Close

اے ملحدو تمہاری خیر نہیں

یہ ای میل ایک حضرت کی طرف سے موصول ہوئی ہے جس میں صاحب نے اپنا نام بتائے بغیر اور کسی بھی طرح کی تمہید کے بغیر لکھا:

قال الملحدون لابی حنیفہ: فی ای سنہ وجد ربک؟ قال: اللہ موجود قبل التاریخ والازمنہ لا اول لوجودہ، قالو: نرید منک اعطاءنا امثلہ من الواقع. قال لہم: ماذا قبل الاربعہ؟ قالوا: ثلاثہ. قال لہم: ماذا قبل الثلاثہ؟ قالوا: اثنان. قال لہم: ماذا قبل الاثنین؟ قالوا: واحد. قال لہم: وما قبل الواحد؟ قالوا: لا شیء قبلہ. قال لہم: اذا کان الواحد الحسابی لا شیء قبلہ فکیف بالواحد الحقیقی وہو اللہ! انہ قدیم لا اول لوجودہ. قالوا: فی ای جہہ یتجہ ربک؟ قال: لو احضرتم مصباحا فی مکان مظلم الی ای جہہ یتجہ النور؟ قالوا: فی کل مکان. قال: اذا کان ہذا النور الصناعی فکیف بنور السماوات والارض. قالوا: عرفننا شیئا عن ذات ربک؟ اہی صلبہ کالحدید اور سائلہ کالماء؟ ام غازیہ کالدخان والبخار؟ فقال: ہل جلستم بجوار مریض مشرف علی النزع الاخیر؟ قالوا: جلسنا. قال: ہل کلمکم بعدما اسکتہ الموت؟ قالوا: لا. قال: ہل کان قبل الموت یتکلم ویتحرک؟ قالوا: نعم. قال: ما الذی غیرہ؟ قالوا: خروج روحہ. قال: اخرجت روحہ؟ قالوا: نعم. قال: صفوا لی ہذہ الروح ہل ہی صلبہ کالحدید؟ ام سائلہ کالماء؟ ام غازیہ کالدخان والبخار؟ قالوا: لا نعرف شیئا عنہا. قال: اذا کانت الروح المخلوقہ لا یمکنکم الوصول الی کنہہا فکیف تریدون منی ان اصف لکم الذات العلیہ.

ترجمہ:
دہریوں نے ابی حنیفہ سے کہا کہ تمہارا رب کس سال وجود میں آیا؟ کہا: اللہ تاریخ اور زمانوں سے پہلے سے موجود ہے اس کے وجود کا کوئی اول نہیں ہے، انہوں نے کہا: ہمیں حقیقی واقعاتی مثالیں دیں. ان سے کہا: چار سے پہلے کیا ہے؟ انہوں نے کہا: تین. ان سے کہا: تین سے پہلے کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: دو، کہا: دو سے پہلے کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ایک، کہا: ایک سے پہلے کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اس سے پہلے کچھ نہیں ہے. کہا: اگر حسابی ایک سے پہلے کچھ نہیں ہے تو حقیقی واحد اللہ سے پہلے کچھ کیسے ہوسکتا ہے! وہ قدیم ہے اس کے وجود کا کوئی اول نہیں ہے. انہوں نے کہا: تمہارا رب کس سمت میں ہے؟ کہا: اگر تم لوگ اندھیری جگہ میں کوئی چراغ لے آؤ تو روشنی کس طرف جائے گی؟ انہوں نے کہا: ہر جگہ: کہا: اگر مصنوعی نور کا یہ عالم ہے تو آسمانوں اور زمین کے نور کا کیا عالم ہوگا. انہوں نے کہا: اپنے رب کی ذات کے بارے میں ہمیں کچھ بتاؤ؟ کیا وہ لوہے کی طرح سخت ہے یا پانی کی طرح مائع ہے؟ یا بخار اور دھوئیں کی طرح گیسی ہے؟. کہا: کیا کبھی تم لوگ کسی مرتے ہوئے مریض کے پاس بیٹھے ہو؟ انہوں نے کا: ہاں بیٹھے ہیں. کہا: کیا مرنے کے بعد اس نے تم سے بات کی؟ کہا: نہیں. کہا: کیا مرنے سے پہلے بولتا اور حرکت کرتا تھا؟ کہا: ہاں. کہا: اسے کس چیز نے تبدیل کیا؟ کہا: اس کی روح کے نکلنے نے. کہا: کیا اس کی روح نکل گئی؟ کہا: ہاں. کہا: اس روح کی خاصیت کے بارے میں مجھے بتاؤ کیا یہ لوہے کی طرح سخت ہے؟ پانی کی طرح مائع ہے؟ یا دھوئیں اور بخارات کی طرح گیسی ہے؟ کہا: ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے. کہا: اگر تم مخلوق روح کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے تو تم مجھ سے کیسے یہ مطالبہ کرتے ہو کہ میں تم کو ذات عالیہ بیان کروں.

