Close

توسل بہ جہل

توسل بہ جہل یا ❞تکیہء مجہول❝ ایک بہت ہی عام منطقی مغالطہ ہے جسے انگریز فلاسفر جان لاک نے وضع کیا تھا، یہ مغالطہ اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب دعوے کے اثبات کا بوجھ غلط فریق پر ڈال دیا جاتا ہے یا پھر جب کسی دعوے کے فریق کی اثبات کی کمزوری کسی دوسرے فریق کے دعوے کی درستگی کی دلیل بنا دی جاتی ہے جبکہ دوسرے فریق کے دعوے کی درستگی کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا، اس کی ایک تازہ مثال سعید صاحب کا یہ تبصرہ ہے جس میں سائنس کی کمزوری (پہلا فریق) خدا کے وجود کی دلیل (دوسرا فریق) بنا دی گئی جبکہ خدا کے وجود (دوسرے فریق کے دعوے) کی کوئی دلیل نہیں ہے، اپنی سادہ شکل میں یہ مغالطہ کچھ اس طرح سے کام کرتا ہے:

1- ❞س❝ کا دعوی ❞ج❝ پیش کرتا ہے اور ثابت کرنے کا بوجھ ❞د❝ پر ڈال دیا جاتا ہے.
2- ❞د❝ دعوی کرتا ہے کہ ❞س❝ غلط ہے کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے.

یہ مغالطہ فرض کرتا ہے کہ چونکہ دعوے کو غلط ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے چنانچہ دعوی درست ہے، اسی طرح اس کا برعکس بھی درست ہے یعنی چونکہ یہ ثابت نہیں ہوا کہ دعوی درست ہے لہذا وہ غلط ہے، دونوں صورتوں میں ❞دلیل کی عدم دستیابی❝ ہی ❞دلیل❝ کا کام کر رہی ہوتی ہے اور اپنے آپ میں دلیل بن جاتی ہے، یوں ❞دلیل کی عدم دستیابی❝ کسی دعوے کے درست یا غلط ہونے کی دلیل بنا دی جاتی ہے، اس کی ایک شکل یوں بھی ہے کہ یہ کہا جائے کہ جناب چونکہ حریف یہ دعوی غلط ثابت نہیں کر سکتا لہذا یہ دعوی لازما درست ہے.

پچاس کی دہائی میں سینیٹر جوزف مکیرتھی نے ایک ٹی وی سیریز میں بہت سارے بے قصور لوگوں پر کمیونسٹ ہونے کا الزام لگایا جسے بعد میں مکیرتھزم کا نام دیا گیا، یہ الزامات کسی حقیقی دلیل پر مبنی نہیں تھے، کوئی بھی شخص اس بنیاد پر مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا تھا کیونکہ مکیرتھی کے ریکارڈ میں اس شخص کے کمیونسٹ رجحانات ثابت کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا، یعنی بجائے اس کے کہ وہ اپنا دعوی دلیل سے ثابت کرتا وہ اس کی بنیاد دعوی غلط ثابت کرنے کے لیے دلائل کی عدم دستیابی پر رکھتا تھا جو کہ مغالطہ ہے کیونکہ مکیرتھی اپنی حجت ایسے مثبت نتائج جن سے پتہ چلتا ہو کہ اس نے جان لیا ہے یا ثابت کر دیا ہے کہ فلاں شخص کمیونسٹ رجحانات رکھتا ہے کی بجائے معرفت کی عدم دستیابی (جہالت) پر رکھتا تھا.

عام گفتگو میں اس مغالطے کی شکل کچھ یوں ہوتی ہے:

جاوید: میرا خیال ہے کہ بعض لوگوں کے پاس جادوئی طاقتیں ہوتی ہیں.
سلیم: تمہیں کیسے پتہ چلا؟
جاوید: کیونکہ ابھی تک کوئی یہ ثابت نہیں کر سکا ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس ایسی طاقتیں نہیں ہوسکتیں.

گاڈ آف دی گیپس بھی اسی مغالطے کی ایک شاخ ہے، یہ اس برہان کی نمائندگی کرتا ہے جو مؤمنین خدا کی موجودگی کی دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں کہ چونکہ علم ابھی تک کسی مخصوص طبعی مظہر کی وضاحت نہیں کرسکا چنانچہ یہ لازماً ان کے خدا کا کارنامہ ہے محض اس لیے کیونکہ وہ اس پر یقین رکھتے ہیں اور کوئی اس کے برعکس ثابت نہیں کر سکتا.

عقل مندوں کو سلام!

جواب دیں

0 Comments
scroll to top