Close

انصاف کا فسانہ

جب ابتدائی انسان نے کچھ شعور پکڑا تو اپنے تجربے سے اسے یہ معلوم ہوا کہ طاقتور ہی ہمیشہ زیادہ تر چیزوں پر قابض ہوجاتا ہے اور اس طرح کمزوروں پر ظلم کا مرتکب ہوتا ہے، اسی صورتحال کا سامنا جاگیر داروں اور تاجروں کی صورت میں بھی رہا جنہوں نے اقلیت ہونے کے باوجود صرف طاقت کے بل بر اقلیت پر مظالم ڈھائے اور ان کا استحصال کیا، اس صورتحال کے حتمی نتیجے کے طور پر انسان نے "انصاف” کا مفہوم ایجاد کیا جو ہر انسانی معاشرے کے تمام افراد میں مساوات کا مظہر تھا، مگر یہ خوبصورت نظریاتی مفہوم نظریاتی ہی رہا اور حقیقی دنیا میں اس کا اطلاق انتہائی مشکل ثابت ہوا، مگر انسان پھر بھی اس کا مشتاق رہا، یہی وجہ ہے کہ جب انسان نے آسمانی خداؤں کا نظام ایجاد کیا تو کچھ خداؤں کو انصاف کی صفت بھی مرحمت فرما دی تاکہ وہ اسے طبعی آفتوں، برے انسانوں کے شر اور برائی کے خدا سے نجات دلا سکے، پھر اس نے افسانے گھڑے جن میں اچھائی کا خدا برائی کے خدا سے لڑ کر مظلوم انسانوں کی نصرت کرتا اور انہیں بچاتا ہے، مگر انصاف کا مفہوم پھر بھی افسانوں اور قصے کہانیوں تک ہی سمٹا رہا اور انسانی معاشروں میں اس کا اطلاق نہ ہوسکا.

پھر اتفاق سے وہ مشہورِ زمانہ تینوں توحیدی مذاہب کہیں سے نمودار ہوئے اور دعوی کیا کہ خدا ہی انصاف ہے اور اس کے انصاف جیسا کوئی انصاف نہیں ہے، مگر ان مذاہب نے جب یہ فرمایا کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت میں بنایا ہے اور اس میں اپنی روح پھونکی ہے تب وہ اپنی بات میں ہی تضاد کا شکار ہوگئے، کیونکہ اگر انسان خدا کی صورت میں ہی بنایا گیا ہے جو عین انصاف ہے اور اس کی روح خدا کی روح کا ہی حصہ ہے تو پھر دنیا میں ظلم اور برائی کے انبار کہاں سے لگ گئے؟ کئی فلسفیوں نے اس تضاد کو حل کرنے کی بھرپور کوششیں کی مگر ناکام رہے، چنانچہ صورتحال سے تنگ آکر بیل Bayle نے کہا کہ:

1- یا تو خدا دنیا سے ظلم اور برائی کا خاتمہ چاہتا ہے مگر کر نہیں سکتا
2- یا پھر وہ ایسا کر سکتا ہے مگر کرنا نہیں چاہتا
3- یا وہ نا چاہتا ہے اور نا ہی کر سکتا ہے
4- یا تو چاہتا ہے اور قادر ہے

اگر پہلے مفروضے کو درست تسلیم کر لیا جائے تو خدا کمزور ثابت ہوگا اور خدا ہونے کے لائق نہیں رہے گا، اگر دوسرے مفروضے کو درست تسلیم کیا جائے تو خدا حاسد قرار پائے گا جو انسان کی زندگی پر حسد کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس پر اپنے ظلم جاری وساری رکھے اور اسے سکھ کا سانس نہ لینے دے، اگر تیسرے مفروضے کو تسلیم کرلیا جائے تو خدا کمزور ہوگا اور خدا ہونے کے قابل نہیں رہے گا، اور اگر آخری یعنی چوتھا مفروضہ درست ہے یا درست تسلیم کر لیا جائے یعنی خدا دنیا سے ظلم وبرائی کا خاتمہ کر سکتا ہے اور ختم کرنا بھی چاہتا ہے تو پھر دنیا میں ظلم وبرائی کی موجودگی نا ممکن ہے.. مگر چونکہ دنیا میں ظلم وبرائی موجود ہے چنانچہ یہ امر یقینی ہے کہ یہ ظلم خدا کی روح سے ہی آرہا ہے جو اس نے انسان میں پھونکی جس وہ ظالم بن گیا، سوزن نیمن (Susan Neiman) اپنی کتاب ایول ان ماڈرن تھاؤٹ (Evil in Modern Thought) میں رقمطراز ہیں کہ: "شاید کائنات کی خوبصورتی اور اس کے قوانین کا نظم وضبط خالق کی حکمت کے گواہ ہوں، مگر مخلوق جو خالق کی صورت میں بنائی گئی اس حکمت کی عکاسی نہیں کرتی، چنانچہ اگر ہم نسلِ انسانی کی تاریخ اور اس کے مظالم پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ خالق کی حکمت اور خوبصورتی کی صفات ایسی صفات ہیں جن کا دفاع نہیں کیا جاسکتا”.

