ہمارے ایک انجنئیر دوست نے اس بلاگ پر کہی گئی باتوں سے اختلاف کرتے ہوئے ان کی جانچ کے لئے ایک کتاب کا لنک دیا، جسکا مطالعہ بجائے خود ایک دل گردے کا کام ہے، لیکن مناسب نہ تھا کہ اس سے صرفِ نظر کرتے، چنانچہ پڑھا۔
یقین نہیں آتا کہ اس بے دردی سے حقائق کو موڑ توڑ کر بھی پیش کیا جا سکتا ہے، عوام الناس کے لاجک سے نابلد ہونے، کسی عقیدے کی خواہش اور جذبات کا بڑا فائدہ اٹھایا گیا ہے چنانچہ سوچا کہ تھوڑا تھوڑا کر کے اس کتاب میں بیان کئے گئے دعووں کے بارے میں کچھ بیان کرنا چاہئے۔
——————————————————————————————————————
Appeal to Authority، اس کی ایک شکل یوں ہے کہ ایک شخص کسی ایسے موضوع پر کلام کرتا ہے کہ جس پر اسے سند حاصل نہیں ہوتی۔ یعنی ایک شخص کا غیر متعلقہ موضوع پر کلام کرنا اورنتیجہ نکالنا یا فیصلہ صادر کرنا۔ ایسے فیصلوں یا نتائج کی درستگی مشکوک یا غلط بھی قرار دی جا سکتی ہے۔مگر اکثر اوقات یوں ہوتا ہے کہ اس مغالطے کا شکار لوگ اوپر بیان کئے گئے شخص کے نکالے گئے نتائج اور فیصلوں کو درست اور حرف ِ آخر سمجھ بیٹھتے ہیں۔ جبکہ درحقیقت ایسا ممکن بھی ہے کہ وہ درست ہو یا کسی حد تک درست ہو، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ سرے سے درست ہی نہ ہو ۔
مصنفِ کتاب، میری معلومات کی حد تک اس کتاب میں احاطہ کئے گئے دو میں سے کم از کم ایک موضوع میں کوئی سند نہیں رکھتے، ذکر تو انہوں نے ایک کا بھی نہیں کیا لیکن یہ فرض کرتے ہوئے (جو کہ غلط بھی ہوسکتا ہے)، کہ ایک اسلامی مدرسے میں انہوں نے چھ سال میں نہ صرف علومِ اسلامیہ پہ عبور حاصل کیا بلکہ وہ علمِ ادیان میں غیر متنازعہ سند بھی رکھتے ہیں۔ البتہ سائنس میں انکی حیثیت غیر مسلمہ یعنی غیر مستند ہے۔ چنانچہ ایک غیر مستند عالم کی حیثیت سے یہ بھی ممکن ہے کہ مصنف سرے سے غلط ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ درست یا کسی حد تک درست ہو۔ ہمارے پاس یہ جانچنے کے لئے ایک اوزار موجود ہے، اور وہ ہے منطق اور تجزیہ۔
آئیے اس اوزار کی مدد سے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انکی تصنیف میں کتنا وزن ہے۔
مولانا وحید الدین صاحب نے اپنی کتاب "مذہب اور سائنس” میں فکری نوعیت کے بعض مسائل سے کلام کیا ہے تاکہ اسلام کے اعتقادی نظام کا دفاع کیا جاسکے۔ دیباچے میں وہ فرماتے ہیں کہ مذہبی تعلیمات مجرد تعلیمات (سرسری تعلیمات یا خلاصہ) نہیں ہیں بلکہ کائنات کی ابدی صداقتیں ہیں اور ہماری نجات کی واحد صورت یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان صداقتوں سے ہم آہنگ کریں، نہ تو ہم انکا انکار کر سکتے ہیں نہ غیر جانبدار ہو سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ دوسرا رویہ ہم کو ابدی تباہی سے ہمکنار کرے گا۔ یوں وہ دیباچے ہی میں اپنے قارئین کو ایک منطقی مغالطے میں گھیرنے کی (کافی حد تک کامیاب) کوشش کرتے ہیں کہ جسکا نام ہے "Appeal to the Consequences of a Belief” ۔ اس مغالطے کی ایک شکل جو مصنفِ کتاب نے استعمال کی ہے وہ عام فہم الفاظ میں کچھ یوں ہوگی۔ "یہ بات حقیقت ہے، کیونکہ اگر لوگوں نے اس بات کو حقیقت نہ جانا تو اسکے منفی نتائج نکلیں گے”۔
انہی کی اس اپروچ کو اپناتے ہوئے ہم یہ دعویٰ داغتے ہیں کہ ایک نیکی کا اور ایک بدی کا خدا ہے، نیکی کا خدا کمزور ہے جبکہ بدی کا خدا طاقتور کیونکہ اکثر وہی غالب آتا ہے اور یہ ایک ابدی صداقت ہے، دنیا اسی لئے قائم ہے کہ بدی موجود ہے اگر آج بدی ختم ہو جائے تو دنیا کا فنا ہونا اٹل ہے، ہمارے پاس بدی کے خدا کی پرستش اور ہر سال اسے ایک خوبصورت کنواری لڑکی کی بھینٹ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، ہم یا تو اسکے پیروکار ہیں یا پھر اسکے مخالف اور نیکی کے کمزور خدا کے پیروکار۔ بدی کے خدا کی پرستش نہ کی گئی تو اسکے بھیانک نتائج نکلیں گے اور ازلی تباہی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔
آگے چل کے مصنف کہتے ہیں کہ مذہب کی تعلیمات کو قطعی صورت میں جاننے کا ذریعہ وحی ہے، خدا کے پیغمبروں نے ان تعلیمات کو براہِ راست خالقِ کائنات سے لیکر انسانوں تک پہنچایا اور شکوک کے ازالے کے لئے کہا کہ "کیا تم اس خدا پر شک کرتے ہو جس نے ذمین و آسمان کو پیدا کیا”۔ یعنی فطرت کو خدا کی دلیل قرار دیا۔
دوسرے لفظوں میں مصنف کہہ رہے ہیں کہ مذہبی تعلیمات کی قطعیت سے جانکاری ممکن نہیں جب تک کہ براہِ راست خالقِ کائنات سے رابطہ نہ ہو۔ جبکہ راہِ راست رابطہ صرف انبیاء ہی کے لئے مختص ہے تو ایک عام انسان کے لئے سوائے اسکے کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ ان بزعمِ خود انبیاء کی "بتائی” ہوئی پر ایمان لے آئے۔ تو بات یہاں پھر ایمان والی ہی آجاتی ہے، کہ قطعی جانکاری ایک عام انسان کے لئے ممکن نہیں، وہ صرف انبیاء ہی کے پاس ہے۔ تم بس ایمان لے آؤ ان کے کہے پر۔
عامیوں کے لئے فطرت ہی خدا کی دلیل ہے، کہ دیکھو پرندہ اڑ رہا ہے، دیکھو سورج نکلتا اور غروب ہوتا ہے، دیکھو ذمین کیسے اپنے مدار میں چکر کاٹتی ہے، دیکھا کیسے دن رات ہوتے ہیں، دیکھو کون بارش برساتا ہے، کون ہے "خدا” کے سوا کون یہ کر سکتا ہے۔ بہت عمدہ۔ مزید کچھ کہنے کی احتیاج رہ جاتی ہے اس دلیل پر؟
اب بکر کہتا ہے کہ ایک نیکی کا خدا ہے اور ایک بدی کا۔ نیکی کا خدا اچھی والی بارش برساتا ہے جبکہ بدی والا خدا زلزلے اور طوفانی بارشیں برساتا ہے۔ اچھا خدا کبوتر اور فاختائیں بناتا ہے اور بدی کا خدا گدھ اور سانپ جیسی مخلوقات بناتا ہے۔ دیکھو سامنے کی بات ہے کہ بنگال میں ایک ٹین کی بنی مسجد پر بجلی گری اور کتنے سارے نمازی ماہِ رمضان میں، نماز کے دوران کوئلہ بن گئے، کون ہے سوائے بدی کے خدا کے جو ایسی طاقت کا مظاہرہ کر سکے؟ تو لازم ہے کہ ہم اسی کی اطاعت کریں، کہ بدی کا خدا ہی ہمیں نقصان دے سکتا ہے اور نیکی کے خدا پر زبردست ہے، تو ہم کیوں نہ اسکو راضی کر کے نقصان سے بچ جائیں۔
جی مولانا صاحب، آئیں اور ثابت کریں غلط اس فطری مظہر سے نکالی گئی دلیل کو۔
آگے فرماتے ہیں کہ جدید مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مذہب انسان کا فطری جذبہ ہے، کسی طرح اسکو انسان سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ بس اتنا کہہ کر اس سے ایک نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش غلو کے ضمن میں آئے گی کیونکہ یہی "جدید” مطالعہ کہ جسکی وہ مثال دے رہے ہیں آگے جا کے کہتا ہے کہ یہ مطالعہ قطعی طور پر خدا کا وجود یا غیر وجود ثابت نہیں کرتا، نہ ہی حیات بعد الممات کا ثبوت دیتا ہے۔ صرف اس بنیاد پر کہ ایک خاص طرز پر سوچنا نسبتا آسان ہے، اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ آسان طرزِ سوچ درست بھی ہے۔
جیسا کہ کہتے ہیں کہ بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں اور انکی فکر بہت فطری ہوتی ہے۔ اب اگر تقریبا ہر بچہ اپنے باپ کو سوپر مین اور مافوق الفطرت قوتوں کا مالک سمجھتا ہے تو یہ اس بات کی گارنٹی نہیں ہے کہ ایسا ہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسے پتہ چل جاتا ہے کہ اسکا باپ بھی اربوں دیگر افراد کی طرح ایک عام انسان ہے۔
اسی مطالعے کے مطابق یہ دلیل کسی خالق کے انکار کے حامی بھی اسی صداقت سے استعمال کر سکتے ہیں کہ جس طرح کسی خالق کے اقرار کے حامی۔ چنانچہ مصنف نے اپنے ذاتی خیالات و عقائد کے رنگ میں اس مطالعے کے نتائج کو رنگ ڈالا۔ اور اس جانبداری کی بھی وجہ ہے۔ وہ یہ کہ دینی مدرسے کا کورس کرنے کے بعد جب مصنف کے سامنے مذہب کے حوالے سے سوال رکھے جاتے تھے تو وہ ششدر رہ جاتے تھے کہ انکے جواب تو انکو بتائے ہی نہیں گئے، چنانچہ انہوں نے سائنسی جنرلز اور دیگر مشہورِ زمانہ لوگوں کی تصنیفات کے مطالعے کئے اور اسمیں سے اپنے حق میں دلائل تلاش کرنا شروع کئے۔ یعنی کہ ریسرچ کے شروع ہی میں بجائے غیر جانبداری اختیار کرنے کے، انہوں نے دین و مذہب کو حق گردانتے ہوئے اسکے دفاع میں دلائل اکھٹے کرنا شروع کئے جو کہ کسی طور سے درست طریقہ نہیں چنانچہ کچھ اچنبھے کی بات نہیں کہ انکے اخذ کردہ نتائج میں جابجا مختلف مغالطے، اور آدھی سچائیاں، اور دوسروں کی بات کی غلط اور بے موقع تشریحات موجود ہیں۔
یہ تو تھا اس کتاب کے دیباچے کا تجزیہ۔ نتائج مرتب کرنا ہم قاری پہ چھوڑتے ہیں۔ باقی کتاب پہ گفتگو اسی عنوان کے تحت جاری رکھیں گے۔ تب تک کے لئے اجازت (حصہ دوم) ۔
I dont know about others, but i know about myself, whatever good i have in myself in terms of dealing with others, i can safely say that most of it is attributed to the teachings and beleif of my religion. I dont know if everyone else here is an angle and even without any motivation (religious that is) he is acting like an angel then perhaps i should have a psychological analysis for myself as everyone else is so full of good without any religious motivation. I am not supporting moulana waheed just giving a reference to everybody here that in addition to all the atheist stuff that they are reading here, they should be reading something that give the other side of the picture also. and let them decide. I havent read that book of stephen hawkings, can you give me a link of that channel 4 documentry that you are refering to over here. Anyhow this thing shows a conflict in the two books by him, ya shayad us ne yeh blog padh liya ho ga 🙂
Anyone can understand aap ki kiya murad thi, lekin khair jaanay dain. I am not saying that aik jhoot ko laakh dafa bola ja raha hai, my point was that when we are debating so intensly on something then there should be so usefulness associated with it. If the whole world is making big strides without supporting this athestic beleif then why we need to follow it. Here i have one small point that, are you 100% sure that there is no God and no need to follow the religion. If you have 100% surety on that then no further argument can make you change your mind (although science is not 100% sure about it as said by hawkings also in your post), but lets suppose if you have .5% beleif that there is God and if that came out to be true in the afterlife then what would be your answer at that time. Think about it before going too far with one sided view.
اخلاقیات کی بات کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جیلیں دہریوں سے نہیں مؤمنین سے بھری پڑی ہیں بلکہ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے دو بڑے قتلِ عام کے ذمہ دار عیسائی اور مسلمان تھے، آپ کے احساسات دلیل نہیں ہیں، دلیل دینی ہے تو اپنے دین سے دیں اور صرف ایک ایسی اخلاقی قدر لاکر دکھا دیں جو ❞اسلام نے متعارف❝ کروائی ہو اور انسانیت اس سے پہلے اس اخلاقی قدر سے بے خبر ہو.. اگر آپ کو نہیں معلوم کہ کوئی مذہبی تعلیمات کے بغیر فرشتہ بن پایا ہے تو یہ آپ کا فالٹ ہے.. بل گٹس دنیا کا امیر ترین شخص اور اعلانیہ دہریہ ہے، اس کے باوجود وہ بل اینڈ میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن چلا رہا ہے اور دنیا کے غریب، اپاہج اور محتاج لوگوں کی مدد کر رہا ہے، 2007 میں اس نے چیرٹی کے لیے 28 بلین ڈالر کا چندہ دیا، کیا آپ مجھے تیل پیدا کرنے والے ممالک کے کسی ایک مؤمن شیخ کا حوالہ دے سکتے ہیں جس نے صرف انسانیت کی بنیاد پر اتنا چندہ دیا ہو؟ دنیا کے اس امیر ترین شخص کی وصیت کے مطابق اس کی دولت کا نوے فیصد چیرٹی کو جائے گا اور صرف دس فیصد اس کے لواحقین کو ملے گا، کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ بل گٹس اتنا بڑا خیراتی کام بغیر خدائی تعلیمات کے کیسے کر رہا ہے؟ اور ہاں یہ وہی بل گٹس ہے جس کی ونڈوز سامنے بیٹھ کر آپ اس وقت اپنے دین کا دفاع کر رہے ہیں… کیا ستم ظریفی ہے کہ اپنے دین کے دفاع کے لیے بھی آپ کو دہریوں کے ایجاد کردہ ٹولز استعمال کرنے پڑ رہے ہیں..
بالکل ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ لوگوں یہ بتایا جائے کہ دنیا میں صرف مذہبی فرسودہ خرافات ہی نہیں کچھ ایسی چیز بھی ہے جو عین عقل ہے اور جس کے سامنے مذہب کے پانی پر چلنے والے سپائیڈر مین اور اور مچھلی کے پیٹ میں سیر کرنے والے آئرن میں ٹِک نہیں سکتے.. رہی مولانا کی کتاب تو جس کا آغاز ہی منطقی مغالطوں سے ہوا وہ کیا لوگوں کو تصویر کا دوسرا رخ دکھائے گی.. ٹیڑھی بنیادوں پر عمارتیں کھڑی نہیں کی جاسکتیں.. عقل مندوں کو یہ کتاب قائل نہیں کر سکتی اور بے وقوفوں کو اس کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے.
❞اقرا❝ کا دعوی کرنے والی قوم سے یہ امید ہے بھی نہیں کہ وہ کچھ پڑھے گی، کیونکہ تب بھی جو پڑھوانے آیا تھا اسے خود ہی پڑھ کر جانا پڑا تھا… مُلا مُلحد صاحب نے آپ کو وکیپیڈیا کا ربط دیا تھا، اگر وہاں جاکر دیکھنے کا تکلف کرلیتے تو آپ کو آپ کے چینل فور کا ربط بھی مل ہی جاتا، رہی بات تضاد کی تو اگر یہ آپ کو تضاد لگتا ہے تو پھر وہ یقیناً ہے، وہ مولوی نہیں ہے جس کے دین کی باتیں صدیوں بعد بھی ویسی ہی جامد رہتی ہیں، علم اور عالم کسی ثبات کو نہیں مانتے بلکہ دلیل کو مانتے ہیں، اے بریف ہسٹری آف ٹائم اس نے چودہ سال پہلے لکھی تھی، تب کی علمی دریافتیں کچھ اور تھیں مگر آج کچھ اور ہیں، آج کے علمی حقائق کی روشنی میں اسے خدا غیر ضروری لگا لہذا اس نے انکار کردیا.
آپ کو کس نے کہا کہ آپ دہریانہ عقائد اختیار کریں یا دنیا دہریانہ عقائد کے بغیر ترقی کر رہی ہے؟ جناب ترقی کرنے کے لیے نا تو دہریانہ اور نا ہی مذہبانہ عقائد کی ضرورت ہے، خدا اور دین ایک قطعی ذاتی معاملہ ہے، ترقی کرنے کے لیے آپ کو سیکولر ازم کی ضرورت ہے، امریکہ کی ترقی کی وجہ نا تو خدا ہے اور نا ہی دہریانہ فکر ہے، بلکہ سیکولر فکر ہے، اور سیکولر ازم ❞لادینیت❝ نہیں ہے، دین کو سیاست سے الگ کردیں، ترقی آپ کے قدم چومے گی، بصورتِ دیگر اسلامی ممالک کی پسماندگی دکھانے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے.
