عدم کے بطن سے نمودار ہونے والے ایک انتہائی چھوٹے سے نقطے سے اتنی بڑی اور خوبصورت کائنات کا وجود میں آنا حیرت انگیز امر ہے… اس نکتے پر میں اکثر مذہب پرستوں سے اتفاق کروں گا کہ عقل کے لیے ابھی تک ایسی نامعقول بات کا تصور کرنا تقریباً نا ممکن ہے… بلکہ مضحکہ خیز طور پر یہ کائناتی تعجب خیزی فرض کرنا اس قدر نا ممکن ہے کہ ہمیں اپنے وجود کے أغاز کے نا معقول مسئلے کے حل کے لیے اس سے بھی بڑی نا معقول چیز فرض کرنی پڑجاتی ہے… بلکہ یہ سمجھانے کے لیے کہ ہم اس قدر بے وقوف ہیں کہ اس کائنات کو نہیں سمجھ سکتے ہم ایک ایسی قوت کا وجود فرض کرلیتے ہیں جو ہم سے بھی زیادہ ذہین اور اس کائنات سے بڑی ہے جو اس کائنات کے وجود کی وجہ ہے، اور ہٹ دھرمی یہ کہ اوپر سے یہ قوت ہمیں خود اُس پر سوچنے تک سے بھی منع کرتی ہے اور یوں ہم اپنی حماقتوں کی ساری وجوہات اس قوت پر ڈال دیتے ہیں جسے ہمارا ذہین ہونا منظور نہیں… کیا کبھی آپ نے سوال سے بھاگنے کا اس سے بڑا احمقانہ طریقہ دیکھا ہے؟ بات پلے پڑی؟ اگر نہیں تو یوں سمجھتے ہیں:
سلیم: تم نے اس آدمی کو کیوں مارا؟
جاوید: کیونکہ ” بابا ” نے کہا تھا.
سلیم: بابا نے تمہیں اس آدمی کو مارنے کے لیے کیوں کہا؟
جاوید: بابا کچھ بھی کرنے میں آزاد ہے ہمیں اس سے اس طرح کے سوالات کرنے کا حق نہیں ہے.
سلیم: مگر میں سمجھنا چاہتا ہوں.
جاوید: ہماری عقل ناقص اور چھوٹی ہے چنانچہ ہم جتنی بھی کوشش کر لیں ہم بابا کی حکمت کو نہیں سمجھ سکتے.
یہ اور ایسے کئی اسباب اور مسببات ہیں جن کے ذریعے اصل جواب سے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے ایک ایسا جواب پیش کیا جاتا ہے جو اپنے آپ میں ” ناجواب ” ہوتا ہے.
جوابات کے اس ” گول مول ” انداز میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ خدا پر اس قدر کائناتی نقائص اور برائیاں چپکا دیتا ہے کہ ذہنوں میں موجود خدا کا وہ اعلی تصور ڈھیر ہوکر رہ جاتا ہے.. یہ چیزوں اور معاملات کی وجوہات اور مسببات پر ایک انتہائی سطحی فکر ہے جہاں بُری باتوں کو گول مول القاب عطاء کر کے حقیقی جوابات سے راہِ فرار اختیار کی جاتی ہے.. یوں مذہب کی تاریخ نے خدا میں جو خامیاں تخلیق کی ہیں اور جن میں سب سے بڑا کردار مذہب کے ٹھیکے داروں نے ادا کیا ہے، یوں ہیں:
نکما: خدا اس قدر نکما ہے کہ اس کی بہترین تخلیق ایک بے وقوف اور برے جانداروں پر مشتمل ہے جو نہ صرف اس کا ادراک نہیں کر سکتے بلکہ انہیں درپیش مصیبتوں میں سے وہ اس کی حکمت تک نہیں سمجھ سکتے.
محدودیت: خدا آسمان پر کچھ مخصوص مقامات پر موجود ہوتا ہے جیسے عرش اور زمین پر اس کے کچھ چند گھر.
فضولیت: خدا بلا کسی وجہ اور مقصد کے ازل سے موجود ہے اور اچانک ہی وہ بلا وجہ آسمان اور زمین بنانے کا فیصلہ کرتا ہے جس میں نا تو اس کا کوئی فائدہ ہے اور نا ہی اس کی مخلوق کا.
سخت گیری: خدا اتنا سخت گیر ہے کہ اس کی سختی دنیا کے تمام ظالموں، مجرموں اور قاتلوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ وہ بے قصور لوگوں پر ڈھائے جانے والے طبعی وغیر طبعی مظالم خاموشی سے ایک تماش بین کی طرح دیکھتا رہتا ہے اور ذرا بھی جنبش نہیں کرتا.
درندگی: خدا اتنا بڑا درندہ ہے کہ وہ زندہ مخلوق بنا کر انہیں زندگی کی مصیبتیں جھیلنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے، پھر بھی اس کا جی نہیں بھرتا اور وہ انہیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں بھونتا رہتا ہے، حالانکہ وہ اس مخلوق کا دردناک انجام جانتا ہے مگر پھر بھی وہ انہیں تخلیق کرتا ہے.
انتہاء پسندی: خدا اتنا بڑا انتہاء پسند ہے کہ وہ اپنی ساری مخلوقات میں سے کسی ایک مخلوق کو برتر قرار دیتا ہے، پھر اس مخلوق میں بھی بعض کو بعض پر برتر قرار دیتا ہے اور پھر ان بعض میں سے کچھ کو ان باقیوں سے برتر قرار دیتا ہے اور یوں انتہاء پسندی کا یہ سلسلہ ادنی تر درجے تک جاری رہتا ہے جس کی وجہ سے تاریخ خون خرابے سے بھری پڑی ہے.
خباثت: خدا خبیث ہے کیونکہ وہ پیدائشی طور پر معذور مخلوق پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ مخلوق ساری زندگی محتاجی اور عذاب میں مبتلا رہتی ہے.
خوں خوار: خدا خوں خوار ہے کیونکہ وہ ایسی مخلوقات تخلیق کرتا ہے جو ایک دوسرے کو کھا کر زندہ رہتی ہیں.
سطحیت: خدا بہت سطحی ہے، کیونکہ اتنی عظیم کائنات تخلیق کرنے، اور اس قدر پیچیدہ انسان پیدا کرنے کے بعد جو اس کی حکمتوں کو نہیں سمجھ سکتا اسے اس کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی اور فضول قسم کی باتوں پر سزا دیتا ہے جیسے رفع حاجت، کھانے کی اقسام، بستر پر شریک شخص کی جنس وغیرہ.
عاجزی: خدا اپنی مخلوقات سے بات کرنے سے بالکل عاجز وقاصر ہے یہی وجہ ہے کہ ہر کچھ ہزار سال بعد وہ ایک نبی بھیجتا ہے جس کے ساتھ اس کا ایک پیغام ہوتا ہے جسے ممکنہ طور پر ہر زمان ومکان کے لیے کارآمد ہونا چاہیے ہوتا ہے مگر وہ پیغام کارآمد نہیں ہوتا چنانچہ وہ دوبارہ ٹرائی کرتا ہے اور کچھ عرصہ بعد ایک اور نبی ایک اور پیغام کے ساتھ دوبارہ بھیجتا ہے اور خدا کی ناکامیوں کا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے.
جہالت: خدا مکمل طور پر طبیعات، کیمیاء، طب، جغرافیا، تاریخ، ادب، انسانی آداب واخلاق سب سے مکمل طور پر نا واقف اور جاہل ہے، اس کی مقدس کتابیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں.
عظمت کا جنون: خدا خطرناک حد تک عظمت کے جنون میں مبتلا ہے، مخلوقات کو تخلیق کرنے کا اس کا واحد مقصد یہی ہے کہ وہ دن رات، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، نہاتے دھوتے بس اس کی تسبیح کرتے اور اسے سجدے کرتے رہیں.
جنس کا عقدہ: خدا ایک مشرقی مرد کی ذہنیت کا حامل ہے جو جنس کے عقدے کا شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ عورت سے جلتا کڑھتا رہتا ہے اور ہر دم اسے نیچا دکھانے اور اسے ڈبوں میں پیک کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، عورت چاہے دنیا کی آخری اعلی ترین ڈگری ہی کیوں نا حاصل کر لے اس کی نظر میں وہ پھر بھی ایک جاہل گنوار بھنگی سے کم تر ہی رہتی ہے کیونکہ وہ ہر حال میں اپنے ہم جنسوں کو اس سے برتر دیکھنا چاہتا ہے، عورت کے جسم سے تو اسے خاص الرجی ہے جو ذرا سا بھی کہیں سے اگر نظر آجائے تو اس کا غصہ ساتویں آسمان تک پہنچ جاتا ہے، ہاں اس کے ہم جنس بھلے چڈی بنیان میں گھومتے رہیں.
