Close

سانحۂ بنو قریظہ

سانحۂ بنو قریظہ کا اندوہ ناک منظر

وَأَنزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُم مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَّمْ تَطَؤُوهَا وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا۔

اور جن اہلِ کتاب نے ان (کافروں) کی مدد کی تھی اﷲ نے انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، تم ایک گروہ کو قتل کرتے ہو اور ایک گروہ کو جنگی قیدی بناتے ہو۔ اور اس نے تمہیں ان کی زمین کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے اموال کا اوراس زمین کا جِس میں تم نے قدم بھی نہ رکھا تھا مالک بنا دیا، اور اﷲ ہر چیز پر بڑا قادر ہے.(القران، سورۂ احزاب، آیت 26۔27)

مسلمانوں کی مدینہ آمد سے پہلے وہاں انتہائی مذہبی رواداری کا ماحول تھا۔ قبیلوں کے باہمی تعلقات کی بنیاد مذہب نہیں بلکہحسن معاشرت تھی۔ چنانچہ جب بھی کوئی تنازع کھڑا ہوتا یا جنگ چھڑ جاتی تو مختلف قبائل مذہبی وابستگیوں سےبالا تر ہوکر قبائلی تعلقات کی بنیاد پر اپنے حلیفوں کی مدد کیلئے اس میں حصہ لیتے تھے۔ یہودی قبیلہ بنو قینقاع قبیلہ خزرج کا حلیف تھا۔ جبکہ بنو نضیر اور بنو قریظہ کسی بھی لڑائی کی صورت میں قبیلہ بنو اوس کی مدد کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ کی مدینہ آمد کے ساتھ یہ ماحول تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ شروع شروع میں جب مسلمان کمزور تھے اور انہیں قریش مکہ سے خطرہ تھا تو رسول اللہ نے تمام قبائل کے ساتھ معاہدات کئے جن کا مقصد کسی بھی جارحیت کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کرنا تھا۔ لیکن بدر کی فتح نے صورت حال بالکل بدل کر رکھ دی۔ اب مسلمان بے خانماں لوگ نہیں بلکہ ایک فاتح قوت تھے۔ اس فتح سے جہاں مسلمانوں کے حوصلے بہت بلند ہوئے۔ وہیں مدینہ کی مقامی آبادی میں مخالف آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہوگئیں۔ اس سے نمٹنے کیلئے آپ صلعم نے ان مرد و زن کے قتل کے احکام جاری کرنے شروع کر دیئے جو آپ کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ جس سے نہ صرف آپکے مخالفین میں کمی ہوئی بلکہ مدینہ کی تمام آبادی میں مسلمانوں کی دہشت پھیل گئی۔

”محمد بن اسحاق، محمد بن مسلمہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب صبح ہوئی تو یہودی سہمے ہوئے تھے، اس لئے کہ دشمن خدا کعب بن اشرف کے ساتھ جو ہم نے کیا، اس وجہ سے یہودی ڈر گئے تھے، کوئی یہودی ایسا نہ تھا جسے اپنی جان کا خطرہ نہ ہو“۔ (الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول، صفحہ نمبر 296)

اکا دکا مخالفین کو ختم کرنے کے بعد آپ صلعم نے یہودی قبیلہ قینقاع سے نپٹنے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ آپ نے پیغام بھیج کر بنی قینقاع کو بلایا اور انہیں مخاطب کر کے کہا۔

 اے گروہ یہود، اسلام قبول کر لو، بخدا تم جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں بھی وہی ماجرا پیش آئے جو قریش کو آیا“۔

بنو قینقاع نے اس دعوت کا مثبت جواب نہ دیا بلکہ کہلا بھیجا :

 اے محمدصلعم آپ کو ان لوگوں سے دھوکا نہ لگے جن سے آپ لڑے ہیں، آپ صلعم ناتجربہ کار لوگوں سے لڑے ہیں، ہم جنگجو قوم ہیں، جب ہمارے ساتھ جنگ ہو گی تو تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم جیسوں سے تمہاری لڑائی کبھی نہیں ہوئی“۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول صفحہ نمبر 124)

بنو قینقاع کا یہ جواب سن کر رسول اللہ نے قبیلہ بنو قینقاع کے محاصرے کا حکم فرمایا، بنو قینقاع زیادہ دیر تک مسلمانوں کا مقابلہ نہ کرسکے، اور پندرہ دن کے محاصرے کے بعد قلعہ کے دروازے کھول دیئے۔ رسول اللہ انہیں قتل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن خزرج قبیلے کا سردار عبداللہ بن ابی بن سلول رسول اللہ کے حضور پیش ہوا اور عرض کیا:

 اے محمد!میرے حلیفوں پر مہربانی کیجئے۔ آپ صلعم نے اس سے اپنا رخ مبارک پھیر لیا، اس نے اپنا ہاتھ رسول کریمصلعم کے گریبان میں داخل کیا۔ رسول اکرم صلعم نے فرمایا، مجھے چھوڑ دو۔ آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ چہرے پر ناراضگی کے آثار ظاہر ہوئے۔ آپ صلعم نے ارشاد فرمایا، تجھ پر افسوس، مجھے چھوڑ دو۔ اس نے کہا، بخدا میں آپ کو اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک آپ میرے حلیفوں پر مہربانی نہیں فرمائیں گے۔ چار سو کھلے جسم کے جوان اور تین سو زرہ پوش جنہوں نے مجھے سرخ و سیاہ سے بچایا تھا، آپ انہیں ایک ہی صبح میں کاٹ ڈالیں گے۔ بخدا میں زمانے کی گردشوں کا خطرہ محسوس کر رہا ہوں۔ رسول اللہ نے فرمایا، جاؤ میں نے ان کو تمہاری خاطر آزاد کیا“(الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول، صفحہ نمبر 123)

اس کے بعد آپ نے بنو قینقاع کو مدینہ بدر کر دیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد آپ صلعم نے بنو نضیر نامی دوسرے یہودی قبیلے پر اپنے قتل کی سازش کرنے کا الزام لگا ان کا بھی محاصرہ کیا اور مدینہ بدر کر دیا۔ لیکن جس قسم کے ظلم و بربریت کا شکار یہودی قبیلہ بنو قریظہ ہوا، اس کی مثال تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ قبیلہ بنو قریظہ کا قتل عام رسول کریم کے دامن پر اس قدر بڑا دھبہ ہے جسے سات سمندروں کا پانی بھی مل کر نہیں دھو سکتا، ایک ہی دن میں آٹھ نو سو انسانوں کو تہہ تیغ کرنا اور بچوں اور عورتوں کو غلام بنا لینے کو کسی بھی دلیل سے منصفانہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ دنیا کی کوئی بھی عدالت رسول اللہ کو ان کے اس فعل سے بری قرار نہیں دے سکتی۔ آج کے وقتوں میں جہاں موت کی سزا کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے، کوئی بھی ملک یا معاشرہ رسول اللہ کو فائرنگ سکواڈ کے حوالے کرنے سے دریغ نہ کرتا۔

بنو قریظہ کی بستی کا محل وقوع

بنو قریظہ کے قتل عام کا واقعہ پانچویں ہجری، (627ء) میں پیش آیا، بنو قریظہ یہودیوں کا سب سے بڑا، طاقتور اور امیر قبیلہ تھا۔ مسلمان مؤرخ محمد بن عمر واقدی کے مطابق بنو قریظہ والے اعلیٰ نسب کے مالک اور صاحب جائیداد تھے جبکہ ہمارے پاس نہ تو کھجور کے درخت تھےاور نہ انگور کے باغات ، ہمارے پاس سوائے اونٹوں اور بھیڑوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ رسول اللہ نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا تھا جس کے تحت وہ جنگ کی صورت میں مسلمانوں کے دشمنوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔ لیکن جنگ خندق کے موقع پر جب اہل مکہ اپنے حمایتیوں کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوئے تو بنو قریظہ نے معاہدہ شکنی کا ارتکاب کرتے ہوتے ہوئے مسلمانوں کے دشمنوں کا ساتھ دیا۔

کہانی کے پس منظر کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ام المومنین صفیہ بنت حیی کا باپ حیی بن اخطب جو قبیلہ بنو نضیر کا سردار تھا اور کچھ عرصہ پہلے مدینہ سے جلا وطن کیا جا چکا تھا۔ وہ اپنے قبیلے اور بنی وائل کے عمائدین کو لے کر مکہ پہنچا اور انہیں مدینہ پر حملہ کرنے کی صلاح دی۔ وہاں سے مثبت جواب پا کر اس نے غطفان کے قبائل کو بھی اس حملے میں حصہ لینے کیلئے قائل کر لیا۔ بعد ازاں وہ چپکے سے رات کے اندھیرے میں مدینہ پہنچا اور بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے گھر کا دروازہ جا کھٹکھٹایا، کعب نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا لیکن حیی کی منت سماجت پر آخر دروازہ کھول دیا۔ حیی نے کعب کو اپنے منصوبے سے آگاہ کیا لیکن کعب نے اس سازش کا حصہ بننے سے انکار کر دیا، لیکن حیی کے پر زور اصرار پر اس نے بھی اس مشترکہ لشکر کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔

مسلمان ابھی اس قابل نہیں ہوئے تھے کہ بنو غطفان اور قریش کے مشترکہ لشکر کا مقابلہ کر سکیں، چنانچہ سلمان فارسی کی تجویز پر انہوں نے دفاعی جنگ لڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مدینہ کے گرد خندق کھود لی ۔ لہذا یہ لڑائی ایک محاصرے سے زیادہ کچھ اور ثابت نہ ہوئی جو ایک ماہ تک جاری رہا۔ رسول اللہ غطفان قبیلہ کے نُعیم بن مسعود نامی ایک نو مسلم کے ذریعے اہل مکہ اور بنو قریظہ کے درمیان پھوٹ ڈلوانے میں کامیاب ہو گئے، کیونکہ نُعیم کے درپردہ اسلام قبول کرنے کا پتہ نہ تو اہل مکہ کو تھا اور نہ ہی بنو قریظہ کو۔ لہذا وہ بہت آسانی سے بنو قریظہ اور اہل مکہ کو اپنے خلوص کا یقین دلاتے ہوئے انہیں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس پھوٹ کے نتیجے میں مشرکین محاصرہ اٹھا کر مکہ واپس لوٹ گئے، اور بنو قریظہ مسلمانوں کے رحم و کرم پر رہ گئے۔ مسلمانوں کا شروع میں بنو قریظہ پر حملہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ اس کی وجہ شائد یہ تھی کہ بنو قریظہ جنگ میں ایک انتہائی غیر فعال رکن تھے۔ انہوں نے اس جنگ میں کسی قسم کی کوئی گرم جوشی نہیں دکھائی تھی۔ بلکہ اس جنگ میں ان کی عدم دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ ان کی طرف سے خندق نہیں کھدی ہوئی تھی لہذا ان کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ ہو سکتا تھا۔ لیکن انہوں نے اہل مکہ کو اس سے فائدہ اٹھانے کا نہیں کہا۔ بنو قریظہ کے اس رویہ پرابوسفیان نے ان کے خلوص پر شک کا اظہار کیا۔ اور محاصرہ اٹھا کر مکہ کی طرف کوچ کر گیا۔ لیکن جب اہل مکہ اپنا محاصرہ اٹھا کر چلے گئے تو رسول اللہ نے سستانے کی بجائے بنو قریظہ سے مال غنیمت حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کو بنو قریظہ پر حملے کی صلاح دینے حضرت جبرائیل کو بھیجا پڑا۔

“عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم جب جنگ خندق سے (فارغ ہو کر) واپس آئے اور ہتھیار رکھ کر غسل کرنا چاہا تو جبرائیل آئے، ان کا سر غبار سے اٹا ہوا تھا۔ جبرائیل نے کہا آپ نے ہتھیار اتار دیئے ؟ اللہ کی قسم میں نے تو ابھی تک ہتھیار نہیں اتارے ہیں۔ آپ صلعم نے دریافت فرمایا تو پھر اب کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے فرمایا ادھر اور بنوقریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ عائشہ نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلعم نے بنوقریظہ کے خلاف لشکر کشی کی“۔(صیح بخاری، کتاب الجہاد، حدیث نمبر 2813)

حضور نے مدینہ میں ابن ام مکتوم کو حاکم مقرر کیا اور ایک مسلمان کو حکم دیا کہ وہ سب مسلمانوں کو اطلاع کر دے کہ ہم بنو قریظہ کی طرف جا رہے ہیں اور عصر کی نماز وہیں پڑھیں گے۔

رسول اللہ بنی قریظہ پہنچے تو فرمایا، اے بندر اور سؤر کے بھائیو (یہودیو) مجھ سے ڈرو، مجھ سے ڈرو، بعض نے بعض سے کہا، یہ ابوالقاسم (نبئ کریم) ہیں۔ (طبقات ابن سعد، جلد اوّل، صفحہ 283)

حضور نے چھتیس سواروں اور تین ہزار پیدل مسلمانوں کے ساتھ بنو قریظہ کا محاصرہ جاری کر لیا جو پچیس دن تک جاری رہا۔ جب بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کو یقین ہو گیا کہ مسلمان انہیں مطیع کئے بغیر واپس جانے والے نہیں تو اس نے اپنی قوم کو اکٹھا کر کے کہا کہ ہمارے پاس تین صورتیں ہیں، ہم اسلام قبول کر لیتے ہیں، اس طرح ہمارا جان و مال محفوظ رہے گا لیکن قبیلے نے کہا کہ ہم تورات کے مذہب کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کعب نے دوسری صورت بتائی کہ اپنے بیوی بچوں کو قتل کر کے مسلمانوں پر پل پڑو، اگر قتل ہو گئے تو ہمیں اہل و عیال کی فکر نہیں ہو گی اور اگر جیت گئے تو خدا ہمیں اور عورتیں اور بچے دے گا۔ لیکن قبیلے والوں نے اس بات کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہم اپنے بے گناہ بیوی بچوں کو کیسے قتل کر دیں اور ان کے بغیر یہ زندگی کس کام کی۔ کعب نے تیسری صورت بیان کی کہ آج ہفتے کی رات ہے اور مسلمان ہماری طرف سے بے فکر ہوں گے کہ ہم ہفتے کے روز کچھ ایسا نہیں کریں گے، لہذا ہم شبخون مارتے ہیں، لیکن قبیلے والوں نے یہ تجویز بھی یہ کہہ کر رد کر دی کہ ہفتے کا دن تو ایک مقدس دن ہے ہم ہفتے کے روز یہ کچھ کیسے کریں۔ محاصرہ طول پکڑ گیا لیکن پچیس راتوں کے بعد بنو قریظہ والے ہمت ہار گئے۔ اور انہوں نے رسول کریم سے درخواست کی کہ بنی عمرو بن عوف کے ابو لبابہ بن المنذر کو بات چیت کیلئے اندر بھیجیں، کیونکہ ان کا قبیلہ بنو قریظہ کا حلیف تھا۔ حضور نے ابو لبابہ کو بنو قریظہ کے پاس بات چیت کیلئے بھیج تو دیا۔ لیکن آپ اس وقت تک بنو قریظہ کو قتل کرنے کا تہیہ کر چکے تھے۔

