Close

خدا اور برائی

کیا خدا برائی کو روکنا چاہتا ہے مگر روک نہیں سکتا؟ اس صورت میں وہ قادرِ مطلق نہیں ہے!!
کیا وہ روک سکتا ہے مگر نہیں چاہتا؟ اس صورت میں وہ برا ہے!!

یا تو خدا برائی کو روکنا چاہتا ہے لیکن روکنے کی استطاعت نہیں رکھتا، یا وہ روک سکتا ہے مگر روکنا نہیں چاہتا، یا پھر وہ نا ہی روک سکتا ہے اور نا ہی روکنا چاہتا ہے.

اگر وہ برائی کو روکنا چاہتا ہے مگر روکنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے تو اسے قادرِ مطلق نہیں کہا جاسکتا!
اگر وہ برائی کو روک سکتا ہے مگر روکنا نہیں چاہتا تو پھر یقیناً وہ برا ہے!

لیکن اگر خدا برائی کو روک سکتا ہے اور روکنا بھی چاہتا ہے تو پھر دنیا میں برائی کیوں ہے؟

یہ معاملہ واضح طور پر برائی کی ساری ذمہ داری خدا پر ڈالتا نظر آتا ہے جیسے وہی ازل سے لے کر آج تک تمام تر برائیوں کا ذمہ دار ہو، تاہم میرے خیال میں یہاں ایک گمشدہ کڑی ہے جسے زیرِ بحث لانا چاہیے اور وہ ہے ذمہ داری، چنانچہ یہ لازم ہے کہ انسان کی پیدا کردہ برائیوں اور طبعی، ماحولیاتی اور ہماری ارد گرد کی کائنات کی پیدا کردہ برائیوں میں فرق کیا جائے.

جہاں تک انسان کی پیدا کردہ برائیوں کا تعلق ہے جیسے جنگیں، قتل وغارت، ظلم اور جو بھی برائی کی دیگر صورتیں ہیں، ان برائیوں کی ساری ذمہ داری خدا پر ڈال دی گئی ہے حالانکہ ان برائیوں کا ذمہ دار انسان ہے خدا نہیں لیکن انسان کو اس طرح بری کردیا گیا ہے گویا وہ بالکل معصوم ہو، چنانچہ یہ لازم ہے کہ ان برائیوں کے حقیقی ذمہ دار کا تعین کیا جائے اور اس سے اخلاقی جواب طلبی کی جائے جو میرے خیال میں انسان ہے خدا نہیں.

لیکن یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ اگر خدا قادرِ مطلق ہے تو وہ برے انسان کو برائی کرنے سے روک کر شر کو ختم کیوں نہیں کرتا؟ یہاں مجھے ایک فلم کا قصہ یاد آتا ہے جس کے آخر میں ایک باپ اپنے برے بیٹے کو قتل کر کے اس کی لاش پر رو رہا ہوتا ہے اور اپنے اس فعل کی توجیہ یہ کہہ کر بیان کرتا ہے کہ اس نے اپنے برے بیٹے کو اس لیے مارا تاکہ اس کے اندر موجود برائی کو مارا جاسکے، یہاں میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر خدا اس دنیا میں موجود برائی کو ختم کرنا چاہے.. یہ مد نظر رکھتے ہوئے کہ برائی انسان کا ایک حصہ ہے تو خدا کو چاہیے کہ وہ اس برے انسان کو ختم کردے، اگر خدا ” چھانٹی ” کا یہ عمل شروع کردے تو میرے خیال میں نتائج کچھ یوں ہوں گے:

– اگر سارے نہیں تو زیادہ تر انسانوں کو ختم کرنا پڑے گا تاکہ ان کے اندر موجود برائی کو ختم کیا جاسکے.
– خدا کا یہ فعل یہ ثابت کرے گا کہ وہ انسان کے جینے کے حق کا احترام نہیں کرتا جو ممکنہ طور پر اسی نے ہی اسے بنا کر یہ زندگی دی ہے.
– اس طرح وہ انسان کی اصلاح کا آپشن کھو دے گا جو بہرحال قتل اور ” چھانٹی ” سے بہتر ہے.