اس ضمن میں اگر اسلامی خدا کی بات کی جائے تو وہ کہتا ہے:

وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (سورہ الذاریات آیت 56)
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔

یعنی انسان کو تخلیق کرنے کی پہلی اور آخری وجہ محض اس کی عبادت ہے اور جو اس کی عبادت نہیں کرے گا وہ گویا اپنے وجود کی وجہ سے انحراف کا مرتکب ہوگا اور خدا اسے سخت ترین سزا دے گا، اگر خدا انصاف پسند ہوتا تو انسان کو اپنی عبادت کے لیے پہلے سے ہی پروگرام شدہ بناتا اگر اسے تخلیق کرنے کا مقصد محض اپنی عبادت ہی کروانا تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ اس کے برعکس قرآن میں ایسی بہت ساری آیات ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر لوگ جنہیں خدا نے تخلیق کیا ہے اس کی عبادت نہیں کرتے:

1- اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ وَ یَتۡلُوۡہُ شَاہِدٌ مِّنۡہُ وَ مِنۡ قَبۡلِہٖ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّ رَحۡمَۃً ؕ اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِہٖ مِنَ الۡاَحۡزَابِ فَالنَّارُ مَوۡعِدُہٗ ۚ فَلَا تَکُ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡہُ ٭ اِنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ (سورہ ہود آیت 17)
بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل روشن رکھتے ہوں اور انکے ساتھ ایک آسمانی گواہ بھی اسکی جانب سے ہو اور اس سے پہلے موسٰی کی کتاب ہو جو پیشوا اور رحمت ہے تو کیا وہ قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے؟ یہی لوگ تو اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو کوئی اور فرقوں میں سے اس سے منکر ہو تو اس کا ٹھکانہ آگ ہے تو تم اس قرآن سے شک میں نہ ہونا۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

2- وَ اتَّبَعۡتُ مِلَّۃَ اٰبَآءِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ ؕ مَا کَانَ لَنَاۤ اَنۡ نُّشۡرِکَ بِاللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ عَلَیۡنَا وَ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَشۡکُرُوۡنَ (سورہ یوسف آیت 38)
اور میں اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب کے مذہب پر چلتا ہوں۔ ہمیں شایاں نہیں ہے کہ کسی چیز کو اللہ کے ساتھ شریک بنائیں یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر بھی اور لوگوں پر بھی۔ لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔

3- وَ مَاۤ اَکۡثَرُ النَّاسِ وَ لَوۡ حَرَصۡتَ بِمُؤۡمِنِیۡنَ (سورہ یوسف آیت 103)
اور بہت سے آدمی گو تم کتنی ہی خواہش کرو ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

4- الٓـمّٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ ؕ وَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ الۡحَقُّ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ (سورہ الرعد آیت 1)
الٓمرا۔ اے نبی یہ کتاب الٰہی کی آیتیں ہیں۔ اور جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

5- وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنٰہُ بَیۡنَہُمۡ لِیَذَّکَّرُوۡا ۫ۖ فَاَبٰۤی اَکۡثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوۡرًا (سورہ الفرقان آیت 50)

6- وَ لَقَدۡ ضَلَّ قَبۡلَہُمۡ اَکۡثَرُ الۡاَوَّلِیۡنَ (سورہ الصافات آیت 71)
اور ان سے پیشتر بہت سے پہلے لوگ بھی گمراہ ہو گئے تھے۔

7- اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ لَّا رَیۡبَ فِیۡہَا وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ (سورہ غافر آیت 59)
قیامت تو آنے والی ہے اسکے آنے میں کچھ شک نہیں۔ لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں رکھتے۔

مزید یہ کہ خدا نے لوگوں کو تخلیق کرنے سے پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ جہنم کو ان سے اور جنوں سے بھی بھردے گا:

1- قَالَ اخۡرُجۡ مِنۡہَا مَذۡءُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا ؕ لَمَنۡ تَبِعَکَ مِنۡہُمۡ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنۡکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ (سورہ الاعراف آیت 18)
اللہ نے فرمایا نکل جا یہاں سے پاجی۔ مردود جو لوگ ان میں سے تیری پیروی کریں گے میں ان کو اور تجھ کو جہنم میں ڈال کر تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔

2- وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوۡنَ مُخۡتَلِفِیۡنَ ﴿118﴾ۙ  اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ رَبُّکَ ؕ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَہُمۡ ؕ وَ تَمَّتۡ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿119﴾ (سورہ ہود)
اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی جماعت کر دیتا اور وہ برابر اختلاف کرتے رہیں گے۔ – مگر جن پر تمہارا پروردگار رحم فرمائے اور اسی لئے اس نے انکو پیدا کیا ہے اور تمہارے پروردگار کا قول پورا ہو گیا کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔

3- وَ لَوۡ شِئۡنَا لَاٰتَیۡنَا کُلَّ نَفۡسٍ ہُدٰىہَا وَ لٰکِنۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ مِنِّیۡ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ (سورہ السجدہ آیت 13)
اور اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے دیتے۔ لیکن میری طرف سے یہ بات قرار پاچکی ہے کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔

4- لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنۡکَ وَ مِمَّنۡ تَبِعَکَ مِنۡہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ (سورہ ص آیت 85)
کہ میں تجھ سے اور جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔

یہاں خدا کہتا ہے کہ اگر وہ چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی ملت پر پیدا کرتا مگر اس نے انہیں مختلف پیدا کیا تاکہ "میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا” کا جواز پیدا کیا جاسکے.. معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ "وہ برابر اختلاف کرتے رہیں” جیسا کہ سورہ ہود کی آیات 118 اور 119 میں کہا گیا ہے چنانچہ وجہ تخلیق یہی ہے حالانکہ پہلے یہ کہا گیا تھا کہ اس نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت کے لیے بنایا ہے اور اب کہتا کہ انہیں اس لیے بنایا ہے تاکہ وہ آپس میں اختلاف کر سکیں، چاہے ہم وجہ تخلیق کے اس تضاد سے صرف نظر کر بھی لیں، کیا انصاف پسند خدا کو یہ زیب دیتا ہے جو سارے انسانوں کو ایک امت وملت پر پیدا کر کے ان کے درمیان اختلاف کے امکانات ختم کر سکتا تھا، انہیں ایک دوسرے سے مختلف اور کئی مذاہب پر محض اس لیے پیدا کرے تاکہ انہیں جہنم میں بھرنے کا اپنا کیا ہوا وعدہ وفا کر سکے؟ اور اگر خدا انصاف پسند ہوتا تو کیا وہ اپنی نافرمانی کرنے والے ابلیس کو قیامت تک اپنے بندوں کو بہکانے کے لیے کھلا چھوڑ دیتا؟ کیا یہ انصاف ہے کہ جنہیں محض اپنی عبادت کے لیے بنایا انہیں بہکانے کے لیے ابلیس کو زندہ چھوڑ دیا جائے؟ اور کیا یہ انصاف ہے کہ لوگوں کو محض ایک ہی وجہ یعنی اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا جائے اور عبادت نہ کرنے پر انہیں بھون ڈالا جائے؟ ان لوگوں کا کیا جن سے اگر پوچھا جاتا تو وہ پیدا ہونا ہی پسند نہ کرتے؟ خدا انہیں پیدا کرنے سے پہلے انہیں یہ اختیار دے سکتا تھا کیونکہ اس نے آدم کی پیٹھ سے اس کی ساری اولاد کو نکال کر ان سے قسم لی اور پھر انہیں آدم کی پیٹھ میں واپس کردیا.

اور کیا یہ انصاف ہے کہ خدا لوگوں کو بہکائے اور جب وہ بہک جائیں انہیں سزا دے جیسا کہ سورہ انعام کی آیت 125 میں کہا کہ:

فَمَنۡ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنۡ یَّہۡدِیَہٗ یَشۡرَحۡ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ ۚ وَ مَنۡ یُّرِدۡ اَنۡ یُّضِلَّہٗ یَجۡعَلۡ صَدۡرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ ؕ کَذٰلِکَ یَجۡعَلُ اللّٰہُ الرِّجۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ
تو جس شخص کو اللہ چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے۔ گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ اس طرح اللہ ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے عذاب بھیجتا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ خدا مجرموں کی طرح مکر بھی کرتا ہے (وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ – اللہ سب سے بہتر مکر کرنے والا ہے – سورہ انفال آیت 30) بلکہ اس کا مکر مجرموں کے مکر سے کہیں بڑھ کر ہے، وہ اپنی آیات پر یقین نہ کرنے والوں کو گھیر کر غلطیاں کرواتا ہے پھر انہیں ان غلطیوں کی سزا دیتا ہے (وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا سَنَسۡتَدۡرِجُہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ لَا یَعۡلَمُوۡنَ – اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا انکو ہم بتدریج اس طرح پکڑیں گے کہ انکو معلوم ہی نہیں ہو گا۔ سورہ الاعراف آیت 182). استدراج یعنی Baiting کوئی پسندیدہ فعل نہیں ہے اور اسے ہر انسانی معاشرے میں برا سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ انسان کو ایسے جرائم کرنے کی شہہ دیتا ہے جو کہ اگر کوئی اسے شہہ نہ دلاتا تو وہ کبھی نہ کرتا، کیا انسانی قوانین خدا کے قوانین سے زیادہ با انصاف ہیں؟

اور کیا انصاف پسند خدا کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ظالم کے ظلم کی سزا بے گناہوں کو دے؟ لیکن قوم لوط، عاد اور ثمود بلکہ کئی دیگر قوموں کے ساتھ اس نے یہی کیا جب پورے کے پورے گاؤں اور شہر بمع مکینوں کے محض اس لیے نیست ونابود کردیے کیونکہ ان میں سے کسی اقلیت نے فحش کام کیے تھے یا صالح کی اونٹنی کے پیر کاٹ دیے تھے؟ ان معاشروں میں بچوں کا کیا قصور تھا؟ کیا انہوں نے یہ منکر کیا تھا یا اونٹنی کے پیر کانٹنے میں مدد دی تھی؟ اور چاہے انہوں نے حصہ لیا بھی ہو کیا دنیا کے تمام قوانین یہ نہیں کہتے کہ بالغ ہونے تک بچے اپنے قول وفعل کے ذمہ دار نہیں ہیں؟

اب ہم جانتے ہیں کہ طبعی آفتیں جیسے زلزلے طوفان وغیرہ خدا کے انتقام کا ذریعہ نہیں ہوسکتے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کیوں اور کیسے ہوتے ہیں، یہ ایسے صحرائی یا پہاڑی علاقوں میں بھی آسکتے ہیں جہاں ایسا کوئی بھی نہیں رہتا جنہیں خدا سزا دینا چاہتا ہو!! کیا اس سے خدا کی ایمان داری اور انصاف مشکوک نہیں ہوجاتا جو کہتا ہے کہ اس نے ان طبعی آفتوں کے ذریعے شہروں کے شہر تباہ کردیے؟ نومبر 1755 میں سپین کے شہر برسیلونا میں آنے والے زلزلے کے بعد یہ نقطہ یورپی فلسفیوں کے ہاں بھی زیرِ بحث رہا، زلزلے کے بعد ایک سونامی آیا اور ہزاروں انسان، جانور، گھر سب تباہ وبرباد ہوگئے، اس وقت عیسائی پادریوں کا فرمان تھا کہ زلزلہ خدا کی طرف سے اس شہر کے مکینوں پر عذاب تھا کیونکہ انہوں نے تفتیشی عدالتیں قائم کر کے عیسائیت کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، مگر وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ زلزلے کی وجہ سے کئی گرجے تو تباہ ہوگئے مگر شہر میں قائم ایک فحاشی کا اڈہ کیونکر محفوظ رہا؟!.

