اس کائنات کے کسی خدا کے وجود کی اثبات یا نفی کے لیے پیش کیے جانے والے دلائل میں کچھ منطقی سوالات کسی حد تک کائناتی بھی ہوتے ہیں جنہیں اس ماورائی طاقت کی نفی کرنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے اور بہت کم لوگ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے سوالات نا تو خدا کے وجود کو ثابت کر سکتے ہیں اور نا ہی نفی.
پہلا سوال: اگر اس کائنات کا کوئی خالق ہے تو پھر یہ کائنات اتنی بڑی کیوں ہے؟ یعنی اس نے اس کائنات کو انسان کے حجم سے متناسب کیوں نہیں بنایا جس کے لیے صرف ایک نظامِ شمسی یا صرف ایک کہکشاں ہی کافی تھی؟
اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہم فرض کرتے ہیں کہ کائنات بہت چھوٹی ہے، یعنی ایک نظامِ شمسی یا ایک کہکشاں پر مشتمل ہے، اس صورت میں یہ سوال کیا جاتا: اگر خدا اتنا ہی طاقتور ہے تو اس کی کائنات اتنی چھوٹی کیوں ہے؟
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات چھوٹی ہو یا بڑی، خدا کا انکار کرنے والے اس کے حجم کو ہمیشہ اس کے وجود کی نفی کے لیے ہی استعمال کریں گے جو اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کا حجم خدا کے نا ہونے کی دلیل نہیں ہے اگرچہ یہ اس خدا کی صلاحیتوں کی ایک مثال ضرور ہے.
دوسرا سوال: اگر انسان ہی زندگی کی علامت ہے جسے کائنات کے اس انجینئر نے بنایا ہے تو اتنی بڑی کائنات میں اس کی حیثیت ایک ذرے کی سی کیوں ہے؟
یہ سوال کافی منطقی معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں کائنات کے مقابلے میں انسان کے حجم کا اور خدا کے ہونے کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
اگر انسان کا حجم کسی سیارے کے برابر ہوتا تو کیا اس سے خدا کا وجود ثابت ہوجاتا؟ اور پھر یہ کہ انسان کی اہمیت کائنات کے مقابلے میں اس کے حجم میں نہیں ہے بلکہ اس کی ذات میں ہے چنانچہ انسان کا حجم خدا کے ہونے یا نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے.
تیسرا سوال: اگر خدا موجود ہے تو آخر میں وہ کائنات کو تباہ کیوں کردے گا؟
اب مجھے نہیں پتہ کہ اس سوال کا خدا کے ہونے سے کیا تعلق بنتا ہے؟ ہمیں کیا اگر وہ اسے قائم رکھنا چاہے یا اسے ختم کر کے کوئی دوسری کائنات بنانا چاہے؟ اور کیا اس سے خدا کے وجود کی نفی ہوتی ہے؟
بہرحال.. اس قسم کے سوالوں میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ بے محل استعمال کیے جاتے ہیں، اس قسم کے سوالات کو خدا کی سوچ (بہت چھوٹے سے انسان کے لیے اتنی بڑی کائنات کیوں بنائی) اور اس کی صلاحیتوں پر بحث کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ ہم اس کے وجود پر متفق ہوں، لیکن کسی طور بھی انہیں اس کے وجود کی نفی یا اثبات کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا.