کوالا لمپور ایئر پورٹ پر ایک عدد کھجور کے ڈبے پر یہ حدیث دیکھ کر مسکرائے بغیر نہ رہ سکا:
❞جس شخص نے صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھالیں اس دن اسے نہ زہر نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ جادو❝ (حوالہ)
میں کسی بھی مؤمن کو یہ چیلنج کرنے کے لیے تیار ہوں کہ وہ پہلے یہ سات عجوہ کھجوریں کھالے اور اس کے بعد کوئی کیڑے مار دواء پی لے اور خود ہی دیکھ لے کہ حدیث میں جو بات کی گئی ہے وہ سچ ہے یا جھوٹ؟! اور میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ کوئی بھی مؤمن بشمول وہ بھی جو حدیث کی حقانیت کا ہر وقت راگ الاپتے رہتے ہیں اس کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے.. 😀
بہرحال اس حدیث میں جادو کا ذکر کوئی پہلی بار نہیں ہوا، اسلام میں جادو ایک مسلمہ حقیقت ہے اور اس کے لیے ایک سورت بھی مختص ہے جیسے سورۃ الفلق.. ایک اور حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ نظر حق ہے.. پھر سلیمان اور اس کے اڑتے جن اور بھوت.. اور فرعون اور اس کے جادوگر وغیرہ بھی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ عام طور پر مذاہب اور جادو میں کوئی دیرینہ تعلق ضرور ہے، ماہرینِ اینتھروپالوجی Anthropology یقین دلاتے ہیں کہ انسانی ارتقاء میں مذہب کی ایجاد کی جڑیں جادو میں پیوستہ ہیں.
جب عدمِ دریافت کی وجہ سے علم کسی مظہر کی وضاحت نہیں کر سکتا تو مؤمن کہتے ہیں کہ یہ ان کے خدا نے کیا ہے یا تخلیق کیا یا بنایا ہے یا پھر یہ ایک طرح سے کوئی جادو ہے.. مگر کیسے..؟ بس ایسے ہی کن فیکون.. جیسے کوئی جادوگر ٹوپی میں ہاتھ ڈال کر اس میں سے خرگوش یا کبوتر نکال لیتا ہے، کیا اس کے لیے توجیہ کی ضرورت نہیں ہے کہ خدا نے یہ کام کیسے کیا؟ مگر افسوس آپ کو ایسے سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے کہ خدا نے یہ کیا کیسے یا وہ کیا وجہ تھی جس کے چلتے اس نے یہ سب کیا.. کیونکہ جیسا کہ سب جانتے ہیں اسلام میں ایسے سوال کرنا کفر ہے اور عام طور پر ایسے سوالوں کے آخر میں ❞استغفر اللہ❝ لگا کر بات ختم کردی جاتی ہے.
چیزوں کو تخلیق کر کے وجود میں لانے کے لیے خدا کون سا میکانزم استعمال کرتا ہے؟ جسموں میں روح کیوں ڈالتا ہے جبکہ وہ انہیں بغیر روح کے تخلیق کرنے پر قادر ہے؟ کیا خدا کی اس جادوئی طاقت کی کوئی حد ہے جو طبعی قوانین کی مخالفت کرتی ہے اور طبیعات، کیمیاء، منطق اور عقل سے متصادم ہے؟ پہلے کہا جاتا تھا کہ خدا بارش بنا کر ہماری طرف بھیجتا ہے، معرفت میں ایک خلاء تھا جسے مذہب نے جادوئی توجیہ سے پُر کیا، خدا ایک جادوئی چھڑی گھماتا ہے اور پانی سے بھرے بادل اڑتے ہوئے نمودار ہوتے ہیں اور جہاں چاہتا ہے برس پڑتے ہیں.. علم نے آکر بارش کے اسباب دریافت کیے، ہم سے کہا جاتا تھا کہ زلزلے، لاوے اور طوفانوں کی وجہ خدا کا غضب ہے اور لوگوں کو سزا دینے کی اس کی خواہش کی عکاس ہیں.. ایک بار پھر علم نے آکر بتایا کہ زلزلے اور طوفان کسی جادوگر کی جادوئی چھڑی کی کارستانی نہیں.. الغرض جو بھی کچھ ہوتا ہے اس کی علمی توجیہ ہوتی ہے مگر ایسی کوئی توجیہ کیوں نہیں ہے کہ خدا یہ سب کرتب کیسے انجام دیتا ہے؟
کن فیکون کا انقلابی نظریہ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی طرح دماغ میں نہیں بیٹھتا کیونکہ یہ جادو کی طرح ہے، خدا، اس کے انبیاء، دین کے ٹھیکیدار پادری، مولوی، پنڈتھ اس کا کوئی شافی جواب نہیں دے سکتے.. کن فیکون کا نظریہ وضاحت وتفہیم کی طاقت سے عاری ہے اور صرف جادوئی طاقت پر انحصار کرتا ہے.. یہ ایسا اس لیے ہے کیونکہ خدا نے اسے ایسے ہی بنایا ہے اور اسی میں اس کی حکمت ہے… حکمت؟ یقیناً وہ آپ کو یہ نہیں بتا پاتے کہ یہ حکمت کیا ہے.. وہ آپ کے سوالوں کے براہ راست جواب دینے کی بجائے خدائی جادو کی کہانی سے آپ کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