جرمن فلاسفر لیبنز Gottfried Leibniz نے شر کو تین قسموں میں تقسیم کیا جن میں ایک طبعی شر Natural evil ہے جو ان تکالیف پر مشتمل ہے جو انسانوں کو اپنی زندگی میں درپیش ہوتے ہیں، دوسری قسم اخلاقی شر Moral evil ہے جو ان جرائم پر مشتمل ہے جو انسان سے سرزرد ہوتے ہیں جن کی سزا طبعی شر ہوتا ہے، اور تیسری قسم غیبی یا ما بعد الطبیعاتی شر  Metaphysical evil ہے جو کہ مادہ کی فرسودگی ہے اور مادے کی اسی فرسودگی کی وجہ سے زلزلے اور دیگر طبعی آفتیں آتی ہیں چنانچہ ان کی وجہ سے خدا کو الزام نہیں دینا چاہیے، اگر اس بیان کو تسلیم کرلیا جائے کہ اخلاقی شر وہ جرائم ہیں جن کا ہم ارتکاب کرتے ہیں تو کیا یہ انصاف ہے کہ خدا ان جرائم کی پاداش میں انسان کو دنیا میں طبعی آفتوں کی صورت میں سزا دے پھر آخرت میں انہی جرائم کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم برد کردے اور جب بھی ان کی چمڑی جل کر خاکستر ہوجائے اسے نئی چمڑی سے بدل دے؟

اصولی طور پر سزا جرم کی مناسبت سے دی جانی چاہیے یا جیسا کہ انگریزی میں کہتے ہیں کہ Punishment must befit the crime اگر کوئی شخص 65 سال جیتا ہے جس میں کہ پندرہ سال بچپنے کی عمر ہے جس میں وہ مکلف نہیں ہے تو کیا پچاس سال خدا کی نافرمانی کرنے پر ہمیشہ ہمیشہ کی سزا انصاف کے عین مطابق ہے؟ کیا یہ سزا جرم سے راست متناسب ہے؟ پجاس سال کی نافرمانی پر خدا اسے پچاس سال کی سزا کیوں نہیں دیتا؟

بعض جرائم جن کی سزا انسان کو ازل تک ملتی رہے گی متعین ہی نہیں ہیں مثلاً قرآن میں ملتا ہے کہ:

اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ ؕ ذٰلِکَ لَہُمۡ خِزۡیٌ فِی الدُّنۡیَا وَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ (سورہ المائدہ آیت 33)
جو لوگ اللہ اور اسکے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی یہی سزا ہے کہ بری طرح قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے غائب کر دیئے جائیں۔ یہ تو دنیا میں انکی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب تیار ہے۔

یہاں جرم کا کوئی تعین نہیں ہے، انسان اللہ سے کیسے لڑ سکتا ہے؟ اور یہ فساد کون سا ہے؟ چاہے فقہاء فساد کی نوعیت کا تعین بھی کرلیں تب بھی سزا جرم کی نوعیت کے حساب سے متعین نہیں ہے، بعض کو بری طرح قتل کیا جاسکتا ہے، یا سولی پر چڑھایا جاسکتا ہے یا ہاتھ پاؤں کاٹے جاسکتے ہیں یا ملک بدر بھی کیے جاسکتے ہیں، اب ملک بدر ہونے والے کو قتل کیے جانے والے یا ہاتھ پاؤں کاٹے جانے والے سے کم سزا ملی اگرچہ جرم ایک ہی ہے یعنی خدا سے لڑائی یا زمین پر فساد.. اسی پر بس نہیں.. یہ سب تو محض دنیا میں ہے آخرت میں مزید ایک بہت بڑا بھاری عذاب ان کا منتظر ہے.. کیا ایک ہی جرم پر دو دفعہ سزا دینا انصاف کے عین مطابق ہے؟

سزا کے حوالے سے اگر احادیث سے رجوع کیا جائے تو وہ کچھ ملتا ہے کہ جسے پڑھ کر سر کے بال بھری جوانی میں ہی سفید ہوجائیں:

عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ سے گذرے (جہاں قبریں تِھیں) تو(دو قبر والوں کے بارے میں) فرمایا (اِنَّہُمَا لَیُعَذَّبَانِ وما یُعَذَّبَانِ مِن کَبِیرٍ اَمَّا اَحَدُہُمَا فَکَانَ یَسعَی بِالنَّمِیمَۃِ وَاَمَّا اَحَدُہُمَا فَکَانَ لَا یَستَتِرُ من بَولِہِ) ( اِن دونوں کو قبر میں عذاب ہو رہا ہے اور کِسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہا تو اِن میں ایک تو چغلی کیا کرتا تھا ور دوسراخود کو اپنے پیشاب (کی چیھنٹوں) سے بچایا نہیں کرتا تھا)
( صحیح البُخاری / حدیث ١٢٩٥ /کتاب الجنائز / باب ٨٠ ،صحیح مسلم / حدیث ٢٩٢/کتاب الطہارہ / باب ٣٤

کیا خود کو پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچانے جیسے معمولی جرم کے لیے – اگر یہ واقعی جرم ہے – قبر میں ہمیشہ کے لیے ایسی دردناک سزا دینا کہ اگلے کی چیخیں تک قبر سے باہر آرہی ہوں، انصاف ہے؟ کیا ایسی احادیث سے خدا کے انصاف پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے جس نے فضول قسم کی باتوں کے لیے دردناک ترین سزائیں متعین کر رکھی ہیں؟

اور اگر احادیث میں بچوں کے انجام کے بارے دیکھا جائے تو تعجب خیز مواد ملتا ہے مثلاً: حضرت ابن مسعود راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عقبہ ابن معیط کو مار ڈالنے کا ارادہ کیا تو (اس نے) کہا کہ (میرے بچوں کو کون پالے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”آگ ” ۔(ابو داؤد)، سیوطی کی الحاوی للفتاوی میں ہے کہ: رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزِ قیامت بغیر سر کے بچوں کو لایا جائے گا تو اللہ تعالی کہیں گے: تم کون ہو، تو وہ کہیں گے: ہم مظلوم ہیں، اللہ تعالی کہیں گے: تم پر کس نے ظلم کیا ہے، وہ کہیں گے: ہمارے آباء مردوں سے ہمبستر ہوتے تھے اور ان میں اپنی منی خارج کرتے تھے، اللہ تعالی کہیں گے: انہیں آگ میں لے جاؤ اور ان کے ماتھے پر لکھ دو اللہ کی رحمت سے مایوس.

جو خدا کسی بچے کو محض اس لیے جہنم برد کردیتا ہو کہ اس کے باپ نے بدر میں نبی سے جنگ کی تھی، اور جو خدا بچوں کے سر کاٹ کر انہیں اپنی رحمت سے مایوس کر کے محض اس لیے جہنم رسید کردیتا ہو کیونکہ ان کے آباء نے مردوں سے لواطت کی اور اپنی منی ان میں خارج کی، ایسا خدا انصاف کے مفہوم کے عین مطابق منصف کہلائے گا؟

اس میں شک نہیں کہ اسلامی خدا جسے ایک مرد کی صورت میں پیش کیا گیا ہے جس کے دو ہاتھ پیر ہیں اور جو اپنے عرش پر بھی بیٹھتا ہے جسے آٹھ فرشتوں نے اٹھا رکھا ہے کا انصاف سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، اور اگر کوئی مسلمان یہ دعوی کرتا ہے کہ اس کا خدا عادل ومنصف ہے تو پھر یہ یقیناً ایک ایسا خدائی انصاف ہوگا جسے ہم نہیں جانتے.

انہی وجوہات کی بناء پر بعض فلسفیوں نے جیسے ہیگل نے خدا کی موت کا اعلان کردیا جبکہ کچھ دوسروں فلسفیوں نے جیسے روسو نے کہا کہ خدا رحیم ہے مگر ہمیں اس کی اور اس کی رحمت کی ضرورت نہیں ہے، فریڈریک اینگلز نے کہا کہ: "نسلِ انسانی تب تک آزاد نہیں ہوسکتی جب تک وہ خدا کو دیے ہوئے اپنے اختیارات واپس نہیں لے لیتی” چنانچہ خدائی انصاف ہمیشہ افسانہ ہی رہے گا کیونکہ خدا انسان ہے اور انسان اب تک اپنی زندگی میں انصاف قائم نہیں کر سکا ہے.

جواب دیں

0 Comments
scroll to top