انسانی حقوق کے کام کا مقصد بہت سادہ ہے- اور وہ یہ کہ دنیا میں ہر شخص عزت اور وقار کی زندگی گزارے- سوال یہ ہے کہ یہ مقصد کیسے حاصل ہو؟
آرام دہ محفوظ زندگی بسر کرنے والوں کے لیے جو چیز بامعنی ہو سکتی ہے، ممکن ہے کہ معاشرے کے پسماندہ لوگوں کیلیے اس کا کوئی مقصد ہی نہ ہو- اس مسئلے کا احساس اپنے کام کے دوران مجھے ہر روز ہوتا ہے- دو الفاظ مجھے اس مسئلہ کے حل میں بہت مدد دیتے ہیں- پہل لفظ "احترام” یعنی ہر ایک کے نقطہ نظر کو سننا اور سمجھنا، اور دوسرا لفظ ہے "ذمہ داری”- اپنے حقوق کا حصول اور ان کے ساتھ ذمہ دارانہ طور پر زندگی بسر کرنا تاکہ کسی دوسرے کی حق تلفی نہ ہو-
(میری رابنسن، انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کی سابقہ ہائی کمشنر)
کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے حقوق کیا ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ڈیڑھ سو سے زائد حکومتوں نے یہ معاہدہ کیا ہے کہ ہر ایک کو زندہ رہنے کا حق ہے، کہ لوگوں کو ایک اصولی مقدمہ کے بغیر بند نہیں کیا جا سکتا، کہ آپ کوئی بھی مذہب اپنانے کیلیے آزاد ہیں اور بہت کچھ؟ ۱۹۴۸ میں دنیا بھر کی حکومتیں جنیوا میں اکھٹی ہوئیں اور انسانی حقوق کے عالمی منشور پر متفق ہوئیں- انسانی حقوق کے عالمی منشور کی ۳۰ دفعات زندگی کے معنی اور اس کی اقدار بیان کرتی ہیں- یہ صرف جنگ زدہ علاقوں یا دور افتادہ جابرانہ آمریت کے شکار لوگوں کیلیے نہیں ہیں- یہ ہمارے بارے میں ہیں- جس طرح ہم اپنی زندگیاں گزارتے ہیں-
سوال اٹھتا ہے کہ انسانی حقوق کو نافذ کیسے کیا جائے؟ ظاہر ہے کہ انسانی حقوق کے لی، صنفی، لسانی یا مذہبی امتیاز کے بغیر حاصل ہونا چاہئیے- یہاں ہم مکمل منشور پر گفتگو کے بجائے اس کی تین دفعات پر بات کریں گے- جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱- ہم سب آزاد اور برابر ہیں-
۲- سوچنے کی آزادی-
۳- اظہار رائے کی آزادی-
"سب انسان آزاد پیدا ہوتے ہیں اور سب کے حقوق ایک جیسے ہیں- ہر شخص سوچنے کی قوت اور ضمیر رکھتا ہے- اس لیے اسے ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کا رویہ رکھنا چاہئیے-”
زمانہ قدیم سے لوگ باگ اور کئی جگہ گروہ یہی سمجھتے رہے ہیں کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ عقلمند، سمجھدار، تہذیب یافتہ، خوش شکل اور خوش مزاج وغیرہ ہیں- یہ ایک غیر منطقی اور مبنی بر تعصب سوچ ہے- کوئی کسی سے بہتر نہیں- فطرت کے اصول کے مطابق تمام انسان برابر ہیں- ہم سب برابر ہیں- ہم ایک دوسرے سے، ایک معاشرہ یا ایک تہذیب دوسرے سے منفرد اور مختلف ہو سکتی ہے، بلکہ ہر موجود میں کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جو اسے دوسروں سے منفرد بناتی ہے- انسان اپنی زندگی کے ہر دور میں انسان رہا ہے- تمام انسانیت ایک خاندان ہے- ان میں برتری و کم تری کی تعلیم خود غرضی کا پیش خیمہ ہے- فطرت ساری انسانیت کو ایک گردانتی ہے- معاشرہ میں ہر ایک، دوسرے سے برابر کی نسبت رکھتا ہے- ایسا نہیں ہوتا کہ ایک فرد یا گروہ تو منتخب و محبوب ہو، اور باقی سب کم تر و ملعون- تاریخ کا تنقیدی جائزہ یہی ظاہر کرتا ہے کہ انسان کو انسان سے نفرت کرنے کا سبق سکھانے کے نت نئے بہانے دراصل بیمار ذہنوں کی پیداوار ہیں-
