Close

تُڑا مُڑا ہے مگر خدا ہے!!

 

میرے حلقہِ احباب میں شامل ایک محترم دوست کئی دنوں سے سر کھا رہے ہیں۔ کہتے ہیں بھیا بہت ہوا ایمان لے آؤ۔ اتنا کفر ٹھیک نہیں۔ ایسا ارتداد ٹھیک نہیں۔ اللہ میاں ناراض ہوں گے۔ بھاڑ میں جھونکیں گے۔ فلاں کر دیں گے۔ ڈھمکاں کر دیں گے۔ ہم نے بہتیرا سمجھایا۔ کہ میاں! ان لایعنی چکروں میں کچھ نہیں رکھا۔ آپ کا اللہ آپ کو مبارک۔ ہمارے سر نہ تھوپیے۔ ہم اس فسوں سے نکل آئے۔ پھر بھی اگر منوا سکتے ہیں تو دلیل لے آئیے۔ ورنہ جو باتیں جناب آج ابھی کیے دے رہے ہیں، وہ عرصہ دراز قبل ہم کیا کرتے تھے۔ بھلا بتائیے؟ ادعائیت بھی کوئی ثبوت ہوا کرتا ہے؟ ایمان کو دلیل سے کیا؟ ان کا تو آپسی بیر ہے۔ ایمان اور اس کی ادعائیت سراسر نامعقول ہے۔ نامعقولیت ہے۔ اس کو معقول ثابت کرنے کیلیے دیے جانے والا ہر ایک جواز نامعقول ہی ہے۔ گویا کسی نامعقول کو معقولیت کا شرف بخشنے کے واسطے کیے جانے والا ہر ایک معقول جواز اپنی غرض میں نامعقول ہی ہوا کرتا ہے۔ جس سے مزید نامعقولات جنم لیتے ہیں۔ بہرحال برسبیل تذکرہ ان صاحب سے ہونے والی گفتگو کا مختصر سا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔

جب کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ خدا ہے تب عقل ایسا جواب چاہتی ہے جو منطقی ہو۔ اور یہ کہ جس سے عقلی و منطقی طور ہر خدا کے وجود کو ثابت کیا جا سکے۔ جبکہ خدا کے دعوے داروں کے پاس کوئی ایسا ثبوت نہیں جو خدا کے ہونے کو ثابت کر سکے۔ لے دے کے جو دلائل اہلِ مذاہب کے پاس ہوتے ہیں خدا کی موجودگی کو منوانے کیلیے وہ علت و معلول پر انحصار کرتے ہیں، عام مشاہدہ ہے کہ ہر چیز کا ایک چونکہ بنانے والا ہے لہذا کائنات کا بنانے والا بھی کوئی ہے، اور وہ کوئی خدا ہے۔ کیونکہ کائنات ایک معلول ہے لہذا اس کی علت خدا ہے۔ حالانکہ کائنات کی کوئی علتِ شاعرہ فرض کر لینے سے بھی کسی خدا کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ لہذا کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ زمان و مکان سے ماوراء ہے۔ کبھی یہ کہہ کر جان چھڑائی جاتی ہے کہ وہ عقل کی گرفت میں بھی نہیں آ سکتا کیونکہ وہ عقل شریف سے وراء الوراء ہے۔

