Close

کنواری کا بیٹا

سب سے پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ میری نظر میں بچوں کا جواز شادی کے بندھن سے مشروط نہیں ہے، ہر انسان کا جواز اس کے اپنے وجود اور ذات میں پوشیدہ ہے لہذا میری انسانیت کی شریعت میں کوئی حرامی یا ابن الزنا نہیں ہے، یہ تحقیری الفاظ جو انسان کی تذلیل اور اس کے انسان ہونے کے حق کی توہین کرتے ہیں خدا کی شریعت میں ہیں جس کا دعوی ہے کہ وہ انسان سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے!!

” تم حق کو جانتے ہو اور حق تمہیں آزاد کرتا ہے ” یہ یوحنا کی انجیل کے مطابق حضرت مسیح (علیہ السلام) کا فرمان ہے، تو کیا مجھے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مقدس خاندان کے بارے میں جاننے کا حق ہے؟ کیا یہ خاندان خدا مریم اور مسیح (علیہ السلام) پر مشتمل ہے یا خدا روح القدس اور مسیح (علیہ السلام) پر مشتمل ہے… یا پھر صرف خدا یوسف اور مسیح (علیہ السلام)؟ کیوں نہ ان کی معجزانہ ولادت پر ایک طائرانہ نظر دوڑائی جائے اگرچہ ان کا وجود ہی ایک تاریخی شخصیت کے طور پر متنازعہ ہے تاہم یہاں مجھے اس سے کوئی دلچسبی نہیں ہے کہ وہ تھے یا محض بولس کے ذہن کی اختراع تھے، سوال یہ ہے کہ کیا وہ واقعی خدا کے بیٹے تھے؟ یا وہ خدا بیٹا اور روح القدس کے مثلث کا حصہ ہیں؟ یا پھر وہ کنواری ولادت کا شاخسانہ ہیں جس میں خدا اور فرشتوں نے اہم کردار ادا کیا؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ انتہائی سادہ طریقے سے یوسف بڑھئی کے بیٹے ہوں یا پھر کسی ایسے شخص کے جس نے بدنامی اور معاشرے کے ڈر سے تاریخ کے اندھیروں میں چھپنا منظور کیا؟

بی بی مریم ایک نوجوان دوشیزہ تھیں جن کی منگنی انجیلوں کے مطابق یوسف بڑھئی نامی شخص سے ہوئی تھی، یہاں تک تو سب ٹھیک ٹھاک تھا مگر ایک دن خدا کا ایک فرشتہ ان کے پاس آکر انہیں بتاتا ہے کہ وہ حاملہ ہیں مگر یقیناً یوسف بڑھئی سے نہیں بلکہ براہ راست خدا سے!! اور وہ انتہائی سادگی سے یہ بات قبول کر لیتی ہیں، رہے یوسف تو جیسے جیسے حمل کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں انجیلوں کے مطابق انہیں شک ہونا شروع ہوجاتا ہے، یوسف بڑھئی کو مطمئن کرنے کے لیے وہی فرشتہ انہیں خواب میں آکر حقیقتِ حال سے آگاہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ جو بچہ بی بی مریم کے پیٹ میں پل رہا ہے وہ ان کا نہیں بلکہ خدا کا ہے؟؟ کچھ عرصہ بعد بی بی مریم کے ہاں ایک لڑکے کی ولادتِ با سعادت ہوتی ہے جس کا نام وہ یسوع رکھتی ہیں اور یوسف جو اس بچے کے والد نہیں ہیں ان پر اس بچے کی ساری ذمہ داری آن پڑتی ہے.

کیا یسوع (علیہ السلام) کی اس افسانوی ولادت میں کوئی خاص پیغام ہے؟ کیا ان کا کسی کنواری کے بطن سے پیدا ہونے میں کوئی فائدہ ہے؟ اگر وہ باقی ابراہیمی انبیاء کی طرح سادہ اور طبعی طریقے سے پیدا ہوتے تو اس میں کیا نقصان ہوتا؟ یقیناً کچھ نہیں، یہاں تکلف اور کہانی گھڑنے کی کوشش قطعی واضح ہے، انجیلوں کے مصنفوں کی یہ فنکاری سمجھنے کے لیے کسی فلاسفر کی ضرورت نہیں، جہاں یہ مصنفین ایک فرشتہ گھڑتے ہیں جسے کسی نے نہیں دیکھا جو بی بی مریم کو ایک اچانک اور ناگہانی حمل کی بشارت دیتا ہے وہ بھی ایک ایسے باپ سے جس کی اس نے کبھی خواب میں بھی توقع نہیں کی ہوگی، پھر ایک خواب گھڑا جاتا ہے جو بے چارے یوسف کو دکھایا جاتا ہے اور اسے ایک ایسے بچے کا باپ بنا دیا جاتا ہے جو اس کا ہے ہی نہیں، پھر یہودیوں کی ایک کثیر آبادی گھڑی جاتی ہے جو تاریخی طور پر وجود ہی نہیں رکھتی، پھر بی بی مریم اور یوسف کو بیت لحم پہنچا دیا جاتا ہے جہاں مسیح (علیہ السلام) کی آمد کی سابقہ پیشگوئیوں کے عین مطابق نہ صرف ایک ولادت گھڑی جاتی ہے بلکہ ایسے لوگ بھی پیدا کر لیے جاتے ہیں جو اس بچے کو سجدہ کرتے ہیں.. غرض کہ یہ ساری میتھالوجی اس وقت رائج مشرقی مذاہب سے چوری شدہ ہے.

یہ تو تھا وہ افسانوی سا انجیلی قصہ، اس قصے کا دوسرا رخ انتہائی سادہ اور سہل ہے جس کا تعلق ایک ایسی نوجوان دوشیزہ سے ہے جو کسی شخص سے منگنی شدہ یا شادی شدہ ہے، یوں اسے حمل ٹھہر جاتا ہے اور وہ ایک لڑکا پیدا کرتی ہے بالکل جس طرح روزانہ ساری دنیا میں یہ عمل ہوتا ہے، تو پھر کہانی کو اتنا افسانوی ٹچ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اس معجزانہ ولادت پر دنیا کے کروڑوں لوگ ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں مگر کیا اس یقین کے پیچھے کسی مقصد کو تلاش کیا جاسکتا ہے؟ یہ کیسے یقین کر لیا جائے کہ ایک کنواری دوشیزہ کے جسم میں انڈہ خود ہی کیسے فیزن کے عمل سے گزرنا شروع ہوگیا؟ اس نے ایک خلیے کے کروموسومز کو 23 سے 46 میں کیسے دگنا کر لیا جو مولود کے زندہ ہونے کے لیے کم سے کم حد ہے؟ اگر معجزانہ طور پر یہ رکاوٹیں ہم پار کر بھی لیں تو بھی سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مولود لڑکا کیسے ہوگیا جبکہ جو کروموسوم لڑکے کی جنس کا تعین کرتا ہے وہ صرف باپ کے پاس ہوتا ہے ماں کے پاس نہیں؟

کنواری کا بچہ پیدا کرنا صرف مسیحی کہانی نہیں ہے، یہ افسانہ یسوع (علیہ السلام) کی پیدائش سے بہت پہلے مشرقِ وسطائی وغیر مشرقِ وسطائی مذاہب میں موجود تھا:

1- عراقی خدا تموز کو ایک کنواری نے جنم دیا تھا.
2- مصری خدا اسیرس 25 دسمبر کو ایک کنواری کے ہاں پیدا ہوا تھا.
3- یونان کا ہرکولیس دسمبر کے مہینے میں ایک کنواری سے پیدا ہوا تھا.
4- بھارتی خدا کرشنا بھی دیوکی نامی کنواری سے پیدا ہوا تھا اور صلیب پر مرا تھا.
5- بدھا بھی ایک مایا نامی کنواری سے 25 دسمبر کو پیدا ہوا تھا اور صلیب پر مرا تھا.

اور یوں ہی افسانے تہذیب در تہذیب اور نسل در نسل چلتے رہتے ہیں اور کسی نہ کسی صورت عقائد کی شکل میں موجود رہتے ہیں، مگر زمانہ کوئی بھی ہو، یہ افسانے ہمیشہ حق سمجھے جاتے ہیں اور ان پر بحث کرنے والا بد بخت ہمیشہ کافر.

12 Comments

  1. سنتا ہوں بڑے غور سے افسانہ ء ہستی
    کچھ خواب ہے کچھ اصل ہے کچھ طرز ادا ہے
    عقیدہ عالمگیر حقیقت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں اب ان لوگوں کی اکثریت ہے جو عقیدے سے بے بہرہ ہیں۔ اسکی وجہ ان لوگوں کی طرف سے جو عقیدہ رکھتے ہیں اندھا دھند عقیدے پہ یقین ہے۔ جس چیز کو یہاں مذاق تصور کیا جا رہا ہے دنیا میں اسپہ ریسرچ ہو رہی ہے۔ اس ریسرچ کو زمانے کی نظر سے بچا کر تو نہیں رکھا جائے گا کہ کسی کے عقیدے کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اگر لوگوں کے عقیدے اتنے نازک ہیں کہ ان باتوں سے ان کا مذاق اڑتا ہے اور انہِن برا لگتا ہے یا ان میں دراڑ پڑتی ہے تو پھر ایسے عقیدوں کا جلد یا بدیر یہی حشر ہوگا۔
    اینڈرسن شا نہیں کریں گے۔ انکے بعد آنے والا کوئ اور شخص کرے گا۔ دنیا دن بہ دن چھوٹی ہو رہی ہے کمیونیکیشن میں۔ چونکہ اینڈرسن شا کی تحاریر میں کافی حوالے موجود ہوتے ہیں اس لئے اینڈرسن شا کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے علمی سطح پہ بات کرنی چاہئیے۔ اینڈرسن شا یہ افسانے اپنی طرف سے نہیں گھڑ رہے۔ ان سے پہلے متعدد افراد متعدد قوموں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے ان نکات پہ اپنے علم کے مطابق بحث کر چکے ہیں۔
    لیکن اسکے باوجود دنیا کے تمام مذاہب اسی طرح موجود ہیں اور ان پہ عقیدہ رکھنے والے بھی۔ سوال یہ ہے کہ آپ عقیدہ کیوں رکھتے ہیں اپنے عقیدے کو ٹٹولنے سے اندازہ ہو جائے گا کہ ان تمام نکات کے باوجود عقیدہ رکھنے والا اس پہ قاءم رہنا چاہتا ہے۔ پس جب آپ اس پہ قائم رہنا چاہتے ہیں تو اس سے کیا ڈر اور خوف۔
    اینڈرسن شا صاحب، یہ ابن الزنا پہ انسانوں کی تفریق سے مجھے بھی کچھ اتفاق نہیں ہے۔ شادی کرنی چاہئیے کیونکہ اس معاہدے کی صورت میں ہر فریق کو معاشرے میں رائج حقوق حاصل ہوتے ہیں اور وہ اپنی ذمہداریوں کا ادراک کرتا ہے۔ لیکن کسی بھی وجہ سے کوئ بچہ اس تعلق کے بغیر دنیا میں آجائے تو یہ اسکا قصور نہیں۔ دراصل ہم میں سے کسی شخص کو یہ اختیار نہیں کہ اپنی مرضی کے مقام پہ پیدا ہو۔ اس لئے نیا آنے والا انسان بھی اتنا ہی محترم ہوتا ہے جتنا کہ نسب رکھنے والا شخص ۔
    لیکن آجکل کلوننگ میں اسپرم نہیں چاہئیے ہوتا۔ جدید سائینس اس رخ پہ ہے جہاں عورت کو بچے پیدا کرنے کے لئے مرد کی ضرورت نہیں ہے۔ یوں دیکھا جائے تو جو لوگ عورت کو جسمانی طور پہ کمزور اور حقیر سمجھتے ہیں آج کی سائینسی دنیا میں وہ مرد سے برتر نکل آئ۔
    اب اگر حضرت مریم والے واقعے پہ نظر ڈالیں یعنی اکیسویں صدی کی سائینسی نظر۔ جس میں ایک عورت سائینسی مدد سے خود بچے کی تخلیق کا عمل شروع کر سکتی ہے اور کون جانے کل کی سائینس ایسی ہو کہ عورت کو اس مدد کی ضرورت بھی نہ رہے تو، تو کیا ہوگا۔
    ہو سکتا ہے سو سال بعد کا انسان یہ کہے کہ کیا لغویات ہے۔ مریم نے خود بچہ پیدا کیا اور اسے خدا کا بچہ بنا دیا گیا۔ اور پھر وہ انسان اس سادے سے اصول کی وضآحت کرے گا کہ دراصل یوں ہوا تھا۔ اور اس وجہ سے یہ عمل تاریخ میں صرف مریم سے نہیں بلکہ دوسری اور عوتوں کے متعلق بھی سننے کو ملتا ہے۔ جسٹ ان کیس، ایسا ہوا تو کیا ہوگا۔