غصہ: خدا ہمیشہ غصے میں رہتا ہے، ہر فضول سی بات پر غصے میں اس کا عرش ہلنے لگتا ہے، مثلاً اگر کوئی کسی غلط شخص کے ساتھ ہمبستر ہوجائے تو خدا آپے سے باہر ہوجاتا ہے.
تنہائی: خدا دائمی نزلے کی طرح دائمی ازلی تنہائی کا شکار ہے یوں اس پر پڑنے والے غصے کے دورے اور عذاب دینے کے اس کے مختلف پیچیدہ طریقے سمجھ میں آتے ہیں، جو تنہائی کا شکار ایک بیمار ذہن کی علامت ہیں.
یہ تھیں خدا کی کچھ مختصر بیماریاں جن کا مختلف مذاہب کا خدا شکار نظر آتا ہے، قومیں جتنا مذہب کے ٹھیکیداروں کو ڈھیل دیتی جائیں گی خدا کی یہ بیماریاں اس قدر پیچیدہ ہوتی چلی جائیں گی، چنانچہ میری تمام سچے مؤمنین کو یہ نصیحت ہے کہ اگر آپ خدا تک پہنچنا چاہتے ہیں تو اسے خود تلاش کریں، کسی کو بھی یہ اجازت مت دیں کہ وہ خدا کی صورت بگاڑ کر اسے سونے کی طشتری میں آپ کو پیش کرے، اس طرح خدا حقیقت کی تلاش وجستجو سے عاجز دماغوں کے لیے ایک لذیذ پکوان بن کر رہ جائے گا، اگر خدا موجود ہے اور اسے آپ میں دلچسبی ہے تو اسے آپ کو اپنی پہچان کرانے میں کسی واسطے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے، حقیقت جاننے کے لیے آپ کا سچا ہونا کافی ہے.
آج کلاس روم میں خدا نے بچوں سے پوچھا: بتاؤ مصیبت میں کون کام آئے ـ بچوں نے یکساتھ جواب دیا صرف خدا ـ مگر ایک بچے نے مختلف جواب دیا کہ مصیبت میں صرف میری ماں کام آئے ـ خدا نے اُس بچے کو پاس بلایا اس کے دونوں کان کھینچے پھر پوچھا بھلا وہ کیسے کہ ہم سے افضل تیری ماں ہے ـ بچے نے جواب دیا: ایک مرتبہ سیڑھیوں سے پھسل گرگیا ـ کئی بار خدا کو پکارا ـ آپ تو نہیں آئے صرف ایک بار ماں کو پکارا وہ دوڑی چلی آئی اور مجھے اٹھاکر سینے سے لگالیا ـ
سوال و جواب کی تقریب میں خدا سے پوچھا کہ دنیا میں سب سے افضل جگہ کونسی ہے؟ فرمایا: نائٹ کلب، ڈسکو، میخانہ یا پھر سرکاری ٹرانسپورٹ ـ جواز پوچھنے پر فرمایا: چونکہ یہاں سبھی مذاہب کے لوگ یکساں ہوتے ہیں ـ کوئی اونچ نیچ نہیں، ذات پات، بھید بھاؤ نہیں ـ تمام مذہبی پابندیوں سے آزاد گھل مل کر یہاں موج مستی کرتے ہیں ـ
ایک ذیلی سوال کے جواب میں خدا نے فرمایا: یوں تو شروع دنیا سے رواج ہے جو طاقتور ہو اسی کی جیت ہے ـ سامنے والے کی طاقت کا اندازہ کر اس کے آگے سر جھکانا لازم ہے چاہے وہ مجبوری میں کیوں نہ ہو ـ اگر جاپان میں ایٹم بم نہ گراتے تو آج سبھی کا قبلہ مشرق ہوتا ـ اگر جنوب و شمال میں سجدہ کرنا ہے تو امریکہ پر ایٹم بم گراکر دکھاؤ ـ
خدا نے اپنے سارے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھالئے اور لوگوں سے فرمایا ہم پہ ایمان لاؤ بالکل جیسے پچھلے خداؤں پر ایمان لاتے تھے ـ مقدس کتاب کے طور وکی پیڈیا ہے چاہو تو من مانی ترمیم کرلو ـ تمباکو اور شراب سے خود کی صحت بگاڑلو مگر یہ حرام بالکل نہیں ـ تم انسان ایکدوسرے کیلئے ہیں سو آپس میں ایکدوسرے کی خوشنودی حاصل کرو مگر خدا کو خوش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے دانت نہیں ـ ہر انسان دوسرے انسان کا مددگار ہے اور خدا کو لاکھ بار مدد