Close

معجزہ اور قرآن

اسلامی تاریخ ہمیشہ ان تمام تصورات کو جو پہلے سے متعین کردہ فریم سے نکلنے کی کوشش کرتے تھے ضائع کرتی رہی جس کی وجہ سے بہت سارے مُتون کا انجام نامعلوم رہا جبکہ ان کے مصنفین کا انجام قتل، قید اور ملک بدری کے ما بین جھولتا رہا، تاہم تمام وجوہات مذہبی نہیں تھیں جس قدر کہ سیاسی تھیں جو مذہب کی آڑ لیے ہوئے تھیں کیونکہ جیسا کہ شہرستانی کہتے ہیں کہ اسلام میں تلوار ہمیشہ مذہب کی بنیاد پر نہیں اُٹھائی گئی.

اگر مسلمان متکلمین اور فلسفیوں کو پڑٖھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے زیرِ بحث موضوعات بہت جرات مندانہ تھے، انہوں نے ایسے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جن پر آج کے دور میں بات کرنا غالب کے بقول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، دیگر موضوعات کی طرح قرآن کا معجزہ بھی ایک ایسا شجرِ ممنوعہ تھا جسے یہ مسلمان مفکرین زیرِ بحث لائے، اگرچہ اسلامی تاریخ اسے زندقہ قرار دیتی ہے مگر حقیقتِ حال یہ ہے کہ یہ لوگ ان الزامات سے بہت دور اور مبرا تھے کیونکہ وہ اس قدر گہرے موضوعات پر بحث کرتے تھے جو فقہائے دین کے احاطہ فہم سے باہر تھے یہی وجہ ہے کہ ان فقہاء نے اسے اسلامی مملکت کی آئیڈیالوجی کی خدمت کے لیے استعمال کیا.

(1) ابن الرواندی قرآن پر کہتے ہیں: ” اس میں کوئی ممانعت نہیں کہ فصاحت میں عرب کا کوئی قبیلہ دیگر قبائل سے بڑھ کر ہو، اور اس قبیلے کا کوئی ایک گروہ باقی قبیلے سے زیادہ فصاحت رکھتا ہو، اور اس گروہ میں کوئی ایک شخص باقیوں سے زیادہ فصیح ہو… اب فرض کریں کہ اس کی فصاحت کی شہرت سارے عرب میں پھیل گئی تو عجم پر اس کا کیا حکم ہے جو زبان نہیں جانتے اور ان پر اس کی کیا حجت ہے؟! ” اسی سیاق میں ابن الرواندی آگے لکھتے ہیں: ” تمہارا دعوی ہے کہ معجزہ قائم اور موجود ہے جو کہ قرآن ہے، اور کہتے ہو کہ ” جسے انکار ہو وہ اس کے جیسا لاکر دکھائے ” تو اگر تم برتر کلام چاہتے ہو تو ہم بلغاء، فصحاء اور شعراء کے کلام سے اس کے جیسا ہزار لا سکتے ہیں جس کے الفاظ اس سے زیادہ رواں، معانی میں بے تحاشا مختصر، ادائیگی اور عبارت میں بلیغ اور تناسق میں باکمال ہوگا، تو اگر تمہیں یہ منظور نہیں تو ہم تم سے وہی مطالبہ کرتے ہیں جو تم ہم سے کرتے ہو ” ابن الرواندی کی بات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہر متن اور مصنف کا اپنا ایک اسلوبی پہلو ہوتا ہے جو اسے باقی لکھاریوں اور تخلیق کاروں سے ممتاز کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر شاعر یا مصنف کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے جس کی نقل کرنا تقریباً نا ممکن ہوتا ہے، یوں یہ چیلنج دے کر وہ بتا رہے ہیں کہ یہی حجت حریف پر بھی لاگو ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی انسان کسی دوسرے کے جیسی کوئی چیز نہیں لاسکتا (2) کیونکہ تخلیق کی مثال جیسا کہ جابری کہتے ہیں ڈرائینگ، مجسمہ سازی، فلسفہ اور فکر کی طرح ہے جس کی نقل نہیں کی جاسکتی کیونکہ تعریف میں نقل ” تخلیق ” نہیں ہے (3).