  2. میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ مجھے آپ کی تحریر کردہ اِن باتوں سے مکمل اتفاق ہے، کیونکہ بہرحال میں بھی ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوا ہوں جو (زیادہ تر میرے جیسے دوسرے مسلمانوں کے خیال میں مسلم ہونے کے) کافی ہے(طنز!!)، مگر میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ "یہ افسانے ہمیشہ حق سمجھے جاتے ہیں اور ان پر بحث کرنے والا بد بخت ہمیشہ کافر”

  3. اگر آپ صحیح ہیں تب بھی آپ کو لوگوں کے جذبات سے نہیں کھیلنا چاہیے. یہ سادیت پسندی کسی معقول آدمی کا کام نہیں.
    بدقسمتی سے عقیدہ کوئی ایسی شے نہیں ہے جو جگہ گھیرے یا وزن رکھے…یا کسی بھی لیبارٹری میں کسی تجربہ کی مدد سے ثابت کیا جا سکے.
    انسان چاہے جدید تہذیب کا نمائندہ ہو یا چاہے اسکا تعلق غیر متمدن افریقی قبیلے سے ہی کیوں نا ہو یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ عقیدہ رکھتا ہے. انسانوں کے ضمن میں عقیدہ ایک عالمگیر حقیقت ہے. اس لیے اسکا مذاق بنانا کوئی معقول بات نہیں

  4. آپ اگر کسی عقیدہ پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی عقیدت کے قابل عقیدوں میں ایک نئے عقیدے کا اضافہ کرنا چاہتے تو عقیدتمندوں کے عقیدوں کا مزاق اڑانا کچھ مناسب بات نہیں ۔ عقیدہ عقیدہ ہی ہوتا ہے اور جو عقیدہ اپنے عقیدتمندوں کو اپنا عقیدہ آسانی سے چھوڑ سکنے کی اجازت دیتا ہو عقیدہ کہلانے کے لائ‍ق عقیدہ نہیں ہو سکتا ۔ عقیدتمند نہ تو خود اپنا عقیدہ چھوڑتے ہیں اور نہ ہی اپنے ساتھی عقیدتمندوں کو اپنا عقیدہ چھوڑنے دیتے ہیں ۔
    عقیدہ نہ صرف ضرورت ہوتا ہے بلکہ اسکا انکار بھی ناممکن ہو جایا کرتا ہے ۔ عقیدوں کو نا تو ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی نئے عقیدوں کو بننے سے روکا جاسکا ہے ۔ عقیدتمند عام طور پر اپنے جیسے عقیدتمندوں کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتے ہیں اور دوسرے عقیدوں کے عقیدتمندوں کو بمشکل ہی برداشت کرتے ہیں ۔ امکانات تو یہی ہیں کہ آپ نے اپنے سابقہ عقیدے کو اپنے مسائل کے ساتھ ساتھ دنیا کے مسائل کا بھی سبب سمجھ لیا ہو ۔
    آپنے کوشش جاری رکھی تو آپ کو نہ صرف اپنی مرضی کا نیا خدا بھی مل جائیگا بلکہ آپ کے نئے خدا کو اپنی مرضی کے کچھ عقیدتمند بھی ۔ آپ کے نئے خدا اور اسکے عقیدتمندوں نے ہمت دکھائی تو دنیا کے مشہور عقیدوں میں ایک اور عقیدے کا اضافہ ہو جائیگا ۔