مؤمنین اپنے آپ کو کیسے بے وقوف بناتے ہیں؟ اپنے آپ سے جھوٹ بول کر عقل وحکمت سے کس طرح دور ہوتے ہیں؟ اگر انسان اپنی عقل استعمال کرے اور تھوڑے سے غور اور ذرا سے شک سے کام لے تو اس کے لیے یہ جاننا قطعی مشکل نہیں ہوگا کہ یہ مناظرہ خالصتاً گھڑا ہوا ہے اور ابی حنیفہ سے بے جا منسوب ہے.. اور پھر اللہ معاف کرے ای میل بھیجنے والا یہ کیوں فرض کر رہا ہے کہ میں ملحد ہوں؟

صحرائی ممالک کی وہ قدیم تحاریر بھی جنہیں بار بار سنا سنا کر لوگوں کے کان پکائے جاتے ہیں کوئی واضح اصل نہیں رکھتیں کیونکہ ان کی دستاویز سازی سالوں اور تاریخوں میں کی ہی نہیں گئی ہے۔۔ حدیث کے راوی یہ نہیں بتاتے کہ صلعم نے کب کوئی حدیث کہی، یعنی نہ سال کا پتہ ہوتا ہے نہ دن کا۔۔ کیونکہ ان احادیث کی اکثریت بعد میں گھڑی گئی ہے جس کی بنیاد صحراء کی زبانی ثقافت پر ہے اس طرح یہ گھڑی ہوئی کہانیاں اسلام پر کافی اثر انداز ہوئیں اور اسے وہ شکل دے دی جس میں یہ آج دوسروں کا خون چوسنے کے در پہ ہے۔۔ آج کے دور میں بھی لوگوں کو ایسے قصے کہانیاں گھڑنے سے کون روکتا ہے؟ آج تو آسانی بھی زیادہ ہے، اِدھر اُدھر سے کچٖھ سفید اور کچھ سیاہ جھوٹ جمع کیا اور انٹرنیٹ پر ایک نئی اسلامی پھلجڑی چھوڑ دی، مؤمنین اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے خیال میں ان کی نیت اچھی ہوتی ہے، مسلم ممالک کی ہر طرح سے شکست خوردہ اور پسی ہوئی عوام ایسی کہانیوں پر فورا یقین کر لیتی ہے، کیونکہ وہ بھی یہی کچھ سننا چاہتے ہیں۔۔ آپ جو سننا چاہتے ہوں اس پر فوراً یقین کر لیتے ہیں۔۔ یہ شاید انسانی نفسیات کا ایک پہلو ہے۔

اس مناظرے کے متن کی ذرا سی جانچ پڑتال ہی بتاتی ہے کہ کسی قدیم تحریر میں لفظ: ❞من الواقع❝ کا استعمال ممکن نہیں کیونکہ اس جملے کا تعلق جدید عربی سے ہے جو بیسویں صدی میں ہی ظاہر ہوا ہے اور قدیم عرب کی زبان اور شاعری میں اس کا کبھی استعمال نہیں کیا گیا.

