Close

مجہول خدا

لوگ ایک خدا کے بارے میں بہت باتیں کرتے ہیں..

کہتے ہیں کہ یہ خدا کی مشیت تھی، ما شاء اللہ وسبحان اللہ اور اللہ کا شکر ہے وغیرہ…

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا کو کسی نے نہیں دیکھا مگر لوگوں نے اسے عقل سے پہچان لیا تو کیا واقعی لوگوں نے اسے جان لیا جیسا کہ دعوی کیا جاتا ہے؟

میرا خیال ہے اگر ہم سڑک پر چلتے کسی عام آدمی یا – کسی مذہب کے – مولوی سے خدا کی ماہیت کے بارے میں پوچھیں تو وہ جواب نہیں دے پائے گا، خدا ایک غیر واضح پُر اسرار مفہوم ہے مگر چونکہ مولویوں کی ضد ہے کہ خدا نامی وہ چیز موجود ہے اور وہی تمام واقعات کا ذمہ دار ہے اور اس نے ہم پر بڑے احسان کیے ہیں اور وہ ہمیں موت کے بعد پھر سے زندہ کرے گا.. لہذا ہم پر یہ فرض ہوجاتا ہے کہ ہم خدا کو اچھی طرح جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ اس کے وجود کی تصدیق ہوسکے اور پھر یہ دیکھا جائے کہ آیا وہ ہماری عبادت یا پھر عزت ہی کا حق دار ہے یا نہیں…

خدا  ہے کیا؟

کہتے ہیں کہ خدا انسان کی موجودگی سے بھی بہت پہلے موجود تھا…

مگر کتنا پہلے؟

وہ زندہ کیسے ہوا یا وجود میں کیسے آیا؟ کب اور کیوں؟

اور پھر اگر خدا زندہ ہے (یا زندہ تھا!) تو کیا وہ آکسیجن سے سانس لیتا ہے یا کوئی اور گیس استعمال کرتا ہے؟

کیا خدا کو زندہ رہنے کے لیے پانی کی ضرورت ہے؟ یا وہ ان چیزوں سے بے باک ہے؟

اور اگر وہ زندگی کی ضروریات سے بے باک ہے تو اسے زندہ کیونکر سمجھا جاتا ہے؟

پتھر کو سانس لینے کے لیے ہوا اور پینے کے لیے پانی کی ضرورت نہیں ہوتی، تو کیا خدا اسی کی طرح زندہ ہے؟

پتھر زندگی کی ضروریات سے بے باک ہوتا ہے کیونکہ وہ زندہ نہیں ہوتا تو کیا خدا پتھر سے مختلف ہے؟

میرے خیال سے کوئی بھی انسان یہ سمجھنے سے قاصر ہوگا کہ کس طرح خدا زندہ بھی ہے اور بیک وقت زندگی کی ضروریات سے بے باک بھی، یہ ایک کھلا تضاد ہے، لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ خدا تصور سے پرے ہے تو اس طرح ہم ایک طرح سے اسے سمجھنے اور اس کی تعریف کرنے سے اپنی عاجزی کا اعلان کردیتے ہیں.. کیا اس طرح مومن ایک سوالیہ نشان کی عبادت تو نہیں کر رہے؟

خدا زندگی کی ضروریات سے بے باک ہے مگر وہ زندہ ہے.. کیا یہ منطق ہے؟

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خدا موجود ہے تو کیا یہ وجود خلاء میں جگہ گھیرتا ہے؟

یہ بھی فرمایا جاتا ہے کہ خدا ہر جگہ موجود ہے اگرچہ اس کا مطلب ہے کہ وہ غیر محدود ہے چنانچہ خلاء میں جگہ نہیں گھیرتا تو پھر کس طرح موجود ہوسکتا ہے؟

پھر فرمایا جاتا ہے کہ خدا غیر مادی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مجازی ہے یا کوئی خیال ہے یا پھر کوئی تصوراتی قدر ہے؟

خدا موجود ہے مگر خلاء میں جگہ نہیں گھیرتا اور غیر مادی بھی ہے.. کیا یہ منطق ہے؟

چلیے خدا کو "س” کی علامت سے تعبیر کرتے ہیں…

کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ "س” زندہ ہے مگر زندگی کی ضروریات سے بے باک ہے؟

