مباحثوں کے منطقی مغالطے بڑے دلچسب ہوتے ہیں، میں ان پر غور کرنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ یہ خدا کا دفاع کرنے والوں کی طرف سے بے دلیل مفروضوں کو ثابت کرنے کے لیے اکثر وبیشتر دہرائے جاتے رہتے ہیں جس کے لیے دلیل کے طور پر گول منطق استعمال کی جاتی ہے، مگر یہ گول منطق ہے کیا؟ سادہ مثال کچھ یوں ہوسکتی ہے:
ب درست ہے کیونکہ ب درست ہے
لیکن اس کی عملی مثال کا نمونہ یوں ہوتا ہے:
سلیم: کیا تم خدا پر یقین رکھتے ہو؟
جاوید: ہاں
سلیم: کیوں؟
جاوید: کیونکہ اس کا قرآن میں ذکر ہے
سلیم: اور تم قرآن پر یقین کیوں رکھتے ہو؟
جاوید: کیونکہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہے
ایک اور مثال:
جاوید: محمد صلی اللہ علیہ وسلم اشرف الخلق ہیں
سلیم: تمہیں کیسے پتہ کو وہ اشرف الخلق ہیں؟
جاوید: کیونکہ قرآن میں لکھا ہے کہ وہ اشرف الخلق ہیں اور خاتم الانبیاء ہیں
سلیم: قرآن کہاں سے آیا؟
جاوید: اللہ کی طرف سے
سلیم: تمہیں کیسے پتہ کہ وہ اللہ کی طرف سے آیا ہے؟
جاوید: کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے
اوپر کی مثالوں سے پتہ چلتا ہے کہ جاوید نے ایک چیز کو درست فرض کر لیا ہے تاکہ اسی چیز کو درست ثابت کر سکے! اس طرح اس کی منطق بغیر کسی نتیجے کے گول ہوجاتی ہے اور سلیم کو اس کے پہلے سوال پر واپس لے جاتی ہے، جب بحث زوروں پر ہو تو یہ منطق بڑی پیچیدہ شکل اختیار کر لیتی ہے اور بحث کرنے والے کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کب یہ غلطی کر گیا، اگرچہ یہ منطق انتہائی فضول ہے تاہم کبھی کبھی اسے پکڑنا کافی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ یہ کئی چہرے بدل سکتی ہے، جیسے:
جاوید: نبی جھوٹ نہیں بولتا، اور چونکہ وہ جھوٹ نہیں بولتا اس لیے وہ حقیقت بیان کرتا ہے
ایک اور مثال:
جاوید: آج ناصر بڑا جذباتی ہو رہا ہے
سلیم: وہ کیسے؟
جاوید: کیونکہ وہ غصے میں ہے
اوپر کی دو مثالوں میں محض لفظ بدل کر جاوید نے یہ فرض کرلیا کہ اس نے سوال کا جواب دے دیا یا اپنے مفروضے کو ثابت کردیا ہے چنانچہ ” جھوٹ نہیں بولتا ” کی بجائے ” حقیقت بیان کرتا ہے ” اور ” جذباتی ” کی بجائے ” غصہ ”… یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ ” وہ جھوٹ نہیں بولتا کیونکہ وہ جھوٹ نہیں بولتا ” یا ” وہ غصے میں ہے کیونکہ وہ غصے میں ہے ” یا پھر ” خدا موجود ہے کیونکہ وہ موجود ہے ”… یہ منطق گفتگو میں کوئی نئی بات یا نتیجہ شامل نہیں کرتی، یہ محض سوال سے راہِ فرار اختیار کرنے کا ایک طریقہ ہے اور بس..