پھر دہریوں کو لا جواب کرنے کے لیے ابو حنیفہ ان سے ہر عدد سے پہلے کا عدد پوچھتے ہوئے ایک سے پہلے تک لے جاتا ہے جس پر وہ کہتے ہیں کہ ایک سے پہلے کچھ نہیں ہے؟؟! اگر یہ ملحدین کم سے کم پرائمری پاس بھی ہوتے تو ابو حنیفہ کو یہ کہہ کر لا جواب کردیتے کہ ایک سے پہلے منفی ایک ہے، پھر منفی دو، پھر منفی تین۔۔ اس طرح منفی کروڑ۔۔ ارب۔۔ کھرب۔۔۔۔ انفینٹی تک۔۔ کون کہتا ہے کہ ایک سے پہلے کچھ نہیں ہے؟

پھر ملحدین رب کی ذات کے بارے میں پوچھتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا وہ لوہے کی طرح سخت، پانی کی طرح مائع یا گیسی ہے؟ اس کا تعلق بھی جدید علوم سے ہے، عرب نے اپنے قدیم علمی تصانیف میں کبھی مادے کی حالتوں کی ان صفتوں میں زمرہ بندی نہیں کی۔۔ لفظ ❞غازیہ❝ بھی جدید یورپی زبانوں سے عربی میں مستعمل ہوا۔۔ ❞النور الصناعی❝ بھی جدید عربی ہے یہ ❞القمر الصناعی❝ یعنی سیٹ لائیٹ کی طرح ہے، ایسے الفاظ نہ تو کبھی ابو حنیفہ نے سنے ہوں گے اور نا ہی کبھی بولے ہوں گے۔

پھر ابو حنیفہ پوچھتے ہیں کہ انسان کو مرنے کے بعد کس چیز نے تبدیل کیا جس پر ملحدین جواب دیتے ہیں کہ روح نے۔۔۔ برییکک۔۔ یہ کون سے دہریے ہیں جو روح پر یقین رکھتے ہیں؟ ای میل بھیجنے والے کو میرا جواب ہے کہ یہ تحریر کسی ایسے مؤمن نے گھڑی ہے جو اپنے آپ میں یہ خواب دیکھ رہا تھا کہ وہ ملحدین کو لا جواب کردے گا لیکن در حقیقت وہ ملحدین کی حجت کی طاقت اور منطق کی برتری کو انڈر اسٹمیٹ کر رہا تھا اور وہ غالباً یہ سب لا علمی میں ہی کر رہا تھا کیونکہ ملحدین کی اکثریت اپنی زندگی، معاشرتی اور علمی رتبے کی حفاظت کے لیے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرتے، در حقیقت وہ ایک پسی ہوئی اقلیت ہیں، مگر وہ اپنے فکری مواقف تک ایسے ہی نہیں پہنچ گئے۔۔ ان کے پاس ایسی منطق اور حجت ہوتی ہے جو اس تحریر کے مصنف کے کبھی پلے نہیں پڑے گی جس طرح کی اس نے تحریر لکھی ہے، اور اگر ملحدین کسی آزاد معاشرے میں ہوتے جو فکر کی قدر کرتا ہو تو اس شخص کو زمین پر رکیدتے اور اسے اسلامی ممالک کا مسخرہ بنا دیتے جس طرح کی اس نے بودی منطق پیش کی ہے۔۔ عقل کی توہین ایمانی غیبیات کو ماننے والوں کی عادت بن چکی ہے کیونکہ اسلامی ممالک میں ان کے سامنے کھڑا ہونے والا کوئی نہیں ہے، اور جب تک قانون ان کی رائے کی پشت پناہی اور مخالف رائے کو سختی سے کچلتا رہے گا یہ اسی طرح خرافات میں غرقان رہیں گے۔۔ ہمیں کیا ہے۔۔ ایسی بودی باتیں لکھتے رہیں اور خود ہی ان پر یقین کرتے اور اپنے آپ کو گمراہ کرتے رہیں تاکہ انہی کے اللہ کا قول ان پر صادق آجائے کہ: وما ظلمونا ولکن کانوا انفسہم یظلمون۔

