Close

ماریہ بنت شمعون، نبیؑ کریم کی ایک کنیز (قرانؑ کریم، حدیث مبارکۃ اور تاریخ کی روشنی میں)۔

ماریہ نبت شمعوں رسول کریم کی کنیزوں میں سے ایک تھیں۔ آپکو ماریہ القبطیہ بھی کہا جاتا ہے، لیکن القبطیہ آپ کا کا نام نہیں بلکہ یہ لفظ آپ کے قبطی عیسائی ہونے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ آپ رسول کریم کے صاحب زادے ابراہیم کی ماں تھیں، کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ آپ نے حضور سے شادی کی تھی اور اسی نسبت سے وہ آپکو اُم المومنیں کہتے ہیں، لیکن تاریخ حقائق اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔

” ان (بیویوں) کے علاوہ آپ کے پاس دو کنیزیں تھیں، پہلی ماریہ قبطی (ایک مصری عیسائی) جو مصر کے والی مقوقس نے آپکو تحفے میں دی تھی جس نے آپ کے بیٹے ابراہیم کو جنم دیا جس نے 27 جنوری 632ء کم عمری میں مدینہ میں وفات پائی۔ دوسری ریحانہ بنت ذید النضریہ یا القریضیہ جو بنو قریظہ کے محاصرے کے دوران اسیر ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”۔

باب رسول اللہ کی خانگی زندگی: الرحيق المختوم از سیف الرحمٰن مبارکپوری

"وہ عورتیں جو اللہ نے آپکو کنیزوں کی صورت میں عطا کیں، رسول کریم نے بنو قریظہ پر حملے کی صورت میں قید ہونے والی ریحانہ کواپنے لیئے منتخب فرمایا، بنی المصطلق پر حملے میں اسیر ہونے والی حضرت جویریا اور خیبر میں حضرت صفیّہ ہاتھ آئیں، اورحضرت ماریہ القبطی کو مقوقس نے آپکو تحفے میں دیا۔ ان میں سے دو کو آپ نے آزاد کیا اور ان (صفّیہ، جویریا ) سے نکاح فرمایا، لیکن ماریہ سے کنیز ہونے کی وجہ سے ازواجی تعلقات رکھے۔ ان (ماریہ) کے متعلق کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حضور نے انہیں آزاد کیا اور شادی کی

مولانا مودودی

” ابو عبیدہ فرماتے ہیں، کہ آپکی چار کنیزیں تھیں، ماریہ جوآپکے بیٹے ابراہیم کی ماں تھیں، ریحانہ ایک اور کنیزجو آپکو جنگی قیدی کی صورت میں ملی تھی، ایک اور کنیز جو آپکو حضرت زینب بنت جحش نے تحفتاٌ دی تھی "۔

زاد المعاد: ابن قيم الجوزية

” ابن کثیر جہان ماریہ کو اُم المومنیں ٹہراتے ہیں وہیں السیرۃ النبویۃ میں کچھ یوں رقمطراز ہیں "ان (بیویوں) کے علاوہ پیغمبر خدا کی دو کنیزیں تھیں، پہلی اُم ابراہیم ماریہ بنت شمعون قبطی، وہ آپکو مصر کے والی مقوقس نے تحفے میں دی، انکے علاوہ انکی بہن شیرین، ایک گھوڑا جس کا نام مابور اور ایک خچر جس کا نام دلدل بھی تحفے میں دیں گئیں۔ نبیؑ کریم نے شیریں حسن بین ثابت کے حوالے کر دی، جس نے انکے بیٹے عبدالرحمٰن کو جنم دیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری ریحانہ بنت عمرو (عمرو کو زید بھی کہا جاتا تھا) آپ نے اسے بنو قریظہ سے پکڑے جانے والے قیدیوں میں سے منتخب کیا۔ بعد میں آپ نے اسے آزاد کر دیا”۔

"رسول اللہ نے ماریہ اور اُسکی بہن کو اُم سلیم بنت کے ہاں ٹھہرایا، آپ وہاں آئے اور اُن کو اسلام کے متعلق بتایا۔ آپ نے ماریہ کو اپنی کنیز بنایا اور العوالی نامی اپنی جگہ پر منتقل کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ بہت اچھی مسلمان ثابت ہوئیں”۔

