کہا جاتا ہے کہ تاریخ فاتح لکھتا ہے، یہ مقولہ اتنا دقیق نہیں ہے، کیونکہ اصل میں ایک تاریخ حقیقی ہوتی ہے اور ایک جعلی تاریخ ہوتی ہے، تاریخ ماضی کے واقعات کی تدوین کا علم ہے، ان واقعات کے واقع ہونے کے اثبات کے لیے کھدائیوں اور آثارِ قدیمہ کا سہارا لیا جاتا ہے اور قدیم تحریروں کی چھان پھٹک کی جاتی ہے تاکہ قدیم زمانے میں ہوئے واقعات کی جڑ اور حقیقت تک پہنچا جاسکے، حقیقی تاریخ میں دیگر معلوم علوم کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے یعنی درست علمی انداز اختیار کرتے ہوئے دلائل اکٹھے کیے جاتے ہیں، جبکہ جعلی تاریخ کا تعلق شروع میں ذکر کیے گئے مقولے سے ہے.
مقنن تاریخ ایک قدیم صنعت ہے جس میں واقعات کو اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے کہ ان کا حتمی نتیجہ پہلے سے طے شدہ قومی ومذہبی خواہشات کے عین مطابق ہو اور قاری کو قائل کیا جاسکے کہ کوئی پیغام ہے جسے تاریخ نے ثابت کیا ہے اور اسے چاہیے کہ وہ اسے سمجھے.
اس کی ایک مثال وہ آمرانہ نظام ہیں جو ایسے جھوٹے اور وہمی تاریخی دعوے قوم کو سناتے ہیں جو کبھی ہوئے ہیں نہیں تھے، مثال کے طور پر ❞سوریا الکبری❝ (عظیم سوریا) کا دعوی، تاریخ میں کبھی بھی ایسے کسی عرب نظام کا وجود نہیں رہا ہے جس میں وہ عناصر شامل تھے جنہیں سوریا کی البعث نگلنا چاہتی ہے.. نازیت اور آری نسل کی برتری جس کے لیے وہمی شہر تخلیق کیے گئے اور ان کی دریافت کے لیے وسطی ایشیا تک مہمیں بھیجی گئیں تاکہ اپنی برتر نسل کی جڑوں تک پہنچا جاسکے مگر یہ ساری مہمیں ناکامی سے دوچار ہوئیں.. عظیم صربیا جو تقریباً آدھے بلقان کو نگل کر غیر سلافی قوموں کو وہاں سے نکالنا چاہتا ہے.
نوے کی دہائی میں فیوم جانے کے لیے میں اور میرا رضاعی سعودی بھائی ریلوے سٹیشن پر ٹکٹوں کی قطار میں کھڑے تھے، ہمارے پیچھے کچھ چلبلی سی مغربی خواتین تھیں جو ارد گرد کے لوگوں سے چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھیں، ان کے پیچھے ایک کویتی لڑکا تھا جس کی عمر تقریباً سترہ سال رہی ہوگی، ان میں سے ایک خاتون نے مجھ سے اور اس کویتی لڑکے سے گفتگو شروع کردی، باتوں باتوں میں اس خاتون نے کویتی لڑکے سے سوال کیا کہ: عراق کے ساتھ اتنا ظلم کیوں ہو رہا ہے جبکہ وہ صرف اپنا وہ صوبہ واپس لینا چاہتا ہے جسے استعمار نے اس سے الگ کردیا؟ وہ بے چارہ لڑکا اس سے کہیں چھوٹا تھا کہ صدام حسین کے جھوٹے دعووں پر مبنی سیاسی بحث کر سکتا، چنانچہ میں نے اس خاتون سے عرض کیا کہ: محترمہ خلیج کا سیاسی ڈھانچہ اپنی اسی شکل میں کئی سو سالوں سے موجود ہے.. یہ ڈھانچہ سوریا، عراق، اردن اور تونس کے وجود سے بھی پہلے کا ہے، کویت نے تین سو سال پہلے سلطنتِ عثمانیہ کے ساتھ کئی سیاسی معاہدے کیے تھے جبکہ عراق اس وقت سلطنتِ عثمانیہ کا ایک صوبہ تھا، عراق کا مستقل سیاسی وجود بیسویں صدی کے آغاز میں ہی تشکیل پا سکا… اس پر اس محترمہ نے عرض کیا کہ: میرا مطلب ہے اس سے پہلے؟ میں نے کہا: اس سے پہلے عراق بالترتیب صفوی، عباسی، اموی اور خلفائے راشدین کے زیرِ تسلط تھا الا یہ کہ آپ کی مراد حمورابی کے دور سے ہو؟ یہ خاتون صدمے اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں میری شکل تکتی رہ گئی..
جعلی یا محرف تاریخ سنجیدہ کالجوں اور جامعات میں – جن کا اسلامی دنیا میں کوئی وجود نہیں – نہیں پڑھائی جاتی کیونکہ اس تاریخ کی تنقیدی جانچ پڑتال نہیں کی گئی ہوتی اور نا ہی اس کے کوئی مادی آرکیالاجیکل ثبوت ہوتے ہیں، ایسی تاریخ کا سارا انحصار مقدس مصادر پر ہوتا ہے جیسے دیومالائی اساطیر، خرافات اور مذاہب.
اس قسم کی تاریخ کی پہچان مصنف کے انداز سے کی جاسکتی ہے جو تاریخ کے سنجیدہ محققین کی بجائے عوام الناس کو مخاطب کرتی ہے، ایسی تاریخ کے تمام مصادر بھی اسی طرح کے دیگر جعلساز ہوتے ہیں اور ہر کوئی دوسرے سے نقل کر رہا ہوتا ہے.
محرف تاریخ کسی منظرنامے کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے کہ اکادیمی سطح پر اس کی تصدیق نہیں ہوسکتی، عام طور پر ایسی تاریخ لکھنے والے کے دلائل کا مصدر خرافات، مقدس کتابیں یا اس کی مشتقات ہوتی ہیں، تاریخی حقائق کو بھی اس طرح موڑ توڑ کر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ جعلی تاریخ سے ہم آہنگ ہوجائے.. یہودیوں کے قصے، ان کا مصر سے نکلنا، سمندر کا شق ہونا اور فرعون کا غرق ہونا تاریخی طور پر ثابت نہیں ہے اور ناہی کوئی تاریخی اثر اس واقعے کی تصدیق کرتا ہے، علمِ مصریات ایک باقاعدہ تصدیق شدہ علم ہے جسے آثارِ قدیمہ سپورٹ کرتی ہے اور یہ دنیا کی بہترین جامعات میں پڑھایا جاتا ہے مگر اس توراتی قرآنی قصے کا اس میں ایک یتیم تذکرہ تک نہیں ہے اور نا ہی عبرانیوں کا کوئی اتا پتہ ہے، یہ تاریخ ایک جعلی تاریخ ہے اور سوائے بنی اسرائیل کی خواہشات اور خرافات کے کچھ نہیں ہے، دنیا کی کوئی بھی جامعہ جسے اپنی اکادیمی حیثیت کی فکر ہے ایسی خرافات کبھی نہیں پڑھاتی، آج بھی یہودی ❞ارض المیعاد❝ میں اس سلیمانی ہیکل کی تلاش میں سرگرداں ہیں جس کا ذکر ان کے مؤرخین نے توریت کے خرافاتی مصدر کو بنیاد بنا کر کیا، آپ کا کیا خیال ہے کہ انہیں یہ سلیمانی ہیکل مل جائے گا؟ شاید کھڈے میں… جب تھک جائیں گے تو کہیں گے کہ شاید سلیمان کے کسی جن نے یہ آثار ان سے چھپا دیے.. آخر خرافات ہی تو خرافات کو جنم دیتی ہیں.. مصادر میں تضاد کی صورت میں بھی تاریخ کا جعلساز صرف اس چیز کا انتخاب کرتا ہے جو اس نتیجے تک لے جائے جس تک وہ پہنچنا چاہتا ہے.
زیادہ تر جعلی تاریخ ایسے ایجنڈوں پر مشتمل ہوتی ہے جو اس وقت موجود تھے، یہ ایجنڈا بر سر اقتدار کسی آئیڈیالوجی، گروہ یا بادشاہ کی تعظیم کے لیے ہوسکتا ہے، یا نسلی ایجنڈا بھی ہوسکتا ہے تاکہ کسی قوم کو کسی دوسری قوم پر برتری دلائی جاسکے یا پھر مذہبی ایجنڈا تاکہ کسی مخصوص مذہب کو دیگر مذاہب سے زیادہ عظیم بنا کر پیش کیا جاسکے.
جعلی تاریخ کو اس کے بیانی اسلوب سے بڑی آسانی سے پکڑا جاسکتا ہے، اس کی زبان تاویلی ہوتی ہے، مثال کے طور پر عباس محمود العقاد کا ❞العبقریات❝ نامی سلسلہ کتب جس میں اسلامی شخصیات کو بڑے مثالی انداز میں پیش کیا گیا ہے اور ان کی غلطیوں کو ❞مصلحت❝ اور ❞خرد مندی❝ میں بدلنے کی کوشش کی گئی ہے.
ایک تاریخی جعلسازی مقامات سے متعلق ہے تاکہ انہیں حقیقت کا روپ دیا جاسکے جیسے غرق شدہ اٹلانٹس، یاجوج اور ماجوج کا ملک، سلیمان کی بادشاہت، نوح کی کشتی اور اس کی جودی اور عرارات پہاڑ پر موجودگی، فرعون کی غرق شدہ لاش جو رمسیس دوم کی ممی سے چپکا دی گئی ہے، یہ وہ تخیلاتی فرعون ہے جس کی کہانی بنی اسرائیل نے گھڑی ہے، یا غیر حقیقی شخصیات جیسے عبد اللہ بن سبا، خضر، شاہ آرتھر ودیگر.. اپنے بچوں کو ایسی تاریخ کیسے پڑھائیں جو کہتی ہو کہ زندگی آسمان پر ایک شخص سے شروع ہوئی جس کا نام آدم تھا اور جب وہ سو رہا تھا تو خدا نے اس کی پسلی سے اس کے لیے ایک عورت نکال کھینچی پھر ان دونوں کو جنت سے دھکے مار کر نکال دیا کیونکہ انہوں نے ابو کی بات نہیں مانی اور فریج میں رکھے پھل کھا لیے؟.. اس سے بڑھ کر بچگانہ کہانی بھلا اور کیا ہوسکتی ہے..؟! اسی طرح ابراہیم، اسماعیل اور ہاجر کا خرافاتی قصہ اور چھ سو پروں والا جبریل اور عبد المطلب جو ہاتھی کے کان میں کچھ بڑبڑاتا ہے اور وہ کعبے کو گرانے کا اپنا فیصلہ بدل لیتے ہیں پھر ان پر ففٹی ٹو ماڈل کے ابابیل بمباری کر کے انہیں تہس نہس کردیتے ہیں.. کیا یہ سب خرافات روم کی افسانوی تاریخ اور ان دو بچوں کی کہانی سے مختلف ہے جنہیں ایک بھیڑیے نے دودھ پلایا؟
ریت کے ملکوں میں بچوں کو یہ ڈوز بچپن سے ہی دینا شروع کردیے جاتے ہیں، جس دوران بچوں کو سائنس کی کلاس میں یہ بتایا جا رہا ہوتا ہے کہ مادہ ایٹموں پر مشتمل ہوتا ہے، تاریخ کی کلاس میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ فرشتے نامی نظر نہ آنے والی مخلوق نے غزوہ بدر میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ جنگ لڑی..؟! پھر بھلے مادہ اور اس کے ایٹم جائیں تیل لینے..!
اسلامی تاریخ کے مصادر تدوینی کے بجائے لفظی ہیں جیسے حدیث میں علم الاسناد جو سوائے سالوں سے چلتی زبانی قصے کہانیوں کے اور کچھ نہیں اور جسے انتہائی ابتدائی اور فرسودہ طریقے سے صدیوں بعد احاطہ تحریر میں لایا گیا.. اسی زمرے میں سیرت کی کتابیں بھی آتی ہیں جنہیں اسلام کی تاریخ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے.. اوپر سے یہ متون مقدس بھی ہیں جن پر طعن نہیں کیا جاسکتا اور نا ہی کسی دلیل یا اثر کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے جس سے جعلسازی کی بو آتی ہے حالانکہ مسلمان خود کہتے ہیں کہ بعرہ بعیر کی موجودگی کی دلیل ہے.
میڈیا میں اس جعلی تاریخ پر مبنی ڈرامے، اور لیکچر اس جعلی تاریخ پر اعتقاد کو اور راسخ کردیتے ہیں جیسے یہ واقعی حقائق ہوں.. جبکہ دوسری طرف ایسی تاریخ پر شکوک وشبہات ظاہر کرنے والوں کے گرد قانونی گھیرے تنگ کردیے جاتے ہیں، ان پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں اور اگر بس چلے تو قتل بھی کردیا جاتا ہے.
جعلی تاریخ کا انحصار تاریخی واقعات کو خرافات میں مدغم کرنے پر ہے تاکہ تاریخی حقیقت کو مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاسکے جو نسلی، مذہبی، سیاسی یا قومی ہوسکتی ہے، ہارون الرشید اور صلاح الدین یا المعتصم سے منسوب خرافاتی روایات کو یاد رکھنا آسان ہوتا ہے اس لیے یہ ذہن میں معلق رہتی ہیں مگر ان کے ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے.. اس عورت کا قصہ کیسے ثابت کیا جائے جس نے چیخ کر ”وامعتصماہ” کی ندا لگائی اور معتصم اپنی فوجوں کو لے کر عموریہ کی طرف چل پڑا؟ یہ کیسے ثابت کیا جائے کہ میری اینٹونیٹ نے واقعی یہ کہا تھا کہ یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے جب اسے بتایا گیا کہ لوگ اس لیے غصے میں ہیں کہ ان کے پاس کھانے کو روٹی نہیں؟ یہ تاریخ نہیں لوک کہانیاں ہیں جو فاتح کے پروپگنڈے کے ساتھ نمودار ہوئیں اور بچوں کو تاریخ کے طور پر پڑھائی گئی، امریکا میں ریڈ انڈین کی تاریخ دیکھ لیجیے کہ کس طرح وہ اس میں وحشی نظر آتے ہیں بجائے ایک ایسی قوم کے جو اپنی جان ومال اور وطن کا دفاع کر رہ تھی… کیا آپ نے ڈیزنی کی اس کہانی پر یقین کر لیا ہے کہ پوکاہونٹس نے جان سمتھ سے شادی کر لی اور اب وہ اس کے ساتھ جیمس ٹاون میں رہ رہی ہے؟
ریت کے ملکوں کی تاریخ اسی قسم کی جعلی تاریخ ہے جسے آپ سائنسی اعجاز کی طرح اسلامی تاریخی اعجاز کہہ سکتے ہیں تاہم یہاں اعجاز کا مطلب وہ جھوٹ ہے جسے حقیقت پر غالب کر دیا گیا ہے چاہے اس کے خلاف کتنے ہی دلائل کیوں نہ دستیاب ہوں.
قومی تاریخ بھی اسی طرح کی تاریخ ہوتی ہے، اس سے مجھے لیبی صحراء کے مرحوم کرنل کی یاد آتی ہے جس نے ایک دن خود کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ ریڈ انڈین دراصل لیبیا سے ہی نکلے تھے اور شیکسپیر در حقیقت ایک ملا یا عرب مولوی تھا جس کا اصل نام ”شیخ الزبیر” تھا.. انگریز اس کا نام صحیح طرح سے بول نہیں سکے اور ”شیک سوبیر” کہنے لگے جو بعد میں مزید بگڑ کر ولیم بن شیکسپیر بن گیا…!!
کبھی کبھی یہ جھوٹ ایک مختلف موڑ لیتا ہے جس میں کسی آرکیالاجیکل اثر کو دریافت کر کے اس کے گرد جھوٹ کے تانے بانے بُنے جاتے ہیں جیسے ریت کی عظیم مملکت میں موجود ”مدائن صالح” جو اصل میں نبطی عبادت گاہیں ہیں لیکن انہیں قومِ عاد کی بقایا جات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے خدا کی اونٹنی اور اس کے نبی صالح کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلی تھی.. یا وہ پتھر کے مینار جنہیں شیطان کی نموداری کا مقام بتایا جاتا ہے اور جن پر حاجی پتھر اور کبھی کبھی جوتے مار کر اپنا غصہ نکالتے ہیں گویا کہ ابلیس بنفسِ نفیس ان کے سامنے تجلی کر گیا ہو.. اسی طرح میلاد کا غار، مسیح کا کفن وغیرہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے.
اسلام سے پہلے کا دور جسے نئے فاتح مذہب نے پروپگنڈے کے طور پر جاہلیت کا نام دیا اس کے بارے میں ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کہ اس تحریف شدہ جعلی تاریخ میں مذکور ہے اور اس پر اب تک کوئی سنجیدہ تحقیق نہیں کرنے دی جاتی، اس کے بعد کا اسلامی خونی دور جسے خلافتِ راشدہ کا نام دیا جاتا ہے ایک مطلق اور مثالی دور کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس پر مساجد کے خطباء چیخ چیخ کر سپیکر پھاڑتے ہیں اور ہمارے نوجوان اس جھوٹ پر خود کے ٹکڑے ٹکڑے کر لیتے ہیں.. اس کے بعد بنو امیہ نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور تاریخ کو ایک بار پھر اس نئے فاتح نے اپنی مصلحت کے لیے دوبارہ لکھا جبکہ دوسری طرف شیعہ اس کے بالکل ہی متضاد تاریخ تحریر فرما رہے تھے.. یہ ساری تاریخ اس زمانے کی مکاریوں، دھوکہ بازیوں، سیاسی چالوں اور پروپگنڈے پر مبنی ہے جو آج بھی ریت کے ملکوں میں رہنے والوں کے ذہن سے نکل کر نہیں دے رہی.
ریتیلے ملکوں کی تاریخ پر سنجیدہ تحقیق ہی ہماری آنکھیں کھول سکتی ہے کہ شاید ہم اس سے وہ سبق سیکھ سکیں جو ہمیں ترقی کی راہ پر گامژن کر سکے بجائے ایک ایسی تاریخ پر رونے کے جس میں ہم نے تحریف کی پھر اس پر یقین کر لیا.
(شروع میں مضمون کا عنوان تاریخ کی تخریف رکھا پھر عین آخری لمحات پر میں نے خ کا نقطہ ہٹا کر اس میں "تحریف” کردی)
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ۔ ۔
مسئلہ یہ ہے کہ جعلی تاریخ کو رد تو کر دیں، لیکن اصل یا حقیقی تاریخ کیسے ملے۔ مثال کے طور پر اسلامی تاریخ ہی لے لیں، شروع کی لکھی تواریخ یا تو مکمل طور پر گم ہو گئیں یا پھر تحریف شدہ ہیں۔ اور لکھی ہوئی بھی خود مسلمانوں کی ہیں۔
يه أب بھی ممكن ہے , اٹکیلیاں کرتی سمندرکی لہریں بپھرکر بستیوں کی بستیاں تہس نہس کردیتی ہیں ۔ مدھر مدھر گیت گاتی ہوائیں طوفان بن کر درختوں، کھمبوں، عمارتوں، جزیروں اور سمندرکا سینہ چیرتے ہوئے جہازوں کوغرق کردیتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مچھر جو ایک چٹکی سے بھی کم طاقت سے مسل کے رکھے جاسکتے ہیں وہ درجنوں، سیکڑوں اور ہزاروں چھ چھ فٹ کے انسانوں کو زمین کے اندر دفن کرا دیتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی سنڈیاں اورکیڑے لہلہاتی فصلوں کے تاحد نظر پھیلے کھیتوں کو چٹ کرجاتے ہیں
یہاں آ کے تاریخ پر اعتراض کیوں ،
چھوٹی چھوٹی ابابیلیں ہاتھیوں کے لشکرکو نیست و نابودکرکے بھوسہ بنا دیں – یہاں تاریخ میں تحریف ہو گئی …………… بہت اعلا ، اسلام کو تعصّب کی آنکھ سے ہے دیکھتے ہو
اس کائنات کی سپر پاور ایک ہی ہے جو جب چاہتا ہے پوری زمین کو کسی انسانی ہاتھ کے بنائے ہوئے کھلونے کی طرح ہلا کر بڑی بڑی عمارتوں کو زمین بوس کردیتا ہے۔پرسکون اور خاموش چٹانوں اور پہاڑوں کو ایسے پھاڑ دیتا ہے کہ اس سے نکلنے والے شعلے اور لاوہ بلندیوں پر اڑنے والے جہازوں کو رخ موڑ دینے پر مجبورکردیتا ہے۔
اور وہ سپر پاور جب اپنے ماننے والے اسے بلاتے ہیں تو وہ اپنے بل میں گھس جاتا ہے کیا؟
اس کے پاس جانے کا ایک وقت مقرر ہے
اپ کو بہت جلدی ہے کیا ؟؟ 🙂
اپنے خدمت گزار کے تکالیف دور کرنے وہ سپر پاور ہستی کبھی نہیں پہنچتی، ابابیل بھی جادوئی کہانیوں کا ایک قصہ ہے، اگر وہ ہستی اپنے خدمت گذاروں کی مدد کرتی تو ضرور دکھائی دیتی، ابابیلوں سے وہ خدا آج بھی مدد لے سکتا تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ سپر پاور بنکر وہ کام کررہا ہے جو آپ کسی ماؤرائی ہستی سے منسلک کرتے ہیں ۔ اگر اسکا کوئی خدمت گزار اسکی عبادت کرتے ہوئے کسی مصیبت میں پھنس جائے تو وہ اسکی مدد کو فورا پہنچ جاتا ہے جیسے ریمنڈ ڈیوس۔ لیکن خدا اپنے عبادت گزار کی مدد کبھی نہیں کرتا کیوں کہ وہ بگ بینگ کا شکار ہوچکا ہے ۔
کہاں گے وہ سارے معجزے اور غیبی امداد یں آج؟ سب بکواس اور لغو باتیں ہیں۔ اس دور میں بھی اگر کوئ ان باتوں پر شک نہ کرے تو وہ عقل کا اندھا ہے۔
خدا تو اپنے ماننے والوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے پر بھروسہ رکھنے والوں کو مایوس نہیں کرتا وگرنہ "قیصر و کسرٰی” کی حکومتیں گرا کر عرب کے بدو ایک اورسپر پاور کی بنیاد نہ رکھتے۔ ہاں سکندر اعظم نے بھی ایسا ہی کچھ کیا تھا لیکن اس کی مملکت کی بنیاد اس کے جاتے ہی گر گئی جب کہ مسلمان خالد بن ولید کے بعد بھی سرخرو رہے۔ خدا اپنے وجود کا یقین ہر ذی روح کو کرواتا ہے لیکن جب وہ وقت آتا ہے تب اعتراف کرنے کا فائدہ نہیں رہتا۔ چلیں آپ ابابیلوں کو مسٹینگ کہہ کر ان کی ہنسی اُڑائیں ادھر امریکہ دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی تک رسائی کے باوجود اپنے سب سے بڑے شہر کو معمولی سے سمندری طوفان سے نہ بچا سکا۔ آپ کو خدا پر یقین نہیں نہ سہی، لیکن اسے چھوڑ کر جس پر بھی یقین کیجئے گا اسے جلد یا بدی خاک میں لوٹتا پوٹتا دیکھئے گا۔ اپنی ذات پر غرور کرنے والے ابن آدم پیدا ہوتے ہی رہیں گے لیکن جسے بھی اپنی حقیقت پر غور کرنے کی توفیق ہوگی اس کے پاس سوائے سجدہ کے چارہ نہیں۔ ایک بوند پانی کی اپنی حقیقت بھول بھی جائے لیکن انجام تو مٹی ہے۔ اگر انسان اس قدر مکمل اور خدا اس قدر لاچار ہےتو چلئے کوئی تو ایسا ٹوٹکا ایجاد کیجئے جو خدا کے تخلیق کردہ زندگی اور موت کے نظام کو ہی بدل دے؟ آپ جراثیموں کے توڑ ڈھونڈنے کے دعوے کرتے ہیں، انہیں چھوڑئیے جو اصل مسئلہ ہے "موت” اس کا کوئی حل نکالئے۔ تخلیق اگر صرف سائنس ہے تو چلئے ایسا کیجئے ایک مکھی کا پر ہی بنا ڈالئے اس سائنس کو استعمال کرکے۔ اور اگر یہ سب کچھ مشکل ہے تو ایسا کیجئے اپنے علم و فضل کا ہی جھنڈا گاڑ لیجئے اور "فاتو بسورۃ من مثلہ” کا ہی جواب دے ڈالئے لیکن آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے ۔
خرم بھیا،
دنیا میں حکومتیں بنتی ہیں اور گرتی رہتی ہیں، عروج کو زوال ہے۔ قیصر و کسریٰ، سکندراعظم، عرب، ترک، انگریز یہ سب اسکی مثالیں ہیں اور اسلام کو کسی طور بقیہ سے ممتاز نہیں کرتیں۔
اگر خدا اپنے ماننے والوں کی مدد کرتا ہے، تو پھر یا تو کشمیری، فلسطینی، افغانی اور دیگر اسکے ماننے والے نہیں ہیں اسلیئے ان سے سوتیلوں والا سلوک ہےیا پھر یہ دعویٰ ہی غلط ہے۔ آج بھی ڈرون آتے ہیں اور برے کے ساتھ اچھے کو بھی روند کے چلے جاتے ہیں، بھروسہ رکھنے والے بھروسہ دیوار پہ ٹانک کہ آنکھیں آسمان پہ لگائے بیٹھے ہیں۔
امریکہ اپنی ٹیکنالوجی سے اپنے ایک شہر کو "معمولی” سمندری طوفان سے نہ بچا سکا (کہ جسمیں بیشمار بے گناہ لوگ اور بچے بھی شامل ہوں گے)، تو خدا کونسا نوشہرہ میں آنے والے سیلاب سے اپنے پنج وقتہ نمازیوں اور بچوں کو بچا پایا؟ اگر یہ سمندری طوفان "معمولی” تھا تو وہ سیلاب تو اسکے مقابلے میں کچھ بھی نہ ہوگا۔
ہمارے محلے کی مسجدمیں ایک بچہ دینی تعلیم کے سلسلے میں مقیم ہے، جب سیلاب کی خبر سنی تو گھر کی خبر لینے گیا، لوٹا تو آنسوؤں میں ڈوبا ہوا تھا، پوچھنے پر بتایا کہ جہاں گھر اور والدین چھوڑ کر آیا تھا وہاں اب کچھ نہیں رہا۔ کیا اسکے والدین کو اللہ پر تھوڑا بھروسا ہوگا کہ انہوں نے اپنے معصوم لختِ جگر کو اللہ کے دین کی تعلیم کے لئے خود سے جدا کر کے وہاں مسجد بھیجا ہوا تھا؟ انکے بھروسے کی کیوں واٹ لگائی گئی؟ اور یہ تو صرف ایک مثال ہے، جانے کتنے ایسے بچے اور ماں باپ ہوں گے جو اسمیں بہے، بے گھر ہوئے، لاپتہ ہوئے۔
❞خدا اپنے وجود کا یقین ہر ذی روح کو کرواتا ہے لیکن جب وہ وقت آتا ہے تب اعتراف کرنے کا فائدہ نہیں رہتا❝
جی، یعنی اللہ اسوقت معرفت دیتا ہے جب وہ معرفت بندے کےکسی کام کی نہیں رہتی۔ساری زندی بندہ جستجو کرے اور وہ اپنے بارے میں کچھ "کھول” کر بیان نہیں کرتا، اور جب فائدہ نہ ہو جانکاری کا تب جانکاری دے دی۔ خوب، قائل کر لیا آپ کے خدا نے ہمیں۔
ویسے یہ بات صرف دعویٰ ہی ہے (جو کہ مذہب کا خاصہ ہے) کہ وہ اپنے وجود کا یقین کرواتا ہے، اسکا کوئی ثبوت نہیں۔ جبکہ اسکے بے شمارثبوت ہیں کہ وہ ایسا نہیں کرتا۔
❞آپ جراثیموں کے توڑ ڈھونڈنے کے دعوے کرتے ہیں، انہیں چھوڑئیے جو اصل مسئلہ ہے “موت” اس کا کوئی حل نکالئے❝
مذہب کیا حل دیتا ہے اسکا؟ کہ خود اپنی اور دوسروں کی زندگی کو جہنم بنا لو تاکہ دوسری "ان دیکھی” دنیا میں اسکا بدلہ ملے۔ اور موت کا حل ہی کیوں چاہئے کسی کو؟ چالیس پچاس سال ڈھنگ سے جی لے پھر مر جائے بھئی۔ دوسروں کے لئے جگہ بنائے، اپنے بچوں کے لئے راستہ چھوڑے۔ اپنی زندگی کو اچھے طریقے سے جئیے، انجوائے کرے، اپنے جیسوں اور اپنے آنے والوں کے لئے اس دنیا کو آرام دہ بنائے۔ علم حاصل کرے اور اسے آگے بانٹے۔ حقیقی مساوات والے انسانی معاشرے کے حصول کی کوشش کرے اور اس کوشش میں یا کامیابی اورعلم کے نشے میں ابدی نیند سو جائے۔
مسلمان معاشریات دان ابن خلدون اپنی کتاب ” مقدمہ ابن خلدون ” میں عربوں کو یوں بیان کرتے ہیں: “اذا کانت الامۃ وحشیۃ کان ملکہا واسع وذلک لانہم اقدر علی التغلب والاستبداد واستعباد الطوائف ولقدرتہم علی محاربۃ الامم وسواہم لانہم ینزلون من الآہلین منزلۃ المفترسین من الحیوانات العجم وھؤلاء مثل العرب – اگر امت وحشی ہو تو ان کا ملک وسیع ہوتا ہے کیونکہ وہ غلبہ پانے، ظلم کرنے اور گروہوں کو غلام بنانے پر زیادہ قدرت رکھتے ہیں، ان میں قوموں سے جنگ کرنے کی مقدرت ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں پر درندہ جانوروں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں اور ایسے لوگ عربوں کے جیسے ہیں” اپنی اسی کتاب کے دوسرے حصے کے چھبیسویں باب میں جس کا عنوان ہے کہ جب عرب کسی وطن پر غالب آجائیں تو اس پر بربادی جلد آجاتی ہے کہتے ہیں: “والسبب فی ذلک انہم امۃ وحشیۃ باستحکام عوائد التوحش واسبابہ فیہم فصار لہم خلقا وجبلۃ وکان عندہم مستحباً – اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک وحشی امت ہے، ان میں وحشی پن کے تمام اسباب مستحکم ہوگئے ہیں اور ان کی خلقت وجبلت بن گئے ہیں اور یہ ان کے ہاں مستحب ہے” اس سے پتہ چلتا ہے کہ عرب کے بدؤوں نے جو سپر پاور بنائی تھی وہ خدا کی مدد سے نہیں بلکہ اپنے وحشی پن اور قتل وغارت گری کے ذریعے بنائی تھی.. ایک طرف آپ مان رہے ہیں کہ ایسا سکندر اعظم نے بھی کر دکھایا تھا مگر پھر خالد بن ولید کے بعد سرخرو ہونے کے مغالطے میں پتہ نہیں کیسے پڑ گئے لگتا ہے آپ کو انگریزوں کی غلامی بھول گئی ہے.
یہ بات ایک بے بنیاد دعوے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ساری دنیا مسلمان ہوجاتی.
طبعی آفات کی کسی کے ساتھ یاری نہیں، کیا انڈونیشیا جو مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے اپنے آپ کو خدا پر توکل کر کے سونامی سے بچا سکا؟ اگر ٹیکنالوجی طبعی آفات سے نہیں بچا سکتی تو بچا تو خدا بھی نہ سکا.. آپ کس بنیاد پر فضیلت کے دعوے دار ہیں؟
اس پر میں کہوں گا کہ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ.. زمینی حقیقت یہی ہے کہ کافر ممالک مسلم ممالک سے زیادہ طاقتور اور ترقی یافتہ ہیں بلکہ الٹا مسلمانوں کو ان سے قرض اور بھیک لے کر گزارہ کرنا پڑتا ہے.
اگر آپ کی بات مان لوں تو گویا سات ارب میں سے صرف ڈیڑھ ارب لوگوں کو (جو کہ زیادہ تر وراثتی مسلمان ہیں) اپنی حقیقت پر غور کرنے کی توفیق ہوئی؟ ویسے توفیق تو خدا دیتا ہے نا.. اب تک زمین کی باقی اکثریتی آبادی کو کیوں نہیں دی؟ کیا اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ توفیق نہ دے کر وہ صرف اپنی چہیتی مسلمان قوم کو جنت اور باقی اکثریت کو جہنم رسید کرنے کا پلان بنائے بیٹھا ہے؟ مسلمان اور یہودی فکر میں کیا فرق ہے؟
اس سے اتفاق ہے 🙂
اس سے پہلے آپ کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ زندگی اور موت خدا کی تخلیق ہے خالی خولی دعوؤں سے کام نہیں چلے گا 🙂
چلیں جی میں ہار مانتا ہوں آپ حل نکال دیجیے میں آپ کو مان لیتا ہوں! منظور ہے؟!
