ کی طرح بسروچشم ہے۔
محترمی آصف بھٹی صاحب، حسبِ وعدہ جراتِ تحقیق نے مباحثے کے لئے فورم نصب کر لیا ہے۔ http://forums.realisticapproach.org جراتِ تحقیق پہ موجود کسی تحریر یا کسی بھی دوسرے متعلقہ موضوع پہ گفتگو کرنا چاہیں تو اس فورم پہ گفتگو کر سکتے ہیں۔ وہاں ہمیں گفتگو کی طوالت کی کوئی پریشانی نہ ہوگی کیونکہ مباحثے کے فورم اسی چیز کو مدِ نظر رکھ کے ڈیزائن کئے جاتے ہیں۔
اگر آپ آ کر قرآن و مذہبِ اسلام کی حقانیت ثابت کرنا چاہیں تو ہمیں ازحد خوشی ہوگی جبکہ ہمیں اور دیگر قارئین کو یقینا” بہت کچھ سیکھنے سمجھنے اور سوچنے کو میسر آئے گا۔ ہم آپکو یقین دہانی کراتے ہیں کہ اخلاق سے گری ہوئی گفتگو اور دیگر فورمز کے لنکس نیز سپام کے علاہ کچھ بھی حذف نہیں کیا جائے گا۔
جب میں نے مطالعہ قرآن کے دوران عقل و شعور کا استعمال شروع کیا تو قرآن کی غلطیاں مجھ پر آشکار ہونا شروع ہو گئیں. آج میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ قرآن انسانوں کی لکھی ہوئی کتاب ہے. اس میں غلطیاں ہیں، تضادات ہیں، اور جھوٹی سچی روایات ہیں. اکسویں صدی کے انسان کی رہنمائی کے لیے اس کتاب میں کچھ نہیں. حیرت ہے کہ اس کتاب کو خالق کائنات کی کتاب ثابت کرنے کا ٹھیکہ آج ان حضرات لے رکھا ہے جن کی زبان عربی نہیں.
ایک ایسی کتاب جو انسانوں کی تحقیر کرتی ہے، انہیں گالیاں دیتی ہے، اور وعدۂ جنت کے سبز باغ دکھا کر مسلمانوں کو قتل و غارت گری پر ابھارتی اور ایک فرضی خدا کی پوجا پاٹ پر لگا دیتی ہے، ایسی گھٹیا کتاب کو خالق کائنات سے منسوب کرنا خالق کی توہین ہے. لھذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ آج دنیا میں سب سے زیادہ ذلت و خواری مسلمان کما رہے ہیں. ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر گلے کاٹ رہے ہیں. خودکش حملے کر رہے ہیں. مردوں کو ان کی قبروں سے نکال کر درختوں پر لٹکا رہے ہیں. مقتولین کی کھوپڑیوں سے فٹ بال کھیل رہے ہیں. تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑا رہے ہیں. پولیو جیسے موذی مرض کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو گولیوں سے بھون رہے ہیں. واہ کیا خوب کتاب ہدایت ہے!
قرآن کی جو غلطیاں آپ پر آشکار ہوئیں اگر وہ ہمیں بھی بیان کر دیں تو ہم جیسے طالب علموں کا بھی بھلا ہوجائے
آپ کا تبصرہ یقینا بابل ستایش ہے کہ ان تمام آیمہ کو بھی ملعون کہا جاے جنہوں نے اس قسم کی تفاسیر لکھیں۔لیکن جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے تو اسکا ٰصحیح ترجمہ کچھ ہوں ہے۔
﴿اور ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول پھیجے جب انہوں نے خدا کی آیات ان تک پہنچا دیں تو شیطان صفت لوگو ں نے ان میں اپنے الفاظ شامل کر دیے اور اللہ تو ان شیطانوں کے الفاظ کوتو ختم کر دیتا ہے اور اپنی آیات برقرار رکھتا ہے اور اللہ تو بہت خبر رکھنےوالا اور سیانا ہے﴾۔﴿ سورة حج آیت نمبر ۵۲﴾
اور اس ترجمہ کے بعد کسی تفسیر کی گنجایش نہیں تہ جاتی کیونکہ بایبل اور دیگر آسمانی صحیفوں کی حالیہ شکل ہمارے سامنے ہے کہ پادریوں نے کس قدر اپنے الفاظ ان کتب میں شامل کر دیے ہیں۔
مذکورہ آیت میں "القی الشیطان” کے الفاظ آئے ہیں، لفظ شیطان واحد ہے اور عربی میں اس کی جمع شیاطین آتی ہے، آپ نے جو ترجمہ ذکر کیا اس میں لفظ شیطان کا ترجمہ "شیطان صفت لوگوں” کیا گیا ہے۔ جو کہ قطعاً غلط ترجمہ ہے۔
(1) شیطان کا ترجمہ شیطان ہی ہوگا اور یہ لفظ واحد ہے جبکہ آپ کے ترجمہ میں جمع کا ترجمہ کیا گیا ہے۔
(2) آپ کے ترجمہ میں "شیطان صفت لوگوں” کے الفاظ اضافی ہیں جو مترجم نے اپنی جانب سے بڑھائے، آیت میں ایسے کوئی الفاظ نہیں ہیں جن کا ترجمہ "شیطان صفت لوگوں” کیا جائے، لفظ” شیطان” کا اردو ترجمہ سوائے”شیطان” کے کچھ اور کرنا علمی خیانت اور گمراہ کن ہے۔
اسی طرح "فينسخ الله ما يلقي الشيطان” میں بھی شیطان کا صیغہ واحد استعمال ہوا ہے جب کہ آپ کے ترجمہ میں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، جو کہ غلط ہے۔
میرا سوال آپ سے یہ ہے آپ نے کس بنیاد پر میرےبیان کردہ ترجمہ کو غلط قرار دیا اور اپنے بیان کردہ ترجمہ کو مستند قرار دیا، آپ کے پاس صحیح اور غلط کا کیا پیمانہ تھا؟
محترم کاشف خان صاحب یا کوی بھی صاحب۔ ھمیں ایک بات کی سمجھ نھیں آرہی اگر آپ یا کوی بھی ھمیں سمجھادے تو نوازش ھوگی وہ یہ کہ اگر اللھ اپنی آیات برقرار رکھتا ھے اور شیطانی آیات مٹادیتا ھے تو اپنی نازل کردہ قرآن سے پہلے ۳ کتابوں کو برقرار کیوں نہ رکھ سکا )اگر ان میں بہت ساری تبدیلیاں ہوی ہیں جیسا کہ عموما دعوے کیا جاتا ہے.ایک بات یہ کہ ھمیں تفسیر؛ حدیث اور عربی زبان کا کوی علم نہیں ما سواے چند سنے سناے کے.
﴿القی الشطان﴾ کا ترجمہ بنےگا ﴿شیطانی الفاظ﴾ اور شیطانی الفاظ یقینا شیطان صفت لوگوں کے ہی ہوسکتے ہیں کیوں کہ کسی فرشتہ صفت انسان کے الفاظ کو تو شیطانی الفاظ کویی بھی نہیں کہے گا۔
صرف اس ایک جملے میں کم از کم دو مغالطے ہیں۔
جناب الفاظ "فردِ واحد” کے بھی ہو سکتے ہیں اور "افراد” کے بھی۔ اور چونکہ "شیطان” واحد ہے لہٰذا یہاں واضح طور پر فردِ واحد مراد ہےورنہ شیاطین کہہ دینے میں کیا مسئلہ تھا؟ اتنا قادرالکلام تو اللہ کو ہونا ہی چاہئے تھا۔ جیسا کہ علامہ نظامی صاحب نے فرمایا کہ غلط ترجمہ غلو اور علمی بد دیانتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ زیرِ بحث فرد فرشتہ صفت جو نہیں تھا۔ خود سے کسی کو فرشتہ صفت قرار دے کر پھر اسکو اسکی معصومیت کےثبوت کے طور پہ پیش کر دینا منطقی مغالطہ تو ہو سکتا ہے علمی اندازِ گفتگو نہیں۔
پہلے تو آپ یہ ثابت کریں کو شیطان کوی ایک فرد ہے کیوںکہ قرآن شیطان کا لفظ مخصوص قسم کے زہنیت رکھنے والے لوگو ں کے لیے استعمال کرتا ہے اور قرآن ہی کیا اردو ، عربی اور فارسی ان تین زبانوں میں یہ لفظ اسی انداز استعمال ہوتا ہے اسے فرد واحد قرار دینے کے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اس قسم کا کویی عقیدہ ایجاد کیا جاے بلکہ ایجاد بھی کرنے کیا ضرورت ہے مذہب پرستوں نے تو پہلے سے ایک عقیدہ بنایا ہوا ہے اسی کو فولو کرکے ہم آپ کی بات کو آن اور کان دونوں بند کرکے مان سکتے ہیں لیکن چونکہ یہ ادب اور زبان کا معاملہ ہے اس لیے ہم اسے اسی کونٹنٹ میں دیکھیں تو زیادہ بہتر ہوگا بجاے مذہبی عقیدے کی روشنی میں۔
ہم شیطان و رحمان وغیرہ والی مذہبی خرافات پر یقین نہیں رکھتے بلکہ مسلمانوں کے مذہبی مصادر کا عقلی و منطقی ابطال کر رہے ہیں چنانچہ ہمارے نزدیک شیطان کا وجود ہے ہی نہیں۔ البتہ آپکی مذہبی کتاب میں شیطان کے بارے درج ذیل کہانی لکھی ہے۔
فرشتوں کو جب سجدے کا حکم ہوا تو سب نے سجدہ کیا ماسوائے ابلیس کے ۔ چنانچہ قرآن کا اللہ آدم کو بتاتا ہے کہ یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے اس سے دھیان رکھنا کہ کہیں جنت سے نکلوا نہ دے تم دونوں کو۔ پھر شیطان نے آدم کو وسوسہ ڈال کر بہکایا اور اُن سے قرآنی اللہ کی حکم عدولی کروا ڈالی جسکے نتیجے میں دونوں میاں بیوی برہنہ ہو گئے اور ستر چھپانے لگے اور اس حکم عدولی کی پاداش میں جنت سے نکالے گئے۔ بعد میں معافی تلافی ہوتی رہی۔ ۔ ۔
یہ رام کہانی آپکو اپنے قرآن کی سورۃ طٰہ آیت 114 تا 121 میں ملے گی۔ یہاں قرآن شیطان کو فردِ واحد ہی قرار دے رہا ہے۔