کیلئے پکارو، پھر بھی وہ نہیں آئے کیونکہ خدا کے کان نہیں ـ انسان ہی انسان کا دوست اور دشمن ہے ـ سزا دینا اور معاف کرنا اس واسطے انسان خود مختار ہے ـ ابھی اجتماعی دعا مانگو اور ہمیں بلاؤ مگر ہم نہیں آسکتے ہمارے پاس پاؤں نہیں کہ انسان کی طرح تمہاری مدد کو آجائیں ـ فلسطین، عراق، افغان اور پاکستان میں ہر دن دعاؤں میں ہمیں پکارتے، زخموں پر مرہم لگوانے بلواتے، کافروں سے بدلہ لینے ہماری مدد مانگتے ہیں ـ مگر ہم کس کس کی مدد کرے، کہاں کہاں جائے، کس کی دعا قبول کرے؟ کس کو ریجکٹ کرے حالانکہ ہم بغیر دعا کے خدا بن گئے چونکہ ہم خودمختار ہیں جیسے انسان ہیں ـ ـ جاری
[مندرجہ بالا تبصرہ جات (خدا کی قسطوں) کے اقتباسات ہیں]
اور کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم الله اور قیامت کے دن پر ایمان لائے حالانکہ وہ ایمان دار نہیں ہیں۔
امام غزالی کی نصیحت
بے شک عوام کا فرض ہے کہ ایمان اور اسلام لا کر اپنی عبادات اور روزگار میں مشغول رہیں، اور علم (دینی) کو علماء کیلئےچھوڑ کر انکے حوالے کریں ۔عامی شخص کا دینی علم کے سلسلے میں حجت کرنا زناء اور چوری سے بھی زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہے۔کیونکہ جو شخص دینی علوم میں بصیرت اور پختگی نہیں رکھتا وہ اگر اللہ تعالیٰ اور اسکے دین کے مسائل میں بحث کرتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ وہ ایسی رائے قائم کرے جو کفر ہو اور اسکو اسکا احساس بھی نہ ہو کہ جو اس نے سمجھا ہے وہ کفر ہے۔اسکی مثال اس شخص کی سی ہے جو تیرنا نہ جانتا ہو اور سمندر میں کود جائے۔(احیاءالعلوم ۔ص۳۶،ج ۳)
اللہ تعالیٰ نام ہے اس ذات کا جو کہ تمام صفات کمالیہ کا جمع کرنے والا ہے اور تما م عیوب و زوال سے مبراء ہے۔
اے رب المشرقین و المغربین …..تو کیا ہی حلیم ہستی ہے…. اور کیا ہی بے نیاز ہے.
اینڈرسن شا صاحب… مجھ جیسے کم فہم کو آپ کی یہ تحریر بلکل بھی سمجھ نہیں آئی… کیا آپ کم از کم یہ بتانا مناسب سمجھیں کہ آپ کی اس تحریر اور خدا کے بارے میں آپ کی باقی تحاریر کا مقصد کیا ہے؟؟؟ آپ یہ سب کچھ کیوں لکھ رہے ہیں… اور جو ذکر آپ نے اوپر کیا ہے… کیا وہ "اللہ” کی ذات کے بارے میں ہے… یا ہندووں، عیسائیوں اور بدھوں نے جو "خدا” بنا رکھے ہیں… ان کے بارے میں ہے…؟
امید ہے کہ جواب دیں گے… اور مجھ ناچیز کے علم میں اضافہ کریں گے…
والسلام…
درویش خراسانی صاھب، جی ہاں کچھ نہیں زیادہ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پہ اور روز قیامت پہ ایمان لاتے ہیں. پھر اسکے بعد اپنے ایمان سے دوسروں کا ایمان اتنا درست کرتے ہیں کہ صرف وہ ایماندار باقی بچ جاتے ہیں. اور دوسرے سوچتے ہیں اس ایمان سے تو ہم لنڈورے ہی بھلے. پھر ان اہل ایمان کے پیش کئے گئے اخلاق اور کردار کے عملی نمونے دیکھیں تو یقین ہوتا ہے کہ وہ عملی طور پہ دہرئیے ہیں اور طاقت کی زبان پہ یقین رکھتے ہیں. اور اس کے لئے مذہب کو ایک خطرناک ہتھیار کے طور پہ استعمال کرنا چاہتے ہیں. یوں یہ اہل ایمان، مذہب کے لئے مذہب کش ثابت ہوتے ہیں.
