Close

اسلام ساری دنیا کے خلاف ہے

دنیا میں مذہبی فسادات کا ہونا کوئی نئی بات نہیں، تاہم یہ بات آسانی سے نوٹ کی جاسکتی ہے کہ اسلام ان میں سے تقریباً ہر ایک میں فریق ہوتا ہے، مسلمان ہندوؤں کے خلاف ہیں، عیسائیت کے خلاف ہیں، وہ یہودیت اور بدھ مت کے بھی خلاف ہیں۔۔ الغرض کہ گنتے چلے جائیے اسلام کو کسی کا بھی وجود منظور نہیں، جہاں بھی اسلام اور کوئی دوسرا مذہبی گروہ ہوتا ہے وہاں مذہبی فسادات لازماً ہوتے ہیں، اس اسلام کی آخر پرابلم کیا ہے؟ اور یہ ہمیشہ ہر فساد میں فریق کیوں ہوتا ہے؟

ہمیں دوسرے مذاہب کے آپس میں کوئی خاص جھگڑے نظر نہیں آتے مثال کے طور پر بدھ مت اور عیسائیت کے درمیان، یا یہودیت اور بدھ مت کے درمیان یا ہندومت اور عیسائیت کے درمیان وغیرہ۔۔ یقیناً ہلکے پیمانے پر دوسرے مذاہب کے بھی آپسی اختلافات ہوں گے مگر یہ اختلافات ایسے نہیں ہیں جیسا کہ اسلام کے ان سب مذاہب کے ساتھ ہیں اور جو اکثر خونی ہوتے ہیں۔۔ کیا وہ یہ دعوی نہیں کرتے کہ اسلام امن کا مذہب ہے؟ اور کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے ایک ایسا مذہب ہونا چاہیے جو انسانوں کو امن وآشتی کا پیغام دیتا ہو؟ لیکن زمینی حقائق جو ہم دیکھتے ہیں وہ امن کی دعوت کم اور انتقام کی دعوت زیادہ معلوم ہوتے ہیں، مطالبات، کینہ پروریاں، بد اندیشیاں، بغض، عداوت، صلیبیوں، ہندوؤں اور مشرق ومغرب کے خلاف جہاد کی دعوت، یہ دوسروں کے خلاف اپنے بغض میں اس قدر متذبذب اور وحشت زدہ ہیں کہ اپنی ہی قوم کے خلاف جہاد کا اعلان کر ڈالتے ہیں۔۔ آخر کیوں؟

یہ نفرت کا فیکٹر ہے جو ساری دنیا کو دشمن کے طور پر پیش کر کے اسلام اپنے ماننے والوں کے دلوں میں پالتا رہتا ہے، یہ پہلو تہی ہوگی اگر ہم کہیں کہ اسلام صرف دوسرے مذاہب کا ہی دشمن ہے، حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہر نئی چیز کے خلاف بغض رکھتا ہے، مثلاً اسلام کو سیکولرازم سے نفرت ہے۔۔ اسے کمیونزم، ڈیموکریسی، سرمایہ داری، مغرب، فن، تمام غیر دینی علوم، غیر مسلم ممالک، عورت، جدیدیت حتی کہ اس دنیا میں زندگی سے بھی اسلام کو نفرت ہے۔۔ یہ دنیا کا واحد مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو خود سے بم باندھ کر اڑانے پر قائل کر سکتا ہے؟ مسلمان چلتے پھرتے بم ہیں اور اسلام ایسے دہشت گرد پیدا کرنے والا ناسور۔

 

اسلامی کینہ پروری اور بغض کے آگے بند باندھنے میں نہ صرف اسلامی دنیا کے غریب ممالک (جیسے پاکستان) بلکہ امیر ممالک (جیسے سعودیہ) بھی ناکام ہیں، یہ ممالک انصاف پر مبنی روشن معاشرے تخلیق کرنے سے قاصر ہیں اور اس کی بجائے زندگی سے مایوس ایسی نوجوان نسلیں پیدا کر رہے ہیں جو بے قصور لوگوں کو اسلام کے نام پر جہنم رسید کرنے پر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔۔ ان اسلامی معاشروں کو خود سے پوچھنا چاہیے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تاہم شاید انہیں لفظ ❞کیوں❝ سے بھی نفرت ہے۔۔

نفرت کے سلفی شیخ حمود بن عقلاء الشعیبی فرماتے ہیں:

❞الولاء والبراء قاعدة من قواعد الدين واصل من اصول الايمان والعقيدة فلا يصح ايمان شخص بدونهما ، فيجب على المرء المسلم أن يوالي في الله ويحب في الله ويعادي في الله فيوالي أولياء الله ويحبهم ويعادي اعداء الله و يبغضهم ويتبرء منهم❝

❞ولاء اور براء دین کے قاعدوں میں سے ایک قاعدہ ہے اور ایمان اور عقیدے کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے ان دونوں کے بغیر کسی شخص کا ایمان درست نہیں ہوسکتا، مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ کے لیے وفاداری کرے اور اللہ کے لیے محبت کرے اور اللہ کے لیے نفرت کرے چنانچہ اولیاء اللہ سے وفاداری اور محبت کا اظہار کرے اور اللہ کے دشمنوں سے دشمنی، بغض اور عداوت کا اظہار کرے❝

وہابی شیخ صالح بن فوزان فوزان فوزان الفوزان اپنے ایک فتوے میں گویا ہیں:

❞فيجب معاداة الكفار وبغضهم وعدم مناصرتهم على المسلمين وقطع المودة لهم، كل هذا يجب على المسلم أن يقاطعهم فيه وأن يبتعد عنهم ولا يحبهم ولا يناصرهم ولا يدافع عنهم ولا يصحح مذهبهم، بل يصرح بكفرهم وينادي بكفرهم وضلالهم ويحذر منهم❝

❞چنانچہ واجب ہے کہ کفار سے دشمنی اور بغض کیا جائے اور مسلمانوں پر ان کی نصرت اور طرفداری نہ کی جائے، مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان سب میں ان کا بائیکاٹ کرے اور ان سے دور رہے، نہ ان سے محبت کرے، نہ نصرت کرے، نہ ان کا دفاع کرے اور نا ہی ان کا مسلک درست کرنے کی کوشش کرے، بلکہ سرِ عام ان کے کفر وضلالت کا اظہار کرے اور ان سے بچنے کی تلقین کرے❝

چنانچہ ثابت ہوا کہ دوسروں سے نفرت اور بغض کرنا ایمان وسنت کے اصولوں میں سے ہے۔۔ اسی نفرت، بغض اور کینہ پروری کے سبب مسلمان جدیدیت کے معانی سمجھنے سے قاصر ہیں، وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ جدیدیت کا مطلب ایسے مذہبی تصورات سے دستبرداری اور صحراء کے قلب سے برآمد ہونے والے اس دین کا احتساب نہیں ہے۔۔ جو بھی مذہب ہزاروں سال پرانی تعلیمات کو ایک ناقابلِ تبدیلی اور بند فکر سمجھتا ہو، اس کے ماننے والے ان تعلیمات پر اندھا اعتقاد رکھتے ہوں اور اسے تھوپی ہوئی تلوار اور قانون سمجھتے ہوں، ایسا مذہب ہمیشہ جدیدیت کے ساتھ ایک دائمی جنگ میں ملوث رہے گا۔

سوال یہ ہے کہ یہ جدیدیت آخر ہے کیا جس سے یہ اس قدر ڈرے ہوئے ہیں؟ یہ اپنے جوہر میں دوسرے کو قبول کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ہے، دنیا ہر گان تبدیل ہو رہی ہے، قومیں جدیدیت کے ساتھ خود کو ڈھالتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں، ایسے میں جو قومیں جدیدیت کو مسترد کریں گے وہ پہلے پسماندگی کا شکار ہوں گے اور پھر ڈائناسار کی نسل میں شامل ہوجائیں گی۔۔ اسلام نے خود کو جدیدیت کے راستے میں ایک رکاوٹ بنا لیا ہے، ایسے میں کیا لگتا ہے کس کی جیت ہوگی، ترقی اور ایجاد کی یا جمود کی؟ بغض اور کینہ پروری جس کا اسلام شکار ہے اس کی یہی وجہ ہے۔۔۔

یقیناً اسلام ہی وہ واحد مذہب نہیں ہے جو دوسرے مذاہب کے ساتھ مذہبی فسادات میں ملوث ہوتا ہے، لیکن یہ ان سب میں سے سب سے زیادہ ایسے فسادات کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے جس کی وجہ اس کا فاشٹ سیاسی رجحان اور اقتدار کی کرسیوں تک پہنچنے کی اس کی شدید خواہش ہے، اس کے علاوہ یہ اپنی فطرت میں بنیاد پرستی اور تعصب سے بھرا ہوا ہے۔

 

یہاں سب سے اہم نکتہ جدیدیت، ترقی اور اسلام کے ما بین جاری جنگ ہے، جب تک اسلام یہ سمجھتا رہے گا کہ اخلاق اور عقیدے کے ضمن میں زندگی میں کچھ نیا نہیں ہے اور یہ سب اسے مکمل طور پر مسنجروں کے مسنجر مسٹر جبریل کے ذریعے چودہ صدیاں پہلے ہی مل گیا ہے تب تک انسانیت کے ترقی کے رجحان کے خلاف اسلام کی جنگ جاری رہے گی۔۔۔ اس میں حیران ہونے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے، ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہو رہا ہے کیونکہ جدید معاشرے آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اسلام خود سمیت سب کو ماضی کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے لہذا یہ جنگ، جنگ کے کسی ایک فریق کے خاتمے تک جاری رہے گی۔۔ قارئین کو کیا لگتا ہے کہ جیت کس کی ہوگی؟؟!!

اگر مسلمان اس دنیا میں اپنے اور دوسری قوموں، مذاہب ونظریات کے ساتھ توازن اور امن قائم کرنا چاہتے ہیں اور چین کی نیند سونا چاہتے ہیں تو انہیں جدیدیت کے خلاف اپنی اس خود ساختہ جنگ کا فیصلہ کرنا ہوگا اور اسلام کے تمام فریقوں کے ساتھ مل کر اسے جدید بنانا ہوگا اور مردہ لوگوں کی زرد کتابوں کو عجائب گھروں کی نذر کرنا ہوگا۔۔ اس کوشش میں چاہے یہ اعتراف ہی کیوں نہ کرنا پڑے کہ اسلام اور اس کی بغض وکینہ پروری پر مبنی تعلیمات واقعی کسی اللہ کی طرف سے نہیں ہیں۔

23 Comments

  1. حد ہو گئی! یہ بلاگ تو صرف تنقید برائے تنقید ک لیئے ہی لکھا گیا لگتا ہے۔! یہ طاقت کی جنگ ہے۔ مسلمان کے پاس طاقت تھی تو وہ بھی ہر جگہ اپنا سکہ چلاتے تھے۔ آج عیسایوں کے پاس طاقت ہے تو وہ بھی سیکولرازم کی آڑ میں اپنا ورلڈ آرڈر ایشو کر رہے ہیں! کل کو ہندو کے پاس طاقت ہو گی تو وہ بھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد (مندر) ضرور بنائیں گے !!

    http://www.worldsecuritynetwork.com/Religion-and-Politics-India/Sengupta-Somini/In-India-Hindu-threat-to-Christians-Convert-or-flee

    پہلی اور دوسری جنگ عظیم کو کھنگال لو اور دیکھو کے کتنے لوگ مرے، دنیا کا کتنے سال تک امن خراب رہا اور پھر بتاو کے اس میں کتنے مسلمانوں کا ہاتھ تھا۔ ہماری تو خلافت کی قبا ہی تار تار کر دی طالموں نے۔ جاپان میں وہ تباہی مچائی گئی کہ الامان الحفیظ! آج تک جاپان میں تابکاری سے متاثرہ بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ میں نے نہیں سنا کے جاپانی بادشاہت میں مسلمانوں کا کوئی حصہ ہے یا تھا۔

    چین کے انقلاب کے دوران اٹھتر لاکھ سے زائد لوگ مار دئیے گئے! اب یہ نا کہنا کہ ماؤ زے تنگ مسلمان تھا یا انقلاب کے محالفین مسلمان تھے۔
    ۱۹۸۷ سے آج تک جو تبتی لوگوں کا استحصال اور مار پیٹ چین کر رہا ہے اس کا تو دکر ہی رہنے دیں۔ اور ہاں دلائی لاما بھی اپنے آپ کو مسلمان نہیں گردانتا۔

    ھٹلر نے تقریبأ ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کو یہ تیغ کیا اور وہ روسی جنگی قیدی جو مرنے کے لیئے چھوڑ دیئے گئے ان کی تعداد کوئی تیس لاکھ تک پہنچتی ہے۔ نا تو ہٹلر مسلا تھا اور نہ ہی مرنے والے کلمۂ حق کے علمبردار تھے۔

    کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں!!! زیل میں دیا گیا ربط ملاحظہ فرمائیں اور خود سوچیں کہ اسلام ساری دنیا کے خلاف ہے یا حقیقت کچھ اور ہے!

    http://www.scaruffi.com/politics/dictat.html

    1. یہ Red herring ہے اور کچھ ایسا ہی ہے کہ جسے سو بچوں کے قاتل کو گرفتار کر کے اس پر مقدمہ چلایا جائے اور وہ اپنے دفاع میں اس دنیا بھر میں ہونے والے ہزاروں دوسرے جرائم گنوانا شروع کر دے جن کے مجرم نہ پکڑے گئے ہوں اور سزا سے بچ نکلے ہوں۔ کیا کوئی بھی معقول عدالت دوسرے لوگوں کے گناہوں کی فہرست مہیا کرنے پر اس سو بچوں کے قاتل کی سزا میں کمی کرے گی؟ یقینا” نہیں۔ ۔ ۔ بالکل اسی طرح آپ بھی جنابِ عالی، دوسروں کے جرائم کی فہرست پیش کر کے مسلمانوں یا اسلام کے جرائم کو "کم” نہیں کر سکتے۔

