مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق لبنان ہجرت کرنے والے شامی پناہ گزینوں کی ایک کثیر تعداد نے عیسائیت اختیار کر لی ہے تاکہ نہ صرف عیسائی مشینریوں کی امداد سے فائدہ اٹھایا جاسکے بلکہ یورپ اور امریکہ میں آسانی سے پناہ حاصل کی جاسکے حالانکہ ایسے کوئی اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہو کہ مغربی ممالک مسلمان پناہ گزینوں کے مقابلے میں عیسائی پناہ گزینوں کو کوئی ترجیح دیتے ہوں تاہم ٹیلی گراف نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے اسلام چھوڑ کر عیسائیت قبول کرنے والے بیشتر پناہ گزینوں کا خیال ہے کہ اس طرح انہیں آسانی سے یورپ اور امریکہ میں قبول کیا جائے گا۔
عقیدے کی آزادی
ٹیلی گراف کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ شام میں کبھی بھی عقیدے کی آزادی نہیں رہی، آبادی کی اکثریت مسلمان ہے جبکہ اسلام چھوڑ کر عیسائیت یا کسی دوسرے مذہب کو قبول کرنے کا کبھی رواج نہیں رہا جبکہ لبنان میں صورتِ حال کافی مختلف ہے جہاں عیسائیوں اور گرجوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے، ابراہیم علی شامی مسلمانوں کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہیں جو لبنان گئے اور حالات سے تنگ آکر عیسائیت قبول کر لی۔
"علی عبد المسیح”!
ابراہیم علی کی کہانی شائع کرتے ہوئے ٹیلی گراف نے لکھا ہے کہ ان کا تعلق حلب کے دیہی علاقوں سے ہے جہاں وہ اپنے سات بچے چھوڑ کر کچرا چننے کا کام کرتے رہے اور رقم بچانے کے لیے اپنی تنخواہ اپنے منیجر کو دیتے رہے جنہوں نے تین سال بعد ان کے حقوق دینے سے انکار کر دیا۔
بعد میں ابراہیم علی کی ملاقات ایک عراقی عیسائی سے ہوئی جو انہیں چرچ لے گئے جہاں چرچ نے انہیں کھانا، معمولی سا جیب خرچ اور سونے کی جگہ دی جس کے بدلے میں انہیں بس کتابِ مقدس کے ہفتہ وار وعظ میں حصہ لینا تھا، ابراہیم علی کا کہنا ہے کہ ایسی نشستوں کے بیشتر حاضرین شام اور عراق کے مسلمان ہیں۔
ابراہیم علی نے عیسائیت قبول کر لی ہے اور اب ان کا نیا نام عبد المسیح ہے، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ❞یہ یقیناً ایک بہت بڑا واقعہ ہے، ہم نے شام میں کبھی نہیں سنا تھا کہ کسی مسلمان نے عیسائیت اختیار کر لی ہو، تاہم بعض حالات میں کوئی عیسائی اسلام قبول کر لیتا تھا، یہاں مجھ پر انکشاف ہوا کہ لبنان میں اکثر شامی پناہ گزین عیسائیت قبول کر لیتے ہیں تاکہ انہیں یورپ اور امریکہ میں آسانی سے پناہ مل سکے، میں ایسے سینکڑوں مسلمان شامی خاندانوں کو جانتا ہوں جنہوں نے بہتر زندگی کی آس میں عیسائیت قبول کر لی ہے۔❝
دین میں کوئی جبر نہیں!
ٹیلی گراف نے لبنان کے علاقے برج حمود میں موجود ایک چرچ کے پادری سعید دیب سے ملاقات کی جنہوں نے بتایا کہ وہ ہر ہفتے سینکڑوں پناہ گزینوں کا استقبال کرتے ہیں جو جوق در جوق عیسائیت میں داخل ہو رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ وہ جانتے ہیں کہ عیسائیت قبول کرنے والے مسلمان پناہ گزینوں کی اکثریت ایسا حالات کی تنگی کی وجہ سے کرتی ہے تاہم اس کے باوجود وہ ان کی مدد کرتے ہیں اور کسی کو عیسائیت قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتے۔
بحوالہ دی ٹیلی گراف