ابو بکر الرازی کا خیال ہے کہ اگر کسی کتاب میں کوئی معجزہ ہے تو اسے دینی کتابوں میں نہیں بلکہ علمی کتابوں میں ہونا چاہیے، اس ضمن میں وہ کہتے ہیں: ” واللہ اگر کسی کتاب کا حجت ہونا واجب ہوتا تو وہ انجنیئرنگ اور ریاضی کی کتابیں ہوتیں جن سے افلاک اور سیاروں کی حرکت کا علم حاصل ہوتا ہے، اور منطق اور طب کی کتابیں جن میں بدن کی منفعت کے علوم ہیں یہ کتابیں ایسی کتابوں سے زیادہ حجت کی حقدار ہیں جن سے نا تو کوئی نفع ہوتا ہے نا نقصان اور نا ہی کوئی مستور (پوشیدہ) ظاہر ہوتا ہے (یعنی قرآن) ” وہ مزید لکھتے ہیں: ” ہم اس سے بہتر شعر، بلیغ خطبے اور خوبصورت رسائل لا سکتے ہیں جو اس سے زیادہ فصیح اور باکمال ہوں گے، قرآن میں ایسا کوئی فضل نہیں ہے، یہ محض کلام کے باب میں ہے ”.

قرآنی معجزے کا تعلق دو معاملات سے رہا، ایک نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ان پڑھ ہونا اور دوسرا اسے تقدس کی چادر میں لپیٹ کر ایک اعلی فنی قیمت دینے کی کوشش کرنا تاہم امیت کا مسئلہ زیادہ اہم رہا کیونکہ اسے متن کی قدر یا ویلیو بڑھانے کے لیے ” استعمال ” کیا گیا تاکہ اسے انسانی تصنیف نہ کہا جائے تاہم اس زمانے میں امیت کا مطلب ان پڑھ ہونا نہیں تھا اور نا ہی ان پڑھ ہونا کوئی معجزے کی علامت ہے، بلکہ اس کے برعکس پڑھنا لکھنا بلیغ کلام کہنے کے لیے کوئی شرط نہیں ہے کیونکہ بلیغ باتیں پڑھنے لکھنے سے مشروط نہیں ہیں، عرب کے شعراء اور خطیب بغیر کسی سابقہ تیاری کے شعر کہتے اور خطبے پڑھتے تھے (13) یوں ایک زبانی ثقافت میں جہاں پڑھنے لکھنے کا زیادہ رواج نہیں تھا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کوئی استثناء حاصل نہیں ہے، تو پھر امیت سے معجزے کا قیاس کیسے کیا جائے؟

—————————–

حوالہ جات:
1- تاریخ الالحاد فی الاسلام، عبد الرحمن بدوی، سینا للنشر، دوسرا ایڈیشن 1993.
2- تاریخ الالحاد فی الاسلام، صفحہ 253.
3- مدخل الی القرآن الکریم، پہلا اڈیشن 2006 صفحہ 83.
4- مدخل الی القرآن الکریم، صفحہ 83.

47 Comments

  1. شعیب صاحب
    ہم نے یہ کہا تھا کہ ان کی تحاریر کاپی شدہ ہیں. ہم نے ان کے حوالوں کو انگریزی کتابیں نہیں‌کہا تھا. مگر اینڈرسن شا صاحب اپنا نظریہ اور مذہب بتاتے ہوئے کیوں ہچکچا رہے ہیں یہ معلوم نہیں.