طبقات الکبریٰ

” مقوقس نے پیغمبر کو ماریہ، اسکی بہن سیریں، ایک ہزار سونے کی اشرفیاں، 20 جوڑے اعلیٰ ملبوسات، اپنا دُلدُل نامی خچر اور اپنا عفیر یا یعفور نامی گدھا بھیجا۔ نبیؑ کریم اُم ابراہیم (ماریہ) کو بہت پسند فرماتے تھے۔ جو گوری رنگت والی اور بہت خوبصورت تھیں۔ انہوں نے انہیں العلییہ نامی جگہ جسے اب اُم ابراہیم کہا جاتا ہے، ٹھہرایا۔ وہ اکثر ان کے پاس آتے تھے اور انہیں نقاب استعمال کرنے کی ہدایت کی، وہ انکے ساتھ اپنی ملکییت ہونے کی وجہ سے مباشرت فرماتے تھے”۔

محمد بن عمر الواقدی

” پیغمبر اسلام کے پاس یابور نامی ایک ہیجڑا بھی تھا، جو مقوقس نے حضور کو ماریہ اور سریں نامی لڑکیوں کے ساتھ پیش کیا تھا۔ اُن میں سے ایک ماریہ نامی لڑکی تھی جسے آپ نے کنیز بنا لیا۔ دوسرے سریں آپ نے حسّان بن ثابت کو دے دی "۔
محمد بن جریر الطبری

حضرت انس سے روایت ہے، حضور کی پاس ایک لونڈی تھی جس سے آپ ہمبستری فرماتے تھے، پھر حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ آپ کے پیچھے پڑ گئیں، یہان تک کہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام قرار دے دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اے نبی تُم کیوں اس چیز کو کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تم پر حلال کی”۔

سنن نسائی، جلد دوم، کتاب النکاح، حدیث نمبر 3414

ابن القائم بھی ماریہ کو آنحضور کی کنیز بتاتے ہیں، محمد بن سعد البصری کی طبقات الکبریٰ بھی جہان مقوقس کو لکھے جانے والے خط، تحائف، دلدل نامی سفید خچر، ماریہ کے اسلام لانے تک کا بیان کرتی ہیں، وہاں وہ ماریہ کو حضور کی کنیز بتاتی ہے، ابن اسحاق کی سیرۃ الرسول اللہ میں بھی ماریہ کے ام المومنین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

صلح حدیبیہ کے ایکدم بعد رسول کریم نے ارد گرد کے جن والیوں کو اسلام قبول کرنے کیلئے دعوت نامے ارسال کئے، ان میں مصر کا والی مقوقس بھی شامل تھا۔ مقوقس نے اسلام قبول کرنے کی دعوت کو بڑی سمجھداری سے ٹال دیا لیکں ایک خاص مقدار سونا، کچھ کپڑا، ایک سفید رنگ کا خچر، دو خوبصورت قبطی عیسائی بہنیں جن کا نام ماریہ اور سریں تھا، حضور کی خدمت میں بھیجیں، ان کے علاوہ ایک خواجہ سرا غلام بھیجنے کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ حضور نے سریں کو حسّان ابن ثابت کے حوالے کیا، اور ماریہ کو اپنے لیئے پسند فرمایا۔ ماریہ انتہائی خوبصورت خاتوں تھی، گورا چٹا رنگ، گھونگھریالے بال۔ ماریہ کی خوبصورتی اور حضور کے انکی طرف جھکاوؑ سے تمام اُم المومنین ماریہ سے جلتی تھیں۔

حضرت عائشہ سے کا قول ہے” مجھے کسی اور عورت کا آنا اسقدر ناگوار نہ ہوا جس قدر ماریہ کا آنا ہوا تھا، کیونکہ وہ انتہائی حسین و جمیل تھیں اور حضور کو بہت پسند آئی تھی