"تمام انسانیت ایک خاندان ہے، جس میں نہ تفریق ہے نہ امتیاز- اس میں تفریق و امتیاز پیدا کرنے والے انسان دوست نہیں کہلائے جا سکتے-”
(جون ایلیا)
آپ سوچ رہے ہو گے کہ جب دنیا میں اتنا فساد، انارکی، جنگ وغیرہ جاری ہیں تو ایسے میں اس بات کو کیسے منوایا جا سکتا ہے؟ ہمیں کسی سے کچھ منوانے سے غرض نہیں ہے اور نہ ہی ہونی چاہئیے- ہم لوگوں کو ایک دوسرے، اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام صرف تعلیم اور باخبر کر کے ہی سکھا سکتے ہیں- ہر انسان کی نشوونما میں ثقافتی اقدار (جس کا تعلق تہذیب و تمدن، اخلاق و کردار، رسم و رواج، علوم و فنون وغیرہ سے ہے) اہم کردار ادا کرتی ہے- اگر ہم اپنے حقوق اور اپنے ہی جیسے انسانوں کو انسان سمجھنے لگ جائیں، اور یہ جان لیں کہ وہ بھی اتنے ہی حقوق رکھتا ہے جتنے کہ ہم، تب ہم نہایت سکون سے امن سے نہ صرف اکھٹے رہ سکتے ہیں- بلکہ ثقافتی، تہذیبی، مذہبی، لسانی وغیرہ جیسے تعصب سے بھی جان چھڑا کر ایک پر امن فضا قائم کر سکتے ہیں- اگر ہم ایسا سمجھنے میں غلطی کر دیں یا ناکام ہو جائیں یا دوسروں کو وہ حقوق دینے کو تیار نہ ہوں جو خود اپنے لیے چاہتے ہیں، تب ہم اپنے معاشرہ کی بنیاد کو کھوکھلا کر رہے ہیں- اور انسانیت کی قبر کھود رہے ہیں اور معاشرہ کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں- کیونکہ خود کو سب سے بہتر سمجھ کر (انفرادی و اجتماعی طور پر) ہم انسانی عالمگیر اقدار میں کہ جس کی بنیاد اخلاقی اقدار پر رکھی گئی ہیں، ہم تمام انسانیت کی نفی کر رہے ہیں- جب تک ہم سب کو برابر اور آزاد نہ سمجھیں گے، ہم مل جل کر انسانی ناطے کے طور پر پرسکون اور خوشگوار زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہو سکتے- لہذا اپنے معاشرہ کو پرامن گہوارا بنانے کیلیے ہر ایک انسان کے حقوق و فرائض کی پاسداری لازمی ہے۔
۲- سوچنے کی آزادی:
"ہر ایک کو حق ہے کہ وہ جو چاہے سوچے اور جو چاہے عقیدہ اختیار کرے- اگر چاہے تو اپنی رائے یا عقیدہ تبدیل کر لے، اپنے احساسات کے مطابق عبادت کرے، اس کی تبلیغ کرے اور جس طرح جانے اپنے مذہبی تہوار منائے اور ان کو منظم کرے-”
"ان سب لوگوں کے بارے میں سوچیں جنہوں نے اتنے سارے نئے خیالات دیے، چاہے وہ دنیا کی تخلیق کے بارے میں تھے یا مرنے کے بعد کی زندگی کے بارے میں، یا ایک ملک کو چلانے کے بہترین طریقے کے بارے میں- کون صحیح ہے؟ ہم کیسے جان سکتے ہیں؟ ان سوالوں کا کوئی صحیح یا غلط جواب نہیں ہے- تو پھر کیا لوگوں کو ان کے عقیدے کی بنیاد پر سزائیں دینا غلط نہیں ہے؟ کسی کو اپنے مذہب کی پیروی سے روکنا غلط نہیں ہے؟ لوگوں کو اپنی سوچ کی وجہ سے اذیت اٹھانا پڑی ہے، یہ کب ختم ہوگا؟”
معروف انتھرو پالوجسٹ یوسف شاہین لکھتے ہیں:
