سورة الأنفال
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ ﴿٦٥﴾
الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴿٦٦﴾
ترجمہ:
"اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر غالب آئیں گے اس لیے کہ وہ لوگ کچھ نہیں سمجھتے
اب الله نےتم سے بوجھ ہلکا کر دیا اور معلوم کر لیا کہ تم میں کس قدر کمزوری ہے پس اگر تم سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آئيں گے اور اگر ہزار ہوں گے تو الله کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئيں گے اور الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”
مذکورہ آیت میں ہمارے اعتراض کی بنیاد لفظ عَلِمَ ہے، جس کامطلب معلوم ہونا ادراک کرنا اور جاننا ہے،یہ فعل انسانی خاصہ ہے ، مومنین کا بیان کردہ خالق کائنات تو عالم الغیب ہے اور اسے تخلیق کائنات کے روز اول ہی سے آئندہ آنے والے تمام حالات بمعہ تمام ترتفصیلات کے معلوم ہیں، اسکے علم میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا، وہ پہلے سے سب کچھ جانتا ہے۔
آیت نمبر 66 کا ابتدائی حصہ قابل غور ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ : اب اللہ نے تمہارے اوپر سے بوجھ ہلکا کر دیا ہے اور اللہ کو معلوم ہوگیا ہے کہ مسلمانوں میں کس قدر کمزوری آگئی ہے۔ یہ آیت واضح طور پر بیان کر رہی ہے جب اللہ نے اپنے سے دس (10) گنا زیادہ دشمن پر حملہ کرنے کی ترغیب دی تھی تو اس وقت اللہ کے علم میں نہیں تھا کہ یہ حکم مسلمانوں کے لئے بھاری پڑ جائے گا، لہٰذا کچھ عرصہ کے بعد اللہ نے اس غلطی کا ادراک کرتے ہوئے اپنے پہلے حکم سے رجوع کر کے اپنی غلطی کی اصلاح کر لی، اور مسلمانوں کی استعداد کے مطابق نیا حکم جاری کیا کہ اب مسلمان اپنے سے دگنے دشمن پر حملہ کرتے وقت ثابت قدم رہیں اور پیٹھ نہ پھیریں۔
خالق کائنات کی جو صفات قرآن و حدیث میں بیان کی جاتی ہیں کہ وہ حکیم ہے، خبیر ہے، اول ہے آخر ہے، عالم الغیب ہے تو یہ آیت ان تمام صفات کا انکار کرتی ہے کیونکہ جس ذات میں مذکورہ صفات موجود ہوں وہ اس قدر فاش غلطی نہیں کر سکتی اس آیت سے واضح ہوتا ہے قرآن کا بیان کردہ کائنات کا خالق ایک اچھے منتظم ہونے کی بنیادی صلاحیت سے محروم ہے اور اسے اپنی غلطی کے ادراک کے بعد اپنے فیصلے تبدیل کرنا پڑتے ہیں۔ ایک عظیم منتظم اور مدبرحکیم جسے علم الغیب بھی حاصل ہو کبھی بھی ایسا حکم جاری نہیں کرے گا جو ماتحت افراد کی استطاعت پر گراں ہونے کے باعث ناقابل عمل ہو۔
تمام مسلمان اور مسلمان علماء یہ ایمان رکھتے ہیں اور خود قرآن کا دعویٰ ہے کہ قرآن فصاحت اور بلاغت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے اور قرآن کا طرز بیان ہی دراصل قرآن کا اصل معجزہ ہے، اور قرآنی فصاحت و بلاغت پر کوئی حرف نہیں اٹھایا جا سکتا۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے ایسے فصیح و بلیغ متکلم کو اپنے اس اقدام کو بہتر پیرائے میں بیان کرنا نہیں آیا اور وہ اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے سے عاجز رہا کیونکہ اگر اللہ کو پہلےسے ہی علم تھا کہ آیت نمبر 65 میں بیان کردہ حکم بعد میں تبدیل کر دیا جائے گا، تو آیت نمبر 66 میں موقع محل کی مناسبت سے آیت کو یوں بیان کیا جانا چاہئے تھا کہ: الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَكَانَ يَعْلَمُ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ صیغہءماضی مطلق کی جگہ صیغہء ماضئ استمراری استعمال کیا جاتا جس کا ترجمہ پھر یوں ہوتا کہ: اب اللہ نے تم سے بوجھ ہلکا کر دیا اور اسے معلوم تھا کہ تم میں کس قدر کمزوری ہے۔ لیکن یہاں قباحت یہ ہے کہ اس ترمیم سے اللہ کے عالم الغیب ہونے پر جو اعتراض واقع ہو رہا تھا وہ تو ختم ہو جائے گا، مگر اللہ کی حکمت پر اعتراض کھڑا ہوجا تا ہے کہ اگر اللہ کو پہلے سے ہی اس بات کا علم تھا کہ یہ حکم مخاطبین کی استطاعت سے باہر ہے تو اولاً ایسا حکم جاری ہی کیوں کیا گیا۔ یہ تو سانپ کے گلے میں چھچوندر والا معاملہ ہوگیا کہ نہ نگلی جائے نہ اگلی جائے۔
ہمارا نقطہ یہ نہیں ہے کہ نسخ و منسوخ خلاف عقل ہے، بلکہ عقل سلیم اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ ریاست کے قوانین میں بتدریج بہتری آتی ہے، ایک ریاست کے بہترین اذہان باہم مل کر ایک قانون کی منظوری دیتے ہیں اور پھر کچھ مختلف وجوہات کی بنیاد پر اس میں ترامیم بھی کرتے ہیں، یہ ترامیم ہر گز یہ دلالت نہیں کرتیں کہ قانون بنانے والے بہترین اذہان پہلے غلطی پر تھے، کیونکہ اگر قانون بنانے والے انسان ہوں گے تو ترامیم لازماً ہوں گی، یہی انسانی طبیعت کا خاصہ ہے۔ ہمارا نقطہ یہ ہے کہ یہاں قانون سازی کوئی انسان انجام نہیں دے رہا بلکہ کائنات کی عظیم ترین ذات ، رب العالمین، خالق دو جہاں، قادر مطلق جسے ہم اللہ تعالی کے نام سے جانتے ہیں اپنی عظیم ترین کتاب ﴿جو پیدائش کائنات کے وقت لوح محفوظ میں رقم کر دی گئی تھی اور جو رہتی انسانیت تک کے لئے ہدایت کا سامان ہے، اور جس کے بعد مزید کسی کتاب کی گنجائش تک موجود نہیں﴾ میں ایک حکم نافذ کرتے ہیں اور کچھ ہی عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلا قانون انسانی قدرت سے باہر ہے لہٰذا نئے قانون کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ اول ایسا قانون ہی کیوں نافذ کیا گیا جو انسانی استطاعت سے باہر تھا؟ اور اگر ایسا کرنا ہی پڑا تو اس کی تعبیر ایسے الفاظ میں کیوں کی گئی جس میں انسانی نفسیات بالکل واضح طور پر جھلک رہی ہے اور الوہی صفات سے گریز پایا جا رہا ہے؟؟
خلاصہٴ کلام
نتیجہ ان آیات کے مطالعے سے یہ نکلتا ہے کہ قرآن کوئی الہامی کتاب نہیں ہے، بلکہ کسی انسان ہی کا کلام ہے، جس کی بشریت آیت نمبر 66 میں واضح طور پر جھلک رہی ہے۔ کیونکہ اگر یہ کلام الٰہی ہوتا تو اللہ تو عالم الغیب ہے وہ کبھی بھی یہ نہ کہتا کہ اسے اب اس بات کا علم ہوا ہے کہ حکم اول ناقابل عمل ہے، لہٰذا حکم اول منسوخ کرکے حکم ثانی جاری کیا جاتا ہے۔
مومنین کیلئے دعوت فکر ہے.