الاصابہ فی تمیز الصحابہ: حافظ شہاب الدین، الحجر العسقلانی

” خوبصورت عورتیں اور خوشبو ہمیشہ رسول اللہ کی کمزوری رہی ہیں۔ ” حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا، مجھے دنیا میں عورتوں اور خوشبو سے محبت دی گئی اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی،

حضرت حسن سے روایت ہے، کہ رسول اللہ نے فرمایا، میں دنیا کی عیش میں سوائے عورتوں اور خوشبو کے کچھ نہیں چاہتا۔

میموں سے روایت ہے، رسول اللہ نے دنیا کی عیش میں سے سوائے عورت اور خوشبو کے کچھ حاصل نہیں کیا۔

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبیؑ کریم کو دنیا کی تیں چیزیں پسند تھیں، کھانا، عورتیں اور خوشبو، آپ نے دو چیزیں پائیں، ایک نہیں پائی، عورتیں اور خوشبو پائی، کھانا نہیں پایا۔

معقل بن یسار سے روایت ہے، رسول اللہ کو گھوڑے سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں تھی، پھر کہا، اے اللہ معاف کرنا، عورت سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں تھی "۔

طبقات ابن سعد: صفحہ487

ماریہ حضرت حفصہ کے ہام ملازم تھیں، ایک بار رسول اللہ حضرت حفصہ کے ہاں تشریف آئے اور اُن سے فرمایا کہ انہیں اُن کے والد حضرت عمر بن خطاب یاد فرما رہے ہیں، حفصہ روانہ ہو گئیں، وہاں پہنچ کر انہیں پتہ چلا کہ یہ سچ نہیں تھا، مزید بر آں حضرت عمر گھر پر موجود نہیں تھے، لہذا حضرت حفصہ ایکدم گھر واپس آ گیئں، یہاں انہوں نے حضور ﷺ کو ماریہ کے ساتھ مباشرت فرماتے ہوئے پایا۔ حضرت حفصہ یہ دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئیں اور حضور کو بُرا بھلا کہنے لگیں۔ چونکہ حضور نے تمام اُمہات المومنیں کے ساتھ مباشرت کیلیئے خصوصی دن مختص کیئے ہوئے تھے۔ اور یہ دن حضرت حفصہ کی باری تھی۔ اس لیئے حضرت حفصہ نے اسے اپنے وقار کے منافی جانا کہ اُن کی باری کے دن، اُنہی کے گھر، اُنہی کی چارپائی پر، اُنہی کی نوکرانی کے ساتھ حضور نے مباشرت فرمائی ہے۔ روایات کے مطابق جب حضور اور حضرت حفصہ کی لڑائی جاری تھی، ماریہ پاس کھڑی کھلکھلا کر ہنس رہی تھیں۔ حضور نے جھگڑے سے پیچھا چھڑانے کیلیئے حضرت حفصہ سے وعدہ فرمایا کہ وہ آئیندہ ماریہ کے ساتھ ایسا تعلق نہیں رکھیں گے، لیکن حضرت حٖفصہ نے فرمایا کہ آپ پر تو کنیز کے ساتھ مباشرت اللہ نے جائز فرمائی ہے، لہذا مستقبل میں بھی آپ ضرور ایسا کریں گے، جس پر آپ نے قسم کھا کر حضرت حفصہ کو اپنے آپ پر حرام فرما لیا۔

