دنیا میں مذہبی فسادات کا ہونا کوئی نئی بات نہیں، تاہم یہ بات آسانی سے نوٹ کی جاسکتی ہے کہ اسلام ان میں سے تقریباً ہر ایک میں فریق ہوتا ہے، مسلمان ہندوؤں کے خلاف ہیں، عیسائیت کے خلاف ہیں، وہ یہودیت اور بدھ مت کے بھی خلاف ہیں۔۔ الغرض کہ گنتے چلے جائیے اسلام کو کسی کا بھی وجود منظور نہیں، جہاں بھی اسلام اور کوئی دوسرا مذہبی گروہ ہوتا ہے وہاں مذہبی فسادات لازماً ہوتے ہیں، اس اسلام کی آخر پرابلم کیا ہے؟ اور یہ ہمیشہ ہر فساد میں فریق کیوں ہوتا ہے؟
ہمیں دوسرے مذاہب کے آپس میں کوئی خاص جھگڑے نظر نہیں آتے مثال کے طور پر بدھ مت اور عیسائیت کے درمیان، یا یہودیت اور بدھ مت کے درمیان یا ہندومت اور عیسائیت کے درمیان وغیرہ۔۔ یقیناً ہلکے پیمانے پر دوسرے مذاہب کے بھی آپسی اختلافات ہوں گے مگر یہ اختلافات ایسے نہیں ہیں جیسا کہ اسلام کے ان سب مذاہب کے ساتھ ہیں اور جو اکثر خونی ہوتے ہیں۔۔ کیا وہ یہ دعوی نہیں کرتے کہ اسلام امن کا مذہب ہے؟ اور کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے ایک ایسا مذہب ہونا چاہیے جو انسانوں کو امن وآشتی کا پیغام دیتا ہو؟ لیکن زمینی حقائق جو ہم دیکھتے ہیں وہ امن کی دعوت کم اور انتقام کی دعوت زیادہ معلوم ہوتے ہیں، مطالبات، کینہ پروریاں، بد اندیشیاں، بغض، عداوت، صلیبیوں، ہندوؤں اور مشرق ومغرب کے خلاف جہاد کی دعوت، یہ دوسروں کے خلاف اپنے بغض میں اس قدر متذبذب اور وحشت زدہ ہیں کہ اپنی ہی قوم کے خلاف جہاد کا اعلان کر ڈالتے ہیں۔۔ آخر کیوں؟
یہ نفرت کا فیکٹر ہے جو ساری دنیا کو دشمن کے طور پر پیش کر کے اسلام اپنے ماننے والوں کے دلوں میں پالتا رہتا ہے، یہ پہلو تہی ہوگی اگر ہم کہیں کہ اسلام صرف دوسرے مذاہب کا ہی دشمن ہے، حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہر نئی چیز کے خلاف بغض رکھتا ہے، مثلاً اسلام کو سیکولرازم سے نفرت ہے۔۔ اسے کمیونزم، ڈیموکریسی، سرمایہ داری، مغرب، فن، تمام غیر دینی علوم، غیر مسلم ممالک، عورت، جدیدیت حتی کہ اس دنیا میں زندگی سے بھی اسلام کو نفرت ہے۔۔ یہ دنیا کا واحد مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو خود سے بم باندھ کر اڑانے پر قائل کر سکتا ہے؟ مسلمان چلتے پھرتے بم ہیں اور اسلام ایسے دہشت گرد پیدا کرنے والا ناسور۔
اسلامی کینہ پروری اور بغض کے آگے بند باندھنے میں نہ صرف اسلامی دنیا کے غریب ممالک (جیسے پاکستان) بلکہ امیر ممالک (جیسے سعودیہ) بھی ناکام ہیں، یہ ممالک انصاف پر مبنی روشن معاشرے تخلیق کرنے سے قاصر ہیں اور اس کی بجائے زندگی سے مایوس ایسی نوجوان نسلیں پیدا کر رہے ہیں جو بے قصور لوگوں کو اسلام کے نام پر جہنم رسید کرنے پر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔۔ ان اسلامی معاشروں کو خود سے پوچھنا چاہیے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ تاہم شاید انہیں لفظ ❞کیوں❝ سے بھی نفرت ہے۔۔
نفرت کے سلفی شیخ حمود بن عقلاء الشعیبی فرماتے ہیں:
❞الولاء والبراء قاعدة من قواعد الدين واصل من اصول الايمان والعقيدة فلا يصح ايمان شخص بدونهما ، فيجب على المرء المسلم أن يوالي في الله ويحب في الله ويعادي في الله فيوالي أولياء الله ويحبهم ويعادي اعداء الله و يبغضهم ويتبرء منهم❝
❞ولاء اور براء دین کے قاعدوں میں سے ایک قاعدہ ہے اور ایمان اور عقیدے کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے ان دونوں کے بغیر کسی شخص کا ایمان درست نہیں ہوسکتا، مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ کے لیے وفاداری کرے اور اللہ کے لیے محبت کرے اور اللہ کے لیے نفرت کرے چنانچہ اولیاء اللہ سے وفاداری اور محبت کا اظہار کرے اور اللہ کے دشمنوں سے دشمنی، بغض اور عداوت کا اظہار کرے❝
وہابی شیخ صالح بن فوزان فوزان فوزان الفوزان اپنے ایک فتوے میں گویا ہیں:
❞فيجب معاداة الكفار وبغضهم وعدم مناصرتهم على المسلمين وقطع المودة لهم، كل هذا يجب على المسلم أن يقاطعهم فيه وأن يبتعد عنهم ولا يحبهم ولا يناصرهم ولا يدافع عنهم ولا يصحح مذهبهم، بل يصرح بكفرهم وينادي بكفرهم وضلالهم ويحذر منهم❝
❞چنانچہ واجب ہے کہ کفار سے دشمنی اور بغض کیا جائے اور مسلمانوں پر ان کی نصرت اور طرفداری نہ کی جائے، مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان سب میں ان کا بائیکاٹ کرے اور ان سے دور رہے، نہ ان سے محبت کرے، نہ نصرت کرے، نہ ان کا دفاع کرے اور نا ہی ان کا مسلک درست کرنے کی کوشش کرے، بلکہ سرِ عام ان کے کفر وضلالت کا اظہار کرے اور ان سے بچنے کی تلقین کرے❝
چنانچہ ثابت ہوا کہ دوسروں سے نفرت اور بغض کرنا ایمان وسنت کے اصولوں میں سے ہے۔۔ اسی نفرت، بغض اور کینہ پروری کے سبب مسلمان جدیدیت کے معانی سمجھنے سے قاصر ہیں، وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ جدیدیت کا مطلب ایسے مذہبی تصورات سے دستبرداری اور صحراء کے قلب سے برآمد ہونے والے اس دین کا احتساب نہیں ہے۔۔ جو بھی مذہب ہزاروں سال پرانی تعلیمات کو ایک ناقابلِ تبدیلی اور بند فکر سمجھتا ہو، اس کے ماننے والے ان تعلیمات پر اندھا اعتقاد رکھتے ہوں اور اسے تھوپی ہوئی تلوار اور قانون سمجھتے ہوں، ایسا مذہب ہمیشہ جدیدیت کے ساتھ ایک دائمی جنگ میں ملوث رہے گا۔
سوال یہ ہے کہ یہ جدیدیت آخر ہے کیا جس سے یہ اس قدر ڈرے ہوئے ہیں؟ یہ اپنے جوہر میں دوسرے کو قبول کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ہے، دنیا ہر گان تبدیل ہو رہی ہے، قومیں جدیدیت کے ساتھ خود کو ڈھالتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں، ایسے میں جو قومیں جدیدیت کو مسترد کریں گے وہ پہلے پسماندگی کا شکار ہوں گے اور پھر ڈائناسار کی نسل میں شامل ہوجائیں گی۔۔ اسلام نے خود کو جدیدیت کے راستے میں ایک رکاوٹ بنا لیا ہے، ایسے میں کیا لگتا ہے کس کی جیت ہوگی، ترقی اور ایجاد کی یا جمود کی؟ بغض اور کینہ پروری جس کا اسلام شکار ہے اس کی یہی وجہ ہے۔۔۔
یقیناً اسلام ہی وہ واحد مذہب نہیں ہے جو دوسرے مذاہب کے ساتھ مذہبی فسادات میں ملوث ہوتا ہے، لیکن یہ ان سب میں سے سب سے زیادہ ایسے فسادات کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے جس کی وجہ اس کا فاشٹ سیاسی رجحان اور اقتدار کی کرسیوں تک پہنچنے کی اس کی شدید خواہش ہے، اس کے علاوہ یہ اپنی فطرت میں بنیاد پرستی اور تعصب سے بھرا ہوا ہے۔
یہاں سب سے اہم نکتہ جدیدیت، ترقی اور اسلام کے ما بین جاری جنگ ہے، جب تک اسلام یہ سمجھتا رہے گا کہ اخلاق اور عقیدے کے ضمن میں زندگی میں کچھ نیا نہیں ہے اور یہ سب اسے مکمل طور پر مسنجروں کے مسنجر مسٹر جبریل کے ذریعے چودہ صدیاں پہلے ہی مل گیا ہے تب تک انسانیت کے ترقی کے رجحان کے خلاف اسلام کی جنگ جاری رہے گی۔۔۔ اس میں حیران ہونے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے، ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہو رہا ہے کیونکہ جدید معاشرے آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اسلام خود سمیت سب کو ماضی کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے لہذا یہ جنگ، جنگ کے کسی ایک فریق کے خاتمے تک جاری رہے گی۔۔ قارئین کو کیا لگتا ہے کہ جیت کس کی ہوگی؟؟!!
اگر مسلمان اس دنیا میں اپنے اور دوسری قوموں، مذاہب ونظریات کے ساتھ توازن اور امن قائم کرنا چاہتے ہیں اور چین کی نیند سونا چاہتے ہیں تو انہیں جدیدیت کے خلاف اپنی اس خود ساختہ جنگ کا فیصلہ کرنا ہوگا اور اسلام کے تمام فریقوں کے ساتھ مل کر اسے جدید بنانا ہوگا اور مردہ لوگوں کی زرد کتابوں کو عجائب گھروں کی نذر کرنا ہوگا۔۔ اس کوشش میں چاہے یہ اعتراف ہی کیوں نہ کرنا پڑے کہ اسلام اور اس کی بغض وکینہ پروری پر مبنی تعلیمات واقعی کسی اللہ کی طرف سے نہیں ہیں۔