Close

منہ کالا ما

خیالی دہریوں سے مناظرے کر کے فتح پانا مومنین کی پرانی عادت رہی ہے، تاریخی طور پر یہ بیماری سب سے پہلے امام غزالی کو لاحق ہوئی، اپنی کتاب "قذائف الحق” میں امام صاحب ایک خیالی دہریہ گھڑتے ہیں اور پھر اسے اپنے تئیں "چت” کرتے ہوئے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں.. اس سے قطع نظر کہ امام صاحب واقعی اس خیالی دہریے کو چت کر پائے یا نہیں، تاہم ان کے بعد ان کے چیلوں کے ہاتھ ایک "جھنجھنا” ضرور آگیا جسے یہ کسی دہریے کی "بو” سونگھتے ہی بجانا شروع کردیتے ہیں.. اس طرح ان چیلوں نے اپنے استاد کی طرح ہزاروں نہیں تو کم سے کم سینکڑوں خیالی دہریوں سے ضرور مناظرے کیے اور فتح یاب ہوئے، مگر کیا دہریے کو چت کرنا اتنا ہی آسان ہے؟ ایسے ہی ایک چیلے نے ایک نیا مناظرہ گھڑا ہے جو دنیا کی ادنی تر منطق تک سے عاری ہے اور پہلے ہی سوال پر ڈھیر کیا جاسکتا ہے مگر نتیجہ جیسا کہ سب جانتے ہیں اور جو کہ پہلے سے ہی طے ہے انہیں اس "خیالی” دہریے پر فتح بھی حاصل ہوئی ہے، مجھے اس بے چارے دہریے سے کچھ ہمدردی سی ہونے لگی ہے کہ بے چارہ جانے کتنی صدیوں سے اس طرح اکیلا ہی ذلیل وخوار ہوتا آرہا ہے، چنانچہ سوچا کیوں نہ لگے ہاتھوں اس مسکین کی کچھ مدد کی جائے، لہذا مومن کے مناظرے کے سیاق کو سباق کو اسی طرح برقرار رکھتے ہوئے ذیل کا مناظرہ پیش خدمت ہے:

 

(نوٹ: اضافی مکالموں کو سرخ اور نیلے رنگ سے نمایاں کیا گیا ہے)

 

دہریہ : بہت اچھے یعنی تم مانتے ہو کہ فزکس اور طبیعات کے قوانین تمہارے خدا نے بنائے ؟

معصوم مسلمان: جی سر

دہریہ : یعنی تمہارے نزدیک  ہر چیز کا کوی نہ کوی خالق موجود ہے ؟

معصوم مسلمان : جی سر

دہریہ : اچھا اگر ہر چیز کا خالق ہونا ضروری ہے تو پھر بتاو تمہارے خدا کا خالق کون ہے ؟

معصوم مسلمان : سر خدا کو کسی نے تخلیق نہیں کیا وہ ازل سے تھا اور ابد تک رہے گا

دہریہ : اچھا بتاو ابد کے بعد کہاں جائے گا ؟

معصوم مسلمان : سر ابد مخلوق پر ہوتی ہے خالق پر نہیں

دہریہ : ( جواب نہ ہونے پر بیزار ہوتے ہوے ) اچھا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب ہر چیز کا خالق موجود ہو اور خدا کا خالق نہ ہو

معصوم مسلمان: (جواب دیتے ، دیتے تنگ آگیا تو سوال کرنے پر آگیا) اچھا سر آپ یہ بتائیں کہ کیا مرد کسی بچے کو جنم دے سکتا ہے نو مہینے اپنے پیٹ میں رکھنے کے بعد ؟

دہریہ:( سوال سے پریشان ہوتے ہوے) فلحال اسکا ممکن ہونا  نا ممکنات میں سے ہے ، کیونکہ یہ مرد کی صفات کے خلاف ہے

معصوم مسلمان: بس اسی طرح خالق کا تخلیق ہونا ناممکن ہے کیونکہ یہ خالق کی صفات کے خلاف ہے  کیونکہ خدا وہ ہے جسے کسی نے پیدا نہیں کیا ۔

دہریہ : اگر خالق کا تخلیق ہونا نا ممکن ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر چیز کا کوئی خالق ہو، پھر کائنات کا کسی خالق کی کارستانی ہونا کیوں ضروری ہے؟

معصوم مسلمان: لمبی خاموشی…

معصوم مسلمان: اچھا سر یہ بتائیں کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ کسی چیز کا کوی خالق نہیں تو  یہ کائنات کیسے وجود میں آئی ؟

دہریہ : (لمبی لمبی سائنسی بونگیا مارتے ہوے جو یہ بتاتی ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ خود بہ خود  ہر چیز وجود میں آگئی)

معصوم مسلمان: اچھا تو بتائیں پھر گندم خود بہ خود وجود میں کیوں نہیں آتی ؟ پاکستان کے گاوں کے لوگوں کی تو بات نہ کریں شہری بجلی کے نہ ہونے سے پریشان ہیں وہ خود بہ خود وجود میں کیوں نہیں آتی ؟

