مسلمان اکثر قرآن سے سائنس تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس کے لیے جو طرزِ عمل اپنایا جاتا ہے وہ بالکل غیر سائنسی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سائنس سے ان لوگوں کا دور نزدیک کا کوئی واسطہ نہیں۔
سائنس کا ایک اصول ہے کہ جب ہم تھیوری ڈویلیپ کرنے لگتے ہیں تو سب سے پہلے مشاہدات سے حاصل ہونے والا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ کونسا ڈیٹا تھیوری کی بہترین وضاحت کرتا ہے۔
لیکن ہمارے مسلمان بھائی/نوجوان یہ کام کچھ الٹ کرتے ہیں۔ ان کے پاس تھیوری ہے قرآن کی صورت میں۔ (ان کے نزدیک قرآن محمد کے ذہن پر اتارے گئے براہ راست خدا کے الفاظ ہیں)۔ اور پھر وہ ڈیٹا تلاش کرتے ہیں جو ان کی تھیوری کو سپورٹ کرے جو کہ بلکل غیر سائنسی اپروچ ہے۔ ایسا کرنے سے آپ ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ سائنس سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ میرے پیارے بھائیو! آپ بالکل ویسا ہی غیر سائنسی طریقہ کار اپناتے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا۔ ڈیٹا آپ تلاش کرتے ہیں قرآنی آیات سے جو آپ کی اس تھیوری کو سپورٹ کرتا ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے۔
اگر آپ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ آپ سائنس کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں تو اس درست سائنسی طریقہ کار کو فالو کریں جو مندرجہ ذیل ہے:
سب سے پہلے اپنے ڈیٹا کو دیکھیں یعنی قرآنی آیات کو۔ پھر دیکھیں کہ کونسی تھیوری آپ کے ڈیٹا کی بہترین وضاحت کر رہی ہے۔
1- کون سے ڈیٹا (آیات) کے مطابق اللہ قرآن کا لکھاری ہے؟
2- کون سی آیات کے مطابق محمد اس قرآن کے رائٹر ہیں۔ اور اللہ کی رہنمائی کے بغیر قرآن مکمل طور پر ان کے دماغ کی اختراع ہے۔
آئیں اور ذرا ڈیٹا کو جانچتے ہیں کہ کون سا ڈیٹا تھیوری کی بہترین وضاحت کر رہا ہے؟ لیکن آپ کو خبردار کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ خالصتاً سائنسی رویہ اپنانا چاہتے ہیں (جو کہ ہمارا موضوع سخن ہے) تو آپ کو معروضی انداز میں سوچنا ہوگا۔
معروضیت سے مراد آپ نے ان چیزوں کو فرض نہیں کرنا جنہیں آپ شروع سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہیں ہیں، جیسا کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے، حتی کہ عارضی طور پر بھی آپ یہ فرض نہیں کریں گے۔ آپ یہ فرض کریں کہ آپ نہیں جانتے کہ قرآن کس نے لکھا۔ اب آپ نے اپنے ڈیٹا یعنی آیات کے ذریعے اور اپنی موجودہ معلومات جو محمد کی زندگی کے بارے میں آج ہم سب جانتے ہیں اور کائنات جو ہمارے گرد وپیش بکھری ہوئی ہے کے بارے میں ہمارا علم، اس ڈیٹا کی بنیاد پر یہ جانچنا ہے کہ قرآن کس نے لکھا۔
کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں؟ اگر آپ ایسا کر سکتے ہیں تو آپ کو معروضی ہونا پڑے گا۔ لیکن مجھے یقین ہے آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ایک لمحے کے لیے بھی ایسا سوچنا کہ قرآن لکھنے والا اللہ نہیں ہے آپ کے لیے گناہ ہے۔ اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو یہ ٹیکسٹ آپ کے لیے نہیں ہے۔ تو پھر آپ اپنا واسطہ دوسری چیزوں سے ہی رکھیں یعنی نماز اور روزے سے۔ قرآن میں سائنس کو تلاش کرنے کی کوشش مت کریں۔ ایسا کرنے سے پہلے آپ کے لیے سائنس کو سمجھنا ضروری ہے اور یہ بھی کہ یہ کیسے کام کرتی ہے۔
سب سے پہلے سائنسی اصول یعنی معروضیت کے ساتھ اتفاق کرنا ضروی ہے۔ یعنی ہمیں عارضی طور پر اپنے عقائد سے ناطہ توڑنا ہوگا۔ اور ثابت ہو جانے تک ہم فرض نہیں کر سکتے۔ ضروری ہے کہ ثبوتوں کو دیکھا جائے، سب سے پہلے ڈیٹا کو دیکھتے ہیں۔ اب یہ جانچتے ہیں کہ کون سا ثبوت ہمارے مفروضے کی بہترین وضاحت کر رہا ہے۔
آئیں مندرجہ ذیل تصور کی سچائی کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں:
مفروضہ نمبر 1:
قرآن میں ایسی کوئی عبارت نہیں جو جدید سائنس سے متصادم ہو۔
اس تصور کو ہم کاسمالوجی کے نقطہ نظر سے جانچنے کی کوشش کریں گے۔ قرآن ہمیں کاسمالوجی کے بارے میں کچھ بتا رہا ہے (سورج، چاند، زمین وغیرہ) ہمارے پیارے پڑھنے والے مسلمان بھائی سوچتے ہیں کہ قرآن آج کے موجودہ علم سے متفق ہے۔ یعنی قرآن میں اللہ کی جانب سے فرمائی گئی ہر بات درست ہے اور وہ موجودہ سائنسی حقائق سے مطابقت رکھتی ہے۔
اب ہم کچھ دوسرے دعووں کو جانچیں گے جو مسلمان اکثر کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک اور تصور ہے جس پہ اکثر زیادہ یقین کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ: قرآن میں ایسی معلومات موجود ہیں جو ممکنہ طور پر حضرت محمد خود نہیں جان سکتے تھے۔ اس کی مثال کچھ موضوعات ہیں۔ یہ تصورات مندرجہ ذیل ہیں۔
° قرآن میں بائیالوجی کے متعلق تذکرہ۔ جس کو محمد نہیں جان سکتے تھے اور بائیولوجسٹس نے ابھی حال ہی میں جانا اور پڑھا ہو۔
° قرآن میں جیولوجی کے بابت تذکرہ۔
پہاڑوں کے فنکشنز کی وضاحت۔ اس نقطہ پر پانی کا کھارا پن جہاں دریا سمندر سے ملتے ہیں۔ یہ درست خیال کیا جاتا ہے کہ محمد اسے نہیں جانتے سکتے تھے۔
° قرآن ہمیں کچھ چیزیں نولوجی یا وقوفی سائنس کے متعلق بتاتا ہے۔
دماغ کا کون سا حصہ جھوٹ بولنے کے عمل کا ذمہ دار ہے۔ اور پھر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ محمد اس کے بارے میں کیسے جان سکتے تھے۔
1- قرآن کا علمِ کائنات۔
1.1 سات آسمان
اب ہم نے یہ جانچنا ہے کہ آیا اللہ قرآن کا مصنف ہے (آپ کی تھیوری) کون ہے؟ یا قرآن کسی انسان نے لکھا (یعنی محمد نے ایک دوسری تھیوری)۔