  5. ہمیں محفل میں چھیڑ دیا، ہماری جنس کے متعلق پوچھا ـ مختلف سوالات اُچھال دیئے جس کے بارے ہم بالکل انجان تھے حالانکہ باقاعدہ خدا تھے ـ جھٹ سے ناڑا کھول دکھا دیا، ہم نہ مرد ہیں نہ عورت بولے تو انسان ہی نہیں ـ جنس تو دور ہمارے ہاتھ پاؤں بھی نہیں ـ بلکہ ایک بڑے سے گیند کے مافق ہیں چونکہ جنت کا کھاتے ہیں ـ تم انسان بہت عقلمند ہو اب بلاک ھول سے آگے جھانکنے کی جرأت رکھتے ہو، ای میل چیٹ سے دور کی خبریں پالیتے ہو ـ پچھلے زمانے کی کہانیاں بر زبانی یاد ہیں، ڈائناسورس کی ہڈیاں تک پالئے مگر آج تک یسوع کے باپ کا پتہ نہیں ـ آج بھی ایسے بچے ہیں جنہیں اپنے باپ کا پتہ نہیں، ممکن ہے ان میں سے کوئی خود یسوع ہونے کا دعوی بھی کردے مگر ان کا یقین کون کرے؟ ـ ـ ـ

    خدا نے مزید فرمایا: بھاڑ میں جائے وہ لوگ جو یسوع کو ہمارا مقدس نطفہ سمجھتے ہیں ـ آج بھی کئی مریم ہیں جو بغیر شادی کے بچے جنتی ہیں (اور کہہ دو کے اس میں بھی خدا کا دخل ہے) تو کیا یہ بھی خدا کے کے نطفے سے ہے؟ ـ خدا کو اپنے خدا ہونے کی قسم! ہم نہایت شریف خدا ہیں ـ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کیسے خدا بن گئے، اتنا ضرور یاد ہے جنت کے باغ میں خالی بیٹھے تھے، اپنی ذات پر سوچتے رہے جب سجھائی نہ دیا تو سمجھ گئے کہ ہم خدا ہیں ـ تم انسان یہاں (دنیا میں) اپنے خداؤں کو من پسند آئیڈیل بنالئے ـ کسی نے چار ہاتھ بناکر بھالا تھمائے صدا کھڑا کردیا ـ کسی خدا کو سولی پر ٹانگ دیا اور وہ بھی ادھ ننگا ـ کہیں لمبی قبروں کے نیچے چادروں کے بوجھ تلے دبا دیا ـ اور کسی نے کہہ دیا خدا کا تصور کرنا ہی نہیں ورنہ گناہ ہے بس آنکھ بند کرکے یقین کرلو یہی ہمارا ایمان ہے ـ

    اگر ایمان نہ لائے تو اتنی ساری موٹی کتابوں کا کیا کرے جسے ہمارے پرکھوں نے راتوں میں جاگ کر لکھا جس کو ہم نے گھونٹ گھونٹ پی رکھا ہے ـ لمبی چوڑی ہانکنے کیلئے عقل استعمال کرتے ہو مگر خدا تک سوچنے کیلئے ایمان خراب کرنا سمجھتے ہو یا پھر خود میں شرمندہ ہوجانا یا پھر ڈر جانا کہ عقیدہ خراب نہ ہوجائے ـ ہمارا بھی عقیدہ ہے کہ ہم خدا ہیں کیونکہ ہم سوچ سکتے ہیں اسلئے کہ ہم سوچ سکتے ہیں ـ اگر سوچتے نہیں تو آج ہم خدا نہ ہوتے بلکہ انسانوں کی طرح مختلف خداؤں پر ایمان و یقین کرلیتے پھر کبھی خدا سے آگے سوچنے کی ہمت نہ ہوتی ـ