تصور خدا ، بنیادی اہمیت کا حامل ہے. جیسا خدا ہم تصور کرتے ہیں ویسے ہی اخلاق اور کردار کا ہم مظاہرہ کریں گے. معاف کرنے والا خدا ہمارے اندر معافی کی صفت پیدا کرے گا، مہربان خدا، مہربانی کی، بے نیاز خدا ، بے نیازی کی، کریم خدا، کرم کی، منصف خدا، انصاف کی، قاہر خدا ، قہر کہ ، جابر خدا جبار کی، غاضب خدا ، غضب کی. کیونکہ خدا انسان کا تصور ہے، ہم میں سے کسی نے اس سے بہ نفس نفیس ملاقات نہیں کی ہے.
اب رسول اللہ کے زمانے کے ھالات دیکھیں. اس قوم کی اخلاقی حالت اور جغرافیہ دیکھیں جس میں انہون نے اپنا پیغام پیش کیا. تو اسلام کا تصور خدا اس وقت ایسے خدا کو سامنے لاتا ہے. جو تمام انسانوں کے لئے ہے، جس نے تمام کائینات کو پیدا کیا،جو انسان کو کسی مثبت طرز عمل پہ آگے کی طرف بڑھتے دیکھنے چاہتا ہے، جو انسان میں تدبر اور علم چاہتا ہے. جو انسان میں اسکے انسان ہونے کا زعم اور فخر چاہتا ہے. جو چاہتا ہے کہ انسان اپنے اس زعم اور فخر میں سچا ثابت ہو اور وہ اس کائینات کو اس طرح جان لے جیسا کہ وہ اس کائینات کا مالک و مختار ہے.
یوں دین تو مکمل ہو گیا تھا لیکن انسان کو بڑے عظیم کام انجام دینے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا. اس لئے اسلام کی سب سے اہم علامت کتاب بنی.
لیکن پچھلے ڈیڑھ ہزار سال کی جدو جہد شاقہ کے بعد اسلام کے پیروکار ایک ایسے خدا کا تصور پیدا کرنے میں کامیاب ہوءے ہیں جو فاتح خدا ہے. اس نے مکہ سے تین سو ساٹھ بتوں کو باہر کر دیا. اور خود انکی جگہ آ موجود ہوا. فتح، مفتوح کے اوپر ہی برے اثرات نہیں ڈالتی فاتح کے لئے بھی کچھ مثبت اثرات نہیں رکھتی. فتح کی جنگ میں بھی مفتوح اور فاتح کو ایک سطح پہ سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے.
خد ا اور مسلان کے درمیان ایک سمجھوتہ تیار ہو گیا ہے. فاتح خدا وہ سب خصوصیات نہیں رکھتا جو اسکے ساتھ منسوب کی گئ تھیں. اور جس سے مزید روحانی اور دنیاوی ترقی ممکن ہوتی. مفتوح وہ نہ بن سکے جو ان سے مطلوب تھا. جذبہ ء فتح ان سب کو نگل چکا ہے. فتح کا سفر ابھی جاری ہے. نہیں معلوم، آخر میں کیا بچے گا.