  2. شعیب صاحب
    آنسراسلام ڈاٹ کام کی طرح کی کئی اسلام مخالف ویب سائٹس ہیں جہاں ایسی تحاریر لاکھوں کی تعداد میں پڑی ہیں. اینڈرسن شا صاحب یہ مواد اردو میں شائع کر رہے ہیں.
    ہم ان سے یہی پوچھ رہے ہیں کہ وہ اپنا تعارف کرا دیں کہ وہ کون ہیں، ان کی تعلیم کیا ہے، تجربہ کیا ہے اور پیشہ کیا ہے؟ آپ تو جانتے ہیں کہ ہر کتاب کے شروع میں مصنف کا تعارف درج ہوتا ہے جس سے انسان اس کی سوچ کا اندازہ لگاتا ہے. یہی ہم چاہتے ہیں کہ اینڈرسن شا صاحب اپنا تعارف کرا دیں بس.

    1. افضل صاحب،
      میں یہ جاننا نہیں چاہتا کہ آپ اینڈرسن شا سے انٹرویو کیوں کرنا چاہتے ہیں.

      میرا نہیں‌خیال کہ کسی بلاگر کو اپنی تحریروں کے جواب میں‌اپنا مذہب اور قومیت بھی بتانی پڑے.

      باقی آپ کی مرضی آپ مکرر اینڈرسن شا سے پوچھتے رہیں اور اینڈرسن شا کی مرضی کہ چاہے تو آپ کے سوالوں کا جواب دیں.

      جہاں تک میرا خیال ہے، اینڈرسن شا وہی لکھ رہے ہیں‌جو یہ چاہتے ہیں چاہے کاپی پیسٹ ہی سہی.

      اور ہاں میں‌اینڈرسن شا کی طرفداری بالکل نہیں کر رہا .

  3. اینڈرسن شا صاحب اگر خاموش رہیں گے، اپنا تعارف نہیں کرائیں گے اور اپنی تحاریر کا مقصد بیان نہیں‌کریں گے تو ان کے بلاگ کے موجودہ مواد سے تو یہی اخذ ہو گا کہ وہ دہریے ہیں جو خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتے. اگر وہ اس خیال کو رد کرتے ہیں تو پھر خدا کے ہونے پر دلائل دیں گے ناں کے اس کے ناں ہونے پر.

  4. ارے جناب اینڈرسن شا صاحب،
    سوال اچھا ہے جواب دے دیجیے . قوم کو بڑا تجسس ہے اور یہ تجسس بھی آپ ہی نے پیدا کیا ہے.
    میرا بھی ایک سوال ہے کہ ڈشکرے کہاں سے ملتے ہیں ؟ ایک ڈشکرا عنیقہ ناز صاحبہ نے رکھا ہوا ہے اور اب آپ نے بھی رکھ لیا.

  5. افضل صاحب،
    میں یہ جاننا نہیں چاہتا کہ آپ اینڈرسن شا سے انٹرویو کیوں کرنا چاہتے ہیں.
    میرا نہیں‌خیال کہ کسی بلاگر کو اپنی تحریروں کے جواب میں‌اپنا مذہب اور قومیت بھی بتانی پڑے.
    باقی آپ کی مرضی آپ مکرر اینڈرسن شا سے پوچھتے رہیں اور اینڈرسن شا کی مرضی کہ چاہے تو آپ کے سوالوں کا جواب دیں.
    جہاں تک میرا خیال ہے، اینڈرسن شا وہی لکھ رہے ہیں‌جو یہ چاہتے ہیں چاہے کاپی پیسٹ ہی سہی.
    اور ہاں میں‌اینڈرسن شا کی طرفداری بالکل نہیں کر رہا .

  6. شہعیب صاحب
    بات انٹرویو کی نہیں، جب تک آدمی خود کا تعارف نہیں‌کرائے گا اس کی تحاریر کو سمجھنے میں مشکل پیش آئے گی. ہم نے کب کہا کہ وہ ایسا مواد شائع نہ کریں. یہ ان کا بلاگ ہے جو چاہے لکھیں. ہمیں تو یہ تجسس ہے کہ اینڈرسن شا صاحب کون ہیں اور انکے نظریات کیا ہیں. ان کے تعارف کے بعد ان کی تحاریر کا مقصد متعین ہو سکے گا.