"۳ اپریل ۱۹۳۹ ع کو ضلع حیدرآباد کے ایک چھوٹے سے شہر نصرپور میں میرا جنم ہوا- اس وقت دنیا میں فیصلے مسلط کرنے کا رواج عام تھا بلکہ یہ عمل ہمارے کلچر کا حصہ بن چکا تھا- میرے دادا نے میرے کان میں اذاں دے کر مجھے مسلمان قرار دے دیا- حالانکہ اصولی طور پر مجھے یہ حق ملنا چاہئیے تھا کہ میں بالغ ہونے کے بعد چھان بین کر کے اپنی سمجھ اور مرضی سے کوئی ایسا مذہب قبول کرتا جسے میں خود صحیح سمجھتا- چاہے وہ مذہب اسلام ہی کیوں نہ ہوتا- میرے دادا نے اپنے مذہب کو جس طرح مجھ پر مسلط کیا وہ طریقہ انتہائی قابل اعتراض، غیر جمہوری اور آمرانہ تھا- افسوس یہ ہے کہ آج ساری دنیا میں تمام لوگ اس آمرانہ اور غیر جمہوری پالیسی کا شکار ہیں- عیسائی کے گھر پیدا ہونے والا عیسائی بنا دیا جاتا ہے- ہندو کے گھر پیدا ہونے والا ہندو کر دیا جاتا ہے- یہی حالت یہودیت، بدھمت اور دوسرے مذاہب کی ہے- حد تو یہ ہے کہ کوئی بھی شخص مسلط کردہ مذہب کو چھوڑ نہیں سکتا- تقریبا” تمام مذاہب نے اس کی سزا موت رکھی ہے- چونکہ مذہب میں ہر بات "حرف آخر” ہوتی ہے، اس لیے مذہب پر تنقید بھی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اس میں آسانی کے ساتھ اصلاحات کی بات کر سکتے ہیں- مذہب چھوڑنے یا بدلنے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے جھوٹے مذاہب ختم نہیں ہو سکتے- گزشتہ پانچ ہزار سال سے صرف "فاتحین” کو یہ حق حاصل رہا ہے کہ وہ جب چاہیں اور جس کا چاہیں مذہب بدلوادیں- ہم خود اس مسئلے پر کوئی جمہوری انداز اپنانے کو تیار نہیں اور نہ ہی جمہوریت کو "سقراط” کے دور سے آگے لے جانا چاہتے ہیں-
۳۹۹ قبل مسیح میں سقراط کو زہر دے کر مارا گیا- اس پر الزام تھا کہ وہ نوجوانوں کے ذہن خراب کر رہا تھا- سقراط نے کوئی کتاب نہیں لکھی اور نہ کوئی سیاسی یا مذہبی تحریک چلائی- وہ خاموش طبیعت، صوفی منش انسان صرف عام اجتماعات یا محفلوں میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا تھا- اس نے یونانی مذہب کو مسترد نہیں کیا جو آج دیو مالائی قصہ بن چکا ہے- سقراط یونانی خداؤں کی نہ صرف عبادت کرتا تھا بلکہ ان کے آگے قربانیاں بھی دیتا تھا- جو اس وقت مذہب کا اہم فریضہ تھا- وہ غالبا” یونانی مذہب میں اصلاحات لانے کی تبلیغ کرتا تھا- اتنی معمولی سی بات پر اسے موت کی سزا دی گئی- اس وقت یونان میں جمہوریت نافذ تھی- وہ جمہوریت کس معیار کی تھی، اس کا آسانی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے- بہرحال، لوگوں کو اگر یہ جمہوری حق دیا جائے کہ وہ اپنا مذہب رضامندی سے تبدیل کر سکیں، تو دنیا کی صورتحال کافی مختلف ہو سکتی ہے- کم از کم جھوٹے مذاہب سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے- جب بات جھوٹے اور سچے مذاہب کی کی جائے تو یہ معاملہ حل طلب ہو جاتا ہے کہ کون سے مذاہب سچے اور جھوٹے ہیں- سب لوگ اپنے مذہب کو صحیح اور سچا قرار دیتے ہیں- بہرحال، یہ بات بڑی پیچیدہ اور الجھن پیدا کرنے والی ہے- اس نقطے پر صرف ایک ناقابل تردید بات ملتی ہے کہ اس وقت جتنے بھی مذاہب موجود ہیں وہ سب کے سب نوع انسانی پر "فاتحین” نے زبردستی تلوار کے زور پر مسلط کیے- ہمارے آباؤ اجداد نے رضامندی سے فاتحین کے مذاہب قبول نہیں کیے- اس لیے جو فیصلے جبر سے کرائے گئے، وہ سب کے سب کالعدم ہو جاتے ہیں- دنیا کا کوئی قانون زبردستی جبر سے کرائے گئے فیصلوں کو نہیں مانتا- یہ فاتحین کا نہیں عوام کا دور ہے- یہ علم سائنس تحقیق اور مہارت کا دور ہے- ہمیں نئے سرے سے تمام معاملات کی چھان بین کرنی چاہئیے-”