جب کہا جاتا ہے کہ کائنات کا ایک خالق ہے اور کائنات ایک مخلوق ہے۔ اس کائنات کا نظم و ضبط کسی خالق نے قائم کیا ہے۔ اس خالق پر حق جمانے کیلیے اس کے جواب کے طور پر اہلِ مذاہب نے اپنی اپنی بساط بھر جواب دینے کی کوشش کی اور اس عالمِ رنگ و بو کی توجیہ کی۔ ان مذہبی توجیہات و تشریحات کے ثبوت میں ہر اہلِ مذاہب کے پاس یہی کچھ ہے کہ فلاں رسول کا فرمایا راست ہے۔ فلاں ہستی کی کہانی سچ ہے۔ گویا ہر مذہب اور اس کی الہامی کتب خود اپنا اثبات کرتی ہیں۔ اس داخلی اثبات کی تعلیم کے سوا اہلِ مذاہب کے پاس کوئی ایک دلیل نہیں کہ جسے اپنی تعلیمات، اپنے خدا کے برحق ہونے پر بطورِ دلیل و ثبوت پیش کیا جا سکے۔ بہرحال فی الوقت مقدمہ یہ نہیں کہ بین المذاہب الہیات کا قضیہ چھیڑا جاوے اور اس پہ گفتگو کی جاوے۔ مقدمہ خدا کی تحلیل کا ہے۔ لہذا اسی سیاق میں رہیں گے۔

کسی بھی مذہب کے خدا کے اثبات کیلیے، اسی مذہب کی الہامی کتب سے اخذ کردہ الہیات سے رجوع کر کے تصدیقی اثبات پیش کیا جاتا ہے۔ اب ہر مذاہب کی الہامی کتب اسی مذہب کے خدا کا اثبات کر رہی ہوتی ہیں کہ جس خدا کے اثبات کا مقدمہ اسی کی الہیات سے بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہر مذہب کے خدا کا اثبات، دیگر مذاہب کے خداؤں کی نفی، ایسی استنادیت کی بنیاد پر کر رہی ہوتی ہے جسے منطقی مغالطہ کہا جاتا ہے۔ سرکلر ریزننگ۔

ہر مذہب کا اپنا نظامِ ادعائیت ہوتا ہے۔ تمام مذاہب میں خدا کو زمان و مکان کاپابند بتایا گیا ہے۔ چاہے یہودیت ہو، عیسائیت، زرتشت مت، ہندومت یا اسلام۔ تمام مذاہب کی الہیات میں خدا کو موجود تسلیم کیا گیا ہے۔ ایسا موجود جو وجود کی گرفت میں ہے۔ جب بھی ہم کسی شے کو موجود کہتے ہیں تو اسے محدود کر رہے ہوتے ہیں۔ موجود کا مطلب وجود رکھنا ہے۔ وجود رکھنا یعنی ہیئیت کا خارج میں لازم ہونا۔ اہلِ مذاہب اپنے اپنے خدا کو واجب الوجود کی صفت سے یاد کرتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ عقلاً جس کا پایا جانا یقینی اور اس کا عدم وجود محال ہے۔ گویا خدا ایسا موجود ہے جو وجود رکھتا ہے۔ یعنی ہیئیت میں خارج ہے۔ لازم ہے۔ زمان و مکان کا پابند ہے۔ لیکن سادہ سی بات ہے کیا آپ ایسا تصور کر سکتے ہیں کہ ایک ایسی ہستی جس نے زمان و مکان کو خلق کیا ہو، خود اپنی ہی تخلیق کی گرفت میں ہو؟ دوسرے لفظوں میں خالق خود ہی مخلوق ہو؟ یعنی خالق خود اپنی ہی تخلیق ہے۔ یقیناً خدا کا یہ تصور لغو تصور ہے کہ اسے زمان و مکان کا پابند بتایا جائے۔ خدا خود اپنی ہی تخلیق کا مظہر ہو، منطقی طور پر یہ ایک متناقص تصور ہے۔ الہیات کے ماہرین کو اس قسم کے لایعنی تصوراتِ خدا کا بخوبی احساس تھا۔ جس بنا پر ایرین فرقے کے بانی ایریس نے قریب قریب اس تصور کی طرف پیش قدمی کی، خدا کو وجود سے ماوراء قرار دیے جانے کی جانب۔ پھر نامعقولیت کے قائل قبلہ و کعبہ پلوٹینس نے خدا کو وجود سے ماوراء قرار دیا۔ ایس اور لیس سے منزہ قرار دیا۔ لیکن مذہبی مصلحوں کی سمجھ میں الہیات کے یہ گہرے رمز نہ آ سکے۔ لہذا وہ خدا خلق کرتے رہے۔ اسے زمان و مکان کا پابند ثابت کرنے پر زور لگاتے رہے۔ لیکن جیسے جیسے خیالات و نظریات یہاں سے وہاں ہوئے، ایک خطے سے دوسرے خطے میں گئے۔ ویسے ویسے اہلِ مذاہب کو اپنے خداؤں کے لایعنی تصور کا احساس ہوا۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ مگر بہرحال پھر تاویل اور تشریح و تفسیر وغیرہ کے نام پر اہلِ مذاہب نے اپنے خدا کے زمان و مکان سے ماوراء ہونے کا اقرار شروع کیا۔