    1. میرا نام "شعیب” ہے جسے آپ نے "شہعیب” ٹائپ کر دیا . خیر پہلی غلطی معاف ؛)
      کیا بلاگر کی تحریر سمجھنے کے لئے اس کا تعارف ضروری ہے؟ اگر ہے تو کیوں ؟
      اخبارات اور جریدوں میں کہانیاں، افسانے وغیرہ چھپتے ہیں وہاں‌صرف مصنف کا نام ہوتا ہے . اور قاری وہی اخبار، جریدہ خریدتا ہے جسے وہ پڑھنا پسند کرتا ہے .

  7. افضال
    آپ کے نظریے اور سوچ کے بارے میں‌تجسس ابھی بھی برقرار ہے. کب لکھ رہے ہیں‌کہ آپ کی سوچ کیا ہے اور آپ کا مذہب کیا ہے. اگر آپ کا کوئی مذہب ہے تو اس کی تھوڑی سی تشریح ضرور کیجیے گا.
    افضال صاحب وہ اپنی سوچ اور مذہب کی تشریح پچھلی پوسٹ میں کر چکے ہیں آپ مزید ان سے کیا تشریح کر وانا چاہتے ہیں. اینڈرسن شا صاحب خدا کی شریعت کو نہیں مانتے کیونکہ اس میں انسانیت کو ذلیل کرنے والے اور انسان سے اس کا انسان ہونے کا حق چھیننے والے الفاظ ہیں. اینڈرسن شا صاحب کی اپنی ایک شریعت ہے جس کو انہوں نے انسانیت کی شریعت کا نام دیا ہے جس کا پہلا فتوی یہ ہے کہ بچوں کا جواز شادی کے بندھن سے مشروط نہیں ہے. انکی کہانی انہی کی زبانی:

    سب سے پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ میری نظر میں بچوں کا جواز شادی کے بندھن سے مشروط نہیں ہے، ہر انسان کا جواز اس کے اپنے وجود اور ذات میں پوشیدہ ہے لہذا میری انسانیت کی شریعت میں کوئی حرامی یا ابن الزنا نہیں ہے، یہ تحقیری الفاظ جو انسان کی تذلیل اور اس کے انسان ہونے کے حق کی توہین کرتے ہیں خدا کی شریعت میں ہیں

    افضال صاحب اتنا کھول کر لکھ دینے کے باوجود آپ ان سے مزید تشریح چاہتے ہیں

  8. سیدھی سی بات ہے اس طرح کی تحاریر ایک مسلمان تو کبھی بھی نہیں‌لکھے گا اور دوسرے آپ کی تحاریر اکثر کاپی کی ہوئی ہوتی ہیں انگریزی مواد کی. وگرنہ آپ جیسا آدمی اس طرح کی تحقیق پر وقت ضائع کرتا ہو گا دل نہیں مانتا.
    ہم آپ کے تعارف کا انتظار کر رہے ہیں تا کہ پتہ چل سکے کہ ایسی تحاریر شائع کرنے والے کی اپنی سوچ اور نظریہ کیا ہے. جب تک آپ کے نظریے کا معلوم نہیں پڑے گا آپ کی تحاریر بے معنی رہیں گی.

    1. انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں، یہ کتابیں ہیں، اگر آپ سے دستیاب ہوسکیں تو حوالے میں جو صفحات نمبر بتائے گئے ہیں ان میں مذکورہ باتیں موجود نہ ہوں تو بندہ جرم دار، رہی بات عربی کی تو اگر کسی کو نہیں آتی تو س میں میرا کیا قصور؟

      1. آپ کے دیوتاگوگل کی ہو ا نکل گئی کہ انٹرنیٹ پر آپ کو حوالے نہیں مل رہے؟
        یا جان بوجھ کر چھپا رہے ہیں؟ ہیں جی؟
        کچھ نا کچھ ہوگا؟
        ویسے مجھے کچھ حوالے مل گئے ہیں۔
        آپ بھی ہمت کریں دیوتا جی کرپا کردیں گے۔