لوگوں کو اپنے عقائد بدلنے پر قائل کرنا بہت مشکل کام ہے، خاص طور سے جب عقیدہ مذہبی یا سیاسی ہو، آپ چاہے کتنا ہی ان کے دعوں کے تضادات ان کے سامنے رکھیں اور عقلی وعلمی دلائل دیں غالب امکان یہی ہے کہ وہ اپنے ایمان پر قائم رہیں گے۔۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟

ہم بچپن سے ہی کچھ مفاہیم کو قبول اور مسترد کرتے ہیں، یہ وہ خیالات ہوتے ہیں جو ہمارے والدین، سکول ٹیچر، مسجد کا شیخ، میڈیا کے ذریعے سیاسی تلقین ہمارے ذہن میں ڈالتی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ خیالات کس طرح ہمارے دماغ میں ڈالے گئے؟ یوں ہم انہیں اپنے خیالات سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور یہ لاشعوری طور پر ہماری شخصیت سازی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں پھر ہم یہ یقین کر لیتے ہیں کہ ہم ان خیالات سے متفق ہیں بھلے ہی شعور ان کی مزاحمت کر رہا ہوں اور ان کے فکری تضاد کو مسترد کر رہا ہو، ہم انہیں شک کا موقع دیے بغیر ان کا دفاع شروع کردیتے ہیں، بچپن میں کی گئی برین واشنگ پتھر میں لکیر کی طرح ہوتی ہے، اعتقاد چاہے کتنا ہی بودا کیوں نہ ہو اسے اپنی جگہ سے ہلایا نہیں جاسکتا.. ایک پرانی فلم میں ہیرو اپنی جوانی میں ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے مگر اس کا باپ معاشرتی اور طبقاتی بنیادوں پر اسے اس لڑکی سے شادی نہیں کرنے دیتا جس پر وہ شدید دکھی ہوتا ہے۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ہیرو اپنی بیٹی کے خلاف وہی کردار ادا کرتا ہے جو کسی دوسرے طبقے سے تعلق رکھنے والے لڑکے کے عشق میں گرفتار ہوجاتی ہے، اور سختی میں اپنے ہی باپ کا رویہ اختیار کرتا ہے جو اس نے ماضی میں اس کے خلاف اختیار کیا ہوتا ہے تاکہ اس عشق کو شادی پر منتج ہونے سے روکا جاسکے۔

یہی وجہ ہے کہ آپ کو معاشرے میں ایسے بڑھے لکھے لوگ کثیر تعداد میں ملیں گے جو خرافات پر یقین رکھتے ہیں جیسے انجینئر، سائنسدان وغیرہ۔۔ گزشتہ رمضان بیماری کے سبب مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا، ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے روزہ ہے؟ نفی میں جواب دینے پر اس نے پوچھا کیوں؟ میں نے جواب دیا: کھانے سے روزہ رکھنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر طویل دورانیے تک پانی نہ پینا صحت کے لیے مضر ہوتا ہے اور آپ ڈاکٹر حضرات ہی تو لوگوں کو کثرت سے پانی پینے کی نصیحت کرتے ہیں، ہے نا؟ ڈاکٹر صاحب نے ذرا منہ خراب کرتے ہوئے جواب دیا: درست! مگر یہ رمضان ہے اور اس کی اپنی برکت ہے۔۔

