جب انسان ممنوع ومجاز، مستحب اور مکروہ کے نظام پر عمل کرنا شروع کردیتا ہے تو گویا اس طرح وہ اپنی عقل کو ایک طرف رکھ کر اپنی پروگرامنگ کے عمل کی طرف پہلا قدم بڑھا دیتا ہے، پوری طرح پروگرام شُدہ ہونے کے لیے صرف کچھ وقت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے.
یقیناً یہاں بات اخلاقیات کی نہیں ہو رہی، بلکہ ان معاملات کی ہے جن کا تعلق ہماری روز مرہ کی زندگی سے ہے جو ہر انسان اور معاشرے میں مختلف ہوتی ہیں، یا بعض اوقات محض ذاتی عمل ہوتا ہے.
ایسے انسان کو کیا کہیں جس کے پاس کچھ مخصوص الفاظ کا ایک مجموعہ ہے جنہیں اس نے ہر وقت بڑبڑاتے رہنا ہے، صبح اٹھتے وقت، رات کو سونے سے پہلے، کھانے سے پہلے اور بعد میں… بازار میں جانے سے پہلے… بیت الخلاء میں جانے سے پہلے.. سواری، سفر، مرض، کپڑے بدلنا، نہانا، خرید وفروخت…. غرض کہ دنیا کا ایسا کوئی کام نہیں جسے کرنے سے پہلے یہ الفاظ نہ بڑبڑائے جائیں…
صرف اس پر ہی بس نہیں، اس کے پاس کچھ قاعدے بھی ہیں جو باقی چیزوں کا تعین کرتے ہیں مثلاً کھانا کس ہاتھ سے کھایا جائے، گھر میں اور بیت الخلاء میں داخل ہونے سے پہلے کون سا قدم بڑھایا جائے، کس طرح بیٹھا جائے اور بیٹھنے کے کن طریقوں سے اجتناب برتا جائے، بیوی کے ساتھ ہمبستری کس طرح کی جائے، بات کس طرح کی جائے، اپنے ارد گرد کے لوگوں کو کس طرح دیکھا جائے… اس کے پاس اپنے لباس، بال، داڑھی، ظاہری حلیہ، روزانہ نہانے کی تعداد، کس ٹوتھ برش سے اجتناب برتنا ہے اور کیا کھانا پینا ہے، حتی کہ ان خوشبوؤں کے بارے میں بھی اس کے پاس ہدایات موجود ہیں جنہیں اس نے استعمال کرنا اور جن سے اجتناب برتنا ہے..؟!
اس کے پاس اپنے خوابوں، مستقبل، اپنے گھر، بیوی، بچوں، دوستوں، پڑوسیوں، جنہیں وہ جانتا ہے اور جنہیں وہ نہیں جانتا ہے سب کے لیے ایک تیار پلان موجود ہے.
اس کے پاس اس کے لیے ایک سوچنے والا موجود ہے (پہلے سے پروگرام شُدہ پروگرامر) جو اسے ہر قسم کے معاملات کے لیے احکامات جاری کرتا رہتا ہے…
اس کی زندگی میں اگر کوئی چیز ہے جس پر کوئی قد غن نہیں ہے تو وہ صرف اس کی جنسی شہوت ہے جسے زمین پر پوری چھوٹ دے دی گئی ہے جس طرح کہ آسمان پر چھوٹ ہوگی.
یہ ساری مشقت محض ایک نگران کو راضی کرنے کے لیے کی جاتی ہے جو مثلا سر کے بال غلط طرح سے بنوانے پر بری طرح سیخ پا ہوجائے گا.
کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ نگران بجائے ہمیں بغیر سمجھ کے پروگرام کرنے کے ہمیں انتخاب کرنا سکھاتا؟
پتہ نہیں ذہنی طور پر کون زیادہ پختہ اور اچھے برے کی بہتر تمیز کرنے والا ہوگا؟ وہ بچہ جس کے والدین نہ اسے سکھایا ہو کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے، اسے سکھایا ہو کہ بازار میں موجود اچھی اور مفید چیزوں کا انتخاب کیسے کرے؟ یا وہ بچہ جس کے والدین نے اسے محض یہ بتایا ہو کہ یہ منع ہے اور یہ مجاز ہے، یہ مستحب ہے اور یہ مکروہ ہے، اور اس سے زیادہ مت پوچھنا ورنہ………؟؟؟؟؟ اور نہ جانے ان میں کون سے والدین بہتر ہیں؟؟
اگر انسان سے مشابہ مشین کو روبوٹ کہا جاتا ہے، تو کیا ہم اسی منطق کو استعمال کرتے ہوئے پہلے سے پروگرام شدہ انسان کو انسانی مشین نہیں کہہ سکتے؟
ایسے نظام پر عمل پیرا لوگوں کی ایک جیسی شکل، ایک ہی جیسی بو، ایک ہی طریقہ کلام اور ایک ہی جیسا رد عمل کیوں ہونا چاہیے؟ اور کیا اسے اتحاد کہنا چاہیے یا انتشار؟ یا جماعت کی چھاپ دکھانے کے لیے فرد کی شخصیت کا قتل؟ اور کیا عقل مند باپ اپنے تمام بچوں پر ایک ہی چھاپ لگائے گا یا ہر بچے کی اپنی اپنی شخصیت کو پروان چڑھنے اور اسے پختہ کرنے میں مدد کرے گا؟
جب ” کسی بھی ” مذہب میں ممنوعات اور مجازات کا اس طرح کا نظام شامل ہوجائے تو وہ ایسی انسانی مشینوں کی پروڈکشن لائن بن جاتا ہے جن پر وہی ڈیزائننگ کی تاریخ، وہی ماڈل نمبر اور وہی آپریٹنگ سسٹم نصب ہوتا ہے، اور پروڈکشن کا عمل انہی خواص کے ساتھ زمانوں تک چلتا رہتا ہے، چنانچہ ہم ایسی کسی بھی انسانی مشین کی خواص کو کچھ اس طرح بیان کر سکتے ہیں:
ماڈل نمبر ……….. پتھر کا زمانہ، اگرچہ پروڈکشن کی تاریخ انتہائی جدید ہے.
ڈائناسار آپریٹنگ سسٹم، اگرچہ یہ اکیسویں صدی ہے اور یہ آپریٹنگ سسٹم آج کے زمانے میں کام نہیں کرتا.
جنگلوں، پہاڑوں، سمندر کی گہرائیوں، خلاء، غرض کہ ہر طرح کے ماحول میں چلنے کے قابل.
اگر انسان اپنی عقل اور دل سے ہے، اور اس طرح کا نظام اسے انسانی مشین بنا دیتا ہے، تو عقل ودل کے تحلیل ہوجانے کے بعد ایسی مشین کو کیا کہنا چاہیے…؟!
0 Comments