      اگر اربوں لوگ ایسی جنگوں میں مارے جا چکے ہیں کہ جنکا اسلام سے تعلق نہیں ہے تو بھی یہ اسلام کے نام پہ کی گئی اور ہونے والی قتل و غارت و نفرت کا جواز نہیں۔اگر آپ ٹھنڈے دل سے تحریر کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ مصنف نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ صرف اسلام ہی واحد مذہب یا وجہ ہے، بلاشبہ دوسری وجوہات بھی ہوں گی، لیکن اس سے انکار نہیں کہ اسلام نے اس معاملے میں اپنا اچھا خاصہ حصہ دنیا میں شئیر کیا ہے اور مزید کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔

      1. میں نے پہلے ہی عرض کر دیا تھا کہ یہ طاقت کی جنگ ہے۔ اسکا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ قانون فطرت ہے کہ جہاں پر ظلم ہوتا ہے وہاں اسکا ری ایکشن بھی ہوتا ہے۔ اگر آج مغرب مسلمانوں پر اپنی جمہوریت لاگو کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اسکو مزاحمت کا سامنا ہے۔ آج سے پچاس ۔ سترسال پہلے تک ایسا کچھ نہیں تھا (بلکہ ۹۔۱۱ تک بھی، بقول شخصے، مسلمان اور اسلام ساری دنیا کے خلاف نہین تھا) اور یورپ آپس میں لڑ رہا تھا، اقوام متحدہ، لیگ آف نیشنز وغیرہ بنائی جا رہی تھیں۔ آج کل یورپی اقوام باہم شیرو شکر ہو چکیں اور امریکہ تنہا سپر پاور ڈیکلئر ہو چکا اور مسلمان زیر عتاب آ گئے۔ اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ بقول مصنف اسلام ساری دنیا کے خلاف ہے (یہی میرا اعتراض ہے)۔ ہاں آپ یہ ضرور کہ سکتے ہیں کہ لگتا ہے کہ آجکل جیسے اسلام ساری دنیا کے خلاف ہے یا ساری دنیا اسلام کے خلاف ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کل کلاں مصنف کسی اور قوم یا مذہب کے بارے میں یہی لکھے۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ جنگ عظیم دوم کے دوران کسی جرمن بلاگر کی کہی ہوئی یہ بات کہ یہودی ساری دنیا کے خلاف ہیں آج کل کے دور میں صحیح نہیں سمجھی جائے گی بعنہہ قطعی طور پر یہ کہ دینا کہ اسلام ساری دنیا کے خلاف ہے، ایک تاریخی بددیانتی ہو گی۔

    1. خود ساختہ؟ بھائی گھاس کھا بیٹھے ہو کیا؟ آپ جیسے لوگوں کے لیئے ایک عدد ویب سائیٹ کا ربط بھی دیا تھا مگر لگتا ہے بغض اسلام میں آپ نے اسکو پڑھنا گوارا ہی نہیں کیا۔

      جہاں تک آپ کے سوال کی بات ہے تو اسی سوال ہیں ہی میرا جواب مضمر ہے۔ اربوں لوگ ایسی لاکھوں جنگوں میں مارے جا چکے ہیں جن کا اسلام سے دور دور تک بھی تعلق نہیں تھا اور آج بھی مر رہے ہیں۔

  2. دیکھنے کا نظریہ ہے – آپ کو ایٹم بم گرانا ظلم لگتا ہے – مجھے نہیں لگتا؟تھوڑا سا اور تکلیف دیں گوگل کو سمجھ آجائیگی کیوں؟ اسلام سے بغض مجھے نہیں اسلام کو مجھ سے بغض ہے! میرے سوال کا جواب نہیں ملا – کیا یہ جنگیں مذھبی جنگیں تھی؟ یا مذھب کی ترویج مقصد تھا ؟ مجھے اعتراض مسلمانوں پر نہیں ان مسلمانوں پر ہے جو مذھب کے نام پر مارتے اور مرتے آرہے ہیں

    1. جس کو ایٹم بم کی تباہی ظلم نا لگتی ہو اور پھر وہ یہ کلیم بھی کرے کہ اسلام کو اس سے بغض ہے تو ان صاحب یا خاتون سے یہی درخواست کی جا سکتی ہے کہ گو ہوم یو آر ڈرنک! آپکے سوال کا جواب آپ کے ہی سوال میں موجود ہے!

      1. حضور اس ہی وجہ سے گوگل کرنے کو کہا تھا – میں صاحب ہوں – اور بے حد درجہ تک انسان ہوں – مسلمانوں سے زیادہ انسانیت ہے مجھ میں – اگر آپ زحمت نہیں کرنا چاہتے تھے تو خود ہی عرض کر دیتا ہوں کہ دوسری جنگ عظیم میں مزید دس لاکھ اموات کا خدشہ تھا – امریکی ایٹم بم کے بعد وہ جنگ ایک ہفتہ میں رک گئ – ایٹم بم کے متاثرین کی تعداد ڈھائ لاکھ ہے ، مجھے صرف اس بنیاد پر ایٹم بم کا استعما جائز لگا – لیکن جناب بات وہیں رہ گئ کہ ایٹم بم کا گرانا بھی مذھبی جنگ نہیں تھی- انسان تو ٹہرا فسادی مجھے اعتراض خدا کے نام پر ہونے والے قتل پر ہے – آپ اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجاۓ دوسرے غیر انسان فعل کی طرف انگلی اٹھا کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ مذھب کے نام پر بھی قتل جائز ہے؟

        1. محترم Neon Khan صاحب، سوتے کو تو جگایا جا سکتا ہے لیکن جاگتے کو جگانا مشکل امر ہے۔ اسلام اور دیگر مذاہب کا "معتدل” طبقہ اپنے اپنے مذہب کو عقلیانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے تاکہ کسی طور یہ ایک معقول ذہن کے لئے قابلِ قبول بن جائے، خواہ اسکے لئے اسکو اپنا دین نئے سرے سے ہی مرتب کیوں نہ کرنا پڑے ۔ Red Herring یعنی بات کو اصل موضوع سے گھما دینا اور اس جیسے منطقی مغالطے مذہب کا دفاع کرنے والے نام نہاد روشن خیالوں کا من پسند میدان ہے کیونکہ عوام الناس کی اکثریت انکے اس جال میں باآسانی پھنس جاتی ہے۔ نامعقولیت کے عنوان سے پیش کی گئی تحریر میں ایسے ہی طبقے کی سائکی کا انیلیسس کیا گیا ہے۔
          مذہب کو منجانب خدا اور مذہب کے فرامین کو الہامی مان لینے کے بعد مذہب کے ماننے والوں کا دوسرا یعنی شدت پسند طبقہ باآسانی ان معصوموں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کر لیتا ہے۔ چنانچہ مذہب کے دونوں طبقات ہی مذہب کے نام پر دنیا میں پھیلائی جانے والی خرابی میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ شدت پسند طبقے کی نفی کے ساتھ ساتھ اس نام نہاد معتدل گروہ کی قلعی کھولنا بھی ضروری ہے، اور جرات تحقیق پہ یہ دونوں کام کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جارہی ہے۔
          جاپان پہ ایٹمی حملوں کا رونا رو کر اسے اپنے اپنے مذاہب کے نام پہ ہونے والی خون آشام کاروائیوں کا جواز بنا دینا بجائے خود اتنا سطحی اور عامیانہ ہے کہ کوئی بھی معقول انسان اس دلیل کا سقم دیکھ سکتا ہے۔ اسلام کا ناسور کے عنوان سے اس موضوع پہ سرسری سی گفتگو کی گئی ہے۔
          ویسے اس ربط کو بھی ایک نظر دیکھ لینا شاید محترم جنابِ عالی صاحب کو ایک نئی جہت سے آشنا کرے۔

          1. تو آپ یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جو جنگیں مذہب کے نام پر لڑی گئیں وہ بد ہیں اور اسلام کے نام پر لڑی جانے والی بد ترین اور باقی ماندہ قتل و غارت جس میں مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہے (اور جو کہ تمام کا ۹۰ فیصد سے زیادہ بنتا ہے) وہ کسی نا معلوم وجہ سے درست قرار پاتی ہے جس میں سے ایک وجہ امریکہ کا ہیروشیما اور ناگا ساکی کے رہایئشییوں کو حملے کی پیشگی خبر دینا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور ان ۹۹ فی صد جنگوں کو بھولتے ہوئے اسلام میں موجود صفر اعشاریہ صفر صفر ایک فی صد شر انگیزی (جو مذہب سے زیادہ پولیٹیکل ان نیچر ہے) آپ یہ فتوٰئ صادر کر رہے ہیں کہ اسلام ساری دنیا کے خلاف ہے۔

            برائے مہربانی کنفرم کر دیجیئے گا۔

            http://oxfordstudent.com/2013/05/30/debate-this-house-believes-islam-is-a-religion-of-peace/

            بای دا وے، اس موضوع کا عنوان ہی ریڈ ہیرنگ ہے! ذرا سوچیئے!

        2. میں نے یہ کب کہا کہ اسلام کے نام کی گئی قتل و غارت جائز ہے؟ میرا اعتراض اس پر ہے کہ آپ اسلام کے نام پر اور دوسری غیر اسلامی جنگوں کے فیکٹس اینڈ فگرز نکالیں تو یہ تناسب بالترتیب ا ور ۹۹ کا بنے گا۔ اسوجہ یہ کہنا کہ اسلام ساری دنیا کے خلاف ہے علمی اور عقلی بد دیانتی ہو گی۔

          1. تحریر میں بیان کئے گئے ایک مسلم عالم کے درج ذیل فتوے میں کونسی بات آپکو سمجھ نہیں آرہی؟
            "چنانچہ واجب ہے کہ کفار سے دشمنی اور بغض کیا جائے اور مسلمانوں پر ان کی نصرت اور طرفداری نہ کی جائے، مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان سب میں ان کا بائیکاٹ کرے اور ان سے دور رہے، نہ ان سے محبت کرے، نہ نصرت کرے، نہ ان کا دفاع کرے اور نا ہی ان کا مسلک درست کرنے کی کوشش کرے، بلکہ سرِ عام ان کے کفر وضلالت کا اظہار کرے اور ان سے بچنے کی تلقین کرے”

            کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اسکی یہ بات درست نہیں اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ جبکہ اسلام تو مکمل امن و آشتی کا مذہب ہے اور یہ جہادی دہشت گرد جو کچھ کرتے پھر رہے ہیں سب گمراہ ہیں۔ کیا آپکے نزدیک بت پرست اور یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست ہو سکتے ہیں اور ہمہ وقت اسلام کے خلاف سازشوں کے جال بننے میں مصروف نہیں ہیں؟
            قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کیجئے گا۔

  3. جی ہاں میں بالکل یہی کہنا چاہ رہا ہوں جو آپ سمجھے۔ آپ اپنے مقدمے کی دلالت میں ایک شدت پسند عالم کو کوٹ کرتے ہوئے (چیری پکنگ) علماء کی اس اوور وہیلمنگ میجارٹی کو کیوں بھول جاتے ہیں جو مذہبی شدت پسندی کے خلاف فتوے دیتی ہے۔ مثال کے ظور پر نیچے دیا گیا ربط ملاحظہ فرمائیں۔

    http://centralasiaonline.com/en_GB/articles/caii/features/pakistan/main/2013/07/03/feature-01

    مجھے یہاں پر قران و حدیث کے حوالے سے یہ ثابت کر کے کہ اسلام شدت پسندی کے خلاف ہے، پہیے کو دوبارہ ایجاد کرنے کے مصداق کام نہیں کرنا ہے کیونکہ اس پر پہلے ہی بے تحاشہ کام ہو چکا ہے اور ہو بھی رہا ہے۔ آپ اپنے حوالے کے لیئے مندرجہ ذیل ربط ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

    http://www.quranandwar.com/FATWA%20on%20Terrorism%20and%20Suicide%20Bombings.pdf

    ہر چند کہ کچھ اسلامی علماء اس قسم کے فتوے جاری کرتے رہتے ہیں جیسا کہ آپ نے کوٹ کیا ہے، پھر بھی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شدت پسندی کے خلاف ہے۔

    http://news.bbc.co.uk/2/hi/americas/7267100.stm

    لیکن اسکے برعکس پھر بھی ہمیں یہ طعنے سننا پڑتے ہیں کہ اسلام ساری دنیا کے خلاف ہے۔ جو اپنے سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کے لیئے، اپنا اسلحہ بیچنے کے لیئے، تیل اور دیگر وسائل پر قبضے کے لیئے، اپنی پسند کی جمہوریت کے لیئے یا سرخ انقلاب لانے کے لیئے لاکھوں اربوں انسانوں کو ہولناک جنگ میں دھکیل دے اسکی مذمت تو درکنار اسکا ذکر کرتے ہوئے بھی پر جلنے لگتے ہیں اور ہولوکاسٹ تک کا انکار کر دیا جاتا ہے۔

    1. یہ "شدت پسند” (دہشت گرد کیوں نہیں؟) علماء (جہلاء کیوں نہیں؟)بھی مسلمان ہیں اور انکی تعلیمات کا ماخذ بھی وہی کتب ہیں کہ جنکی مدد سےکھینچ تان کے اسلام کو پرامن مذہب ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر یہ علماء اسلام کو غلط سمجھے تو انکو غیر مسلم کیوں قرار نہیں دے دیا جاتا اور انہیں محض "شدت پسند عالم” کہا جاتا ہے۔
      مسئلہ انکی سمجھ میں نہیں ہے، مسئلہ تعلیمات میں ہے۔ یہ درخت اپنی جڑ سے زہریلا ہے۔ گزشتہ دنوں شیعوں کا قتلِ عام، بادامی باغ وغیرہ اسی زہریلے درخت کے تلخ پھل ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے وہ یا تو جھوٹ بولتے ہیں یا پھر اسلام کو سمجھے ہی نہیں، اور دراصل اپنے اندر کی اچھائی کو اسلام میں منعکس دیکھتے ہیں۔ہمارے سادہ سے سوال کا جواب دینے کی بجائے ہمیں یہ جو پانچ سو سے زائد صفحوں پہ مشتمل کتاب تھما دی ہے اس پہ تفصیلی بات ہو سکتی ہے اور سچ جھوٹ سامنے لایا جا سکتا ہے، لیکن حضور ہماری گفتگو آپ سے ہو رہی ہے، پہیہ دوبارہ ایجاد نہ کرنے کا عذر تراش کے کہنا کے جا کے طاہر القادری سے بحث کرو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جناب موضوع کا احاطہ نہیں رکھتے۔
      جو مذہب بنیادی حقِ انسانی یعنی آزادیِ اظہار پہ قدغن لگائے وہ کسطرح امن کا مذہب ہوسکتا ہے؟ (جراتِ تحقیق پہ بین اسکی ایک چھوٹی سی مثال ہے) کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان یا سعودی عریبیہ یا ایسی اسلامی ریاستوں میں آزادیِ اظہار ممکن ہے؟ زبان بندی اور امن باہم متضاد چیزیں ہیں۔ اور اگر یہ اسلامی ریاستیں نہیں ہیں اور اسلام کی صحیح صورت کی عکاسی نہیں کرتیں تو اصل اسلام کہاں ہے؟ کہاں پہ عملی صورت میں موجود ہے؟ کہیں یہ والی صورتحال تو نہیں؟

      جس مذہب کا بانی قبیلوں کے قبیلوں کو تہہ تیغ کردے، ایک شادی شدہ عورت کو اسکے خاوند کے قتل کرنے والی رات ہی اپنے بستر میں لے جائے، خادماؤں اور نو سالہ بچی تک سے جنسی تعلقات استوار کرے، جنگ میں عورتوں اور بچوں کو قید کراکے انکی خریدوفروخت کرائے اس مذہب سے ہم یہی توقع کر سکتے ہیں کہ جو آج دیکھ رہے ہیں۔ جو مذہب خود پہ ذرا سی تنقید برداشت کرنے کا روادار نہ ہو، اور اس مذہب کا بانی اپنے ناقدین کو assassinate کراتا رہا ہو اسکے پیروکاروں سے ہم کیا بہتری کی امید لگائیں گے؟
      جس مذہب کے بانی کے مرنے کے بعد (اسکے جنازے تک سے پہلے) اسکے پیروکار آپسمیں اقتدار کے لئے گتھم گتھا ہو گئے ہوں، جنکی تلواریں اپنوں اور غیروں کے خون سے رنگی ہوں اس سے ہم یہی توقع رکھ سکتے ہیں۔
      چیری پکنگ کیسے جی؟ ہم مقدمہ پیش کر رہے ہیں اسلام کے کرتوتوں اور زہریلی تعلیمات کے خلاف، مقدمہ پیش کرنے والے وہی چیزیں لائی لائٹ کرتے ہیں کہ جو جرم کو ثابت کرتی ہوں۔ سو بچوں کا قاتل اگر پنج وقتہ نمازی ہو تو یہ چیز اسکے سو بچوں کے قتل والے جرم میں کمی نہیں کرتی نہ ہی اسکی پانچ نمازوں کا سو بچوں والے قتل کے مقدمے میں کوئی عمل دخل ہے۔ "شدت پسند” علماء کہاں سے آتے ہیں؟ یہ اپنی تعلیمات کہاں سے لیتے ہیں؟
      پہیہ ایجاد کیجئے کہ ہماری گفتگو فی الوقت آپ سے ہو رہی ہے طاہر القادری سے نہیں۔
      مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے، جبکہ دینِ اسلام میں مرتد کی سزا موت ہے یہ چیز امن و آزادی کی نفی جبکہ جبر و تشدد کو فروغ دیتی ہے۔
      مذہبِ اسلام مشرکوں پہ کھل کے تنقید کرتا ہے انہیں جاہل گنوار، جنہم کا ایندھن اور جانے کیا کیا کہتا ہے، لیکن جب ایسی ہی تنقید اسلام یا بانی اسلام پہ ہوتی ہے تو اسکے لئے "شرعی” سزائیں ہیں۔ کیوں اور کس انصاف کے تحت۔
      دنیا سے فساد کے خاتمہ اور امن کے قیام کے لئے اسلام "جہاد” کی ہدایت کرتا ہے۔ ذرا یاد دہانی کرائیے گا کہ "فساد” سے اسلام کی کیا مراد ہے اور "امن” کی تشریح کیا ہے۔
      ہم نے یہ بات بھی اپنے گزشتہ تبصرے میں پوچھی تھی کہ: "کیا آپکے نزدیک بت پرست اور یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست ہو سکتے ہیں”
      اور آپ نے فرمایا "جی ہاں میں بالکل یہی کہنا چاہ رہا ہوں جو آپ سمجھے”
      تو اب ذرا اس آیت پہ روشنی ڈالئے گا، اور براہِ کرم اپنے الفاظ میں، کاپی پیسٹ اور کتابوں کے ربط سے کام نہین چلے گا، ہاں حوالہ ضرور دیجئے گا کہ آپکی تشریح کا ماخذ و منبع کیا ہے۔
      5:51 القرآن
      اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ یہ (سب تمھارے خلاف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو شخص انکو دوست بنائے گا بیشک وہ (بھی) ان میں سے ہو (جائے) گا۔ یقینا” اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا

      درج ذیل آیات اور آپکی مذہبی کتب میں موجود اس جیسے دوسرے احکامات کو بنیاد بنا کر "جہاد” کیا جاتا ہے اور جب مغرب سے یا دوسرے روشن خیال طبقوں سے اعتراض ہوتا ہے تو آپ جیسے حضرات یا لاعلمی میں یا پھر تقیہ کی خاطر انکی من مانی تاویلات کرتے پھرتے ہیں۔
      4:76 القرآن
      جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنہوں نے کفر کیا ہو شیطان کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، پس اے مومنو تم شیطان کے دوستوں سے لڑو بیشک شیطان کا داؤ کمزور ہے۔

      61:9-11 القرآن

      وہی ہے جسنے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب ادیان پر غالب و سربلند کر دے خواہ مشرک کتنا ہی ناپسند کریں۔ اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتا دوں جو تم کو دردناک عذاب سے بچالے؟ تم اللہ اور اسکے رسول پر ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔

      اسامہ بن لادن کا امریکہ کے نام کھلا خط دیکھ لیں، اسمیں کہاں اسنے اسلامی تعلیمات سے روگردانی کی ہے؟ اور کس بنیاد پر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اسامہ بن لادن اور اسکی ذریت جو کر رہی ہے وہ "درست اسلام” کی عکاس نہیں ہے۔ براہِ کرم وضاحت کیجئے۔

  4. کل اچھا خاصا تبصرہ لکھا جو براؤزر غلظی سے بند ہو جانے پہ ڈیلیٹ ہو گیا۔ بہر حال جواب تو دینا ہے۔
    مسئلہ عالم کو جاہل یا شدت پسند کو دہشت گرد قرار دینا نہیں ہے۔ میرے نزدیک دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ایک شدت پسندی ابھارتا ہے اور دوسرا اس پر عمل کرتا ہے۔ میں نے اپنے تبصرے مورخہ July 9, 2013 11:08 am میں یہ واضح کر دیا تھا کہ ایسے فتووں اور علماء یا جہلاء کی موجودگی میں بھی مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت شدت پسندی، دہشت گردی وغیرہ کے خلاف ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلام ساری دنیا کے خلاف نہیں ہے۔ مجھے میری اس دلیل کا کوئی جواب آپ کی طرف سے نہیں مل سکا ہے۔ جب ایک فتوے کے خلاف کئی فتوے آجائیں جن کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد مانتی ہو تو ایسے فتوے (جیسا کہ آپ نے چیری پک کیا) کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی۔ آپ نے کہا کہ ایسے لوگوں کو اسلام سے خارج کیوں نہیں کیا جاتا تو جناب بات یہ ہے کہ میرے تو کان پک گئے ہیں یہ سن سن کر کہ دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ بھٹکے ہوئے ہیں اور ہماری فوج، پولیس بھی ان کو چن چن کر مار رہی ہے۔ سوات آپریشن کی مثال آپ کے سامنے ہے اور ڈرون حملوں کی بھی ہماری حکومت نے اندر کھاتے کھلی آزادی دے رکھی ہے۔

    دوسرا اعتراض یہ تھا کہ بھائی اسلام میں آزادئ اظہار رائے نہیں ہے۔ اب اگر آپ ڈائریکٹ اسلام کے پیغمبر، کتاب اور شعائر کا مزاق اڑانا چاہتے ہیں تو اسکی اجازت یقینأ نہیں ہے کیونکہ اس سے لاکھوں مسلمانوں کے جزبات مجروح ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ برطانیہ اور دوسرے کئی ممالک میں hate speech کے خلاف قوانین موجود ہیں جہاں پر آپ ملکہ کے خلاف بھی کچھ نہیں بول سکتے۔ ذیل میں دی گئی وئڈیو آپ کو بتائے گی کہ اپریکہ میں اظہار رائے کی کتنی آزادی ہے۔

    http://www.youtube.com/watch?v=fiPN1Y4jf0k

    سنوڈن بیچارہ تو خود راندہء درگاہ ہو پھرتا ہے کیونکہ اسنے جاسوسی کے نیٹ ورک کے بارے میں امریکہ کا بھانڈا پھوڑا تھا۔ اسی طرح چین نے بھی ایک عرصے سے ٹوئٹر، فیس بک اور یو ٹیوب پر پابندی لگا رکھی ہے۔ تو میرے بھائی ہر قوم، ملک، ریاست یا گروہ ایسے قوانین تشکیل دیتا ہے کہ جس سے اسکی ملکی سلامتی وغیرہ کا تحفظ کیا جا سکے۔ اس لیئے اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسلام ساری دنیا کے خلاف ہے۔
    ہاں جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو ان پر تنقید ہو رہی ہے اور خود مسلمان کر رہے ہیں۔ ایسی صحتمندانہ تنقید پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر نیچے دیا گیا ربط ملاحظہ کریں۔

    http://dawn.com/news/1024202/the-plump-patriotic-pakistani-awards

    اگلے اعتراض میں آپ پھر بات کو گھماتے ہیں اور اسلام کے پیغمبر صلعم پر ڈائریکٹ تنقید کرتے ہیں لیکن اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسلام ساری دنیا کے خلاف ہے۔ آپ کے اس اعتراض کہ جس مذہب کا پیغمبر (صلعم) ہی ایک شدت پسند تھا (نعوذ باللہ) اسکے پیرو کار کیسے ہونگے کا جواب یہ ہے کہ سرکار گیلپ کے سروے میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد شدت پسندی کو یکسر مسترد کرتی ہے۔ جو تعداد شدت پسندی سے متاثر ہے وہ اتنی ہی ہے جتنی ہر مذہب میں موجود ہوتی ہے کبھی بال ٹھاکرے اور کبھی ٹیری جونز کی شکل میں۔ آپ کے اپنے بنائے ہوئے معیار کے مطابق ہی آپ کا اعتراض دم توڑ دیتا ہے۔

    نجانے آپکا اصرار میرے سے پہیہ ایجاد کرانے پہ کیوں ہے حلانکہ مجھے میرے تبصروں مورخہ July 9, 2013 at 7:38 am اور July 6, 2013 at 12:25 pm کا پراپر جواب نہیں ملا ہے۔ اگر میرا امتحان ہی مقصود ہے تو آپ ایسی آیات بتایئے جن پہ آپکو یہ شک ہو کہ یہ دہشت گردی پہ اکساتی ہیں تو انکا جواب میں آپکو دے دوں گا۔ مثال کے طور پر آپ نے ایک آیت کوٹ کی ہے

    اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ یہ (سب تمھارے خلاف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو شخص انکو دوست بنائے گا بیشک وہ (بھی) ان میں سے ہو (جائے) گا۔ یقینا” اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا۔

    اس آیت میں ان منافقین مسلمانوں کو تنبیہ کی جارہی ہے جو مسلمانوں کے ساتھ بھی تھے اور یہود و نصارٰٰی کے ساتھ بھی۔ حالانکہ اس وقت یہودونصارٰٰٰی نے مسلمانوں کے خلاف گٹھ جوڑ کر لیا تھا۔ چونکہ اتمام حجت ہو چکا تھا اور اللہ کی سنت کے مطابق خیرو شر کا فیصلہ ہونے والا تھا ( آنحضرت صلعم کے موقع پر یہ فیصلہ تلوار نے کیا اور سورۃ توبہ میں اسی اللہ کی سنت کی طرف اشارہ ہے) اس لیئے یہ ضروری تھا کہ مسلمانوں اور منافقین کو الگ کر دیا جائے۔ اگر اسکو آجکل کے دور میں سمجھنا ہو تو یوں سمجھ لیں کہ جس طرح پاکستان (اور کئی دیگر ممالک) کی مقننہ میں دوہری شہریت رکھنے والوں کے چناؤ کی ممانعت ہے۔ اس ضمن میں آپ مودودی صاحب کی تفہیم کا مطالعہ بھی کر سکتے ہیں۔

    پھر آپ نے سورۃ نساء کی آیت ۷۵ کا حوالہ دیا ہے تو سرکار زرا اوپر والی آیت بھی ملاحظہ کر لینی تھی کہ بحث کس بات پر ہو رہی ہے۔
    ترجمہ:
    اور تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے جنگ نہیں کرتے جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں اس ظالم باشندوں کی بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمدرد پیدا کر اور ہمارے لیے اپنے پاس سے مددگار کھڑے کر۔

    اسمیں شیطان سے جنگ کا مطلب آپکو سمجھ میں آگیا ہو گا۔ اور یہ بھی سمجھ آگیا ہو گا کہ اسلام کس کے خلاف جنگ کا کہ رہا ہے۔ یہ جنگ ہے ظلم کے خلاف! اسی طرح سورۃ الصف کی آیات مبارکہ ۹ تا گیارہ میں اس جہاد کا ذکر ہے جو ہر رسول کے ساتھی منکرین کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔

    پھر آپ نے اسامہ کے ایک خط کا ذکر کیا ہے تو میرا وہی جواب جو میں اوپر دے چکا ہوں کہ ایک شخص کے کسی فعل کو یا اسکی قران مجید کی سمجھ کو جینرلائیز نہیں کیا جا سکتا۔ آج بھی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسامہ کے جہاد کے خلاف رائے رکھتی ہے۔ علماء اس کے خلاف فتوے دے چکے ہیں۔

    کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپکی تحریر اور پھر تبصرے یہ کسی طور ثابت نہیں کر سکتے کہ اسلام ساری دنیا کے خلاف ہے کیونکہ یہ تحریر کسی قسم کا معیار مقر کرنے سے قاصر نضر آتی ہے کہ کس کے مقابلے میں اسلام نے زیادہ ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ اگر آج میں یہ دعویٰ کروں کہ زرداری دنیا کا کرپٹ ترین آدمی ہے تو میں فیکٹس اینڈ فگرز سے یہ ثابت کروں گا کہ زرداری نے جتنے بلین کی کرپشن کی ہے اتنی دنیا میں کسی نے بھی نہیں کی۔ حضور معیار کیا ہے؟

    چلتے چلتے آپکو یاد دہانی کراتا جاوں کہ ظلم کیا ہوتا ہے اور کون ساری دنیا کے خلاف ہے۔

    http://urdu.dawn.com/2013/07/01/clash-of-civilization-an-assumption-column-jamil-khan/

    http://urdu.dawn.com/2013/07/09/clash-of-civilization-an-assumption-2-column-jamil-khan/

    1. ایسے فتووں اور علماء یا جہلاء کی موجودگی میں بھی مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت شدت پسندی، دہشت گردی وغیرہ کے خلاف ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلام ساری دنیا کے خلاف نہیں ہے۔

      ————————————————————————————————-

      جو "اکثریت” دہشت گردی کے خلاف ہے، اسوجہ سے ہے کہ وہ اصل اسلام سے نابلد ہیں، وہ اپنے اندر کی اچھائی کو اسلام سمجھتے ہیں، پیغمبرِ اسلام کی سنت سے انکو لاعلم رکھا گیا ہے اور اسکا ایک مقدس اور رحمدل خاکہ بچپن ہی سے انکے ذہنوں میں نقش کر دیا گیا ہے۔ اکثریت یقینا” دہشت گردی میں ملوث نہیں ہے، بلکہ یہ اکثریت تو اسلام اور اسکی دہشت گردی کا شکار ہے۔ لیکن دوسری طرف یہی اکثریت دہشت گردوں کے ہاتھ مضبوط بھی کرتی ہے، انجانے ہی میں سہی انکی پشت پناہی کرتی ہے۔ دہشت گردوں کو "خام مال” یہیں سے میسر آتا ہے۔
      آپ درست کہتے ہیں، سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، سارے مسلمان شاید دنیا کے خلاف نہ بھی ہوں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مذہبِ اسلام کی تعلیمات بقیہ دنیا کے خلاف ہیں۔ ۔ ۔ کیسے؟ اس پہ آگے چل کے گفتگو کرتے ہیں۔ یہاں تک صرف یہ سمجھ لینا کافی ہوگا کہ مسلمانوں کے ایک گروہ کا دہشت گردی اور دنیا کے خلاف نہ ہونا مذہبِ اسلام کی زہریلی تعلیمات کو جسٹیفائی نہیں کرتا۔

      جب ایک فتوے کے خلاف کئی فتوے آجائیں جن کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد مانتی ہو تو ایسے فتوے (جیسا کہ آپ نے چیری پک کیا) کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی۔

      ————————————————————————————————-

      انکی بالکل وقعت رہی جاتی ہے، انہی کے فتوؤں کی بدولت بدامنی اور دہشت گردی پھیلتی ہے۔ اگر آپ ان کے خلاف ہیں تو پھر ہمارے ساتھ مل کے انکے خلاف آواز کیوں بلند نہیں کرتے؟

      ہماری توجہ بار بار اصل موضوع اور مسئلے سے ہٹا کے دوسری طرف کیوں بٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنابِ عالی، جب تک ان کے فتوؤں کو ماننے والے اور ان پہ عمل کرنے والے موجود ہیں تب تک انکے فتوؤں کی بڑی وقعت ہے۔ اور انکے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے کی کوشش کرنا ہی بزعمِ خود "امن پسند اسلام کے داعیوں” کا پول کھولتا ہے۔

      دوسرا اعتراض یہ تھا کہ بھائی اسلام میں آزادئ اظہار رائے نہیں ہے۔ اب اگر آپ ڈائریکٹ اسلام کے پیغمبر، کتاب اور شعائر کا مزاق اڑانا چاہتے ہیں تو اسکی اجازت یقینأ نہیں ہے کیونکہ اس سے لاکھوں مسلمانوں کے جزبات مجروح ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

      ————————————————————————————————-

      پیغمبر، کتاب اور شعائر کا مذاق اڑانا یک بات ہے اور ان پہ تنقید کرنا اور انکی سنت و تعلیمات پہ علمی و عقلی اعتراض کرنا دوسری بات۔ ہم ثبوت کے ساتھ الزام لگا رہے ہیں۔ ہم یہاں پہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ محمد اللہ کا رسول نہیں تھا، قرآن اللہ کی کتاب نہیں ہے اور اسلام اللہ کا دین نہیں ہے۔
      ہم آپکے جذبات سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص کو پوجا کی حد تک پیار کیا جاتا ہو، جسکے فرمودات کو جان سے عزیر رکھا جاتا ہو اور جس کتاب کو قادرِ مطلق کی کتاب سمجھا جاتا ہو اس پہ ذرہ برابر تنقید سے بھی خون کھول اٹھتا ہے۔ یہ ناچیز بھی کبھی اس مقام پہ تھا جس پہ آج آپ ہیں۔ لیکن کھلے ذہن سے اس ویب سائیٹ کا مطالعہ کیجئے۔ کچھ دیر کے لئے جذبات کو قابو میں رکھئے اور منطقی و علمی آنکھ سے دیکھئے۔ آپکو مذاق نہیں بلکہ اعتراض۔ ۔ ۔ توہین نہیں بلکہ الزامات دکھائی دیں گے۔
      پھر آپکو دعوت ہے کہ آئیے اور کتاب و سنت پہ ان اعتراضات اور پیغمبرِ اسلام کی ذات پہ لگنے والے ان الزامات کا جواب دیجئے۔

      دنیا کی 77 فیصد آبادی کو کافر، جہنم کا ایندھن، گمراہ، گونگے اندھے بہرے جاہل کہنے سے کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں لیکن محمد بن عبداللہ کی زندگی پہ کوئی تاریخ و قرآن کی روشنی ڈال بیٹھے تو لاکھوں کے جذبات مجروح؟ خوب

      برطانیہ اور دوسرے کئی ممالک میں hate speech کے خلاف قوانین موجود ہیں جہاں پر آپ ملکہ کے خلاف بھی کچھ نہیں بول سکتے۔

      ————————————————————————————————-

      بات یہاں پر اسلام کی ہو رہی ہے، برطانیہ امریکہ کی نہیں۔ ایک شخص کا جرم دسرے کے لئے جرم کا عذر نہیں بن سکتا۔

      آپ کے اس اعتراض کہ جس مذہب کا پیغمبر (صلعم) ہی ایک شدت پسند تھا (نعوذ باللہ) اسکے پیرو کار کیسے ہونگے کا جواب یہ ہے کہ سرکار گیلپ کے سروے میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد شدت پسندی کو یکسر مسترد کرتی ہے۔

      ————————————————————————————————-
      اس بات سے صرف یہ ثابت ہو رہا ہے کہ بقول آپکے مسلمانوں کی اکثریت سنت کا انکار کر رہی ہے۔ ہمارا کہنا یہ تھا کہ یہ جو مسلم دہشت گرد ہیں، ان کی تعلیمات کا ماخذ بھی قرآن اور پیغمبر کی سنت ہے۔ جو لوگ اس پہ عمل نہیں کرتے بہت اچھا کرتے ہیں، لیکن ہمارا فوکس وہ ہیں جو "باعمل” ہیں۔

      نجانے آپکا اصرار میرے سے پہیہ ایجاد کرانے پہ کیوں ہے حلانکہ مجھے میرے تبصروں مورخہ July 9, 2013 at 7:38 am اور July 6, 2013 at 12:25 pm کا پراپر جواب نہیں ملا ہے۔


      ————————————————————————————————-

      آپ نے چھ جولائی کے تبصرے میں فرمایا کہ یہ طاقت کی جنگ ہے، ٹھیک ہے اس بات سے ہمیں اتفاق ہے۔ لیکن پھر آپ فرماتے ہیں کہ اسکا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سفید جھوٹ ہے۔ طاقت کی جنگ محمد کے مدینہ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد شروع ہو گئی اور اسکے لئے مذہب کو بنیادی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ نائن الیون سے پہلے ایسا کچھ نہیں تھا، یہ بھی درست نہیں، اسلام روزِ اول سے ہی ایگریسو مذہب ہے، ہاں اقوامِ عالم نے شاید realise کرنا اب شروع کیا ہے۔
      اسی تبصرے میں آپ نے فرمایا کہ اسلام کو ساری دنیا کے خلاف گرداننا تاریخی بددیانتی ہے۔
      جناب عرض یہ ہے کہ اسلام دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے، دارالاسلام اور دارلالحرب۔ دارالاسلام وہ حصہ ہے کہ جہاں پر اسلام کی حکمرانی ہو، ذمیوں پہ جزیہ ہو اور اسلامی قوانین (شریعہ) مکمل قوت کے ساتھ لاگو ہوں۔ دارالاسلام کہلانے کئے مسلم آبادی کا اکثریت میں ہونا ضروری نہیں بلکہ اسلامی حکومت اور اسلامی شرعی قوانین کا "نفاذ” ضروری ہے۔ دارالحرب دنیا کا وہ حصہ ہے جہاں پر اسلام کی حکمرانی نہ ہو اور جہاں غیر مسلم اسلام اور اللہ کے آگے سرنگوں نہ ہو چکے ہوں۔ یعنی اسوقت دنیا کا بیشتر حصہ دارالحرب ہے۔
      اب خوش قسمتی کی بات ہے کہ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ بیشتر مسلمان اس ہدایت کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے۔ ۔ ۔ لیکن ہمارا فوکس وہ ہیں جو اسلام کے اصل پیروکار ہیں اور دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، جنکی نظر میں دنیا کا بیشتر حصہ اسوقت دارالحرب ہے اور جب تک اللہ کا حکم پوری دنیا پہ نافذ نہیں ہوجاتا وہ اپنی کاروائیوں سے باز نہیں آئیں گے۔

      نو جولائی کے تبصرے میں آپ نے فرمایا تھا کہ "تو آپ یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جو جنگیں مذہب کے نام پر لڑی گئیں وہ بد ہیں اور اسلام کے نام پر لڑی جانے والی بد ترین اور باقی ماندہ قتل و غارت جس میں مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہے (اور جو کہ تمام کا ۹۰ فیصد سے زیادہ بنتا ہے) وہ کسی نا معلوم وجہ سے درست قرار پاتی ہے جس میں سے ایک وجہ امریکہ کا ہیروشیما اور ناگا ساکی کے رہایئشییوں کو حملے کی پیشگی خبر دینا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور ان ۹۹ فی صد جنگوں کو بھولتے ہوئے اسلام میں موجود صفر اعشاریہ صفر صفر ایک فی صد شر انگیزی (جو مذہب سے زیادہ پولیٹیکل ان نیچر ہے) آپ یہ فتوٰئ صادر کر رہے ہیں کہ اسلام ساری دنیا کے خلاف ہے۔”
      یہ آپ نے کہاں سے اخذ کیا کہ صاحبِ مضمون نے دنیا میں ہونے والی جنگوں کی اسطرح سے کیٹیگرائزیشن کی ہے؟ ہم بات اسلام کی کر رہے ہیں آپکو ہیروشیما اور ناگاساکی فکر مارے دے رہی ہے۔ آپ نے جو فیکٹس، فگرز اور فیصدیاں نکالی ہیں اس پہ خاطر جمع رکھئے، ایک مفصل تحریر لکھنے کا ارادہ ہے۔ خلافتِ راشدہ سے خلافتِ عثمانیہ تک اور پھر روزِحاضر تک اسلام کے نام پہ ہونے والی شرانگیزی اور دنیا میں پھیلنے والی بدامنی کا مفصل جائزہ لیا جائے گا۔ آپ نے اسی بارے میں ہمارا سوال اور نقطہ نظر بالکل ہی نظر انداز کر دیا تھا جو کہ یہ تھا کہ ایک برائی (بے شک بہت بڑی برائی) کسطرح سے دوسری (بھلے کمتر ہی برائی) کا جواز کسطرح سے بن سکتی ہے؟ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ نے ہیروشیما پہ ایٹم بم مارا تھا اسلئے اگر کچھ اسلام پسندوں نے ورلڈ ٹریڈ سنڑ گرا دیا تو کیا ہوا؟ اور چونکہ ہٹلر نے ہولوکاسٹ کیا تھا اسلئے اگر کوئٹہ میں کچھ شیعوں کو قتل کر دیا گیا تو یہ ہولوکاسٹ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ کچھ اچنبھے کی بات نہیں، یہ عین اسلامی ذہنیت ہے۔

      آپ نے یہود و نصاریٰ کو دوست بنانے والی آیت کے حوالے سے فرمایا کہ اس آیت میں ان منافقین مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے جو دونوں طرف تھے۔ ۔ ۔ حضور یہ نتیجہ آپ نے کیسے اخذ کیا یہ "منافقین” کے لئے تنبیہ ہے، حالانکہ یہ "مومنین” کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے۔ یہ دہری شہریت والی بات من چاہی تاویل ہے۔ یہود و نصاریٰ نے کب اور کونسا گٹھ جوڑ کیا تھا مسلمانوں کے خلاف؟ کہیں یہ پیغمبرِ اسلام کا "پیرانویا” تو نہیں تھا؟ اور کیا یہ آیت اب نافذالعمل نہیں رہی اور مومنین کو اجازت ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ کو دوست بنا سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو یہ آیت قرآن میں کیا کر رہی ہے اور اسکو نکال باہر کیوں نہیں کرتے، اسکی روزانہ تلاوت کا کیا مقصد؟
      اس وضاحت کا انتظار رہے گا اور اسکے بعد ہم "اتمامِ حجت” پہ بھی بات کریں گے۔ ۔ ۔