        1. سر جی کسی سے کچھ چھپا کر مجھے کیا مل جائے گا؟ آج کے دور میں کوئی کسی سے کچھ چھپا بھی سکتا ہے بھلا؟ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اگر مذکورہ کتابوں کے مذکورہ صفحوں میں مذکورہ حوالے نہ ملیں تو میں جرمدار، اگر آپ کو یہ دو کتابیں انٹرنیٹ پر مل گئی ہیں تو کیا آپ تصدیق کر سکتے ہیں کہ تاریخ الالحاد فی الاسلام کے صفحہ 253 اور المدخل کے صفحہ 83 میں چاروں حوالے موجود ہیں کہ نہیں؟ 🙂

      1. اینڈرسن شا صاحب آپ کو کردار کی فکر کب سے ہوگئی؟
        پچھلی پوسٹ پر ہی تو آپ نے فرمایا ہے کہ آپ کی نظر میں حرامی کوئی بڑی بات نہیں!!۔
        حرامی اگر کوئی خاص بات نہیں تو ۔۔۔۔جننے والی کا کردار بھی ٹھیک ہی ہوا بقول آپ کے۔

  9. شعیب صاحب
    نام کی غلطی واقعی ٹائیپنگ کی غلطی تھی ورنہ پہلے تو ہم آپ کا نام ٹھیک ہی لکھتے رہے ہیں.
    اگر عام موضوع پر تحاریر ہوں تو تعارف کے بغیر بھی کام چل جاتا ہے. لیکن جب اربوں انسانوں پر مشتمل کے مذاہب پر انگلی اٹھائی جائے اور اتنے حساس موضوع پر لکھا جائے تو پھر تعارف لازمی ہو جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے لکھاری اپنی سوانح عمری ضرور لکھتے رہے ہیں.

  10. دیکھیے اینڈرسن شا صاحب ، آپ توافضال صاحب کے پیچھےہی پڑ گئے ہیں۔ سوال کا جواب نہ دینے میں خودآپکا کوئی ثانی نہیں۔ ابھی آپ کی پچھلی پوسٹ المشہور کنواری کا بیٹا پر کسی قاسم صاحب نے سوال پوچھا تھا جس کا جواب آپ بڑی چالاکی سے گول کر گئے:
    qasimahmad says:
    23 June 2011 at اقتباسِ اینڈرسن شا
    “سب سے پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ میری نظر میں بچوں کا جواز شادی کے بندھن سے مشروط نہیں ہے، ہر انسان کا جواز اس کے اپنے وجود اور ذات میں پوشیدہ ہے لہذا میری انسانیت کی شریعت میں کوئی حرامی یا ابن الزنا نہیں ہے، یہ تحقیری الفاظ جو انسان کی تذلیل اور اس کے انسان ہونے کے حق کی توہین کرتے ہیں خدا کی شریعت میں ہیں“
    کیاحضور والا کی کوئی صاحبزادی یا ہم شیرہ جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ چکی ہے؟ اگر رکھ چکی ہو تو آگاہ فرمائیں بندہ پر تقصیر اپنی “خدمات” پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے امید ہے کہ خدمت کا موقعہ عنایت فرمائیں گے،

    Reply

  11. بات تو کچھ ایسی ہی ہے مگر آپ نے تو مذاق میں‌اڑا دی. بڑے لکھاریوں کی تو مثال دی ہے. ہم کاپی پیسٹ کرنے والے کو تو لکھاری سمجھتے ہی نہیں. لیکن بحث کا فائدہ تبھی ہوتا ہے جب آپ کا مخاطب سے مکمل تعارف ہو.

    1. میرا تعارف . آپ مجھ سے اچھی طرح واقف ہیں ہی .
      ایویں اینڈرسن شا کے جواب کے انتظار میں تانک جھانک کر رہا تھا یہاں اور دیکھئے ہماری بحث طول پکڑ رہی ہے . آٹھ بج چکے باہر زوردار بارش ہو رہی ہے . اینڈرسن شا نے تو کوئی جواب نہیں‌دیا . سوچا بارش تھمنے تک آپ سے بات ہوجائے .