“And if there were a God, I think it very unlikely that He would have such an uneasy vanity as to be offended by those who doubt His existence” Bertrand Russell
I dont know if Mr. Anderson Shaw has objection on my being an engineer or a muslim or both at the same time. Sorry sir galti ho gayee aainda nahin ho gi 🙂
Regarding the link and the book, let people read and decide for themselves, but i think you are getting so obsessed by just reading the first page that you have started writing a blog. for someone who doesnt like to read it all, read the section that relates to bertrand russel and the section which ends on page 84, it will give an insight. Regarding twisting the truth in this book, as mentioned by Mr. Anderson Shaw, sir you also do that whenever you find it necessary. e.g. showing einstein as atheist, similarly some other learned supporter of yours in one of the blog comments showed stephen hawkings as atheist, i think he did the same by reading first two pages of breif history of time. Here is the last page of brief history of time for your kind review
“… if we do discover a complete theory, it should in time be understandable in broad principle by everyone, not just a few scientists. Then we shall all, philosophers, scientists, and just ordinary people, be able to take part in the discussion of the question of why it is that we and the universe exist. If we find the answer to that, it would be the ultimate triumph of human reason – for then we would know the mind of God.”
― Stephen Hawking, A Brief History of Time
Now the situation is this that very eminent and brilliant minds, the most powerful governments in the world all are supporting the presence of God however we here as muslims and pakistanis must first abandon our faith and belief start living as per our logic and then surely we shall make progress :). Another point which i was thinking is that if we start beleiving and living like the preechings of Mr. Anderson Shaw then can you imagine what kind of society it will be, the bottom line for that society would be that you can do anything and i mean anything if you are wise enought or powerful enough to get away with it. Even if you write a thousand blogs you cannot put a one mm dent in this bottom line. Another point regarding some other learned person on your blog who said that if we follow the rules given in this book, we will be beleiving other religions also, so my dear bhai jaan the book is absolutely not about "haqaniat of islam” it is a discussion about religion and science. It would have been better if you had read the title of the book. Another point, and this is not regarding the book, but as per my own personal expereince and i am sure everyone on this blog must have seen it thousands of time in his/her life that there are people who do same amount of hard work have almost similar intelligence but still have totally different outcomes in thier lives, if we consider everything in universe as scientific and mechanical this thing cannot be explained. My own classfellows, are working and living so much different type of lives although we all were almost at same level in engineering university and had almost same opportunities. I have seen people much more intelligent and ambitious than myself not getting 20% of what i am making today, why is it so if everything can be explained by science and there is no God.
I dont know if Mr. Anderson Shaw has objection on my being an engineer or a muslim or both at the same time. Sorry sir galti ho gayee aainda nahin ho gi
یہ تحریر اینڈرسن شا صاحب نے نہیں بلکہ خاکسار نے تحریر کی ہے۔اور انجنئیر کا حوالہ اسلئے دیا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بندے کو کریڈٹ ضرور ملتا چاہئے، یہاں اعتراض نہیں بلکہ تعریف مراد تھی۔ خیر
Regarding the link and the book, let people read and decide for themselves
ہم نے محض تجزیہ کیا ہے، نتیجہ اخذ کرنا قاری ہی پر چھوڑا ہے، آخری لائن کو ایک دفعہ پھر پڑھ لیجئے گا۔
but i think you are getting so obsessed by just reading the first page that you have started writing a blog
جیسا کہ ہم نے اسی تحریر کے آخر میں عرض کی ہے کہ "یہ محض دیباچے کا تجزیہ ہے، باقی کتاب پہ گفتگو جاری رکھیں گے”۔ اب معلوم نہیں کہ اسمیں سے کونسی بات مزید وضاحت کی محتاج تھی۔
مندرجہ بالا پے درپے غلط اینالائسس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بغور پڑھنا آپکی عادت نہیں رہی۔ اور ہمیں کچھ فیلنگ سی ہو رہی ہے کہ بغور پڑھنا آپ نے اس جواب کو بھی نہیں ہے۔ خیر مجھے ہے حکمِ اذاں لا الٰہ لا الٰہ۔ ۔ ۔
Regarding twisting the truth in this book, as mentioned by Mr. Anderson Shaw, sir you also do that whenever you find it necessary. e.g. showing einstein as atheist,
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ اپروچ جو آپ اپنا رہے کہ یہ بجائے خود ایک منطقی مغالطہ ہے، جسکی تفصیل میں ابھی یہاں تو نہیں، البتہ اگلی "قسط” میں ضرور پیش کروں گا۔ چلیں ایک لمحے کے لئے آپ سے اختلاف نہیں کرتے کہ ہم سچائی کو "ٹویسٹ” کر رہے ہیں یعنی غلو سے کام لے رہے ہیں، تو مولانا وحید الدین صاحب کو بھی اسکی آزادی مل گئی کہ وہ بھی مذہب کے بارے میں غلو سے کام لینا شروع کر دیں؟ بھیا کونسی منطق ہے یہ؟ ایک بندہ چوری کرتا ہے تو کیااسکی اس حرکت کو بنیاد بنا کے دوسروں کی چوری کو جواز فراہم کریں گے آپ؟
اب آتے ہیں آپکے اس الزام پہ کہ اینڈرسن شا صاحب نے سچائی کو ٹویسٹ کیا ہے اور آئن سٹائن کو دہریہ دکھایا ہے۔ یہ بتائیے کہ اس بلاگ میں کہاں پہ ایسا ہوا ہے؟ آپ غالبا اس کومنٹ کی بات کر رہے ہیں۔
ہوا یوں تھا میرے بھائی کہ آپ نے فرمایا کہ آئن سٹائن دہریہ نہیں اور اسکے ثبوت میں ایک کوٹ فراہم کی، جسکے جواب میں اینڈرسن شا صاحب نے آئن سٹائن کے خدا کے ماننے کے تصور کی مزید وضاحت کے لئے کچھ اور کوٹس فراہم کی ہیں۔ چونکہ آپ نے غلو سے کام لیتے ہوئے اسکی خدا کے بارے میں صرف ایک بات نقل کی، تو اینڈرسن شا صاحب آئن سٹائن کے خیالات کو مزید واضح کرنے کے لئے اسکے مزید کچھ خیالات نقل کئے تھے۔
چنانچہ ایک بار پھر عرض کروں گا کہ حضور، تھوڑا بغور مشاہدہ کیا کریں تاکہ ہمیں اور آپ دونوں ہی کو آسانی پیش آئے بات کرنے میں۔
similarly some other learned supporter of yours in one of the blog comments showed stephen hawkings as atheist, i think he did the same by reading first two pages of breif history of time. Here is the last page of brief history of time for your kind review
“… if we do discover a complete theory, it should in time be understandable in broad principle by everyone, not just a few scientists. Then we shall all, philosophers, scientists, and just ordinary people, be able to take part in the discussion of the question of why it is that we and the universe exist. If we find the answer to that, it would be the ultimate triumph of human reason – for then we would know the mind of God.”
― Stephen Hawking, A Brief History of Time
جی وہ سیکھا پڑھا ہوا مددگار خاکسار ہی ہے۔
سٹیفن ہاکنگ کے بارے میں آُپ کو اپنی معلومات اپ ڈیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سٹیفن ہاکنگ ہی کی نئی تصنیف "دی گرینڈ ڈیزائن” کے بارے میں : The Grand Design is a popular-science book written by physicists Stephen Hawking and Leonard Mlodinow and published by Bantam Books in 2010. It argues that invoking God is not necessary to explain the origins of the universe
اور خود سٹیفن ہاکنگ کے الفاظ میں :
Hawking has said; "One can’t prove that God doesn’t exist, but science makes God unnecessary.” When pressed on his own religious views by the Channel 4 documentary Genius of Britain, he has clarified that he does not believe in a personal God.
