کہا جاتا ہے کہ تاریخ فاتح لکھتا ہے، یہ مقولہ اتنا دقیق نہیں ہے، کیونکہ اصل میں ایک تاریخ حقیقی ہوتی ہے اور ایک جعلی تاریخ ہوتی ہے، تاریخ ماضی کے واقعات کی تدوین کا علم ہے، ان واقعات کے واقع ہونے کے اثبات کے لیے کھدائیوں اور آثارِ قدیمہ کا سہارا لیا جاتا ہے اور قدیم تحریروں کی چھان پھٹک کی جاتی ہے تاکہ قدیم زمانے میں ہوئے واقعات کی جڑ اور حقیقت تک پہنچا جاسکے، حقیقی تاریخ میں دیگر معلوم علوم کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے یعنی درست علمی انداز اختیار کرتے ہوئے دلائل اکٹھے کیے جاتے ہیں، جبکہ جعلی تاریخ کا تعلق شروع میں ذکر کیے گئے مقولے سے ہے.
مقنن تاریخ ایک قدیم صنعت ہے جس میں واقعات کو اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے کہ ان کا حتمی نتیجہ پہلے سے طے شدہ قومی ومذہبی خواہشات کے عین مطابق ہو اور قاری کو قائل کیا جاسکے کہ کوئی پیغام ہے جسے تاریخ نے ثابت کیا ہے اور اسے چاہیے کہ وہ اسے سمجھے.
اس کی ایک مثال وہ آمرانہ نظام ہیں جو ایسے جھوٹے اور وہمی تاریخی دعوے قوم کو سناتے ہیں جو کبھی ہوئے ہیں نہیں تھے، مثال کے طور پر ❞سوریا الکبری❝ (عظیم سوریا) کا دعوی، تاریخ میں کبھی بھی ایسے کسی عرب نظام کا وجود نہیں رہا ہے جس میں وہ عناصر شامل تھے جنہیں سوریا کی البعث نگلنا چاہتی ہے.. نازیت اور آری نسل کی برتری جس کے لیے وہمی شہر تخلیق کیے گئے اور ان کی دریافت کے لیے وسطی ایشیا تک مہمیں بھیجی گئیں تاکہ اپنی برتر نسل کی جڑوں تک پہنچا جاسکے مگر یہ ساری مہمیں ناکامی سے دوچار ہوئیں.. عظیم صربیا جو تقریباً آدھے بلقان کو نگل کر غیر سلافی قوموں کو وہاں سے نکالنا چاہتا ہے.
نوے کی دہائی میں فیوم جانے کے لیے میں اور میرا رضاعی سعودی بھائی ریلوے سٹیشن پر ٹکٹوں کی قطار میں کھڑے تھے، ہمارے پیچھے کچھ چلبلی سی مغربی خواتین تھیں جو ارد گرد کے لوگوں سے چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھیں، ان کے پیچھے ایک کویتی لڑکا تھا جس کی عمر تقریباً سترہ سال رہی ہوگی، ان میں سے ایک خاتون نے مجھ سے اور اس کویتی لڑکے سے گفتگو شروع کردی، باتوں باتوں میں اس خاتون نے کویتی لڑکے سے سوال کیا کہ: عراق کے ساتھ اتنا ظلم کیوں ہو رہا ہے جبکہ وہ صرف اپنا وہ صوبہ واپس لینا چاہتا ہے جسے استعمار نے اس سے الگ کردیا؟ وہ بے چارہ لڑکا اس سے کہیں چھوٹا تھا کہ صدام حسین کے جھوٹے دعووں پر مبنی سیاسی بحث کر سکتا، چنانچہ میں نے اس خاتون سے عرض کیا کہ: محترمہ خلیج کا سیاسی ڈھانچہ اپنی اسی شکل میں کئی سو سالوں سے موجود ہے.. یہ ڈھانچہ سوریا، عراق، اردن اور تونس کے وجود سے بھی پہلے کا ہے، کویت نے تین سو سال پہلے سلطنتِ عثمانیہ کے ساتھ کئی سیاسی معاہدے کیے تھے جبکہ عراق اس وقت سلطنتِ عثمانیہ کا ایک صوبہ تھا، عراق کا مستقل سیاسی وجود بیسویں صدی کے آغاز میں ہی تشکیل پا سکا… اس پر اس محترمہ نے عرض کیا کہ: میرا مطلب ہے اس سے پہلے؟ میں نے کہا: اس سے پہلے عراق بالترتیب صفوی، عباسی، اموی اور خلفائے راشدین کے زیرِ تسلط تھا الا یہ کہ آپ کی مراد حمورابی کے دور سے ہو؟ یہ خاتون صدمے اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں میری شکل تکتی رہ گئی..