قرآنی الہیات کی رُو سے اللہ زمان و مکان کا مقید ہے، لیکن تبع تابعین کے دور میں ایرانیوں سے میل جول بڑھنے کے بعد مسلمانوں نے ایرانیوں سے یہ عقیدہ مستعار لیا۔ کیونکہ مسلمانوں کی نسبت اہلِ ایران کا تصورِ خدا زیادہ ری ڈیفائنڈ تھا۔ اسلام میں سے پہلے حضرت علی کی کتاب نہج البلاغہ میں اللہ میاں کے زمان و مکان سے ماوراء ہونے کا تصور پیش کیا گیا۔ نہج البلاغہ جس کا مصنف شاید ‘رضی’ تھا، اس نے زمان و مکان سے ماورائیت کا تصور اپنے عہد کی ایرانی و یونانی منطق سے مستعار لے کر علی بن ابو طالب کی طرف منسوب کر دیا۔ اسلامی مصادر اصلیہ میں ایسی کوئی ایک نص بھی نہیں جو خدا کو زمان و مکان سے ماوراء ثابت کرتی ہو۔ قرون اولیٰ کے مسلمان ایک مجسم خدا پر یقین رکھتے تھے جو ساتویں آسمان کے اوپر تخت لگائے بیٹھا ہے۔ ایک شخصی خدا جو انسانوں کی طرح سوچتا اور عمل کرتا ہے۔ ایسا کرنا یعنی تمام مذاہب بشمول اسلام میں خدا کو زمان و مکان سے ماوراء بتانا یعنی اپنی ہی الہامی کتب میں موجود تصورِ خدا کا انکار کر کے خدا کو زمان و مکان سے ماوراء بتانا، درحقیقت اپنی ہی الہامی کتب کی سراسر نفی ہے۔ یعنی ایسا اثبات از خود اپنی ہی نفی ہے۔ گویا کہ اپنے خدا کا اثبات اپنے ہی خدا کی الہامی کتب میں، اپنے خدا ہی کی اپنے وجود سے متلعق بیان کردہ الہیاتی کسوٹی کی نفی کر کے کیا جاتا ہے۔ جو ظاہر ہے ایک دلچسپ اور کافی مضحکہ خیز صورتحال ہے۔ یہ بے بسی کی انتہاء ہے جو قابلِ دید ہے۔ اس تصور کو لینے کے بعد سب سے زیادہ پریشانی یہی رہی کہ وجود سے ماوراء خدا کی صفات کا اقرار کیسے کیا جائے۔ کیونکہ اگر آپ خدا کی تجسیم کے قائل نہیں تو خدا کی ذات سے منسوب تمام صفات کا انکار کر دیں۔ کیونکہ یہ صفات خدا کی تجسیم کے بغیر ممکن نہیں۔

قرآنی الہیات اور یہ نیا عقیدہ کیا یہ ایسا ہی نہیں جیسے کوئی کہے کہ میں واشنگ مشین ہوں؟ اور اسے جواب ملے نہیں بھائی تم ڈیپ فریزر ہو!