آئیے ذرا کچھ ڈیٹا کا معروضی انداز میں جائزہ لیتے ہیں یعنی قرآن کی کچھ آیات جو کوسمولوجی سے متعلق ہیں (کائنات کیسے بنی؟ اور یہ کن چیزوں پر مشتمل ہے وغیرہ) اب دیکھتے ہیں کہ دو تھیوریز میں سے کون سی تھیوری ہمارے ڈیٹا کی وضاحت سب سے بہترین طریقے سے کر رہی ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ قرآن میں جو باتیں کوسمولوجی سے متعلق موجود ہیں وہ براہ راست محمد کے تجربات یا مشاہدات تھے جو بنیادی طور پر "آسمان” اور زمین پھر سورج، چاند، ستارے سے متعلق تھے۔جیسا کہ ایک صحرا کی تصویر ہے جس میں زمین کی سطح نظر آ رہی ہے:
ایک مشاہدہ کنندہ کے لیے آسمان اور زمین بالکل اسی طرح نمودار ہوئے ہوں گے جیسا کہ تصویر میں نظر آرہا ہے، جس وقت قرآن لکھا جارہا تھا۔ اور یہ سب چیزیں انسانوں کے براہ راست مشاہدات میں آتی رہتی ہیں۔ میں نے پچھلے جملوں میں "آسمان” کو quotes میں لکھا جیسا کہ آپ سب جدید سائنسی علم کی وجہ سے جانتے ہیں کہ حقیقت میں آسمان کی طرح کی کوئی چیز موجود ہی نہیں۔
تصویر نمبر 2 کو دیکھیں جو ایک سیٹلائٹ سے بنائی گئی:
زمین اور سیاہ بیرونی خلا کے درمیان اضافی پتلی مڑے ہوئے نیلے رنگ کی لائن زمین کا ماحول ہے۔ یہ نیلا رنگ دھول کے وہ ذرات ہیں جو سورج کی روشنی کو پھیلاتے ہیں۔ یہ ذرات طویل طول موج کے رنگ جذب کرتے ہیں (جیسا کہ لال، پیلا اور سبز رنگ) اور چھوٹے طول موج کے رنگ جیسا کہ نیلا اور لاجوردی رنگ صرف وہی ہماری آنکھوں تک پہنچنے دیتے ہیں۔ رات کے وقت جب سورج کی روشنی نہیں ہوتی اور ایسا کوئی بکھراؤ نہیں ہوتا۔ ہم ماحول کا بغور جائزہ لے سکتے ہیں اور ایسے میں ہماری نظریں بہت دور تک دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔ہماری کہکشاں کے قریب ستارے۔ حتی کہ قریب ترین نظر آنے والے ستارے بھی ایک دوسرے سے بہت بہت دور ہوتے ہیں۔ کم از کم چاند اور سورج کے فاصلے کے مقابلے میں، چاند جو کہ ایک نیچرل اوبجیکٹ ہے زمین کے بہت زیادہ قریب ہے۔ اور اس کا فاصلہ 384,400 کلو میٹر ہے زمین سے۔
جیسا کے تصویر میں نظر آرہا ہے زمین اور چاند کا mutual فاصلہ۔ تصویر میں بائیں جانب زمین ہے اور دائیں طرف چاند ہے۔ سورج ہم سے بہت ہی زیادہ دوری پر ہے یعنی اس کا فاصلہ زمین سے 149,000,000 کلو میٹر یعنی (149 ملین)
جیسا کہ تصویر میں بائیں جانب سورج ہے اور دائیں طرف زمین اور چاند کا نظام۔ ہمارا قریب ترین ستارہ Proxima Centauri ہے جو ہم سے بہت بہت دور ہے۔اس کی دوری ہم سے تقریبا 40,519,553,200,000 کلو میٹر ہے (40 ٹریلین)۔
تمام ستارے جو ہم صرف آنکھ سے دیکھتے ہیں بغیر کسی آلات کے تو ان کا فاصلہ زمین سے 28000 ٹریلین سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اگر ہم ٹیلی سکوپ سے اپنی گلیکسی کو دیکھیں تو وہ اس تصویر میں موجود گلیکسی جیسی ہوگی۔