بغور مطالعہ آپ نے کرنا نہیں، اور اس سے زیادہ اصرار ہم کر نہیں سکتے۔
Now the situation is this that very eminent and brilliant minds, the most powerful governments in the world all are supporting the presence of God
اگر جھوٹ ایک لاکھ مرتبہ بولا جائے تو جھوٹ کا ایک لاکھ مرتبہ بولنا اسکو سچ نہیں بنا دیتا۔ اگر تعداد ہی سچ کا میعار ہے تو پھر اس بلاگ کی تازہ ترین تحریر "سب مایا ہے” کا مطالعہ کیجئے، افاقہ ہوگا۔
however we here as muslims and pakistanis must first abandon our faith and belief start living as per our logic and then surely we shall make progress
یہ بتائیے کہ لوجک، یعنی منطق یعنی عقل کے مطابق زندگی گزارنے میں کیا برائی یا مسئلہ ہے؟ لوجک کہتی ہے کہ چھت سے چھلانگ مت مارو، زخمی ہو گے یا مر جاو گے۔ لاجک کہتی ہے کہ آگ مں مت کودو، نقصان اٹھاو گے۔ عقل کا استعمال کرو، تحقیق کرو، چیزوں کو تنقیدہ نقطہ نگاہ سے دیکھو۔ چوری چکاری زنا بالجبر وغیرہ معاشرتی جرائم ہیں، مذہب کا اپنا ٹریڈ مارک لگا دینے سے یہ مذہب کی جاگیر نہیں بن جاتے۔
کیا آپ یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عقل کو اور منطق کو اور دلیل کو ایک طرف رکھو اور صرف وہی کرو کہ جسکا مذہب حکم دیتا ہے، خواہ وہ عقل سے اور مشاہدے سے متصادم ہو؟
مذہب عقل پر غوروفکر پر قدغن لگاتا ہے۔ اگر کوئی مذہب اسکی ممانعت نہیں کرتا، کسی بھی سمت میں سوچنے سے غور و فکر سے نہیں روکتا ٹوکتا، شخصی آزادی کا علمبردار ہے، سائنسی ایجادات کو شیطانی ایجادات نہیں قرار دیتا۔ عورت کو کمتر مخلوق نہیں گردانتا۔ ہمارے ٹائلٹ میں گھسنے اور نکلنے میں مداخلت نہیں کرتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں ہمارے خیالات پر موت کی سزا نہیں سناتا اور مجھے اپنے اصولوں پر جبری عمل نہیں کرواتا یا اپنے عقائد کی خاطر میرا نقصان نہیں کرتا۔ دو عاقل بالغ انسانوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا تو مجھے ایسے کسی مذہب پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ ذاتی معاملہ ہے۔
ہاں مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب مذہب ایک بندے کی ذات سے نکل کر دوسرے کی ذات پہ حملہ آور ہوتا ہے اور اسکو بھی اپنی جاگیر میں لینا چاہتا ہے۔ تب پھر ہم بولتے ہیں، انسانیت کی خاطر۔ کہ اگر کوئی مذہب ہمارے نزدیک قابلِ عزت اور قابلِ پیروی ہے تو وہ انسانیت ہی کا مذہب ہے۔ آپ ہمیں دہریہ کا نام دے لو۔ فرق یہاں ہے۔ اقتدار اعلیٰ کوئی ماورائی ہستی نہیں، بلکہ اقتدار اعلیٰ انسانیت ہے۔
Another point which i was thinking is that if we start beleiving and living like the preechings of Mr. Anderson Shaw then can you imagine what kind of society it will be, the bottom line for that society would be that you can do anything and i mean anything if you are wise enought or powerful enough to get away with it
مذہب نے کیا بگاڑ لیا ایسی سوچ رکھنے والوں گا؟ بلکہ مذہب نے تو پشت پناہی کی، بلکہ ڈھال بنا اور جوز فراہم کی ایسے انسانیت سوز اخلاقی جرائم کی کہ دماغ سلگ اٹھتا ہے۔ دیکھیں جی، ہمیں نہ اکسائیں کہ ہم صاف صاف بات کہہ دیں اور پھر آپ سمیت بہت سارے مومنین کہیں کہ ہمارا دل دکھا دیا آپ کی صاف گوئی نے۔ ورنہ تاریخ میں بہت ساری مثالیں ملتی ہیں کہ مذہب کے سب سے بڑے علمبرداروں نے کیا کچھ نہ کیا، کون کونسے اخلاقی اور معاشرتی جرائم نہیں کئے، اور وہ get away with it ہو گئے، نہ صرف get away بلکہ کروڑوں لوگ آج بھی ان جرائم کی محض نشاندہی پہ جان لینے پہ تُل جاتے ہیں۔
اسلئے براہِ کرم یہ موضوع تو نہ ہی چھیڑیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ وہ آگ لگے جو نہ آپ کے بجھانے کی نہ ہمارے بجھانے کی۔
اور اینڈرسن شا صاحب ہی کی بات دہراوں گا کہ اگر ایک انسان کو انسان جیسا بی-ہیو کرنے کے لئے مذہب کی لاٹھی درکار ہے تو پھر انسان جانوروں سے بھی بدتر ہوا۔
بھئی میں کسی مذہب کو نہیں مانتا، لیکن میں کیوں کسی کی جان لوں بغیر وجہ کے؟ میں کیوں کسی انسان کا حق تلف کروں؟ میں کیوں برہنہ ہو کر بازار میں ناچوں یا کسی کو نچواوں؟ میں جو چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ برتاو ہو وہ دوسروں کے ساتھ بھی کروں تا کہ ہمارا معاشرہ انسانی معاشرہ بنے اور میری آنے والی نسلیں سکون سے رہیں۔ اس چیز کے لئے مذہب کی مہیا کردہ لالچوں اور دھمکیوں کی ایک انسان کو کیوں پروا ہونے لگے یہی کام خالص انسانیت کے لئے خلوص سے کیوں نہ کرے؟
چانچہ آپکا یہ دعویٰ بالکل غلط اور بے سروپا ہے کہ مذہب کی غیر موجودگی سے سوسائٹی تباہ ہو جائے گی۔البتہ حقیقت اسکے عین برعکس ہے۔
Even if you write a thousand blogs you cannot put a one mm dent in this bottom line.
بی کاز یُو سیڈ سو؟ سو کنوینسنگ۔
Another point regarding some other learned person on your blog who said that if we follow the rules given in this book, we will be beleiving other religions also, so my dear bhai jaan the book is absolutely not about “haqaniat of islam” it is a discussion about religion and science
جی، یہ عرض کرنے والا بھی خادم ہی ہے۔
چونکہ مصنف ایک مسلمان ہے، اور اسکی باسند قابلیت بھی (جو کچھ بھی ہے) اسلام ہی کی ہے، تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ اسلام کی بات کر رہا ہے۔ خیر، اگر یہ بھی فرض کیا جائے کہ وہ جنرلی مذاہب کی بات کر رہا ہے تو پھر اتنے سارے مذاہب میں سے کس کو منتخب کریں گے۔ ۔ ۔ یقین کریں جی، بات لے دے کر اسلام ہی پہ آئے گی، تو دہریہ یہی تو کرتا ہے کہ جس نتیجے پر مذہب پرست (یا مسلمان) گھوم پھر کر آتا ہے، وہ بات کا آغاز ہی وہیں سے کرتا ہے یر پھر اس نتیجے تک اس سے ایک قدم پہلے پہنچا ہوتا ہے۔
Another point, and this is not regarding the book۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔
, why is it so if everything can be explained by science and there is no God
جی، یہ پھر وہی گاڈ آف دا گیپس والی بات کی آپ نے۔ "توسل بہ جہل” والی پوسٹ ایک مرتبہ پھر پڑھیں، اور اگر آپ کے خیال میں آپ اسکو پڑھ بھی چکے اور سمجھ بھی چکے لیکن پھر بھی یہی غلط آرگیومنٹ دے رہے ہیں تو پھر آپ ہمارے سمجھانے کے نہیں۔
BTW i have found the source of your inspiration, it is this book "The God delusion” by dawkins, most of your blogs other than those on quran are copied ideas from here. If someone dont beleive it then he should read this book. As pointed out earlier by Mulla sb that waheed sb is not capable of discussing the scientific points, i am giving a link to a book that answers the points given in dawkin’s book. this book (the dawkins delusion)is not written by some moulvi but by molecular biologist.
