خلافت حضرت عمر
حضرت ابو بکر نے مرض وفات میں حضرت عمر کو اپنا جانشین نامزد کیا، اسی نامزدگی کی بنیاد پر حضرت ابو بکر کے بعد خلافت حضرت عمر نے سنبھالی۔ ابوبکر نے عجمی ممالک کے خلاف جہاد جاری رکھنے کی جو وصیت کی تھی،اسے حضرت عمر نے جاری رکھا۔ ہرمز کے جنگ میں ہارنے سے دجلہ کے حصے کو چھوڑ کر پورےملک عراق پر قبضہ ہو چکا تھا۔ ایران کے شاہی خاندان اہل کسریٰ طوائف الملوکی کا شکار اور باہم برسرپیکار تھے۔
مال غنیمت اور کشور کشائی
ابو عبیدہ کی قیادت میں ایران کی فتح کی جانب پہلا شدت کا معرکہ ہوا۔ ابو عبیدہ نے دشمن کے اطراف کا تمام علاقہ برباد کر دیا۔ اور مال غنیمت جمع کر لیا۔ بکثرت لونڈیاں اور غلام بنائے گئے۔ خوراک کے بے شمار ذخیرے ہاتھ آئے،آس پاس کے عربوں کو بلا کر بھی کہا کہ و ہ جتنا لے جانا چاہتے ہیں لے جائیں۔ نرسی جو کسری کا خالہ زاد بھائی تھا، اس کے تمام خزانے قبضہ کر لئے۔ ابو عبیدہ نے جب خمس کا حصہ حضرت عمر کو ارسال کیا، تو ساتھ لکھا، ’’اللہ تعالی نے ہم کو وہ چیزیں کھانے کے لئے عطا کی ہیں، جن کی سلاطین فارس حفاظت کرتے تھے۔۔‘‘ وہاں اعلی نسل کے پھلوں کے باغات تھے، جو صرف شاہی خاندان کے لئے ہی مخصوص تھے۔ ‘‘ فارس کو فتح کرنے کے کئی حملے کئے جاتے رہے۔ کسریٰ کے پاس مسلم سفیر بھی بھجوائے جاتے رہے،اسلامی سفارت میں یہی پیغام ہوتا، اسلام قبول کرو، یا جزیہ دو، یا لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ مختلف مقامات پر خون ریز معرکے ہوتے رہے۔جن میں دو طرفہ ہزاروں لوگ بے دردی سے قتل کئے جاتے رہے۔
ایران ایک ترقی یافتہ اعلی تہذیب کا حامل ملک تھا۔ بادشاہ اور رؤساء کے اتنے عالیشان محلات اور باغات تھے۔ اور شہر اتنے خوبصورت تھے، کہ صحراء میں رہنے والے تمدنی اور تہذیبی لحاظ سے پس ماندہ عرب اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ مال غنیمت ساٹھ ہزار لشکریوں میں تقسیم ہوا۔خمس کا حصہ بھی خلیفہ کو روانہ کر دیا گیا۔ ان میں ہزارہا نہایت قیمتی نوادرات اور عجائبات تھے ۔کسری کا قالین 90 گز لمبا اور 60 گز چوڑا تھا۔ اس میں پھول پتیاں، درخت، نہریں، تصویریں، سونے کی تاریں اور جواہرات جڑے تھے۔ جب یہ چیزیں مدینہ پہنچیں، دیکھنے والے مسلمانوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ حضرت علی نے رائے دی، اس کو کاٹ کر لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔!!! حضرت علی کے حصے میں آنے والا ٹکڑا تیس ہزار درھم میں فروخت ہوا۔
عربوں کی فطری جبلت
ابن خلدون لکھتا ہے، مال غنیمت کا پانچواں حصہ جو مدینہ پہنچا، اس کی مالیت تین کروڑ تھی، ہر سوار کو نو نو ہزار درہم اور نو نو گھوڑے ملے۔ فاروق اعظم مال غنیمت اور جواہرات کے ڈھیر دیکھ کر رو پڑے۔۔عبدالرحمان نے کہا، امیر المومنین، یہ تو مقام شکر ہے،آپ کیوں رو دیئے؟، فاروق اعظم نے جواب دیا۔ جس قوم کو اللہ تعالی دولت دیتا ہے، اس میں رشک اور حسد آ جاتا ہے۔