جعلی یا محرف تاریخ سنجیدہ کالجوں اور جامعات میں – جن کا اسلامی دنیا میں کوئی وجود نہیں – نہیں پڑھائی جاتی کیونکہ اس تاریخ کی تنقیدی جانچ پڑتال نہیں کی گئی ہوتی اور نا ہی اس کے کوئی مادی آرکیالاجیکل ثبوت ہوتے ہیں، ایسی تاریخ کا سارا انحصار مقدس مصادر پر ہوتا ہے جیسے دیومالائی اساطیر، خرافات اور مذاہب.
اس قسم کی تاریخ کی پہچان مصنف کے انداز سے کی جاسکتی ہے جو تاریخ کے سنجیدہ محققین کی بجائے عوام الناس کو مخاطب کرتی ہے، ایسی تاریخ کے تمام مصادر بھی اسی طرح کے دیگر جعلساز ہوتے ہیں اور ہر کوئی دوسرے سے نقل کر رہا ہوتا ہے.
محرف تاریخ کسی منظرنامے کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے کہ اکادیمی سطح پر اس کی تصدیق نہیں ہوسکتی، عام طور پر ایسی تاریخ لکھنے والے کے دلائل کا مصدر خرافات، مقدس کتابیں یا اس کی مشتقات ہوتی ہیں، تاریخی حقائق کو بھی اس طرح موڑ توڑ کر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ جعلی تاریخ سے ہم آہنگ ہوجائے.. یہودیوں کے قصے، ان کا مصر سے نکلنا، سمندر کا شق ہونا اور فرعون کا غرق ہونا تاریخی طور پر ثابت نہیں ہے اور ناہی کوئی تاریخی اثر اس واقعے کی تصدیق کرتا ہے، علمِ مصریات ایک باقاعدہ تصدیق شدہ علم ہے جسے آثارِ قدیمہ سپورٹ کرتی ہے اور یہ دنیا کی بہترین جامعات میں پڑھایا جاتا ہے مگر اس توراتی قرآنی قصے کا اس میں ایک یتیم تذکرہ تک نہیں ہے اور نا ہی عبرانیوں کا کوئی اتا پتہ ہے، یہ تاریخ ایک جعلی تاریخ ہے اور سوائے بنی اسرائیل کی خواہشات اور خرافات کے کچھ نہیں ہے، دنیا کی کوئی بھی جامعہ جسے اپنی اکادیمی حیثیت کی فکر ہے ایسی خرافات کبھی نہیں پڑھاتی، آج بھی یہودی ❞ارض المیعاد❝ میں اس سلیمانی ہیکل کی تلاش میں سرگرداں ہیں جس کا ذکر ان کے مؤرخین نے توریت کے خرافاتی مصدر کو بنیاد بنا کر کیا، آپ کا کیا خیال ہے کہ انہیں یہ سلیمانی ہیکل مل جائے گا؟ شاید کھڈے میں… جب تھک جائیں گے تو کہیں گے کہ شاید سلیمان کے کسی جن نے یہ آثار ان سے چھپا دیے.. آخر خرافات ہی تو خرافات کو جنم دیتی ہیں.. مصادر میں تضاد کی صورت میں بھی تاریخ کا جعلساز صرف اس چیز کا انتخاب کرتا ہے جو اس نتیجے تک لے جائے جس تک وہ پہنچنا چاہتا ہے.
زیادہ تر جعلی تاریخ ایسے ایجنڈوں پر مشتمل ہوتی ہے جو اس وقت موجود تھے، یہ ایجنڈا بر سر اقتدار کسی آئیڈیالوجی، گروہ یا بادشاہ کی تعظیم کے لیے ہوسکتا ہے، یا نسلی ایجنڈا بھی ہوسکتا ہے تاکہ کسی قوم کو کسی دوسری قوم پر برتری دلائی جاسکے یا پھر مذہبی ایجنڈا تاکہ کسی مخصوص مذہب کو دیگر مذاہب سے زیادہ عظیم بنا کر پیش کیا جاسکے.
جعلی تاریخ کو اس کے بیانی اسلوب سے بڑی آسانی سے پکڑا جاسکتا ہے، اس کی زبان تاویلی ہوتی ہے، مثال کے طور پر عباس محمود العقاد کا ❞العبقریات❝ نامی سلسلہ کتب جس میں اسلامی شخصیات کو بڑے مثالی انداز میں پیش کیا گیا ہے اور ان کی غلطیوں کو ❞مصلحت❝ اور ❞خرد مندی❝ میں بدلنے کی کوشش کی گئی ہے.