http://www.goodreads.com/ebooks/download/621288.The_Dawkins_Delusion_
بات یہ ہے کہ آپکی تنقید اور گفتگو ایک طرزِ فکر کے حوالے سے ہو رہی ہے اور یہ اوپن فورم ہے،جہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک بندے کی بات کا جواب دوسرا دے دیتا ہے یا بیچ سے اچک لیتا ہے، چنانچہ کنفیوژ نہ ہوں۔ اور دوسری بات یہ بھی کہ آپ نے غلط فہمی میں میرے کومنٹس اور تحاریر اینڈرسن شا صاحب سے منسوب کر دیں اور ان سے مخاطب ہوئے۔ تحاریر میری تھیں چنانچہ یہی مناسب لگا کہ تصحیح کر دوں۔
اسکے بعد جبکہ میں آپ کے اٹھائے گئے سوالات کو باقائدہ "کوٹ” کر کے جواب دے چکا تو آپ حسبِ سابق بات کو دوسرے موضوعات پر گھما لے گئے اور "جنرلی” تبصروں سے ہٹ کر "ذاتی” صفائیاں دینا شروع کر دیں اور کچھ باتیں فرض کر کے ان پر گفتگو شروع کردی۔ ایسے میں، میں نے تو "اس سے سستی صرف خاموشی” کے مصداق خاموشی اختیار کر لی، پر اینڈرسن شا صاحب نے شاید مناسب سمجھا کہ ان باتوں کا جواب بھی دیا جائے تو انہوں نے ایسا کیا۔
اب اس تبصرے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے، کہ آپ نے کچھ اورباتیں فرض کر کے ان پر نتائج کی بنیاد رکھتے ہوئے انکو دلائل بنا دیا اور ذاتی تنقید پر بھی آگئے۔ بہرحال اس ذاتی تنقید اور فرضی دلائل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم ان باتوں پر گفتگو کرنے کی کوشش کریں گے کہ جو بظاہر معقول معلوم ہوتی ہیں۔دیکھتے ہیں ان دعووں میں کتنی حقیقت ہے۔
بالکل غلط، اس سے پہلے عیسائیت اور یہودیت بھی ایسا کرنے کو کہہ چکی ہے چنانچہ اسلام یا اسکے دعویدار کو اسکا کریڈٹ دیکر آپ نے ایک بار پھر غلو سے کام لیا ہے۔چنانچہ یہ اچھائی (اگر اچھائی ہے تو) اسلام کا رجسٹرد ٹریڈ مارک نہیں ہے۔
پھر حقیقت سے پردہ پوشی۔ ۔ ۔ جناب یہ خیالات اسلام نے دوسرے مذاہب یہودیت وغیرہ سے چرائے ہیں، کوئی نئی بات نہیں بتائی اسلام نے۔ بلکہ جس ذکواۃ کو آپ اسلام کی خوبی بیان کر رہے ہیں تو وہ بوجوہ خامی کہلانی چاہئے۔ غیرمسلموں کو رشوت دیکر مسلمان بنانے کی کوشش؟ اور آپ سمجھتے ہیں کہ اڑھائی فیصد کے سسٹم کے ذریعے یہ "آسمانی” مذہب دنیا سے غربت ختم کر دے گا؟ جی نہیں، خام خیال ہے آپکی۔ یہ چودہ سو سال میں اگر ایسا نہ کرسکا تو چودہ کروڑ سال میں بھی نہ شاید نہ کر پائے۔ ڈھائی فیصد ذکواۃ سے کس کو پیروں پہ کھڑا کر پائے ہیں آپ؟
شراب کی تو بات ہی نہ کریں حضور۔ ۔ ۔ شاید نظامی صاحب کبھی اس پہ بھی مفصل روشنی ڈالیں۔ ویسے اسکی حرمت کا سہرا بھی آپ نے اسلام کے سر پہ باندھ کے غلط بیانی فرمائی ہے۔ اسلام سے پہلے بھی اسکو برا سمجھنے والے موجود تھے۔
اب یہ نہ کہئے گا کہ مصدر تو سب کا بہرحال مذہب ہی ہے۔ آپ نے اسلام کی بات کی تو ہم نے اسکے مطابق جواب دیا۔ اب اگر آپ پھر چھلانگ لگائیں گے تو ہم دوبارہ وہیں پہنچ جائیں گے جہاں سے چلے تھے۔
اسلام کی نام نہاد اچھائیاں ہی بیان کرتے رہیں گے؟ اجی سرکار، اسلام کے اور اسکے شرعی قوانین کے جرائم پر بھی کبھی غور کیجئے نا۔ انسانوں کی غلامی اور اخلاقی جرائم سے لیکر بہیمانہ سزاؤں، بچوں سے قانونی ریپ اور سوچ تک پہ پہرے بٹھا نے میں کیا کسر چھوڑی ہے اس "نیکی کے آسمانی” مذہب نے۔
چہ خوب۔ اب بات آسان ریاضی پہ چلی گئی۔ خیر آپکی اس آسان ریاضی کے مطابق بھی ، اگر مذہب اتنا ہی اچھا اور نیکی کا سرچشمہ ہے تو پھر جیلیں کیوں بھری ہیں انسانوں سے؟ میرا خیال ہے کہ دوسری لافانی زندگی اور ابدی عیش کی لالچ اور دائمی عذاب کا خوف بھی کافی نہیں۔
بات یہاں پہ یہ نہیں ہو رہی کہ بل گیٹس "زیادہ” اچھا ہے یا عبدالستار ایدھی۔ بات یہ ہورہی ہے کہ مذہب کے بغیر بھی اچھائی ممکن ہے۔ گیٹس جو چیز بیچتا ہے وہ وہی خریدے گا کہ جس کے پاس بنیادی ضروریات سے زاید پیسے موجود ہیں۔ بہرحال وہ بہت بڑی مقدار خرچ کر رہا ہے بغیر کسی صلے اور لالچ کے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ مذہبی لالچوں کے بغیر ایسا ممکن نہیں، ہم نے آپکی بات رد کرنے کے لئے مثال پیش کی۔ اب آپ ترازو لے کر بیٹھ گئے۔
بہرحال، اسکے باوجود بھی آپکا آرگیومنٹ درست نہیں۔ آپ نے ایک وعدہ کیا تھا کہ اگر مذہبی جذبے کے بغیر بھی لوگ اچھے ہو سکتے ہیں تو پھر میں اپنا سائکالوجیکل معائنہ کرواؤں گا ، تو جناب لیجئے، اور لیجئے، اور مزید بھی لیجئے
مجھے انداز ا ہے کہ نہ تو آپ نے ان لنکس میں مہیا کردہ معلومات پوری پڑھنے کی زحمت گوارا کرنی ہے اور نہ ہی کسی سائکالوجیکل معائنے کی۔ کیونکہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔
آگے آپ فرماتے ہیں کہ:
ایسے دعوے مذہبی لوگ ہی کر سکتے ہیں، چنانچہ بے چارے علماء خاموشی سے اپنا کام کرتے رہیں گے اور کسی وقت یہ دعویٰ بھی پکی پکائی کھانے والے مذہب پرستوں کے منہ پہ دے ماریں گے کہ لو ماضی کے مذہبی دعووں کی طرح اسکا بھی حشر دیکھ لو۔ فی الوقت چونکہ ایڈز کا علاج دریافت نہیں ہوا لہٰذا یہ خاکسار ملحد اس پہ منہ بند رکھے گا کہ یہی عقلمندوں کا وطیرہ ہے۔
نمبر ایک : آپ فری سیکس اور محفوظ سیکس کو مکس اپ کر رہے ہیں سرکار۔ 😀 ۔
نمبر دو: میرا خیال ہے کہ آپ اس بات کو بالکل غلط پیرائے میں لے رہے ہیں ۔ اگر اس موضوع کا بغور مطالعہ کریں تو آپکو پتہ چلے گا کہ یہ معاشرے میں ان مظلوم بچوں کے بارے میں بھی اشارہ ہے کہ جو ماں باپ کے فری سیکس کی سزا بھگتتے ہیں۔ کتنی نفرت ہے ہمارے معاشرے میں ان انسانوں سے اس جرم پہ کہ جو انہوں نے کیا ہی نہیں ہوتا۔
نمبر تین: کیا آپ جانتے ہیں یا جانتے تھے کہ غلام عورت اور مرد کی شرمگاہ اسلام کے مطابق ناف سے گھٹنوں تک ہے؟
یعنی سینہ یا پستان یا جو بھی لفظ پسند ہو کہہ لیں بھلے نظر آتا رہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اسکے علاوہ بھی کافی کچھ spicy spicy موجود ہے، میں حضرت علامہ نظامی صاحب سے درخواست ہی کر سکتا ہوں کہ کبھی فارغ وقت میں اس موضوع پر مفصل روشنی ڈالیں تاکہ ہمیں علم ہو کہ مذہب کے فری سیکس کی بابت کیا خیالات ہیں۔ یقین کیجئے ایمان تازہ ہو جائے گا اور اگر فری سیکس ہی motivation بنا مذہب کے قبول یا نا قبول کرنے کا تو شاید اسلام نمبر ایک پہ آئے گاقبولیت کے ضمن میں ۔ 😀 آزمائش شرط ہے۔
اس سے آگے مزید آپ نے کچھ ذاتی طنز فرمائے ہیں، ان سے ہم صرفِ نظر ہی کریں گے(بغیر مذہب کے سکھائے پڑھائے)۔
آپ نے بجا فرمایا کہ ساری کتابیں پڑھنا ممکن نہیں اور نہ ہی اپنی معلومات کے کم ہونے کا اعتراف باعثِ شرمندگی ہونا چاہئے، بلکہ یہ تو اعلیٰ ظرفی کی نشانی ہے۔ میرا نئی تحقیق کا حوالہ دینے کا مقصد صرف اپنی دلیل کےاثبات کے لئے تھا نا کہ کسی قسم کا ذاتی تمسخر، بہرحال پھر بھی اگر ایسا محسوس ہوا ہو تو آپ سے معذرت طلب کرتے ہیں۔
آگے مزید کچھ ذاتی گفتگو جس سے پھر پہلو تہی کریں گے ہم۔
بس اگر آپ نے ہماری باتوں کو بغور پڑھا بھی اور سمجھا بھی تو شایدپھر ہم اپنا مدعا ہی ٹھیک سے نہ سمجھا پائے ہوں گے، کہہ تو دیا تھا کہ ہمیں کسی مذہب سے پرخاش نہیں اور اس وقت تک نہیں جب تک یہ ایک بندے کے ذہن اور ذات سے نکل کر دوسرے کی ذات پر حملہ آور ہو کر اسے اپنی جاگیر بنانے کی کوشش نہیں کرتا۔ مذہب ذاتی معاملہ ہوتا ہے اسے ذاتی ہی رکھا جائے، یہ ہمارا پوائنٹ تھا اور ہے۔
مسئلہ تب بنتا ہے جب اسکی مدد سے دنیا کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ کر کے دوسروں کی زندگی عذاب بنائی جاتی ہے۔ جب دو بالغوں کے بیچ میں مذہب انگلی کرنا شروع کرتا ہے۔ جب ریاستی اور انسانی قانون کے بالاتر بننے کی کوشش کرتا ہے۔ جب سائنس کو اپنی جاگیر بنا لیتا ہے۔ مذہب کو ذاتی معاملہ رکھیں، ملحدیت بھی ذاتی معاملہ ہی رہے گی۔ (الحاد بہ معنی کسی خدا کا انکار)۔
اب دیکھئے نا، بات پھر وہی آگئی کہ مذہب ایک کے ذاتی خیالات سے نکل کر دوسرے پر حملہ کرنے کو پر تول رہا ہے۔ ایک بندہ مذہبی بکواس پر یقین رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ دن میں پانچ مرتبہ تشریف دھو کے ذمین پہ ٹکریں مارنا اسکی بندگی ہے۔ یہ اس "ماورائی” ہستی کا حق ہے۔تم ایسا نہ کرو گے تو جہنم میں جلو گے۔ جب یہ خیال ظاہر کر کے ایک ملحد پہ تھوپنے کی کوشش کریں گے تو وہ اپنی رائے ضرو ر دے گا جیسا کہ ہم نے دے دی۔
آپ یہ (حسبِ معمول) غلط فرما رہے ہیں کہ میں نے ایسا کہا ہو کہ "آپ ہمارے کسی کام کے نہیں”۔ ذرا یہ جملہ پھر تلاش کر کے بغور پڑھئے کہ ہم نے کہاں اور کس معاملے میں یہ بات کہی تھی، یا کہ صرف آپ کو وہم ہوا ہے۔سرکار، آپ تو بڑے کام کے آدمی ہیں۔ آپ ہی کے سوالات تو ہیں جو ہمیں ہمارے خیالات مزید وضاحت سے بیان کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
جس کتاب کا ربط آپ نے دیا اسکو بھی نمبر آنے پہ پڑھ لیں گے، لیکن اس کے لئے پہلے اسکو پڑھنا ہوگا کہ جسکے جواب میں یہ لکھی گئی ہے۔ چنانچہ معذرت، اتنے شارٹ نوٹس پہ تبصرہ نہ کروں گا۔