اپنی مقدس کتابوں میں شیخ چلی جیسی کہانیاں سنانے کی بجائے یہ خدا ہمیں منطقی انداز میں یہ کیوں نہیں بتاتا کہ کائنات کو تخلیق کرنے سے پہلے وہ کیا کر رہا تھا؟ کیا خلاء میں اکیلا سو رہا تھا؟ کائنات کو بنانے کے لیے اتنے وقت کا انتظار کیوں کیا؟ اگر کائنات کو کن فیکون کہہ کر بنایا جاسکتا تھا تو اسے بگ بینگ سے کیوں شروع کیا؟ ہر لحظہ پھیلتی کائنات کی بجائے کائنات کو یکلخت وجود میں کیوں نہیں لے آیا؟.. یہاں کیسے، کیوں اور کب کا کوئی مطلب نہیں ہے.. یہاں سب جادو ہے.. چیزوں کی توجیہ میں مؤمن صرف جادوئی سوچ پر انحصار کرتا ہے.. کیا خدا کے پاس کائنات تخلیق کرنے کا کوئی سابقہ تجربہ ہے یا وہ بغیر کسی سابقہ تجربے کے کائنات تخلیق کر سکتا ہے؟ کس نے اسے تخلیق کرنا سکھایا اور اس سے پہلے وہ اپنی تخلیق کی جادوگرانہ صلاحیت کا استعمال کیوں نہیں کرتا تھا؟ تخلیق کی وجہ کیا ہے؟ کیا کھربوں سال کے انتظار کے بعد اچانک اس میں یہ طاقت آگئی؟
ہم سب اپنے تجربات سے سیکھتے ہیں اور بہتری کی طرف گامژن ہوتے ہیں.. خدا اپنے تجربات سے سیکھ کر اپنی جادوئی طاقت کو بہتر کیوں نہیں کرتا؟ کیا ہم آئی پیڈ کو کسی سابقہ تجربے کے بغیر بنا سکتے تھے؟.. یقیناً نہیں، ہم نے پہلے کمپیوٹر بنایا اور اس کے تجربے کی بنیاد پر آئی پیڈ.. پہلے ہم نے ٹیب ریکارڈر بنایا، پھر واک مین اور پھر ہم آئی پوڈ بنانے کے قابل ہوئے.. مگر لگتا ہے کہ خدا اپنی معرفت کو ترقی نہیں دیتا، زمانوں سے جو کچھ اس نے بنایا ہے وہ ویسے کا ویسے ہی پڑا سڑ رہا ہے، مؤمنین کہتے ہیں کہ اس کی خلقت میں کوئی ارتقاء نہیں ہوتا اور نا ہی کوئی تبدیلی آتی ہے.. لا تبدیل لخلق اللہ (روم آیت 30).. چاہے نظریہ ارتقاء ہمیں بتا رہا ہو کہ یہ سب درست نہیں.. خدا آکر انسان کو ایسی ترقی کیوں نہیں دیتا کہ وہ بیماریوں اور جراثیم کے خلاف مدافعت پیدا کر سکے..؟ مگر افسوس اس کی جادوئی طاقتیں محدود ہیں.. ہم انسانوں نے ہی بیماریوں اور جراثیم سے لڑنے کے علمی طریقے سیکھے ہیں.. جبکہ وہ اور اس کا جادو کہیں پڑے سو رہے ہیں.
مؤمن سمجھتا ہے کہ انڈہ سینڈل سے زیادہ سادہ اور کم پیچیدہ ہے کیونکہ انڈے کو خدا نے بغیر کسی سابقہ تجربے کے بنایا ہے جبکہ سینڈل بنانے کے لیے ایک ڈیزائنر کے ساتھ ساتھ جوتے بنانے میں سابقہ تجربہ بھی درکار ہے… اگر خدا کے پاس چیزیں بنانے کے لیے اتنی ہی جادوئی طاقتیں ہیں اور وہ اتنا ہی عظیم ہے تو وہ ذرا ہمیں یہ بتانے کا کشٹ کرے گا کہ اسے ہمارے جنسی رجحانات میں اس قدر دلچسبی کیوں ہے؟ اگر کوئی اس کی مرضی کے برخلاف جنسی عمل انجام دے لے تو وہ اتنا پریشان کیوں ہوجاتا ہے؟ وہ ہمارے لباس، کھانوں حتی کہ داڑھی کی شکل تک کے حوالے سے اتنے خبط کا شکار کیوں ہے؟ ہم پر اپنی جادوئی طاقت کا استعمال کر کے ہمیں اپنی مرضی کا تابع کیوں نہیں بنا لیتا؟ ہمیں سزا دینے کے لیے آخری زمانے کا انتظار کیوں کر رہا ہے؟ ہم پر ابھی جادو کر کے اپنی اور ہماری ٹینشن ختم کیوں نہیں کردیتا؟ ان سب سوالوں کے جواب ہمیں کوئی نہیں دے سکتا.. یوں عیسائیت اور اسلام کا یہودی مصدر کا قصہء تخلیق ایک ایسی مضحکہ خیز چیز بن جاتی ہے جسے حماقت کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا.