بہرحال، اہلِ مذاہب بہت سادہ لوح ہیں۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کے ان کا خدا زمان و مکان سے ماوراء نہیں بلکہ اس کا پابند ہے جیسا کہ ان کی الہامی کتب کہتی ہیں۔ تب اہلِ مذاہب نہایت زور و شور سے یہ ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ نہیں جی خدا زمان و مکان سے ماوراء ہے۔ یعنی وہ ایسا موجود ہے جو وجود ہی نہیں رکھتا۔ جو وجود ہی نہیں رکھتا اس کے موجود ہونے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔ بات انتہائی سادہ سی ہے۔ اہلِ مذاہب یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کو زمان و مکان سے ماوراء ثابت کرنے سے خدا ثابت ہو جاتا ہے۔ جبکہ منطقی طور پر وہ خدا کی ایسی بہترین نفی کر رہے ہوتے ہیں جو ان کے خیال میں خدا کے اثبات کا مظبوط ترین استدلال ہے۔ ایسا مبنی بر نفی اثبات استدلال کرتے وقت انہیں اس بات کی لایعنیت کا احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ اپنی الہامی کتب کی الہیاتی کسوٹی کی نفی کرتے ہوئے وہ اپنے خدا کی موجودگی کا جو اثبات پیش کر رہے ہیں، وہ ایک سراسر نفی ہے اور سوائے اس کے کچھ بھی نہیں۔

الہیاتی مدارس کو اس بات کا احساس ہے۔ اس لئے مذہبی الہیات کے جید علماء کرام خدا کے اثبات کیلیے الہیاتی کسوٹی تک ہی رہ کر استدلال کرتے ہیں اس سے باہر نہیں نکلتے۔

لیکن ایسا طبقہ بھی ہے جو ایسی قرآنی آیات اور احادیث پیش کرتے ہیں جن میں اللہ میاں کو زمان و مکان کا پابند بتایا گیا ہے۔ لیکن وہ اسے غلط ثابت کرنے کے چکروں میں اللہ میاں کو زمان و مکان سے ماوراء بتانے کیلیے پر زور یقین کے ساتھ آیات و احادیث کی اپنے مطلب کی تاویلات پیش کرتے ہیں۔ اپنے مطالب کی تشریحات پیش کرتے ہیں بمصداق یوں کے بکری کو شیر ثابت کرنے جیسے۔ ایسا کرنا ادعائیت اور الہیات سے ناواقفیت ہے۔

پھر بھی اگر کوئی خدا کو زمان و مکان سے ماوراء ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تب ظاہر ہے اس میں مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ مجھے قطعاً کوئی اعتراض نہیں۔ کیونکہ ظاہر ہے جو شے زمانی و مکانی طور پر واقع نہ ہو، وہ غیر موجود ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ خدا زمانی و مکانی طور پر واقع ہے، اس کا سیدھا سا مطلب ہے وہ غیر موجود ہے۔

پورا مقدمہ نہایت ہی سادہ ہے۔ لیکن جواباً عرض کیا گیا کہ بھئی آپ کو تو اسلامی شریعت کا ذرا سا بھی علم نہیں۔ (حالانکہ الہیات پر بات کرنے کیلیے شریعت کا معلوم ہونا ضروری نہیں)۔ وگرنہ ایسا بھونڈا اعتراض کبھی نہیں کرتے۔ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ خدا کا تصور کیا ہے اور وہ کہاں ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ اکبر۔ اس پر مجھے شدید حیرت ہوئی۔ یا خدا (جو کہیں نہیں موجود) یہ کیا نیا شوشہ ہے۔ اب دیکھیے کیا نکلتا ہے موصوف کی پٹاری سے۔ موصوف کہنے لگے خدا کے زمان و مکان کی قید والا معاملہ ان دو الفاظ سے رفع ہو گیا۔ یعنی مخلوق اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ اللہ اکبر یعنی اللہ زمان و مکان سے ماوراء ہے۔