او سر جی ایک دفعہ پھر آپ غلط معلومات کی بنیاد پر کتاب اٹھا لائے ہیں.. اول تو شکر ہے آپ کو آج پتہ چلا کہ رچرڈ ڈاکنز نے ❞دی گاڈ ڈلوژن❝ لکھی تھی اور مگریتھ نے ❞دی ڈاکنز ڈلوژن❝ لکھی تھی، ہمیں تو پتہ ہی ںہیں تھا، آپ نہ بتاتے تو ہمارا کیا بنتا؟.. مگریتھ جسے آپ مالیکیولر بایولوجسٹ بتا رہے ہیں وہ اصل میں ایک پادری ہے 😀 مالیکیولر بائیوفزکس میں اس نے ڈی فل کیا ہے یعنی صرف فلسفہ پڑھا ہے وہ بھی نمبر بنانے کے لیے.. وہ مالیکیولر بائیولوجسٹ نہیں ہے، غیر متعلقہ لوگوں کی عیسائی مشینری کے پروپگنڈے پر مبنی ایسی ہزاروں کتابیں آپ کو ایمازان پر مل جائیں گی، اس کی یہ کتاب تو شائع ہی برطانیہ کی سوسائٹی آف پرموٹنگ کرسچن نالج نے کی تھی.. ایک دفعہ اس کی ❞دی ڈاکنز ڈلوژن❝ پڑھیں تو سہی.. ہاسا ہی نکل جاتا ہے 😀 رچرڈ ڈاکنز کو جواب دینے کی ایسی ہی ایک بودی کوشش آپ کے شیخ ابو الفداء بن مسعود نے اپنی Blasting the foundations of atheism نامی کتاب میں بھی کی ہے جس کا تیسرا اور چوتھا باب منطقی مغالطوں کی بڑی عمدہ مثال ہے بالکل آپ کے مولانا کی طرح.. ڈاکنز کو جواب دینا ان حضرات کے بس کی بات نہیں ہے.. ان دونوں حضرات نے اپنا اور قاری کا محض وقت ہی برباد کیا ہے اور وہی قلابازیاں کھائی ہیں جو آپ یہاں کھا رہے ہیں.. کدی ایتھوں دی تے کدی اوتھوں دی.. 🙂
Very confusing, when i talk to Anderson Shaw, mulla mulhid replies and when i talk to mulla then Anderson Shaw replies, are you the same person?? but i think these are two different people because mulla mulhid remain in control of his emotions even if someone disagrees to his point of view however our learned Anderson Shaw sb start losing patience very soon. I was expecting a reply like this that you are giving personal example, at one side Mr. Anderson Shaw shows everyone that he is the most learned person ever existed, however when it come to his own interest he becomes niave like my 3 year old daughter. Defenitely there was so much good in the arab society before the advent of islam and islam did nothing to improve their moral values. I think this is what you were trying to say. I leave the analysis to the readers. Islam was the one asking not to take interest on money, islam was the one asking people to give a fixed amount from their yearly savings to the poor. Islam was the one who asked not to drink wine. time has shown the truth of all these commands. other good deeds asked by islam are there in other ilhami religions because they have same foundation.
Jails are full of beleivers and not by atheists because there are only 2.5% atheists in the world. This is simple mathematics. No further comments on this.
Regarding philanthropy please go and see its definition in wikipedia, it includes spending your time and effort also for the good cause. I think Mr. Abdul sattar edhi is greater philanthropist than bill gates, that guy has spend his whole life for the good of people despite not having much resources. However your Gates earned all this money by monopolizing the market (now dont ask me a reference for that) your own linux inside thing is a proof for that, had this gates guy being so full of good he would have made something affordable. This tactic of philanthropy is a ploy to evade tax for microsoft and himself. If you know about finances and taxes i think you will agree. he is spending 29 billion dollars and most of it in reserach for cure of Aids, "Na us ka koi ilaj daryaft ho ga aur na pata chalay ga kay kitnay paisay kahan kharach huay hain” see how good he is. BTW your advocacy for free sex is one of the main reason for Aids, see, your ideas have cost so much to poor gates. Now dont tell me that you never advocated free sex, i have seen your comment in this blog where you have said that marriage is not needed to bring forth the next generation. Your other very good noble facebook guy also is so good that he betrayed his own friends shamelessly and even a movie is there to show this. If i am using the tool invented by atheists the main source of power for those tools was discovered by non atheist. Waisay aap ko jinhoon ne eejad kiya woh bhi definitely atheist nahin hain. Kiya sitam zareefi hain. 🙂
it is not necessary and possible for a person to read each and every book. What i read i.e. brief history of time, i accepted what i didnt read i accepted that too, there is no shame however, your comment shows the level of hatred concealed in your heart against islam, and definitely it was you who passed the engineering exam on my behalf so that i will be doning this job. Sorry i forgot.
Warna hamain parhnay likhnay se kiya garaz
One of the guys commented on this blog that pen is like AK47 in your hand, that poor guy didnt know that reading technical stuff is one thing and reading/researching for the sake of venting your pent up hatred is another thing.
We are talking about 14 years not 1400 years that everything has changed and that changed hawkings mind but anyhow this is his personal beleif.
Thanks God you have finally accepted that atheist thought is just a personal thing and it has got nothing to do with progress. So no need to go for all this hassel. The right path of hard work and honesty shown by our religion is enough to guide us. Regarding Bertrand russell issay kehtay hain chit bhi meri pat bhi meri. keep mocking the almighty throughout your life , disobey him as much as possible and then say that he should not be offended by that. Becasue offend honay ka haq tou sirf hum insanoon kay paas hai.
Mulla mulhid said it right about me that mein aap kay kisi kaam ka nahin. Shukar Alhamdullah kay aisa hai.
here i will say only one thing regarding imposing my religious ideas on you or mr Anderson Shaw, i am not imposing my ideas, nor the ideas of islam on anybody, besides there is no zabardasti in islam. If you are saying that you are muslim then you need to follow it, if your case is otherwise then no problem, with me or islam. My whole argument generated because of the idea that athesim is the best optoin for anyone who wants to make progress and lead a happy life. this is the impression that i got from the posts on this blog. If now you are saying yourself that this is just personal issue no problem with being atheist or non atheist then i have no point of contest. BTW jews were know and still are know for their interest related activities, however you are taking away this credit from islam. If you think nikah and free sex is same thing, or this safe sex thing is better than islamic directive about sex then i can only feel sorry for not that much understanding.
you have just given some argument here regarding islam’s bad directive towards personal matter, e.g. that navel to knee thing, can you give a reference for that from bukhari, muslim or quran. other than this i didnt see any question, only satire on islam was evident. one of your answers in previous post was that loag sharab ko is se pehle bhi bura samajhtay thay, yaani it is not possible to give any credit to islam on anything, but still you say that we are not against any religion. Good point. You dont have a solid point here that islam was the first to ban interest however you are asking me. this if i remember is the same thing, as was said in the case of God by your learned self that the person who says there is god should bring a proof not the other way round.