آپ ابھی تک مکھی کے پر پر اٹکے ہوئے ہیں؟ لیبارٹریوں میں پوری ایک مصنوعی اور ❞زندہ❝ جیلی فش بنائی جاچکی ہے 😀
نہیں جناب میں بالکل جواب دوں گا یہ لیجیے:
صق (1) ام یحسبون ان الہتہم التی افتروا من دون اللہ تنفعہم او تدفع عنہم الضر مثلہم کمثل الذلیل یستجیر بالقرمل لعنہم اللہ واذلہم فلیس لہم الیوم من مجیر (2) قل ہل انباکم بنبا رہط من الروم ان کنتم لآیاتنا مصدقین (3) ان اللہ یقص علیکم احسن القصص فکیف یقول الذی فی قلبہ مرض ان ما توسوس لہ شیاطینہ احسن قصصا مما اوحینا الیک بل ہو فی ضلال مبین (4) فالویل والثبور لکل من طغی وکفر بدین الحق فما عاقبتہم الا عذاب السعیر (5) یصلون فیہا ابد الدہر فیومئذ لا مجیر لہم من عذاب الرحمن ولا تنفعہم آلہتہم ویغلظ اللہ علیہم العذاب ان عذابہ لشدید (6) ویوم ینادی زبانیہ النار ان ہینا لکم بما کذبتم برسلنا وکفرتم باللہ العزیز الجبار (7) قل الملک یومئذ للہ الواحد القہار (8) واعددنا للکافرین نارا تشوی الوجوہ فلا مجیر لعذاب ربک یومئذ ہو العزیز الجبار (9) واذکر لہم نبا دراکولا ینہش فی رقاب الکافرین فما لہم من قرار () ان الساعۃ قائمۃ وان عذاب اللہ حق فمن آمن فلنفسہ ومن کفر فعلیہا لیزیدہم اللہ ضلالا علی ضلالہم ان اللہ لا یحب کل جاحد کفار (10)
پسند نہ آئے تو پیسے واپس.. اور ہاں.. زیر زبر خود ہی لگا لیجیے گا 😀
جیلی فش والی وال سٹریٹ جرنل کی خبر کا لنک یہ ہے
Lab-Made Jellyfish Hints at Heart Fix
بالکل درست ربط لائے ہیں.. ہوسکتا ہے کہ ❞زندہ❝ کہہ کر کچھ مبالغہ آرائی کر گیا ہوں تاہم مقصد یہ تصور توڑنا تھا کہ پر کیا پوری جیلی فش بنائی جاسکتی ہے.. ویسے ❞زندہ❝ پر آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے.. اگلی پوسٹ کا انتظار کیجیے گا 🙂
3۔ پہلے یہ وضاحت کہ جو بات کی تھی وہ اس لئے کی تھی کہ صرف ٹیکنالوجی کچھ چیز نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ کی طرف سے مدد نہ ہو۔۔۔
تو آپ نے مانتے ہیں کہ مسلمانوں کے مقابلے میں اللہ نے ہمیشہ کفار کی ہی مدد کی ہے۔
اینڈرسن شا صاحب اور ملا صاحب بہت شکریہ آپ کے جوابات کا۔ کوشش کرتا ہوں کہ آپ کے سوالات کا جواب دے سکوں
1۔ ابن خلدون نے عربوں کی معاشرتی ہئیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن عرب تو وحشی تھے اسلام کے آنے سے بھی قبل پھر اس وقت وہ کیوں نہ فاتح ہوسکے؟ یہ سب اسلام کے آنے کے بعد ہی کیونکر ہوا؟ سائنس تو کہتی ہے نا کہ ہر عمل کا کوئی محرک ہوتا ہے تو پھر عربوں میں اس تبدیلی کا کہ وہ قوم جس پر کوئی حکومت کرنے تک کو تیار نہ تھا کیسے ایک دو دہائی میں زمین کی سب سے طاقتور سلطنت بن گئی کیا محرک تھا؟ وحشت اور دوسرے تمام اجزاء تو ان میں پہلے زیادہ موجود تھے تو پھر "کیٹیلسٹ” کیا تھا؟ اور انگریز تو خالد بن ولید کے ہزاروں برس بعد آئے ہیں۔ سکندر اعظم کے مرنے کے مہینوں بعد اس کی سلطنت اور فتوحات کا تسلسل ختم ہو گیا تھا۔ خالد بن ولید کے جانے کے دہائیوں بعد بھی مسلمان فاتح رہے اور ان کی سلطنت کی شان و شوکت بڑھتی رہی۔ آخر اس کی کیا وجہ تھی؟
2۔ آپ شاید بات سمجھ نہیں پائے یا سمجھنا چاہ نہیں رہے۔ کہنا یہ چاہتا تھا کہ خدا اپنے وجود کی حجت تمام ہر ذی روح پر کر دیتا ہے لیکن جب پردہ اٹھ جاتا ہے تو نہ توبہ کا وقت دیا جاتا ہے اور نہ عمل کا۔ اس سے پہلے ہر ذی شعور کو اچھے اور برے کی بابت بتا دیا جاتا ہے اور وہ تمام نشانیاں دے دی جاتی ہیں جن سے کوئی بھی ذی شعور خلوص نیت کے ساتھ خدا کے وجود کو مان لے۔ ہاں اگر کوئی بدنیتی کے ساتھ ساتھ خود فریبی میں بھی مبتلا رہے تو پھر یہ ان کا اپنا انتخاب ہے اور اس کا انجام اٹل ہے۔
3۔ پہلے یہ وضاحت کہ جو بات کی تھی وہ اس لئے کی تھی کہ صرف ٹیکنالوجی کچھ چیز نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ کی طرف سے مدد نہ ہو۔ ابابیلوں نے فوج تباہ کر دی کیونکہ اللہ کا حکم تھا وگرنہ اگر صرف ٹیکنالوجی کافی ہوتی تو پھر سینڈی کا تو کوئی مسئلہ ہی نہ ہوتا۔ یہاں یہ بھی کہتا چلوں کہ طبعی آفات کوئی چیز نہیں ہوتیں۔ یہ یا تو اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں اور یا عذاب۔ خدا نہ یہ کہیں نہیں کہا کہ اس پر یقین رکھنے والوں کے لئے یہ دنیا ایک جنت ہوگی بلکہ خدا نے کہہ دیا ہے مؤمنین سے کہ "اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے” اور اس آزمائش میں سرخروئی پر کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہوگا۔ سو مؤمن تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہی نہیں کہ اس دنیا میں اس پر کوئی آزمائش نہیں آئے گی۔ لیکن یہ بھی اٹل ہے کہ مؤمن پر اگر آزمائش آتی ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اللہ اسے اس سے بڑھ کر نوازتا ہے جو اس کے پاس آزمائش سے قبل ہوتا ہے۔ جن پر عذاب آتا ہے وہ اگر اپنی روش پر قائم رہیں تو ان کے تمام حیلوں کے باوجود ہر نیا عذاب پہلے والے سے بڑا ہوتا ہے اور انجام کار ان کی جڑ مار دی جاتی ہے۔ سو بظاہر اگرچہ دونوں ایک سے لگیں لیکن اہل ایمان پر جب آزمائش آتی ہے تو وہ اللہ کو پکارتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں اور نتیجتاً اس میں سرخرو ہونے پر انہیں نوازا جاتا ہے جبکہ عذاب سے دوچار ہونے والے اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں اور بالآخر انہیں کلیتاً برباد کر دیا جاتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کے سیلاب کی بات ہے تو اس میں قدرتی آفت کم اور انسانی نااہلی کا زیادہ ہاتھ ہے اور ” ما یغیر بقوم احد” کا قانون بہرحال اٹل ہے۔