یا حیرت! ‘اللہ اکبر’ کیا اس سے اللہ میاں کا زمان و مکان سے ماوراء ہونا ثابت ہو رہا ہے؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عقل سے ماوراء ہے جو مخلوق کے احاطہ میں نہیں آ سکتا؟ اللہ اکبر معنی اللہ بڑا ہے۔ نہ کہ یہ ‘زمان و مکان سے ماوراء ہے۔’، ‘عقل سے ماوراء ہے۔’۔ لیکن کیا ‘اللہ اکبر’ قرآنی الہیات کی کسوٹی ہے؟ احادیث سے اخذ کی گئی الہیاتی کسوٹی ہے؟ ہر گز نہیں۔ یہ تمام باتیں لایعنی ہیں۔ جن کے کرنے کا مقصد اندھے ایمان کی تقلید ہو سکتا ہے، اور کچھ نہیں۔

اتھئیسٹ حضرات سے کہا جاتا ہے کہ وہ یعنی اللہ کہاں ہے؟ آپ اسے مخلوق میں تلاش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اگر وہ ہے تو مخلوقات میں بھی نظر آئے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے، اس نے خود اپنے بارے میں بزبانِ رسول فرمایا کہ وہ اوپر عرش پر مستوی ہے۔ یعنی عرش اوپر اور بلند ہے۔ اور عرش سے متعلق رسول اللہ نے فرمایا کہ وہ آسمانوں کے اوپر ہے۔ وہ آسمانوں کے اوپر ہو یا آسمانوں کے نیچے۔ عرش پر مستوی ہو یا کسی جگہ۔ اس سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں۔ آسمانوں کے اوپر عرش کا ہونا اسے اس کائنات سے باہر ثابت نہیں کرتا۔ بہرحال، آپ اسے ممکن الوجود، واجب الوجود، علتِ شاعرہ، علتِ کاملہ، علتِ اولیٰ جو جی میں آئے گردان لیجیے۔ مجھے قطعاً کوئی اعتراض نہیں۔ پھر عرض کر رہا ہوں جو چاہے مان لیجیے۔ علت و معلول کا قضیہ، علتِ شاعرہ، ممکن الوجود، واجب الوجود کے قضیات، ان کے بدیہی تصورات کو بھی بالائے طاق رکھتا ہوں۔ یعنی جو جی میں آئے تاویلات فرما لیجیے اللہ میاں کے وجود سے متعلق۔ وہ موجود ہے۔ تو ماہیت ہے۔ موجود کہہ کر ہم نے اسے ماہیت قرار دے دیا۔ ماہیت نہیں پھر موجود ہی نہیں۔ یہ بدیہی منطقی وظیفہ ہے۔

جواباً یہ کہنا بے محل ہوگا کہ: ‘خالق کو مخلوق پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔’