یہ تصویر Andromeda گلیکسی کی ہے جو ہمارے پڑوس میں موجود سب گلیکسیز سے بڑی ہے۔ یہ ایک اندازہ ہے کہ یہاں سے لے کر ہماری کہکشاں کا درمیانی فاصلہ 1,100 quadrillion kilometers کم یا زیادہ ہے۔لیکن پھر بھی ہماری کہکشاں ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ کائنات میں بلین گلیکسیز ہیں۔ کچھ کہکشائیں ایک دوسرے کی قریب ہیں کلسٹرز کی شکل میں۔ اور یہ کلسٹرز مل کر مزید بڑے کلسٹرز بناتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کائنات میں تقریبا 200 بلین کہکشائیں ہیں۔
مختصراً "آسمان” جیسی کوئی چیز موجود نہیں ہے، "آسمان” صرف illusion ہے۔ اور یہ ایلوزن ہمارے سیارے کے ماحول کی کچھ خصوصیات کی وجہ سے ہے۔ اب ہم قرآن میں کیا پڑھتے ہیں؟ ہمارا ڈیٹا کیا ہے۔ اب ہم پڑھتے ہیں کہ اللہ خود کہتا ہے کہ وہ بنانے والا ہے زمین کا، آسمان، چاند سورج اور ستاروں کا۔ آیت نمبر 71:15۔ کے مطابق (ترجمہ) اللہ نے بنائی سات آسمان ایک کے بعد ایک اوپر تلے۔
پہلی بات سائنس نے ایسی کوئی آسمان کی تقسیم شناخت نہیں کی۔ ایک مسلمان نے دعوی کیا کہ جدید سائنس "آسمان” کو تہوں میں تقسیم کرتی ہے جیساکہ troposphere, stratosphere, ionosphere وغیرہ۔ جی ہاں سائنس زمین کے ماحول کو تہوں(layers) میں تقسیم کرتی ہے لیکن وہ تہیں سات نہیں پانچ ہیں۔ لیکن اللہ کا "آسمان” سے مراد زمین کا ماحول نہیں تھا۔ کیونکہ "سات آسمانوں” کا حصہ ہیں سورج اور چاند۔ یعنی آسمان کا تصور سورج چاند ستاروں کے بغیر نامکمل ہے۔ آئت نمبر 37:6 میں اللہ ہمیں بتاتا ہےکہ ستاروں کو اس نے سب سے نچلے آسمانیعنی ساتویں آسمان میں آویزاں کیا ہے۔ اگر ساتویں آسمانکو ستاروں سے سجانے کی بات ہو رہی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ زمین کے ماحول کی بات نہیں ہو رہی۔
سات آسمان
مزید آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن بات بگڑتی ہے یہاں آکر۔ اگر ستارے سب سے نچلی یا قریبی آسمان میں ہیں۔ تو باقی آسمانوں میں کیا ہے؟ افسوس یہاں چاند ہے۔ آیت نمبر 71:15 اور 71:16 میں درج ہے: (71:15 ترجمہ) کیا تم دیکھتے نہیں ہو اللہ نے کیسے تخلیق کیے سات آسمان ایک کے بعد ایک۔
(71:16 ترجمہ) اور ان کے درمیان چاند کو نور بنایا اور سورج کو ایک شاندار چراغ کے طور پر بنایا (ترجمہ یوسف علی)
71:16: اور اس نے ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو ایک چراغ بنایا۔ (ترجمہ پکھتال)
71:16: اور ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو چراغ بنایا (ترجمہ شاکر)۔