“جب ان کی نظر ابو لبابہ پر پڑی تو وہ سب ان کا استقبال کرنے کیلئے اٹھے، ان کی عورتیں اور بچے روتے ہوئے آپ کے پاس آئے، اس منظر سے ابو لبابہ کو ان پر ترس آ گیا، بنو قریظہ نے ان سے کہا: کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم محمد کے فیصلے پر ہتھیار رکھ دیں، انہوں نے کہا ہاں مگر اپنے حلق پر ہاتھ رکھ کر بتایا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تم سب ذبح کر ڈالے جاؤ گے۔ ابو لبابہ کہتے ہیں کہ کہنے کو تو میں نے یہ بات کہہ دی مگر فوراً ہی میرے دل نے محسوس کیا کہ یہ تو میں نے اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کی۔ ابو لبابہ وہاں سے بغیر رسول اللہ صلعم کی خدمت میں حاضر ہوئے سیدھے مدینہ آ کر مسجد نبوی میں آئے اور اور انہوں نے اپنی خطا کی پاداش میں خود کو مسجد کے ایک ستون کے ساتھ باندھا اور اللہ سے عہد کیا کہ جب تک اس خیانت کو اللہ معاف نہ کر دے گا میں اس جگہ سے نہیں ہٹوں گا اور اب کبھی بنو قریظہ کی زمین پر قدم نہ رکھوں گا اور اللہ مجھے کبھی بھی اس علاقہ میں نہ دیکھے جس میں میں نے اللہ اور رسول کی خیانت کی ہے“۔(تاریخ الامم و الملوک جلد دوم، صفحہ 226 ، محمد بن جریر الطبری)

ابن ہشام کے مطابق یہ آیت حضرت ابولبابہ کے متعلق نازل ہوئی تھی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

اے مومنو تم اللہ اور رسول سے خیانت نہ کیا کرو اور نہ آپس کی امانتوں میں خیانت کیا کرو حالانکہ تم (خیانت کی خرابی کو) جانتے ہو (سورۃ انفال آیت 27)

بنو قریظہ والوں نےاس خواہش کا اظہارکیا کہ وہ اس شرط پر ہتھیار رکھتے ہیں کہ انہیں بھی بنو نضیر کی طرح مدینہ بدر کر دیا جائے لیکن رسول اللہ نے ان سے غیر مشروط طور پر اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کر دینے کا تقاضا کیا۔ مجبوراَ بنو قریظہ نے صبح کے وقت قلعے کا دروازہ کھول دیا، بنو قریظہ کو اس حالت میں دیکھ کر قبیلہ بنو اوس کے لوگ رسول اللہ کے پاس آئے اور عرض کیا ، یا رسول اللہ قبیلہ بنو قریظہ کے لوگ ہمارے حلیف و موالی ہیں۔جب آپ نے بنو قینقاع کا محاصرہ کیا تھا تو آپ نے خزرج کے عبداللہ بن ابی بن سلول کے کہنے پر انہیں معاف کر دیا تھا اور انہیں قتل کرنے کی بجائے صرف جلاوطن کرنے کی سزا دی تھی۔ اب ہم یہی درخواست آپ سے اپنے حلیف قبیلے کیلئے کرتے ہیں۔ حضور نے فرمایا، اے اوس کے لوگو! کیا تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ہی قبیلے کا سردار بنو قریظہ کا فیصلہ کرے، بنو اوس نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا۔ حضور نے فرمایا تو پھر سعد بن معاذ کو اختیار ہے کہ جو فیصلہ کرے۔

سعد بن معاذ قبیلہ اوس کی شاخ بنی عبدالاشہل سے تھا، آپ رسول اللہ کے بہت نزدیک سمجھے جاتے تھے، جب رسول اللہ نے کعب بن اشرف کو ٹھکانے لگانے کی خواہش کا اظہار کیا تو یہ سعد بن معاذ ہی تھے جنہوں نے محمد بن مسلمہ کو کعب کے قتل کیلئے بھیجا۔ آپ غزوہ احزاب میں بنو عامر بن لوئی کے حبان بن قیس بن العرقہ کے تیر کا نشانہ بننے کی وجہ سے زخمی ہو گئے تھے، تیر ان کی نبض کی رگ میں لگا تھا، جس سے آپکا بہت زیادہ خون بہنا شروع ہو گیا، سعد نے دعا مانگی:

“اے خدا اگر ابھی قریش کی جنگ باقی ہے تو مجھ کو زندہ رکھیو، کیونکہ مجھ کو قریش سے زیادہ کسی سے جنگ کرنے کی خواہش نہیں ہے۔ کیونکہ انہوں نے تیرے رسول کو تکلیفیں پہنچائیں، اور ان کو ان کے گھر سے نکالا ہے، اور اگر تو نے قریش کی جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے۔ تو مجھ کو اس وقت تک زندہ رکھ کہ میں اپنی آنکھوں سے بنی قریظہ کی ہلاکت دیکھ لوں“۔ (سیرۃ رسول اللہ، ابن اسحاق، جلد سوم صفحہ نمبر 69)

“اللہ جب تک میری آنکھیں بنو قریظہ کی تباہی کو دیکھ کر ٹھنڈی نہ ہو لیں تو مجھے موت نہ دے، یہ لوگ عہد جاہلیت میں سعد کے موالی اور حلیف تھے “۔ (تاریخ الامم والملوک، جلد دوم، صفحہ نمبر 219، محمد بن جریر الطبری)

سعد بن معاذ کے زخمی ہونے کی وجہ سے رسول کریم نے انہیں رفیدہ نامی خاتون کے خیمے میں بھیج دیا تھا، یہ خاتون زخمیوں کی دیکھ بھال کو ثواب کا کام سمجھ کر کرتی تھی۔ قبیلہ اوس کے چند لوگ سعد بن معاذ کے پاس پہنچے اور انہیں بتایا کہ بنو قریظہ کی زندگی آپ کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے، لہذا اب وقت آ گیا ہے کہ قبولِ اسلام سے پہلے کے اپنے حلیف قبیلہ کے احسانوں کا بدلہ چکاتے ہوئے ان کی جان بخشی اسی طرح کروائی جائے جیسے عبداللہ بن ابی نے بنو قینقاع کے سلسلہ میں کیا تھا۔ لیکن سعد بن معاذ نے یہ کہہ کر ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ سعد کوئی ایسا شخص نہیں ہے جسے خدا کی رضا کے مقابلے میں کسی انسان کی ملامت کا ڈر ہو۔ یہ بات سن کر سب لوگ واپس چلے گئے اور سعد بن معاذ کے فیصلہ سنانے سے پہلے ہی بنی الاشہل میں یہ مشہور کر دیا کہ بنو قریظہ کے تمام لوگوں کو قتل کر دیا جائے گا۔ سعد رسول کریم کے پاس پہنچے تو وہاں انصار نے انہیں کہا کہ رسول کریم نے بنو قریظہ کی تقدیر کا فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں دیا ہے۔ سعد نے پوچھا کیا میں جو بھی فیصلہ کروں، وہ تمہیں قبول ہو گا۔ انصار نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ سعد نے کہا:

پس میں یہ حکم کرتا ہوں کہ بنی قریظہ کے تمام مردوں کو قتل کیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے، حضور نے سعد کا فیصلہ سن کر فرمایا : اے سعد! تم نے بیشک اللہ کو جو ساتویں آسمان پر فیصلہ تھا تم نے اس کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔

بنو نجار قبیلہ کی ایک عورت کے گھر میں تمام مردوں کو رسیوں سے باندھ دیا گیا۔ ان کی تعداد چار سو سے نو سو تک بتائی جاتی ہے۔ ان مرد قیدیوں کی نگرانی انہی محمد بن مسلمہ کے ذمہ ٹھہری جو رسول کریم کی خواہش پر کعب بن اشرف کو دھوکے سے قتل کر چکے تھے۔ جبکہ ایک ہزار عورتیں اور بچے عبداللہ بن سلام نامی نو مسلم اور سابقہ یہودی راہب کے زیر نگرانی کر دیئے گئے۔ حضور کے حکم کے مطابق مدینہ کے بازار میں چند گڑھے کھودے گئے۔ اور بنی قریظہ کے مرد چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں لائے جاتے اور ان کی گردن ماری جاتی۔

“بنو قریظہ کی جب کوئی جماعت قتل کیلئے رسول اللہ صلعم کی خدمت میں جانے لگتی تو وہ کعب بن اسد سے پوچھتے، کعب! کہو ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے، اس کے جواب میں ہر مرتبہ وہ کہتا کیا اتنی بات بھی نہیں سمجھتے بلانے والا برابر بلا رہا ہے اور جو جاتا ہے ان میں سے کوئی واپس نہیں پلٹتا، سمجھ لو کیا ہو گا، بخدا مارے جاؤ گے۔ اس طرح نوبت بہ نوبت رسول اللہ صلعم نے سب کو قتل کروا دیا۔ (تاریخ الامم و الملوک، جلد دوم صفحہ 229، محمد بن جریر الطبری)

خیبر میں بنو قریظہ کی آبادی کے بچے کھچے آثار

بنو قریظہ کے قتل ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ سو سے لے کر نو سو تک بتائی جاتی ہے۔ یہ تمام قتل عام رسول اللہ کی موجودگی میں ہوا اور اس کو حضرت علی اور حضرت زبیر بن العوام اور قبیلہ بنو اوس کے چند مردوں نے سر انجام دیا۔ جو لڑکے کم عمر تھے ان کے قتل کا فیصلہ کرنے کیلئے ان کو ننگا کیا جاتا، جس لڑکے کے زیر ناف بال آ چکے تھے، انہیں مرد تصور کر کے قتل کر دیا گیا لیکن اگر کسی کے زیر ناف بال ابھی تک نہیں آئے تھے انہیں بچہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا۔