      پھر آپ نے "بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لئے” اور ظلم کے خلاف جنگ کی بات کی۔ تو جناب یہ واضح کیجئے کہ کونسے "بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں” کی خاطر اسلام کے پیغمبر نے جنگ کی تھی؟ اور کیا کیا ظلم ان لوگوں پہ روا رکھے جاتے تھے اور براہ، کرم حوالہ بھی دیجئے گا کہ معلومات کا ماخذ کیا ہے۔ کیونکہ ہم نے تو یہی پڑھا سنا ہے کہ اچانک، بغیر پیشگی اطلاع دئیے "سازش” کے شک یا وعدہ خلافی کے "خطرے” کو بنیاد بنا کے قبیلوں کے قبیلوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔ عورتوں کو کنیزیں بچوں کو غلام اور مردوں کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ کیا یہی اسلامی مدد ہے کہ ایک بوڑھی عورت کو ٹانگوں سے دو اونٹوں کے بیچ باندھ کے درمیان سے چیر ڈالو؟

      نیز آپ نے فرمایا کہ "جو ہر رسول اور اسکے ساتھی منکرین” کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔
      یہی تو ہمارا بھی پوائنٹ ہے۔ منکرین کے خلاف جہاد اور جنگ کیوں؟ اسلئے کہ وہ محمد کو زبانی دعوے پہ اعتبار نہیں کر رہے؟ اسلئے کہ وہ اپنے دین پہ قائم رہنا چاہ رہے ہیں؟ اسلئے کہ وہ محمد کی اتھارٹی کو تسلیم نہیں کرتے؟

      آپ نے فرمایا کہ بڑی تعداد میں مسلمان اسامہ کے جہاد کے خلاف رائے رکھتے ہیں۔ ۔ ۔ بہت اچھی بات ہے، رکھنا بھی چاہئے۔ لیکن آپ میرا سوال گول کر گئے نا۔ ۔ ۔ کہ اسامہ نے اپنے خط میں جن آیات کو کوٹ کیا ہے اور جو مقدمہ پیش کیا ہے وہ آپ کس بنیاد پہ رد کر سکتے ہیں، حالانکہ جو اسامہ نے کیا وہ محمد کی سنت کے مطابق ہے۔ اسنے غیر مسلموں کے دلوں میں دہشت بھرنے کا اسلامی انداز اپنایا ہے۔ علماء کا اسکے خلاف فتوے دینا اچھی بات ہے، لیکن مسئلہ تو یہی ہے نا کہ اسامہ اور اس جیسوں کی تعلیمات کا مصدر بھی تو اسلام ہے۔
      آپ کہتے یہں کہ ایک شخص کے فعل کو اور اسکی قرآن مجید کی سمجھ تو جنرلائز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ہم ایک شخص کی بات تو نہیں کر رہے، ایک مکتبہ فکر کی بات کر رہے ہیں۔ وہابی سلفی طرزِ فکر کی بات ہو رہی ہے۔ اگر اسامہ کی قرآن مجید کی سمجھ کو جنرلائز نہیں کیا جاسکتا اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس جیسے شدت پسند وہابی عناصر جو کر رہے ہین وہ اسلام کی عکاس نہیں ہے تو اسی طرح آپکی قرآن مجید کی سمجھ کو بھی جنرلائز نہیں کیا جا سکتا اور امن پسند مسلمان علماء کے بارے میں بھی شدت پسند یہی کہتے ہیں کہ وہ بھی اصل اسلام کی عکاسی نہیں کرتے۔۔۔۔

      میرا پوائنٹ سمجھ آیا؟ بھئی "اصل” اسلام کدھر ہے؟ کیا یہ اسلام کی تعلیمات کی کجی، اور خامی نہیں ہے کہ ابھی تک اسکی ٹھیک سے کسی کو سمجھ ہی نہیں آرہی۔ قرآن کو تو اسکے دعوے کے مطابق بالکل صاف اور واضح و آسان ہونا چاہئے، کیا وجہ ہے کہ اس بزعم خود صاف واضح اور آسان کتاب کو پڑھ کے مختلف مکاتبِ فکر قطعی مختلف نتائج اخذ کرتے ہیں؟ کیا اسکو پڑھ کے سب کو ایک ہی نتیجے پہ نہیں پہنچنا چاہئے؟
      اسقدر متضاد خیالات پہ مبنی مذہب کی پیروی کیوں؟ اسکو سرے ہی سے رد کیوں نہ کر دیا جائے؟ آخر کو اسمیں ایسی کونسی بات ہے جو انسان کو ویسے ہی معلوم نہ ہو اور اس اچھائی سے وہ پہلے سے ناواقف ہو؟ جو چودہ سو سال سے ایک معمہ اور مسئلہ بنا ہوا ہے اس سے کیوں چپکا رہا جائے۔

  5. حبیبی! آپ کی اس مفصل تحریر کا انتظار رہے گا جس میں آپ اعداد و شمار سے یہ ثابت کریں گے کہ اسلام ساری دنیا کے خلاف ہے! باقی جتنی باتیں آپ نے اپنے تبصرے میں کی ہیں وہ ان پہلے تبصروں کا نشر مکرر ہیں جن کا جواب دیا جا چکا ہے۔ جینرلائیز تو وہی بات ہوگی نا جس کے ماننے والے زیادہ تعداد میں ہوں اور ایک خاص شدت پسند مکتبہ فکر کو رد کرتے ہوں۔

    رہی بات کہ قران سورہ نساء کی آیت ۷۵ کن مظلوم لوگوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے تو یہ وہ لوگ ہیں جو مکہ اور دوسرے عرب قبائل میں اسلام قبول کر چکے تھے اور وہاں کے طاقتور طبقے کی طرف سے عتاب کا شکار تھے۔ وہ طلم و ستم سہنے پر مجبور تھے اور ہجرت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس کی مثال آج کل کے دور میں آپ روہنگیا مسلمانوں کے روپ میں دیکھ سکتے ہیں جن پر بدھ لوگ طلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ (ماخذ: تفہیم القران از مولانا مودودی)۔

    یہودیوں اور نصرانیوں کو دوست بنانے والی آیت میں یقینأ ایمان والوں کو مخاطب کیا گیا ہے کیونکہ منافقین مومینین میں شامل تھے اور یہ ایک جینیرک تنبیہ آئی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ جہاں پر مسلمانوں اور یہودیوں یا عیسائیوں کا کانفلیکٹ آف انٹریسٹ آ جائے وہاں پر مسلمانوں کا ساتھ دیا جائے نہ کہ اپنے پرانے مذاہب بھائیوں اور بہنوں کا۔ جہاں تک بات میری اپنی تاویل کی ہے تو یقینأ یہ میری ہی تاویل ہے۔ اس میں غلط کیا ہے۔

    پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ آپ کا فوکس وہ ہیں جو اسلام کے اصل پیروکار ہیں (یعنی جو شدت پسندہیں؟؟) تو بھا ئی کیا وہ مسلمان جو دہشت گردی کی مزمت کرتے ہیں اور وہ علماء جو اسکی مذمت میں فتاویٰ جاری کرتے ہیں وہ کوئی نقلی مسلمان ہیں؟ اپنی بات منوانے کے لیئے اتنی لفظی دہشت گردی نا کریں۔ یہی تاویل آپ نے اپنے تبصرے کے شروع میں دی ہے کہ جو مسلمان دہشت گردی کے خلاف ہیں وہ اسلام کی اصل تعلیمات سے نا بلد کیسے ہو گئے؟

    کیا قران مجید میں سورۃ بنی اسرایئل کی آیت ۳۳ (ترجمہ: اور جس جان کو خدا نے محترم ٹھہرایا اس کو قتل مت کرو مگر حق پر اور جو ظلماً قتل کیا گیا تو ہم نے اس کے ولی کو اختیار دیا تو وہ قتل میں حدود سے تجاوز نہ کرے کیونکہ اس کی مدد کی گئی ہے۔) میں ایک اسلامی حکومت میں ہر ایک کی جان کی حفاظت کا حکم نہیں دیا گیا؟ اسی طرح سورۃ بقرہ کی آیت ۱۸۸ (ترجمہ: اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے نہ کھاؤ اور اس کو حکاّم رسی کا ذریعہ نہ بناؤ کہ اس طرح دوسروں کے مال کا کچھ حصہ حق تلفی کر کے ہڑپ کر سکو۔ درآنحالیکہ تم اس حق تلفی کو جانتے ہو۔) میں سب کے مال کی حرمت کا ذکر ہے۔

    قران مجید لوگوں کی عزت کی حفاظت کا حکم سورۃ حجرات کی آیات۱۱۔۱۲ میں دیتا ہے جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے:

    آیت ۱۱: اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ٹھہریں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، کیا عجب وہ ان سے بہتر نکلیں۔ اور نہ اپنوں کو عیب لگاؤ۔ اور نہ آپس میں ا یک دوسرے پر برے القاب چسپاں کرو۔ ایمان کے بعد فسق کاتو نام بھی براہے! اور جو لوگ تو نہ کریں گے تو وہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنیں گے۔

    آیت ۱۲: اے ایمان والو، بہت سے گمانوں سے بچو، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں اور ٹوہ میں نہ لگو اور نہ تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے! سو اس چیز کو تو تم نے ناگوار جانا! اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا، مہربان ہے۔
    سورۃ انعام کی آیت ۱۰۸ میں غیر مسلموں کے معبودوں اور اعتقاد کو ٹھیس نہ پہنچانے کا ذکر کچھ یوں کیا گیا ہے۔
    ترجمہ: اور اللہ کے سوا یہ جن کو پکارتے ہیں ان کو گالی نہ دیجیو کہ وہ تجاوز کر کے بے خبرانہ اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔ اسی طرح ہم نے ہر گروہ کی نگاہوں میں اس کا عمل کُھبا رکھا ہے۔ پھر ان کے رب ہی کی طرف ان سب کا پلٹنا ہے تو وہ انھیں اس سے آگاہ کرے گا جو وہ کرتے رہے ہیں۔

    سورۃ توبہ کی آیت۷ میں معاہدے کی پاسداری کا حکم ہے اور اگر معاہدہ توڑنا مقصود ہو تو پیشگی خبردار کیا جائے (نہ کہ جو بہتان طرازی آپ نے اپنے تبصرے میں کی ہے)۔

    ترجمہ: مشرکین کے کسی عہد کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول پر کس طرح باقی رہ سکتی ہے؟ ۔۔۔ ہاں جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس عہد کیا ہے تو جب تک وہ قائم رہیں تم بھی ان کے لیے معاہدے پر قائم رہو، اللہ نقض عہد سے بچنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
    سورۃ الانفال کی آیت 61 صلح جوئی کا حکم دیتی نظر آتی ہے۔
    ترجمہ: یہ لوگ اگر صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اِس کے لیے جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسا رکھو۔ بے شک، وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

    سورۃ قصص کی آیت نمبر ۸۳ اس بات سے منع کر رہی ہے کہ محض اپنی بڑائی ثابت کرنے کے لیئے جنگ و جدل سے اجتناب کیا جائے۔
    ترجمہ: یہ دار آخرت ہم انھی لوگوں کے لیے خاص رکھیں گے جو زمین میں غرور اور فساد کے چاہنے والے نہیں ہیں اور انجام کار کی کامیابی خدا ترسوں ہی کے لیے ہے۔

    غیر معاندہ طاقتوں سے دوستی کے برتاؤ کا سبق قران مجید کی سورۃ الممتحنہ کی آیت نمبر ۸ میں ملتا ہے۔
    ترجمہ: اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنھوں نے دین کے معاملے میں نہ تم سے جنگ کی ہے اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔

    سورۃ بقرہ کی آیت ۱۹۴ اس آفاقی قانون کی طرف اشارہ کر رہی کہ کسی جرم کا بدلہ اتنا ہی ہو سکتا ہے جتنا کہ جرم کی مقدار ہو۔
    ترجمہ: شہر حرام، شہر حرام کا بدلہ ہے اور اسی طرح دوسری محترم چیزوں کا بھی قصاص ہے تو جو تم پر زیادتی کریں تم بھی ان کی زیادتی کے جواب میں اسی کے برابر ان کو جواب دو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ یقین رکھو کہ اللہ حدود الٰہی کا احترام کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

    سورۃ النحل کی آیت ۱۲۶ میں اسی بات کو اس طرح سے واضح کیا گیا ہے کہ۔۔۔ ترجمہ: اگر تم بدلہ لو تو بس اتنا لو جتنا تمہارے ساتھ کیا گیا ہے اور اگر تم صبر کرو تو یہ چیز صبر کرنے والوں کے لیے بہت ہی بہتر ہے۔

    اسی کا حکم قران مجید کی سورۃ شوریٰ کی آیات ۴۰ ۔ ۴۲ میں دیاگیا ہے جہاں پر اللہ تعالیٰ نے خود سزا دینے کا وعدہ کیا ہے بجائے اسکے کہ ہر کوئی قانون ہاتھ میں لیتا پھرے۔
    ترجمہ:اور کسی برائی کا بدلہ اس کے برابر کے عمل سے ہے۔ پس جس نے درگزر کی اور اصلاح کی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔اور جنہاں نے اور جنھوں نے اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیا تو ان کے اوپر کوئی الزام نہیں۔الزام ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم اور زمین میں بغیر کسی حق کے سرکشی کرتے ہیں۔ یہی لوگ جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔

    (اور آپ کہتے ہیں کہ کسی کو ناحق ٹانگوں میں چروا دیا گیا)۔

    عورتوں اور بچوں کے قتل عام کا تو جنگ میں بھی منع کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے روائت ہے کہ ایک معرکے کے دوران ایک عورت کی وفات ہو گئی۔ ضب آنحضرت (ص) کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے جنگوں میں عورتوں اور بچوں کو مارنے سے منع فرما دیا۔ (بخاری، کتاب الجحاد والسیارVolume 4, Book 52, Number 257:)۔ یہی حدیث مبارکہ ترمذی اور مسلم میں بھی آئی ہے۔

    اسی طرح مسلم کی حدیث کے مطابق آنحضرت (ص) نے مردوں کی لاشوں کی بے حرمتی اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا (Muslim Book 019, Number 4294)۔

    اسی طرح امام مالک نے ایک حدیث بیان کی ہے جس کے مطابق ایک آدمی جنگ کے دوران عورتوں کے قتل سے اس لیئے باز رہتا ہے کیونکہ آنحضرت نے ایسا کام کرنے سے منع کیا ہوتا ہے۔ (Maliks Muwatta Book 021, Hadith Number 008)۔

