Close

مذہب میں تجدید یا نئے مذہب کی ایجاد

یہودیت، عیسائیت اور اسلام دونوں ایسے مذاہب ہیں جن کے اپنے طے شدہ مخصوص ارکان ہیں اور جو کوئی ان بنیادی ارکان کی پابندی کرنے سے انکاری ہوجائے انہیں ان مذاہب سے "فارغ” کردیا جاتا ہے چاہے یہ فارغ کیے جانے والے خود کو حق پر اور دوسروں کو باطل پر ہی کیوں نہ سمجھیں…

عیسائیت کی مثال لیتے ہوئے فرض کرتے ہیں کہ اگر کوئی عیسائی عیسی کو اللہ کا بیٹا ماننے اور وحی کے تصور کا انکاری ہوجائے تو بیشتر کی نظر میں وہ بہرحال عیسائی نہیں رہے گا، اور اگر وہ درمیانی صدیوں کا باشندہ ہوتا تو اسے مرتد قرار دے کر قتل کردیا جاتا، اس اختلاف کے باوجود بھی اگر وہ شخص خود کو عیسائی سمجھتا رہے تو یہ اس کا حق ہے مگر حقیقتِ حال یہی ہے کہ اس نے دراصل اصل نام کو برقرار رکھتے ہوئے ایک نیا مذہب ایجاد کر ڈالا.

اسی نہج پر جلتے ہوئے اب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ کوئی مسلمان محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نبوت کا انکاری ہوجائے اور قرآن کو کسی یہودی حاخام (مولوی) کی تصنیف قرار دے اور حج کے رکن کو بت پرستانہ رسم کہہ ڈالے جس میں لوگ ایک سیاہ پتھر کے گرد چکر لگایا کرتے تھے اور عورتیں تبرک کے طور پر اس سے اپنی شرمگاہیں رگڑا کرتی تھیں تو کیا یہ شخص مسلمان رہے گا؟ یقیناً یہ شخص مسلمان نہیں رہے گا اور اگر وہ سرِ عام اپنے ان نظریات کا اعلان کردے تو حکومت تو بعد کی بات ہے کوئی بھی "مجاہد” اسے مرتد قرار دیتے ہوئے اسے قتل کر ڈالے گا، لیکن اگر وہ شخص پھر بھی خود کو مسلمان قرار دے تو؟ یقیناً یہ اس کا حق ہے مگر درحقیقت اس نے بھی اصل نام کو برقرار رکھتے ہوئے ایک نیا دین ایجاد کرلیا.

کچھ لوگ اس کے لیے "دین میں تجدید” کی اصطلاح استعمال کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں جو کہ در حقیقت تقیہ کی ایک شکل ہے، یہ کہنے کی بجائے کہ ہم ایک نیا دین بنا رہے ہیں وہ اسے اس دین میں تجدید قرار دیتے ہیں جو کہ محض ایک تعبیری اختلاف ہے.

معاملہ کچھ بھی رہا ہو، ہم نئے مذاہب کی دہلیز پر ہیں جو انہی ناموں کے ساتھ قطعی مختلف مضمون کے ساتھ آن دھمکنے والے ہیں، ان نئے مذاہب میں خصوصی طور پر خرافات کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی جائے گی جس میں بنیادی خرافت ہی یہی ہے کہ مقدس کتابیں آسمان سے خدا کی طرف سے انبیاء پر وحی کے طور پر "اتاری” گئی ہیں.. آج کی اسلامی جماعتوں کی بنیاد ہی اسی افسانے پر قائم ہے اور اسی کی بنیاد پر وہ معاشروں پر اسلامی شریعت "ٹھونسنا” چاہتے ہیں کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاہم اگر یہ ثابت کردیا جائے کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ ایک یہودی حاخام کی تصنیف ہے تو یہ ساری اسلامی تحریکیں اس طرح سے ڈھیر ہوجائیں گی جیسے دھوپ میں برف پگھلتی ہے، یہاں یہ بتادینا ضروری ہے کہ ان مقدس کتابوں کو اتنی آسانی سے نہیں لینا چاہیے کیونکہ ساری دنیا پر ان کے تشویش ناک اثرات مرتب ہوتے ہیں.. مثلاً:

مصر میں اخوان المسلمین کے صدارت کے امیدوار کا فرمانِ اقدس ہے کہ اگر وہ صدر بن گیا تو عیسائیوں کو زبردستی اسلام میں داخل کرے گا یا پھر انہیں جزیہ دینے پر مجبور کیا جائے گا بصورتِ دیگر انہیں ملک بدر کردیا جائے گا کیونکہ جزیہ ایک قرآنی حکم ہے جس کے تحت لازم ہے کہ غیر مسلم بے عزت ہوکر (وہم صاغرون) مسلمانوں کو جزیہ دیں اور چونکہ قرآن اللہ کا کلام ہے لہذا اللہ کی شریعت کا اطلاق ضروری ہوجاتا ہے.