انسان لاکھوں برس سے اس کرہ ارض پر آباد چلا آ رہا ہے- مدنی یامعاشرتی زندگی میں داخل ہونے کے بعد انسان کی ضروریات اور ان کے حصول کے تجسس نے اسے کرہ ارض کے مختلف اسرار و رموز کو جاننے پر آمادہ کیا- اور اس طرح زمین پر پائی جانے والی اشیاء ان کی افادیت و اہمیت اسے زمین کے کونے کونے پر لے گئی- آبادی کے اضافے نے انسانوں کو کئی گروہوں کی شکل دے دی اور تلاش معاش نے انہیں زمین کے مختلف خطوں میں پھیلا دیا- ہر قوم نے اپنے اپنے زیر قبضہ خطہ زمین پر اقتدار قائم کر کے وہاں کی ریاست و حکومت کے مسائل کو بہتر سے بہترین کی طرف لے کر جانے کی کوشش کی، اس انسانی ضروریات و خواہشات نے تہذیبوں کے درمیان آپس میں تعاون و اتحاد، تجارت، سفارت وغیرہ کو فروغ دیا- وہیں لڑائی جھگڑے و جنگیں بھی ہوئیں- ہر خطے کی تہذیب نے اپنے سماجی شعور کے حساب سے علم و تمدن میں ترقی کی- اور تجارت و سیاحت کی ترقی سے تہذیبی و ثقافتی رشتے بھی استوار ہوئے- اور تہذیبوں میں خیالات وتصورات و نظریات کی بھی ترسیل ہوئی- یہاں ہم دیکھتے ہیں کے ہر نظریہ، فلسفہ، ادب و فن کی طرح ایک مخصوص تہذیبی روح کا مظہر ہوتا ہے- اس کی زندگی ایک تہذیب و تمدن سے وابستہ ہوتی ہے جس میں اس نے آنکھیں کھولی تھیں- اس بات سے کسی کو مفر نہیں کے ہر تہذیب تاریخ میں ایک جدا اور منفرد مقام رکھتی ہے- اس دور کا فلسفہ اپنے زمان و مکان کا پابند، اور سماجی شعور کا آئینہ ہوتا ہے- وہ ایک مخصوص دور کے نابغہ کی مساعی ذہن اور جمالی وجدان کا مرہون منت ہے اور اسے اسی سماجی شعور کے سیاق و سباق میں رکھ کر سمجھا جاسکتا ہے- کسی بھی مخصوص عقیدہ یا نظریہ کا مطالعہ دراصل کسی آفاقی اور الوہی تفکر کا مطالعہ نہیں بلکہ اس سماجی و ثقافتی اکائیوں کا مطالعہ قرار پاتا ہے کہ جس سماجی شعور سے وہ پھوٹتے ہیں- کسی بھی نظریہ عقیدہ فلسفہ کو اس کے ثقافتی وتہذیبی سماجی سیاق سے نکال کر سمجھنے کی کوشش کیجیے تو ہم اس میں وہ قوت محرکہ نہیں پائیں گے جو اس نظریہ یا عقیدہ وغیرہ کی روح سمجھی جاتی ہیں۔
ہم کسی بھی مفکر کی فکر کو اس کے عہد کی میکانکی زندگی سے جدا کر کے دیکھیں تو اس کے مسائل سمجھنے میں دشواری ہوگی- لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ انسان ایک جگہ محدود یا جم کر نہیں رہتا- اس کا سابقہ دوسرے انسانوں سے بھی رہتا ہے- یہ متحرک وجود رکھتا ہے- اسی طرح ایک تہذیب دوسری تہذیب سے مکمل طورپر علیحدہ ہو کر پروان نہیں چڑھتی- جیسا کہ ہم نے اوپر بھی اشارہ کیا، امتداد زمانہ سے خیالات پھیلتے، قبول ہوتے اور بدلتے جاتے ہیں- اور اسی طرح مختلف تہذیبی