عرب قبائل عہد رسالت سے ہی مال غنیمت پر جھگڑا کرتے آ رہے تھے۔ ان میں غنیمت کا لالچ اسلامی اخوت، ایثار، اور اتحاد سے زیادہ غالب تھا۔ قبائلی عصبیت کا یہ حال تھا، کہ ہر قبیلے کی الگ الگ مسجدیں ہوتی تھیں۔ اور وہ جدا جدا محلوں میں رہتے تھے۔ مدائن میں مچھروں نے عربوں کو تکلیف دی، تو سعد نے عمر کو اس بارے میں لکھا، عمر نے جواب دیا،’’ عربوں کی حالت اونٹ سی ہے، ان کو ایسی جگہ راس نہیں آ سکتی، جو اونٹ کو راس نہ آئے۔‘‘حضرت عمر کی ایران پر فتح سے وسطی ایشیاء اور ہندوستان پر فتح کے دروازے کھل گئے۔
حضرت عمر کا قتل
حضرت عمر پر قاتلانہ حملے کا پس منظر کچھ یوں ہےکہ ایک ایرانی غلام جو مال غنیمت میں اپنے عرب مالک مغیرہ بن شعبہ کو ملا تھا، حضرت عمر کے خلاف شکایت لے کر آیا، کہ اس کا مالک اس سے زیادہ خراج (اس کی کمائی کا حصہ) وصول کرتا ہے۔ غلام ہنر مند تھا، اور وہ آہن گری، نقاشی اور نجاری وغیرہ کے مختلف کام کرتا تھا۔ حضرت عمر نے کہا، چونکہ تم کئی کام کرتے ہو، اس لئے تمہارا خراج زیادہ نہیں۔ اس واقعے کے تیسرے دن حضرت عمر صبح کی نماز کے لئے مسجد تشریف لائے۔ صف بندی کے بعد جب حضرت عمر نے تکبیر پڑھی۔ وہ غلام نمازیوں میں گھس آیا، اور امیر المومنین پر خنجر کے چھ وار کر دیئے۔ قاتلانہ حملہ کے تیسرے دن حضرت عمر کا نومبر644ء میں انتقال ہو گیا۔ آپ کی ازواج میں ام کلثوم بنت علی بھی شامل تھی (دونوں کی عمروں کا فرق اور رشتے داری کے ملغوبے کا اندازہ آپ خود کر لیں، حضرت عمر کی بیٹی حفصہ پیغمبر اسلام کی بیوی تھیں)۔
عربوں کی فتوحات کا موازنہ
مدینہ کی ریاست کے کارپرداز عربوں کی فطرت سے واقف تھے کہ ان کو دو چیزیں پسند ہیں، لڑائی اور مال غنیمت لوٹنا۔ اسلامی فتوحات کی سرعت اور وسعت کو دیکھ کر عش عش کرنے والوں کے لئے عرض ہے۔کہ مسلمانوں سے پہلے اور بعد میں کئی فاتح حملہ آوروں نے اسی طرح کی فتوحات حاصل کی تھیں۔ قیصر اعظم، اسکندر اعظم، نپولین اعظم، چنگیز خان، تاتاری اور تیمور کی فتوحات ایسی ہی شاندار تھیں۔ چنانچہ ان فتوحات کا اسلام کے کسی معجزے یا جذبے سے کوئی تعلق نہ تھا۔قومیں جب اٹھیں، تو اسی طرح اپنے اپنے زمانے میں طوفان کھڑے کئے۔ رومن ایمپائر، جرمن ایمپائر، ہسپانوی ایمپائر اپنے عروج میں حضرت عمر کی سلطنت سے زیادہ عروج پر تھیں۔
عرب اور فارس کا ثقافتی ٹکراؤ
دوسری بات جو اہم ہے، جب اسلام کی فتوحات شروع ہوئیں، تو اہل فارس اور اہل روم کی مملکتوں میں قومی ، معاشرتی اور مذہبی انتشار کا زمانہ تھا۔ مال غنیمت کے چار حصے لشکریوں میں تقسیم ہوتے تھے، وہ اس فائدے کے حصول کے لئے بڑے جوش سے لڑتے تھے۔ حضرت عمر جبراً مفتوح رعایا کو اسلام میں داخل کرنے کے بھی خلاف تھے۔ آپ کے سیاسی کردار میں عرب نیشنل ازم اور قبائلی چھاپ نمایاں تھی۔آپ نے شام کے دورے کے دوران معاویہ کا شاہانہ تزک و احتشام دیکھ کر کہا، معاویہ یہ کیا فرعونیت ہے؟۔ اسی طرح بیت المقدس کے دورے کے دوران یزید، ابو عبیدہ، اور خالد بن ولید کی حریری قباؤوں کو دیکھ کر برہم ہوئے، اور کہا، دو ہی برس میں تم نے عجمیوں کی عادتیں اپنا لیں۔ اس برہمی کا تعلق اسلام کے اصولوں سے نہیں تھا، عمر پرانے پس ماندہ قبائلی اقدار کی نمائندگی کر رہے تھے، اور اسلام کے فاتح کمانڈر نئی مال و دولت اور نئی طرز زندگی سے آشنا ہو رہے تھے۔