  12. قاسم صاحب
    ہم نے بھی یہ کچھ پڑھا ہے مگر پھر بھی ان کی شریعت سے مکمل آگاہی چاہتے ہیں‌جو وہ بتانے سے پتہ نہیں‌کیوں‌کترا رہے ہیں. ویسے تو یہ ایک جگہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ وہ حنبلی ہیں اور حنبلی کی شریعت ایسی نہیں‌ہو سکتی جیسی اینڈرسن شا صاحب کی ہے. ان کے نام سے لگتا ہے کہ یہ مسلمان گھرانے میں‌پیدا ہوئے اور بعد میں‌دہریے بن گئے. اب ان کی دہریت کی مکمل تشریح اگر انہی کی زبانی معلوم ہو جاتی تو ہم ان کی تحاریر کے بارے میں کچھ رائے قائم کر سکتے.
    خدا کے نہ ہونے کو ثابت کرنا، قرآن کو فضول کتاب قرار دینا، حضرت عیسی کو نعوذ باللہ حرامی قرار دینا ان کی دہریت کے ثبوت ہی تو ہیں. یہ سلمان رشدی کے پیروکار لگتے ہیں اور اسی کی راہ پر چل رہے ہیں. یہ انبیا کو بھی عام انسان سمجھتے ہیں جو غلطی کر سکتے ہیں مگر جن لوگوں کے حوالے دیتے ہیں اور جن کی کتابوں سے مواد چھاپتے ہیں انہیں یہ غلطی سے مبرا قرار دیتے ہیں اور ان کے لکھے کو سچ مانتے ہیں مگر قرآن کو نہیں.

  13. اگر صرف عربی سیکھ لینا ہی اسلام ہے تو میرے خیال میں پھر ابو جھل اور عتبہ ابو لہب وغیرہ اینڈرسن شا سے زیادہ اور پکے مسلمان ہیں. لیکن نہیں اسلام صرف عربی سیکھنے کا نام نہیں.بلکہ اسلام تو تسلیم سے ہے اور یہ تسلیمی کفار مکہ سے نہیں ہوتی تھی جسکے سبب وہ جھنمی قرار پائے.

    اینڈرسن شا صاحب آپکی خدمت میں ایک بات عرض کرتا ہوں وہ یہ کہ آپکے کالموں سے یہی لگتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود سے نکلنے کی کوشش میں ہیں اور آپکی کوشش ہے کہ آپ ایک آزاد طبیعت انسان بن جائیں.لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے.

    جہاں آپ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا طوق گردن سے نکالنے کی کوشش میں ہیں تو وہاں آپ غیر محسوس طور پر شیطان کی شیطانی حکومت کا طوق اپنے گردن میں ڈال رہے ہیں گویا ایک سے چٹکارہ تو دوسرے میں پھنساؤ.اور مصیبت یہ کہ آپ کو اس غلامی کا ادراک نہیں ہورہا ہے اسلئے کہ شیطان انسان کے خون میں امیزش کرسکتا ہے اور اسی لئے غیر محسوس طریقے سے وہ انسان کو گمراہ کرنے لگا ہوا ہے.

    آپ کو تو یہی لگتا ہے کہ میں جو بھی کہہ رہا ہوں وہ دراصل میری عقل کے سبب ہے لیکن یہی آپکی غلط فہمی ہے کیونکہ آپ کو معلوم بھی نہیں اور آپ شیطان کے آلہ کار بننے جارہے ہیں.

    اب یہ بات تو ظاہر ہے کہ دنیا میں اگر رہنا ہے تو دو طریقے سے رہنا ہے ،یا تو خدا کی خدائی مان کر اسکے احکامات پر زندگی گذارا ہے اور اگر یہ نہیں کرنا تو لا محالہ غیر محسوس طور پر آپ شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو یعنی دہریت یا بت پرستی یا سورج پرستی یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عبادت یا بدھ مت کی عبادت یا گورونانک کی عبادت یہ سب شیطان کی اطاعت کے مختلف شعبے ہیں جن میں پھنسنے والا انسان یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں ان مذاہب کی عبات کرتا ہوں لیکن درحقیقت غیر محسوس طریقے سے یہ انسان شیطان کی عبادت میں لگا ہوا ہے.

