ہم کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ کرہ ارض پر زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟ زمانہ قبل از تاریخ میں ہمارے آباء واجداد کون تھے؟ وہ کون سے ارضیاتی تغیرات تھے جن کی وجہ سے کرہ ارض پر پائے جانے والے سب سے پیچیدہ حیوان ❞انسان❝ کا ارتقاء شروع ہوا؟ یہ سوالات صدیوں سے انسانی ذہن میں آتے رہے ہیں مگر ان کے جوابات کسی کے پاس نہ تھے یہاں تک کے انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں ہونے والی فوسلز کی دریافتوں نے سائنس دانوں کے لئے یہ ممکن بنا دیا کہ وہ حقائق و شواہد کی روشنی میں انسانی ارتقاء کو بیان کر سکیں کہ انسان اپنی موجودہ حالت میں کس طرح آیا اور انسان کو اپنی موجودہ حالت تک پہنچنے میں کتنا عرصہ لگا، سائنسی حقائق و شواہد کی روشنی میں زمین پر زندگی کی ابتداء 220 ملین سال قبل یوکریاٹیک نامی خلیے سے ہوئی، 65 ملین سال قبل پہلا ممالیہ جاندار ارتقاء پذیر ہوا، 13 ملین سال قبل سنزویک دور میں پیروپلاپتھیکس ارتقا پذیر ہوا، 7 ملین سال قبل ببون اور چمپنزی کا کامن جدِ امجد ساحلونتھروپوس ارتقاء پذیر ہوا جس کے بارے میں کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ ہی چمپنزی اور انسان کا کامن جدِ امجد رہا ہوگا۔
لگ بھگ 40 ملین سال قبل افریقہ میں موسمی تبدیلیاں آنے لگیں، یہ آتش فشاؤں کے پھٹنے اور تیز سیلابی بارشوں کا زمانہ تھا، اس وقت کے ہمارے آباء واجداد درختوں پر ویسی ہی زندگی گزارتے تھے جیسے چمپنزی اور ببون گزارتے ہیں، کچھ عرصہ بعد موسمی تغیرات کے باعث خشک سالی بڑھنے لگی اور برساتی جنگلات گھٹنے لگے جس کے باعث ہمارے آباء واجداد کے لئے زندگی مشکل ہونے لگی اور وہ درختوں پر رہن سہن چھوڑ کر زمین پر آنے لگے جس سے ان میں دو ٹانگوں پر چلنے کی ابتدا ہوئی، بیشتر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ چار ٹانگوں کی بجائے دو ٹانگوں پر چلنے والا پہلا جاندار اوسترالوپتھیکس تھا، جیسے جیسے افریقہ کا ماحول اور موسم ہمارے آباء واجداد کی بقائے حیات کے لئے مشکل ہوتا گیا وہ ایک نئے جاندار میں ارتقاء پذیر ہوتے گئے جسے ہومو حبلس کہا جاتا ہے، اوسٹرلو پیتھیکس کو ہومو حبلس تک پہنچنے میں 1.1 ملین سال کا عرصہ لگا، یہ نوع سائز میں بڑا دماغ رکھتی تھی اور ذہانت میں اوسترالوپتھکس سے زیادہ تھی، یہ پتھر کے بنیادی اوزار بنا لیا کرتے تھے اس کے 7 لاکھ سال بعد ہومو حبلس ارتقا کے ذریعے ہومو ایریکٹس میں تبدیل ہوگیا جو کہ مزید بڑا دماغ رکھتے تھے اور زیادہ ذہانت کے حامل تھے انہوں نے آگ کا استعمال شروع کیا اور خوراک کی تلاش میں افریقہ سے باہر بھی نقل مکانی کی اور مشرقِ وسطی اور ایشیا تک پھیل گئے، اسی دوران ایک دوسری نوع ہومو ہیڈلبرجنسس نے افریقہ سے یورپ کی طرف نقل مکانی کی اور یورپ میں وہ نیندرتھل میں ارتقا پذیر ہوگئے، ہم ہومو سپین ان دونوں جانداروں ہومو ایریکٹس اور نیندرتھل میں کس سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں؟ اس کا جواب ہم ذیل میں جدید ارتقائی سائنس کی روشنی میں جاننے کی کوشش کریں گے، ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی تعریف کیسے کی جائے گی، انسان اور اس کے آباء واجداد میں وہ کون سا فرق ہے جس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکیں کہ ہمارا نزدیکی جدِ امجد کون تھا، ہومو ایریکٹس یا نیندرتھل؟ اور ہمیں کون سی چیز ان سے ممتاز کرتی ہے۔
انسانی دماغ انسان کا سب سے پیچیدہ عضو ہے جس کی وجہ سے ہمارے پاس ذہانت، سوچنے سمجھنے اور بولنے کی صلاحیت ہے، ہم بہترین طریقے سے دو ٹانگوں پر حرکت کر سکتے ہیں اس کے علاوہ ہمارا بہتر سماجی رویہ ہمیں باقی ہومینڈ جانداروں سے ممتاز کرتا ہے اور انہی خصوصیات کی وجہ سے کرہ ارض پر ہماری حکمرانی ہے۔