– کوئی اقتصادی مسائل کے حل کے لیے انسانی تجارت اور غلاموں اور لونڈیوں کے بازاروں کی واپسی چاہتا ہے کیونکہ قرآن انسانی غلامی کو جائز قرار دیتا ہے اور چونکہ یہ اللہ کا کلام ہے چنانچہ اللہ کی شریعت لازماً لاگو کی جانی چاہیے، ملاحظہ فرمائیں ویڈیو ایک بلکہ اس کویتی خاتون کا تو کویتی حکومت سے دیرینہ مطالبہ ہے کہ لونڈیاں خریدینے اور رکھنے کا قانون پاس ہونا چاہیے کیونکہ یہ اسلام کے عین مطابق ہے اور اس میں کوئی برائی نہیں یعنی وہ اسلام کے دورِ عروج کے اس منظر کو بحال کرنا چاہتی ہیں:

– کوئی شرعی حدود کے اطلاق کا مطالبہ کر رہا ہے جیسے سنگسار، ہاتھ کاٹنا، گردن کاٹنا، مرتد کا قتل وغیرہ کیونکہ یہ اللہ کی شریعت ہے، ایسے بہت سے بڑے بڑے منصوبے ہیں جو ان وحشیانہ سزاؤں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے سرگرداں ہیں جیسے:

1- مصری سزاؤں کا قانون جو ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جسے پارلمینٹ کی ایک کمیٹی نے 1982ء میں وضع کیا تھا اور جو وڈے وڈے جج صاحبان اور قانون دانوں اور مولویوں پر مشتمل تھی… منصوبہ ملاحظہ فرمائیں.

2- عرب ممالک کا سزاؤں کا یکجا قانون جس کی عرب لیگ نے 1996ء میں منظوری دی تھی.. یہاں ملاحظہ فرمائیں.

3- خلیج تعاون کونسل کے ممبر ممالک کا یکجا قانون، یہاں ملاحظہ فرمائیں.

کوئی فرعونی آثارِ قدیمہ کے بتوں اور فرعونی نقوش کو تباہ کرنے کے درپے ہے کیونکہ قرآن بت شکن ہے.. اور کوئی ہندوستان میں ہندوؤں کے سارے بتوں کو تباہ کرنے کے چکر میں ہے اور یقیناً اس کی بھی وجہ قرآن ہے.

– کوئی سپین، روم، یورپ اور امریکہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ دین اللہ کے لیے ہو.. ملاحظہ فرمائیں ویڈیو ایک اور ویڈیو دو.

یقیناً کچھ لوگ – جن کی تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے – ایسی خرافات کو خیر باد کہہ چکے ہیں مگر اپنے عقائد کا اظہار نہیں کرتے خاص طور سے اسلامی معاشروں میں جہاں ردت کی تلوار ان کے سروں پر ہر وقت لٹکتی رہتی ہے، مگر انٹرنیٹ کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ اور اس پر عرفیتی ناموں (نک نیمز) کے استعمال نے ایسی فرسودہ حکومتوں اور معاشروں کی لاگو کردہ ساری پابندیوں کی بینڈ بجادی ہے جس کے سامنے حکومتی اور مذہبی حلقے بے بس نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جلد ہی دنیا ایسی فکری تبدیلیوں سے دوچار ہونے والی ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں.. یہ امر سیاستدانوں اور مولویوں کے لیے تشویش کا باعث ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دس سال سے زیادہ عرصہ سے اسلامی ممالک اقوامِ متحدہ میں مذاہب کی توہین کا قانون پاس کرانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں جس کے حوالے سے آخری کوشش غالباً 2010ء میں پاکستان کی جانب سے کی گئی تھی اور یہ قرار داد غالباً اس سے اگلے سال ویٹو کردی گئی تھی.. وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ توہین کی بات تو کرتے ہیں مگر توہین کو ڈیفائن نہیں کرتے اور مقصد یقیناً یہی ہے کہ عالمی برادری پر تفتیشی عدالتیں تھوپی جائیں تاکہ اسلامی خرافات کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچلا جاسکے.

7 Comments

    1. شاہد صاحب
      بات تو آپ کی درست ہے کہ "جس نے زبان کھولی اس کی موت پکی ہے” مگر اب صورتحال کافی تبدیل شدہ ہے، انٹرنیٹ کی سہولت کے باعث اب آپ کھل کر اظہار رائے کر سکتے ہیں، اصل مقصد تو اپنی فکر اور رائے کا اظہار ہے، چاہے پوشیدہ رہتے ہوئے ہی ہو۔

جواب دیں

7 Comments
scroll to top