گزشتہ سے پیوستہ
مولانا وحیدالدین کی کتاب مذہب اور سائنس کے دیباچے کے تجزئیے پہ ہمارے محترم دوست نے (انکا جواب دینے کی بجائے) کچھ اعتراضات اٹھائے کہ ہم نے محض دیباچے ہی پہ بات کی ہے اور کتاب کے اصل موضوعات کو گول کر گئے۔ جبکہ ہمارا مقصد قارئین کو یہ دکھانا تھا کہ جس کتاب کا حوالہ ہمارے محترم دوست نے دیا ہے اسکی بنیاد ہی منطقی مغالطوں اور حقیقت سے چشم پوشی پہ رکھی گئی ہے،چنانچہ ہم اسکے بقیہ مضمون سے کیا توقع رکھیں گے۔ انکا گلہ دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر یاد رہے کہ بلاگ کی کم سپیس اور ہماری دیگر مصروفیات کے باعث پوری کی پوری کتاب پہ تبصرہ کرنا ممکن نہیں، چنانچہ ہم انہی نقاط پہ روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے کہ جن کا ذکر ہمارے فاضل دوست نے اپنے اعتراضات میں کیا ہے۔ ویسے بھی یہ کتاب اس قابل ہر گز نہیں کہ اس پہ اپنا یا قاری کا وقت برباد کیا جائے۔
اپنی کتاب کے پہلے باب "طرزِ استدال” میں استدلال کے چوتھے طریقے کو انہوں نے مذہب کے اثبات اور دلیل کے لئے استعمال کیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ طرزِ استدلال کا چوتھا طریقہ کیا ہے اور انکا یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے کہ مذہب کے دعوے بھی اس طرزِ استدلال کے میعار پہ پورے اترتے ہیں۔
طرزِ استدلال کا چوتھا انداز: "مشاہدات و تجربات، خواہ ٹیکنیکل سائنس کی رو سے اصل دعویٰ سے براہِ راست مربوط نہ ہوں مگر اسکے حق میں جائز قرینہ پیدا کرتے ہوں، نیز انکی توجیہ کے لئے کوئی بہتر تصور موجود نہ ہو تو ایسے استدلال کو بھی جائز اور صحیح استدلال سمجھا جائے گا۔"
اسی کے ذیل میں مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ مذہب کے خلاف دورِ جدید کا مقدمہ دو متضاد پہلووں کا حامل ہے، ایک طرف کہا جاتا ہے کہ مذہب چونکہ ایسے عقائد کا مجموعہ ہے جسکا مظاہرہ ممکن نہیں، اور دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جدید دریافتوں نے مذہبی عقائد کو باطل ثابت کر دیا ہے۔
چنانچہ مولانا صاحب پوچھتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں، اگر مظاہرہ ممکن نہیں تو اسکا رد کس طرح ممکن ہے؟
باشعور اور جدید طبقہ جب کہتا ہے کہ مذہبی عقائد کا مظاہرہ ممکن نہیں ہے تو اس سے مراد مذہب کے ایسے دعوے ہیں کہ جنکا کوئی ثبوت موجود نہیں اور عقل کے خلاف ہیں۔ مثلا” مذہب کا جنوں، فرشتوں، خدا اور شیطان کے وجود کا دعویٰ۔ چونکہ انکا کوئی ثبوت نہیں ہے سوائے مذہب کے دعوے کے اور انکے اثرات مشاہدے اور تجربے سے جانچے بھی نہیں جا سکتے چنانچہ اہلِ علم و عقل ایسے دعووں کو مسترد کر دیتے ہیں۔
کیونکہ جو دعویٰ بلاثبوت پیش کیا جائے، وہ بلاثبوت رد کیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف جب مذہب سائنس میں انگلی کرنے لگتا ہے اور بتاتا ہے کہ ذمین چپٹی یا سپاٹ ہے، سات آسمان تہ در تہ موجود ہیں، پہاڑ زمین پہ میخوں کی مانند ہیں، آسمان پہ نظر آنے والے ستارے دراصل شیطانوں کو ماربھگانے کا آلہ ہیں اور اس طرح کی دوسرے دعوے جو کہ سائنسی حقائق سے متصادم ہوتے ہیں، مذہب پیش کرتا ہے تو پھر انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ غیر سائنسی دعوے باطل ہیں اور انکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سائنس کے مشاہدات انکو غلط ثابت کرتے ہیں۔
