جبریل نے محمد کو کئی بار بے وقوف بنایا، جب فنِ نبوت میں اس کا استاد ورقہ بن نوفل مرگیا تو روایات کے مطابق کوئی تین سے دو سال وحی منقطع رہی حالانکہ اس وقت مکیوں سے اس کی لڑائی عین عروج پر تھی، مسلمان اخباری اسے "وحی میں فتور” قرار دیتے ہیں یعنی کہ اسے جبریل نظر تو آتا تھا مگر کوئی آیتیں نہیں دیتا تھا چنانچہ صاحب بہت غمزدہ ہوئے اور شدید نفسیاتی دباؤ میں آگئے اور کئی بار بلند وبالا پہاڑیوں پر چڑھ کر خودکشی کرنے کی کوشش کی مگر عین وقت پر جبریل آکر اسے یہ کہہ کر روک دیتا تھا کہ "اے محمد تم واقعی اللہ کے رسول ہو” جیسا کہ بخاری اور طبری میں مذکور ہے.. دوسری بار جبریل نے اسے تب دھوکہ دیا جب قریشیوں نے اس کیلئیے النضر بن الحارث کی قیادت میں ایک امتحان وضع کیا اور اسے تین سوال دیے جن کے جواب کیلئیے اس نے اگلے دن کی مہلت مانگ لی مگر وقت پر نہیں آیا، اس وقت جبریل پندرہ دن تک غائب رہا اور جب آیا بھی تو اسے گول مول جواب ہی دے پایا.. محمد کی سیرت کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب محمد سے ذرا ٹیڑھے سوال کیے جاتے تھے اور وہ کہیں پھنس جاتا تھا تو جبریل اچانک ہی کہیں غائب ہوجاتا تھا لیکن جب معاملہ اس کے کسی جنسی مسئلہ کے متعلق ہوتا تھا تو فوراً ہی نازل ہوجاتا تھا جس کی گواہ خود اس کی اپنی بیوی عائشہ ہے جب ایک عورت خود کو محمد کے حوالے کرنے آئی اور اس نے اس کیلئیے فوراً ہی ایک آیت گھڑ لی تو عائشہ نے کہا "میں دیکھ رہی ہوں کہ تمہارا رب تمہاری مرضی میں بہت جلدی کر رہا ہے”!!
اسے لکھ دو یہ ایسے ہی اتری ہے!
یہاں ہمارا سامنا جھوٹی وحی کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلے سے ہے جو اتفاق سے وقوع پذیر ہوا اور محمد کو ایک مشکل میں پھنسا گیا جب اس نے عبد اللہ بن ابی السرح القرشی المکی کی تصنیف کردہ ایک آیت پر ڈاکہ ڈالا جو مسلمان ہوکر مہاجرین کے ساتھ یثرب آگیا تھا جہاں اسے وحی کی کتابت کا عہدہ دیا گیا.. ابن سید الناس اپنی کتاب "عیون الاثر فی المغازی والسیر” میں کہتا ہے کہ عبد اللہ بن ابی السرح قریش میں سے سب سے پہلا شخص تھا جس نے وحی لکھی تھی جبکہ انصار میں سے سب سے پہلے وحی کی کتابت کعب بن ابی نے کی تھی اگرچہ جیسا کہ اسلامی تاریخ کی روایت ہے اس حوالے سے کچھ متضاد روایات بھی موجود ہیں، اور جیسا کہ سب جانتے ہیں وحی لکھنے والا محمد کے سامنے بیٹھتا تھا اور محمد اسے کچھ آیات لکھواتا تھا جن کے بارے میں اس کا دعوی تھا کہ یہ جبریل کے ذریعے بھیجی جانے والی اللہ کی وحی ہے، ایک دن جب محمد عبد اللہ بن ابی السرح کو سورہ المومنون کی کچھ آیات لکھوا رہا تھا تو ایک عجیب ڈرامہ ہوا، آیات یہ تھیں:
(وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿ۚ12﴾ ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ﴿۪13﴾ ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ﴿ؕ14﴾
یہاں – سیرت کی کتابوں کے مطابق جن میں الطبری، القرطبی اور البیضاوی شامل ہیں – عبد اللہ بن ابی السرح نے حیران ہو کر کہا: "تبارک اللہ احسن الخالقین”.. معلوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ محمد کو بڑا پسند آیا چنانچہ محمد نے عبد اللہ بن ابی السرح کو حکم دیا کہ "اکتبہا، ہکذا نزلت (اسے لکھ دو یہ ایسے ہی اتری ہے)” چنانچہ عبد اللہ بن ابی السرح نے اسے لکھ دیا اور آیت یوں ہوگئی:
(ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ ﴿ؕ14﴾)