” ایسی اطلاعات ہیں کہ نبیؑ کریم نے اپنی بیویوں کیلیئے (مباشرت کیلئے) دن مخصوص کیئے ہوئے تھے۔ اور جب حضرت حفصہ کی باری تھی تو آپ نے انہیں اپنے باپ حضرت عمر کے ہاں بھیجا۔ جب وہ چلی گئیں تو آپ نے ماریہ کو بلا بھیجا جو آپ کے فرزند ابراہیم کی ماں بنی، اور آپکو والیؑ مصر نے تحفتاؐ دی تھی، آپ نے اس کے ساتھ صحبت فرمائی۔ جب حضرت حفصہ واپس آئیں تو دروازے پر چٹخنی لگی ہوئی تھی، آپ دراوازے کے باہر بیٹھ گئیں،تا آنکہ حضور نے فراغت پائی، جب آپ باہر آئے تو آپکا چہرہ مبارک خوشی سے لبریز تھا۔ جب حضرت حفصہ نے یہ دیکھا تو انہوں نے حضور کے ساتھ لڑنا شروع کر دیا، آپ نے میری عزّت کا ذرا بھی خیال نہیں کیا۔ آپ نے مجھے بہانے سے باہر بھیجا تا کہ آپ اس نوکرانی کے ساتھ ہمبستری کر سکیں۔ اور جس دن میری باری تھی اُس دن آپ نے اس نوکرانی کے ساتھ مباشرت فرمائی۔ حضور نے آپ کو خاموش ہونے کو کہا اور فرمایا کہ کنیز ہونے کے حوالے سے وہ مجھ پر حلال ہے، لیکں تمہاری خاطر میں اُسے اپنے اوپر حرام قرار دیتا ہوں، آُنہوں نے حضرت حفصہ سے وعدہ لیا کہ وہ اس واقعے کا کسی اور کے ساتھ ذکر نہیں فرمائیں گی۔ لیکن حضرت حفصہ نے ایسا نہیں کیا،اور رسول اللہ جونہی باہر نکلے آپ نے ساتھ ہی میں حضرت عائشہ کے حجرے کی دیوار کھٹکھٹائی اور تمام واقعہ اُن کے گوش گزار کر دیا۔ ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی سنائی کہ حضور نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے”۔

تفسیر القراؑن: محمد کاظمی معرفی

ماریہ والا واقعہ ایکدم سے تمام امہات المومنین تک پہنچ گیا،اور انہوں نے یہ کہہ کر آپکو چھیڑنا شروع کر دیا کہ آپ کے منہ سے گھر میں کشید کی گئی شراب کی بدبو آتی ہے، آپ ازواج مطہرات کے اس روّے سے بہت ناراض ہوے اور قرانی تعلیمات پر عمل کرتے ہوے اپنی بیویوں سے مباشرت ترک کر دی۔ تب اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی۔

يٰأَيُّهَا ٱلنَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ ٱللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ قَدْ فَرَضَ ٱللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ وَٱللَّهُ مَوْلاَكُمْ وَهُوَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ- وَإِذْ أَسَرَّ ٱلنَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثاً فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ ٱللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَـٰذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْخَبِيرُ۔ إِن تَتُوبَآ إِلَى ٱللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلاَئِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ۔ عَسَىٰ رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجاً خَيْراً مِّنكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَاراً۔

اے نبی کیوں حرام کرتے ہو تُم وہ چیز جو حلال کی ہے اللہ نے تمہارے لیئے، (کیا) چاہتے ہو تُم (اسطرح) خوشنودی اپنی بیویوں کی؟ اور اللہ ہے بہت معاف کرنے والا، رحم فرمانے والا۔ یقیناٌ مقرر کر دیا اللہ نے تمہارے لیئے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ اور اللہ ہی تمہارا آقا ہے اور وہ ہے سب کچھ جاننے والا اور بڑی حکمت والا۔ اور جب رازدارانہ انداز میں بتائی نبی نے اپنی کسی بیوی کو ایک بات، پھر جب بتا دی اُس نے وہ بات (کسی دوسری کو) اور ظاہر کر دیا اسے اللہ نے اپنی نبی پر تو اطلاع دی نبی نے اُس کی کسی حد تک اور درگزر کیا ایک حد تک پھر جب خبر دی اس نے بات کی اپنی اسی بیوی کو، تو وہ کہنے لگی کس نے خبر دی ہے آپ کو اس بات کی، نبی نے فرمایا مجھے خبر دی ہے اس کی اُس نے جو ہے سب کچھ جاننے والا ااور وہ پوری طرح باخبر ہے۔ اگر توبہ کر لو تم دونوں اللہ کے حضور(تو یہ بہتر ہے تمہارے لیئے) اس لیئے کہ ہٹ گئے تھے سیدھی راہ سے تمہارے دل اور اگر ایکا کر لیا تُم نے نبی کے مقابلے میں تو جان رکھو کہ اللہ اُس کا مولیٰ ہے اور جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور ملائکہ اس کے بعد اس کے مددگار ہیں۔ بعید نہیں کہ اگر طلاق دے دے وہ تمہیں تو اُس کا ربّ بدلے میں دے اسے ایسی بیویاں جو بہتر ہوں تُم سے مسلمان، مومن، اطاعت شعار، توبہ کرنے والیاں، عبادت گزار اور روزہ رکھنے والیاں، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا کنواریاں۔