قرآن میں دو آدم ہیں ایک تو وہ جو انبیا کے اجداد میں سے تھے جبکہ دوسری جانب خدا ایک تمثلیی قصے کے زریعے انسان کے ارتقایی سفر کی اس منزل کے برے میں بتا رہا ہے جو اپنی اصل شکل میں نمودار ہو چکی تھی۔اور جب خدا نے فطری قوانین اور طاقتوں کو کہا کہ انسان یا آدم کے آگے جھک جاو تو سب جھک گیے جبکہ ابلیس یعنی ایک ایسی منفی قوت جو انسان کے اندر موجود تھی نا جھکی۔
لفظ ملایکہ جمع ہے ملک کی جسکے معنی ہوتے ہیں قدرت یا قوت۔اور یہ عربی زبان کا پہت عام سا لفظ ہے۔
یہ ایک مفروضہ ہے جو بیسیویں صدی کے انسان نے سائنسی دریافتوں کو مدِ نظر رکھ کر پیش کیا، تا کہ قدیم زمانے کے جاہل عرب بدوؤں کو بیوقوف بنانے کے لئے سابقہ قصے کہانیوں سے اخذ کی گئی بچکانہ کہانی کو کسی طور کھینچ تان کر عقلیایا جا سکے۔ محض مفروضوں کی مدد سے واقعات کو کوئی بھی رنگ دیا جا سکتا ہے۔ قرآن و حدیث و تفسیر سے ثابت کیجئے کہ آدم دراصل دو تھے۔
نمبر ایک: ملائکہ سے مراد آپ فطرت کے قوانین و قوتیں لیتے ہیں۔اگر وقتی طور پر یہ تفسیر مان بھی لیں تو بھی قرآن ابلیس کو بھی انہی قوتوں میں شمار کر رہا ہے، کہ جب سجدہ کا حکم ہوا تو سب نے ما سوائے ابلیس کے سجدہ کیا۔ یعنی گروپ ملائکہ کے subset ابلیس نے سجدہ سے انکار کیا۔ یہ کہاں سے اخذ کیا کہ ابلیس دراصل وہ قوت ہے جو آدم کے اپنے اندر موجود تھی؟
نمبر دو: ابلیس (جو بقول آپ کے فطرت کی منفی قوت ہے)، نے سجدہ کرنے سے انکار کی یہ تاویل پیش کی کہ یہ مٹی سے بنا ہوا ہے۔ کیا فطرت کی قوتیں اللہ سے کلام بھی کرتی ہیں اور ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے؟ اور یہ کہ وہ اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کر سکتی ہیں جبکہ اللہ ان سے براہِ راست کلام کر رہا ہے؟ یعنی فطرت کی قوتیں فیصلہ کرکے اپنی راہ چننے میں بااختیار ہیں؟
نمبر تین: اللہ قرآن میں واضح طور پہ کہہ رہا ہے کہ میں نے آدم کو اپنے "ہاتھوں” سے بنایا ہے۔ آپ اسکو زبردستی ارتقاء کے ساتھ نتھی کر رہے ہیں۔
آپ کی پہلی بات کہ سانسی تحقیق کا نتیجہ ہے یہ تفسیر۔۔۔۔۔۔
آپ قرآن میں جگہ جگہ دیکھیں گے کہ قرآن دنیا اس میں موجود چیزوں پر غوروفکر کرنے کی ترغیب دیتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن خود چاہتا ہے کہ انسان سانسی علوم میں مہارت حاصل کرے۔
اور یہ بھی کہتا ہے کہ اپنے بات دادا کی پیروہ مت کرو کیونکہ قرآن چاہتا ہے کہ ہر انسان اپنی عقل اپنے دور کے حساب سے استعمال کرے ناکہ اپنے باپ دادا کی عقل پر اکتفا کر کے اسی کو رگڑتا رہے کیونکہ اس عمل سے انسان کی زہنی ارتقا جامد ہو جاتی ہے۔
لہذہ
چونکہ قرآن خدا کا آخری پیغام ہے اور محفوظ رہنے والا ہے اسلیے جیسے جیسے انسان ترقی کی منازل طے کرتا جاے گا قرآن کے حقایق اور مزید کھل کر اس کے سامنے آتے جایں گے۔
نمبرایک۔ خدا نے ان تمام چیزوں سے کہا جو اسکی ملک یعنی بادشاہت کے انڈر میں آتی ہیں یعنی ملایکہ سے کہ انکے علاوہ کسی سے نہیں کہا اسلیے پتہ چلتا ہے کہ ابلیس بھی ایک فورس ہے جو ملایکہ میں شامل ہے۔خدا نے یہ نہین کہا کہ ملایکہ اور ابلیس انسان کے آگے جھک جاییں۔
آدم دو تھے۔۔۔۔
اگر آپ اسپر تھوڑا سا غور فرماییں تو یہ بات بھی واضع ہو جاتی ہے کہ جس جگہ قرآن اس تمثلی قصے کو بیان کر رہا ہے وہا آدم کے لیے جمع کا صیغہ استعمال ہو رہا ہے جبکہ جہاں اجداد امبیا میں سے کسی آدم کی بات ہو رہی ہے وہاں صیغہ واحد کا استعمال ہوا ہے۔
نمبردو۔اول تو یہ کہ یہ ایک تمثیلی قصہ ہے جس کے زریعے خدا انسان کو کچھ سمجھا رہا ہے نمبر ون کہ فطری قوانین کو خدا بنا کر انکے آگے جھکنا حماقت ہے کیونکہ قدیم زمانے میں جب انسان کمزور تھا اور فطری قوانین کے آگے بے بس تھا تو علم کی کمی کے باعث اس قسم کی فورسز کے آگے خود کو سرنڈر کر دیا کرتا تھا جبکہ قرآن نے اس تصور کو ختم کرکے انسانوں کو حقیقی تصور سے روشناس کرایا کہ ان فطری قوانین کے آگے نا جھکو بلکہ انہیں اپنے کنٹرول میں کرو۔اور دوسری بات جس سے انسان کو اگاہ کیا وہ یہ ہے کہ انسان کے اندر ایک قوت ایسی بھی ہے جو اسے اسکے مقصد عظیم سے روکے گی اور وہ دراصل خدا کی نا فرمان ہے تاکہ انسان اس سے بچے۔اور اس تمثیلی قصے میں اسنے اسکا عملی نمونہ کرکے بھی دکھایا۔
نمبر تین ۔ چونکہ تمام دنیا جن قوانین فطرت کے تابع ہے ان تمام قوانین کی بنیاد رکھنے والا خدا ہی ہے اسلیے خدا ان قوانین کے نتیجے میں ہونے والے عوامل کو اون کر رہا ہے قرآن میں کہ یہ کام ہم نے کیا اور وہ کام ہم نے کیا یا یہ کام ہم کرتے ہیں یا وہ کام ہم کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
ٹھیک ہے، ہم آپ اور ایک ہی نقطے پر ہیں یہاں، تو پھر سائنسی تحقیق کافی ہے نا، قرآن کی کیا ضرورت ہے جبکہ ہم نے بہرحال رجوع سائنس ہی سے کرنا ہے اور جبکہ قرآن کی تصدیق بھی سائنس ہی کرے گی۔ (اگرچہ ایسا نہیں ہے، سائنس قرآن کی تصدیق نہیں کرتی بلکہ قرآن کی اس نئی من چاہی تفسیر کی مدد سے ایسا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جو کہ کثیر امت کے ہاں قابلِ قبول نہیں ہے کیونکہ اس سے انکی صدیوں سے قائم شریعت کی نفی ہوتی ہے)۔
———————————————-
یہ صریحا قرآن کا انکار ہے۔ سجدہ کا مطلب سر جھکانا ہوتا ہے۔ اگر آپ اسکا مفہوم اطاعت یا مسخر ہونا بھی لیں تو بھی سوال یہی رہے گا کہ یہ بتائیے کہ کس طرح ممکن ہے کہ اللہ ایک قانون یا فطرت کی قوت (بقول آپ کے ) کو کہے کہ تم آدم کی اطاعت کرو یا مسخر ہو جاؤ اور وہ انکار کر دے؟ کیا اللہ کے بنائے ہوئے قوانین و فطری طاقتوں کی یہ مجال ہے کہ وہ اسکے حکم کے باوجود اسکو انکار کر سکیں؟
غور کیجئے، کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ صدیوں پرانے امیچیور انسانی ذہن کا تخیلاتی کارنامہ ہے؟ الفاظ کے معنی سے صرفِ نظر کر کے اسکے لئے اتنے پیچیدہ مفہوم کے مفروضے قائم کرنے کی ضرورت سے تو یہی نظر آتا ہے۔
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ﴿البقرة: ٣٤﴾
وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ﴿الأعراف: ١١﴾
إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ﴿الحجر: ٣١﴾
قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ﴿الحجر: ٣٢﴾
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا ﴿الإسراء: ٦١﴾
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ﴿الكهف: ٥٠﴾
اور ہمارا یہ سوال ہنوز تشنہ ہے کہ : یہ کہاں سے اخذ کیا کہ ابلیس دراصل وہ قوت ہے جو آدم کے اپنے اندر موجود تھی؟
———————————————-
ہم بصد احترام اختلاف کریں گے۔آدم مفرد ہے۔ کیا آپ وضاحت فرمائیں گے کہ کس جگہ آدم کو بطور جمع پکارا گیا ہے؟
———————————————-
یہ بھی مفروضہ ہے۔ اسکا ثبوت قرآن سے پیش کیجئے کہ کہاں اللہ نے اس قصے کو تمثیلی کہا ہے؟
———————————————-
یہ سبق ہمیں اس "قصے” سے کہاں حاصل ہو رہا ہے۔ اوپر آپ نے فطری قوتوں کی تسخیر کی بات کی (کہ وہ آدم کو سجدہ کریں) اور اب کچھ اور فرما رہے ہیں (کہ یہاں آدم کو فطری قوانین کی پرستش سے منع کیا جا رہا ہے)۔ براہِ کرم متضاد مفروضوں اور خود کی بنائی ہوئی تاویلوں کے بجائے قرآن و حدیث سے ٹھوس ثبوت پیش کیجئے۔ ۔ ۔
———————————————-
اچھا، یعنی پہلے اللہ ایک نافرمان قوت کو خود ہی انسان کے اندر پیدا بھی کر رہا ہے اور پھر خود ہی اس سے بچنے کی تلقین بھی۔ ۔ ۔ یہ خدا ہے یا شیطان؟ اور لگے ہاتھوں ان عظیم مقاصد کی بھی وضاحت بیان فرما دیجئے تو شاید ہمارے علم میں اضافہ ہو۔
سانس ہے تو قرآن کی کیا ضرورت؟
سب سے پہے تو قرآن سانسی علوم کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کتا ب کا موضو انسان ہے اور بالخصوص انسان کی اجتمایی زندگی یا تشکیل معاشرہ ہے اور حصول مقصد حیات اگر اس دوران کویی سانسی بات آ بھی جاے تو مقصود سانسی قانون سکھانا ہر گر معاشرے کی اصلاح کا پہلو اجگر کرنا ہی رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا یہ ایک قصہ ہے یا حقیقی واقعہ؟
اسکا جواب تو دنیا کویی بھی شخص دے سکتا ہے جو مذہب کی قید سے آزاد ہو چاہے وہ خود آپ ہی کیوں نا ہوں۔کہ یہ حقیقی واقعہ نہیں بلکہ ایک قصہ ہے۔اور قصے تمثیلی ہی ہوا کرتے ہیں۔اور بعض قصے اپنے اندر ایک پیغام بھی رکھتے ہیں جو انسان کی راہنمایی کرتے ہیں۔
مثلا
یہی قصہ لےلیجیے اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے اور بارہا میں صرف اس حقیقت یا اس پیغام کو واضع کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجدة؟
سجدة ایک اردو عربی اور فارسی کا بہت عام سا لفظ ہے جسکے معنی ہیں سر تسلیم خم کرنا اور یہ فزیکلی بھی ممکن ہے ، اخلاقی اعتبار سے کسی کی بات کے آگے،لالچ میں کسی برے شخص کے آگے،اور معاشی مجبوری کے تحت بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ایسی بھی کویی قوت ہے جو خدا کی بات کا انکار کرے؟
جی ہاں بالکل ہے لیکن اس کے لیے قرآن کے اس مشورے پر عمل کرنا پڑے گا یعنی غوروفکر۔
جب ہم کاینات اس میں موجود تمام چیزوں بشمول زمیں، سورج ،جاند،ستارے ،کیڑے مکوڑے اور چرند پرند وغیرہ وغیرہ کابغور جایزہ لیتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہر چیز ایک قایدے اور قانون یا فطرت کے تحت اپنے اپنے کام میں لگی ہویی ہے جبکہ صرف ایک چیز ایسی ہے جو نافرمانی کر سکتی ہے اور جو قوت ارادہ بھی ہے اور وہ ہے انسان لیکن انسان میں بھی دو قسم کی قوتیں ہیں ایک تعمیری اور دوسری تخریبی اور انسان انتخاب کے معاملے میں آزاد ہے یہ تخریبی قوت ہی ہے جو انکاری نظر آتی ہے باقیوں پر تو ہم غور کرہی چکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کے زریعے خدا انسان کو کچھ سمجھا رہا ہے نمبر ون کہ فطری قوانین کو خدا بنا کر انکے آگے جھکنا حماقت ہے؟؟؟؟؟
کیوںکہ یہ تو خود انسان کے آگے جھکنے کو تیار ہیں۔یعنی وہ تمہارے آگے جھکنا چاہتی ہیں اور تم انکے۔ صاحب ارادہ اور علم ہونے کے سبب احمق انسان کہلاے گا وہ قوتیں نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا، یعنی پہلے اللہ ایک نافرمان قوت کو انسان کے اندر پیدا کر رہا ہے اور پھر اس سے بچنے کی تلقین؟
انسان کے اندر صرف تخریبی قوت نہیں بلکہ تعمیری قوت بھی ہے جو خدا ہی نے بنایی ہے اور یہ تو بہت عام فہم باتین ہیں جو ہر شخص جانتا ہے اور یہ بھی بہت عام فہم بات ہے کہ انسان صاحب ارادہ ہے یعنی اندونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس جگہ قرآن اس تمثلی قصے کو بیان کر رہا ہے وہا آدم کے لیے جمع کا صیغہ استعمال ہو رہا ہے؟
فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ۔سورة بقرہ ۳٦
یہ سورة بقرہ مین موجود آدم کے ٰقصے کا ایک اقتباس ہے جس میں آدم کو جنت سے نکلنے کی وجہ یہ بتا رہا ہے کہ یہ ایکدوسرے کے دشمن ہوگے تھے۔﴿ایکدوسرے﴾ کو عربی زبان میں بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ کہتے ہیں اور ﴿دشمن﴾ کو کہتے ہیں عَدُوٌّ ایکدوسرے کے دشمن تو اسی صورت میں ہونگے آدم جب ایک سے زیادہ ہونگے۔یہ دونو ں ہی عربی زبان کے بہت عام الفاظ ہیں حتی کہ گوگل ٹرانسلیٹر میں میں آپ انکے معنی چیک کر سکتےہیں۔
محترم کاشف خان صاحب،
آدم، اسکی بیوی اور ابلیس کو بطور جمع ہی مخاطب کیا جائے گا، یہ تو بہت ہی عام فہم بات ہے۔سوال یہ ہے کہ "آدم” کو بطور جمع کب پکارا یا پیش کیا گیا ہے؟ ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ آپ عربی سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔
اوپر بیان فرمائے گئے تبصرے کا کوئی نقطہ ہماری طرف سے مزید کسی بحث کا محتاج نہیں، چنانچہ ہم اپنے مقدمہ میں مزید کچھ اضافہ نہیں کرتے اور اس گفتگو سے نتائج اخذ کرنا قارئین پہ چھوڑتے ہیں۔
میں سلام پیش کرتا ہوں آپ کو جو اس پاگل کیساتھ آپ نے اتنی لمبی بحث کی۔ اس ظالم نے تو مجھے بھی پاگل کر دیا۔
abu ul hukam,mujy pora yakeen hai k kam az kam tum 6 naamo say tabsary kartay ho,khod he 1 topic laty ho or khod he kisi dosray naam say os k haak mea kamzoor dalael day ty ho pher apny asal naam say tabsara kar k apni he dalelo ko jo tu ny kisi or naam say de hoti hai or wo kamzoor hoti hai os ko galat sabat kar k apnay app ko sacha sabat kar ny ke koses kar ty ho mera khayal hai tumy sharam say doob marna chayi
راجا ابو بکر عابد صاحب !
کئی پوسٹوں پہ بیک وقت ایک ہی تبصرہ کرنا "سپامنگ” کہلاتا ہے۔ ہم نے تبصرے کی ایک کاپی چھوڑ کر بقیہ ساری حذف کر دی ہیں، براہِ کرم آئندہ سپامنگ سے پرہیز فرمائیں۔ پانچ کے بجائے اگر آپ پانچ سو جگہ پر بھی اپنی بات کو دہرائیں گے تو اس سے بات میں وزن بڑھ نہیں جائے گا۔
اگر آپکو بقیہ لوگوں کے دلائل منطقی نظرنہیں آئے تو جا کے انکی گردن ناپئے، نہ کہ ہمیں مجرم ٹھہرائیں۔ فکرِ پرویز سے متاثر افراد کو میں مسلمانوں مذہبِ اسلام کے دعویداروں میں سے سب سے زیادہ عقل ومنطق کے علمبردار، روشن خیال، بہتر اور بااخلاق گروہ سمجھتا ہوں، انکے امیج کو ایسی سطحی باتیں کر کے بٹہ مت لگائیے۔
اول تو حوا نامی کسی خاتون کا تذکرہ قرآن میں ہے ہی نہیں اور دوم ابلیس کیوں کر آدم کا دشمن ہونے لگا جبکہ وہ تو روز اول سے ہی آدم کا دشمن تھا۔
تو پھر یہ زوج کیا ہے؟
بیوی کو عربی میں زوج نہیں زوجة کہتے ہیں
جبکہ تمہاری بیوی کو عربی میں زوجتک کہا جاتا ہے زوجک نہیں۔
روج؟
اس لفظ کا ایک مخعلف معنی ہیں مثلا
١﴾زوج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شوہر
۲﴾زوج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جوڑا
۳﴾زوج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ لوگ جو ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں یا شریک حیات
زوج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جماعت
اور اسی طرح آخر میں ک کا اضافہ کر دیا جاے تو
١﴾زوجک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارا شوہر﴿گوگل ٹرانسلیٹے﴾http://translate.google.com/#en/ar/Your%20Husband
۲﴾زوجک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارا جوڑا
۳﴾زوجک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارے ساتھ زندگی بسر کرنے والا
۴﴾زوجک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہاری جماعت
لیکن کہیں بھی اس لفظ کے معنی آپ کو بیوی کہ نہیں ملیں گے
وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ۔
اے آدم سکونت اختیار کرو تم اور تمہاری جنت کی جماعت اور جہاں سے جی کرے کھاو پر اس درخت کے قریب نا جانا ورنہ ظالموں میں شامل ہو جاوگے۔
آدم کا شوہر ہو نہیں سکتا اور بیوی کے لیے یہ لفظ ہے نہیں جبکہ حوا نامی کسی خاتون کا تذدرہ قرآن میں کہیں ہے نہیں۔
تو پھر کیا سمجھیں ہم؟
جناب کاشف خان صاحب !