بے پناہ مال غنیمت آنے سے عربوں کی زندگی کا معاشرتی، تہذیبی، ثقافتی، نقشہ بدل رہا تھا۔ ایرانی لونڈیوں اور غلاموں کے ذریعے لہو و لعب کی محفلیں جمنے لگیں۔ اسلامی روایت کا خاتمہ ہونے لگا۔ دولت کی فراوانی اتنی تھی کہ حضرت عمر پوچھا کرتے تھے، کہ اس دولت کا کیا کروں؟۔ چنانچہ انصار اور قریش کے قبائل کی مردم شماری کرا کر ایک رجسٹر بنایا گیا تاکہ تمام گروہوں اور طبقات میں حسب مراتب دولت کی تقسیم کی جا سکے۔ ازواج مطہرات کا دس دس ہزاردرہم کا وظیفہ مقرر ہوا، حضرت عائشہ کو دوہزار زیادہ دیئے گئے۔ حسن ، حسین، سلمان فارسی، ابوذر غفاری کو پانچ پانچ ہزار درہم وظیفہ مقرر ہوا۔
لیکن ایران کی فتح کے بعد عربوں اور ایران میں جو شدید تضاد پیدا ہوگیا ، وہ خطرناک نتائج کا حامل تھا۔ عربوں کی معیشت خانہ بدوش اور قبائلی تھی۔ ان کو کھانے پینے اور رہنے سہنے کا ڈھنگ نہیں آتا تھا۔ ایران کے پارسیوں میں علوم عقلیہ کا بہت فروغ ہو چکا تھا۔ اور وہ ایک بلند تہذیبی سطح پر زندگی گزار رہے تھے۔ چنانچہ ان میں ایک قومی تشخص اور تفاخر تھا۔ بدوی عربوں نے ایران کی تہذیب و ثقافت کو برباد کیا، ان کے شہروں کو لوٹ لیا، ایرانیوں نے زرتشت مذہب چھوڑ کر اسلام تو قبول کر لیا، لیکن عربوں کے خلاف ان کی نفرت کم نہ ہوسکی۔
عرب اور فارس کا ثقافتی فرق
ابن خلدون لکھتا ہے کہ حضرت سعد بن وقاص نے حضرت عمر کو لکھا کہ ہمیں یہاں بہت سے کتب خانے ملے ہیں۔ ان کے بارے میں کیا کیا جائے ؟ اگر اجازت ہو تو مسلمانوں میں ان کو بھی تقسیم کر دیا جائے۔ حضرت عمر نے فرمان جاری کیا، ان کو دریا برد کر دو۔ اگر ان میں ہدایت ہے، تو وہ ہمیں پہلے ہی مل چکی ہے، اور اگر گمراہی ہے تو اس کی ہمیں ضرورت نہیں۔ چنانچہ کتابوں کو دریا برد کیا اور کچھ کو جلا دیا گیا۔ اس واقعہ سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ بانیان اسلام کس قدر علم دوست تھے۔ حضرت عمر کے سامنے ایران سے جو اسیران جنگ لائے گئے،ان میں ایرانی شہنشاہ یزدگرد کی تین بیٹیاں بھی تھیں۔حضرت عمر نے ان کو فروخت کرنے کا جب حکم دیا۔حضرت علی نے فرمایا، شہزادیوں کے ساتھ تو ایسا سلوک ٹھیک نہیں جو عام لوگوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حضرت علی نے قیمت بیت المال میں جمع کروا کر ان تینوں لڑکیوں کو خرید لیا، ان میں سے ایک لڑکی حضرت عمر کے بیٹے عبداللہ کو، ایک لڑکی حضرت ابو بکر کے بیٹے محمد کو، اور ایک اپنے صاحب زادے حضرت حسین کو دی۔ انہیں کے بطن سے زین العابدین پیدا ہوئے تھے۔ ایرانیوں پر اموی استبداد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد عربوں کے اس گروہ کا ساتھ دیا، جو اموی حکمرانوں کے خلاف تھا، یعنی حضرت علی اور ان کی اولاد۔ ایرانیوں کے تحت شعور میں مزدک، زرتشت اور مانی تعلیمات جان گزیں رہیں۔ اور وہ مختلف صورتوں میں باہر نکلتی رہیں۔ جس نے بالآخر اسلامی دور کی سب سے بڑی عقلی تحریک “اعتزال” کا روپ دھارا۔
علامہ نیاز فتح پوری کے خیال میں امام حسین کی بیوی ایرانی شہزادی نہی تھی کیونکہ اس وقت امام حسین کی عمر صرف 6 برس تھی۔ یہ تعلق ایرانیوں نے بعد میں پیدا کیا ھے اپنا رشتہ نبی سے جوڑنے کے لئے۔