Here i will ask you who the hell is asking you to convert back to islam, or who the hell is threatning to kill you if you dont convert back. Dont give me example of taliban, but other than that who (i mean muslims like myself) else has any interest whether you are muslim or atheist. Remain like this forever, no one has time or incilination to change your belief. Be practical boss. Last point by you is good and support my above point that only someone looking for trouble will interfere in others religion now a days. but think whether your posts here are not doing the same for muslims. 🙂
اچھا، اگر ہم قرآن و احادیث سے غیر اخلاقی و غیر انسانی لغویات بیان کریں تو آپ مان جائیں گے اور چھوڑ دیں گے اس دین کو؟ اگر ہم قرآن و حدیث سے ثابت کر دیں کہ یہ حقوقِ انسانی کو پامال کرتا ہے، یہ ظلم کرتا ہے تو آپ کیا کریں گے؟
ہم اس بلاگ پہ چلا چلا کے تھک جائیں گے اور آپ تاویلوں پر تاویلیں کرتے تھک جائیں گے ۔ نتیجہ کیا نکلے گا؟
یہ آپ بات کو بالکل غلط طرف گھما لے جا رہے ہیں۔اور دو مختلف باتوں کے مختلف جوابات کو مکس کر کے ایک غلط تصویر پیش کر رہے ہیں۔ آپ نے اسلام کا دفاع کیا کہ اسلام اچھا مذہب ہے اور نیکی کا کہتا ہے ، یعنی غلط بیانی کرتے ہوئے ایک تصور کو ناجائز کریڈٹ دیا۔ ہم نے آپکی تصحیح کی کہ یہ اسلام کی خوبی نہیں ہے کہ اسنے شراب کو حرام کہا۔ یہ بات (اگر سچ ہے تو) اس نے دوسروں سے چرائ ہے۔
"اسلام سے پہلے ابیونی سال میں ایک ماہ روزہ رکھتے تھے، بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے اور غریبوں کی مدد کرتے تھے، ختنہ کرتے تھے، جنابت سے غسل کرتے تھے، حج کرتے تھے، شراب کو حرام قرار دیتے تھے اور ایک خدا کی عبادت کرتے تھے (طبقات ابن سعد صفحہ 77 جلد 1 صفحہ 85 ایضاً تاج العروس)”
اور "باس”، آپ جانتے ہیں کہ آپکے اسلامی علماء میں خود بھی اس شراب والے موضوع پر اختلاف ہے؟
(دیکھئے، اب یہاں آپ فری سیکس والی بات گول کر گئے اور شراب پر قلابازی لگا دی، اب یہاں سے بھی آپ نے چھلانگ مار دینی ہے)۔
جی بالکل، اور یہ دلیل آپ نے دی تھی ہم نے نہیں۔ ہم نے تو رد کی تھی کہ جسکاآپ نے ابھی اثبات کیا ہے۔ یعنی ہمارا پوائنٹ درست تھا۔
جی بالکل، ایسا ہی ہے۔ اگر آپ اس کو سود والی بات پہ منطبق کرنا چاہتے ہیں تو حضور، یہ دعویٰ آپ جناب کا ہے کہ "اسلام ہی نے سود کو بطور برائی پیش کیا”، ہم نے تو اس بات کو جھٹلایا ہے۔ چنانچہ ثبوت آپ ہی نے دینا ہے۔
حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں آپ۔ چلیں آزما لیتے ہیں۔ کیا آپ بھرے چوک میں اعلان کر سکتے ہیں کہ شرعی قوانین غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہیں اور توہینِ رسالت کا قانون غلط اور برا ہے؟ آپ ذرا کہیں توسہی کہ آپ مرتد ہو چکے ہیں "پھر دیکھ جو نکلیں حرف زباں سے” یا پھر تیر کماں سے۔
یاربات آپ کی ذات کی حد تک کب ہو رہی ہے؟ بات ایک طرز فکر کی ہو رہی ہے اس کو اسی پیرائے میں رکھیں۔
جی جی، میں خود بھی "آپ ہی کی طرح کے مسلمانوں” سے آیا ہوں۔ مجھے معلوم ہے وہ اہنسا کا مذہب اور بھائی چارے اور پیار کا مذہب۔ ۔ ۔ بھائی اسکو تو یہ ٹپیکل مسلمان اسلام ہی نہیں مانتے۔ بہرحال، اس عجیب و غریب آرگیومنٹ پر میں آپکو اسکے مطالعے ہی کا مشورہ دے سکتا ہوں۔ غیر حقیق سکاٹ۔
کاش کہ یہ سچ ہوتا، یقین نہیں آتا کہ اس امت کا ایک فرد یہ بات کر رہا ہے کہ جس کی "ذمہ داری” ہے کہ "حق سچ” کو ساری دنیا تک پھیلائے اور اچھائی کا "حکم” دے اوربرائی سے” روکے”۔ ۔ ۔ (ہاں، جہاں بس نہ چلے وہاں دل ہی دل میں کوس دینے میں کوئی مضائقہ البتہ نہیں)۔
اوکے باس۔ بس لگے ہاتھوں مسلمانوں کو بھی تلقین کر دیں اسی بات کی۔ تاکہ وہ معاشرے پر بوجھ بننا بند کریں اور دنیاکی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں۔
اب اِسے ضعفِ بصیر ت کا نام دیں یا ضعفِ بصارت کا؟ بھئی ہم کتنی مرتبہ کہیں گے کہ مذہب دوسرے انسانوں کے معاملات میں انگلی کرنا بند کرے، حقوق سلب کرنے سے رک جائے، ظلم سے باز آجائے۔ ایسے بلاگ اور ایسی تحاریر بھی ختم ہو جائیں گی۔ یہ تو مذہب کی بدمعاشی کا ردِ عمل ہے۔
اسلام دنیا کا شاید وہ واحد مذہب ہے جس نے آکر انسانی غلامی اور تجارت کو "شرعی” حیثیت دی اور انسان کو قانونی طور پر آزاد اور غلام میں تقسیم کردیا، صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر حدیث نمبر 3891 میں ہے کہ جب نبی اسلام نے صفیہ بنت حیی کو اپنے لیے منتخب کیا تو مسلمانوں نے کہا کہ یہ یا تو امہات المؤمنین میں سے ہے یا باندیوں میں سے تو اگر انہوں نے اسے پردہ کرایا تو یہ امہات المؤمنین میں سے ہوگی اور اگر نہیں کرایا تو کنیز اور باندی ہوگی، پھر جب نبی اسلام نے اسے پردہ کرایا تو مسلمانوں کو پتہ چل گیا کہ یہ ام المؤمنین ہے.. یعنی نبی اسلام خود نہ صرف باندیاں رکھتے تھے بلکہ انہیں پردہ بھی نہیں کرواتے تھے یعنی ان کی نظر میں باندی یا کنیز کی حیثیت محض "‘مال” کی سی ہوتی تھی، ان لوگوں کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے جو اسلام میں عورت کے مقام کا راگ الاپتے نہیں تھکتے؟!
عمر بن الخطاب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جب کسی باندی کنیز کو پردے میں دیکھتے تو اسے جھڑک دیتے اور کہتے کہ آزاد عورتوں سے مشابہت اختیار نہ کرو.. یعنی اپنے ہی ہاتھ سے انہیں ننگا کرتے تھے.. سنن البیہقی کتاب الصلاۃ میں انس بن مالک سے مروی ہے کہ عمر بن الخطاب کی باندیاں ننگے سر خدمت کرتی تھیں اور ان کے پستان آپس میں ٹکرا رہے ہوتے تھے؟!
تحفۃ الاحوذی فی شرح جامع الترمذی میں فرمایا گیا ہے کہ شافعی، ابی حنیفہ اور جمہور علماء نے آزاد اور غلام عورت کی شرمگاہ میں تفریق کی ہے اور غلام عورت کی شرمگاہ ناف سے گھٹنے تک قرار دی ہے؟! امام ابن تیمیہ کی کتاب الفتاوی میں امام صاحب نے فرمایا ہے کہ جمہور شافعیوں اور مالکیوں اور بیشتر حنابلہ کے نزدیک کنیز کی شرمگاہ ناف سے گھٹنے تک ہے، اس میں احناف نے صرف اتنا اضافہ کیا ہے کہ اس میں پیٹ اور کمر بھی شامل کردی ہے یعنی سینہ بھلے نظر آتا رہے تاہم جمہور علماء اور ائمہ اسلام کے نزدیک کنیز یا باندی کی شرمگاہ ناف سے گھٹنے تک ہی ہے..
یہ ہے وہ انسانیت، عزت، شرافت اور مساوات سے بھرپور خوبصورت اسلام..!؟ اسلام تو جو کچھ ہے سو ہے، حیرت تو ان لوگوں پر ہوتی ہے جو ایسی گھٹیا آئیڈیالوجی کے دفاع کے لیے خود کو بم تک سے اڑا دیتے ہیں..!!
i have read the links given by you, it only shows that non beleivers are caring for humanity but then so are beleivers so what is so exclusive about it. again this becomes personal matter, zaati misal, which has already been discredited by Anderson Shaw in earlier reply.