اکائیاں اپنے منفرد فلسفے رکھنے کے با وجود دوسروں کے افکار سے استفادہ کرتی ہیں تو اس میں تو ارد اور سرقہ دونوں کا ہی عمل کام کرتا ہے- اور مختلف فلسفوں میں مشابہت نظر آتی ہے- بعض جگہ مسائل مشترک ہو جاتے ہیں- بعض اوقات ان کے حل میں مناسبت اور مشابہت نظر آتی ہے- اس طرح عقائد نظریات و تصورات کو دیکھیں تو وہ انسانوں کا ثقافتی ورثہ اور افراد کی کاوش ذہنی کا ثمر قرار پاتا ہے- اس ضمن میں پیپرس کے کتبات (مردوں کی کتاب: The book of dead) سے اقتباس اور حکایتوں و قوانین و اخلاقی اقداروں کابائبل کے لکھنے والوں نے سرقہ کیا- قدیم مصری عقائد خاص کر گلگامش کی روایتوں سے زرتشترامت کا متاثر ہونا اور دونوں سے اسلامی عقائد کا بنانا وغیرہ وغیرہ۔
لہذا، سب کو سوچنا چاہئیے، بلکہ اس بات پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہئیے کہ کسی عقیدے پر قائم رہ کر یا کسی مذہبی فرقہ سے جڑ کر کیا کھویا کیا پایا- اور اس پر یعنی اپنے عقیدے پر رہ کر ہم اس کے مطلق درست اور راست پر ہونے کا دعوی صرف اس بنا پر کرتے ہیں کہ ایسا کوئی مذہبی کتاب کہتی ہے یا ایسا کوئی خدا اپنی کتاب میں اپنے پیغمبر سے کہتا ہے- یہی خیال ہر عقیدے سے تعلق رکھنے والے کا ہے چاہے وہ مجوسی ہو ہندو ہو یہودی ہو یامسلمان ہو- سب کے پاس اپنے عقیدے کے درست ہونے کیلیے وہی دلیل وہی استدلال ہیں جو کہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے کے پاس ہوتے ہیں- لیکن ایسا کرنا کہ سب کو اپنے مذہب کے علاوہ قابل گردن زنی گرداننا، مخالف سوچ رکھنے والوں کو قابل نفرت جاننا، اور اس بنا پر ان سے تضحیک آمیز سلوک رکھنا، انہیں اچھوت یا کمتر خیال کرنا قطعی طور پر غیر دانشمندی ہے- کوئی ایک گروہ یا مذہب دانشوری کی معراج نہیں ہے، نہ ہی اس کی مقتدرہ ہستی عقل کل تھی جبکہ ہونا تو یہ چاہئیے کہ اس مقتدرہ ہستیوں کے کردار و تعلیمات کو عہد حاضر کی سائنسی سوچ اور نئے اخلاقیات کی روشنی میں پرکھا جائے- اور دیکھ سکیں اور جان سکیں کہ جن مقتدرہ ہستیوں کی تعلیمات و تصورات سے ہم سند ڈھونڈ لاتے ہیں خود ان کا علم کیا اور کتنا تھا- بہرحال، ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں کے کسی عقیدے پر قائم رہتے ہوئے دوسرے کی نفی کرنے کیلیے ہر حد سے گزر جائیں صرف اس لیے کہ ہمارے نزدیک ہمارا عقیدہ درست ہے- کون سا عقیدہ صحیح ہے یا کون سا غلط، اس رمز میں جائے بغیر ہمیں سب کو وہی عزت احترام دینا ہوگا جو ہم اپنے لیے چاہتے ہیں- ہم جب تک ہم اپنے عقیدے کو درست مان کر، اور مذہبی بنیاد پر خود کو اس عقیدے یا مذہب سے باہر انسانوں کے مقابلے میں برتر اور فائق سمجھتے رہیں گے- اور تہذیبی نرگسیت کا شکار ہو کر اپنے مذہب کی بڑائی اور اس کی سر بلندی کیلیے جد وجہد کرتے رہیں گے، تب تک ہم معاشرہ کو پرامن اور سب عقیدوں سے تعلق رکھنے والوں کیلیے رہنے لائق نہیں بنا سکتے- ادعائیت کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ یہ اپنے عقیدہ سے تعلق رکھنے والوں کیلیے جھوٹی بڑائی اور تعریف کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور یہی جذبہ دوسرے عقائد سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف نفرت اور عناد پیدا کرتا ہے- ایسے لوگ اس بات کو مانتے ہیں کہ اپنے مذہب کے لوگ جو کچھ بھی کریں یا کہیں وہ ٹھیک ہے اور دوسرے مذہب کے لوگ جو کچھ کریں وہ غلط ہے۔