    اسی طرح احمد بن حنبل نے اپنی کتاب المسند میں روائت کیا ہے کہ جب بھی آنحضرت (ص) کسی مشن پر مومنین کو روانہ کرتے تو یہ ہدائت کرتے کہ کوئی وعدہ خلافی نہیں کی جائے گی، مال غنیمت کی چوری نہیں کی جائے گی لاشوں کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی اور بچوں اور پادریوں کو قتل نہیں کیا جائے گا۔
    اسی طرح لاتعداد حدیثوں میں کسانوں، سفیروں، ھتھیار ڈال دینے والے لوگوں، بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کے قتل سے ممنعت کی گئی ہے۔

    کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہی اسلام ہے۔ نجانے آپ اس کو غیر اسلام قرار دینے پہ کیوں مصر ہیں۔

    میں نے اسامہ والے سوال کا جواب گول نہیں کیا تھا۔ یہی کہا تھا کہ اس کی انٹر پریٹیشن صحیح نہیں تھی۔ جیسا کہ قران و حدیث سے ثابت ہے کہ معہدے کی پاسداری اور نہ لڑنے والے لوگوں کو جنگ میں مارنا بھی جائز نہیں ہے۔ اور اسی کی وضاحت دہشت گردی کے خلاف آنے والے فتووں میں بھی ہے۔

    باقی آپ نے اللہ کے رسول کی منکرین کے ساتھ جنگ کے بارے میں پوچھا ہے تو ؑرض ہے کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ ہر اس قوم جو اپنے سے پہلے والے انبیا کی تعلیمات کو بھلا بیٹھتی ہے ان پر ایک نیا پیغمبر لایا جاتا ہے (یہ سلسلہ آنحضرت (ص) پر ختم ہوا) اور ہر بنی کے ساتھی ان منکرین کے ساتھ جنگ کرتے ہیں جو اتمام حجت کے باوجود ایمان نہیں لاتے۔ باقی انبیاء کے ادوار میں اللہ کے پیغام کا اانکار کرنے والوں پر آسمان سے اللہ کا عذاب نازل ہوتا تھا۔ آنحضرت (ص) کے موقع پر یہ عذاب تلوار کی صورت میں نازل ہوا۔

    آپ کے ہر تبصرے کی تان مذہب کا انکار کر دینے پر ہی ٹوٹتی ہے۔ بہر حال آپ نے جتنے بھی دلائل دئے ہیں ان سے یہ کہیں بھی چابت نہیں ہوتا کہ اسلام ساری دنیا کے خلاف ہے۔ جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا، آپ کی اس مفصل تحریر کا انتظار رہے گا جس کا آپ نے ذکر کیا ہے تاکہ کوئی معیار مقرر ہو اور اس پر منطقی بحث ہو سکے۔

    1. اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پوچھے گئے سوالات کے جواب آپ گزشتہ تبصروں میں دے چکے ہیں تو ایسے ہی سہی، ہم اصرار نہیں کریں گے اور قارئین بہتر نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ آیا ہمارے اٹھائے گئے سوالات کے شافی جواب آپ جناب نے عنایت کئے یا نہیں۔ لہٰذا آگے بڑھتے ہیں۔
      سورۃ النساء کی آیت 75 کی بابت آپ نے فرمایا کہ یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو مکہ اور گردو نواح میں اسلام قبول کر چکے تھے اور وہاں کے طاقتور طبقے کی طرف سے عتاب کا شکار تھے اور ظلم و ستم سہنے پر مجبور تھے اور ہجرت نہیں کر سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
      جو بھی شخص یا گروہ جرم کرتا ہے وہ اپنے جرم کو جسٹیفائی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پیغمبرِ اسلام کی مثال بھی یہاں ایسی ہی ہے۔ مکہ اور گرد و نواح کی آبادی میں مختلف ادیان و عقائد پہ مشتمل لوگ موجود تھے۔ اپنے اپنے بتوں کو پوجتے اور عبادات کرتے تھے۔ یہودی و نصرانی بھی تھے اور موحد بھی تھے۔ ان لوگوں میں ایک دوسرے کے دین و مذہبی عقائد کو برادشت کرنے کا مادہ موجود تھا۔ مذہبی ایذا رسانی کے بارے ان علاقوں میں کسی نے کچھ سنا ہی نہ تھا ںہ ہی وہ ایک دوسرے کے عقائد کو طنز و تضحیک کا نشانہ بناتے تھے ورنہ وہ لوگ اسلام کی آمد سے پہلے ہی آپسمیں دست و گریباں ہوتے اور اکھٹے رہ ہی نہ رہے ہوتے۔ ایسے معاشرے میں جہاں پر بہت سارے خداؤں کی پرستش کی جاتی ہو عمومی اور فطری طور پر لوگ زیادہ برداشت کے حامل ہوتے ہیں، انکے احساسات تب مجروح ہوتئے جب محمد نے انکے خداؤں کی توہین کرنا شروع کر دی تھی، لیکن اسکے باوجود انہوں نے محمد کو جسمانی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ جواب میں اسکا اور اسکے مذہب کا اسی طرح مذاق اڑایا جسطرح آجکل کے اہل فکر لوگ اسلام اور مسلمانوں کا اڑاتے ہیں۔
      ابن اسحاق لکھتا ہے "جب پیغمبر کے ساتھ نماز ادا کرنا چاہتے تو وہ دور دراز گھاٹیوں میں چلے جاتے تاکہ دوسرے لوگ انہیں نہ دیکھ سکین، اور ایک مرتبہ جب سعد بن ابی وقاص کثیر تعداد میں پیغمبر کے ساتھیوں کے ساتھ مکہ کی گھاٹیوں میں نماز کی ادائیگی میں انکے ساتھ تھا تو مشرکین مکہ کا ایک گروہ وہاں آیا اور بدتمیزانہ انداز میں انکی نماز میں مداخلت کی۔ انہوں نے اس رویے پر الزام لگایا اور یہاں تک کہ نوبت مکا زنی تک آگئی اور سعد نے ایک مشرک کو مردہ اونٹ کے جبڑے کی مدد سے زخمی کیا اور اسکا گلا کاٹ دیا، اسلام میں یہ خون بہانے کی ابتداء ہے”۔
      نوٹ کیجئے، جب انکے عقیدے کی تذلیل کی جاتی ہے تو مشرکین بھی مسلمانوں کا مذاق اڑاتے۔ اسکے بدلے میں ان پر حملہ آور ہو کر انکو زخمی کر دیا جاتا۔ مسلمانوں کے لئے دوسروں کے مقدس مذہب میں کیڑے نکالنا جائز ہے مگر جب انکے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے تو وہ تشدد پر اتر آتے ہیں۔ آج بھی مسلمانوں میں یہی ذہنیت کارفرمایا ہے اور اسکی مثالیں آپکے آس پاس بکھری پڑی ہیں۔آگے چل کے ابنِ اسحاق کہتا ہے کہ "جتنا میں نے سنا ہے، جب محمد کھلے بندوں اسلام کی اشاعت کرتا جیسا کہ اسکو خدا کی طرف سے حکم ہوا تو اس کے بندے نہ تو اس سے لاتعلقی کرتے اور نہ ہی اسکے مخالف ہوجاتے جب تک کہ وہ انکے خداؤں کی تحقیر نہ کرتا۔ جب اس نے ایسا کیا وہ اسکے مخالف ہو جاتے اور مکمل یکتائی سے بغاوت پر اتر آتے اور اسکا اپنا دشمن گردانتے”۔
      کسی بھی ایسے دعوے کو کہ مکہ میں یا گردو نواح میں مسلمانوں کے ساتھ عداوتیں محض مذہبی ایذا رسانی تھی کو جھٹلانے کے لئے اتنا کافی ہے۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر کسی کے عقیدے، اسکے طرزِ حیات اور اسکے بزرگوں پر گند اچھالا جائے تو اسکا برہم ہونا لازمی ہے۔ یہ بات بھی قابلِ فہم ہے کہ تنقید کا جواب تنقید اور ٹھٹھے مخول کا جواب ٹھٹھے مخول میں دیا جائے۔ مسلمانوں کے ساتھ انکا ایسا برملا اظہار اسلئے نہ تھا کہ وہ ایک اللہ کو مانتے اور دیگر خداؤں کی نفی کرتے تھے۔ یہودی، عیسائی اور صائبین بھی تو اپنے اپنے یا ایک خدا کو مانتے اور دوسرے خداؤں پر ایمان کو رد کرتے تھے۔ اصل بات یہ تھی کہ محمد اور اسی کے جیسے اسکے بدتمیز پیروکاروں کی طرح وہ دوسروں کے عقیدوں کی توہین نہیں کرتے تھے اور مشرکین کے ساتھ بھی گھل مل کے رہتے تھے، مذہب کو اپنی ذات تک محدود رکھتے تھے۔
      اسلام کے اولین ایام میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کا تذکرہ تو بہت کیا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کی اپنی تاریخ میں جو مثالیں ملتی ہیں وہ چند ایک ہی ہیں۔
      بلال کا ذکر کیا جاتا ہے، جو مسلمان ہوجانے کے بعد اپنے پیغمبر کی طرح قریش کے مذہب کی توہین کرتا تھا اور اسی وجہ سے اسکے مالک امیہ نے اسے زنجیروں سے باندھ کر ، دھوپ میں لٹا کے اسکے سینے پر پتھر رکھ دیا تھا۔ ابو بکر نے بلال کو خرید کر آزاد کر دیا۔ کیا اسطرح کی بدعملیوں کو مذہبی ایذا رسانی سمجھا جا سکتا ہے؟ ذرا خود کو امیہ کی جگہ رکھ کر سوچیں، ظاہر ہے اپنے غلام سے کم از کم یہ توقع تو ضرور کریں گے کہ آپکے مذہب کا احترام کرے گا، بھلے اسکا مذہب مختلف ہو لیکن آپکے خدا کو جھوٹا اور برا بھلا تو نہ کہے گا۔ کیا امیہ کا بلال کو بیچ ڈالنا ہی اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ اس سے جان چھڑانا چاہ رہا تھا۔ ایک ایسا غلام جو بجائے اپنے آقا کی خدمت کرنے کے اسکے مذہب کی توہین کر رہا ہو۔
      ابن سعد لکھتا ہے "ہر قبیلے نے مسلمانوں پر حملہ کیا”۔ ۔ ۔
      یہ مسلمان انکے اپنے بچے تھے جو انکے خداؤں اور آباء و اجداد کے خلاف ہو گئے تھے۔ انکے والدین اور رشتہ دار اس بات سے پریشان تھے کہ انکے پیاروں نے کیوں دوسرا مسلک اختیار کر لیا ہے۔ اب چونکہ مسلمانوں کے ساتھ دلیل سے بات کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اسلئے انہوں نے انکو راہ پر لانے کے لئے دوسرے طریقے اختیار کئے۔ اپنے باغی بچوں کی اصلاح کی خاطر انکا جیب خرچ بند کرنا، بطور سزا کھانا نہ دینا، مار پیٹ وغیرہ کو ہم کیا مذہبی ایذا رسانی کہیں گے؟
      آپ کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں؟ فرض کریں اگر دیو بندی ہیں تو ذرا بریلوی مسلک کی پیروی کا اعلان کریں اور دیکھیں کے آپکے والد والدہ، بہن بھائیوں اور عزیز و اقارب کا کیا رویہ ہوتا ہے۔ کیا اسکو مذہبی ایذا رسانی گردانا جائے گا؟ بھائی، چونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ آپ غلط راہ چل پڑے ہیں اسلئے وہ آپکو سدھارنے کے لئے سمجھائیں بجھائیں گے، شاید ڈانٹیں ڈپٹیں بھی اور ہو سکتا ہے ایک آدھ ہاتھ بھی مار دیں۔ ہمارے معاشرے میں والدین اب بھی ایسا کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
      ایک حدیث کے مطابق عمر نے اسلام قبول کرنے سے قبل اپنی بہن کو اسلام ترک کرنے پر مجبور کرنے کے لئے باندھ دیا تھا۔ اسلام لانے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی عمر ایک متشدد شخص تھا۔ مشرقِ وسطیٰ میں خاندان کے سب افراد ایک دوسرے کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ خاص کر عورت تو اپنے بہت سارے فیصلے خود نہیں کر سکتی۔ ایسے میں خاندان کے افراد کا ایکدوسرے پہ دباؤ ڈالنا مذہبی ایذارسانی کیونکر ہوگیا؟ آپ اپنے موجودہ معاشرے کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھیں کہ اپنے بچوں یا چھوٹے بھائی کے مذہب بدلنے کو آپ کس نظر سے دیکھیں گے اور آپکا کیا رویہ ہوگا تو یہ معاملہ خودبخود آپکی سمجھ شریف میں آجائے گا۔
      جب محمد نے دیکھا کہ دباؤ کام کر رہا ہے اور چند ایک گھرانے اپنے بچوں کو اسلام چھڑوانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ خوفزدہ ہوگیا اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لئے اسنے اپنے پیروکاروں کو مکہ چھوڑنے پر راضی کر لیا ۔ 83 کے قریب لوگ ہجرت کر کے ابی سینیہ چلے گئے انکے رشتہ داروں نے دو بندوں کو انکی واپسی کے لئے نجاشی کے پاس بھیجا مگر نجاشی نے انکار کر دیا۔ دونوں قاصدوں نے آپسمیں صلاح کی۔ ایک نے کہا "کل میں نجاشی سے بات کروں گا اور اس سے ایک ایسی بات کہوں گا کہ وہ ان سب کو نکال باہر کرے گا”، دوسرے نے جواب دیا "ایسا مت کرو، گو اب وہ ہمارے مخالف بن گئے ہیں مگر ہیں تو ہمارا خون”۔ ۔ ۔ یہ اس چیز کا واضح ثبوت ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک تھا وہ مذہبی ایذا رسانی ہرگز نہ تھا۔ اہلِ مکہ تو اپنے بچوں کی واپسی چاہتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ نجاشی ان سے خفا ہو جائے اور انکو کوئی گزند پہنچے۔ ارادہ یہ تھا کہ نجاشی جو کہ عیسائی تھا اسکو یہ بتایا جائے کہ مسلمان عیسیٰ کی توہین کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اللہ کا بیٹا نہیں بلکہ ایک بندہ ہے۔ کیا آپ نہیں مانتے کہ عیسیٰ اللہ کا بندہ ہے اور اسکا بیٹا اور خدا ہیں؟ کیا ایک عیسائی کے نزدیک یہ انکے خدا کی توہین نہیں؟ سورۃ انعام کی آیت 108 کوٹ کرتے وقت آپ اس تضاد کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ ایک طرف دوسروں کے خداؤں اور اعتقاد کو ٹھیس نہ پہنچانے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف سرِ عام انکے عقائد کو جھٹلاتے ہیں۔انکو اندھا بہرا گونگا اور جانور سے بدتر کہتے ہیں۔ لیکن اگر وہ کہہ دیں محمد نبی نہیں تھا تو توہینِ رسالت؟
      آپ نے فرمایا کہ پیغمبرِ اسلام نے عورتوں اور بچوں کے قتل کی ممانعت کی تھی۔ جی، ضرور کی ہوگی کیونکہ انہیں تو کنیزیں اور غلام بنانا تھا۔
      ہمارا مقصد مسلم ذہنیت کا یہی منافقت اور دوغلا پن سامنے لانا ہے۔ آپ نے شاید اب تک اسلامی تعلیمات کا تنقیدی مطالعہ نہیں کیا۔ بچپن سے جو کچھ ہمارے ذہنوں پر نقش کیا جاتا رہا ہے اس سے ہٹ کے سوچنا مشکل امر ہوتا ہے۔ تنقیدی مطالعہ کیجئے، پرکھئے۔
      قریش کو تو اپنے رشتہ داروں کی فکر تھی، وہ انکی واپسی چاہتے تھے لیکن انکی جان کی قیمت پر نہیں۔ ہو سکتا ہے انہوں نے انکا جیب خرچ بند کر دیا ہو، کھانا نہ دیا ہو، چلائے ہوں، عمر اور اسکی بہن والے معاملے کی طرح بدزبانی اور مارپیٹ کی ہو۔ مایوس اور دلبراشہ والدین سے اسی طرح کے ردعمل کی توقع ہوتی ہے۔
      سمیہ نامی ایک خادمہ کے بارے میں بھی ایک کہانی ہے۔ دعویٰ ہے کہ اسے اور اسکے خاوند عمار کو تپتی دھوپ میں بٹھایا گیا تاکہ وہ تائب ہو جائین اور اسطرح انکی جان لے لی گئی۔ اسطرح کی باتوں کا مسلمان بہت ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن ابنِ اسحاق اس قابلِ بیان شہادت کے واقعے کو صرف ایک چھوٹے سے فقرے پر ہی ختم کرتا ہے، کیا اسلام کی خاطر یہ پہلی شہادت زیادہ وضاحت طلب نہیں ہے؟دوسرے ماخذ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سمیہ نے عرزق نامی ایک یونانی غلام سے شادی کی اور اسکی سلمیٰ نامی بچی تھی، عرزق کا تعلق طائف سے تھا اور وہ ان غلاموں میں سے تھا کہ جو شہر کے محاصرے (جو پندرہ سال بعد ہوا) سے بھاگ کر محمد کے خیمے میں آگیا۔ بات اس سے یہی سمجھ میں آتی ہے کہ سمیہ نے یاسر کی وفات کے بعد عرزق سے شادی کی اور طائف میں رہی اور اسکی شہادت والی بات درست نہیں۔
      تو یہ جو ظلم والی بات آپ جناب کرتے ہیں یہ اتنی بھی درست نہیں ہے، نہ عقلی و منطقی طور پر نہ ہی تاریخی اعتبار سے۔ یہ محمد کا ایک حربہ تھا اقتدار کو وسعت دینے کا۔ اپنے پیروکاروں کو اپنے اعزا و اقارب سے کاٹنے کا۔ یہ ہتھکنڈا مذہب ایجاد کرنے والے اکثر استعمال کرتے ہیں، تقسیم کرو اور حکومت کرو۔
      سورۃ الکافرون کی اپنے پسندیدہ مودودی صاحب ہی کی تفسیر پڑھ لیجئے۔ اکابرینِ قریش محمد سے کسی نہ کسی طور مصالحت کرنا چاہ رہے تھے تاکہ ‘نزاع’ ختم ہو سکے۔ ۔ ۔ یہ نزاع کیا تھا؟ عقل سے عقیدت کی چربی اترے تو شاید نظر آجائے کہ یہ وہی نزاع ہے جسکا بیان اوپر کیا جا چکا ہے۔ اور یہاں سے ہمیں واضح نظر آتا ہے کہ یہ محمد تھا جو مصالحت پر آمادہ نہ تھا اور انکے معبودوں کی برائی کرتا پھرتا تھا۔ مذہبی تعصب اسلام کے بانی سے شروع ہوا اور آج تک بطورِ سنت جاری و ساری ہے۔ آگے چل کے آپکے روشن خیال مودودی صاحب ہی بیان کرتے ہیں کہ سورۃ الکافرون مذہبی رواداری کی تلقین کے لئے نازل نہیں ہوئی بلکہ قیامت تک کے لئے مسلمانوں کے لئے تلقین ہے کہ دینِ کفر جہاں اور جس شکل میں ہے اس سے قول اور "عمل” میں برات و بیزاری اور لاتعلقی کا "اعلان” کر دیا جائے۔
      سورۃ انعام کی آیت 108 کوٹ کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کو پکارنے والوں کو گالی دینے سے روکتا ہے، لیکن میرےدوست یہی قرآن دوسرے مقامات پر اسکے برعکس کرتا دکھائی دیتا ہے۔
      پھر آپ نے فرمایا کہ یقینا” یہ میری ہی تاویل ہے اسمیں غلط کیا ہے؟اسمیں مسئلہ سرکار یہ ہے کہ قرآن کو تو واضح اور روشن ہونا چاہئے، اسکو آپ حضرات کی تاویلوں کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ہے؟ کیا تاویل کی ضرورت ہی اس بات کی دلیل نہیں کہ قرآن غیر واضح ہے اور اسکی صحیح و غلط دونوں تاویلیں نکالی جا سکتی ہیں اور نکل بھی رہی ہیں۔