    اب بات یہ ہے کہ انسان دو حالتوں سے خالی نہیں ہے یا تو انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گا اور اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کا طریقہ صرف ایک ہے اور وہ اسلام ہے اور یا انسان نے اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرکے اسکے مخالف گروہ حزب الشیطان میں داخل ہوگا.اور حزب الشیطان میں دخول کے کئی شعبے ہیں جیسے بت پرستی اور سورج پرستی اور بدھ مت پرستی اور وغیرہ وغیرہ.

    اب جب ان دونوں حالات میں سے کسی ایک میں انسان کا رہنا لازم ہے تو کیوں نہ وہ گروہ پسند کیا جائے جو کہ کالق کائینات کا گروہ ہے. بلاوجہ کیوں اسکی دشمنی مول لی جائے ںالانکہ سب کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دشمن بہت کمزور ہے تو کیا کوئی عقل مند کسی کمزور گروہ میں داخل ہوگا؟؟

    یہ حالت آپکی بھی ہے اینڈرسن شا صاحب .ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک میں ہونا آپ پر لازم ہے چاہے آپ لاکھ چیخیں کہ میں کسی گروہ میں نہیں ہوں لیکن آپکے نا چاہتے ہوئے بھی آپ ایک گروہ میں شمار کئے جائیں گے.

    اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کونسے گروہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں.

    اسلام میں شمولیت کیلئے اسکے بنیادی عقائد کے ساتھ آپ کا متفق ہونا ضروری ہوگا ، ورنہ کسی ایک بنیادی عقیدے سے اختلاف آدمی کو حز ب الشیطان میں شامل کرنے کیلئے کافی ہے.

    ہاں حزب الشیطان میں یہ پابندی نہیں کہ آپکا یہ یہ عقیدہ ہونا لازمی ہے بلکہ اسکی شرط صرف یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد سے اختلاف کیا جائے بس یہی حزب الشیطان میں شمولیت کیلئے کافی ہے

    میرے نزدیک یہ انسان بڑا بے وقوف اور نادان ہے جو کہ اپنے خالق کے گروہ سے نکل کر حزب الشیطان مین شامل ہوجائے.

  14. شعیب بھائی. مجھے تو کوئی نئی بات اینڈرسن شا صاحب کی تحریروں میں‌نظر نہیں آئی. کیا آپ کو سچ مچ یہ پتا نہیں‌کہ ہندی دیوناگری میں‌ ایک بندہ تقریبا اسی قسم کی تحریریں जीम. मोमिन کے نام سے گذشتہ ایک دیڑھ سال سے لکھ رہا ہے. اینڈرسن شا کی اور ان "مومن” صاحب کی تحریر میں ایک ذرا سا فرق یہ ہے کہ اینڈرسن شا کی تحریروں میں حوالہ جات ہوتے ہیں جبکہ "مومن” صاحب صرف اپنے "علمی نظریات” کے سہارے اسلام ، قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر بےلاگ لپیٹ تنقید کو کافی سمجھتے ہیں. اینڈرسن شا صاحب کی اس تحریر میں قرآن کے انسانی کلام ہونے کی جیسی اور جتنی دلیلیں‌ دی گئی ہیں تقریبا اسی سے ملتے جلتے الفاظ و دلائل "مومن” صاحب کے بھی دیوناگری بلاگ پر دیکھے جا سکتے ہیں.
    ویسے میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ اینڈرسن شا صاحب اردو یونیکوڈ گوگل سرچنگ میں اعلیٰ مقام کے حصول کے خواہش مند ہو سکتے ہیں. کیونکہ جو niche words یہ استعمال کرتے ہیں ان کے عربی مترادف گو عربی ویب سائیٹس پر ضرور ہوں‌ گے لیکن اردو میں اعشاریہ ایک فیصد سے بھی شاید کم ہوں.

جواب دیں

47 Comments
scroll to top