1۔فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ(سورۃ البقرۃ:102)
ترجمہ: لیکن وہ لوگ ان سے وہ باتیں سیکھتے تھے جس سے میاں بیوی کے درمیان جھگڑاکرادیں۔
2۔فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ (سورۃ الانبیاء آیت نمبر 90)
ترجمہ: پھر ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا اور اس کے لیے اس کی بیوی کو درست کر دیا ۔
3۔ إِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّـهَ (سورۃ الاحزاب: آیت نمبر 37)
ترجمہ: جب تو نے اس شخص سے کہا جس پر الله نے احسان کیا اور تو نے احسان کیا :اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ الله سے ڈر۔
قرآن سے مزید مثالیں بھی بیان کرسکتا ہوں، فی الوقت تین مثالوں پر اکتفاء کرتا ہوں، جہاں لفظ “زوج” بیوی کیلئے استعمال ہوا ہے، یہاں کہیں بھی لفظ “زوجۃ” استعمال نہیں ہوا۔ لفظ زوج عربی زبان میں شوہر اور بیوی کیلئے مشترک ہے، فرق اتنا ہے کہ لفظ “زوج” کی اضافت جب کسی مذکر اسم یا مذکر ضمیر کی طرف ہوگی تو لفظ “زوج” کا یقینی معنی “بیوی” ہی ہوگا، اور اسی طرح لفظ “زوج” کی اضافت جب کسی مؤنث اسم یا مؤنث ضمیر کی طرف ہوگی تو اس وقت لفظِ “زوج” کا معنیٰ “شوہر” ہوگا۔
ابھی آپ نے آدم کیلئے قرآن میں جمع کے صیغے کے استعمال کی مثال تو بیان کی نہیں، اور ایک اور نیا مغالطہ داغ چھوڑا ہے۔
جو حضرات جراتِ تحقیق پر تبصرے کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جراتِ تحقیق پر لکھنے والے اسلام کے بارے میں کماحقہٗ معلومات نہیں رکھتے یا علوم دینیہ سے ناواقف ہیں تو وہ اپنی غلط فہمی دور فرمالیں۔
کاشف صاحب بس کر دیں یار یہ گوگل دیکھ دیکھ کے خود تو پاگل ہوگئے ہمیں بھی پاگل کر دینگے۔ اگر کسی چیز کا نہیں پتہ تو آرام سے سمجھنے کو کوشش کریں۔ مجھے تو شک ہے کہ آپ ضرور قرآن کا کوئی غلط ورجن استعمال کر ریے ہیں۔
پلیز میرے باتوں کا برا مت مانئے گا۔
Mea lanat bejta ho tum par or fikray parweez say mutasar logo par or mea musalman ho or mea hargez fikray parweez say mutasir nahi,abu hukam meriy elfaaz tumy satahe he lagy gy Q k mea ny tumary bary mea sahi idea lagaya hai
abu hukam and alama ayaz nazami and jo jo b parweezi hai tu sbko sharam say doob marna chayi,Q K Mothram Asif Bhatti and Umair Shaib ny tum ko laa jawab kar dea hai tumari okat kea hai k tum QURAN jesi azeem or mukadas ketab ka 1 lafaz b samj sakho Allah pak ny tumy etni tofeek he nahi de k tum QURAN PAK ko samj sakho mujy pata hai tum ab b nahi mano gy hala k tumy asif sb or umair sb say mukamal jawab meal gea hai os din ko yaad karo jb tum dozakh ke agg mea jal rahy ho gay or tum par sakat azab ho ga or koe be tumari madad k leay nahi ho ga or tumara khabees parweez b tumary saat he ho ga ab b time hai ALLAH pak say toba kar k musalman ho jao Allah boht mehrban hai agar tum kholos e dill say mafi mango gy tu wo tumy maaf b kar sak ta hai agar tum samjo tu tumary ley yehe behter hai
tamam peerwezo ko mera pegaam hai agar tum ALLAH pak ke madad dekhna chahty ho tu mery saat mery saat chalo mea tumy dekata ho k jo musalman ALLAH pak par barosa kar ty hai tu ALLAH kesy onke madad kar ta hai or kis kis tara apny wajood ka yakeen delata hai agar hemat hai tu chalo mery saat INSAALLAH wapise par tum musalman ho gy mujy yakeen hai tum log meri baat par goor karo gy
بھائی ابوبکر،جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں آپ بس دیکھو ہم ہیں نہ مسلمان،ان ”پرویزیوں” اور دہریوں کی ایسی کی تیسی،انہیں سبق سکھا دینگے آپ فکر نہ کرو،بس لعنت بھیجتے رہو، پرویزیوں اور ملحدوں پر لعنت بے شمار،باقی کام ہم کر لیں گے،کیوں بھائی آصف بھٹی
ایک لطیفہ یاد آگیا سوچا شئیر کر دوں کہ یہاں برمحل نظر آتا ہے،
ایک دھان پان شخص کو ایک پہلوان نے تھپڑ جڑ دیا، دھان پان شخص تلملا اٹھا اور بولا "اب کی مار کے دیکھ”
پہلوان نے ایک اور تھپڑ، پہلے سے بھی زور دار جڑ دیا۔ وہ بندہ چند قدم پیچے ہٹا اور بولا "اب کی مار کے دیکھ”
پہلوان نے ازراہِ تفنن ایک اور ہاتھ رسید کر دیا۔ ۔ ۔ غرض وہ بندہ مسلسل تھپڑ کھاتا رہا اور پیچھے ہٹ کے غصہ دکھاتا رہا جسکے نتیجے میں مزید پڑتی رہیں۔ ۔ ۔
آخر کار وہ بندہ اپنے گھر کے دروازے تک پہنچ گیا اور پھر پہلوان کو دعوتِ مبارزت دی کہ "اب کی مار کے دیکھ”
پہلوان نے حسبِ معمول تھپڑ جڑا تو جلدی سے گھر میں گھس کے کنڈی لگا دی اور اندر سے آواز لگائی "اب کی مار کے دیکھ بدمعاش”۔
چلو سارے قرآنی فکر کے بھائیوں راجہ ابوبکر کی طرف سے ہم بھی تمام پرویزیوں پر لعنت بھیج دیتے ہیں،کیوں آصف بھٹی، شاہ بابا و دیگر صاحبان؟مل کر لعنت بھیجتے ہیں پرویزی فرقے پر۔۔
محترم جناب ابو الحکم اور ڈاکٹر منیب صاحب !
میرا آپ دونوں سے ایک سوال ہے کہ آپ دونوں کے نزدیک کسی بات یا دلیل کے صیح یا غلط ہونے کا کیا معیار ہے؟ عقل یا کوئی الہامی کتاب ؟
جواب ضرور دینا۔
شکریہ
علامہ ایاز نظامی صاحب،
آپ نے آیات شیر کرواییں ان میں سے شروع کی دو آیات میں تو واضع طور پر لکھا ہے ۔زوجة۔ جسکے یقینا بیوی ہی ہے اس سے تو میں اختلاف کیا ہی نہیں آپ میرا پجھلا کمنٹ پڑھ سکتے ہیں۔
اور رہی بات بات تیسری آیت کی تو اس میں زوجة کا لفظ نہیں بلکہ زوجک کا لفظ آیا ہے۔ جسکہ معنی ہیں تمہاری ساتھ جڑے ہوے
معنی جاننے کے لیے دیکھیں
http://www.arabdict.com/english-arabic/%D8%B2%D9%88%D8%AC
http://www.almaany.com/home.php?language=arabic&word=%D8%B2%D9%88%D8%AC&lang_name=English&type_word=2&dspl=0
عربی زبان کا ایک اصول ہے کہ اگر کسی چیز کے نام کے آخر میں کاف﴿ک﴾کا اضافہ کر دیا جاے تو اسکا مطلب ہو گا کینے والا سننے والے کی ملکیت ظاہر کر رہا ہے۔اور اگر آخر میں ۔ی۔ کا ضافہ کر دیا جاے تو معنی ہونگے کہ کہنے والا چیز پر حق ملکیت ظاہر کر رہا ہے۔
مثلا
کتاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتاب
کتابک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہاری کتاب
کتابی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری کتاب
اسی طرح
زوجة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیوی
زوجتک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہاری بیوی
زوجتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری بیوی
اسی طرح
زوجة خاص ہے بیوی کےلیے ہےجبکہ زوج ایک وسیع المعانی لفظ ہے مثلا زوج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شوہر
زوج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جوڑا
زوج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کویی دو ایک جیسی چیزیں جو آپس میں ایک دوسرے سے جڑی ہوی ہوں یا جن کا آپس میں تعلق یا رشتہ ہو،
اسی طرح اس تیسری آیت میں لفظ زوجة کا استعمال نہیں ہوا بلکہ زوجک کا لفظ آیا ہے لہذة اس کا معنی ہوگا تمھارے ساتھ جڑے ہوے یا تمہارے ساتھ والے۔
آدم کو خدا کہتا ہے تم آپس میں ایکدوسرے سے لڑ پڑے تھے آپس میں تو تب ہی لڑیں گے جب ایک سے زیادہ ہونگے۔
ایک اور بھی اصول ہے عربی زبان کا کہ اس میں اردو اور دیگر زبانوں کی طرح صرف واحد جمع نہیں ہوتا بلکہ ایک تیسری چیز بھی ہوتی ہے جسے جو دو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور تین یا تین سے زیادہ کے لیے جو صیغہ استعمال ہوتا ہے اسے جمع کہتے ہیں اگر ہم فرض کر بھی لیں کہ آدم اور اسکی بیوی کا آپس میں جھگڑا ہوا بھی تھا تو اس پوری آیت جو صیغہ استعمال ہوا ہے نا تو وہ واحد کا ہے اور نا ہی ثالث یعنی دو کے لیے بلکہ اس میں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے یعنی تین یا تین سے زیادہ۔
محترمی جناب کاشف صاحب !