القراؑں: سورۃ تحریم۔

” عبداللہ بن انس سے روایت ہے کی مجھے بہت زیادہ تجسس تھا کہ حضرت عمر سے پوچھوں کہ قران کریم میں کن دو ازواج مطہرات کا زکر تھا۔ حتیٰ کہ میں نے اُن کے ساتھ فریضہ حج ادا کیا، میں نے اُن سے پوچھا، اے امیر المومنین وہ کونسی دو اُم المومنین تھیں، انہوں نے فرمایا، عائشہ اور حفصہ۔ آپ نے مزید فرمایا کہ ہم قریشی اپنی بیویوں پر حاوی ہوا کرتے تھے لیکن جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے دیکھا کہ یہاں انصاری عورتیں اپنے مردوں پر حاوی ہیں۔ ان انصاری عورتوں کی دیکھا دیکھی ہماری عورتوں نے بھی وہی روش اپنا لی ہے۔ میں ایک بار اپنی بیوی پر چلایا، جواب میں وہ بھی ایسا ہی چلائی، جو مجھے اچھا نہیں لگا۔ میں نے اُس سے اس کی وجہ پوچھی تو اُس نے بتایا کہ رسول اللہ کی عورتیں بھی اُن کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھتی ہیں، بلکہ اُن سے پورا پورا دن روٹھی رہتی ہیں۔ میں حفصہ کے پاس گیا اور پوچھا کیا تُم لوگ رسول اللہ سے پورا پورا دن روٹھی رہتی ہو، حفصہ نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔ میں نے اسے کہا، کیا تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی سے ڈر نہیں لگتا؟، تم رسول اللہ سے زبان درازی سے پرہیز کیا کرو اور نہ ہی اُن سے بے جا فرمائشیں کیا کرو، اگر تمیہں کوئے چیز چاہئیے تو مجھ سے مانگ لیا کرو۔ اور اپنی پڑوسن (عائشہ) کے غلط روّیے کی نقل مت کیا کرو کیونکہ وہ تُم سے زیادہ خوبصورت بھی ہے اور رسول اللہ کی چہیتی بھی۔

انہی دنوں یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول اللہ نے سب بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں حفصہ کے پاس گیا اور اُسے روتے ہوئے پایا، میں نے اُسے کہا، اب کیوں روتی ہو کیا میں نے تمہیں تنبیہہ نہیں کی تھی۔ کیا رسول اللہ تُم سب کو طلاق دے دی ہے؟۔ اُس نے کہا مجھے پتہ نہیں، حضرت عمر رسول اللہ کے پاس گئے اور اُن سے اس سلسلہ میں پوچھا، جس کا انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ میں نے انہیں اپنی بیوی کا پورا قصہ سنایا کہ ہم قریش جب مکّہ مینں تھے تو اپنی بیویوں پر حاوی تھے لیکن یہاں بیویاں ہم پر حاوی ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ رسول اللہ مسکرائے، پھر میں نے انہیں بتایا کہ میں نے حفصہ کو کہا ہے کہ اپنی پڑوسن عائشہ کی نقل نہ کرے کیونکہ وہ تُم سے زیادہ خوبصورت ہہے اور رسول اللہ کی چہیتی بھی، رسول اللہ یہ سُن کر پھر مسکرائے۔ رسول اللہ اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینہ نہیں گئے کیونکہ وہ راز حٖفصہ نے عائشہ کو بتا دیا تھا۔ انتیس دن گزرنے کے بعد آپ سب سے پہلے حضرت عائشہ کے پاس گئے، انہوں نے کہا کہ آپ نے پورا مہینہ ہمارے پاس نہ آنے کی قسم کھائی تھی، جب کہ ابھی صرف انتیس دن گزرے ہیں، کیونکہ میں ہر روز دن گنا کرتی تھی۔ آپ نے فرمایا، کچھ مہینے انتیس دنوں کے بھی ہو سکتے ہیں اسی طرح یہ میہنہ انتیس دنوں کا ہے”۔