4۔ کافر ممالک کو مسلم ممالک سے زیادہ طاقتور ہوئے ابھی تو ایک صدی بھی کامل نہیں ہوئی کہ سلطنت عثمانیہ اپنے ضعف کے دنوں میں بھی بہرحال ایک بڑی طاقت تھی اور غیر مسلموں کی یہ ترقی بھی ان "مسلمان ممالک” میں پیدا ہونے والے تیل کی مرہون منت ہے۔ مسلمان کہلانا آسان اور بننا مشکل ہے۔ اگر یہ مسلمان واقعی مسلمان ہوتے تو ان کے تیل سے امریکہ و برطانیہ فائدہ نہ اٹھا رہے ہوتے بلکہ یہ خود ترقی کر رہے ہوتے۔ اور جو مسلم ممالک غریب اور بے غیرت ہیں وہ اس حالت میں اس لئے نہیں ہیں کہ وہ اللہ کے احکام پر عمل کرتے ہیں اور اس کے باوجود لاچار ہیں بلکہ اس کی وجہ ی ہے کہ وہ اللہ کے احکامات کی مخالفت کرتے ہیں اور نتیجتاً رسوا ہیں۔
5۔ توفیق یقیناً اللہ دیتا ہے اور ہر ذی شعور کو اس نے بات سمجھنے کی اور تحقیق کرنے کی توفیق دی ہے ہاں اگر کوئی مانند عزازیل ہٹ دھرمی سے بات کو جان کر بھی نہ ماننے پر بضد ہو تو پھر یہ اس کا اپنا چناؤ ہے۔ اکثر لوگ خدا کے سرکش اس لئے نہیں ہوتے کہ انہیں سچ بات معلوم نہیں ہوتی۔ اکثر لوگ اس لئے خدا کے سرکش ہوتے ہیں کہ سچ بات کو ماننا ان کے لئے ناگوار ہوتا ہے۔ سو جب آپ جان بوجھ کر سرکشی کریں تو اس کے انجام پر خدا کو اس پر مطعون کرنا درست نہیں کہ ایک طرف تو آپ اختیار مانگتے ہیں راستہ چُننے کا لیکن اس کی ذمہ داری لینے سے انکار بھی کرتے ہیں۔
6۔ خدا نے خود کہہ دیا کہ زندگی اور موت اس کا نظام ہے اور اس کی تخلیق کردہ ہر چیز کو فنا ہے۔ سو اگر آپ کو اس پر اعتراض ہے تو کوئی ایسی چیز بتائیے جو اس اصول کی مخالفت کرتی ہو وگرنہ ہر موجود چیز اس دعوے کو ثابت کرتی ہے۔
7۔ لیبارٹری میں "بننے” والی جیلی فش کی حقیقت کے لئے آپ وال سٹریٹ جرنل کی ہی خبر پڑھ لیجئے اور اس کے دوسرے پیرے کے دوسرے جملہ پر غور کیجئے گا۔ سائنسدان تو اسے "روبوٹ” کہہ رہے ہیں اور آپ نے اسے "زندہ” قرار دے دیا۔
8۔ اپنی اس "سورت” کو لکھتے ہوئے آپ کو کے بار ہنسی آئی؟ مجھے تو پہلی تین آیات کو پڑھتے ہی (پہلی آیت کا تو آپ کو خود بھی مطلب نہیں معلوم سو اسے شمار نہیں کیا) ہنسی آرہی ہے۔
9۔ ملا بھائی – مذہب آپ کو اپنی زندگی اجیرن بنانے کا درس نہیں دیتا۔ مذہب تو آپ کو مل بانٹ کر کھانے کا کہتا ہے، سچ بولنے کا کہتا ہے، امیروں کو غریبوں کے حق ادا کرنے کا کہتا ہے۔ اپنی ذات کو بھول کر اوروں کے لئے سوچنے کا کہتا ہے۔ والدین پر شفقت کرنے کا کہتا ہے اور کہتا ہے کہ دنیا میں نہ خود سرکشی کرو اور نہ اوروں کو کرنے دو۔ مذہب تو اس زندگی کو ایک مقصد دیتا ہے اور بامقصد بناتا ہے۔ مذہب زندگی گزارنے کے عمل کو مہمل نہیں چھوڑتا ہے شتر بے مہار کی طرح زندگی ضائع کرو اور مر جاؤ بلکہ ہر سانس کے لئے ایک مقصد دیتا ہے اور مجھے نہیں علم کہ بامقصد زندگی گزارنا کیونکر بُری بات ہو سکتی ہے؟
عرب اسلام لانے سے قبل شاید اسلئے فاتح نہ ہو سکے کہ وہ ٹکڑوں میں بٹ کے زندگی گزار رہے تھے اور کسی نے انہیں منظم کرنے کی باقائدہ کوشش نہ کی ہو اور انکو اپنی وحشت سے فائدہ اٹھا کر ملک گیری نہ سکھائی ہو۔ اور یہ صرف اسلام ہی نے کوئی نیا کارنامہ نہیں کیا، جیساکہ پہلے عرض کی جا چکی ہےکہ یہ تاریخ کا سائکل ہے، عرج و زوال جسے کہتے ہیں۔
رومن ایمپائر نے دو ہزار سال سے زائد سر اٹھا کے حکمرانی کی ہے، برٹش ایمپائر جس نے چوتھائی دنیا کو تین ساڑھے تین سو سال زیر نگیں کئے رکھا، اسلامی ایمپائر نے بھی چھ سات سو سال حکمرانی کی اور بقیہ کی طرح زوال پذیر ہو گئی۔ منگولوں اور روسیوں نے بھی دنیا پہ اپنی چھاپ چھوڑی ہے۔
پتہ نہیں ہم لوگوں کو خود ہی میں سرخاب کے پر لگے کیوں نظر آتے ہیں۔ ہمیں یہ کیوں نظر نہیں آتا کہ اسلام کے "سنہری دور” میں اسکے خلفاء کو (شان و شوکت سے) شہید کیا گیا، کتنی شورشیں اٹھیں، عشرہ مبشرہ میں شامل صحابہ اور امہات المومنین کے درمیان (پرشکوہ) لاحاصل جنگیں ہوئیں۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ منگولیہ کے صحراؤں سے ان سے بھی بڑے وحشی اٹھ کر اس عظیم قوم کے سپوتوں کی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کر دیتے ہیں (مکافات عمل؟)۔ باپ بیٹوں کی جنگیں، بھائی بھائیوں کی جان کے دشمن۔ خیر، تاریخ کا سبق آپکو اینڈرسن شا صاحب یا نظامی صاحب ہی دیں گے، ہم تو اشارے ہی دے سکتے ہیں لعلکم تعقلون۔
آپکے دوسرے پوائنٹ کو میں خلوص دل سے سمجھنا چاہوں گا، براہ کرم وہ نشانیاں ہمیں بھی بتا دیں کہ جو اللہ کے وجود کی حجت ہیں، نوازش ہوگی۔ اور پھر اگر ہم ان نشانیوں کی بابت سمجھنے کی خاطر ڈسکشن کرنا چاہیں تو ازراہ مہربانی انکو ہٹ دھرمی نہ کہیے گا بلکہ ہمارے وساوس دور فرمانے کی کوشش کیجئے گا۔