ایک تاریخی جعلسازی مقامات سے متعلق ہے تاکہ انہیں حقیقت کا روپ دیا جاسکے جیسے غرق شدہ اٹلانٹس، یاجوج اور ماجوج کا ملک، سلیمان کی بادشاہت، نوح کی کشتی اور اس کی جودی اور عرارات پہاڑ پر موجودگی، فرعون کی غرق شدہ لاش جو رمسیس دوم کی ممی سے چپکا دی گئی ہے، یہ وہ تخیلاتی فرعون ہے جس کی کہانی بنی اسرائیل نے گھڑی ہے، یا غیر حقیقی شخصیات جیسے عبد اللہ بن سبا، خضر، شاہ آرتھر ودیگر.. اپنے بچوں کو ایسی تاریخ کیسے پڑھائیں جو کہتی ہو کہ زندگی آسمان پر ایک شخص سے شروع ہوئی جس کا نام آدم تھا اور جب وہ سو رہا تھا تو خدا نے اس کی پسلی سے اس کے لیے ایک عورت نکال کھینچی پھر ان دونوں کو جنت سے دھکے مار کر نکال دیا کیونکہ انہوں نے ابو کی بات نہیں مانی اور فریج میں رکھے پھل کھا لیے؟.. اس سے بڑھ کر بچگانہ کہانی بھلا اور کیا ہوسکتی ہے..؟! اسی طرح ابراہیم، اسماعیل اور ہاجر کا خرافاتی قصہ اور چھ سو پروں والا جبریل اور عبد المطلب جو ہاتھی کے کان میں کچھ بڑبڑاتا ہے اور وہ کعبے کو گرانے کا اپنا فیصلہ بدل لیتے ہیں پھر ان پر ففٹی ٹو ماڈل کے ابابیل بمباری کر کے انہیں تہس نہس کردیتے ہیں.. کیا یہ سب خرافات روم کی افسانوی تاریخ اور ان دو بچوں کی کہانی سے مختلف ہے جنہیں ایک بھیڑیے نے دودھ پلایا؟
ریت کے ملکوں میں بچوں کو یہ ڈوز بچپن سے ہی دینا شروع کردیے جاتے ہیں، جس دوران بچوں کو سائنس کی کلاس میں یہ بتایا جا رہا ہوتا ہے کہ مادہ ایٹموں پر مشتمل ہوتا ہے، تاریخ کی کلاس میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ فرشتے نامی نظر نہ آنے والی مخلوق نے غزوہ بدر میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ جنگ لڑی..؟! پھر بھلے مادہ اور اس کے ایٹم جائیں تیل لینے..!
اسلامی تاریخ کے مصادر تدوینی کے بجائے لفظی ہیں جیسے حدیث میں علم الاسناد جو سوائے سالوں سے چلتی زبانی قصے کہانیوں کے اور کچھ نہیں اور جسے انتہائی ابتدائی اور فرسودہ طریقے سے صدیوں بعد احاطہ تحریر میں لایا گیا.. اسی زمرے میں سیرت کی کتابیں بھی آتی ہیں جنہیں اسلام کی تاریخ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے.. اوپر سے یہ متون مقدس بھی ہیں جن پر طعن نہیں کیا جاسکتا اور نا ہی کسی دلیل یا اثر کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے جس سے جعلسازی کی بو آتی ہے حالانکہ مسلمان خود کہتے ہیں کہ بعرہ بعیر کی موجودگی کی دلیل ہے.
میڈیا میں اس جعلی تاریخ پر مبنی ڈرامے، اور لیکچر اس جعلی تاریخ پر اعتقاد کو اور راسخ کردیتے ہیں جیسے یہ واقعی حقائق ہوں.. جبکہ دوسری طرف ایسی تاریخ پر شکوک وشبہات ظاہر کرنے والوں کے گرد قانونی گھیرے تنگ کردیے جاتے ہیں، ان پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں اور اگر بس چلے تو قتل بھی کردیا جاتا ہے.
جعلی تاریخ کا انحصار تاریخی واقعات کو خرافات میں مدغم کرنے پر ہے تاکہ تاریخی حقیقت کو مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاسکے جو نسلی، مذہبی، سیاسی یا قومی ہوسکتی ہے، ہارون الرشید اور صلاح الدین یا المعتصم سے منسوب خرافاتی روایات کو یاد رکھنا آسان ہوتا ہے اس لیے یہ ذہن میں معلق رہتی ہیں مگر ان کے ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے.. اس عورت کا قصہ کیسے ثابت کیا جائے جس نے چیخ کر ”وامعتصماہ” کی ندا لگائی اور معتصم اپنی فوجوں کو لے کر عموریہ کی طرف چل پڑا؟ یہ کیسے ثابت کیا جائے کہ میری اینٹونیٹ نے واقعی یہ کہا تھا کہ یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے جب اسے بتایا گیا کہ لوگ اس لیے غصے میں ہیں کہ ان کے پاس کھانے کو روٹی نہیں؟ یہ تاریخ نہیں لوک کہانیاں ہیں جو فاتح کے پروپگنڈے کے ساتھ نمودار ہوئیں اور بچوں کو تاریخ کے طور پر پڑھائی گئی، امریکا میں ریڈ انڈین کی تاریخ دیکھ لیجیے کہ کس طرح وہ اس میں وحشی نظر آتے ہیں بجائے ایک ایسی قوم کے جو اپنی جان ومال اور وطن کا دفاع کر رہ تھی… کیا آپ نے ڈیزنی کی اس کہانی پر یقین کر لیا ہے کہ پوکاہونٹس نے جان سمتھ سے شادی کر لی اور اب وہ اس کے ساتھ جیمس ٹاون میں رہ رہی ہے؟
ریت کے ملکوں کی تاریخ اسی قسم کی جعلی تاریخ ہے جسے آپ سائنسی اعجاز کی طرح اسلامی تاریخی اعجاز کہہ سکتے ہیں تاہم یہاں اعجاز کا مطلب وہ جھوٹ ہے جسے حقیقت پر غالب کر دیا گیا ہے چاہے اس کے خلاف کتنے ہی دلائل کیوں نہ دستیاب ہوں.
قومی تاریخ بھی اسی طرح کی تاریخ ہوتی ہے، اس سے مجھے لیبی صحراء کے مرحوم کرنل کی یاد آتی ہے جس نے ایک دن خود کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ ریڈ انڈین دراصل لیبیا سے ہی نکلے تھے اور شیکسپیر در حقیقت ایک ملا یا عرب مولوی تھا جس کا اصل نام ”شیخ الزبیر” تھا.. انگریز اس کا نام صحیح طرح سے بول نہیں سکے اور ”شیک سوبیر” کہنے لگے جو بعد میں مزید بگڑ کر ولیم بن شیکسپیر بن گیا…!!
کبھی کبھی یہ جھوٹ ایک مختلف موڑ لیتا ہے جس میں کسی آرکیالاجیکل اثر کو دریافت کر کے اس کے گرد جھوٹ کے تانے بانے بُنے جاتے ہیں جیسے ریت کی عظیم مملکت میں موجود ”مدائن صالح” جو اصل میں نبطی عبادت گاہیں ہیں لیکن انہیں قومِ عاد کی بقایا جات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے خدا کی اونٹنی اور اس کے نبی صالح کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلی تھی.. یا وہ پتھر کے مینار جنہیں شیطان کی نموداری کا مقام بتایا جاتا ہے اور جن پر حاجی پتھر اور کبھی کبھی جوتے مار کر اپنا غصہ نکالتے ہیں گویا کہ ابلیس بنفسِ نفیس ان کے سامنے تجلی کر گیا ہو.. اسی طرح میلاد کا غار، مسیح کا کفن وغیرہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے.
اسلام سے پہلے کا دور جسے نئے فاتح مذہب نے پروپگنڈے کے طور پر جاہلیت کا نام دیا اس کے بارے میں ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کہ اس تحریف شدہ جعلی تاریخ میں مذکور ہے اور اس پر اب تک کوئی سنجیدہ تحقیق نہیں کرنے دی جاتی، اس کے بعد کا اسلامی خونی دور جسے خلافتِ راشدہ کا نام دیا جاتا ہے ایک مطلق اور مثالی دور کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس پر مساجد کے خطباء چیخ چیخ کر سپیکر پھاڑتے ہیں اور ہمارے نوجوان اس جھوٹ پر خود کے ٹکڑے ٹکڑے کر لیتے ہیں.. اس کے بعد بنو امیہ نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور تاریخ کو ایک بار پھر اس نئے فاتح نے اپنی مصلحت کے لیے دوبارہ لکھا جبکہ دوسری طرف شیعہ اس کے بالکل ہی متضاد تاریخ تحریر فرما رہے تھے.. یہ ساری تاریخ اس زمانے کی مکاریوں، دھوکہ بازیوں، سیاسی چالوں اور پروپگنڈے پر مبنی ہے جو آج بھی ریت کے ملکوں میں رہنے والوں کے ذہن سے نکل کر نہیں دے رہی.
ریتیلے ملکوں کی تاریخ پر سنجیدہ تحقیق ہی ہماری آنکھیں کھول سکتی ہے کہ شاید ہم اس سے وہ سبق سیکھ سکیں جو ہمیں ترقی کی راہ پر گامژن کر سکے بجائے ایک ایسی تاریخ پر رونے کے جس میں ہم نے تحریف کی پھر اس پر یقین کر لیا.
(شروع میں مضمون کا عنوان تاریخ کی تخریف رکھا پھر عین آخری لمحات پر میں نے خ کا نقطہ ہٹا کر اس میں "تحریف” کردی)