یہاں خدا کے وجود کی ماہیت یا اجزائے ترکیبی زیرِ بحث نہیں بلکہ وجود بذاتِ خود اپنے منطقی متعلقات کی بنیاد پر زیرِ بحث ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ خدا کا وجود انسانی وجود کے مادہ کے مثل مادہ سے بنا ہے۔ یہاں خدا اور انسان کے وجود کا تقابلی جائزہ مقصود ہی نہیں۔ ہمارے پیشِ نظر وجود کا مفہوم اپنی کم از کم بنیادی خصوصیات کے ساتھ ہے۔ یعنی ہیئیت وجود کی اولیں بنیادی خصوصیت ہے جس کے بغیر وجود کا لغوی یا اصطلاحی و منطقی و زمانی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔ اگر وجود کا مفہوم یا ادراک ہیئیت کے بغیر ممکن ہے تو اس کیلیے ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔ یہاں ایک بات اور قابلِ غور ہے۔ خدا کو وہ شے محدود نہیں کر رہی جس میں وہ خود موجود ہے بلکہ اس کا ہونا موجود ہے۔ اور موجود ہونے کی بنیاد پر وجود رکھنا محدود کر رہا ہے۔ مثلاً کوئی کہہ سکتا ہے کہ کمرے میں موجود ہونے کی صورت میں کمرا ہمیں محدود کر رہا ہے بلکہ ہمارا وجود ہمیں محدود کرتا ہے چاہے ہم کمرے کی بجائے کسی بے کراں سمندر میں ہوں یعنی موجود اپنے معروض کے لحاظ سے محدود نہیں ہوتا بلکہ اپنے وجود کے لحاظ سے محدود ہوتا ہے۔ موجود ہونا وجود رکھنا ہے اور وجود فی نفسہ محدود ہے، بالذات محدود ہے نہ کہ اپنے خارج کے بالمقابل محدود ہے اور خارج سے ہٹ کر محدود نہیں۔ اگر خدا موجود ہے تو اس کا محدود ہونا اس کے وجود کی بنیاد پر ہے۔ لہذا خدا کے وجود کا اس کے وجود کی بنیاد پر محدود ماننا لازم آئے گا۔ اگر وہ وجود نہیں رکھتا پھر وہ محض ایک تجریدی خیال سمجھا جائے گا جو صرف انسانی ذہن میں موجود ہے جس کا کوئی حقیقی مصداق نہیں سمجھا جا سکتا۔

اسلامی اسکالرز کہتے ہیں کہ اللہ میاں کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ یعنی اس کی کوئی مثل نہیں۔ جب کہ خود جگہ جگہ وہ وجودِ باری تعالیٰ کی مادی تمثیلات پیش کیے پائے جاتے ہیں۔ بلکہ مادی تمثیلات کے بغیر اکثر و بیشتر استدلال دیے ہی نہیں جا سکتے۔ اللہ میاں خود اپنی مثال خود دیتے ہیں کہ میں زمین و آسمان کا نور ہوں۔ پھر قرآن کی ہی ایک تعریف کے مطابق اس کے مثل کوئی شے نہیں۔ اس کی کوئی مثل نہیں، لیکن اس کی عادات زمینی ہیں۔ سورہ الاعراف۔

درحقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانون اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ افروز ہوا۔ جب کہ رسول اللہ نے بھی بارہا اللہ میاں کے وجود سے متعلق مادی تمثیلات پیش کیں۔ مثلاً اس کے ہاتھ پاؤں کا ہونا (ایسا قرآن بھی کہتا ہے)۔ اس کا غضبناک، رحم دل وغیرہ ہونا۔ جب ‘لیس کمثلہ شیء’ یعنی جسے نادر تسلیم کر لیا جائے، اس کیلیے مادی مثال کا پیش کرنا خود اپنی ہی اثبات کی نفی ہے۔ یہ نفی ناسمجھی اور کوڑھ فہمی کی بنا پر اللہ میاں قرآن میں اور خود رسول اللہ احادیث مبارکہ میں بارہا فرما چکے ہیں۔ ﮐﺴﯽ ﺑﮯ ﻣﺜﺎﻝ کے ﻭﺟﻮﺩ کے ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﯿﻠﯿﮯ، ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺑﮯ ﻣﺜﺎﻝ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ- ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺎﺩﯼ ﻣﺜﺎﻝ ﮐﺎ ﺩﯾﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﺍﺯ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﯽ ﻧﻔﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﻣﺎﺩﯼ ﻣﺜﺎﻝ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ- ﺍﻟﮩﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺲ ﺍﻭﺭ ﻟﯿﺲ ﺳﮯ ﻣﻨﺰﮦ ﻭ ﻣﺎﻭﺭﺍﺀ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﮯ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﺎ ﻣﻘﺪﻣﮧ ﻣﺎﺑﻌﺪﺍلطبیعاتی ﺟﮩﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮍﺍ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ- ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮩﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﺮﺽ ﻭ ﻏائیت ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺩﯼ ﻧﮧ ﮨﻮ- ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮐﮧ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﺎ ﻣﻘﺪﻣﮧ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﻟﮍﺍ ﺟﺎﺋﮯ، ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻗﻀﺎﯾﺎ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﯿﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﯽ ﻣﺎﺩﯼ ﺗﻤﺜﯿﻼﺕ ﺳﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ، ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯿﺌﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻧﺎﻗﺺ ﺗﻮ ﮨﯿﮟ ﮨﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﮐﯽ ﻧﻔﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ-