بتائیں سڑکیں خود بہ خود وجود میں کیوں نہیں آتی ؟

بتائیں کہ کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بن جاتا پاکستانیوں کے مسائل حل ہو جائیں ؟

دہریہ : کیونکہ انہیں کلاسیکی سببیت درکار ہوتی ہے مگر اب ہم جانتے ہیں کہ ہر چیز کلاسیکی سببیت کی پابند نہیں ہوتی جیسے الفا پارٹیکلز، اور پھر اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ہر چیز کا کوئی سبب ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ خدا سے پہلے بھی اس کا کوئی مسبب تھا؟

معصوم مسلمان: سر میں پہلے بھی کہہ چکا  ہوں کہ خدا کو کسی نے تخلیق نہیں کیا وہ ازل سے تھا اور ابد تک رہے گا

دہریہ : اس طرح آپ کے مفروضے کا پہلا حصہ ساقط ہوجاتا ہے کیونکہ آپ یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ "ہر چیز” کا کوئی نہ کوئی خالق یعنی مسبب ہے اور پہلے حصے کے ساقط ہونے پر سارا مفروضہ ساقط ہوجاتا ہے.. یا ہم آپ کے مفروضے سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کچھ چیزوں کا واقعی کوئی سبب نہیں ہے اس صورت میں خدا کی بجائے کائنات بے سبب کیوں نہیں ہوسکتی؟ اور چونکہ کائنات موجود ہے اور اسے جانچا جاسکتا ہے چنانچہ اس سے پہلے خدا جیسی تصوراتی چیز کو داخل کرنے کی ضرورت نہیں ہے.

معصوم مسلمان: قبر کی سی خاموشی….

ہنڑ ارام اے…

28 Comments

  1. محترم اینڈرسن شا صاحب!
    آپ نے لکھا ہے کہ”دہریہ : اس طرح آپ کے مفروضے کا پہلا حصہ ساقط ہوجاتا ہے کیونکہ آپ یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ “ہر چیز” کا کوئی نہ کوئی خالق یعنی مسبب ہے اور پہلے حصے کے ساقط ہونے پر سارا مفروضہ ساقط ہوجاتا ہے.. یا ہم آپ کے مفروضے سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کچھ چیزوں کا واقعی کوئی سبب نہیں ہے اس صورت میں خدا کی بجائے کائنات بے سبب کیوں نہیں ہوسکتی؟ اور چونکہ کائنات موجود ہے اور اسے جانچا جاسکتا ہے چنانچہ اس سے پہلے خدا جیسی تصوراتی چیز کو داخل کرنے کی ضرورت نہیں ہے.”

    خدا نے ہر چیز پیدا کی ہے، چونکہ خدا کو چیزوں کے زمرے میں نہیں ڈالا جا سکتا اس لئے اس کو کس نے پیدا کیا، یہ سوال ہی اپنے معنی کھو دیتا ہے- ہم جس منطق پر چلتے ہوئے اس مقام تک آئے ہیں وہ منطق ہمیں یہاں پر اکیلا چھوڑ دیتی ہے اور ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی اور اسکی وجہ کرٹ گڈل کی The Incompleteness Theoremہے (ملاحظہ کیجئے http://en.wikipedia.org/wiki/Kurt_G%C3%B6del)
    خلاصہ اس کا یہ ہے:
    1- If the system is consistent, it cannot be complete.
    2- The consistency of the axioms cannot be proven within the system.

    1. "چونکہ خدا کو چیزوں کے زمرے میں نہیں ڈالا جا سکتا” (یعنی خدا کوئی چیز / شے ہی نہیں ہے)۔ ۔ ۔ یہ کہہ کر آپ نے خود ہی گفتگو کو اپنے منطقی انجام تک پہنچا دیا۔ کرٹ کے تھیورم سے خدا کو نہ اثبات مل سکتا ہے اور نہ نفی ہوتی ہے چنانچہ اسکا ذکر چہ معنی دارد؟

      1. Goedel کی تھیورم سے ہمیں یہ سمجھ آجاتا ہے کہ منطق کہاں تک مدد کرتی ہے اور اس کے بعدآدمی عقل سے کا م لے اورھٹ دھرمی چھوڑ دے-
        These theorems ended a half-century of attempts, beginning with the work of Frege and culminating in Principia Mathematica and Hilbert’s formalism, to find a set of axioms sufficient for all mathematics.
        in a consistent system, there will always be at least one true but unprovable statement.