حدیث بخاری نمبر 468 جلد 3 کی تلخیص

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ مجھے بہت شوق تھا کہ میں حضرت عمر سے ان ازواج مطہرات کے بارے میں دریافت کروں جن کا ذکر اللہ نے آیۃ کریمہ میں فرمایا ہے ” إِن تَتُوبَآ إِلَى ٱللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ” یعنی کہ تم اگر اللہ کے حضور توبہ کر لو ( تو تمہارے لیئے بہتر ہے ) اس لیئے کہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔ پھر حدیث کو آخر تک نقل کیا اور فرمایا رسول اللہ نے اپنی ساری ازواج کو چھوڑ دیا جو حفصہ نے ظاہر کر دیا تھا حضرت عائشہ سے دو راتوں میں، حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ میں ان عورتوں کے نزدیک نہیں جاوؑں گا ایک ماہ تک کیونکہ آپ صلیٰ اللہ و علیہ وسلم کو سخت ناراضگی تھی ان پر لیکن اللہ نے آپ صلیٰ اللہ و علیہ وسلم کو ان کی حالت بتلائی۔ جب 29 راتیں گزر گئیں تو رسول اللہ سب سے پہلے حضرت عائشہ کے پاس تشریف لے گئے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ آپ نے قسم کھائی تھی ایک ماہ تک نہ آنے کی اور ابھی 29 تاریخ کی صبح ہوئی ہے، ہم شمار کرے جاتے تھے۔ ( یہ سن کر )رسول اللہ نے ارشاد فرمایا مہیںہ 29 دن کا بھی ہوتا ہے۔

سنن نسائی جلد دوم، کتاب الصوم، حدیث نمبر 2136

ماریہ سے آپکے بیٹے ابراہیم زیادہ عرصہ تک زندہ نہ رہے اور 14 ماہ کی مختصر زندگی کے بعد وفات پا گئے۔ ابراہیم کی بیماری کے دنوں میں نبیؑ کریم نے شب و روز اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر بہت زیادہ دعائیں مانگیں، مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کی ایک نہ سنی اور ابراہیم 27 جنوری 632ء کو حضور کو روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ یہ وہی ابراہیم ہیں جن کے متعلق ذکر ہے۔

” جب ابراہیم کا انتقال ہوا تو حضور نے کہا کہ ابراہیم کیلئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہے، اور اگر یہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا، اور اگر یہ زندہ رہتا تو میں اس کے ننھیالی رشتےدار قبطی غلاموں کو آزاد کر یتا، اور کسی قبطی کو غلام نہ بناتا”۔

سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز باب ما جاء في الصلاة على ابن رسول الله وذكر وفاته، رقم الحدیث: 1511

اسماعیل السدی کہتے ہیں، میں نے اسدؓ بن مالک سے پوچھا آیا رسول اللہﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیمؓ پر نماز (جنازہ ) پڑھی تھی۔ انہوں نے کہا مجھے معلوم نہیں،اللہ ابراہیمؓ پر رحم کرے وہ اگر جیتے تو صدیق اور نبی ہوتے۔