یہ ڈرامہ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ کر عبد اللہ بن ابی السرح کے دل میں شکوک وشبہات کا جنم لینا ایک فطری امر تھا کہ اس نے ایک عبارت محض تعجب کے طور پر کہی تھی اور محمد نے اسے وحی کے طور پر اپنے قرآن میں شامل کروا دیا.. تفسیر الطبری، القرطبی اور البیضاوی میں آیا ہے کہ عبد اللہ بن ابی السرح نے کہا "اگر محمد پر وحی آتی ہے تو پھر مجھ پر بھی وحی آئی ہے اور اگر اسے اللہ اتارتا ہے تو میں نے اللہ جیسا کلام اتارا ہے”.. نیسابوری اپنی کتاب "اسباب النزول” میں لکھتا ہے کہ عبد اللہ بن ابی السرح نے کہا کہ "اگر محمد سچا ہے تو مجھ پر بھی ویسے ہی وحی آئی ہے جیسے اس پر آئی ہے اور اگر جھوٹا ہے تو میں نے بھی ویسا کلام کہا جیسا کہ اس نے کہا”.. کیا ابن ابی السرح نے محمد پر جھوٹا الزام لگایا؟ یقیناً نہیں.. سچ یہ ہے کہ اس کے منہ سے نکلی بات پر محمد نے بغیر کاپی رائٹ کی پرواہ کیے قبضہ کر لیا اور یہ بھول گیا کہ اسی نے مکیوں کو یہ چیلنج دیا تھا کہ وہ اس جیسی ایک آیت تک نہیں لاسکتے چاہے وہ جنوں کی مدد ہی کیوں نہ لے لیں.. اور اس طرح عبد اللہ بن ابی السرح نے وحی کے جھوٹ کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا بلکہ اس کا ایک اہم کردار رہا اور حقیقت اس پر آشکار ہوگئی.. تاہم مزید تصدیق کیلئیے – جیسا کہ واقعات کے سیاق سے پتہ چلتا ہے – اس نے محمد کا ردِ عمل دیکھنے کیلئیے ایک کھیل کھیلنے کا فیصلہ کیا.. اور جیسا کہ واقدی کی کتاب المغازی، ابن الاثیر کی الکامل فی التاریخ اور تفسیر الطبری میں آیا ہے، جب محمد اسے "علیم حکیم” لکھنے کیلئیے کہتا تو وہ اسے الٹ کر "حکیم علیم” کردیتا اور پھر محمد کو پڑھ کر سناتا مگر محمد کو اس الٹ پھیر اور تبدیلی کا ذرا بھی پتہ نہ چلتا.. الواقدی اس پر عبد اللہ بن ابی السرح کا ایک تبصرہ نقل کرتا ہے کہ: "ما یدری محمد ما یقول انی لاکتب لہ ما شئت ہذا الذی کتبت یوحی الی کما یوحی الی محمد (محمد کو پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور میں جو چاہتا اسے لکھ کر دے رہا تھا، یہ جو میں نے لکھا ہے مجھ پر وحی ہوتی ہے جیسا کہ محمد پر وحی ہوتی ہے)” جبکہ طبری اپنی تفسیر میں لکھتا ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی السرح محمد کو اپنا لکھا ہوا پڑھ کر سناتا تھا تو محمد کہتا تھا کہ "نعم سواء (ہاں ٹھیک ہے)”.. عبد اللہ بن ابی السرح نے یہ کھیل کئی آیات کے ساتھ کھیلا اور جب اسے یقین ہوگیا کہ محمد محض ایک فراڈیا ہے واپس مکہ بھاگ گیا اور اسلام کو خیر باد کہہ دیا…
مکہ جاکر عبد اللہ بن ابی السرح نے مکیوں کو محمد کے جھوٹ کا یہ تازہ قصہ سنایا جنہیں پہلے ہی محمد کے جھوٹ کیلئیے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ اس کا امتحان لے چکے تھے اور محمد اس میں بری طرح پٹ چکا تھا کہ کس طرح اس نے محض تعجب اور حیرانی میں ایک بات کہی اور محمد نے اسے قرآن میں شامل کردیا اور کس طرح وہ آیات میں رد وبدل کر کے اسے سناتا اور اسے کچھ پتہ نہیں چلتا اور نا ہی وہ کوئی اعتراض کرتا… اس نے مکیوں کو بتایا کہ "دینکم خیر من دینہ (تمہارا دین اس کے دین سے بہتر ہے)”.. جب محمد کو پتہ چلا کہ بندہ اس کے ساتھ کیا گیم کھیل کر گیا ہے تو اس کی سٹی گل ہوگئی، مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا اور یہ پہچاننا مشکل تھا کہ عبد اللہ بن ابی السرح نے قرآن میں کہاں کہاں رد وبدل کیا ہے چنانچہ عبد اللہ بن ابی السرح کو جھوٹا قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے محمد نے دوبارہ وحی کی گیم کھیلی اور ایک آیت لے آیا کہ:
(وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ قَالَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ وَ لَمۡ یُوۡحَ اِلَیۡہِ شَیۡءٌ وَّ مَنۡ قَالَ سَاُنۡزِلُ مِثۡلَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ فِیۡ غَمَرٰتِ الۡمَوۡتِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوۡۤا اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ اَخۡرِجُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡہُوۡنِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ وَ کُنۡتُمۡ عَنۡ اٰیٰتِہٖ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ – اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو۔ اور جو یہ کہے کہ جس طرح کی کتاب اللہ نے نازل کی ہے اسی طرح کی میں بھی بنا لیتا ہوں اور کاش تم ان ظالم یعنی مشرک لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں اور فرشتے انکی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں۔ آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس لئے کہ تم اللہ پر جھوٹ بولا کرتے تھے اور اسکی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے۔- سورة الانعام آيت 93)
آیت سے صاف ظاہر ہے کہ یہ ادبی چوری کو قانونی حیثیت دینے کی ایک بھونڈی کوشش ہے تاکہ اپنے احمق تابعین کو گمراہ کرنے کا ڈرامہ جاری رہ سکے کہ واقعی آسمان سے کوئی وحی اس پر نازل ہوتی ہے مگر سچائی کی گردن مروڑنے کی اس کے ہر کوشش رائیگاں گئی کہ تاریخ کا مکر اس سے کہیں طاقتور تھا کیونکہ یہ آیت ہر صاحبِ عقل ودانش کیلئیے ایک اضافی دلیل کے طور پر موجود رہی جس سے اس کے جھوٹے وحی کا پردہ چاک ہوا.
ظاہر ہے اتنی بڑی "بیستی” کے بعد محمد جیسا وحشی شخص عبد اللہ بن ابی السرح کو زندہ کیسے چھوڑ سکتا تھا.. اس کی لغت میں رحمت نام کی کوئی چیز نہیں تھی.. ان نے اپنے دشمنوں کو بد ترین گالیوں سے نوازا تھا یہ گالیاں اس کی اعلی اخلاقیات کا منہ بولتا ثبوت ہیں جیسے: تباً، حمالہ الحطب، عتل، زنیم، ہماز مشاء بنمیم، افاک اثیم، مثل الحمار یحمل اسفارا، خنزیر وغیرہ اور انہیں گھٹیا ترین القاب سے پکارا جیسے عمرو بن ہشام بن المغیرہ پر اس نے ابو جہل کا لقب چپکا دیا حالانکہ وہ ایک بڑا ہی با حکمت شخص تھا اور اہلِ مکہ اسے "ابی الحکم” کے نام سے بلایا کرتے تھے، اس طرح اس نے مسیلمہ بن حبیب الحنفی پر "مسیلمہ الکذاب” کا لقب چپکا دیا حالانکہ اس کا جرم محض اتنا تھا کہ اس نے اسی کی طرح جھوٹی نبوت کا دعوی کیا تھا.. غرض کے محمد کے ہاتھ جو لگا اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا.. فتح مکہ کے دن – جسے وہ دعوت سے فتح نہ کر سکا تو تلوار سے فتح کرنے آن پہنچا – اس نے مکیوں میں سے دس لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا چاہے وہ کعبے کے غلاف کے پیچھے ہی کیوں نہ چھپے ہوں، ان دس میں عبد اللہ بن ابی السرح کا نام بھی شامل تھا.. خون کے پیاسے اسے پاگل کتوں کی طرح ہر جگہ ڈھونڈتے رہے مگر عبد اللہ بن ابی السرح محمد کے عزیز ترین دوست عثمان بن عفان کے گھر چھپا ہوا تھا کیونکہ وہ اس کا رضاعی بھائی تھا!!.. جب معاملات ٹھنڈے ہوگئے تو عثمان اسے لے کر محمد کے پاس آیا اور جیسا کہ سیرہ ابن ہشام، الطبقات الکبری، المغازی اور تفسیر القرطبی میں درج ہے عثمان نے اس کیلئیے امان طلب کی مگر محمد خاموش رہا، جب عثمان نے اپنی عرضی تین دفعہ دہرائی تو وہ اسے کرہاً معاف کرنے پر مجبور ہوگیا، جب عثمان اور عبد اللہ بن ابی السرح چلے گئے تو محمد نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس نے جان بوجھ کر اس امید پر طویل خاموشی اختیار کی تھی کہ کوئی اٹھ کر اس کی گردن اڑا دے!! اور اس طرح عبد اللہ بن ابی السرح محمد کی خون آلود تلوار سے بڑی مشکل سے بچ پایا اور پھر "جہاد فی سبیل اللہ” کے کوڈ نیم کے تحت لوٹ مار کی جنگوں میں شامل ہوگیا جس کے ساتھ محمد کا سچا نبی ہونا اتنا ضروری نہیں تھا جتنا کہ غلام، باندیاں اور مالِ غنیمت کا آنا ضروری تھا.