        1. in a consistent system, there will always be at least one true but unprovable statement

          سب چیزیں /شے خدا نے بنائی ہیں اور وہ ان سب پر قادر ہے- خدا کوئی شے نہیں کیونکہ اسے کسی نے نہیں بنا یا-یہ وہ سچائی ہے جومنطق سے ثابت نہیں کی جاسکتی اسی لئے کرٹ گوڈل کی تھیورم کا یہاں محل ہے اور یوں آپ کا یہ معمہ حل ہوجاتا ہے کہ اگر ہر چیز خدا نے بنائی ہے تو پھر خدا کو کس نے بنایا ہے-

      2. in a consistent system, there will always be at least one true but unprovable statement

        سب کچھ خودبخود وجود میں آگیا کیونکہ ایسا عین ممکن ہے– اور یہ وہ سچائی ہے جوعام روز مرہ کی منطق و مشاہدے سے ثابت نہیں کی جاسکتی اسی لئے کرٹ گوڈل کے تھیورم کا یہاں محل ہے اور یوں آپ کا یہ معمہ حل ہوجاتا ہے کہ سب کچھ خودبخود وجو دمیں کیسے آگیا جبکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہر چیز کو کسی نہ کسی نے بنایا ہے-

        آپ یہی کہنا چاہتے ہیں نا؟ 😀

          1. اور بعینہ یہی احقر کا پوائنٹ بھی ہے کہ یہ مفروضہ بھی کہیں درست ثابت نہیں ہوا کہ کوئی ایسا ہے کہ جسنے یہ سب بنا ڈالا ہے۔ جب ایک ایسی شے (یا بقول آپکے لاشے) کو ہم نہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی ثابت کر سکتے ہیں تو اسکو اپنی زندگی میں اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں کہ نہ صرف اپنا بلکہ دوسروں کا بھی جینا حرام کیا ہوا ہے؟ ویسے بھی ایک تخیلاتی ہستی، کہ جو حقیقت میں کوئی شے ہی نہیں، یعنی وجود ہی نہیں رکھتی، کو اپنی زندگی میں اہمیت دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
            رہا universe out of nothing پہ تبصرے اور وڈیو کا معاملہ، تو قرآن کے اس بازار کہ جسمیں خریدار کو سب کچھ دستیاب رہتا ہے، پہ بھی گفتگو ہو چکی ہے، ملاحظہ فرمائیے۔
            http://realisticapproach.org/?p=4770

          2. چلیں آپ نے اتنا تو اقرار کیا کہ جس طرح یہ سب کچھ کسی نے بنایا ہے،اسی طرح سب کچھ خود بخود ہونے کوبھی منطق سے ثابت نہیں کیا جاسکتا-
            یہاں تک تو پنچے، یہاں تک تو آئے
            اس احقر کا مدعا یہی ہے کہ اس مسئلہ کو منطق سے حل کرنے کی کوشش عبث ہے-
            بات پھر وہیں آجا تی ہے کہ یہ سب کچھ خود بخود ہو گیا ہے یا ہو رہا ہے،عقل عام کے خلاف ہےاسی لئے اس مضمون میں اینڈرسن شا صاحب کو کلاسیکی سببیت کا حوالہ دینا پڑا
            جب آپ سبب کی بات کریں گے تو کائنات کے سبب کی بات بھی اٹھے گی-

          3. باقی رہی بازار والی بات تو ملاحظہ ہو میرا تبصرہ جو وہاں پہلے سے موجود ہے!
            جنگ نے فرمایا:
            March 19, 2013 at 4:33 pm
            ایاز نظامی صاحب، اب آپ جھنجھلاہٹ کا تاثر دیکر اس تحریر کے بنیادی سقم کو چھپانے کی ایک عبث کوشش کر رہے ہیں- متن اگر سیاق و سباق کے ساتھ زیر بحث ہوگا تو کیوں قابل اعتراض ہو گا؟ (سوائے اس کے کہ غلط استدلال کیا جارہا ہو)-
            سیاق و سباق سے الگ کر کے کسی کتاب سے تحریر کا کوئی ٹکڑا لے کر آپ اس پر جو کہانی چاہے بنا لیں-

          4. ہم نے اپنی بات مفصل طور پہ بیان کر دی ہے، یہاں تک کی گفتگو میں ہماری طرف سے مزید اضافے کی گنجائش نہیں ہے۔ آپ نے بھی اپنا مدعا بیان کر دیا ہے۔ لہٰذا قاری کو نتائج اخذ کرنے دیتے ہیں۔ آپ کے قیمتی خیالات اور علم شئیر کرنے کا شکریہ۔

    2. گوڈل کے برہان کا ایمانیات سے کوئی لینا دینا نہیں، گوڈل کے برہان نے صرف ہلبرٹ کے دوسرے مسئلے کو یہ کہہ کر ختم کردیا کہ کوئی بھی نظریہ جو کسی بھی منطقی نظام کو بیان کرتا ہو بیک وقت مستقل اور درست نہیں ہوسکتا کیونکہ کسی بھی مستقل نظریے میں درست عبارتیں ہوتی ہیں مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ قابلِ اثبات ہوں۔

      آپ نے اسے اپنی ایمانیات کو ثابت کرنے کے لیے بڑے جوش سے استعمال تو کر لیا ہے مگر شاید آپ نہیں جانتے کہ گوڈل نے ایسی کوئی نئی بات نہیں کی تھی سوائے ہلبرٹ کو غلط ثابت کرنے کے مگر آپ جیسے بعض پرجوش پادریان ومولویان نے اسے اپنے مذہبی اغراض ومقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔

      ایک چھوٹی سی مثال: نا مکمل ریاضیاتی نظام کا وجود ایسی کوئی نئی بات نہیں اور نا ہی یہ کسی طرح سے ❞سرپرائزنگ❝ ہے، جو بھی ریاضی یا دیگر عمومی علوم کا استعمال کرتا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ تمام علوم ناقص ہیں اور یہی شرط بھی ہے کہ انہیں بیک وقت ناقص اور غیر مستقل ہونا چاہیے کیونکہ ان کا کامل ہونا تب تک نا ممکن ہے جب تک کہ وقت نہ رک جائے۔۔ اضافیت نہ صرف ذراتی مداروں کی درست پیش گوئی نہیں کر سکتی بلکہ ڈھیر (مستقلیت کھودیتی ہے) ہوجاتی ہے اور اسے کوانٹم نظریے کی ضرورت پڑتی ہے، جبکہ خود کوانٹم نظریہ اس وقت ڈھیر ہوجاتا ہے جب وہ ذرات سے ذرا بڑے اجسام جو تیزی سے حرکت کر رہے ہوں کا حساب کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے اضافیت سے رجوع کرنا پڑتا ہے جو اسے درست برہان دیتا ہے، چنانچہ اضافیت تنہا ناقص ہے اور کوانٹم نظریہ بھی اکیلے ناقص ہے اس طرح ایک نظام دوسرے نظام کو مکمل بھی کرتا ہے اور رد بھی۔

      آپ کا بیان ایسے لوگوں کے لیے ذاتی ❞تفضیل❝ کے سوا کچھ نہیں ہے جو ماننا چاہتے ہیں، گوڈل بھی مؤمن تھا کیونکہ اس کے خیال میں کائنات کا حالیہ نظام ❞ریشنل❝ ہے چنانچہ اس کا کوئی ❞ریشنل❝ خالق بھی ہونا چاہیے، مگر افسوس کہ وہ 1978 میں ہی مسافرِ عدم ہوگیا اور سٹیفن ہاکنگ کی دی گرینڈ ڈیزائن نہیں پڑھی جس میں سٹیفن ہاکنگ نے ثابت کیا ہے کہ اس کائنات کے نظام میں بے ترتیبی وبد نظمی اپنے آخری حدوں کو چھو رہی ہے لہذا اس میں گوڈل کی پسندیدہ ❞ریشنیلٹی❝ بصد افسوس سرے سے ہے ہی نہیں، الٹا دی گرینڈ ڈیزائن میں ہاکنگ نے گوڈل کے برہان کو ہی استعمال کر کے یہ واضح کیا کہ علم اس کمال تک نہیں پہنچ سکتا جس کی ہلبرٹ نے توقع کی تھی اور ہمیں بد نظمی میں لامتناہی کائنات کو بیان کرنے کے لیے لامتناہی مساواتوں کی ضرورت ہوگی۔

      آپ گوڈل کے برہان سے مؤمنین کو خدا اور دوسری دنیا کی دلیل پیش کرنے سے یہ کہہ کر بچانا چاہتے کہ ❞چونکہ گوڈل نے کہا ہے کہ سائنس ناقص ہے اور کسی بھی مستقل نظام میں درست حقائق نہیں ہوتے جسے وہ نظام ثابت کر سکے چنانچہ ——> میں جو کہہ رہا ہوں وہ درست ہے❝ اس طرح سے تو کھچڑی بن جائے گی۔۔ کیونکہ پھر عیسائی بھی یہ قاعدہ اسلام کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ بلکہ اگر آپ ہی کی منطق پر چلا جائے تو گوڈل کا یہی برہان مذہب کو سیکنڈ کے ہزارویں اعشاریے سے بھی کم وقت میں غلط ثابت کر دے گا، مثلا: ❞گوڈل کا برہان یہ واضح طور پر ثابت کرتا ہے کہ قرآن بیک وقت درست اور مکمل نہیں ہوسکتا❝۔۔۔۔۔۔۔۔

      خلاصہ کلام یہ ہے کہ گوڈل جس نظام کی بات کرتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی دوسرا نظام اسے رد کرنے یا سرے سے ثابت کرنے کے قابل نہیں ہے! اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ مدعی پر سے اثبات کا بوجھ ہٹ گیا۔

      عقل مندوں کو سلام!

      1. جناب اینڈرسن شا صاحب!
        معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اضافیت اور کوانٹم کے دائرے الگ الگ ہیں اسی لئے ان کو ایک نظریہ میں ضم کرنے کی کوشش ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے- لہذا آپ کا یہ کہنا کہ وہ ایک دوسرے کو رد کرتے ہیں صحیح نہیں-اسی طرح ریاضی/منطق میں برٹرنڈ رسل تک یہ کوشش کی جا رہی تھی کہ ہم کیوں نہ ایسا نظام بنالیں جس کی کسوٹی پر پرکھ کر ہر مفروضے کوغلط یا صحیح ثابت کیا جا سکے-گوڈل نےاپنے انقلابی کام سےاس کوشش کو کارعبث ثابت کیا- چونکہ آپ کا مضمون منطق کا استعمال کرتے ہوئے اپنا مقدمہ ثابت کرنے کی ایک سعی تھی اس لئے ضروری تھا کہ گوڈل کا حوالہ انتباہ کے طور پر کر دیا جائے
        مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے

        1. آپ کے اس جواب سے مجھے یقین ہوچلا ہے کہ آپ کو گوڈل کے برہان کی رتی بھر بھی سمجھ نہیں ہے اور اس سے آگے اب سفسطہ اور میں نا مانوں ہی رہ گیا ہے جس کا علاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں 😀

          قارئین کی خدمت میں دی گرینڈ ڈیزائن سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے جس میں ہاکنگ نے گوڈل کے برہان کا استعمال کیا ہے:

          Because gravity shapes space and time, it allows space-time to be locally stable but globally unstable. On the scale of the entire universe, the positive energy of the matter can be balanced by the negative gravitational energy, and so there is no restriction on the creation of whole universes. Because there is a law like gravity, the universe can and will create itself from nothing in the manner described in Chapter 6. Spontaneous creation is the reason there is something rather than nothing, why the universe exists, why we exist. It is not necessary to invoke God to light the blue touch paper and set the universe going.
          Why are the fundamental laws as we have described them? The ultimate theory must be consistent and must predict finite results for quantities that we can measure. We’ve seen that there must be a law like gravity, and we saw in Chapter 5 that for a theory of gravity to predict finite quantities, the theory must have what is called supersymmetry between the forces of nature and the matter on which they act. M-theory is the most general supersymmetric theory of gravity. For these reasons M-theory is the only candidate for a complete theory of the universe. If it is finite—and this has yet to be proved—it will be a model of a universe that creates itself. We must be part of this universe, because there is no other consistent model.
          M-theory is the unified theory Einstein was hoping to find. The fact that we human beings—who are ourselves mere collections of fundamental particles of nature—have been able to come this close to an understanding of the laws governing us and our universe is a great triumph. But perhaps the true miracle is that abstract considerations of logic lead to a unique theory that predicts and describes a vast universe full of the amazing variety that we see. If the theory is confirmed by observation, it will be the successful conclusion of a search going back more than 3,000 years. We will have found the grand design

          جیسا کہ نظر آرہا ہے گوڈل کے برہان کے استعمال کا یہی درست طریقہ ہے، ہاکنگ نے اسے استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ M-Theory ہی واحد امیدوار ہے اور اسے محض مشاہداتی ثبوت کی ضرورت ہے۔

          رہا گوڈل کے برہان کے استعمال کا وہ طریقہ جو آپ نے اپنایا ہے کہ ہر بدیہی درست ہے جب تک کہ اس کا الٹ ثابت نہ کیا جائے تو انتہائی معذرت کے ساتھ یہاں مسئلہ ہے، ایک عیسائی کے لیے عیسی کا خدا کا بیٹا ہونا بداہت ہے، اگر آپ اسے گوڈل کے برہان کے استعمال کی اجازت دے دیں جس طرح آپ نے اسے استعمال کیا ہے تو وہ آپ سے کہے گا کہ یہی بدیہی ہے اور اس کا الٹ ثابت کریں۔۔ تب آپ کو اپنی منطق کے نقص کی سمجھ آئے گی، یہ ایک عام علمی اصول ہے کہ اثبات کا بوجھ مدعی پر ہے نا کہ اثبات کے طالب پر!!

          اگر ہم محمد کو نبی مان لیں تو ہمیں مندرجہ ذیل مفروضے قائم کرنے ہوں گے:

          1- کوئی خدا ہے
          2- اس نے محمد کو نبوت دینے کے لیے فرشتہ بھیجا
          3- محمد پر قرآن نازل کیا

          ان آئیڈیاز پر میں فی الوقت اوکیم کا استرا لاگو نہیں کروں گا بلکہ ایسا دعوی کرنے والے کو اپنے دعوے کے اثبات کے لیے ثبوت لانے کو کہوں گا جو میرا حق ہے اور مدعی کا فرض، اب یہ کوئی جواب نہیں کہ گوڈل کا برہان کہتا ہے کہ تم میرے مفروضے کو غلط ثابت کرو، بنیادی طور پر آپ چیزیں فرض کر رہے ہیں میں نہیں!!

          علمی طریقہ کار کے مطابق یہ کہنا کہ محمد اللہ کا نبی ہے محض ایک آئیڈیا ہے جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے، مگر یہ کوئی مسلمہ نہیں ہے اور یہی بنیادی نکتہ ہے کہ تعریف میں مسلمہ ہی نقطہ آغاز ہے، یہ مسلمہ اس لیے ہے کیونکہ کوئی بھی ایسی منطقی چیز نہیں ہے جس پر وہ خود کو کھڑا کر سکے، بلکہ ہم خود کوئی چیز بنانے کے لیے اسے نقطہ آغاز کے طور پر رکھنے پر مجبور ہیں۔ یہ اصول کسی بھی مسلمہ سے بدیہیت کی نفی کرتا ہے جیسا کہ آپ نے اوپر پیش کیا ہے، چنانچہ گوڈل کے برہان کو اپنی پسندیدہ چیزوں (بدیہیات) کے لیے استعمال کرنا کہ وہ مسلمہ ہیں آپ کو ایسے ہی کسی دوسرے مسلمہ سے تضاد اور ٹکراؤ کی طرف لے جائے گا جو آپ کو پسند نہیں مگر کسی دوسرے شخص کو پسند ہے جس نے اسے بھی گوڈل کے برہان سے ہی مسلمہ بنایا ہے، اور چونکہ کوئی بھی مسلمہ اگر تضاد کی طرف لے جائے تو وہ مسلمہ نہیں کہلاتا چنانچہ وہ باطل (False) ہوتا ہے۔