”رسول اللہ صلعم کا حکم تھا کہ جس کے زیر ناف بال آ چکے ہوں اسے قتل کر دیا جائے۔ چونکہ عطی قرظی کے ابھی بال نہیں آئے تھے، لہذا انہیں زندہ چھوڑ دیا گیا، چنانچہ وہ مسلمان ہو کر شرف صحابیت سے مشرف ہوئے“۔(الرحیق المختوم، صفحہ نمبر 431۔ مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری)

”حضرت عطی قرظیؓ سے روایت ہے کہ میں اس وقت لڑکا تھا کہ جس وقت سعدؓ نے بنو قریظہ کے قتل کا حکم فرمایا۔ پھر مجھ کو دیکھا اور میرے قتل میں انہوں نے شک کیا، جس وقت انہوں نے مجھ کو زیر ناف بالوں والا نہیں پایا۔ میں وہی ہوں جو تم لوگوں کے درمیان موجود ہوں“۔ (سنن نسائی، جلد دوم، کتاب الطلاق، حدیث نمبر 3463)

حدیث اور سیرت کی کتابوںمیں مردوں کے علاوہ ایک قتل ہونے والی ایک عورت کا ذکر بھی ملتا ہے۔

“عبداللہ بن محمد، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق، محمد بن جعفر، عبداللہ بن زبیر، حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ بنو قریظہ کی عورتوں میں سے کوئی عورت نہیں ماری گئی مگر ایک عورت جو میرے پاس بیٹھی ہوئی تھی، باتیں کر رہی تھی اور ہنستی جاتی تھی اس طرح کہ اس کی پیٹھ اور پیٹ میں بل پڑتے تھے اور رسول اللہ صلعم اس کے مردوں کو بازار میں قتل کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ ایک پکارنے والے نے اس کا نام لے کر پکارا، فلانی عورت کہاں ہے ؟ وہ بولی میں ہوں۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہوا تجھ کو یعنی تیرا نام کیوں پکارا جاتا ہے تو نے قصور کیا کیا؟ وہ بولی میں نے ایک نیا کام کیا، رسول اللہ صلعم کو معاذ اللہ گالیاں دی تھیں۔ حضرت عائشہ نے کہا پھر وہ پکارنے والا اس عورت کو لے گیا اور اس کی گردن ماری گئی اور میں اب تک نہیں بھولی جیسا اس وقت مجھ کو تعجب آیا تھا کہ وہ اتنا ہنستی جاتی تھی کہ پیٹھ اور پیٹ میں بل پڑتے تھے حالانکہ اس کو معلوم ہو گیا تھا کہ میں قتل کی جاؤں گی “۔ (سنن ابو داؤد، جلد دوم، حدیث نمبر 898)

قتل عام سے فارغ ہونے کے بعد رسول کریم نے بنو قریظہ کی عورتوں، بچوں اور مال کو تقسیم کیا، آپ نے سب سے پہلے اپنےلئےکل مال کا خمس (پانچواں حصہ) علیحدہ کیا۔ باقی مال کے حضور نے چار حصے کئے، تین حصے سوار کو ملے اور ایک حصہ پیادے کو۔ عورتوں کی تقسیم کے وقت رسول کریم نے اپنے لئے ریحانہ بنت زید بن عمرو( کچھ حوالوں کے مطابق ریحانہ کا نام ریحانہ بنت شمعون تھا) کو اپنے لئے پسند کیا، یہ بنو قریظہ کے سردار کی بیٹی تھی۔ رسول کریم نے ریحانہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تاکہ وہ ام المومنین کا مرتبہ پا سکے لیکن ریحانہ نے انکار کر دیا کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ کر امّ المومنین بننے کی بجائے ایک کنیز بننا زیادہ پسند کرے گی۔ جسے سن کر رسول اللہ بہت دکھی ہوئے۔ گو چند حوالوں کے مطابق ریحانہ نے کچھ عرصہ بعد اسلام قبول کر لیا لیکن یہ بات اتنی مستند نہیں سمجھی جاتی، اور نہ ہی قرین قیاس ہے، ویسے بھی سیرت کی کتابوں میں ریحانہ کا ذکر ایک ام المومنین کی بجائے ایک کنیز کے طور پر ہی کیا گیا ہے

بنو قریظہ کے قتلِ عام سے فارغ ہونے کے بعد چند یہودی عورتیں اور بچے مسلمانوں میں بانٹ دیئے گئے اور باقی بچوں اورعورتوں کو تلواروں اور گھوڑوں کے عوض بیچنے کیلئے نجد اور شام بھیج دیا گیا۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر (سورۃ الانبیاء آیت 107)

14 Comments

  1. اس میں کیا شک ہے کہ محمّد خدا کا پیغمبر نہیں بلکہ چینگیز اور ہلاکو کی طرح کا ایک بے رحم جنگجو تھا. وہ لوگ پرلے درجے کے احمق ہیں جو اسے محسن انسانیت، رحمت العالمین، اور محبوب الہی جیسے ناموں سے پکارتے ہیں.