    مزید فرمایا: ہمارے خدا ہونے پر صد افسوس، یہاں تو ایک انسان دوسرے انسان پر خدا ہے ـ ایک حاکم تو دوسرا محکوم، ایک امیر دوسرا غریب، ایک عالم دوسرا جاہل ـ باوجود سب کام ایکدوسرے مل بانٹ کر انجام دے رہے ہیں ـ ایکدوسرے کو خدا اور اُس کے عذاب سے ڈرا رہے ہیں، مذہب بدلوا رہے ہیں ـ ایکدوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ایکدوسرے کے اوپر چڑھ رہے ہیں ـ ـ ـ مگر ہاں، سب کا ایک نعرہ کہ ہم انسان ہیں ـ میاں، اسی نعرے کی وجہ ہم چکّر میں پڑجاتے ہیں کہ اچانک یہ انسان بھی ہیں! خدا کو مانتے ہیں، نہیں مانتے تو مناتے ہیں پھر بھی نہیں مانتے تو کافر پکارتے ہیں ـ کہ آجاؤ ہمارے مذہب میں یہی سیدھا راستہ ہے اگر نہیں آتے تو جہنم جاؤ وہاں بہت آگ ہے اگر ہمارے مذہب پر ایمان لاؤ تو ہمارے ساتھ جنت میں رہو گے جہاں دودھ اور شہد کی نہریں ہیں (ہونگی) ہمارا ایمان اور یقین ہے کہ ہونگی ہی ـ ورنہ اتنی ساری محنت اور یقین کا کیا کرے ـ یقین تو کرنا ہی ـ ـ ـ میاں، کہنے کو بہت ہے اب بس اتنا ہی ـ

  6. لو بھئی ہم پھر سے آگئے ـ
    یہاں تبصرہ چھاپنے کے بعد واپس ہوئے تو مزید انگلیوں میں کھجلی تھی ـ تب کھجلی کو برداشت کرلئے چونکہ ہم صابر بھی ہیں اور خود ساختہ خدا بھی ـ ویسے ہمارا یہ تبصرہ ایک مکمل پوسٹ اپنے بلاگ پر ہی چھاپنا تھا مگر یہاں اِس پوسٹ کے متعلق تبصرہ کو ہماری "خدا کی قسطوں” میں شامل کرنا نہیں چاہتے ـ باقی بلاگ کے مالک کی مرضی ـ جس نے اپنی پچھلی پوسٹ "خدا کی عظمت” میں ہمیں عاجز بتایا کہ ہزار سال میں ایک نبی بھیجتے ہیں اور اس پر بھی پیٹ نہ بھرے تو دوبارہ ٹرائی کرتے ہیں ـ شکر ہے یہ نہیں پوچھا کہ اب تک کتنے نبی بھیجے ـ اس جواب کے کیلئے خدا کی قسم ہماری بغلیں نہیں جھانکنے کے واسطے ـ میاں، بھیجنا ہمارا کام تھا اور تم ریجکٹ کرتے رہے تو ہمیں ٹرائی کرتے رہنا تھا اور بالآخر ہم تھک گئے اسلئے خود چلے آئے ـ