          1. جناب اینڈرسن شا صاحب!
            آپ کے اس تبصرے کے پہلے حصے کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ کے بقیہ تبصرے کا جواب حاضر ہے-
            سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہاکنگ نے اپنی اس کتاب کے پہلے باب میں ہی طبیعات کے بجائےمابعدالطبیعات کو اصل موضوع قرار دیا ہے:
            To understand the universe at the deepest level, we need to know not only how the universe behaves, but why.

            Why is there something rather than nothing?
            Why do we exist?
            Why this particular set of laws and not some other?

            This is the Ultimate Question of Life, the Universe, and Everything. We shall attempt to answer it in this book
            اب یہ بات تو آپ کے علم میں ہوگی کہ سائنس کا اصل موضوع how ہے نہ کہ why
            ہاکنگ نے ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے جو سائنس کے دائرے سے باہر ہیں، اس لئے اس کے جواب کی اتنی ہی حیثیت ہے جتنی زید اور بکر کے جوابوں کی
            دوسری بات یہ ہے کہ ازراہ کرم اسکی اس کتاب میں سے اس باب کا حوالہ دیں جہاں پر ہاکنگ نے گوڈل کی تھیورم کا ذکر کیا ہے اور اسے اپنے استدلال کے اثبات کے لئے استعمال کیا ہے-
            آخری بات یہ کہ میرا اصل اعتراض اب بھی یہی ہے کہ منطق سے ان مسائل کا جواب نہیں مل سکتا اس لئے میں نے گوڈل کا حوالہ دیا کہ منطق کی اپنی حدود ہیں جہاں سے آگے عقل کودوبارہ غوروفکر کی ریاضت میں کھپانا ضروری ہو جاتا ہے – اور امید ہے کہ آپ کو منطق اور عقل کا فرق معلوم ہی ہوگا

          2. ❞آپ کے اس تبصرے کے پہلے حصے کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ کے بقیہ تبصرے کا جواب حاضر ہے-❝

            بالکل جناب، جہاں پھنس رہے ہوں اور جواب نہ بن پڑتا ہو تو نظر انداز کردو۔۔ 🙂

            ❞سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہاکنگ نے اپنی اس کتاب کے پہلے باب میں ہی طبیعات کے بجائےمابعدالطبیعات کو اصل موضوع قرار دیا ہے۔❝

            آپ ہاکنگ کے منہ میں وہ نہ ڈالیں جو انہوں نے نہیں کہا، آپ نے جو اقتباس پیش کیا ہے اس میں کہیں نہیں لکھا کہ کتاب کا اصل موضوع ما بعد الطبیعات ہے، اگر عینک لگاتے ہیں تو عینک کا نمبر چیک کریں ورنہ نظر چیک کرائیں۔

            ❞اب یہ بات تو آپ کے علم میں ہوگی کہ سائنس کا اصل موضوع how ہے نہ کہ why❝

            یہ شاید اسلام کی لولی لنگری تیسرے درجے کی تھرڈ کلاس ❞بے ادبیات❝ میں ہوگا کہ سائنس کا موضوع how ہے نہ کہ why تاکہ مذہبی خرافات کو لوگوں کے ذہنوں میں گھسیڑنے کا موقع مل سکے، why سائنس کا اتنا ہی پرانا موضوع ہے جتنا کہ how ہے، کبھی مذہبی خرافات کے لٹریچر سے سر نکال کر سائنس کی پرانی کتابیں پڑھی ہوں تو آپ کو پتہ ہو، میں آپ کو ایسی دس کتابیں گنوا سکتا ہوں جو ہندوستان میں آپ کی بدو نسل کے شروع ہونے سے بھی پہلے کی ہوں گی۔

            ❞ہاکنگ نے ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے جو سائنس کے دائرے سے باہر ہیں، اس لئے اس کے جواب کی اتنی ہی حیثیت ہے جتنی زید اور بکر کے جوابوں کی❝