نہیں میرے پیارے مسلمانو، "میں نہیں دیکھتا” کہ تمہاری کتاب کس بارے میں بات کر رہی ہے۔ اگر چاند ایک نور ہے (فرض کریں) ساتوں آسمانوں پر کہیں۔ تب یہ ضروری ہے کہ کم از کم وہ ستاروں سے بہت دور ہو۔ نچلا آسمان ستاروں سے سجا ہوا ہے ہمارے سب سے زیادہ قریب ہے۔ غالب امکان ہے چاند سب سے نچلے آسمان میں نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو قرآن کا لکھنے والا یوں لکھتا کہ چاند اور ستارے اکٹھے ہیں۔ آیت نمبر 37:6 میں وہ ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ اس نے نچلے آسمان کو ستاروں سے سجایا ہے۔
• کیا اس نتیجے سے بچنے کا کوئی راستہ ہے؟
• کیا قرآن کہتا ہے اللہ نے ستاروں کو نچلی آسمان پر رکھا؟
• کیا قرآن کہتا ہے کہ چاند سات (فرضی) آسمانوں کے درمیان ہے؟
• کیا ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ چاند ضرور ستاروں سے کافی فاصلے پر موجود ہے؟
• کیا آخری نتیجہ جدید سائنسی علم سے متصادم ہے؟
اس سے پہلے کہ آپ گذشتہ سوالوں کے قابل اطمینان جواب تلاش کریں۔ برائے مہربانی یاد رکھیں کہ آپ کا معروضی ہونا ضروری ہے۔ ڈیٹا کو توڑ مروڑ کر اضافی مفہوم لینے کی کوشش نہ کریں جس سے آپ اپنے نظریے کو ایڈجسٹ کرنے لگیں کہ قرآن میں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ اللہ کے دماغ سے آیا ہے۔ ڈیٹا کو پہلے رکھیں اسے جیسا ہے کی بنیاد پر قبول کریں اور استخراجی طریقے سے نتیجہ اخذ کریں۔ یہاں ایک مثال ہے ڈیٹا کی تجدید (reinterpretation) کی۔
” قرآن میں سات آسمانوں سے مراد زمین کا ماحول ہے جو تمام کائنات میں پھیل رہا ہے،” سب سے پہلے اس معاملے میں میرا جواب ہے: جیسا کہ میں نے پہلے کہا۔ آپ کو وضاحت دینا ہوگی کہ کیوں ستارے "نیچے والے آسمان میں” زمین کے troposphere جہاں بادل ہوتے ہیں میں ہمارے سروں کے اوپر نہیں ہیں؟ ایک دوسری مثال قرآن میں "نچلی” سے مراد ہے ہم سے دور ترین کیونکہ وہ آسمان اللہ کے قریب ہے۔
میرا جواب:- مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ کا خدا جسمانی وجود بھی رکھتا ہے۔ ہماری کائنات کے باہر کھڑا ہے اسے کائنات سے باہر ماورا اکیلا کھڑا کرنا اس کے جسمانی وجود کی نفی کر رہا ہے۔ کیا آپ یہ ماننے کےلیے تیار ہیں کہ اللہ جسمانی وجود رکھتا ہے؟ یہ وہ رعایت ہے جو آپ کو دینا ہوگی اگر آپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ستارے اللہ کے نزدیک ہیں؟ دیگر مثالوں پر نظر ڈالیں کسی بھی حالت میں قرآن میں لفظ سب سے کم (lowest) کہاں استعمال ہوا ہے آیت 37:6 کے علاوہ دیکھتے ہیں اس کا مطلب کیا ہے۔ لفظوں کے نئے مطلب مت تصور میں لائیں جو آپ کو اپنے مطابق لگیں (یہ ڈیٹا/ حقائق کو توڑنا مروڑنا ہے جس کے بارے میں میں بات کر رہا ہوں جس سے آپ اپنی تھیوری کو مطابقت دیتے ہیں) (یہ مثالیں تھیں ڈیٹا کی تجدید کی) اب معروضی طریقے سے اوپر بیان شدہ دو تھیوریز میں سے کون سی تھیوری حقائق کو زیادہ قدرتی طور پر بیان کرتی ہے؟