خدا زمان و مکان سے ماوراء ہے، وجود سے آزاد ہے۔ یہ ایک گپ ہے۔ کیونکہ ہر مذہبی خدا وجود کی گرفت میں ہے۔ بہرحال، اسے زمان و مکان سے ماوراء بتاتے ہوئے اہلِ مذاہب یہ کیوں بھول جاتے ہیں کے کائنات سے باہر کیا صورتِحال ہوگی؟ کتنی کائناتیں ہوں گی؟ ایک؟ یا کئی ساری؟ لیکن بات تفصیل طلب ہے کہ زمان و مکان سے ماوراء جانے کے کیا معنی ہیں اور ان سے کیا مطلب اخذ کیا جا رہا ہے۔ کیا اس کائنات سے باہر موجود کائناتیں زمان و مکان سے ماوراء ہیں؟ یا وہ مادہ یا غیر مادہ سے بنی ہیں؟ ان پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اہلِ مذاہب زمین کے معاملات سلجھا لیں، ان مسائل پر توجہ دیں جو زمینی ہیں۔ جو زمینی مسائل سمجھنے اور سلجھانے کی اہلیت نہیں رکھتے ان کو زیبا نہیں دیتا کہ مابعد الطبیعاتی مسائل میں الجھ کر سب کا وقت برباد کریں۔ خدا کا تصور زمان و مکان سے ماوراء ہونا لایعنی ہے۔ جو بھی موجود ہے زمان و مکان میں موجود ہے۔ موجود کو وجود، ہیئیت، شیئیت، موج، لہر، ارتعاش، یا مادہ اور توانائی کی کوئی بھی صورت، حالت میں لے لیں۔ ایسی کوئی شے نہیں جو ذرات پہ مشتمل نہ ہو۔ اگر خدا موجود ہے تب اسے زمان و مکان میں موجود کسی بھی شے کی طرح جانا جا سکتا ہے۔ اسے زمانی و مکانی ہندسی رشتوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ موجود ہونے کی صورت میں ہم موجود ‘خدا’ کے وجود کے ایٹمز کے سب اٹامک پارٹیکلز کی ری اررینجمنٹ ایک مالیکیولر مشین پہ کر سکتے ہیں۔ اسے چاکلیٹ، کافی، بسکٹ بنا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ۔۔۔۔، چلیے چھوڑیے۔

اگر آپ کے خیال میں خدا عقل سے ماوراء ہے یعنی انسانی عقل اس کے ادراک سے قاصر ہے۔ اس کی کوئی بھی عقلی منطقی وجہ نہیں کہ ایسا تسلیم کیا جائے۔ ظاہر ہے خدا کو عقل سے ماوراء بتانا کوئی معقول عقلی دلیل نہیں بلکہ ادعائیت ہے۔ جو عقل سے ماوراء ہو اس کے وجود سے متعلق عقلی دلیل قائم نہیں کی جا سکتی۔ نا ہی کوئی عقلی ثبوت فراہم کیا جا سکتا ہے۔ ایسے نادر کے جو عقل سے ماوراء ہو، اس کے اثبات کیلیے پیش کی جانے والی ہر دلیل کسی بھی خیالی شے پر لاگو کی جا سکتی ہے۔ یعنی اس سے کسی بھی خیالی کردار کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ایک دانا کا قول ہے: تم انگور سے ہاتھی کب تک ٹپکاؤ گے؟!

جواب دیں

0 Comments
scroll to top