انسان، چمپنزی اور ہومو ایریکٹس کے جسمانی خدوخال کے تجزیے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کے وہ کون سی خصوصیات تھیں جن کے ارتقاء پذیر ہونے سے انسان اور دیگر ہومینڈ جانداروں کے درمیان اتنا واضح فرق آیا، ہومو ایریکٹس کے فوسلز سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ ان میں بھی کچھ ایسی ہی خصوصیات تھیں جیسی آج کے انسان میں موجود ہیں۔
فوسل ریکارڈ سے پتہ لگتا ہے کے ہومو ایریکٹس کے دماغ کا سائز وقت کے ساتھ ساتھ بڑا ہوتا جا رہا تھا، اپنے باقی آباء واجداد کے مقابلے میں ہومو ایریکٹس کے دماغ کا سائز ساڑھے آٹھ سو سے گیارہ سو کیوبک سینٹی میٹر کے لگ بھگ تھا جبکہ ایک چمپنزی کے دماغ کا سائز تین سو سے ساڑھے چار سو کیوبک سینٹی میٹر کے درمیان ہوتا ہے اور موجودہ انسان کے دماغ کا سائز چودہ سو کیوبک سینٹی میٹر ہے جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا دماغ نشونما پا رہا تھا اور ہومو ایریکٹس چمپنزی کے مقابلے میں ذہین تھا، بائی پیڈلیزم (دو ٹانگوں پر چلنے کی صلاحیت) ایک اور اہم خاصیت ہے جس نے ہومو ایریکٹس کی بقاء میں نہایت اہم کردار ادا کیا، فوسل ریکارڈ سے پتہ لگتا ہے کہ ہومو ایریکٹس کا پیلوس (پیرو) کافی حد تک انسان سے مشابہ تھا جس کی وجہ سے ان کے لئے دو ٹانگوں پر چلنا اپنے آباء واجداد کے مقابلے میں قدرے آسان تھا، جسمانی مشابہت کے علاوہ ہومو ایریکٹس اور انسان کے عمومی رویے میں بھی کافی مماثلت پائی جاتی ہے، انسانوں کی طرح ہومو ایریکٹس میں بھی اوزار بنانے کا رواج پایا جاتا تھا، ہومو ایریکٹس سخت پھل اور گوشت کاٹنے کے لئے پتھر کے اوزاروں کا استعمال اپنے اجداد کی نسبت بخوبی جانتا تھا، اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کے ہومو ایریکٹس سوشل ہوتا جا رہا تھا اور اس میں خاندانی نظام پروان چڑھ رہا تھا، سائنسدانوں کو ایک ہومو ایریکٹس فوسل ملی جس کے دانت ٹوٹ چکے تھے اور وہ دانتوں سے محروم ہونے کے باوجود بھی کافی طویل عرصہ زندہ رہا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ضعیف ہومو ایریکٹس کی نہ صرف کوئی دیکھ بھال کر رہا تھا بلکہ اس کو کھانا بھی چبا کر دے رہا تھا یہی وہ سماجی رویہ ہے جو آگے چل کر انسان میں منتقل ہوا۔
چمپنزی میں بھی کچھ حد تک سماجی رویہ پایا جاتا ہے، وہ بھی گروہ بنا کر رہتے ہیں مگر وہ انسان یا ہومو ایریکٹس کی طرح اپنے گروہ سے اس طرح سے قریب نہیں ہوتے جس طرح سے انسان یا ہومورکٹس تھے، ایک اور صلاحیت جس نے ہومو ایریکٹس کی بقاء میں معاونت کی وہ اس کی آگ جلانا سیکھنے کی قابلیت تھی، جب ہومو ایریکٹس گوشت خور جانوروں کے درمیان رہتا تھا تو وہ آگ جلا کر اپنے آپ کو جانوروں کا شکار بننے سے بچاتا تھا۔
مندرجہ بلا خصوصیات سے پتہ چلتا ہے کے ہم ہومو ایریکٹس سے قریب تھے مگر میں یہ کہوں گی کہ ہمارا ایک مشترکہ جدِ امجد ضرور تھا مگر ہومو ایریکٹس ہمارا براہ راست جدِ امجد نہیں تھا کیونکہ ہومو ایریکٹس کا دماغ ہمارے جیسا ضرور تھا مگر ہم سے سائز میں کافی کم تھا، ہومو ایریکٹس کے چہرے کے خدوخال ہم سے ملتے جلتے تھے مگر مکمل ہماری طرح نہیں تھے، تو اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہومو ایریکٹس ہمارا براہِ راست جدِ امجد نہیں تھا تو پھر ہمارا براہِ راست جدِ امجد کون تھا؟