میرے ایک دوست نے جو ادبی آثار اور فن پاروں کو جمع کرنے کا دلدادہ ہے اور خاصا تعلیم یافتہ شخص ہے نے مجھ سے ایک بار کہا کہ فلسطینی-اسرائیلی مسئلے کی پیچیدگی کی وجہ یہ ہے کہ آسمانی کتابیں بشمول قرآن کے یہ گواہی دیتی ہیں کہ یہودی عربوں سے پہلے وہاں موجود تھے! ایک تعلیم یافتہ شخص عبرانیوں کی خرافات پر مشتمل زبانی تاریخ پر یقین کیوں رکھتا ہے جسے وہ آج تک کسی بھی آرکیالاجیکل کھدائیوں سے ثابت نہیں کر سکے؟ یہودیوں کو کبھی کوئی ثبوت نہیں ملنے لگا چاہے وہ پورا بیت المقدس کھود ڈالیں۔۔۔ وجہ بڑی سادہ ہے۔۔ میرا دوست کتابی طور پر پڑھا لکھا اور عقلی طور پر جاہل ہے، اسے سکول میں پڑھایا گیا کہ قرآنی قصے تاریخی طور پر درست ہیں جیسا کہ ثابت شدہ علمی تاریخ ہوتی ہے حالانکہ مذہبی کتابوں کے قصوں کو کوئی بھی سائنس قبول نہیں کرتی اور ایسا ایک بھی مؤرخ نہیں ہے جو اپنے آپ کا اور اپنے پیشے کا احترام کرتا ہو ان کو کوئی اہمیت دیتا ہو۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچپن میں بچوں کو عقل اور شک سے متضاد تعلیم دینا ہی اس مظہر کی ایک اہم وجہ ہے جو ایک دردناک حقیقت ہے۔۔ ہمیں بچوں کو سکھانا چاہیے کہ وہ کسی بھی طرح کے مفاہیم اور نظریات کو مطلق حقیقت کے طور پر نہ لیں اور ان پر شک اور ان کی جانچ پڑتال کرنا سیکھیں۔۔ اگر ہم حکومت اور معاشرے پر چھائے اسلام پسندوں کی طرف سے تھوپا ہوا تعلیمی نصاب نہ بدل سکیں تو یہ تعلیم ہمیں انہیں گھر پر دینی چاہیے۔

اوپر کی باتوں کا منفی پہلو یہ ہے کہ ہمیں پیش کردہ کسی بھی چیز کو قبول یا مسترد کرنے کے لیے ہمارے اندر تنقیدی تشکیکی سوچ کی ہمیشہ کمی ہوتی ہے مگر اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔۔ اسلامی ممالک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے بڑے ہوکر بچپن میں سکھائی پڑھائی گئی افکار کو مسترد کردیا۔۔ میرے خیال سے ان معاملات کو پیش کرنے اور ان پر گفتگو کرنے سے بہت سارے لوگوں کو سطحی عقائد کی دیوار گرانے میں مدد ملے گی چاہے وہ بڑے ہی کیوں نہ ہوگئے ہوں اور چاہے یہ عقائدہ بچپن سے ہی ان کے دماغوں میں کیوں نہ ٹھونسے جاتے رہے ہوں۔۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

2 Comments

  1. اینڈرسن شا بھائی آپکے الفاظ دلائل میں غوطہ کھانے کے بعد جب نکلتے ہیں تو انکی صورت دیدنی ھوتی ھے اور سوچ پر اسکے اثرات حیرت انگیز . میں نے آپ کے نام کئی پیغامات بھیجے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ تا ھے کہ مجھے ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا.
    سر، میں اپنی تحریریں جرات تحقیق میں کیسے شائع کرسکتا ھوں اور کسی ممبر کو زاتی پیغامات بھیجنے کا کیا طریقہ کارہے. پلیز تفصیل سے بتائیں.شکریہ شاہد

  2. آپ کے پیغامات مل گئے ہیں ان کا جواب آپ کو جلد ہی مل جائے گا۔ جراتِ تحقیق پر اپنی تحایر شائع کروانے کے لیے بھی وہی طریقہ اپنائیں، تحریر قابلِ اشاعت ہوئی تو ضرور شائع کی جائے گی ورنہ آپ کو اس کی خامیوں سے آگاہ کردیا جائے گا، کسی ممبر سے براہ راست رابطہ کرنے کے لیے فورم پر ذاتی پیغامات کا استعمال کریں، تعریف کے لیے شکریہ 🙂

جواب دیں

2 Comments
scroll to top