یعنی مذہبی دعووں کا وہ حصہ جو بلاشواہد ہے، وہ بلا شواہد رد کیا جاتا ہے اور جو حصہ براہِ راست مشاہدے اور تجربے سے متصادم ہے،وہ ثبوت کے ساتھ رد کیا جاتا ہے۔ دلیل برائے دلیل کے بجائے اگر مولانا صاحب تھوڑا سا عقلی تجزیہ کرنے کی زحمت گوارا کرتے تو انکو اس میں کوئی تضاد نظر نہ آتا۔
"کسی مغربی عالم” (جو کہ اتفاق سے ایک امیریکن یونیورسٹی میں "مذہبیات” کے پروفیسر ہیں) کی اس بات ("جو چیز قابلِ دریافت ہے وہ غیر اہم ہے اور جو چیز اہم ہے وہ قابلِ دریافت نہیں") کو اقتباس کرتے ہوئے مولانا صاحب نے قطعا” غلو سے کام لیا اور اپنے قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں اسکے لئے علمی بددیانتی سے زیادہ نرم الفاظ استعمال کرنے سے قاصر ہوں۔
قصہ یوں ہے کہ ان مذہبی پروفیسر (مغربی عالم) صاحب نے سائنسدانوں کی اس بات کو کہ "قابلِ مشاہدہ کائنات کے ساتھ کائنات کا بہت بڑا حصہ جو قابلِ مشاہدہ نہیں ہے، بہت ہی اہمیت کا حامل ہے” کے اصل معنی کو نظر انداز کرتے ہوئے اسکو اپنے مفاد کے لئے استعمال کر لیا، بالکل ویسے ہی جیسے ایک دہریہ کہے کہ مسلمان تو خود "لا الٰہ” کہ کر اللہ کا انکار کرتے ہیں۔
کائنات بہت وسیع ہے، اسمیں کوئی شبہ نہیں۔ ہم اسکے بارے میں کلی طور پر سب کچھ نہیں جانتے، یہ بھی درست ہے، لیکن اس عدم ثبوت کو بطور ثبوت پیش کرنا اور طرزِ استدلال کا چوتھا انداز کہنا کم از کم علمی و عقلی وطیرہ نہیں ہو سکتا۔
اسکے بعد مولانا صاحب، نظریہ ارتقاء کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اسکا موازنہ مذہب کے ساتھ کرتے ہوئے شکوہ کرتے ہیں کہ جس طرزِ استدلال سے ارتقاء کو اثبات ملتا ہے، اسی طرزِ استدلال کو مذہب کے ثبوت کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا۔ ساتھ میں مولانا صاحب یہ بھی بار بار واضح کرتے ہیں کہ انکا مقصد ارتقاء کی تصدیق یا تردید نہیں ہے (ہو بھی کیسے، ارتقاء کا تعلق سائنس اور علم سے ہے) بلکہ محض دلیل دینا ہے۔ یعنی دلیل ایسے علم سے پیش کرتے ہیں کہ جن پہ انکو کوئی اتھارٹی (اور سمجھ) نہیں۔
ارتقاء اب محض ایک نظریہ نہیں رہا بلکہ اسکا ثبوت لیبارٹری میں حاصل کیا جا چکا ہے۔ اور جس وقت انہوں نے کتاب لکھی تھی، تب بھی اس وقت تک ملنے والے شواہد ارتقاء سے بہتر کوئی تھیوری پیش نہیں کر رہے تھے چنانچہ انکا مذہب اور ارتقاء کا تقابلی جائزہ تب بھی غلط تھا اور اب تو بالکل ہی بے بنیاد ہو جاتا ہے۔
آگے مولانا صاحب نے فرمایا کہ سائنس میں جتنے بھی تسلیم شدہ نظریات ہیں سب کا یہی حال ہے کہ کبھی خود اصل نظریات مشاہدہ یا تجربہ میں نہیں آئے بلکہ خارجی مشاہدات کے سبب نظریات قائم کر لئے گئے۔
یہاں مولانا صاحب مذہب کو تسلیم شدہ نظریات کے برابر لے آئے۔ بہتر یہی ہوگا کہ میں ایک سادہ ہی مثال سے انکے اس دعوے کی حقیقت قارئین کے سامنے کھول کر بیان کردوں تاکہ انکا وقت اور بلاگ پہ جگہ نہ ضائع ہو:
کشش ثقل ایک مسلمہ نظریہ ہے۔ باآسانی آزمایا جا سکتا ہے، مولانا صاحب گھر کی چھت سے کود کے اور ذمین پہ نہ گر کے بڑے آرام سے ثابت کر سکتے تھے کہ یہ نظریہ باطل ہے۔ جبکہ دوسری طرف مذہب کا نظریہ ہے کہ خدا ہر ایک کو دیکھ رہا ہے۔ اسکو کیسے ثابت یا رد کیا جائے، چلیں جس طرح کشش ثقل کو ہم دیکھ نہیں سکتے مگر اسکا اثر محسوس کر سکتے ہیں، اسی طرح اللہ کے دیکھنے کو دیکھنے پہ ہم اصرار نہیں کریں گے صرف اسکے اثرات بیان فرما دیں جو ہرچیز پر یکساں ہوں۔ (اور یہ ایک نہایت سادہ سی مثال ہے، ایسی سینکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ مذہب کا دعویٰ تسلیم شدہ نظریات کی طرح بالواسطہ طور پر بھی نہیں جانچا جا سکتا)۔
مذہب کے اس دعوے کو کہ جسکو ثابت ہی نہیں کیا جا سکتا، جسکے اثرات ہی کو نہیں جانچا جا سکتا، بقائمی ہوش و حواس ہم کسطرح سائنس کے مسلمہ نظرئیے کے مقابل لا سکتے ہیں؟
مولانا وحید الدین اور برٹرینڈ رسل
آگے میرے فاضل دوست نے خصوصی طور پر مولانا صاحب کی کتاب کے برٹرینڈرسل سے متعلقہ حصے کی نشاندہی کی۔ اس حصے میں مولانا صاحب نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے برٹرینڈرسل کا مطالعہ کیا اور اسکے نتیجے میں انکا ایمان مزید پختہ ہوا۔
آگے چل کے اس باب میں انہوں نے مغالطوں ہی کے زور پہ اپنا استدلال قائم کیا۔ جگہ کی محدودیت کے باعث میں یہاں محض انکے "کلیدی نقاط” کہ جن پہ انہوں نے اپنی دلیل کی بنیاد رکھی ہے پیش کروں گا اور ساتھ میں اس منطقی مغالطے کا حوالہ دوں گا کہ جسکا شکار انہوں نے اپنے قاری کو بنانے کی کوشش کی ہے۔
صفحہ نمبر 25، "اس مطالعہ کے مطابق رسل کے لئے صرف دو راستے باقی رہ جاتے ہیں۔ یا تو تشکیک کی پناگاہ میں چلا جائے یا پھر مذہب کی صداقت کا اعتراف کر لے”۔
یہ False Dilemma نامی مغالطہ ہے جسمیں دو ہی راستے پیش کر کے ایک کو برا اور دوسرے کو اچھا گنوا کے اپنی پراڈکٹ بیچی جاتی ہے۔
صفحہ نمبر 29 میں آسان الفاظ میں فرماتے ہیں کہ ارتقاء کا سبب غیر معلوم ہے اور سبب کے نامعلوم ہونے کے باوجود وہ نظریہ یقینی کیسے ہو سکتا ہے۔ اور اگر ہو سکتا ہے توپھر مذہب کا استدلال کیوں کمزور؟
یہ You too fallacy کی ایک بہترین مثال ہے۔ کہ اگر ایک فریق غلط کام کرتا ہے تو دوسرے فریق کو بھی غلط کام کی اجازت ہے۔ چلیں اگر ہم ارتقاء کو اسکے یقینی ثبوت حاصل کر لینے تک پینڈنگ رکھ لیتے ہیں تو کیا مولانا صاحب بھی خدا اور مذہب کے یقینی ثبوت حاصل ہوجانے تک مصلے و تسبیح کو ایک طرف رکھ دیں گے؟
صفحہ نمبر 30، "انسان ہمیشہ سے یہ مانتا رہا ہے کہ درخت اور انسان کو پیدا کرنے والا قادرِ مطلق ہے۔ ۔ ۔ ”
یہ Appeal to Common Practice ہے۔کیا تمام انسان ہمیشہ ہی سے یہ مانتے رہے ہیں کہ سب کچھ پیدا کرنے والا قادرِ مطلق خدا ہے؟ جی نہیں۔ چنانچہ پوری نوعِ انسانی کو شامل کرنا غلط ہے۔ ہاں اکثریت کہہ دیتے تو بات سفید جھوٹ دے دائرے سے باہر ہوتی، لیکن پھر بھی منطقی مغالطہ اپنی جگہ ہی رہتا۔
صفحہ نمبر 31، "میں سمجھتا ہوں کہ برٹرینڈرسل کا مذکورہ بالا بیان ایک ملحد کی زبان سے مذہب کی اصولی صداقت کا اعتراف ہے”
Straw man fallacy اسمیں اپنے حریف یا شکار کا ایک فرضی خاکہ اپنی منشا کے مطابق بنا کے اسکو باآسانی چاروں خانے چت کر دیا جاتا ہے (جو کہ "علمائے حق” کا پسندیدہ مشغلہ ہے)۔۔
اگر مولانا صاحب برٹرینڈ رُسل کی عقلی برتری نہ سمجھ پائے اور اسکی منطق انکے سر پر سے گزر گئی تو یہ بات رُسل کو کم فہم نہیں بلکہ ثابت کرتی بلکہ مولانا صاحب کی کج فہمی پر دلیل ہے۔