جارحانہ عقائد پرستی استحصال کی ایک منظم ترین شکل کی صورت اختیار کر لیتی ہے- اور اپنے گروہی/مذہبی/فرقہ وارانہ مفاد کی خاطر دوسرے مذہبی گروہ/فرقوں کے جائز مفاد کو نہ صرف نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ اسے پورے طور سے قربان کر دیا جاتا ہے- جب تک تنگ نظر جارحانہ پرستی کو ترک نہ کیاجائے گا اس وقت تک ہم اپنے معاشرے میں کوئی پائدار اور اچھا سماجی نظام اور پائدار اور ابدی امن قائم نہیں ہو سکتا- عقائد میں ادعائیت اور پھر اس جارحانہ رویہ انسانیت کیلیے کافی سے نقصان دہ ہے کسی بھی معاشرے میں ہر طرح خیالات، نظریات و تصورات رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں- اس میں کئی مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہو سکتے ہیں- لادین اور روشن خیال بھی ہو سکتے ہیں- ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے تمام گروہ ایک دوسرے کی مذہبی نظر سے بالاتر ہو کر دیکھیں اور ایک دوسرے کے خیالات وعقائد کا احترام کریں اور باہمی اختلافات کی کسی بھی صورت کو پر امن طریقے سے دور کرنے کی کوشش کریں- ہر مذہبی گروہ میں اپنی بڑائی یا برتری کا جذبہ پایا جاتا ہے- وہ اپنے آپ کو دوسروں سے ہر لحاظ سے برتر و فائق سمجھتے ہیں اور ظاہر ہے اس سوچ کے ساتھ مخالف نقطہ نظر رکھنے والے گروہوں سے دشمنی، تعصب اور منافرت کا جذبہ ہی پیدا ہو سکتا ہے- کہ جس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر ہولناک دنگے فساد، لڑائی جھگڑے، خون ریز خانہ جنگی ہونے کے امکان ہر وقت تازہ رہتے ہیں- ان باتوں سے نہ تو کسی معاشرہ میں امن قائم رہ سکتا ہے نہ ہی کسی کا جان و مال محفوظ رہ سکتا ہے نہ ہی اس معاشرہ میں انسانیت کا معیار ترقی کر سکتا ہے- سب کی بھلائی اور ترقی تب ہی ہو سکتی ہے کہ جب سب مذہبی گروہ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کریں اور سب کو اس کا عقیدہ رکھنے، اس پر پابند رہنے کی مکمل آزادی ہو- اور ان معاملات میں ان میں تعاون کا جذبہ پایا جاتا ہو ایک سماج میں مختلف گروہ اور جماعتیں موجود ہو سکتی ہیں- ان کے اختلافات معاشی، مذہبی اور رہن سہن وغیرہ کے ہو سکتے ہیں- ان کی سوچ کی مختلف راہیں ہو سکتی ہیں اور اکثر اسی سبب سے سماج کے مختلف گروہ مختلف مقاصد رکھتے ہیں اور ان کے نفوذ کے خواہاں رہتے ہیں- لیکن اس سے بہتر اور کچھ نہیں کہ ایک کثیر الجہتی معاشرہ میں سب کی ضروریات و مفادات کیلیے کثیر الجماعتی مقاصد سامنے رکھ کر نظام اور طریقے رواج دیے جائیں- اس ضمن میں دیکھا جائے تو اکثر جگہ یہی بات مشترک نظر آتی ہے کہ معاشرے کی نمائندہ یا ذی اثر جماعت اپنے نظریات کو نافذ کرنا چاہتی ہے- سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتاہے؟ اس کا جواب یہی دیا جا سکتا ہے کہ روایات کے تحفظ کی خواہش- سماج کی بقا میں تو روایت کی اہمیت سے کسے انکار ہوگا- لیکن کون سی روایات محفوظ رہیں اور کون سی متروک ہو جائیں، اس کا طے کرنا ایک اعلی مطمح نظر بن جاتا ہے لیکن سماجی قرار کی بات ہو یا سماجی تغیر کی، بہرحال ان سب چیزوں کو سماجی حقائق سے وابستہ کر کے دیکھنا چاہئیے- اور ایک کثیر الثقافتی معاشرہ میں سب ثقافتوں و مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو مد نظر رکھ کر ہی اس کے قوانین واقدار کا تعین کرنا ازحد ضروری ہے- معاشرہ کے اکثریتی گروہ کو معاشرہ کامحافظ ہونا چاہئیے- یہ گروہ معاشرہ یا سماج کی امنگوں، عزائم، حوصلوں اور امیدوں کا امین ہے اور ان سے معاشرہ کے تمام گروہوں کو واقف کرانا ان لوگوں کے فرائض میں سے ہے- اگر معاشرہ کا یہ طبقہ ان باتوں پر عمل نہیں کرتا تو وہ سماج کا دشمن قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اخلاقی، معاشی اور تاریخی اعتبار سے اس قسم کا جواز دینا ممکن نہیں کہ یہ امتیازات حق ہیں کہ عقائد و خیالات کی بنا پر امتیازات کوجائز قرار دیا- رسل نے جتلایا کہ اس قسم کی باتیں جھوٹ اور کذب کی تعلیم کی دنیا ہے- کیا یہ جھوٹ نہیں کہ انسانی تعصبات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والےاختلافات اور معاشرتی بے انصافیوں کو حکم خداوندی کہہ کر جائز قرار دیاجائے؟ اور سماجی اختلافات و امتیازات کے باوجود یہ باور کرایا جائے کہ ہمارا معاشرہ سارے ممکنہ عالموں میں بہترین عالم اور معاشرہ ہے؟ اگر ایک معاشرہ کی غالب مذہبی جماعت اس بات کی تبلیغ کرتی ہے تو وہ جھوٹی ہے- اور اگر "سب کو اپنی سوچ کی آزادی” دینے کے حق کے حقائق کو جائز نہ سمجھ کر ان کی تبلیغ کریں اور در پردہ اپنی بات کی اہمیت منوانا چاہیں، تو بزدل ہیں۔
۳- اظہار رائے کی آزادی-
"ہر شخص کو کسی دوسرے کی مداخلت کے بغیر اپنی مرضی کے مطابق سوچنے اور اس کے اظہار کی آزادی ہے- خواہ وہ کسی بھی ذریعہ ابلاغ سے، کسی بھی ملک میں ایسا کرنا چاہے-”
"ارے آپ یہ نہیں کر سکتے-” "اوہ ! آپ یہ نہیں کہہ سکتے-” آپ سے کسی نے یہ کتنی بار کہا ہے؟ اگر آپ کا جواب "کبھی نہیں” ہے تو آپ بہت خوش قسمت انسان ہیں- صدیوں سے لوگوں کو اپنی سوچ کے اظہار سے روکا گیا ہے- آرٹسٹ اور لکھنے والے خاص طور پر اس مسئلے سے دو چار ہوتے ہیں- شاید آپ یہ سوچیں کہ کسی اور کا کام تباہ کر دینا ہر صورت میں غلط ہے، مگر دوبارہ سوچیے- ان لوگوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو انٹرنیٹ پر عریاں اور نسل پرست مواد بھیجتے ہیں؟ انہیں اس کی اجازت ہونی چاہئیے یا نہیں؟ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہر ایک کو اپنی سوچ کے اظہار کا حق ہے مگر یہ بات اتنی آسان بھی نہیں ہے!” اس ضمن میں مشہور فرانسیسی مفکر والٹیر (Voltaire) نے کہا تھا:
"I disagree entirely with what you say, but I shall defend to the death you’r right to say it!”