ہمیں اب تک جادو کرنے والا کوئی جاندار نہیں مل سکا.. چاہے وہ انسان ہو یا جانور.. ممالک طاقت کےحصول کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کر ڈالتے ہیں.. وہ جادو سے مسلح ہوکر جان کیوں نہیں چھڑا لیتے؟ اتنی ٹینشن پالنے کی ضرورت ہی کیا ہے..؟ کیونکہ نا تو کوئی جادو ہے اور نا ہی اس خدا کی طرح کا کوئی جادوگر.. جادو طبعی قوانین کو توڑتا ہے جو نا ممکن ہے.. مقدس کتابیں جادوئی واقعات تو سناتی ہیں مگر ان کی کوئی معقول علمی توجیہ بتائے بغیر کہ یہ کیسے ہوئے.
سورۃ نحل کی آیت 8 میں فرمان ہے کہ اسی نے ہمارے لیے ❞گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو❝ مگر کیا سواری کے لیے ہم نے انہیں نہیں سدھایا؟ جب سدھانے کا بیان غلط ہے تو تخلیق کا بیان درست کیسے ہوسکتا ہے؟ اور اگر یہ درست بھی ہو تو اس نے ہمارے لیے سدھائے ہوئے گھوڑے تخلیق کیوں نہیں کیے؟ کیا ہم نے انہیں نہیں سدھایا اور ہمی نے ان کی زین سازی نہیں کی؟ اور پھر اتنا وقت کیوں برباد کیا شروع سے ہی ہمارے لیے گاڑیاں تخلیق کردیتا؟ یہ واقعی ایک جاہل جادوگر ہے.. ایک جگہ کہتا ہے کہ ❞ومنہا تاکلون❝ (اور انہی سے تم کھاتے ہو) یعنی بھینس جب پیدا ہوتی ہے تو اسے پتہ ہوتا ہے کہ اس کی تخلیق ذبح ہوکر ہماری خوراک بننے کے لیے کی گئی ہے؟ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہیں کہ خدا نے کیڑا اس لیے بنایا تاکہ چڑیا اسے کھا سکے.. کیڑے کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہ جانوروں کی ایک اور نسل کی غذاء بنے؟ یہ یقیناً ایک لنگڑی سوچ ہے کیونکہ ہر نوع اپنی ہی نوع کو قوت بخشنے کے لیے جیتی ہے نا کہ دوسری انواع کو فائدہ پہنچانے کے لیے.. اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جادوگر اندھا ہے اور اس کا جادو قاصر اور کمزور ہے.
کیا مؤمن کے لیے یہ بہتر نہیں کہ وہ اعتراف کر لے کہ اسے اس ریاضی کی سمجھ نہیں جو علمِ فلک کو بیان کرتی ہے بجائے یہ کہنے کے کہ کوئی خدا ہے جو جادوگروں کی طرح چیزیں بناتا ہے؟ مؤمن کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا مگر خدا جانتا ہے، وہی اپنے جادو.. میرا مطلب ہے مخلوقات کو جانتا ہے.. یقیناً تخلیق کا عمل ایک جادوئی عمل ہے کیونکہ یہ ہر علمی قانون کی مخالفت کرتا ہے اور چونکہ طبعی قوانین نہیں توڑے جاسکتے چنانچہ جادو نا ممکن ہے اور اس طرح خدا بھی نا ممکن ہوجاتا ہے، ہمارے ارد گرد کوئی جادو نہیں ہے، ہر چیز کی ایک توجیہ ہے چاہے مؤمن اس حقیقت سے نظریں چرائے رکھیں.
جادو کو ماننے کا مطلب ہے کہ ہمیں ثابت شُدہ نظریہ ارتقاء کی بجائے آدم اور حواء کی اس کہانی پر یقین کرنا پڑے گا کہ وہ آسمان سے پیراشوٹ کے ذریعے اترے تھے، جادو کو ماننے کا مطلب یہ ماننا ہے کہ داود نے جالوت کو قتل کیا بجائے یہ جاننے کے کہ الفونس لاویران (Alphonse Laveran) نے ملیریا کو قتل کیا، جادو کو ماننا کیپٹن نوح اور اس کی عجیب وغریب کشتی کو ماننا ہے بجائے یہ جاننے کے کہ جان فیچ (John Fitch) نے پہلی سٹیم بوٹ ایجادی کی.. جادو کو ماننے کا مطلب حقیقی دنیا کی بجائے خرافات کی دنیا میں جینا ہے.