خدا سے محبت اور نفرت کرنے کیلئے انسانوں کے اخلاقیات کا غیر متوازن ہونا ضروری ہے ۔ انسان جیسے خود ہوتے ہیں ویسے ہی خدا کو دوسرے انسانوں سے محبت یا نفرت کرنے کیلئے استعمال کر لیا کرتے ہیں ۔ اگر ریڈی میڈ خداؤں سے کام نہ چلے تو انسان خود سے بھی ریڈی میڈ خداؤں کو مزید ٹیلر کر لیا کرتے ہیں ۔
انسانی تاریخ میں دوسرے انسانوں کو اپنی مرضی کے خدا سے ملوانا تو ابھی تک ممکن نہیں ہوا مگر دوسرے انسانوں کو انکی مرضی کے لائق نہ نظر آنے والے خدا دستیاب کرنا نسبتا آسان رہا ہے ۔
خدا کے بارے بہت سارے سوالات ہم سب کے اذہان میںموجود ہوتے ہیں. اگر خدا کے حوالے سے نہ سہی تو مذہبی بنیادوں پر بہت سارے سوالات ہمارے ذہن میں ہوتے ہیں. کوئی اسے قالین کے نیچے دبا کر خوش ہو جاتا ہے تو کوئی اسے نظر انداز کر کے. اینڈرسن شا بھائی کے بارے میری رائے ہے کہ انہوںنے انہی سوالات کو عام انداز میں کرنے کی کوشش کی تھی جس کا جواب شاید فتاوٰی سے دیا گیا. اسی وجہ سے وہ اپنے سوالات کو زیادہ ابھار کر سامنے لا رہے ہیں. میں نے ان کے بلاگ کی کچھ انٹریاں ہی پڑھی ہیں. میرا تبصرہ کچھ ایسے ہے:
اگر اینڈرسن شا بھائی نے آرام سے ایک سوال کیا ہے اور اس کی بابت اپنے دلائل دیئے ہیں تو یا تو ان کا جواب دلائل سے ہو یا پھر کم از کم نرمی سے. اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک "کافر” یا ایک "ملحد” کچھ سوالات اس موضوع سے اٹھا رہا ہے جو آپ سے بھی کسی طرح متعلق ہے تو میری سمجھ میں ان کا یا تو شافی جواب دیا جائے یا پھر ان جوابات کی تلاش جاری رکھی جائے. میں نہ مانوں ہمیںمحض پیچھے لے جاتی ہے.
اینڈرسن شا بھائی کو میں زیادہ نہیںجانتا، لیکن ان کے بارے کافر یا ملحد جیسے الفاظ میرے نزدیک درست نہیں. انہوںنے اپنے اسلام کو چھوڑنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیںکیا.
کچھ عرصہ قبل میرے ایک دوست نے اپنے عیسائی مذہب کے حوالے سے ایک سوال کیا کہ جب خدا نے حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم دیا تو عیسائی عقائد کے مطابق انہیںبہت محدود وقت دیا گیا تھا. انہوںنے کشتی تیار کی اور دنیا بھر سے جانوروں کو اکٹھا کیا. یعنی ان چند دنوں میں انہوںنے دنیا کے کونے کونے کا چکر لگایا. قطب جنوبی سے پینگوئن، قطب شمالی سے برفانی ریچھ، ہمالیہ کی چوٹیوں سے وہاںکے جانور اور زمین کی گہرائیوں سے ہر جانور کو اٹھایا. کیا یہ سب کام چند دنوں میںممکن تھا؟ اگر تھا تو کیا وہ سب جانور ایک کشتی پر پورے آگئے؟ وغیرہ وغیرہ.
چونکہ اس کا سوال اس کے اپنے مذہب کے حوالے سے ایک وضاحت تھی کہ وہ کیوں مذہب کو نہیں مانتا، اس لئے میں نے ہنس کر بات گول کر دی. تاہم میرے ذہن میں یہ سوال موجود رہا ہے. تاہم اس سوال یا اس طرح کے دیگر سوالات کے جوابات کی تلاش میںہوں. ہو سکتا ہے کہ مجھے ان کے جوابات مل جائیں یا نہ ملیں. تاہم جب تک مجھے ان سوالات کے جوابات سو فیصد یقین سے نہیںملتے، میں اپنے مذہب کو چھوڑنے والا نہیں. اگر جوابات بظاہر کتنے ہی درست کیوں نہ ہوں، میں نے اپنا مذہب نہیںچھوڑنا. تاہم سوالات کے جوابات کی تلاش جاری رکھنا میرا بنیادی حق ہے.
اگر اینڈرسن شا بھائی کے سوالات کے جوابات ہمارے پاس نہیں تو ہمیں ان کی تلاش جاری رکھنی چاہیئے. اپنے جواب کو دلائل سے مستحکم کرنا چاہیئے نا کہ آنکھیںبند کر لیں کہ بلی مجھے نہیں دیکھ رہی.