یقیناً نہیں.. یہ نا ممکن ہے.. ہے نا…

ہم نے خدا کی بجائے "س” کا ہی تو استعمال کیا ہے.. تبدیل کیا ہوا؟

خدا ایک رائج لفظ ہے جسے ہر زبان بولتی ہے مگر اس کا کوئی متعین مطلب نہیں ہے کیونکہ اس سے مراد کوئی چیز اور اس کا متضاد لیا جاتا ہے: زندہ ہے مگر زندگی کے جانے پہچانے مفہوم سے عاری، موجود ہے مگر اس طرح نہیں جس طرح ہم وجود کو سمجھتے ہیں، عقل خدا سے متعارف کراتی ہے مگر اسے سمجھتی نہیں!!!!

خدا آخر ہے کیا؟

کہتے ہیں کہ خالق ہی دراصل خدا ہے جیسے یہ تعریف ہو…

یعنی اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ مثال کے طور پر خالق طبعی قوانین یا تجاذب ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خالق ایک اندھی قوت ہے، اور اگر ہم فرض کر لیں کہ خالق یونانیوں کا خدا زیوس ہے تو وہ ایک ایسا شخص ہوگا جس کا کوئی آغاز موجود ہے اور کلی یا جزوی طور پر عیسائیت یا اسلام کے خدا سے مختلف ہے.

یعنی تخلیق کا عمل خالق کی نیچر کا پتہ نہیں دیتا…

بلکہ وجود کے لیے تخلیق کا حتمی ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ ایسے علمی نظریات موجود ہیں جن کا اپنا وزن ہے اور جو کہتے ہیں کہ انسان سادہ جانداروں کی ترقی یافتہ شکل ہے چنانچہ وجود تخلیق کو حتمی نہیں بناتا اور تخلیق خدا کو حتمی نہیں بناتی اور خدا لازمی نہیں ہے کہ ان دستیاب مذاہب میں سے کسی ایک مخصوص مذہب کی ملکیت ہو.

تو پھر خدا کیا ہے؟ میں اس لفظ کا معنی سمجھنے سے قاصر ہوں…

جب مومن کہتے ہیں کہ "س” موجود ہے تو اس سے وہ اس طرح کا وجود مراد نہیں لیتے جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں اور جب وہ کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہے تو اس سے ان کی مراد ہماری جانی پہچانی زندگی نہیں ہوتی اور جب وہ کہتے ہیں کہ وہ خالق ہے تو اسی پر ہی اکتفاء کرتے ہیں گویا یہ لفظ اس کی نیچر پر دلالت کرتا ہے.

مجھ سے اور ہر انسان سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ہم "س” کی عبادت کریں یہ جانے بغیر کہ "س” دراصل ہے کیا؟

"س” طاقتور ہے، جبار ہے ماکر ہے وغیرہ وغیرہ…

کیا وہ لومڑ ہے؟ یا بھیڑیا ہے؟ یا پھر سانپ ہے؟

اسلام میں اللہ کے نام ثانوی صفات کی حیثیت رکھتے ہیں اور اللہ کی ذات کی تعبیر نہیں ہیں اور کسی بھی جاندار پر منطبق کیے جاسکتے ہیں… انسان طاقتور ہے، رحیم ہے جبار ہے علیم ہے…

لومڑ مکار ہے.. بھیڑیا نقصان دہ (ضار) ہے اور شہد کی مکھیان نفع بخش (نافع) ہیں…

تو کیا خدا کی محض ثانوی صفات کے ذکر سے اس کی جوہری صفات کے ادراک اور انہیں سمجھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی؟

مومنین تو بس خدا کی ثانوی صفات سے ہی عشق لڑائے بیٹھے ہیں..

رحمن ورحیم کی پرستش کرتے ہیں خود سے یہ سوال کیے بغیر کہ وہ ہے کون یہ جو رحم کرتا ہے؟

یہ خدا کون ہے؟

وجود میں کیسے آیا؟ وہ منفرد کیوں ہے؟ اس کی نوعیت کیا ہے؟

میرے خیال سے جو ان سوالوں کے براہ راست جواب دینے کی کوشش کرے گا وہ بالآخر سارے معاملے سے ہی انکاری ہوجائے گا اور "س” کو ایک ایسا وہم قرار دے گا جس کی مارکیٹنگ صرف مذاہب نامی کمپنیوں میں ہی ہوتی ہے.

جواب دیں

0 Comments
scroll to top