آپ کے اس جواب میں زبان فہمی کے لحاظ سے اتنی اغلاط ہیں کہ میں ان کا جواب دینا ہی مناسب نہیں سمجھتا،
آپ نے لکھا تھا کہ :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"تو پھر یہ زوج کیا ہے؟
بیوی کو عربی میں زوج نہیں زوجة کہتے ہیں
جبکہ تمہاری بیوی کو عربی میں زوجتک کہا جاتا ہے زوجک نہیں۔”
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جس میں آپ نے واضح لکھا ہے کہ ” بیوی کو عربی میں زوج نہیں بلکہ زوجۃ کہتے ہیں” میں نے جو آیات پیش کی ہیں ان میں لفظ "زوج” بیوی کے لئے ہی استعمال ہوا ہے۔ اب آپ کو لفظ "زوجۃ” اور "زوجہ” میں فرق ہی نہیں معلوم اور خود کو صحیح ثابت کرنے کیلئے مزید غلطیوں پر غلطیاں کر رہے ہیں۔
میں نے قرآنی امثال سے آپ کے دعویٰ کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ اب نہ جانے آپ کو اپنی غلطی کے اعتراف میں کیا چیز مانع ہے۔ الٹا آپ مجھے عربی زبان کی مبادیات پڑھانے بیٹھ گئے ہیں، اور وہ بھی غلط۔
dr muneeb ahmed sahil app ka bpht sukrea ALLAH Pak app ko azet day ameen,and Abu jahel tum ny wo mesaal b suni hoo ge NACH NA JANY ANGAN TERA es time tum par lanat k saat ye mesaal b boht achi fit aa re ai ab koe or lateefa soch kar rakho MASKHARY
AND abu jahel plzzzzzzzzzzzzz mind zaror karna
علامہ ایاز نظامی
محترم آپ براہ میربانی آپ ان لنکس کو چیک کریں پہلے اسکے بعد اعتراض اٹھایے گا۔
زَوْجَكَ
http://translate.google.com/#auto/en/%D8%B2%D9%8E%D9%88%D9%92%D8%AC%D9%8E%D9%83%D9%8E
زَوْجَهُ
http://translate.google.com/#auto/en/%D8%B2%D9%8E%D9%88%D9%92%D8%AC%D9%8E%D9%87%D9%8F
یہ بہت عام فہم تراجم ہیں۔
جناب جب ہم آپ کو مسلمانوں کی لکھی ہوئی ہی کسی تفسیر یا حدیث کی کتاب کا حوالہ دیتےہیں تو آپ برا مان جاتےہیں، اور آپ مجھے "google translater” کا حوالہ دے رہے ہیں، جناب کوئی لسان العرب، الصحاح، المعجم الوسیط یا المنجد کی بات کریں۔ تھوڑے بڑے ہوجائیں اب۔ 🙂
اجی علامہ نظامی صاحب، گوگل کی عربی اور انٹرنیٹ کے عربی دانوں سے کہاں ماتھا پھوڑ رہے ہیں۔ ۔ ۔
آپ نے فرمایا تھا کہ "لفظ زوج عربی زبان میں شوہر اور بیوی کیلئے مشترک ہے، فرق اتنا ہے کہ لفظ “زوج” کی اضافت جب کسی مذکر اسم یا مذکر ضمیر کی طرف ہوگی تو لفظ “زوج” کا یقینی معنی “بیوی” ہی ہوگا، اور اسی طرح لفظ “زوج” کی اضافت جب کسی مؤنث اسم یا مؤنث ضمیر کی طرف ہوگی تو اس وقت لفظِ “زوج” کا معنیٰ “شوہر” ہوگا۔"۔
اور یہی بات کاشف خان صاحب کی "انٹرنیٹی” عربی بھی تسلیم کرتی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
اور
اوراسی ڈکشنری کے مطابق زوجک کا ترجمہ جملے میں ملاحظہ فرمائیے
گوگل کے مطابق
اب جانے کاشف خان صاحب کا اصرار کیوں آدم کا ایک عدد شوہر ثابت کرنے پر ہے۔
میرا اصرار اس وجہ سے ہے کہ جس آیت میں آدم کو جنت سے نکلنے کے لیے کہا جا رہا ہے وہاں نا تو صیغہ واحد استعمال ہوا ہے اور نا ہی صیغہ ثالث بلکہ وہاں صہغہ جمع یعنی تین یا تین سے زیادہ استعمال ہوا ہے تو اگر آپ اسی بات پر بضد ہیں کہ جنت سے صرف آدم اور اسکی نا معلوم بیوی جسکا نام تک قرآن نہیں بتا رہا تو پھر وہ تیسرا کون ہے جسے جنت سے بے دخل کیا جا رہا ہے جبکہ یاد رہے کہ بے دخل کیے جانے والے جملے میں مخاطب ابلیس نہیں بلکہ آدم اور اسکی زوج ہے۔
اگر ہم آپ کے اصرار پر یہ مان بھی لیں کہ آدم اور اسکی نا معلوم بیوی کو جنت سے نکلنے کے لیے کہا گیا تو بھر وہ تیسرا یا جوتھا کون ہے جو انکے ساتھ جنت سے رخصت ہو رہا ہے اس آیت کے مطابق؟؟؟
اسلام – اللہ -رسول – ہدایت
کے بارے میں آپکے خیالات نادر ہیں اور بہت فکر انگیز ہیں – آپ کے مضمون کا عنوان "شیطانی کلمات” کا جو تجزیہ آپنے کیا ، آپکے اپنے معیار کے خلاف ہے اپنے غور کیا ؟؟؟ اس مضمون میں آپنے قاری کے ساتھ وہی خیانت کی ہے جو آپکے خیال میں اللہ نے اپنے ماننے والون کے ساتھ کی- شیطانی کلامات کیلئے آپنے جبرئیل ع پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر تو برابر گفتگو کی لیکن سلمان رشدی ملعون نے کیا لکھا ہے کہا ہی نہین صرف نتیجہ بیان کردیا کہ جو بات مفسرین نے لکھی سچ تو سلمان رشدی ملعون لکھے تو غلط کیون-
ظالم ‘بدترین ‘ اخبث قسم کے انصاف کے تقاضہ کو بھی پورا نہ کیا آپنے فیصلہ طئے کرنے قبل-
نظام حیات حقیقی ‘ اسلام جو کہ بنی نوع انسان کی ہدایت کا سر چشمہ تو آپکو غلط اور افواہ ‘عقل کا اندھا پن دکھائی دیتا ‘ لیکن آپکا ناپاک انداز اور گمراہ کن طریقہ ضرور سچ نظر آتا ہے
نہ صرف بذات خود اپنے آپکے لئیے بلکہ اورون کیلئے بھی گمراہی بنتے اپکا شعور آپکو ملامت نہیں کرتا؟؟؟
ایسے مسائل پر جنکے علم کا آپکے پاس کوئی ذریعہ ہی نہین سوائے اسکے کہ اسلام کی تعلیمات پر انحصار کیا جاءے انکار کردیتے ہو اور حوالہ بھی انہی کتب سے؟؟؟ کسی اور ذریعہ کی معلومات سے چیلنج کریں نا
صرف اور گمراہ اور فاتر العقل باتین کرنا -اپنے دل کی ناپاکی اور فکر کی تباہی پھیلانا کیا مشغلہ ہے-
mazkor e bala surah hajj ki ayat 52 ka jo mafhoom aap ney liya hai wo rivayaat ki bunyaad par hai jo khabile etebar nahi. quraan ki ayat se mafhoom nahi nikalta. to yeh sari bahes bemani hia
محرم ذیشان صاحب!
اول تو آپ کا مقدمہ ہی درست نہیں ہے کہ ہم نے مذکورہ آیت کا جو مفہوم پیش کیا وہ درست نہیں ہے، یقیناً آپ علوم اسلامیہ اور عربی زبان سے واقف نہیں ہونگے، اس لئے میں اس بات کو یہیں چھوڑ دیتا ہوں۔
دوم: یہ مفہوم ہم نے اپنے گھر سے نہیں گھڑا ہے، آیت کا جو ترجمہ درج کیا ہے، وہ ترجمہ میں نے خود نہیں کیا، جو تفسیری بیان درج کیا ہے وہ ملحدین مفسر ین نہیں ہیں، بلکہ عالم اسلام کے انتہائی بلند پایہ کے "علماء کرام اور مفسرین عظام” ہیں، لہذا اگر ترجمہ درست نہیں اور روایات غیر معتبر ہیں، تو پہلے آپ ان مسلمان "علماء کرام و مفسرین عظام” کو پکڑیں جنہوں نے یہ غلط ترجمے اور غلط روایات اسلامی لٹریچر کے طور پر مسلمانوں میں پھیلایا ہوا ہے، اور انہیں نشان عبرت بنا دیں۔ جب آپ یہ فریضہ انجام دے لیں تو پھر ہمیں کہئے گا کہ "جناب! ہم مسلمان اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ آپ نے جو ترجمہ اور روایات درج کی ہیں وہ غلط ہیں، لہذا ان سے استدلال کرنا درست نہیں ہے”۔
First: aap ne sahi farmaya mai koi arbi zaban ka aalim nahi hoon balke ek adna sa talebelm hoon.