  2. محترم غلام رسول صاحب! غزوہ بنو قریظہ کو قلم بند کرنا اور ایک "سانحہ” قرار دینا ایک انتہائی مستحسن اقدام ہے، سیرت رسول کا یہ وہ پہلو پے جو "رحمت للعالمین” کی صفت کے عین منافی ہے، اور ایک عام مسلمان کی آنکھیں کھول دینے کیلئے سیرت کا یہ ایک پہلو ہی کافی ہے، مگر بے انتہاء افسوس کا مقام ہے کہ کچھ مومنین کو "سانحہ بنو قریظہ” میں بھی انصاف کا پہلو نظر آ جاتا ہے، اگر کسی طرح بنو قریظہ کا واقعہ افسانوی انداز میں کسی غیر مسلم سے منسوب کرکے کسی مسلمان کو پڑھا دیا جائے اور پھر اس کی رائے طلب کی جائے تو یقیناً وہ اس "ظلم کی عظیم داستان قرار دے گا۔
    بہرحال جو سمجھ دار لوگ ہیں، اور عقیدت سے بالا تر ہو کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کیلئے آپ کی یہ تحریر سوچ اور فکر کے نئے زاویئے ضرور روشناس کرائے گی۔

  3. بنو قریظہ کے قتلِ عام پر ایسی تحقیقی تحریر کی بڑی شدت کے ساتھ کمی محسوس کی جا رہی تھی، آپ نے یہ کارہائے نمایاں انجام دے کر صلعم کو دنیا اور اس کے اپنے صلعومیوں کے سامنے ننگا کردیا۔۔

    داد قبولیے۔۔۔

  4. 23 ایف سی والے پاکستانیوں کی بے سر لاشیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔اور دھڑوں کی بے حرمتی۔۔۔۔۔۔دیکھ کر۔۔مُجھے جنگ ِ بدر یاد آ گئی۔۔۔
    کبھی ٹھنڈے دل سے میری بات سُن لیا کریں۔۔!!
    پیارے رسول نے مرنے والے کُفار کے سر اسی طرح ایک جگہ جمع کئے تھے۔۔۔۔۔ویڈیو کیا بنای تھی۔۔۔۔۔عُمر نے منع کیا تھا کہ اتنی دیر ھوگئی اور آپ لاشوں کے درمیان پھرتے ھین اور ان کو بُرا کہتے ھیں۔۔تو فرمایا تُم نہین جانتے وُہ جہنم مین پہنچ چُکے ھین اور میں ان سے کلام کرتا ھُوں وُہ سُن رھے ھین۔۔

    دیکھو۔۔۔۔ان سارے واقعات کو کبھی بے لاگ ھوکر۔۔۔سوچو۔۔۔۔۔اور سمجھو۔۔۔۔۔۔۔۔کہ سچ یہی ھے کہ اسلام۔۔۔۔تلواری مذھب تھا۔۔، ھے۔۔۔اور رھے گا۔۔۔
    اب مُجھے گالیاں دینے سے پہلے اس پیراگراف کو دوبارہ پڑھ لو۔۔شاید اصلی خدا کی دی ھُوئی عقل کام مین آ جائے ورنہ مذھب کا پردہ اندھا ترین پردہ ھوتا ھے۔۔
    رفیع رضآ

  5. محمد بن اسحاق ایک اصل نسل یہودی تھا ۔ اس ہی کی کتاب سلمۃ بن فضل الابرش کی نقل کی ہوئی ابن جریر طبری کے ہاتھ لگی جس نے اسے اپنی ام التواریخ میں من و عن نقل ہی نہیں کیا بلکہ اپنی جانب سے اضافے بھی کیے ۔
    ان جیسے اسلام دشمن کرداروں کی رسول کی ذات کی کردار کشی کو اسطرح تسلیم کر لینا جیسے کہ عین الیقین سے دیکھ لیا ہو ، اور پھر اس پر مذموم تبصرے اور لعنت ملامت کرنا، نہ ہی کسی علمی زوق کا مظاہرہ ہے اور نہ ہی تحقیق کے ساتھ ذرہ برابر بھی دلچسپی کا مظاہرہ ۔
    جو کچھ بھی نامعلوم اور غیر معتبر اور غیر موجود راویوں کے حوالے سے اس موضوع پر سپرد قلم کیا گیا ہے وہ ایک مذموم سازش کے سوا کچھ نہیں ہے۔
    اس ناچیز کا اس مضمون پر اور اس کی حمایت میں بیان دینے والوں پر صرف اتنا ہی تبصرہ ہے کہ :
    "اندھے کو اندھیرے میں بڑی دُور کی سوجھی”۔
    کردار کشی اور نفرت پھیلانے کی اس مہم پر مبارکباد ہو ۔ آج کے معاشرے میں شیطانی اعمال ہی مستحسن ہیں ۔