    مگر فائدہ کیا؟ یہاں ہر دوسرا، تیسرا بندہ خدا ہے ـ سینکڑوں مذاہب، سینکڑوں فرقے اور ان کے سینکڑوں خدا ـ بڑی شان و شوکت والے عزت دار دولت سے مالا مال اپنے مائیکل جیکسن اور سائی بابا کو ہی لے لو بڑے خدا بنے پھرتے تھے جو اب نہیں رہے ـ رام دیو بابا، ذاکر نائک، طاہر القادری وغیرہ اور اُس جانب سے آؤ تو کارلوس سلم، عیسائیوں کے بابا پوپ بینڈیکٹ جو بار بار مریم کا نام لیکر ہمارا دامن داغدار کرتے رہتے ہیں ـ ایک اور خدا کو دیکھ ہمارا کلیجہ کانپ اٹھا جسکے چار ہاتھ، زبان باہر کو نکلی ہوئی اور پچھواڑے میں پونچھ ـ ایک اور قوم کی طرف سے گذر ہوا جو دعاؤں میں مصروف خدا سے پوچھ رہے تھے کہ کیوں نہیں آتے اب تو آجاؤ اور ہم پر ہو رہے ظلم کو روکو ـ بیچارے کبھی اپنے خدا کی شکل نہیں دیکھے صرف تصوف میں بیٹھے ہیں ـ

    افسانوں کو مقدس اور بابرکت سمجھنے والو ـ اخبار کی خبر کو پڑھ کر کہتے ہو یہ کل کی باسی خبر ہے ـ اور ہزاروں سال پہلے مریم کے قصّے کو آنکھ بند کرکے یقین کرنے والو ـ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ کا عقیدہ جھوٹا ہے ـ یا پھر جھوٹ کو پرکھنا آپ کو گوارا نہیں ـ یا پھر جھوٹ کیا ہے آپ جانتے نہیں یا جاننا ہی نہیں چاہتے ـ خلائی مخلوق کو کبھی دیکھا نہیں مگر اُن کے وجود پر یقین تو کرتے ہو ـ ٹرین میں بغیر ٹکٹ چڑھ جاؤ کہ خدا کی پناہ میں ہو ـ خواب میں فرشتوں کو دیکھنے والو، ایک سیڑھی اور چڑھ جاتے کہ خدا کو بھی دیکھ لیتے ـ اور خدا سے بشارت پانے کے بعد ہر گھر سے مختلف یسوع پیدا ہوتے ـ اُردو میں اسطرح کی باتیں لکھنے والے کو کافر بولنے والو کھجلی اب بھی باقی ہے مگر اس بار انگلیوں میں نہیں ہماری آنکھوں میں ہے کہ موسم سرد ہے اور بستر گرم ہے ـ

  7. اقتباس
    سب سے پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ میری نظر میں بچوں کا جواز شادی کے بندھن سے مشروط نہیں ہے، ہر انسان کا جواز اس کے اپنے وجود اور ذات میں پوشیدہ ہے لہذا میری انسانیت کی شریعت میں کوئی حرامی یا ابن الزنا نہیں ہے، یہ تحقیری الفاظ جو انسان کی تذلیل اور اس کے انسان ہونے کے حق کی توہین کرتے ہیں خدا کی شریعت میں ہیں

    کیاحضور والا کی کوئی صاحبزادی یا ہم شیرہ جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ چکی ہے؟ اگر رکھ چکی ہو تو آگاہ فرمائیں بندہ پر تقصیر اپنی "خدمات” پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے امید ہے کہ خدمت کا موقعہ عنایت فرمائیں گے

  8. جب ہم لوگ ان سب باتوں کی تصدیق قرآن مجید سے کرسکتے ہیں تو اتنی برگزیدہ ہستیوں کو ہم زیر بحث کیوں لائیں؟ ایسے موضوعات میں کسی بھی بھائی یا بہن کے منہ سے کوئی ایسا لفظ بھی نکل سکتا ہے جو (نعوذباللہ) کفر تک لے جاسکتا ہے۔ باقی واللہ اعلم بالصواب

  9. @ hassan latif
    I fully agree with you sir, but please read what is written by shuaib in the comments section, do you still think he has not reached that level of kufr and degradation.
    @ Shuaib
    i think you have a very pathetic useless life which is full of failures and when you are unable to find any solution to your problems with your non existent ability, you found it better to blame the almighty for everything. In my case i have seen prayers being answered.
    I am not worried in the least whatever you will write in retaliation to this comment of mine.

جواب دیں

12 Comments
scroll to top