تیسرے پوائنٹ میں تو آپ نے بندے کو لاجواب کر دیا۔ کہ قدرتی آفات یا تو آزمائش ہیں (مومنین پر) یا پھر عذاب ہیں (کفار پر)۔میرے عزیز دوست، اللہ کیوں آزمائیں گے بھئی اپنے "مومنین” کو؟ کیا اللہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کریں گے، پھر اپنے پیاروں کو تکلیفیں کیوں؟ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا بھوک اور جان کا نقصان کرے گا؟ ایک دنیاوی ماں بچے کی بھوک دور کرنے کے لئے جان پہ کھیل جائے گی اور آپ ستر ماؤں جیسی محبت کے دعویدار کے بارے میں یہ بھی کہہ رہے ہیں؟
اچھا، یعنی پاکستان میں سیلاب آِیا تو انسانی نا اہلی ہو گئی، امریکہ میں آیا تو اللہ کی آفت۔ واہ بھئ۔خود مار پڑی تو اپنی ہی غلطی تھی اور کفار کو پڑی تو اللہ پکڑ۔ میرے خیال میں اسے بدنیتی اور خودفریبی کہا جائے تو مناسب ہوگا نہ کہ ان دیکھی ذات کو نہ تسلیم کرنا کہ جسکا نہ اتا نہ پتا نہ کُھرا نہ ثبوت۔
چوتھے پوائنٹ پر کیا تبصرہ کیا جائے یا شیخ۔ اگر نام نہاد مسلمان اسلئے خوار ہیں کہ وہ اللہ کے احکام نہیں مانتے۔ تو گویا کہ امریکہہ و برطانیہ اللہ کے فرمانبردار مومنین ہیں اسلئے ان پر ترقی کے دروازے اور نعمتیں کھلی ہیں؟ یا یہاں بھی اوپر والی ہی لاجک چلے گی؟
عزازیل (اگر کوئی ایسی چیز وجود رکھتی ہے تو اس) کی کہانی میں بھی سقم ہی سقم ہیں۔ ایک اچھی سی قابل قبول کہانی تک نہ گھڑ سکا مذہب۔ خیر یہ بھی بات لمبی ہو جائے گی، اگر آپ اصرار کریں گے تو اس پر بھی تسلی سے بات کر لیں گے۔ باقی اختیار والی بات، تو کیا آپ قضا و قدر پہ بحث کرنا چاہتے ہیں؟ نہ کریں جی، گناہ ہوگا کیونکہ کہتے ہیں اس بحث سے ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
چھٹے پوائنٹ میں آپ کہتے ہیں کہ خدا کی ہر تخلیق کردہ چیز کو فنا ہے۔ دہریہ اسمیں سے صرف خدا ہی کو تو نکالتا ہے۔ یہ تو دنیا کا اصول ہے جی۔ جو زندہ ہے اس نے مر جانا ہے۔ اسمیں مذہب نے بس خدا ہی تو گھسایا ہے، یہ تو ایک ازلی مظہر ہے، کسی نے اسکو ایک کتاب میں لکھ کر اللہ سے منسوب کر دیا تو یہ اللہ کی پراپرٹی ہو گئی، یہ ہے کاپی رائیٹ خلاف ورزی کی ایک اور مثال۔ اور خدا نے کیا آپ سے "خود” آ کے کہا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہوئی نہ "سنی سنائی” پہ یقین والی بات؟
آخر میں، زندگی اچھی گزارنے کے لئے مذہب کی لاٹھی ہی کیوں؟ اچھائی کو بھی مذہب نےا پنی جاگیر بنا لیا کاپی رائیٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے۔ سچ بولنا، مل بانٹ کر کھانا، انسانیت کی فلاح ان سب اچھی باتوں کو اپنانے کے لئے مذہب ہی کیوں ضروری ہے؟ کس نے کہا کہ شتر بے مہار کی طرح زندگی کو ضائع کرو؟ خرم بھیا، علم حاصل کرو، دنیا کی بھلائی میں حصہ ڈالو، بھوکے کو کھانا کھلاؤ کہ یہ اچھی بات ہے اور آپ اور ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لئے بھوکی اور سسکتی دنیا چھوڑ کے نہیں جانا چاہتے۔ اسمیں مذہب کو کیوں ملوث کرتے ہیں جو لالچ، خوف اور جبر سے یہ سب کراتا ہے؟ یہ سب محبت اور خوشی سے بغیر لالچ کے کیوں نہ کر لیں؟
اور آپکی یہ بات بھی سرے سے اسلام کے خلاف ہے کہ مذہب اس زندگی کو ایک مقصد دیتا ہے، اسلام تو کہتا ہے کہ یہ زندگی ایک مردہ بکری سے بھی بے وقعت ہے۔ یہ زندگی اور دنیا کھیل تماشے کے لئے پیدا کی گئی، جن و انس کو صرف عبادت کے لئے پیدا کیا گیا۔
خرم بھائی، تبصرے حقائق کو مد نظر رکھ کے کریں تو ہمیں بھی آپ سے کچھ سیکھنے سمجھنے کو ملے۔
خرم صاحب فرماتے ہیں کہ —-طبعی آفات کوئی چیز نہیں ہوتیں۔ یہ یا تو اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں اور یا عذاب۔ خدا نہ یہ کہیں نہیں کہا کہ اس پر یقین رکھنے والوں کے لئے یہ دنیا ایک جنت ہوگ
خرم بھیا ایک بات سمجھ میں نہیں آئ اگر آپ سہی ہو تو زرہ یہ بتائیے کہ نظام شمسی کے دوسرے سیاروں پہ جو تباہ کن طوفان – زلزلےآتے ہیں حتہَ کہ ان پہ آسمان سے پتھر بھی برستے ھیں وہ کون سی آزمائیش ہے اور کس پے عزاب ھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
hosakhta he wahan par bhi koi makhloq ho insan ne konsi daryaft karli jo esa sawal paida horaha.
ye kehna tekh nai he ki 70 mumyo se ziyada pyar karne wala allha kese insan jaisi masom jan par azab utar ta he .jubke maa esa kabhi nai karegi ..are bhaio maa esa isliye nai chaye gi ki agar mene apne son ko mardiya to hamesha hamesha keliye us se hath dobethong isliye galti par wo thoda buhut marti he ..aur khuda mardeta he isliye ki .khuda ko ilm he ki ye mar ke kahan jayega ..wo chaye hamari nazron me mar jaye lekin khuda keliye to wo zinda hoga na.bus itna hoga ki thodi dant dabat kardi aur is zamen se uthaliya .lekin he to uske teht ………ye baat tub samjh ayegi jub akhirat par yaqen hoga..