فی الحال اسی پہ اکتفا کرتے ہیں، اگرچہ برٹرینڈرسل والے باب کے مطالعے کے بعد سعےد بھائی قارئین کو دورِ جدید کے مذہب کا پوسٹ مارٹم یعنی "جائزہ” پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ تو کسی فراغت کے وقت ضرور دیکھیں گے کہ یہاں کون کونسے گل کھلے نظر آتے ہیں۔
مولانا صاحب کی بیشتر باتیں اوکیم کے نشتر کی زد میں آتی ہیں، مثال کے طور پر ان کا یہ فرمان کہ: ”چونکہ مذہب کا مظاہرہ ممکن نہیں تو اس کا رد کس طرح ممکن ہے؟” پر بڑے آرام سے اوکیم کا نشتر پھیرا جاسکتا ہے، مؤمنین کو سوچنا چاہیے کہ علم کے مقابلے میں وہ آج دفاعی پوزیشن پر کیوں ہیں؟ وجہ بڑی سیدھی اور صاف ہے، جب تک مذہب میں خرافات رہیں گی مذہب دفاعی پوزیشن پر رہے گا اور اسی طرح علم کے آگے تلملاتے ہوئے تاویلیں اور جسٹی فیکیشن پیش کرتا رہے گا اور جب مذہب سے خرافات ختم ہوں گی تب مذہب نہیں رہے گا کیونکہ مذہب اور خرافات باہم مشروط اور لازم وملزوم ہیں اور تمام تر علمی حقائق سے قطعی طور پر متصادم ہیں.. مثال کے طور پر آپ کی تحریر میں دکھائی گئی تیسری تصویر میں سعودیہ کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز کا جو بیان پیش کیا گیا ہے وہ بالکل درست ہے اور اس کے لیے انہوں نے پوری ایک کتاب تحریر فرمائی تھی جس کا نام ہے: ”الأدلة النقلية والحسية على سكون الأرض وجريان الشمس وإمكان الصعود للكواكب” یعنی ”زمین کے ساکن ہونے اور سورج کے متحرک ہونے اور سیاروں پر پہنچنے کے امکان کے نقلی اور محسوساتی دلائل”، اس کتاب میں مفتی اعظم نے قرآن وحدیث سے بجا طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ زمین نہ صرف ساکن ہے بلکہ سورج زمین کے گرد چکر کاٹتا ہے!!، مصیبت کی انتہاء یہ ہے کہ ان کے بعد سعودی عرب کے مفتی اعظم کا عہدہ سنبھالنے والے شیخ عثیمین نے بھی اس کی تائید کی اور اسلامی جہالت پر بالخصوص اور مذہبی جہالت پر بالعموم مہرِ تصدیق ثبت کردی.. اور صرف سعودی علماء پر ہی بس نہیں برِ صغیر کے اکابرین علماء تو ان سعودی شیخوں سے بھی بہت پہلے یہ بات قرآن وحدیث سے ثابت کر چکے تھے، احمد رضا بریلوی کی اس جہالت پر کافی تصانیف ہیں جن میں ”نزول آیات فرقان بہ سکون زمین وآسمان” مشہور ہے، جنہیں مسلم علماء کی اس بونگی سے لطف اندوز ہونا ہو وہ یہ ربط اور یہ ربط ملاحظہ کر سکتے ہیں یا گوگل میں ”زمین ساکن ہے” لکھ کر مزید حظ اٹھا سکتے ہیں.. اور یہ تو صرف ایک مثال ہے کیونکہ مذہب کی جاہلانہ بونگیوں کی فہرست کافی طویل ہے جس کے لیے نا تو میرے پاس وقت ہے اور نا ہی یہ موقع محل ہے، جبکہ کلیسا کی ایسی ہی بونگیوں کے لیے شاید کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے..
الغرض یہی ہے وہ مذہب جسے مولانا وحید صاحب اپنے تئیں ”سائنسی طور پر ثابت” کرنا چاہتے ہیں.. یقیناً وہ ایسا جھوٹ بولے اور قاری کو منطقی مغالطوں میں ڈالے بغیر نہیں کر سکتے تھے کیونکہ خرافات کو کسی سائنس سے ثابت نہیں کیا جاسکتا.. آپ نے ان کی کتاب پر یہ دو قسطی تجزیہ پیش کر کے بجا طور پر نہ صرف مولانا صاحب کی ”بینڈ” بجادی ہے بلکہ ملاؤوں اور مذہبی وہم میں مبتلا مساکین کو ان کے مذہب کی وقعت بھی بتا دی ہے.
زورِ قلم اور زیادہ…