Second: aap ne farmaya ke yeh tafseer aap ne khud nahi ki balke aalame islam ke mumtaaz mufassirin ne ki hai. To aap ki khidmat mein arz hai ke yeh ulma aur mufassirin deen mein koi sanad nahi rakhte ke unke tafseer ki bina bar istidlal kiya jaye. aap pahel istedlal ki bunyaad tay karlen ke kis bina par istedlal kiya jasakta hai. aap kisi zanni cheez ka sahara lekar quran par kaise harf utaa sakte hain.
Third: agar aap yeh bataden ke quran ki ayat se yeh mafhoom kistarha nikalta hai to badi nawazish hogi
محترمی ذیشان صاحب!
تاخیر سے جواب دینے کیلئے معذرت خواہ ہوں۔ دیکھیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ میں یہ وضاحت کروں کہ اس آیت سے یہ مفہوم کس طرح نکل رہا ہے، میں نے وہی مفہوم لیا جو عالم اسلام کے ممتاز مفسرین و علماء کرام نے مفہوم بیان کیا، اگر آپ کے نزدیک اس آیت کا مفہوم بیان کردہ مفہوم سے مختلف ہے تو آپ وہ مفہوم بیان کر دیں، ہم عربی لغت کی روشنی میں اسے پرکھ سکتےہیں کہ عبارت اور مفہوم (یا ترجمہ) میں کتنی مطابقت ہے۔ جہاں تک بات ہے کہ اس آیت کے بارے میں میری ذاتی رائے کیا ہے، تو میری ذاتی رائے یہی ہے کہ عربی لغت اور روایات کی روشنی میں مفسرین کرام اور علماء حضرات نے بالکل درست مفہوم بیان کیا ہے۔
کیا سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات کا اردو ترجمہ مل سکتا ہے ؟
اس بلاگ پر سلمان رشدی کی کتاب ”شیطانی آیات“ کے اردو ترجمہ کا آغاز کیا گیا ہے، ترجمہ ابھی بالکل ابتدائی مراحل میں ہے، اگر کچھ مزید دوست ان کا ہاتھ بٹائیں اور کام تقسیم کرلیں تو ترجمے کا معیار بھی بڑھ جائے گا اور جلد مکمل بھی ہو جائے گا
https://razzaksarbazi.wordpress.com/
is tara k "Allaamay” har daur main paida hotay rahay haiN. aur un ki kharaafat ka jawab bhi diya jata raha fauran. Rangeela Rasool jaisi kitab k jawab usi daur main Maultana Sanaullah Amratsari nay day diya tha, agar koi chahay to mujhay likkhay main us ki PDF bhaijh dooN ga. aur idhar "Allama” sahib abhi tak lakeer peetay ja rahay haiN.
کیا صرف یہ بات کہہ دینا حقیقی اطمینان کیلئے کافی ہے کہ ”جواب دے دیا گیا ہے“ ؟ رنگیلا رسول کے مصنف نے آپ کی ہی معتبر کتابوں سے حوالوں کے ساتھ عبارتیں درج کی ہیں۔ اور یہ مقدس عبارتیں عوام الناس کے سامنے پیش کرنا ہی رنگیلا رسول کے مصنف کا سب سے بڑا جرم بن گیا، حالانکہ اصل مجرم تو انہیں قرار دیا جانا چاہئے تھا جن کی کتابوں میں یہ عبارات درج ہیں۔ رنگیلا رسول کے جواب میں لکھی گئی کتاب ”مقدس رسول“ میں سوائے تاویلات باردہ پیش کرنے کے فاضل مصنف مزید کچھ ثابت نہ کر سکے۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ ایڈمن کی عقل پر مکمل طور پر پردہ پڑ چکا ہے اب اس کو سمجھ ہی نہیں آتا وہ کیا لکھ رہا ہے کیا کہے رہا ہے
کسی کی عقل پر پردہ ڈالنا بہت مشکل کام ہوتا ہے اور اسے ہثانا نسبتا آسان کام ہوتا ہے، اگر ایڈمن کی عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے تو آپ بہت آسانی سے اسے ہٹا سکتے ہیں، کوشش کیجئے، کوشش کرنے میں کیا حرج ہے، بشرطیکہ آپ کی زنبیل میں بھی انوار الحق صاحب کی طرح صرف وعظ اور وعید نہ ہو۔
ارے او بدبخت تجھے یہودیوں کے قتل کی وضاحت ملی تم نے کہا کاپی پیسٹ کیا ہے۔ تجھے علمی وضاحت دینا میری بھول تھی جو مرتد ہوکر فخر کرے اس کی دماغی حالت کا عام جاہل انپڑھ گنوار بھی اندازہ کرسکتا ہے۔ بلکہ تجھے کسی بات کا جواب دینا بھی نری جہالت ہے۔ ۱۴00 سال کے بعد تم اور تیرا مرتد مرشد جس نے تجھے وسوسہ ڈال کر اپنا خدا سے کیا مزاکرا پورا کیا کہ تیرے بندوں کو جہنمی بناوں گا ہی صرف حقیقت جان سکے باقی کروڑوں لوگ مسلمان ہوکر تو صرف ایسے ہی رہے؟ اور جو انگریز لوگ مسلم بن رہے ہیں وہ بھی ایسے ہی ہیں؟ لعنتی کتنے لوگوں کو اپنے جیسا جہنمی بنانے میں کامیاب ہوا ہے؟ یا خود یا چند تیرے جیسے کچھ اور بس ۔ تو اب اپنے من کی آگ میں ہی جلتا رہے گا کہ میں اتنا علم جان کر بھی کسی کو قائل نہ کرسکا،اسلام سے منحرف نہ کرواسکا۔
دیکھ کروڑوں انسان دن رات خدا اور اس کے آخری پیارے رسولؐ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلیہ واصحابیہ وبارک وسلم پر ایمان رکتھے ہوئے یاد کرتے ہیں لیکن تجھے کن لفظوں میں کوئی یاد رکھتا ہے، کیسے کیسے القاب تجھے ملتے ہیں ، کوئی تجھے پلید کہتا ہوگا ، کوئی تجھے خنذیر، یہ میری شرافت ہے کہ میں تجھے صرف ابلس کا چیلا کہتا ہوں اور جس کسی سے بھی تیرا ذکر کرتا ہوں پہلے تو وہ حیران ہوکر مجھے دیکھتا ہے کہ اسے کیا ہوگیا ہے یہ کیوں جہنم کی کھڑکی کے قریب سے گزرتا ہے اور بعد میں تجھے ایسے ایسے القاب عطا ہوتے ہیں کہ ہنس ہنس کر میرے پیٹ میں درد بھی ہوتا ہے اور شرمندگی بھی ہوتی ہے کہ میں کس پیڑی ٹاکی کا ذکر کر بیٹھا۔
ایک جھوٹ کی تائید کرنے والے لوگ اگر کروڑوں کی تعداد میں بھی ہوں تو وہ تب بھی جھوٹ ہی رہے گا۔
غزوہ بدر کی پوسٹ پر آپ غزوہ بنو قریظہ کی صفائی پیش کرنے لگ گئے۔ ہر چیز اپنے مقام پر ہی مناسب لگتی ہے۔ یہودیوں کے قتل کی جو وضاحت آپ نے پیش کہ وہ محض جھوٹ کا ایک پلندہ ہے، خود اسلامی تاریخ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ غزوہ بدر یا بنوقریظہ جو بھی موضوع آپ منتخب کریں، متعلقہ پوسٹ پر کمنٹ کر یں، آپ کی تسلی کرانے کی پوری کوشش کروں گا۔ حالانکہ مجھے اندازہ ہے کہ آپ کا دلیل والا خانہ بالکل خالی ہے اور آپ کے ترکش میں سوائے دشنام طرازی کے نشتروں کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔
نظامی صاحب ! ترکش کسے کہتے ھیں اور یہ دشنام طرازی کے نشتر کیا ھوتے ھیں ؟۔
ترکش = تیز انداز کی کمر پر بندھا ہوا وہ ظرف جس میں تیر رکھے جاتے ہیں۔
دشنام طرازی = گالم گلوچ
شکریہ نظامی صاحب ! میں جاہل انسان، ترکش کا مطلب کھوپڑی،،،،دشنام طرازی کا مطلب بھینس، اور نشتروں کا مطلب گوبر سمجھا تھا۔۔۔اللہ آپ کو راہء ھدایت نصیب فرماۓ۔۔۔آمین۔
علامہ ایاز نظامی کس بات کا علامہ ہے ؟
یہ تو مرتد ہو
چکا ہے
لفظ علامہ پر کوئی مسلمانوں کی اجارہ داری نہیں ہے، ایک غیر مسلم بھی علامہ ہو سکتا ہے، اسلام کو اپنے ابتدائی دور سے ہی ایسے علاماؤں کا سامنا کرنا پڑا تھا، اور اس کے بعد بھی ہر دور میں ایسے جرات مند علامہ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے حقیقت کے آشکار ہو جانے پر اپنا دامن اسلام سے چھڑا لیا۔
دنیا میں کئی طرح کے بیمار لوگ ہوتے ہیں کوئی دل کا بیمار ،کوئی دماغی تو کسی کی روح بے چین رہتی ہے اور جسمانی بیماری بھی نفسیات کی بدولت عود آتی ہے، مگر کچھ ایسے بھی بیمار ہیں مثلاً کسی اعضا کا درست کام نہ کرنا جسم کے کسی حصے میں درد کاہونا کسی حادثے یا غفلت کی وجہ سے۔جسے مجھے کمر میں تکلیف ہوگئی اپنی غلطی کے باعث، کہ بتا چکا ہوں ایک مذدور ہوں اور اپنی استطاعت سے زیادہ وزن اٹھانے کی غلطی کربیٹھا وہ بھی ہیلپر (معاون ) جو کام کرنے کے لیے ملے ہوئے تھے وہ نوجوان بچے مگر زدگی کا غلط استعمال کرنے سے لاغر ہونے پر مجھے ان کے حصے کا وزن اٹھانا پڑا یعنی کام کرنے کے دوران اپنے معاون کی مدد کرتے ہوئےخود تھلیف میں مبتلا ہوگیا، یہ تو میری غلطی تھی ۔