طبقات ابن سعد، جلد اول، صفحہ نمبر 152

” وہ (رسول اللہ) اس خبر (ابراہیم کی موت) سے اسقدر صدمے کی حالت میں تھے کہ اُن سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا۔ انہوں نے عبدالرحمٰن بن عوف سے سہارا دینے کیلئے کہا۔ آپ (نبیؑ کریم) جلدی سے باغ پہنچے تا کہ ماں (ماریہ) کی گود میں دم توڑتے ہوئے بچے (ابراہیم) کو الوداع کہہ سکیں۔ حضور نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے بچے کو اُٹھا کر اپنی گود میں لیا۔ اس سانحے سے آپکا دل پھٹا جا رہا تھا اور اندرونی کرب اپکے چہرے سے عیاں تھا۔ آپ نے رُندھی ہوئی آواز میں اپنے بیٹے سے کہا، اے ابراہیم خدا کی مرضی کے خلاف ہم آپکی کوئی بھی مدد نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد آپ کی آواز نے آپ کا ساتھ نہیں دیا اور آپ زار و قطار رونے لگے۔ بچے کو مرتے دیکھ کر اُس کی ماں (ماریہ) اور خالہ (سیریں) نے زور زور سے دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا، آپ نے انہیں چُپ کرنے کو نہیں کہا۔ جب ابراہیم کی موت ہو گئی تو آپکی تھوڑی بہت اُمید جو تھی وہ بھی ٹوٹ گئی۔ آنسو بھری آنکھوں سے آپ نے پھر کہا، اے ابراہیم اگر اس سچ کا ہمیں پہلے یقین ہوتا تو ہم اور بھی زیادہ دکھ کا اظہار کرتے (روتے) جتنا کہ اب کر رہے ہیں۔ کچھ دیر توقف کےبعد آپ نے کہا، ہماری آنکھوں سے آنسو رواں ہیں اور دل دُکھ رہا ہے لیکن ہم کوئی ایسی بات نہیں کہتے جس سے ربّ راضی نہ ہو، بےشک ابراہیم تمہارا جانا ہمار ےدل کو چیر رہا ہے”۔

محمد حسنین ہیکل: دی لائف آف محمد

مکحول کہتے ہیں کہ ابراہیم کی روح نکلنے کا عالم تھا، کہ رسول اللہ عبدالرحمٰن بن عوف کے سہارے اندر آئے، ابراہیم انتقال کر گئے اور آنحضرت کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، عبدالرحمٰن نے یہ دیکھ کر کہا، یا رسول اللہ یہی بات ہے جس سے آپ لوگوں کو منع فرمایا کرتے، مسلمان جب آپ کو روتا دیکھیں گے تو سبھی رونے لگیں گے ”

ابراہیم کے حادثے کے وقت میں (سیریں،ماریہ کی بہن) وہاں موجود تھی، میں نے دیکھا کہ جب میں اور میری بہن دُکھ سے زور زور سے چیختی تھیں تو رسول اللہ اُس وقت منع نہیں فرماتے تھے

جب ابراہیم نے وفات پائی تو رسول اللہ نے اُن کے حق میں فرمایا، آج اگر ابراہیم زندہ ہوتا، تو اُس کا کوئی ماموں غلام نہ ہوتا، قبطی قوم کے تمام افراد ابراہیم کے طفیل آزاد ہو جاتے”۔

طبقات ابن سعد: جلد اوّل، صفحہ 150،154،155

حضرت جعفر بن ابو طالب حضرت علی کے بڑے بھائی تھے، آپ جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔ ” حضرت عائشہ سے مروی ہے، جب وفات جعفر بن ابو طالب کی خبر آئی تو ہم نے رسول اللہ کے اندر حزن معلوم کیا، ایک شخص آیا اور عرض کیا، یا رسول اللہ عورتیں روتی ہیں، فرمایا اُن کے پاس جاوؑ اور انہیں خاموش کر دو، وہ شخص دوبارہ آیا اور اُسی طرح کہا، فرمایا اُن کے پاس واپس جا کر اُنہیں خاموش کر دو، وہ سہ بارہ آیا اور اسی طرح کہا، فرمایا اگر وہ (روتی عورتیں) انکار کریں تو اُن کے منہ میں مٹی ڈال دو

طبقات ابن سعد: جلد دوم، صفحہ 484

وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ۔ ” (اے محمد) بے شک تُم فائز ہو اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر
سورۃ القلم آیت نمر 4

جواب دیں

0 Comments
scroll to top