(ترجمہ: آپ جو کہہ رہے ہیں میں اس سے قطعی متفق نہیں لیکن آپ کے کہنے کے حق کیلیے میں اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہوں)
والٹیر کے ان الفاظ سے بہتر جمہوریت اور آزادی کی کوئی تعریف نہیں ہو سکتی. ایک صاحب سڑک پر چلے جا رہے تھے اور اپنی چھڑی کو چاروں طرف زور زور سے گھما رہے تھے. یہ گھومتی ہوئی چھڑی ایک دوسرے صاحب کے چہرے کے قریب سے گزر گئی تو انہوں نے پہلے صاحب کو روکا اور پوچھا کہ حضرت آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ جواب ملا کہ میں اپنی آزادی کا مظاہرہ کر رہا ہوں. دوسرے صاحب نے کہا: "لیکن یاد رہے کہ آپ کی آزادی وہاں ختم ہوتی ہے جہاں میری ناک شروع ہوتی ہے.” ساختخ نے حریت اور آزادی اظہار رائے کو انسان کی کہنہ قرار دیا- آرویل کہتے ہیں کہ دو اور دو، چار کہنے کی آزادی ہی اصل آزادی ہے- جو لوگ آزادی اظہار رائے پر قد غن لگاتے ہیں وہ دراصل خوفزدہ لوگ ہیں جو اسے سہار نہیں سکتے اور خود فریبی کا شکار رہتے ہیں- آزادی اظہار رائے کا حق ہر انسان کا بنیادی حق ہے- اسے کوئی اس سے چھین نہیں سکتا- نہ جانے کب انسان کے اس حق کو تسلیم کیا جائے گا اور اسے رائے کے اظہار کا حق دیا جائے گا کہ اس کی رائے اس کے اختلاف پر اسے جبر و تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا اسے اس بات پر قابل گردن زنی نہ گردانا جائے گا- اس پر زمین تنگ نہ کی جائی گی- یہ غلط ہی نہیں انسانیت کا استحصال بھی ہے- ہر ایک کو سوچنے اور بولنے کی آزادی ہونی چاہئیے۔
بولنے سے مجھے کیوں روکتے ہو؟
بولنے دو، کہ میرا بولنا دراصل گواہی ہے-
میرے ہونے کی-
تم نہیں بولنے دو گے تو میں سناٹے کی-
بولی ہی میں بول اٹھوں گا-
میں تو بولوں گا-
نہ بولوں گا تو مر جاؤں گا-
بولنا ہی تو شرف ہے میرا-
کبھی اس نکتے پہ بھی غور کیا ہے تم نے-
کہ فرشتے بھی نہیں بولتے-
میں بولتا ہوں-
حق سے گفتار کی نعمت صرف انسان کو ملی-
صرف وہ بولتا ہے-
صرف میں بولتا ہوں-
بولنے مجھ کو نہ دو گے تو مرے جسم کا-
ایک ایک مسام بول اٹھے گا-
کہ جب بولنا منصب ہی فقط میرا ہے-
میں نہ بولوں گا تو کوئی بھی نہیں بولے گا-
آخرش اس شعر کے ساتھ اجازت دیجیے;-
"لکھتے رہے جنوں کی حکایت خونچکاں-
ہر چند کہ اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے-"