      شدت پسندوں کو میں نے اصلی باعمل مسلمان کہا ہے کیونکہ وہ پیغمبر اسلام کی سنت کے پیروکار ہیں اور اگر یہ لفظی دہشت گردی ہے تو اسکے مجرم ہم نہیں بلکہ آپکے اپنے تاریخ دان اور قرآن و احادیث ہیں۔

      اور نیچے جو آپ نے میٹھی میٹھی باتیں کوٹ کی ہیں، بھائی میرے، یہ باتیں کیا پہلی مرتبہ پیغمبرِ اسلام نے آکر بتائی تھیں؟ کیا دنیا ان سے لاعلم تھی پہلے؟ اتنا احمق تو محمد ہر گز نہ تھا کہ وہ کہتا لوگوں کی عزت لوٹو، اور کھلے عام قتل و غارت گری کرو، لوگوں کو زدوکوب کرو۔ پھر اسے نبی کون مانتا؟ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ اسکا ان باتوں پر عمل کس قدر تھا اور مسلمان ان چیزوں پر کتنا عمل کرتے ہیں۔ سورۃ انعام کی آیت 108 بطور مثال اوپر بیان کر دی ہے۔
      سورۃ النساء کی آیت نمبر 89 اور اسکی مودودی ہی کی تفسیر پڑھ لیجئے، ایک طرف تو دھمکیاں اور دوستیوں پر پابندیاں اور پھر یہ کہنا کہ مسلمانوں کو مکہ سے نکالا گیا اور ان پر ظلم کیا گیا۔ اس آیت میں محمد یہ کہہ رہا ہے کہ ان مسلمانوں کو قتل کر دو جو ساتھ چھوڑ دیں یا واپس اپنے گھر بار و والدین کے پاس مکہ جانا چاہیں۔

      اپنے روزگار کو اپنے نیزے کی نوک پہ تلاش کرنے کے چکر میں محمد نے بہانہ یہ گھڑا کہ چونکہ اہلِ مکہ نے تمھیں تمہارے گھروں سے نکالا تھا اسلئے تم پر یہ واجب ہے کہ انکو لوٹو۔
      ورۃ الحج، 39۔ جن مسلمانوں سے لڑائی کی جاتی ہے انکو اجازت ہے (کہ وہ بھی لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم ہورہا اور خدا (انکی مددکرے گا) اور وہ یقینا” انکی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دئیے گئے۔ ہاں وہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار خدا ہے۔
      اسکے علاوہ بھی اسنے کئی قرآنی آیات جاری کیں کہ جنکے ذریعے اسنے اپنے پیروکاروں کو غیرمسلموں سے لڑنے پر اکسایا۔ اہلِ مکہ نے نہیں بلکہ محمد نے اپنے پیروکاروں کو گھر بار چھوڑ کر پہلے ابی سینیہ اور پھر یثرب جانے کا حکم دیا تھا۔
      سورۃ النحل، 41۔اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد خدا کے لئے وطن چھوڑا ہم انکو دنیا میں اچھا ٹھکانہ دیں گے اور
      آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے، کاش وہ جانتے
      سورۃ النساء 89
      وہ تو چاہتے ہیں کہ جسطرح وہ خود کافرہیں تم بھی کافر ہو کر برابر ہو جاؤ تو جبتک خدا کی راہ میں وطن نہ چھوڑ جائیں ان میں سے کسی کو دوست نہ بنانا، اگر (ترکِ وطن) قبول نہ کریں تو انکو پکڑ لو اور جہاں پاؤ قتل کردو اور ان میں سے کسی کو اپنا رفیق و مددگار نہ بناؤ۔
      تضاد واضح ہے۔ ایک طرف اپنے پیروکاروں کو اپنے گھربار چھوڑنے کا حکم دے رہا ہے اور پیچھے رہ جانے والوں کو منافق، واجب القتل اور دوزخ کی دھمکیاں اور پھر دوسری آیت میں کہتا ہے کہ بغیر وجہ سے مسلمانوں کو نکالا گیا اور انکے خلاف "جنگ” ہوئی۔یہ بھی اسی پیغمبر کی سنت کا حصہ ہے جسکا احقر نے بیان کیا تھا۔ اسی سنت پہ عمل پیرا "اصل” مسلمان زیادتی بھی کرتے ہیں اور مظلومیت کا ڈھونگ بھی رچاتے ہیں۔ اور پھر جو ظلم و زیادتی کرتےہیں اسکو برحق گردانتے ہیں۔

      اگر ہم یہ فرض کر بھی لیں کہ جو لوگ ہجرت کر کے آئے تھے انکو اصل میں مکہ سے زبردستی نکالا گیا تھا انکے لئے کیسے یہ جائز ٹہرتا ہے کہ وہ تجارتی قافلوں پر حملے کریں؟ جو مال اسباب اہلِ قافلہ کے پاس ہوتا تھا ضروری تو نہیں کہ وہ انکا ہی تھا جن پر "الزام” ہے کہ انہوں نے انہیں دیس سے نکالا تھا۔ اگر کسی شہری پر اسکے خیال کے مطابق اسکے شہر میں اسکے ساتھ ظلم ہوا ہے تو کیا یہ جائز ہے کہ وہ کسی بھی شہری سے اسکا بدلہ لے لے؟ یہی وہ منطق ہے جسکے مطابق "اصل” مسلمان آج بھی بم دھماکے اور دھشت گردی کر کے بیگناہ شہریوں کا خون کرتے ہیں ۔ اگر کسی ملک کے بارے میں انکے ذہن میں آجائے کہ وہ انکا دوست نہیں ہے یا طاغوت کا علمبردار ہے تو وہ اسکے کسی بھی شہری کی جان لیکر سمجھتے ہیں کہ حساب برابر کر رہے ہیں۔ یہی محمد کے اصل پیروکار ہیں جنہوں نے آج پوری دنیا کو تکلیف میں ڈال رکھا ہے۔

      سورۃ توبہ کی آیت 7 کو کوٹ کرتے ہوئے آپ معاہدے کی پاسداری کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے بہتان لگایا ہے۔ ذرا بتائیے گا تو کہ ہم نے کہاں بہتان لگایا ہے؟ اور معاہدے کی پاسداری؟ سورۃ تحریم کا مطالعہ کیجئے، جب پیغمبرِ اسلام اپنی ایک زوجہ کی غیر موجودگی میں اپنی کنیز سے جنسی تعلق (بغیر شادی) کے استوار کرتے پکڑا گیا تو وعدہ کیا کہ وہ اس کو کبھی ہاتھ نہ لگائے گا، لیکن پھر وحی الٰہی کا سہارا لیکر خود کو اس عہد سے مبرا کر لیا۔
      یہاں تو اللہ قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ بھی بیان کر رہا ہے۔
      سورۃ انفال میں ہے کہ اگر تمھیں کسی قوم سے نقصِ عہد و غداری وغیرہ کا "اندیشہ” ہو تو علی الاعلان اسکا معاہدہ ایک طرف پھینک دو۔ یعنی عہد توڑنے کے لئے مخالف پر شک ہی کافی ہے۔
      سورۃ التوبہ کی پہلی آیت اور مودودی صاحب ہی کی تفسیر دیکھ لیجئے۔
      یہود و نصاریٰ و غیر مسلم کو دوست نہ رکھنے والی آیت اگر اسوقت کے منافقین کے لئے تھی تو اب یہ قرآن میں کیا کر رہی ہے؟ کیا قرآن قیامت تک کے لئے ہدایت کا ذریعہ نہیں ہے؟۔ بات یہ ہے کہ آپ تقیہ سے کام لے رہے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ غیر مسلموں کو دوست بنانے کے مجاز نہیں، اللہ نے ممانعت کر رکھی ہے لیکن دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے تاویلیں پیش کرتے ہیں۔ اور ایسا کرنے کی آپکو کھلی چھوٹ ہے کیونکہ یہ پیغمبر اسلام کی اجازت سے ہے۔
      "ہم کچھ لوگوں کے لئے مسکراتے ہیں، مگر ہمارے دل (انہی لوگوں کو) کوس رہے ہوتے ہیں۔”
      یا امام غزالی جیسا جید اسلامی اسکالر کہتا ہے کہ "گفتگو مقصد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر کوئی قابلِ ستائش مقصد جھوٹ کے ذریعے ہی حاصل ہو رہا ہو تو جھوٹ بولنا جائز ہے”
      اب یہ بات تو کہنے کی محتاج نہیں کہ مسلمان کے لئے اسلام کی سربلندی اور دنیا میں اسلام کے "نفاذ” سے بڑا قابلِ ستائش مقصد اور کیا ہو سکتا ہے۔
      مشرکینِ عرب سے معاہدے کس نے توڑے؟ انکو حج سے منع کس نے کیا؟ انکے خلاف تلوار اٹھانے میں پہل کس نے کی؟ سورۃ التوبہ کو دیکھیں تو سمجھ آجائے گا۔
      مزید:
      "پس جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ، اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لئے بیٹھو”۔
      جہاد کن کے خلاف کیا جائے گا؟ ظالموں کے خلاف۔ ۔ ۔ ٹھیک ۔ ۔ ۔ لیکن مسلمانوں کے الفاظ سے دھوکہ مت کھائیے، ذرا ظالم کی ڈیفینیشن بھی دیکھ لیجئے کہ بمطابق قرآن ظالم کون ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ ظالم، فاسق اور کافر وہ لوگ ہیں جو اللہ اور نازل کردہ قانون یعنی قرآن و سنت (شریعت) سے اختلاف کریں۔