behtreen aur lajwab article hay ….is geer janibdar tehqeeq pay writer ko khiraj e tehseen…readers ki information barhany ka aur sahi history pay qalam uthany ka beyhad shukriya…hatsoff
ارشد محمود صاحب، اسلام کے خلاف اپنے تعصب کی آگ میں اتنے اندھے بھی نہ ہوں کہ جھوٹے واقعات کو ان کے اصل مقام سے کاٹ دیں – آپ نے لکھا ہے کہ "اگر ان میں ہدایت ہے، تو وہ ہمیں پہلے ہی مل چکی ہے، اور اگر گمراہی ہے تو اس کی ہمیں ضرورت نہیں۔ چنانچہ کتابوں کو دریا برد کیا اور کچھ کو جلا دیا گیا۔ ”
آپ چوک گئے ہیں یا جان بوجھ کر یہ حرکت کی ہے یہ تو آپ ہی بتائیں لیکن یہ بات سب جانتے ہیں کہ حضرت عمر کا یہ من گھڑت مکالمہ مصر کی فتح سے منسوب کیا جاتا ہے
محترمی جناب جنگ صاحب!
اس میں ارشد محمود صاحب کا کوئی قصور نہیں ہے، دونوں طرح کی روایات موجود ہیں، بعض میں یہ واقعہ فتح ایران سے منسوب کیا گیا ہے، اور بعض میں فتح اسکندریہ سے، اگر آپ ارشاد فرمائیں تو دونوں روایتیں بمعہ حوالہ کے پیش کر سکتا ہوں۔ نیز آپ نے اس واقعہ کو کس بنیاد پر من گھڑت قرار دے دیا:
1ــ کیا اس بنیاد پر کہ آپ کا اندھا اعتقاد ہے کہ حضرت عمر ایسا کوئی حکم صادر نہیں فرما سکتے ؟
2ــ کیا آپ نے اس سلسلے میں کوئی تحقیق فرمائی ہے جس سے منکشف ہوا ہے کہ یہ روایت من گھڑت ہے؟
اگر آپ نے ایسی کوئی تحقیق کی ہے تو ہمیں ضرور مطلع فرمائیں۔
محترمی جناب نظامی صاحب!
یہ من گھڑت واقعہ مصر کی فتح کے 500 سال بعد پہلی بار سامنے آیا-اس کے بعد دوسروں نے اسے نقل کرنا شروع کردیا- ملاحظہ کیجیئے مندرجہ ذیل وکی پیڈیا کا صفحہ
http://en.wikipedia.org/wiki/Library_of_Alexandria
اور تو اوربرنارڈ لیوئس نے بھی اسے جھوٹا واقعہ قرار دیا ہے-وکی پیڈیا کے اسی صفحہ پر مستشرقین کی فہرست بھی موجود ہے جو اس واقعہ کو سچا نہیں مانتے
aur woh arbo aur iranio ki nafrat aaj bhi kam nahi hui …..
I have read the article on Wikipedia, Yes it says the library was set on fire several times as it reads, "Arguably, this library is most famous for having been burned down resulting in the loss of many scrolls and books; its destruction has become a symbol for the loss of cultural knowledge. Sources differ on who was responsible for its destruction and when it occurred. The library may in truth have suffered several fires over many years. Possible occasions for the partial or complete destruction of the Library of Alexandria include a fire set by the army of Julius Caesar in 48 BC and an attack by Aurelian in the 270s AD”
But it does not say that it was not burnt by the Muslims or by the order of Hazrat Omer. As some manuscripts of the Quran were burnt by the orders of Hazrat Usman when he was compiling the Quran. No wonder if Omar also burnt the above-said library. The Muslims are expert in vandalism.