Close

اج کتھوں لیائیے لبھ کے ہلاکو خان اک ہور

حسن بن صباح

حسن بن  صباح  1050ء میں  ایران کے شہر طوس ( مشہد) میں پیدا ہوا۔ 1071ء میں مصر گیا اور وہاں فاطمی خلیفہ المستنصر نے اسکی قابلیت سے متاثر ہو کر اسے اپنے خاص داعی کی حثیت سے ایران میں اسمٰعیلی دعوت پھیلانے کیلئے بھیجا۔ 1090ء میں حسن نے کوہ البرز میں الموت نامی قلعے پر قبضہ کر لیا۔ بعد میں کئی دوسرے قلعے بھی اس کے قبضے میں آ گئے ۔حسن نے 1094ء میں مصر کے اسماعیلیوں سے قطع تعلق کر نے کے بعد اپنے آپ کو ” شیخ الجبال” نامزد کیا اور قلعہ الموت کے پاس کے علاقے میں چھوٹی سی ریاست قائم کر لی ۔ حسن نے ایک جماعت منظم کی جس کے اراکین فدائی کہلاتے تھے۔ ان فدائیوں کی سرفروشی کا یہ عالم تھا کہ حسن کے حکم پر اپنے پیٹ میں چھرا  تک گھونپ لیتے یا قلعہ سے کود کر جان دے دیتے۔

حسن بن صباح

حسن بن صباح نے ایک انتہائی خو بصورت باغ لگوایا اور اس میں نہایت خوبصورت لڑکیاں رہتی تھیں۔ حسن کئی بار دو چار فدائیوں کو حشیش پلا کر اس باغ میں پہنچا دیتا، ہوش میں آنے پر فدائی یہ سوچتے کہ وہ حقیقی جنت میں ہیں۔ عبدالحلیم شرر کا ناول ” فردوس بریں” اسی پس منظر کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے۔ بعد میں لڑکیاں ان کو جام کوثر کے بہانے دوبارہ بھنگ پلا دیتیں اور عالمِ بے ہوشی میں انہیں اس "جنت” سے باہر نکال دیا جاتا۔ فدائیوں کا کام حسن کے حکم پر ناپسندیدہ لوگوں کو قتل کرنا تھا۔ حسن نے جب کسی کو قتل کروانا ہوتا تو کسی ایک فدائی کو دوبارہ جنت کی سیر کا وعدہ کرتا۔ اور یہ بھی یقین دلاتا کہ بفرضِ محال اگر وہ اِس مہم میں مارا بھی گیا تو بھی آخرت میں اؐسے ہمیشہ کیلئے جنّت مل جائے گی۔ فدائین جنّت کی خواہش اور حشیش کے نشے میں جانثاری اور بہادری کے بڑے بڑے کرشمے انجام دیتے تھے۔ حشیش کے استعمال کی وجہ سے فدائیوں کو حشاشین ( بھنگ نوش) بھی کہا جاتا ہے۔ فدائین کو شمالی وزیرستان میں زیر تعلیم مدرسوں کے طالبعلموں کی طرح لڑائی کے علاوہ مذہب کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔ فدائیوں کو مجاہد اور انہیں ان کی دہشت کی کاروائیوں کو جہاد ہونے کا احساس دلایا جاتا تھا۔

 حشاشین کا پہلا شکار سلجوقی سلطان ملک شاہ تھا، جسے زہر دے کر ہلاک کیا گیا۔  اس کے بعد  سلجوقی سلطان الپ ارسلان  کا وزیر نظام الملک طوسی فدائین کے خنجر کا  شکاربنا۔ کچھ عرصہ بعد نطام الملک کے دو بیٹوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔ انکے اگلے شکار حمص اور موصل کے دو شہزادے تھے جنہیں نماز پڑھتے ہوئے ہلاک کیا گیا۔ سلجوقی سلطان سنجر شاہ کے وزیر عبدالمظفر علی اور اس کے دادا چکر بیگ کو قتل کیا گیا۔  اس کے بعد یکے بعد دیگرے بہت سے مقتدر لوگ پُر اسرار طریقے سے ہلاک ہوتے رہے۔ ان میں خلفاء، سلاطین،اُمراء اور علماء سبھی لوگ شامل تھے۔ مسلمان تو ایک طرف بہت سے عیسائی بھی فدائیوں کے ہاتھوں قتل ہوےؑ۔  عیسائیوں میں سب سے اہم  نام طرابلس کے حکمران ریمنڈ کا لیا جاتا ہے۔  لیکن ایک چیز جو صباح کے فدائین کو ہمارے خود کش حملہ آوروں سے ممتاز کرتی ہے، فدائین نے پاکستانی خود کش حملہ آوروں کے  برعکس کبھی عام لوگوں کو اپنا شکار نہیں بنایا۔

فدائین کھلے عام دن دہاڑے لوگوں کے سامنے اپنی وارداتیں انجام دیتے تھے۔ اؐن کا ہتھیار ایک زہر آلود خنجر ہوتا تھا۔  کبھی کبھار فدائین قتل کی بجائے دھمکی آمیز خط کسی کے سرہانے چھوڑ دیتے تھے۔جس سے اٌن کا مقصد بغیر قتل کے بھی حاصل ہو جاتا۔ دہشت انگیزی کی یہ تحریک اتنی منظم تھی کہ قرب و جوار کے تمام بادشاہ فدائین کے نام سے تھرتھر کانپتے تھے۔  صلاح الدین ایوبی پر بھی قاتلانہ حملے ہوئے، جن سے وہ ہر بار بچ گیا۔ قتل کی اِن وارداتوں سے بچنے کیلئے صلاح  الدین ایوبی نے حسن بن صباح کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔

فدائین کو حشاشین بھی کہا جاتا تھا، انگریزی کا لفظ اساسن جس کے معنی قاتل کے ہیں، اسکا ماخذ یہی لفظ ہے

حسن بن صباح نے طویل عمر پائی اور اس کے مرنے کے بعد رکن الدین نے جماعت کی باگ ڈور سنبھالی۔ فدائیوں کا قلعہ "قلعہ الموت” کہلاتا تھا ۔  دشوار گزار پہاڑ کے اوپر واقع ہونے  اور فدائین کی جانثاری  کی وجہ سے اس قلعہ کو ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔

کہا جاتا ہےکہ  چنگیز خان کے پوتے منگول بادشاہ منگو خان پر حملہ کرنےکیلئےبھی ایک فدائی روانہ کیا گیا، جو بد قسمتی سے پکڑا گیا۔ منگو خان کو بہت غصہ آیا اور اس نے حسن بن صباح کو سزا دینے کیلئے اپنے چھوٹے بھائی ہلاکوخان کو روانہ کیا۔ ہلاکو خاں نے ہمیشہ سے ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے قلعہ الموت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، حسن بن صباح کے جانشین اور آخری شیخ الجبال  رکن الدین خور کو گرفتار کر لیا  گیا، اور اٌسے اس کے تمام بچوں اور  ہزاروں فدائیوں سمیت بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا۔ مرد تو مرد ہلاکو خان نے عورتوں کو بھی نہیں بخشا، حسن بن صباح کی جنّت کی حوریں  بھی قتل کر دی گئیں۔

قلعہ الموت کے کھنڈرات

آج مذہبی انتہاپسندوں نے حسن بن صباح کی جگہ لے لی ہے۔ طالبان اور خودکش حملہ آور جّنت کے حصول کی  خواہش میں فدائین کا روپ دھارے کھڑے ہیں۔ شمالی وزیرستان قلعہ الموت کا منظر پیش کر رہا ہے۔ وہی دہشت، وہی چالیں، وہی حربے ۔ آج بھی کم عمر نوجوانوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں کسی لڑکی کے نسوانی اعضا چھونے کا موقح دے کر جنّت کے حسین سپنے دکھائے جاتے ہیں ، اور پھر اُسے خودکش حملہ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، بالکل جیسے حسن اپنے فدائی روانہ کرتا تھا۔ میرے دیس کے خود کش فدائیوں کو کون روکے گا؟، یہ موت کا کاروبارکیسے  ختم ہو گا؟۔ حل کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی، آنکھیں کسی مسیحا کو کھوجتے کھوجتے پتھرا گئی ہیں، کچھ سمجھ نہیں آتی، کیا کریں؟، کہاں جائیں؟۔۔۔۔۔۔۔

  اج کتھوں لیائیے لبھ کے ہلاکو خان اک ہور

ہلاکو خان

2 Comments

جواب دیں

2 Comments
scroll to top