1- ایک سب سے دانشمند ہستی جیسا کہ اللہ ہمیں یہ بتاتے ہوئے سنگین غلطی کر رہا ہےکہ چاند ستاروں سے کم دوری پر ہے۔ اور غیر موجود چیزوں کے بارے میں بھی بات کرنا جیسا کہ آسمان جو کہ مشتمل ہے فرضی سات تہوں پر جو ایک دوسرے کے اوپر تہہ در تہہ ہیں۔ جبکہ اس طرح کے تصورات جدید سائنس میں نامعقول ہیں۔
2- جیسا کہ اوپر تھا ایک آدمی کیا سوچ سکتا ہے۔ ایک آدمی جو محمد کے دور میں تھا۔ محمد خود تھا غالباً۔ جس کے پاس چاند، سورج، ستاروں کے مابین درست فاصلے کا علم نہیں تھا اور یہ بھی کہ آسمان جیسا کچھ بھی حقیقت میں موجود نہیں۔
ثبوت جو دوسری تھیوری کی تصدیق کرتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن ان چیزوں کا تذکرہ نہیں کرتا جنہیں آج ہم ٹیلی سکوپ کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں اور جنہیں عام آنکھ سے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ کیوں قرآن گلیکسیز (galaxies) کے بارے میں معمولی سا بالواسطہ حوالہ تک دینے سے قاصر ہے۔
اگر ہم کائنات کے بارے میں وسیع نقطہ نظر سے سوچیں یقیناً اللہ جو سب کچھ کرنے کے قابل ہے۔ ہم نتیجہ اخذ کریں گے کہ یہ گلیکسیز سے بنی ہے۔ لیکن کہکشاؤں کا ذکر نمایاں طور پر اس قیاس کی رو سے اس کے دانشمندانہ کلام سے غائب ہے۔ اس بات کے رد میں آپ یہ جواب دے سکتے ہیں کہ اللہ نے چیزیں ایسی اس لیے بیان کیں کہ محمد کے دور کے بدوؤں کو یہ سمجھ آ سکیں۔ ہاں، لیکن اللہ جو سب سے دانشمند ہے یقیناً چیزوں کو اس انداز میں بیان کرنے کے قابل تھا جنہیں اس دور کے بدو بھی سمجھ پاتے اور آج ہم بھی اس سے متاثر ہوتے۔ ان چیزوں کے بالواسطہ حوالے دینا جو پہلے کبھی نہ دیکھی جا سکتی تھیں۔ جیسا کہ گلیکسیز، نیبولس(nebulas planetary, pulsars, black holes, Quasars) دیگر فلکیاتی اجسام کے میزبان وغیرہ۔ اللہ نے ان سب کی بابت کوئی بات کیوں نہیں کی۔ ان میں سے کسی ایک کا صرف ایک بالواسطہ لیکن واضح حوالہ ہمیں اس موقف کو اختیار کرنے کا موجب بن رہا ہے کہ اوپر دی گئی پہلی دو تھیوریز درست ہیں۔ یہاں یہ بہت آسان ہے میں بھی ایسا کر سکتا ہوں۔ اللہ ایسا کہہ سکتا تھا۔
ترجمہ: کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم نے بڑے ستاروں کا جھرمٹ بنایا اور وہ کیسے بل کھاتے مڑتے ہیں۔ بدو کافی معصوم تھے۔ تھوڑا بہت تصورات کا سہارا لے کر کوئی ستاروں کے جھرمٹ رات کو آسمان پر بل کھاتے مڑتے دیکھ سکتا ہے۔ لیکن آج چونکہ ہم جان چکے ہیں ان تڑتے مڑتے بل کھاتے ستاروں سے اللہ کی مراد گلیکسیز تھا تو میں ذاتی طورپر فی الفور مسلمان ہو جاتا۔تاہم اللہ نے کوئی ایسا حیران کن بیان نہیں دیا جو قدیم مسلمانوں کی نظر سے نہ گزرا ہو اور آج ہمیں بہت زیادہ متاثر کرتا ہو۔