تجھے لعن طعن کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں غلطی کررہا ہوں کہ بیماروں کی دوا کرنے کی بجائے انھیں اور اذیت دینا کہاں کی انسانیت ہے ؟ کیوں کہ میں عالم نہ تھا ایک انپڑھ مذدور تھا اس لیے سمجھنے میں تاخیر ہوئی، نتیجہ یہ نکلا کہ تم لوگ نفساتی ، دماغی ، اور عقلی بیمار ہو ، تمھارا علاج صرف اور صرف اس میں مضمر ہے کہ ایک وسیع وعریض کمرے میں بند کردیا جائے اور وہاں تم لوگ آپس میں اپنے دل کی بڑھاس اسلام کو کوس کر خدا کا انکار کرکے اور اسکے نبیوؑں کو جھٹلا کر نکالتے رہو تاکہ نفسیاتی طور پہ سیٹ سفائے ہوسکو، بہر حال یہ جو خود ساختہ علمی اور فکری سائیٹ بناکر اپنا دماغی غبار نکالتے رہتے ہو یہ بھی ایک وسیع و عریض کمرا ہی ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں کبھی کبھار کوئی باہر سے جھانک کر تمھیں چھیڑ کر لطف اندوز ہوتا ہے جیسے بے عقل وغیرہ ؛ جو سراسر اخلاق کے منافی ہے ، لیکن غلطی مجھ سے بھی ہوئی کہ تمھاری بیماری کا اندازہ کئیے بغیر تم لوگوں کو ڈسٹرب کیا، جس کے لیے معذرت خواہ ہوں اور دعا گو ہوں کہ کوئی ایسا طبیب میسر آئے جو تمھاری بیماری کی درست تشخیص کرکے علاج کرسکے اور میری نظر میں ایسا طبیب صرف عزرائیل ہی ہے۔
ایک اور بات میں اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں کہ تم لوگوں سے چھیڑ چھاڑ کرتا رہا ، لہٰذا آئیندہ ایسا نہیں ہوگا بلکہ تمھارے پاگل خانے کے قریب بھی نہ پھٹکوں گا ، لہٰذا جواب لکھنے کی زحمت نہ فرمائیں تو اچھا ہے ، لیکن اگر دماغ میں ہلچل مچے تو ازراہ غبار نکالنے کے کچھ لکھ سکتے ہو یہ تم پر منحصر ہے ۔ خدا تم لوگوں کی بیماری کا علاج کرنے کا کوئی وسیلہ پیدا فرمائے، آمین ثم آمین۔ وما علینا اللبلاغ :.
انوار جی ابی تو مزا آنا شروع ھوا تھا ۔جب تم ان کی دلیلوں کے جواب مین گالیان دیتے ہو تو مزا آجاتا ہے۔میں سوچ رہا تھا اب تم انہیں ماں بہن کی ننگی ننگی گالیاں دو گے تو اور مزا آۓکا۔ ابھی نا جاؤ چھوڑ کے کہ دل ابھی بھرا نہیں۔
ایک اور بات ان کو وسیع و عریض کمرے میں بند کرنے کی کیا ضرورت ہے۔یہ لوگ چھوٹے سے کمرے میں بھی تو دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔جواب ضرور دینا۔
حیران کن! جرات تحقیق کے دلائل اور انداز کے سامنے خدا کی قسم اس دور کے مولوی تو چھوڑو انبیا اور اولیا بھی کچھ بھی نہیں۔۔۔ پاکستان جیسے ملک کی حالت یقیناّ اس فرسودہ مزہب کی وجہ سے ہے۔
بات بڑی واضح ھے – قرآن کو غیر از قرآن سے سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ھے- آپ قرآن کے علاوہ دنیاے اسلام کی تمام کتب کو آگ لگا دیں اور پھر سوچیں کہ قرآن کا مطلب قرآن سے کیسے لیا جاے – آپکو پورا قرآن سمجھ آ جاے گا- اب یہاں سورہ حج کی آیت قرآن سے پہلے کی کتابوں کا زکر کر رہی ہے – قرآن کے ساتھ ایسا ہونا ناممکن ہے اسکی حفاظت خدا کے ذمہ ھے- خامخواہ ظنی اور گھڑی ہوئی تاریخ و احادیث سے قرآن کو مشکوک بنایا جا رہا ھے-
جناب اگر ہم نے قرآن کے علاوہ دنیائے اسلام کی تمام کتب کو آگ لگائی تو ہم پر توہین مذہب کا مقدمہ دائر ہو جائے گا، آپ ہمت کیجئے، ہم آپ کے ساتھ ہیں، اس کے بعد ہم ہرگز قرآن کو غیر قرآن سے سمجھنے کی کوشش ہرگز نہیں کریں گے۔
مذہبی اجارہ داروں سے نمٹنا کچھ مشکل نہیں ھے – کمال اتا ترک کی مثال ہمارے سامنے ہے – سعودیہ میں بھی آے دن مذہبی کتب پر بین لگتا رہتا ھے – باقی انٹرنیٹ کے زریئے بہت آگہی ہو رہی ھے – ایک غیر مسلم شخص جب مذاہب پر غور کرتا ھے تو اسلام کو ہی بہترین پاکر مسلمان ہو جاتا ھے تاہم ایک مسلمان مزید آگے بڑہتا ھے تو لامذہب ہو جاتا ھے – ایک لا مذہب ان مذہبی پیشواوں ، لمبی لمبی داڑیہوں اور جبہ دستار والوں سے بہرحال بہتر ہو تا ھے- اگر ایسے خیالات کا مالک برسر اقتدار آگیا تو ان جعلی مذہبی کتب کو ضرور آگ لگوائے گا- پھر خالص قرآن پر عمل درآمد کروانا ممکن ہو پایے گا- زنگ لگے لوہے کو چمکانا ھے تو پہلے ریگ مال تو رگڑنا ہی پڑےگا-
لامذہب انسان، سیکولر اور لبرل ہوتا ہے، سیکولرازم اور لبرل ازم کسی مذہب کا خاتمہ نہیں چاہتا، بلکہ مذہب کو ہر انسان کا ذاتی معاملہ قرار دیتا ہے۔ ہم مذہب کا خاتمہ نہیں چاہتے بلکہ ہر انسان کیلئے مذہب کو اختیار کرنے یا ترک کرنے کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ نیز ریاست اور مذہب کی مکمل علیحدگی پر یقین رکھتے ہیں۔ مذہب انسانوں کا ہوتا ہے ریاست کا نہیں، ریاست کا کام انسانوں کی فلاح و بہبود ہوتا ہے، ایک مذہبی ریاست کبھی بھی اپنی تمام رعایا کے درمیان مساوات اور انصاف قائم نہیں کرسکتی۔
آپکی بات صحیح ھے – دنیا کی ہر سیکولر ریاست تمام رعایا کو انکے مذہبی رسومات ادا کرنے کی آزادی دیتی ہے- امریکہ اور یورپ میں مسلمانوں کی ہزاروں مساجد ہیں وہ نمازیں پڑہتے ہیں روزے رکھتے ہیں – مگر یہ قرآنی اسلام نہیں ھے – اب اگر ایک سیکولر ریاست میں قرآنی اسلام کے حامل لوگوں کا گروہ اپنے دین کی آزادی چاہتا ھے تو کیا انکو آزادی مل جائیگی؟ – کیا وہ زنا کے مجرم کو 100 کوڑے لگا سکیں گے قاتل کوجان سے مارنے کی سزا دے سکیں گے ۔۔کسی قریبی ریاست میں لوگوں پر ظلم ہو رہا ھو اسکے خلاف جہاد کر سکیں گے – غرض قرآنی احکام اپنے نفاظ کےلئیے مسلمانوں کی اپنی حکومت مانگتے ہیں – چونکہ آپکے سامنے پوجاپاٹ والا جعلی اسلام ہے اسلئیے آپ سمجھے کہ یہ بھی اسی طرح کا مذہب ھے جیسے مثلا” ھندو سکھ عیسا ئی وغیرہ- حضرت عمر کو بعد سے لیکر آجتک یہی نقلی اسلام ہے جسکو مسلمان ادا کئیے چلے جا رہے ہیں اور پستیوں میں گرتے چلے جا رہے ہیں-
آپ کے کمنٹ سے معلوم ہو رہا ہے کہ قرآنی اسلام کا بنیادی مقصد ہے کہ زانی کو 100 کوڑے مارے جائیں، قاتل کو پھانسی پر چڑھا دیا جائے، اور اپنی پڑوسی ریاست پر چڑھ دوڑا جائے۔ انسانیت کی فلاح کا قرآنی اسلام میں کوئی روڈ میپ موجود نہیں۔
آپ سیکولر ریاستوں سے پہلے وہ ریاستیں جو اسلامی ریاستیں ہونے کی مدعی ہیں جیسے سعودیہ، ایران، پاکستان، اور سوڈان انہیں قرآنی اسلام کا نمونہ بنا لیں۔ پھر اس کے بعد سیکولر ریاستوں کو مشرف بہ قرآنی اسلام کرنے کی کوشش کیجئے گا۔
ایک فرق واضح کر دوں کہ ایک مذہبی ریاست میں انسان کے بجائے ایک تصوراتی خدا کے حقوق کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے جبکہ ایک سیکولر ریاست میں کسی تصوراتی خدا کی نسبت انسانوں کے حقوق اور فلاح کو اہمیت دی جاتی ہے۔
The book of Static Verses is collection of riwayat, which has been prescribed in Bukhari, Muslim, Abu Daud, Ibne Maja, etc. but quran is only sufficient authority if you know the real islam then please visit. www. islamicdawn. com
thanks & regards
محترم انوار الحق کے تبصرے پڑھ کر مومنین کے خلقِ عظیم کی حقیقت آشکار ہو جاتی ہے۔
جیسا کہ حافظ حمداللہ صاحب کے تذکرہِ شلوار سے ان کی جنس زدہ شخصیت کا پردہ چاک ہوا۔
کچھ کتے پٹے دار ہوتے ہیں حالانکہ وہ انتہائ خونخوار شباہت والے ہوتے ہیں اور طاقت ور بھی مگر کچلا ﮈالنے والوں سے اپنے پٹے کی وجہ سے بچ رہتے ہیں .