لیکن یہاں بھی ایک سوال اٹھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا نے اب تک انسان کی اصلاح کیوں نہیں کی؟

میرے خیال سے انسان کی اصلاح کا عمل اس کی مرضی سے ہونا چاہیے، خدا کو ہم پر یہ تبدیلی نہیں تھوپنی چاہیے ورنہ وہ یہ ثابت کرے گا کہ وہ ایک ڈکٹیٹر ہے اور ہماری پرائیویسی اور حیثیت کا احترام نہیں کرتا کیونکہ اس صورت میں ہماری حیثیت پہلے سے پروگرام شُدہ مخلوق سے زیادہ نہیں ہوگی.

تو اے دنیا والو! انسان کی برائی اس بات کی دلیل ہے کہ خدا نے اسے جو آزادی دی ہے وہ اس کا احترام کرتا ہے، خدا کا وجود ہی دراصل انصاف کی ضمانت ہے، کیونکہ خدا کے بغیر کسی مطلق انصاف کا تصور نہیں کیا جاسکتا.

اب آتے ہیں طبعی اور ماحولیاتی برائی کی طرف، اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ طبعی مسائل اور آفتیں انسان کے ان قدرتی وسائل کے غلط استعمال کی وجہ سے آتی ہیں، اس طرح انسان جزوی طور پر ان آفتوں اور مصیبتوں کا ذمہ دار ہے لیکن کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا بھی باقی ماندہ قدرتی آفات کا ذمہ دار ہے؟

اس سے پہلے کہ ہم اس خدا پر الزام لگائیں اور باقی ماندہ طبعی آفات کو اس کے گلے فِٹ کریں ہمیں ان باتوں کو مدِ نظر رکھنا ہوگا:

– جس دنیا میں ہم رہتے ہیں وہ ایک واحد اکائی ہے جو کچھ طبعی قوانین کی پابند ہے اور متغیرات سے متاثر ہوتی ہے، سائنس کی ترقی کے بعد اب کوئی اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ آفتیں انسان پر خداؤوں کا غصہ ہیں، آج ہر کوئی جانتا ہے کہ دنیا کچھ قوانین کی پابند ہے اور ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے اور یہ کہ ایسی زیادہ تر آفتیں قدرتی طور پر وقوع پذیر ہوتی ہیں، لیکن مسئلہ تب ہوتا ہے جب ایسی آفتیں انسانی آبادی کے علاقوں میں واقع ہوتی ہیں جیسے زلزلے وغیرہ.

– بطور انسان ہمارے لیے موت ہر چیز کا خاتمہ ہے، وجوہات چاہے کتنی ہی کیوں نہ ہوں موت ایک ہی ہوتی ہے، جبکہ خدا کے لیے موت انسان کا ایک جگہ سے دوسری جگہ یا ایک بعد سے دوسرے بعد میں منتقل ہونا ہے چنانچہ انسان اپنی زندگی مکمل ضرور کرتا ہے لیکن ہمارے جانے پہچانے بعد میں نہیں بلکہ خدا کے بعد میں جسے ہم نہیں جانتے اور جو میرے خیال سے خدا کی کسی برائی کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتا.

میں خاتمہ اسی منطق سے کرنا چاہوں گا جس منطق سے میں نے آغاز کیا تھا لیکن تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ:

کیا انسان برائی کو روکنا چاہتا ہے مگر روک نہیں سکتا؟ اس صورت میں وہ عاجز ہے!
کیا انسان برائی کو روک سکتا ہے مگر روکنا نہیں چاہتا؟ اس صورت میں وہ برا ہے!

اگر انسان برائی کو روکنا چاہتا ہے مگر روک نہیں پاتا تو وہ یقیناً عاجز ہے چنانچہ اسے ایک قادرِ مطلق خدا کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس برائی کے خلاف اس کی مدد کر سکے!

اگر انسان برائی کو روک سکتا ہے مگر روکنا نہیں چاہتا تو وہ یقینا بُرا ہے اور اس صورت میں بھی اسے ایک قادرِ مطلق خدا کی ضرورت ہے جو اس کی اصلاح کرے اور اسے برے سے اچھے میں تبدیل کر سکے!

لیکن اگر انسان اصلاح اور تبدیلی سے انکاری ہو تو خدا کیا کر سکتا ہے؟؟

جواب دیں

0 Comments
scroll to top