ایک بار پھر گزشتہ باتوں کے جواب میں بات کرنے اور ہمارے پیش کردہ دلائل رد کرنے کی بجائے آپ پرانے سوال ہی نئے طریقے سے لے آئے۔ خیر، یہ "فنامنا” (مظہر) ہم دیکھ چکے ہیں لہٰذا بالکل حیرت نہیں ہو رہی۔ مذہب پرست اس طرح کی قلابازیاں کھانے میں ماہر ہوتے ہیں۔
یہ آپکا ذاتی رویہ ہے جسکی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔
یہ دعویٰ غلط اور اسلامی منافقت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس پہ گفتگو کرنا چاہیں تو بتائیے گا، ہم دلیل سے بات کریں گے۔ لیکن اس دفعہ ایک بار میں ایک پوائنٹ تاکہ آپ بات کو نظرانداز یا گھما نہ ڈالیں۔
آپ کی ذات کی حد تک تو یہ دعویٰ شاید درست ہولیکن اسلام اور اسکے دیگر پیروکاروں کو اس سے پرابلم ہے جسکے ردِ عمل میں یہ بلاگ اور ہماری تحریریں منظرِ عام پر آرہی ہیں۔ اور نہ ہی بلاگ آخری بلاگ ہوگا نہ ہی تحاریر آخری تحاریر ہوں گی۔
آپکا غلط اندازوں پر مبنی "امپریشن” امید ہے اب درست ہو گیا ہوگا۔
شکریہ، امید ہے بقیہ مسلمان بھی آپکی پیروی کریں گے تا کہ ہم ملحد لوگ اور آپ مومن لوگ چین کی بنسی بجا سکیں۔
بالکل ہم اسلام سے سود کی حرمت متعارف کرانے کا کریڈٹ لے رہے ہیں کیونکہ یہ اسکا مستحق نہیں ہے۔ یہودیوں کا سود لینا ایک الگ فعل ہے۔ جسطرح مسلمانوں کا دعویٰ کرنا کہ اسلام امن کا مذہب ہے جبکہ پوری دنیا میں انکی دہشت گردی کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ آپ نے کہا کہ اسلام ہی ہے جس نے سود کی حرمت کا تصور دیا، ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کوئی پہلا مذہب نہیں ہے کہ جسنے سود کو برا کہا، یعنی اسلام نے یہ تصویر دیگر مذاہب سے "چوری کیا ہے”۔ آپ کے پاس اگر اس آرگیومنٹ کو رد کرنے کے لئے کوئی "سالڈ” آرگومنٹ ہے تو پیش کیجئے۔ بحث کے دوران بات گھمانا غلط وطیرہ ہے۔
آپ نے فری سیکس کے ضمن میں میرے اوپر اٹھائے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا اور مجھے اسکی امید بھی نہیں تھی۔ جواب میں آپ نے وہی پرانی بات نئے انداز سے کہہ دی۔ ہم کہتے ہیں اسلام جنسی آزادی، جنسی استحصال اور بے راہ روی کے لئے دروازے کھولتا ہے۔کیا بندہ اسلئے اسلام قبول کرے کہ اسکو جنسی آزادی اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا استحصال کرنے کی آزادی ہو؟ ہم ایسے غیر فطری اور غیر انسانی مذہب کی نفی کرتے ہیں۔
آپ اپنی بات سے ایک بار پھر گھوم رہے ہیں۔ یاد کیجئے یا پرانے کومنٹس پڑھ لیجئے، آپ نے کہا تھا کہ مجھے نہیں معلوم کہ مذہب کے بغیر اچھائی ممکن ہے، اور اگر ایسا ہے تو میں اپنا نفسیاتی معائنہ کرواؤں گا۔ ہم نے ثابت کیا کہ مذہب کے بغیر اچھائی ممکن ہے۔ آپ نفسیاتی معائنے کی بجائے اب بےجا آرگیومنٹ کریں تو ہم اس پہ کیا کر سکتے ہیں؟
بالکل درست۔ آپ ہزار بار بات دہرائیں تو ہمارا یہی جواب ہوگا کہ جب مذہب ایک بندے کے ذاتی معاملے سے نکل کر دوسرے کے ذاتی معاملوں میں انگلی کرتا ہے تو ہم بولتے ہیں۔ اسلام کی متنازعہ تعلیم، اسکاغیرانسانی شرعی قانون، ملکی قانون سے اسکی حقوقِ انسانی سلب کرنے والی اسلامی شقیں ختم کر کے انکو اسی سوراخ میں بند کر دیں جہاں سے نکل کر اسنے انسانیت کو نگلنا شروع کردیا ہے تو ہم بھی خاموش ہو جائیں گے۔
ایک نامعلوم ملحد کا ایک جملہ شئیر کرنا چاہوں گا کہ جس سے ضروری نہیں کہ سب ملحد یا سب مذہب پرست متفق ہوں، بس ایک بات سنی تھی اور اچھی لگی، سوچا آپکے تفننِ طبع کے لئے شئیر کر دوں۔
There are good atheists and bad atheists. There are good believers and bad believers. A cunt is a cunt and no god has ever changed that
سلیس ترجمہ: اچھے برے دونو ں قسم کے مذہب پرست موجود ہیں۔ اسی طرح اچھے اور برے دونوں قسم کے ملحد بھی وجود رکھتے ہیں۔ بدذات ہمیشہ بد ذات ہی رہے گا اور کوئی خدا بھی اسکو ٹھیک کرنے سے قاصر ہے۔
اور ہاں، نظامی صاحب بھی ہو سکتا ہے کہ اسلامی فری سیکس، اسلامی کنیز بازی اور اسلامی مزید "بازیوں” پر ہمیں فیضیاب فرمائیں۔ اس وقت تک کے لئے آپکے ذہنی حظ اور دستیاب آپشنز :Dبتانے کے لئے کچھ روابط پیش ہیں۔
عنیقہ کے بلاگ پہ نکاحِ مسیار کے بارے میں گفتگو
خاور کھوکھر صاحب کے بلاگ پہ نکاحِ مسیار کی گفتگو
انگریزی ویکی پیڈیا رابطہ
اردو ویکی پیڈیا رابطہ
اسے کہتے ہیں رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔ ۔ ۔ ۔
لونڈیوں اور غلاموں کےمعلق اسلام میں کیا احکامات ہیں یہ جاننے کیلئے اس لنک کا بھی مطالعہ فرمالیجئے۔
http://www.bashriyaat.com/slaves_in_islam.php
only one point over here, none of the reference given over here is from bukhari, muslim or quran. please give me reference from bukhari, muslim or quran only. one of the point given by mulla sb is correct, aap cheekh cheekh kay thak jain gay aur hum rad kar kay thak jain gay. so no point in wasting each others time.
so no point in wasting each others time
وقت کے ضیاع والا کھیل آپ نے شروع کیا تھا حضور۔ 🙂 جسمیں مسلسل آپ جناب ایک موضوع سے دوسرے موضوع پہ چھلانگ لگاتے رہے۔ جس موضوع پہ بھی جواب نہ بن پڑا، فورا” دوسرے پہ قلابازی لگا دی۔ ساری بحث، سارے دلائل بلاجواب ردی کر دئیے اور اور آخر میں ایک موضوع کو پکڑ کر ایک لنگڑی دلیل دے دی کہ "کوئی حوالہ قرآن، بخاری یا مسلم” سے نہیں ہے۔
جہاں غلام عورت کے "فری” ستر کا ذکر ہے وہیں فتویٰ کا حوالہ بھی دیا ہوا ہے۔ چاروں ائمہ اس پہ متفق نظر آتے ہیں اور "امتِ مسلمہ” کی اکثریت انہی کی تقلید کرتی ہے۔ چنانچہ یا تو یہ چاروں ائمہ کرام اسلام کو غلط سمجھے ہیں، یا پھر آپ۔ فتویٰ شریعت کی بنیاد پہ دیا جاتا ہے اور فتویٰ کا انکار شریعت کا انکار ہے۔ اگر آپ شریعت کا انکار کر دیتے ہیں تو ہماری کوئی بحث ہے ہی نہیں، ہمارا تو اختلاف ہی مذاہب، اسلام اور اسکی بے حیا شریعت سے ہے۔
ہم نے پوچھا تھا کہ اگر اسلام کی ظلم و ناانصافی اور بے حیائی پر مبنی تعلیمات اور "فری سیکس” کا بیان اگر ہم قرآن اور صحیح احادیث سے پیش کریں تو آپ کیا کریں گے؟
اس کا جواب دینے کے بجائے حسبِ معمول بات گول کر دی۔ اگر
aap cheekh cheekh kay thak jain gay aur hum rad kar kay thak jain gay
والی بات درست ہے تو پھر ہم سے فضول کی بے نتیجہ بحث کی توقع نہ رکھئے۔ ہاں، اگر آپ ہمارے ثابت کرنے کے بعد اسلام نامی لغویت سے توبہ تائب ہو کر دائرہ الحاد میں داخل ہونے کو تیار ہیں تو پھر ہم اگلی بات کریں گے۔
قرطبی اپنی مشہورِ زمانہ تفسیر الجامع لاحکام القرآن میں سورۃ الاعراف کی آیت 26 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
خوش!؟
PLZ Read at http://www.tolueislam.org/Urdu/kitabiyat.htm