ستاروں/گلیکسیز کا مڑنا بل کھانا ایسی چیزیں ہیں جس سے کائنات بھری پڑی ہے۔ اللہ کم از کم اس بات کا تذکرہ کر سکتا تھا کہ ستارے ایک دوسرے سے بہت دوری پر ہیں سب ایک ہی دائرے میں نہیں ہیں۔ کچھ ستارے 4 نوری سال ہم سے دور ہیں اور کچھ 4 بلین نوری سال اور حتی کہ اس سے بھی زیادہ دور ہیں۔ اللہ اس بات کا ذکر بھی کر سکتا تھا کہ ستارے جسمانی لحاظ اور سائز میں ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں۔ ستاروں کی لینتھ (length) چند کلومیٹر بھی ہو سکتی ہے یا یہ اتنی بڑی بھی ہو سکتی ہے کہ مریخ سیارے کے مدار کو نگل جائے یا حتی کہ مشتری کو بھی۔
یہاں تک کہ ایک ستارہ دوسرے ستارے سے کئی بلین زیادہ بڑا ہو سکتا ہے اور پھیلاؤ میں یہ کئی ٹریلین گنا بڑا ہو سکتا ہے۔ اللہ ذکر کر سکتا تھا کہ ستارے مختلف مدت کے لیے موجود ہیں۔ ایک ستارہ (مثال کے طور پر انتہائی بڑا سٹار ایک سپر جائنٹ سٹار) ایک سپر نووا کے طور پر پھٹنے سے پہلے صرف 50،000 سال کیلئے رہ سکتا ہے۔ جب کہ ایک دوسرا ستارہ ( tiny red dwarf) ایک ٹریلین سال تک چمکتا رہ سکتا ہے۔ اللہ ایسے ہزاروں حقائق کا ذکر کر سکتا تھا جو اب ہم علم فلکیات کے بارے میں جانتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے دکھایا۔ حتی کہ ایک انسان چیزوں کو بتانے کے ایسے راستے تلاش کر سکتا ہے جو کہ قدیم سننے والوں کے لیے معصوم اور ہمارے لیے حیران کن ہوں۔ اللہ نے ایسا کیوں کیا اگر وہ قرآن کا مصنف ہے تو؟ اس نے صرف بولنے بتانے کے لیے ان اشیاء کا انتخاب کیوں کیا جن کے بارے میں محمد کو پتہ تھا اور وہ بھی غلط معلومات تھیں۔ (سات آسمان، چاند ستاروں سے دوری)؟
لیکن یہاں مزید ڈیٹا ہے۔ اگر آپ کو اس بات پر پورا یقین ہے کہ آسمان کی تہوں (layers) کا تصور جو قرآن نے دیا وہ منفرد اور حقیقی ہے تو آپ غلط ہیں۔ مثال کے طور پر قدیم انڈینز (indians) کے (یاد رکھیے وہ اہل کتاب نہیں ہیں) بالکل ایسے ملتے جلتے اعتقادات ہیں۔ در حقیقت انڈیا کے لوگوں کے جو اعتقادات ہیں وہ قرآنی کہانی کی نسبت زیادہ قابل فہم ہیں۔ انڈینز نے ہر ایک کو زمین، ماحول، اور تمام دنیا کو تین تہوں میں تقسیم کیا۔ ہم 20/20 بصیرت کے ساتھ آسانی سے بہت اچھی طرح سے آج کے علم میں اس خیال کو فٹ کر سکتے ہیں۔ زمین کی تین تہیں(layers) اس کا مرکز، چادر، اور پرت ہو سکتے ہیں۔ ماحول کی تین تہیں troposphere, stratosphere اور ionosphere ہو سکتی ہیں، اور باقی کی کائنات کی تین تہیں (layers) ہمارا نظام شمسی، ہماری کہکشائیں اور ہماری گلیکسی سے باہر جو کچھ بھی ہے وہ سب۔ دیکھیں؟ اچھے تخیل اور مرضی سے ہم انڈینز کی کہانی کو قرآن کی بے تکی اور بہت سے آسمانوں کی کہانی کی نسبت زیادہ بہتر انداز سے حقیقت میں فٹ کر سکتے ہیں۔ لیکن اہم خیال یہ نہیں ہے کہ کون سی کہانی حقیقت سے زیادہ بہتر طریقے سے میل کھاتی ہے۔ اہم خیال یہ ہے کہ سات آسمانوں والی کہانی اصلی نہیں ہے۔ یہ چوری شدہ ہے قدیم ثقافتوں سے اور ممکنہ طور پر ترمیم شدہ ہے قرآن کے مصنف کے تصورات کے ذریعے سے۔ جہاں تک چاند کی سات آسمانوں میں پوزیشن کی بات ہے تو قدیم یونانیوں نے اسے قرآن سے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا۔ محمد کی پیدائش سے ہزار سال قبل، یونانی فلسفی پلاٹو لکھتا ہے: ❞چاند، خدا زمین کے قریبی مدار میں قائم ہے۔ اور اس سے اگلا سورج ہے اور صبح کا ستارہ( Venus) (timaeus)❝۔
کیا آپ کو سمجھ آیا پیارے مسلمانو؟ افلاطون (Plato) سوچتا تھا کہ چاند زمین کے نزدیک ہے اور وہ ٹھیک تھا۔ اور آپ کے قرآن کا مصنف سوچتا تھا کہ ستارے زمین کے قریب ترین ہیں اور چاند دور ہے۔ میں پھر اپنا سوال دہراتا ہوں، اوپر بیان کردہ مشاہدات کی بنیاد پر۔ مجھے بتائیں لیکن برائے مہربانی معروضی ہو کر۔ اوپر بیان کی گئی تھیوریز میں سے کونسی تھیوری بیان کیے گئے ڈیٹا جو قرآنی آیات کی صورت میں پیش کیا میں نے کی بہترین وضاحت کرتی ہے۔ (یاد رکھیے پہلے ڈیٹا پھر تھیوریز ہیں)
Harry Foundalis کی تحریر Science in the Qur’an? Surely you’re joking, Mr. Muslim! کا اردو ترجمہ۔
جاری ہے۔
آپ اس میں کئی باتیں بتانا بھول گئے۔ ایک تو یہ کہ حضور پاک معراج پر گئے تو ہر آسمان پر ایک ایک نبی سے ملے۔ باقی یہ بھی قرآن میں ہے کہ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ ہم نے کیسے آسمان کو اٹھایا اور بغیر ستونوں کے کھڑا کیا۔ اور اگر تم اسی طرح گناہ کرتے رہے تو یہ ٹوٹ کر تمھارے اوپر آ گرے گا۔ ایک اور بات جس نے مجھے سوچنے پہ مجبور کیا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ عین خانہ کعبہ ک اوپر ہر آسمان میں اسی طرح عبادتگاہیں ہیں جہاں فرشتے عبادت کرتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ جب یہ زمین گھومتی اور گردش کرتی ہے تو وہ سارے آسمان بھی گردش کرتے ہونگے۔ صرف اسی صورت میں وہ آسمانوں والی عبادتگاہیں خانہ کعبہ کے اوپر رہ سکتی ہیں۔ یہ سات آسمان آخر ہیں کہاں؟
99%
reall.
Buhat achi tahqeeq hy esy or agay barhaen.
.
Well Dome.
Men ap se agree hun.
Aesy he ap poori dunya k jhooton ka bhanda phoren.
Jinhun ny apny najaiz mafadat k leye insanyat ki tazleel ki hy.
The article and the comment, both are awesome.
Agar navbi khuda ko dekh sakta tha or us se mil skta tha tu hum b milengy.
.
Nhe tu.
No in god in the world.
Heheheh