            اب یہ آپ جیسے پادری اور مولوی لوگ فیصلہ کریں گے کہ ہاکنگ کو کن سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کرنی چاہیے اور کن کی نہیں؟ آپ کی اور آپ جیسے ڈھائی ہزار ایک سو پچاس کی اس کے سامنے کون سی علمی حیثیت ہے؟ میرے خیال سے تو چودہ سو سال پہلے کے اس جاہل بدو کی حیثیت بھی اس عالم کے پیروں کی جوتی کے برابر بھی نہیں، وہ اس زمانے کا مایہ ناز طبیعات دان ہے، ہاکنگ کے خدا میں جان لینکس کو بھی اس کی علمی حیثیت تسلیم کرنی پڑی اور کہا کہ اگر ❞ہاکنگ ایفیکٹ❝ آج کی ٹیکنالوجی سے قابلِ قیاس ہوتا تو اسے نوبل انعام مل چکا ہوتا۔۔ ملا ذہنیت ہے نا آپ کی، آپ کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی (اور سمجھ بھی نہیں آرہی) کہ ہاکنگ نے کائنات کو بغیر خدا کے علمی طور پر کیسے تخلیق کروا دیا، نا ہی میں آپ کو سمجھانے پر اپنا وقت برباد کروں گا جیسا کہ اوپر آپ کو آپ ہی کا پیش کردہ گوڈل کا برہان سمجھانے میں ضائع کیا کیونکہ آپ اپنی ڈیڑھ انچ کی محمڈن مسجد سے کبھی باہر آ ہی نہیں پائیں گے، آپ جیسوں کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں آپ کے خدا کی موت تو نہیں ہونے والی؟ تاریخ گواہ ہے کہ ہر نئے علمی انکشاف پر مذہب پہلے انکار کرتا ہے، اور آخر میں ہتھیار ڈال دیتا ہے، آپ نہ سہی آپ کی اگلی نسلوں کو یہ تسلیم کر کے ہی بنے گی اور اگر نہیں تو آخر کوئی تو وجہ ہے کہ محمد کی امت دنیا کی جاہل ترین امت ہے اور آپ اس جاہل امت کے مایہ ناز جاہل جو اس امت کو مزید جہالت کی پستیوں میں دھکیلے چلے جا رہے ہیں۔

            ❞دوسری بات یہ ہے کہ ازراہ کرم اسکی اس کتاب میں سے اس باب کا حوالہ دیں جہاں پر ہاکنگ نے گوڈل کی تھیورم کا ذکر کیا ہے اور اسے اپنے استدلال کے اثبات کے لئے استعمال کیا ہے-❝

            میں نہ کہتا تھا کہ آپ کو گوڈل کے برہان کی رتی بھر بھی سمجھ نہیں، یہ ایک اور ثبوت ہے، کیونکہ ایک حوالہ ننگی آنکھ سے یہاں پر سب کو نظر آرہا ہے، آپ نے تو شاید پڑھا بھی نہیں ہوگا، اور اگر پڑھا بھی ہوگا تو مجھے یقین ہے کہ ❞ککھ❝ سمجھ نہیں آئی ہوگی۔

            ❞آخری بات یہ کہ میرا اصل اعتراض اب بھی یہی ہے کہ منطق سے ان مسائل کا جواب نہیں مل سکتا اس لئے میں نے گوڈل کا حوالہ دیا کہ منطق کی اپنی حدود ہیں جہاں سے آگے عقل کودوبارہ غوروفکر کی ریاضت میں کھپانا ضروری ہو جاتا ہے – اور امید ہے کہ آپ کو منطق اور عقل کا فرق معلوم ہی ہوگا❝

            درست فرمایا منطق کی حد ہوتی ہے، جہالت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔

          3. جناب اینڈرسن شا صاحب!
            ازراہ کرم اپنا جواب چھاپنے سے پہلے نظر ثانی کی مشق سے گذارا کریں کیونکہ آپ کا جواب logical fallacies کی بہترین مثالوں سےبھرا پڑا ہے ۔ چند ایک جو فوری طور پر نمایاں نظر آسکتی ہیں پیش خدمت ہیں:

            Ad hominem – attacking the arguer instead of the argument; e.g. name-calling rather than arguing about the originally proposed argument.

            Appeal to authority – where an assertion is deemed true because of the position or authority of the person asserting it

            Straw man – an argument based on misrepresentation of an opponent’s position

            امید ہے کہ اس تبصرے کے بعد آپ گالیوں پر نہیں اتر آئنگے

  2. جناب جنگ صاحب منطقی مغالطوں پر پلنے والی امت محمڈیہ کے سپوت ہمیں منطق پڑھائیں گے؟ خالی کاپی پیسٹ کرنے سے آپ کی بات درست نہیں ہوجاتی کیونکہ آپ نے ان مقامات کی نشاندہی ہی نہیں کی کہ جہاں یہ مغالطے موجود ہیں اور آپ کر بھی نہیں سکتے کیونکہ آپ اس کے اہل ہیں ہی نہیں کیونکہ اگر آپ اہل ہوتے تو اوپر میرے تبصروں پر سیر حاصل گفتگو فرماتے مگر وہ آپ سے ہو نہ سکا اور اب آپ بوکھلا کر اپنی عزت بچانے کے لیے محض سفسطے سے کام لے رہے ہیں کہ کہیں یہ نہ کہا جائے کہ جنگ صاحب لا جواب ہوگئے حالانکہ آپ کے جوابات اپنی لا جوابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، آپ کو نا تو میرا پہلا تبصرہ پلے پڑا ہے اور نا ہی دوسرا اور نا ہی منطق آپ کے بس کا موضوع معلوم ہوتا ہے، جائیے پہلے منطق پڑھیے اور اسے پڑھتے ہوئے جب چار بال سفید ہوجائیں تب تشریف لا کر منطق پر بحث کیجیے گا۔