چار ملین سال قبل افریقن سوانا میں چار انسان نُما جاندار رہتے تھے، جیسے جیسے موسم گرم ہوتا گیا خشکی بھی بڑھتی گئی، نتیجتاً ابتدائی انسان جیسے جانداروں کے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ اپنی بقاء کے لئے افریقہ سے نقل مکانی کر جائیں، تو اس وقت ہومو ایریکٹس افریقہ سے نقل مکانی کر گیا اور مشرقِ وسطی اور ایشیا سے ہوتا ہوا انڈونیشیا تک پھل گیا، اسی زمانے میں ایک اور انسان جیسا جاندار افریقہ سے نکل کر یورپ جا کر آباد ہوگیا اور وہاں جا کر وہ مستقبل میں نینڈرتھل میں ارتقاء پذیر ہوگیا، جسمانی خدوخال اور عمومی رویے کے اعتبار سے نینڈرتھل اور انسان میں ہومو ایریکٹس کی نسبت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ انسان، نینڈرتھل اور چمپنزی کا آپسی تعلق سمجھنے کے لئے سائنس دان ان کی کھوپڑیوں کا موازنہ کرتے ہیں، چمپنزی کا دماغی خول چھوٹا ہوتا ہے اور اس کی جسمانی ساخت درختوں پر چڑھنے کے لئے زیادہ موزوں ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس میں اور نینڈرتھل میں واضح فرق موجود ہے البتہ چمپنزی، نینڈرتھل اور انسان چونکہ ایک مشترکہ جدِ امجد سے وجود میں آئے ہیں تو اس وجہ سے ان کی کھوپڑیوں میں کچھ حد تک مماثلت پائی جاتی ہے، نینڈرتھل کا پیلوس کپ کی شکل کا ہوتا تھا جو اس کی ریڑھ کی ہڈی اور اوپری باڈی کو سپورٹ کرتا تھا، پیلوس کی شکل سے ہمیں پتہ چلتا ہے کے نینڈرتھل بالکل انسانوں کی طرح دو ٹانگوں پر چل سکتا تھا، نینڈرتھل صرف جسمانی خدوخال کے لحاظ سے ہی انسان جیسا نہ تھا بلکہ اس کا رویہ بھی کافی حد تک انسانی تھا، یہی وہ پہلا جاندار تھا جس نے کپڑوں کا استعمال شروع کیا، انسانوں کی طرح یورپ کے سرد موسم اور برفانی علاقوں میں رہنے کی وجہ سے نینڈرتھل کو اپنی بقاء کے لئے کپڑوں کے استعمال کی ضرورت پڑی، نینڈرتھل ماہر شکاری تھا اور اس نے شکار کے لئے اوزاروں اور ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا، ان کے ہتھیار اور اوزاروں کی ٹیکنالوجی ہومو ایریکٹس کے مقابلے میں کافی جدت کی حامل تھی، نینڈرتھل کے اوزاروں میں لکڑی کے بنے ہوئے نیزے شامل تھے جن کی مدد سے وہ اپنے سے طاقتور جانوروں کا شکار کر لیا کرتے تھے، اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان کی دماغی صلاحیتیں انسان سے قریب تھیں اور وہ بھی کچھ حد تک ضرورت کے مطابق ایجاد کر لیا کرتے تھے۔
حال ہی میں سائنس دانوں نے ایک نینڈرتھل کا مکمل ڈھانچہ دریافت کیا ہے جس سے معلوم ہوا ہے کے نینڈرتھل میں بھی اپنے مردے کو ٹھکانے لگانے کا رواج شروع ہو چکا تھا، نینڈرتھل کی قبر سے کچھ اوزار بھی ملے ہیں جو مرنے والے کے ساتھ ہی رکھ دیے جاتے تھے، نینڈرتھل کے ڈی این اے پر ہونے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ نینڈرتھل میں فوکس پی ٹو نامی جین پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان بولنے اور زبان و کلام کے قابل ہوتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے ہے کہ نینڈرتھل بھی نہ صرف بول سکتا تھا بلکہ ایک دوسرے کی بات چیت سمجھ بھی سکتا تھا مگر ہماری طرح موثر طریقے سے نہیں کیونکہ نینڈرتھل کے گلے کے ڈھانچے نے اس کی بات چیت کو محدود کر دیا ہوگا، سائنس دانوں نے وہ خول بھی دریافت کر لئے ہیں جس میں نینڈرتھل رنگ اور پگمنٹ رکھتا تھا، نینڈرتھل بھی اپنی غاروں کو پینٹنگ سے آراستہ کرتے تھے۔
اب تک کی ہونے والی سائنسی تحقیق اور حقائق و شواہد کی روشنی میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آج سے دو ملیں سال قبل افریقہ میں چار انسان نُما جاندار رہتے تھے، ہومو ایریکٹس نے نقل مکانی کی اور ایشیا چلا گیا، ہومو ہائڈل برجنسس کا ایک گروہ افریقہ سے یورپ منتقل ہوگیا جو بعد میں ارتقاء کے ذریعے نینڈرتھل بن گیا، اور جو گروہ افریقہ میں رہا وہ آنے والے وقتوں میں ارتقاء کے ذریعے موجودہ انسان بن گیا، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نینڈرتھل اور انسان دونوں ایک ہی مشترکہ جدِ امجد ہومو ہائڈل برجنسس سے ارتقاء کے ذریعے وجود میں آئے ہیں۔
بشکریہ مریم خان
i think you are right.
Now we have to believe on this.
Science is more perfect than religion or islam
You are absolutely right.