اگر میری بات سر سے گزر جاۓ تو ایک کے کئ نام یہاں موجود ہیں جو وقتا فوقتا جب کوئ گردن سے پکڑنے لگے تو اس کو دشنام وغیرہ فلسفے میں الجھا دینے کے لیے ہر طرف سے حملہ آور ہوتے ہیں وہ باآسانی تجھے سمجھا دےگا.
مثلا”
اینﮈرسن شاہ
گینﮈرسن شاہ
ایان شاہ
بہتان شاہ
غلام فضول
الامہ صاحب
وغیرہ وغیری نتھو خیرا.
لگتا ہے کہ جرات تحقیق کی تمام تر تحقیقی تحریروں کا آپ کے پاس یہی جواب ہے کہ ایک ہی شخص مختلف ناموں سے یہاں مضامین لکھ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ہی مصنف کو کیا فائدہ کہ مختلف ناموں سے تحریریں لکھے؟ بہرحال یہ مومنین کا پرانا وطیرہ ہے کہ اصل موضوع پر توانائی صرف کرنے کے بجائے non issues کو موضوع بناتے ہیں۔
ہا ہا ہا ہا اوہ اوہ ہو ہو ہو.
مزا آگیا الامہ صاحب
مجھے جناب انوار صاحب یاد آگۓ ہیں
غالبا جنھوں نے بنو قریضہ کے متعلق چار گھنٹے میں کسی غیر مسلم انگریز کی کتاب کیا نام تھا? خیر چھوڑیں نام میں کیا رکھا ہے سے اردو میں کسی انگلش جاننے والے سےترجمہ کرایا اور لکھا جس پر یہاں ایک آپکا خواری بے عقل یا شائد آپ خود ہی کئ ناموں سے بسرپیکار ہیں نے خوب انھیں سیخ پا کردیا جس پر موصوف نے پتا نہیں کتنی بار لعنت لکھ کر نوازا تھا . شائد آپ نے شمار بھی کیا تھا. پھر آپ ہی کے مرشد شاہ نے سائبر بم کہا اور خدا سے جلد پٹھنے کی دعا بھی کی جو میرے لیے کسی درویش کی کرامت سے کم نہ تھی کہ ملحد کو خدا یاد کرادیا.
مجھے گاہ بگاہ آپ کی سائیٹ پر اسلام کے حلاف لکھے تمام مواداور اس کے رد میں لکھے جواب پڑھنے کا شرف حاصل ہوتا رہتا ہے اور نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ آپ جنھیں بندہ ایک کے کئ نام سمجھتا ہے ہر طرف سے پے درپے حملے کرکے اشتعال دلواتے ہیں اور جواب میں جب پیارے پیارے کلمات پیش ہوتے ہیں تو مظلوموں ,یتیموں کی طرح شکوے شروع ہوجاتے ہیں.
کتنی نا انصافی ہے کہ آپ صرف اسلام کو تختہ مشق بناۓ ہوۓ ہیں .
یوں لگتا ہے جیسے آپ ان کفار کی باقیات ہیں جنھیں اسلام نے نیست نابود کیا اور آپ اس کا بدلہ سائیبر کے ﺫریعے لے رہے ہوں یا اپنے روزگار کے حصول کے لیے ﮈالروں کے عوض یہ مﺫدوری کررہے ہوں.
مسلمانوں کو اشتعال دلانا تحصیلِ حاصل ہے، اس لئے ہمیں کیا ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو اشتعال دلائیں، مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لئے ان کا مذہبی لٹریچر بشمول قرآن و حدیث ہی کافی ہے۔
یہ اپنی اپنی نظر ہے کہ آپ کو، انوار الحق صاحب کو ایندرسن شا کے ذکرِ خدا میں، خدا کی شان نظر آتی ہے، اور مجھے محض حسِّ مزاح۔
مسلمانوں کے ایمان کے مطابق دنیا میں جو کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے وہ سب حکم خداوندی ہے، آپ ملحدین کی اس ”سائبر بدمعاشی“ کو بھی مشیت خداوندی ہی سمجھئے۔
اسی مشیعت الہی کے تحت ہی آپ کےمغایر کے رد عمل پر آپ کو مغلظات سے نوازا جاتا ہے جس کے آپ مستحق قرار پاۓ ہیں.
گویا آپ نے تسلیم کیا دشنام طرازی امر ربانی ہے، اچھا خدا ہے آپ کا 🙂 اور ثابت کیا کہ مغلظات مومن کی میراث ہے۔
سلام
جناب مکرمی و محترمی علامہ ایاز نظامی صاحب
ناچیز نے کچھ دوستوں سے آپکی تحریروں کے متعلق سنا تھا کہ انتہائ گستاجانہ ہیں . مجھے یقین نہ آیا کہ ایک مسلمان عالم اپنے دین سے نکل سکتا ہے اور اسی دین کے درپے ہوسکتا ہے.
البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ کسی شخص سے آپ کی رفاقت ہو اور کسی مفاد پر اختلاف ہونے پر آپ لب بام اس پر تنقید کرتے ہیں لیکن دین چھوڑنے پر, کہ وہی دین منحرف کے ماں باپ کا ہو کو گھٹیا کہنا شروع کردے.
ایسا کرنے پر آپ اپنے ماں باپ کو بھی رسوا کرتے ہیں اور اپنے ماں باپ کو کوئ بےدین بھی برا نہیں کہتا.
بہر حال یہ آپ کا ﺫاتی فعل ہے کہ اپنے اباواجداد جو کہ مخبوط الحواس یا جاہل نہیں تھے کہ آپ ان کےدین سے پھر گۓ ہیں اور اسی دین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں . ایسا کرنے سے کیا آپ کے ماں باپ پر سوالیہ نشان نہیں لگتا?
امید ہے اپنے ضمیر کی آواز سنتے ہوۓ اپنی روش پر غور فرمائیں گے.
جناب افتخار صاحب
و علیکم سلام !
آپ کے اس قانون کا اطلاق صرف میری ذات پر ہوگا یا دنیا کے ہر اس شخص پر اس کا اطلاق ہوگا جس نے اپنے ماں باپ کے دین کو ترک کر دیا ہو، اور ماں باپ کے دین پر تنقید کرتا ہو ؟
جناب محترم
آپ کا اشارہ بت پرستی کے دین کو ترق کرکے اپنے اباؤ اجداد کے دین کو برا کہنے والوں کیطرف ہے غالبا?
علامہ ایاز نظامی نے کہا:
May 7, 2016 at 11:33 pm
آپ کے کمنٹ سے معلوم ہو رہا ہے کہ قرآنی اسلام کا بنیادی مقصد ہے کہ زانی کو 100 کوڑے مارے جائیں، قاتل کو پھانسی پر چڑھا دیا جائے.
جناب علامہ ایاز نظامی صاحب آپ نے جو جواب لکھا ہے اس پر نیچے لکھے ہوۓ سوال کا جواب بھی مرحمت فرمائیں.
کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ آپ کی بیٹی یا بہن کی کوئ آبروریزی کرے اور اسے سزا نہ ملے?
کیا آپ اپنے باپ, بھائ یا بیٹے کے قاتل یا اپنی بہن یا بیٹی کو حوس کا نشانہ بناتے ہوۓ مزاحمت پر قتل کردے تو اسے سزا نہ ہو اور اگر ہو تو کس نوعیت کی?
جناب علامہ ایاز نظامی صاحب گستاخی کی معافی چاہتا ہوں.
ایک نقطہ غلط پڑ گیا ہے (گستاخانہ) خ کی بجاۓ (گستاجانہ)لکھا گیا ہے جس کی تصحیح ضروری تھی ,ورنہ ایک نقطہ محرم کو مجرم بنا دیتا ہے.
افتخار صاحب !
پہلے جو میں نے بات کہی ہے اسے سمجھئے کہ میں نے کیا کہا ہے۔ آپ کی بات کا جواب تو بعد میں دیا جائے گا کہ آپ پہلے یہ بتایئے کہ آپ کی نظر میں بھی نظریہ اسلام فقط یہ ہے کہ ”زانی کو 100 کوڑے لگا دیئے جائیں، قاتل کو پھانسی پر چڑھا دیا جائے، اور اپنی پڑوسی ریاست پر چڑھ دوڑا جائے“ کیا آپ hassan صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں ؟
آپ نے جواب دینا شائد مناسب نہیں سمجھا.
میرا سوال اپنی جگہ قائم رہے گا.