  6. یوسفزئی صاحب
    کیا امام بخاری ، نسائی اور ابو داود سب عقل کے اندھے تھے کہ اس قضیه کی جزیات محفوظ کیں؟
    یا سب روایات کے ڈانڈے یہودی سازش سے ملتے ہیں اور سب بیوقوف بن گئے؟
    ویسے ہم عصر ماہرین میں اس قصّے پر یقین کرنے والے زیادہ ہیں یا شک کرنے والے؟

  7. حسرت ہی رہے گی کہ کہیں سے غیر جانبدارانہ مسالہ سے محروم حوالاجات ملیں، مصنف کے انداز سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ آپ کو زبردستی کس طرف لیجانا چاہتا ہے- مارکہ شیطانوں اور فرشتوں کا ہی رہتا ہے، یہ الگ بات کہ شیطان اور فرشتہ کون اسکا انحصار مصنف کی نیت پر ہوتا ہے- جب میں کسی مولوی تحریر پڑھتا ہوں تو اسمیں غیر مسلم کا مکھی ورانہ بھی قتل سے بڑا جرم اور مسلم کا قتل کرنا مکھی اڑانا ٹھرتا ہے اور کسی مجاہد ملحد سے سنوں تو اسکے برعکس غیر مسلم کا مکھی اڑاتا ہے اور مسلم قتل کرتا ہے- پیج کی شکل دیکھ کر لگا تھا کہ کچھ غیر جانبداری ملے گی لیکن پھر وہی شیطان بمقابلہ فرشتہ، بس دونو نے جگہ بدل لی ورنہ غلط فہمی اور زیادتی جیسی چیزیں جو حقیقی زندگی میں ہوتی ہیں وہ ان قصوں میں نہیں پائی جاتیں- بنو قریظہ نے عھد شکنی کی اور مسلمانو پر بڑے حملے کے دوران دشمن کا ساتھ دیا، اگر یہ حملہ کامیاب ہوجاتا تو مسلمانو کے ساتھ وہی ہوتا جو بنو قریظہ کے ساتھ ہوا، حتہ کہ جو فیصلہ ہوا وہ انکے ہونے ہی چنے ہوے شخص نے انکی ہی کتاب کے مطابق کیا، جس کا اطلاق یہودی دوسری قوموں پر کرتے رہے- لیکن جس طرح مولوی یہ واقیہ سناتے ہوے بہت کچھ حذف کر جائے گا آپ بھی حذف کرگیے- اسکا موازنہ آج کے دور سے کرنا بھی عجیب حماقت ہے- کسی بھی واقعہ کو سمجھنے کیلیے اس دور کی قدروں اور رواج کو سمجھنا ضروری ہے ورنہ پھر یہی ہوتا ہے-

    1. 1- بنو قریظہ نے کون سی عہد شکنی کی، کوئی عہد نامہ دکھا سکتے ہیں جو محمد عربی اور بنو قریظہ کے درمیان ہوا ہو۔
      2- کون سے بڑے حملے کے دوران بنو قریظہ نے اسلام کے دشمنوں کا ساتھ دیا ؟
      3- جو کچھ مسلمانوں نے بنو قریظہ کے ساتھ کیا اس کی مثال تو دور جاہلیت میں عربوں کی جنگوں کے دوران بھی نہیں ملتی۔
      4- صاف جھوٹ ہے کہ بنو قریظہ کا فیصلہ انہی کی کتابوں کے مطابق ہوا، یہ اپنے وحشیانہ جرم پر پردہ ڈالنے یا ضمیر کو نیند کی گولی دینے کے مترادف ہے۔
      5- چلیں شکر ہے کہ اپنے آخری جملے میں یہ تو تسلیم کر لیا کہ اسلام ہر زمان و مکان کیلئے نہیں ہے، ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اسلام صرف صحراء کے بدؤوں کیلئے انہی کے قبائلی نظام کے قبائلی رسم و رواج کے مطابق اترا تھا، آج کے جدید دور میں اس صحرائی تہذیب کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
      جتنے اگناسکٹ ہیں وہ آپ کے تبصرے سے معلوم ہو رہا ہے، ایک مومن کو اگناسٹک کا نقاب اوڑھنے کی کیا ضرورت پیش آ گئی؟

  8. یہود پر یہ حکم توریت سے لیا گیا
    http://www.islamic-belief.net/توریت-کے-تین-حکم/
    توریت کا دوسرا حکم – عہد شکنی کی سزا

    ———

    عہد شکنی کی سزا اور عھد شکنی پر کثیر روایات ہیں اور اس میں ابن اسحاق کا تفرد نہیں ہے ابن اسحاق کو یہودی ثابت کرنا غیر ضروری ہے جبکہ اس کو مورخ تسلیم کیا جا چکا ہے ہاں اس پر یہود نصرانی کی روایات لینے کا الزام ہے لیکن بنو قریظہ کے واقعہ میں اس کا تفرد نہیں ہے

    ———-

    یہ اگر وحشیانہ ہے تو یہ یہود کی کتاب میں سے ہے پہلے اس کا جواب دیا جائے

جواب دیں

14 Comments
scroll to top