    1. جناب اینڈرسن شا صاحب!
      M-نظریہ کے بارے میں بتادوں تاکہ آپ اپنے مغالطے سے نکل آئیں- یہ نظریہ اصل میں کئی نظریوں کا مجموعہ ہے اور سائنس دان اس میں شامل انفرادی نظریوں میں ردو بدل یا کسی ایک یا ایک سے زیادہ نظریہ کو اس میں سے نکال دینے یا کوئی نیا نظریہ جمع کرنے کے قائل ہیں اوراس لئے اگر کوئی اور یا ہاکنگ یہ کہے کہ یہی نظریہ کائنات کی مکمل توجیہ کرے تو یہ ایک طرح کی tautalogy ہے اور کچھ نہیں
      امید ہے کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ M-theory stands for mother of all theory اور جہاں تک supersymmetry کی ٹوکری کا تعلق ہے’ جس میں آپ نے اپنے سارے انڈے رکھے ہوئے ہیں اس کے متعلق اکثر سائنسدانوں نے برات کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے اور یہ ٹوکری اب الٹنا ہی چاہتی ہے – ملاحظہ ہو اس لنک سے یہ اقتباس:http://scienceblogs.com/startswithabang/2013/05/15/the-rise-and-fall-of-supersymmetry/

      As always, continued experimentation will be the ultimate arbiter of nature, but I think it’s fair to say that the only reason SUSY gets as much positive press as it does is for two simple reasons.

      A lot of people have invested their entire careers in SUSY, and if it’s not a part of nature, then a lot of what they’ve invested in is nothing more than a blind alley. For example, if there is no SUSY in nature, at any energy scale, then string theory is wrong. Plain and simple.
      There are no other good solutions to the hierarchy problem that are as satisfying as SUSY. If there’s no SUSY, then we have to admit that we have no idea why the masses of the standard model particles have the value that they do.
      Which is to say, SUSY or not, physics still has a lot of explaining to do, and there’s work to be done. But the biggest problem is that SUSY predicts new particles, and it predicts their existence to occur in a fairly specific range of energies.

      If they’re not there, then this isn’t the right story. At this point, the theoretical hoops being jumped through to keep SUSY “viable” (and yes, that belongs in air quotes) given our experimental null results are getting progressively more and more extravagant. I’m not much of a betting man, but if I were, I’d say that SUSY is already dead. It’s just waiting for the coffin nails to be hammered in.

      1. آپ بھی کیا لطیفہ ہیں جنگ صاحب، ہمیشہ گندم کا جواب چنا ہی دیتے ہیں، اب مجھے غصے سے زیادہ ہنسی آرہی ہے 😀

        اب جب میں نے منطقی مغالطوں کی نشاندہی کی بات کی تو وہ ساری بات گول کر کے آپ نے ایک نیا محاذ کھول لیا کہ جی یہ دیکھو یہاں یہ ہے اور وہاں وہ ہے حالانکہ ان باتوں کا نا تو اس تحریر سے کوئی تعلق بنتا ہے اور نا ہی گوڈل کے برہان سے بلکہ آپ کو تو ان باتوں کی بھی سمجھ نہیں ہے، آپ ایک اچھے مولوی ضرور ہوں گے مگر سائنس اور منطق آپ کے بس کی بات نہیں، اپنی نہ سہی خلقِ خدا پر ہی رحم فرما لیں۔۔ 🙂

        1. جناب اینڈرسن شا صاحب!
          چلیں آپ نے تبصرےکو خندہ پیشانی سے لیا، بہت خوشی ہوئی:)
          ایم-تھیوری کا ذکر آپ ہی کے ہاکنگ کی کتاب سے حوالہ دینے کی وجہ سے کیا گیاہے-چونکہ آپ نے اس کا حوالہ دیکر خدا کے انکار کا مطلق دعوی کر دیا تھا اس لئے ضروری ہوگیا تھا کہ اس نظریہ اور خاص طور پر سپر سمٹری پر تازہ ترین تحقیق آپ کی توجہ میں آجائے-

          1. آپ کے تکلف کا شکریہ مگر شاید آپ کے علم میں نہیں کہ ٹرائن سے لے کر ہاکنگ تک بیچ میں پچاس ایسے اور طبیعات دان بھی ہیں جنہوں نے ایسے کئی کائناتی ماڈل پیش کیے ہیں جن سے کائنات بغیر کسی پیشگی زمان ومکان کے وجود میں آسکتی ہے اور اس ضمن میں صرف ہاکنگ کا ماڈل ہی واحد امیدوار نہیں ہے، میں سوچ رہا ہوں کہ آپ کس کس ماڈل کو رد کرتے پھریں گے؟!

جواب دیں

28 Comments
scroll to top