      تم ان سے لڑتے رہی یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لئے ہو جائے
      سورۃ بقرہ آیت نمبر 193
      یعنی جب تک کافر فتنہ سے باز نہیں آتا اس سے لڑائی کرتے رہنا چاہئے۔ فتنہ کی اسلامی ڈیفینیشن کیا ہے؟
      مسلمان اللہ کے قانون کے سوا سب قوانین کو فتنہ گردانتے ہیں۔ جس ملک میں الہامی قوانین کے بجائے انسانی قوانین نافذ ہیں وہ سب فتنہ میں پڑے ہیں اور اس فتنے کو دفع کرنے کے لئے تبلیغ و شمشیر دونوں سے کام لیا جانا چاہئے اور تب تک چین سے نہ بیٹھنا چاہئے جب تک فتنہ ختم نہ ہو جائے اور دین اللہ کے لئے رہ جائے۔

      سورۃ توبہ 29
      جنگ کرواہلِ کتاب کے ان لوگوں سے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیاہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنادین نہیں بناتے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔
      یعنی دینِ اسلام کے سوا کسی دین کو یہ حق نہیں کہ وہ دنیا پر اپنی حکومت قائم کر سکیں، لہٰذا جب تک اسلام پوری دنیا پر حاکمیت قائم نہیں کر لیتا جہاد فرض ہے ہر خاص و عام پر۔ اور اگر بقول آپ کے مسلمانوں کی اکثریت اس چیز کو نہیں مانتی یا اس پر عمل پیرا نہیں ہے تو یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اسلام دنیا کے خلاف نہیں ہے۔ اپنے پسندیدہ مولوی صاحب کی تحریر سے اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔

      It must now be obvious that the objective of the Islamic jihad is to
      eliminate the rule of an un-Islamic system, and establish in its place an Islamic system of state rule. Islam does not intend to confine his rule to a single state or a hand full of countries. The aim of Islam is to bring about a universal revolution. Although in the initial stages, it is incumbent upon members of the party of Islam to carry out a revolution in the
      state system of the countries to which they belong; their ultimate objective is none other than world revolution
      (Jihad Fi Sabillilah: Jihad in Islam by Sayyid Abul Ala Mawdudi “– Chapter 3, Pg 10)

      اور
      Human relations are so integrated that no state can have complete freedom of action under its principles unless the same principles are not in force in a neighbouring country. Therefore, a, ‘Muslim Party’ will not be content with the establishment of Islam in just one area alone –both for its own safety and for general reform. It should try and expand in all directions. On one hand it will spread its ideology; on the other it will invite people of all nations to accept its creed, for salvation lies only therein. If this Islamic state has power and resources it will fight and destroy non-Islamic governments and establish Islamic states in their place.

      (Maulana Mawdudi, Haqiqat-i-Jihad ,Pg 64, Taj Company Ltd, Lahore, Pakistan 1964)

      تو میرے محترم دوست، آپ کو اور مودودی صاحب جیسے نام نہاد روشن خیال اور "امن پسند” اسلامی علماء کو اسامہ جیسے لوگوں کے طریقہ کار سے اختلاف ضرور ہو سکتا ہے لیکن مقصد بہرحال دونوں کا ایک ہی ہے۔ اور جزیات میں اختلاف تو بہرحال باعثِ رحمت ہی ہے۔

  6. جنوب مشرقی ایشیا میں ویتنام کا ایک ہمسایہ ملک کمپوچیا بھی ہے۔ جب کمپوچیا بھی امریکہ کی عاقبت نااندیش پالیسیوں کے نتیجے میں ویتنام کی جنگ کا ایندھن بن گیا تو وہاں کھمیر روج نامی ایک گروہ نے امریکہ کی کٹھ پتلی مقامی حکومتوں کے خلاف خود کو عوام دوست اور ماؤ نواز مارکسسٹ نظریے کا علمبردار ظاہر کرکے جنگ زدہ آبادی کی ہمدردیاں سمیٹیں۔ کھیمر روج نے انیس سو پچھہتر میں مسلح جدوجہد کے نتیجے میں ملک پر قبضہ کرلیا۔ کھمیرروج نے اعلان کیا کہ وہ ہر طرح کے استحصال سے پاک ایک نیا سماجی ڈھانچہ تعمیر کریں گے۔
    چنانچہ کیلنڈر کو زیرو سے شروع کیاگیا۔ روایتی ناموں کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی مثلاً پارٹی لیڈر پال پوٹ کا نام بھائی نمبر ایک اور ان کے نائبین کے نام بھائی نمبر دو ، تین ، چار وغیرہ رکھے گئے تاکہ نام و نسب سے جڑے تفاخر کا خاتمہ ہوسکے۔ سکولوں، ہسپتالوں، فیکٹریوں، بینکوں ، کرنسی اور مذہب کو سرمایہ دارانہ لعنتیں کہہ کر حرام قرار دے دیا گیا۔ نجی ملکیت جڑ سے اکھاڑ دی گئی۔ طبقاتی اونچ نیچ کے خاتمے کے لیے شہروں کو خالی کرا کر ان کے لاکھوں باسیوں کو دیہاتوں کی جانب اجتماعی کھیتوں میں خوراک پیدا کرنے کے لیے ہنکال دیا گیا۔ ٹیلی فون اور پوسٹل سروس ختم کردی گئی تاکہ لوگ ایک دوسرے سے رابطہ نہ کرسکیں۔

    پانچ برس میں کمپوچیا میں لگ بھگ پندرہ لاکھ لوگ تشدد اور بھوک سے مرگئے۔ لاکھوں سرحد پار تھائی لینڈ اور ویتنام چلے گئے۔ انیس سو اناسی میں ویتنامی افواج نے ان کھیمر روجوں سے کمپوچیا کی جان چھڑوائی اور ان کی جگہ ایک اعتدال پسند کیمونسٹ حکومت قائم کردی۔

    جنوبی امریکہ کے ملک پیرو میں انیس سو ساٹھ کے اواخر میں فلسفے کے ایک پروفیسر ابی میل گزمان نے پیرو کی کیمونسٹ پارٹی سمیت دنیا کی تمام سوشلسٹ تحریکوں کو بدعتی قرار دیتے ہوئے شائیننگ پاتھ نامی دھڑا قائم کیا۔ اعلان ہوا کہ سرمایہ دارانہ نظامِ حکومت کی جگہ صرف شائننگ پاتھ ہی خالص عالمی کیمونسٹ انقلاب لا سکتی ہے۔

    ابتدا میں پروفیسر گزمان نے پیرو کے بدعنوان حکومتی ڈھانچے سے تنگ آئے ہوئے کسانوں اور طلبا کی جانب توجہ کی۔ دیہی علاقوں میں فوری انصاف کی عدالتیں قائم کرتے ہوئے بدعنوان افسروں اور منافع خور تاجروں کو سزائیں سنانا شروع کیں جن میں ملزموں کے گلے کاٹنا، گلا گھونٹ کر مارنا ، سنگسار کرنا اور زندہ جلا دینا شامل تھا۔ مجرموں کو کھمبوں سے لٹکا کر یہ حکم بھی دیا جاتا کہ لوگ ان لاشوں کو بلا اجازت نہ دفنائیں۔ مخلوط پارٹیوں اور شراب نوشی پر پابندی لگا دی گئی۔

    حکومت نے شروع میں اس تحریک کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور یہ سمجھا کہ ان عناصر پر پولیس کے ذریعے قابو پایا جاسکتا ہے۔ لیکن جب شائیننگ پاتھ نے دارالحکومت لیما میں بجلی گھروں، کارخانوں، سرکاری دفاتر، شاپنگ مالز اور فوجی بارکوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو حکومت کو احساس ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ چنانچہ حکومت نواز کسانوں کو مسلح کرکے ان کے لشکر بنائے گئے۔ فوج نے قاتل دستوں کی مدد سے گاؤں کے گاؤں ملیامیٹ کردیے۔ شائیننگ پاتھ نے جواباً کسانوں اور اپنے مخالف بائیں بازو والوں کا قتلِ عام شروع کردیا۔

    اسرائیلی تحریک
    انیس سو انہتر میں اسرائیل میں ایک امریکی ربی مائیر کہان نے کش کے نام سے ایک تحریک چلائی جس کا مقصد تمام فلسطینوں کو اسرائیل، غربِ اردن اور غزہ سے باہر دھکیل کر عظیم تر اسرائیل قائم کرنا تھا۔ مائیر کہان نے ان اسرائیلی سیاستدانوں اور لوگوں کو بھی یہود دشمن قرار دے دیا جو عظیم تر اسرائیل کے مقصد پر عربوں سے کوئی سودے بازی کریں۔

    انیس سو اکیانوے تک بیشتر دیہی علاقہ شائننگ پاتھ کی گرفت میں آچکا تھا کہ انیس سو بانوے میں حکومت پروفیسر ابی میل گزمان کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کے بعد شائیننگ پاتھ کا زور ٹوٹتا چلا گیا اور وہ متعدد دھڑوں میں بکھر گئی لیکن بکھرنے سے پہلے بیس برس کے دوران ستر ہزار افراد شائیننگ پاتھ اور سرکاری دستوں کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے تھے۔

    انیس سو انہتر میں اسرائیل میں ایک امریکی ربی مائیر کہان نے کش کے نام سے ایک تحریک چلائی جس کا مقصد تمام فلسطینوں کو اسرائیل، غربِ اردن اور غزہ سے باہر دھکیل کر عظیم تر اسرائیل قائم کرنا تھا۔ مائیر کہان نے ان اسرائیلی سیاستدانوں اور لوگوں کو بھی یہود دشمن قرار دے دیا جو عظیم تر اسرائیل کے مقصد پر عربوں سے کوئی سودے بازی کریں۔ انیس سو نوے میں مائر کہان کو نیویارک میں قتل کردیا گیا لیکن اس تحریک کے بطن سے مقبوضہ علاقوں کے آباد کاروں میں کہان چائے، گدود ہیوری اور ریواوا جیسے شدت پسند دھڑے پیدا ہوگئے جنہوں نے عربوں اور ان کی املاک کو نشانہ بنایا۔

    انیس سو چورانوے میں ہیبرون کی مسجدِ ابراہیم میں انتیس فلسطینوں کو قتل کرنے والا بروش گولڈ شٹین اور انیس سو پچانوے میں اسرائیلی وزیرِ اعظم ایتزاک رابین کو قتل کرنے والا طالبِ علم ایگال عامر اسی طرح کے گروہوں کی پیداوار تھے جبکہ حالیہ انتخابات میں پندرہ پارلیمانی نشستیں حاصل کرنے والی جماعت یسرائیل بیتنو کے نظریاتی ڈانڈے بھی اسی انتہا پسندی سے جا کر ملتے ہیں۔

    بھارتی ریاست کرناٹک میں بجرنگ دل کے جوشیلوں نے ایک پندرہ سالہ ہندو لڑکی کو بس میں ایک مسلمان لڑکے کے برابر بیٹھنے پر اتنا رسوا کیا کہ اس نے چند روز پہلے خودکشی کرلی۔ رام سینا، بجرنگ دل اور شیو سینا کے رضاکار ان دنوں پونا، کانپور اور منگلور وغیرہ میں جینز پوش لڑکیوں کو ہراساں کرنے میں مصروف ہیں۔

    کہنے کا مقصد یہ ہے کہ طالبان کسی مخصوص علاقے میں کسی خاص مذہبی تحریک کا نہیں بلکہ ایک ذہنیت کا نام ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں کبھی بھی کسی نام سے بھی سر اٹھا سکتی ہے۔

    http://www.bbc.co.uk/urdu/miscellaneous/story/2009/02/090222_baat_se_baat_na.shtml

    1. آپکے تبصرے کا لب لباب یہ ہے کہ طالبان دراصل ایک ذہنیت کا نام ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی بھی نام سے سر اٹھا سکتی ہے۔ آپ نے درست تجزیہ کیا ہے اور اس سے احقر متفق ہے۔ لیکن یہ اس بات کی نفی نہیں کرتی کہ اسلام اسی ذہنیت کی پیداوار ہے اور بطور مذہب اس ذہنیت سے پوری دنیا کو اسوقت خطرہ لاحق ہے۔ دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والا مذہب (اسلامی برادرہڈ اور کفار) کسی طور امن کا علمبردار نہیں ہوسکتا۔ شریعت کو پوری دنیا پر لاگو کرنے کا حکم کرنے والا مذہب اور تمام غیر اسلامی حکومتوں کو فتنہ کہنے والا مذہب دراصل طالبانی ذہنیت ہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ دیگر مذاہب میں ایک آدھ فرقہ ایسا اٹھ کھڑا ہوتا ہے جبکہ اسلام سرتاپا ہی ایسا فرقہ ہے۔
      کچھ ریفارمرز البتہ ایسی چیزوں کی درستگی میں ضرور مصروف ہیں لیکن انکی اس "ریفارم” کی کوشش ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مذہب ناقص ہے اور اسکو اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔

جواب دیں

23 Comments
scroll to top